جملہ متقدمین و متاخرین اَئمہ تفسیرنے سورۂ احزاب کی آیت: 40 کی تشریح و توضیح اور تفسیر کرتے ہوئے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی اور سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والا ہی کیا ہے۔ چند معروف اَئمہ تفسیر کی آراء درج ذیل ہیں:
ترجمان القرآن حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
{وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} خَتَمَ اللهُ بِہِ النَّبِیِّیْنَ قَبْلَهُ فَلَا یَکُوْنُ نَبِيٌّ بَعْدَهُ.
فیروز آبادي في تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 354
خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے سلسلہ انبیاء حضور ﷺ کی ذات اقدس پر ختم فرما دیا ہے پس آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
امام المفسرین ا بن جریر طبری خاتم النبیین کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَلٰکِنَّهُ رَسُوْلُ اللهِ وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، الَّذِیْ خَتَمَ النُّبُوَّۃَ فَطَبَعَ عَلَیْھَا فَلَا تُفْتَحُ ِلأَحَدٍ بَعْدَهُ إِلَی قِیَامِ السَّاعَۃِ.
الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 22: 12
لیکن آپ ﷺ الله کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، یعنی وہ ہستی جس نے (مبعوث ہو کر) سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے اور قیامت تک آپ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لیے نہیں کھلے گی۔‘‘
امام ابن جریر طبری اختلافَ قرأت کی صورت میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہیں:
1۔ اگر یہ لفظ بکسر التاء یعنی خَاتِم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:
إِنَّهُ الَّذِیْ خَتَمَ الْأَنْبِیَاءَ صَلَّی الله عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ.
وہ ذات جس نے (سلسلۂ) انبیاء f ختم فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اور ان تمام انبیاء پر درود (بصورت رحمت) بھیجے۔‘‘
2۔ اگر یہ لفظ بفتح التاء یعنی خَاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:
إِنَّهُ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ.
الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 22: 13
بیشک آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
محی السنہ امام بغوی شافعی خاتم النبیین کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
{وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} خَتَمَ اللهُ بِہِ النُّبُوَّۃَ وَقَرَأَ ابْنُ عَامِرٍ وَابْنُ عَاصِمٍ (خَاتَمَ) بِفَتْحِ التَّاءِ عَلَی الْاِسْمِ أَيْ آخِرُھُمْ، وَقَرَأَ الآخَرُوْنَ بِکَسْرِ التَّاءِ عَلَی الْفَاعِلِ لِأَنَّهُ خَتَمَ بِهٖ النَّبِیِّیْنَ فَھُوَ خَاتِمُھُمْ.
البغوي في معالم التنزیل، 3: 533
{لیکن آپ ﷺ الله کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں} آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ کے ساتھ الله تعالیٰ نے نبوت ختم فرما دی ہے۔ ابن عامر اور ابن عاصم نے (لفظ خاتم) بر بنائے اسم زبر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آخرِ انبیاء اور دیگر (اہل فن) نے بربنائے فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کے ساتھ سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا۔ سو آپ ﷺ ان کے خاتم ہیں۔
امام زمخشری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے تناظر میں حضور ﷺ کے آخر الانبیاء ہونے کی خصوصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
فَإِنْ قُلْتَ: کَیْفَ کَانَ آخِرَ الْأَنْبِیَاءِ وَعِیْسٰی یَنْزِلُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ؟ قُلْتُ: مَعْنَی کَوْنِهٖ آخِرَ الْأَنْبِیَاءِ أَنَّهُ لَا یَنْبَأُ أَحَدٌ بَعْدَهُ وَعِیْسٰی مِمَّنْ نَبَیَٔ قَبْلَهُ وَحِیْنَ یَنْزِلُ عَامِلًا عَلَی شَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍ (ﷺ) مُصَلِّیًا إِلَی قِبْلَتِهٖ کَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهٖ.
