قَالَ الإْمَامُ أَبُوْ مَنْصُوْرٍالْأَزْهَرِيُّ فِي التَّھْذِیْبِ فِي اللُّغَۃِ:
قَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ النَّحْوِيُّ مَعْنٰی طَبْعٍ فِي اللُّغَۃِ وَخَتْمٍ وَاحِدٌ، وَھُوَ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّيئِ وَالْاِسْتِیْثَاقُ مِنْ أَنْ یَدْخُلَهُ شَيئٌ، کَمَا قَالَ: {اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا}.
الأزہري في التھذیب في اللّغۃ، 1: 240
امام ابو منصور ازہری التھذیب في اللغۃ میں بیان کرتے ہیں:ـ
ابو اسحاق نحوی نے کہا : لغت میں طبع اور ختم کا معنی ایک ہی ہے اور وہ ہے: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’یا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں‘۔
قَالَ الزَّجَّاجُ فِي قَوْلِہِ تعالیٰ {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ}: مَعْنٰی خَتْمٍ فِي اللُّغَۃِ وَ ’’طَبْعٍ‘‘ وَاحِدٌ وَھُوالتَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّيئِ وَالْاِسْتِیْثَاقُ مِنْهُ لِئَلَّا یَدْخُلُهُ شَيئٌ.
الأزہري في التھذیب في اللغۃ، 1: 1113
زجاج نے ارشاد باری تعالیٰ {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ} کے حوالے سے کہا ہے: لغت میں ختم اور طبع کا معنی ایک ہی ہے اور وہ ہے: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔
وَقَالَ أَیْضًا: وَخَاتَمُ کُلِّ شَيْئٍ آخِرُهُ.
الأزہري في التھذیب في اللغۃ، 1: 1113
آپ یہ بھی بیان کرتے ہیں: اور ہر شے کا خاتم اس کا آخر ہے۔
قَالَ الْأَزْهَرِيُّ أَیْضًا: وَقَوْلُهٗ تعالیٰ {مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} مَعْنَاهُ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ وَمِنْ أَسْمَائِهٖ ’’الْعَاقِبُ‘‘ أَیْضًا مَعْنَاهُ آخِرُالْأَنْبِیَاءِ.
الأزھري في التھذیب في اللغۃ، 1