الزمخشري في الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 3: 544-545
اگر آپ کہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں (یعنی قرب قیامت میں) نازل ہوں گے تو میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ ﷺ (کی بعثت) کے بعد کوئی شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہو گا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں آپ ﷺ (کی بعثت) سے قبل نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے پیرو ہوں گے اور انہی کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے گویا کہ وہ آپ ﷺ کی امت کے ایک فرد ہوں گے۔
علامہ ابن جوزی خاتم کے معنی کی وضاحت انتہائی جامع الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں:
خَاتِمٌ بِکَسْرِ التَّاءِ فَمَعْنَاهُ: وَخَتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ فَتْحِھَا، فَالْمَعْنَی: آخِرُ النَّبِیِّیْنَ.
ابن الجوزي في زاد المسیر في علم التفسیر، 6: 393
لفظ خاتم تا کی زیر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے: حضور ﷺ نے سلسلہ انبیاء کو ختم فرما دیا ہے، اور اگر تا کی زبر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔
(6) امام فخر الدین رازی (م 606ھ)
امام فخر الدین رازی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:
{وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} وَذَالِکَ لِأَنَّ النَّبِيَّ الَّذِيْ یَکُوْنُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ إِنْ تَرَکَ شَیْئًا مِنَ النَّصِیْحَۃِ وَالْبَیَانِ یَسْتَدْرِکُهُ مَنْ یَأْتِیْ بَعْدَهُ، وَأَمَّا مَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ یَکُوْنُ أَشْفَقَ عَلٰی أُمَّتِهٖ وَأَھْدٰی لَھُمْ وَأَجْدٰی، إِذْ ھُوَ کَوَالِدٍ لِوَلَدِہِ الَّذِيْ لَیْسَ لَهُ غَیْرُهُ مِنْ أَحَدٍ.
الرازي في التفسیر الکبیر، 25: 214
اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں (آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں)۔ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتا تو وہ تبلیغ اور احکام کی توضیح کا مشن کسی حد تک نامکمل چھوڑ جاتا جسے بعد میں آنے والا مکمل کرتا، لیکن جس نبی کے بعد اور کوئی نبی آنے والا نہ ہو تو وہ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق ہوتا ہے اور ان کے لیے واضح قطعی اور کامل ہدایت فراہم کرتا ہے کیونکہ اس کی مثال ایسے باپ کی طرح ہوتی ہے جو جانتا ہو کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کی نگہداشت کرنے والا کوئی سرپرست اور کفیل نہ ہوگا۔
امام قرطبی مالکی لفظ خاتم کی شرح یوں بیان کرتے ہیں:
وَخَاتَمٌ قَرَأَ عَاصِمٌ وَحْدَهُ بِفَتْحِ التَّاءِ بِمَعْنَی أَنَّهُمْ بِهٖ خُتِمُوْا فَھُوَ کَالْخَاتَمِ وَالطَّابَعِ لَھُمْ، وَقَرَأَ الْجَمْھُوْرُ بِکَسْرِ التَّاءِ بِمَعْنٰی أَنَّهُ خَتَمَھُمْ أَيْ جَاءَ آخِرَھُمْ.
القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 14: 196
صرف عاصم (قاری) نے خاتم تاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ ان (انبیائ) کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو گیا ہے۔ پس آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہیں (یعنی آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء پر مہر ثبت کر دی ہے)۔ جمہور نے خاتمِ تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء ختم فرما دیا ہے، یعنی آپ ﷺ سب سے آخر میں تشریف لائے۔
امام بیضاوی شافعی خاتم النبیین کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَآخِرُھُمْ الَّذِيْ خَتَمَھُمْ أَوْ خُتِمُوْا بِهٖ عَلَی قِرَائَ ِۃ عَاصِمٍ بِالْفَتْحِ وَلَا یَقْدَحُ فِیْہِ نُزُوْلُ عِیْسٰی بَعْدَهُ ِلأَنَّهُ إِذَا نَزَلَ کَانَ عَلٰی دِیْنِهٖ.
البیضاوي في أنوار التنزیل، 3: 385
آپ ﷺ (بعثت کے اعتبار سے) انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں۔ آپﷺ نے (تشریف لا کر) ان کے سلسلہ کو ختم کر دیا اور سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی ہے اور … حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد (دوبارہ قرب قیامت میں) نازل ہونا آپ ﷺ کی ختم نبوت میں حارج نہیں ہے (کیونکہ انہیں آپ ﷺ کی بعثت سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا گیا تھا) چنانچہ اب وہ حضور ﷺ کے دین اور شریعت کے متبع اور پیروکار کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔
امام نسفی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
{وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} … أَيْ آخِرُھُمْ یَعْنِیْ لَا یَنْبَأُ أَحَدٌ بَعْدَهُ، وَعِیْسٰی مِمَّنْ نَبَیئَ قَبْلَهُ وَحِیْنَ یَنْزِلُ یَنْزِلُ عَامِلاً عَلٰی شَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍ ﷺ کَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهٖ.
النسفي في مدارک التنزیل، 3: 306
خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں (بعثت کے اعتبار سے) آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ علیہ السلام تو وہ آپ سے پہلے انبیاء میں سے ہیں اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو وہ شریعت محمدی ﷺ پر عمل کریں گے اور حضور ﷺ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔
امام علاؤ الدین بغدادی خازن اس نکتے پر اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں:
{وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} خَتَمَ اللهُ بِهٖ النُّبُوَّۃَ فَلَا نُبُوَّۃَ بَعْدَهُ أَيْ وَلَا مَعَهُ.
الخازن في لباب التأویل في معاني التنزیل، 3: 470
الله تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر نبوت ختم فرما دی ہے اب آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبوت ہے اور نہ اس (یعنی نبوتِ محمدی ﷺ) میں کسی قسم کی شراکت یا حصہ داری۔
وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا کی تفسیر میں آگے لکھتے ہیں:
أَي دَخَلَ فِي عِلْمِهٖ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.
الخازن في لباب التأویل في معاني التنزیل، 3: 470
الله تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا۔
امام ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں:
وَقَرَأَ الْجَمْهُوْرُ بِکَسْرِ التَّاءِ بِمَعْنَی أَنَّهُ خَتَمَھُمْ أَيْ جَائَ آخِرَھُمْ … وَرُوِيَ عَنْهُ علیہ السلام أَلْفَاظٌ تَقْتَضِيْ نَصًّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ ﷺ، وَالْمَعْنَی أَنَّهُ لَا یَتَنَبَّأُ أَحَدٌ بَعْدَهُ، وَلَا یُرَدُّ نُزُوْلُ عِیْسٰی آخِرَ الزَّمَانِ، ِلأَنَّهُ مِمَّنْ نَبَیَٔ قَبْلَهُ، وَیَنْزِلُ عَامِلاً عَلٰی شَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍ ﷺ، مُصَلِّیًا إِلٰی قِبْلَتِهٖ کَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهٖ.
أبو حیان في تفسیر البحر المحیط، 7: 236
اور جمہور نے اسے تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھاہے اس معنی میں کہ حضور ﷺ سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں یعنی آپ ﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ سے جو الفاظ روایت کیے گئے ہیں (متعدد متواتر احادیث کی صورت میں) وہ صراحت کے ساتھ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں یعنی آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آخری زمانہ میں آمد سے اس بات (یعنی حضور ﷺ کی ختم نبوت) کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں الله تعالیٰ نے بعثت محمدی ﷺ سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا تھا۔ اب وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شریعت کے متبع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھیں گے گویا ان کی حیثیت حضور ﷺ کے امتی کی سی ہو گی۔
امام اندلسی منکرین ختم نبوت کے کفر و اتداد اور انجام کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَمَنْ ذَھَبَ إِلٰی أَنَّ النُّبُوَّۃَ مُکْتَسَبَۃٌ لَا یَنْقَطِعُ أَوْ إِلٰی أَنَّ الْوَلِيَّ أَفْضَلُ مِنَ النَّبِيِّ فَھُوَ زِنْدِیْقٌ یَجِبُ قَتْلُهُ، وَقَدِ ادَّعَی نَاسٌ فَقَتَلَھُمُ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ.
أبو حیان في تفسیر البحر المحیط، 7: 236
اور جس کسی کا یہ مذہب ہو کہ نبوت کسبی ہے ختم نہیں ہوئی یا یہ عقیدہ رکھے ولی نبی سے افضل ہے وہ کافر ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا تھا جس پر اہل اسلام نے انہیں قتل کر دیا۔
امام نظام الدین نیشاپوری لکھتے ہیں:
لَا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَمَجِیْئُ عِیْسٰی علیہ السلام فِيْ آخِرِ الزَّمَانِ لَا یُنَافِيْ ذَالِکَ لِأَنَّهُ مِمَّنْ نَبَئَ قَبْلَ وَھُوَ یَجِیْئُ عَلٰی شَرِیْعَۃِ نَبِیِّنَا مُصَلِّیًا إِلٰی قِبْلَتَہ وَکَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهٖ.
النیسابوري في تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان بھامش جامع البیان للطبري، 22: 15
حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قربِ قیامت کے زمانہ میں آنا اس کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے منصبِ نبوت پر فائز رہ چکے تھے۔ اب وہ ہمارے نبی مکرم ﷺکی شریعت کے پیروکار کی حیثیت سے آئیں گے۔ آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کریں گے جس طرح امت کے دیگر افراد کرتے ہیں۔‘‘
رئیس المفسرین امام ابن کثیر مذکورہ آیہ مبارکہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
فَھٰذِہِ الْآیَۃُ نَصٌّ فِيْ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَإِذَا کَانَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فَلَا رَسُوْلَ بِالطَّرِیْقِ الْأَوْلٰی وَالْأُخْرٰی لِأَنَّ مَقَامَ الرِّسَالَۃِ أَخَصُّ مِنْ مَقَامِ النُّبُوَّۃِ فَإِنَّ کُلَّ رَسُوْلٍ نَبِيٌّ وَلَا یَنْعَکِسُ.
ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3: 493
پس یہ آیت کریمہ {ولکن رسول الله و خاتم النبیین} اس بارے میں نص ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جب نبی کا آنا محال ہے تو رسول کا آنا بدرجہ اولیٰ محال ہے کیونکہ منصب رسالت خاص ہے منصب نبوت سے، ہر رسول نبی ہوتا ہے جبکہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔
امام ابن کثیر اس کے بعد حضورﷺکی ختم نبوت پر متعدد احادیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وَقَدْ أَخْبَرَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِي کِتَابِهٖ وَرَسُوْلُهُ ﷺ فِي السُّنَّۃِ الْمُتَوَاتِرَۃِ عَنْهُ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ لِیَعْلَمُوْا أَنَّ کُلَّ مَنِ ادَّعٰی ھَذَا الْمَقَامَ بَعْدَهُ فَھُوَ کَذَّابٌ أَفَّاکٌ دَجَّالٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ وَلَوْ تَحَرَّقَ وَشَعْبَذَ وَأَتَی بِأَنْوَاعِ السِّحْرِ وَالطَّلَاسِمِ النَّیْرَنْجِیَاتِ.
ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3: 494
اور تحقیق آگاہ فرما دیا ہے الله تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اور رسول الله ﷺ نے اپنی سنت متواترہ میں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (آگاہ اس لیے فرمایا) تاکہ امت محمدیہ ﷺ جان لے کہ آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی اس منصب (یعنی نبوت) کا دعویٰ کرے وہ کذاب، جھوٹا، بہتان طراز، مکار و دجال، گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ خواہ وہ خرقِ عادت، واقعات، شعبدہ بازیاں اور کسی قسم کے غیر معمولی کرشمے اور سحر و طلسم دکھاتا پھرے۔
امام جلال الدین سیوطی اس موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں:
{وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} فَلَا یَکُوْنُ لَهُ ابْنُ رَجُلٍ بَعْدَهُ یَکُوْنُ نَبِیًّا وَفِي قِرَائَ ِۃٍ بِفَتْحِ التَّاءِ کَآلَۃِ الْخَتْمِ أَيْ بِهٖ خُتِمُوْا {وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا} بِأَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَإِذَا نَزَلَ السَّیِّدُ عِیْسٰی یَحْکُمُ بِشَرِیْعَتِهٖ.
السیوطي في تفسیر الجلالین، 1: 556
اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، پس آپ ﷺ کے بعدآپ ﷺ کا کوئی مرد بیٹا نہیں جو منصبِ نبوت پر فائز ہو (اور الله تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے)، وہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام (دوبارہ) نازل ہوں گے تو وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کے متبع اور پیروکار ہوں گے۔
امام ابو سعود محمد بن محمد العمادی نے اپنی رائے یوں بیان کی ہے:
{وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} أَيْ کَانَ آخِرَھُمُ الَّذِي خُتِمُوْا بِهٖ وَقُرِئَ بِکَسْرِالتَّاءِ أَيْ کَانَ خَاتِمَھُمْ … وَلَا یَقْدَحُ فِیْہِ نُزُوْلُ عِیْسٰی بَعْدَهُ لِأَنَّ مَعْنَی کَوْنِهٖ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ أَنَّهُ لَا یَنْبَأُ أَحَدٌ بَعْدَهُ وَعِیْسٰی مِمَّنْ نَبَیَٔ قَبْلَهُ وَحِیْنَ یَنْزِلُ إِنَّمَا یَنْزِلُ عَامِلًا عَلٰی شَرِیْعَۃِ مُحَمَّدٍ ﷺ مُصَلِّیًا إِلٰی قِبْلَتِهٖ کَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهٖ.
أبو السعود في إرشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 7: 106
خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور ﷺ سب انبیاء کے آخر میں مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی۔ خاتم تا کی زیر کے ساتھ، اس کا معنی ہے آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا۔ اب آپﷺ کی بعثت کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے ختم نبوت کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ خاتم النبیین کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہیں کیا جائے گا۔ رہا معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو وہ ان انبیاء میں شامل ہیں جنہیں آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے منصب نبوت عطا کیا جا چکا ہے اور جب ان کا نزول ہو گا توبے شک وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ(خانہ کعبہ)کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے، گویا وہ آپ ﷺ کے ایک اُمتی ہیں۔
شیخ اسماعیل حقی اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں:
وَقَالَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ: لَا نَبِيَّ بَعْدَ نَبِیِّنَا لِقَوْلِهٖ تَعَالَی: {وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ} وَقَوْلُهُ علیہ السلام : لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ۔ وَمَنْ قَالَ بَعْدَ نَبِّیِنَا نَبِيٌّ یَکْفُرُ لِأَنَّهُ أَنْکَرَ النَّصَّ وَکَذَلِکَ لَوْ شَکَّ فِیْهٖ لِأَنَّ الْحُجَّۃَ تُبَیِّنُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ وَمَنِ ادَّعَی النُّبُوَّۃَ بَعْدَ مَوْتِ مُحَمَّدٍ (ﷺ) لَا یَکُوْنُ دَعْوَاهُ إِلَّا بَاطِلًا.
إسماعیل حقي في تفسیر روح البیان، 22: 188
اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد اب کسی نبی کی بعثت نہیں ہو گی کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ حضور ﷺ الله کے رسول اور آخری نبی ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسّلام نے خود فرما دیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے تو اسے کافر قرار دیا جائے گا کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا ہے۔ اس طرح جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے واضح اور روشن کر دیا ہے اور جس نے محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا یہ دعویٰ کرنا سوائے باطل اور کفر کے کچھ نہیں۔
علامہ قاضی ثناء اللهپانی پتی فرماتے ہیں کہ خاتم بفتح التاء کا معنی آخر اور خاتم بکسر التاء کا معنی ہے:
وَخَاتَمٌ قَرَأَ عَاصِمٌ بِفَتْحِ التَّاءِ عَلَی الْاِسْمِ بِمَعْنَی الآخَرِ، وَالْبَاقُوْنَ بِکَسْرِ التَّاءِ عَلَی وَزْنِ فَاعِلٍ یَعْنِي الَّذِي خَتَمَ النَّبِیِّیْنَ حَتَّی لَا یَکُوْنُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ.
القاضي ثناء الله في تفسیر المظہري، 7: 350-351
اور لفظِ خاتم کو عاصم نے اسم کی بنا پر تاء کی زبر کے ساتھ بمعنیٔ آخر پڑھا ہے اور باقی (قرائ) نے بر وزنِ فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھاہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلہ انبیاء کو یوں ختم فرما دیا کہ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں:
وَلَا یَقْدَحُ فِیْهٖ نُزُوْلُ عِیْسٰی بَعْدَهُ لِأَنَّهُ إِذَا یَنْزِلُ یَکُوْنُ عَلٰی شَرِیْعَتِهٖ مَعَ أَنَّ عِیْسٰی علیہ السلام صَارَ نَبِیًّا قَبْلَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَقَدْ خَتَمَ اللهُ سُبْحَانَهُ الْاِسْتِنْبَاءَ بِمُحَمَّدٍ ﷺ وَبَقَائُ نَبِيٍّ سَابِقٍ لَا یُنَافِيْ خَتَمَ النُّبُوَّۃِ.
القاضي ثناء الله في تفسیر المظہري، 7: 351
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد نازل ہونا اس میں حارج نہیں ہے کیونکہ اس وقت ان کی حیثیت حضور ﷺکی شریعت کے پیروکار کی ہو گی نیز یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعثتِ محمدی ﷺ سے قبل منصب نبوت سے سرفراز ہوئے اور الله تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا ہے ۔لہٰذا کسی سابق نبی کا باقی رہنا ختمِ نبوت کے منافی نہیں ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
وَقَرَأَ الْجَمْھُوْرُ خَاتِمَ بِکَسْرِ التَّاءِ، وَقَرَأَ عَاصِمٌ بِفَتْحِھَا وَمَعْنَی الْقِرَائَۃِ الْأُوْلٰی: أَنَّهُ خَتَمَھُمْ أَيْ جَاءَ آخِرَھُمْ وَمَعْنَی الْقِرَائَۃِ الثَّانِیَۃِ أَنَّهُ صَارَ کَالْخَاتَمِ لَھُمُ الَّذِيْ یَتَخَتَّمُوْنَ بِهٖ.
الشوکاني في فتح القدیر، 4: 285
(لفظ خاتم کی قرأت کے بارے میں قراء حضرات کے مابین اختلاف ہے، چنانچہ) جمہور نے خاتم تا کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ عاصم نے تا کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ پہلی قراء ت کا معنی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا ہے یعنی آپ ﷺ تمام انبیاء کے بعد تشریف لائے اور دوسری قراء ت کا معنی ہے کہ آپ ﷺ سابقہ انبیاء کے لیے مہر کی مانند ہیںجس سے ان کا سلسلہ نبوت سر بمہر ہو چکا ہے۔
امام آلوسیؒ لفظِ خاتم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالْخَاتَمُ اسْمُ آلَۃٍ لِمَا یُخْتَمُ بِهٖ کَالطَّابَعِ لِمَا یُطْبَعُ بِهٖ فَمَعْنٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ الَّذِيْ خُتِمَ النَّبِیُّوْنَ بِهٖ وَمَآلُهُ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ … وَقَرَأَ الْجَمْهُوْرُ خَاتِمَ بِکَسْرِ التَّاءِ عَلٰی أَنَّهُ اسْمُ فَاعِلٍ أَيْ الَّذِيْ خَتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرَادُ بِهٖ آخِرُھُمْ.
الآلوسي روح المعاني في تفسیر القرآن العظیم والسبع المثاني، 22: 34
خاتَم (بفتح التائ) اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جاتی ہے، اس آلہ کی طرح جس سے ٹکٹ پر مہر لگائی جاتی ہے۔ پس خاتم النبیّین کے معنی ہوں گے: وہ ذات جس پر سلسلۂ انبیاء کو ختم کردیا گیا۔ اس معنی کی رُو سے خاتم النبیّین سے مراد آخر النبیّین ہے … اور جمہور نے خاتم کی قرا ء ت بکسر التاء کی ہے، اس بناپر کہ یہ اسم فاعل ہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا اور اس سے مراد آخرِ انبیاء ہیں۔
امام آلوسیؒ حضور نبی اکرم ﷺ کے منصبِ ختم نبوت سے سرفراز ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ بِالنَّبِيِّ مَا ھُوَ أَعَمُّ مِنَ الرَّسُوْلِ فَیَلْزَمُ مِنْ کَوْنِهٖ ﷺ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ کَوْنُهُ خَاتَمَ الْمُرْسَلِیْنَ وَالْمُرَادُ بِکَوْنِهٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ خَاتَمَھُمُ انْقِطَاعُ حُدُوْثِ وَصْفِ النُّبُوَّۃِ فِي أَحَدٍ مِنَ الثَّقَلَیْنِ بَعْدَ تَحَلِّیْہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِھَا فِي ھٰذِہِ النَّشْأَۃِ.
الآلوسي في روح المعاني في تفسیر القرآن العظیم والسبع المثاني، 22: 34
نبی کا لفظ عام ہے اور رسول کا خاص، اس لیے حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ خاتم المرسلین بھی ہیں، چنانچہ آپ کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ ﷺ کے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد جن و انس میں سے اب کسی کو یہ منصب عطا نہ ہو گا۔
امام آلوسی آگے لکھتے ہیں:
وَکَوْنُهُ ﷺ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ مِمَّا نَطَقَ بِہِ الْکِتَابُ وَصَدَعَتْ بِہِ السُّنَّۃُ وَأَجْمَعَتْ عَلَیْہِ الْأُمَّۃُ فَیَکْفُرُ مُدَّعِي خِلَافِہِ وَیُقْتَلُ إِنْ أَصَرَّ.
الآلوسي في روح المعاني في تفسیر القرآن العظیم والسبع المثاني، 22: 41
حضور ﷺ کا آخری نبی ہونا ایسی حقیقت ہے جس کی تصریح خود کتاب الله نے کر دی ہے اور سنت نے اس کی توضیح و تشریح کر دی ہے اور اس مسئلہ پر اجماعِ اُمت ہے، لہٰذااس کے خلاف جو دعویٰ کرے گا، کافر قرار پائے گا اور اگر اس پر اصرار کرے تو (عدالتی عمل کے ذریعے) قتل کیا جائے گا۔
برصغیر کے معروف مفسر ملا احمدجیون لفظ ختم کا معنی بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
وَالْمَآلُ عَلٰی کُلِّ تَوْجِیْہٍ ھُوَ الْمَعْنَی الآخِرُ وَلِذٰلِکَ فَسَّرَ صَاحِبُ الْمَدَارِکِ قِرَائَۃَ عَاصِمٍ بِالآخِرِ وَصَاحِبُ الْبَیْضَاوِيِّ کِلَا الْقِرَاءَ تَیْنِ بِالْآخِرِ.
ملا جیون في التفسیرات الأحمدیۃ: 622
اور ہر دو صورت میں خاتم کا معنی آخر ہی ہے۔ اسی لیے صاحبِ ’تفسیر مدارک‘ نے امام عاصم کی قراء ت پر اس کا معنی آخر کیا ہے اور صاحبِ ’تفسیر بیضاوی‘ نے دونوں قرأتوں پر آخر ہی کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved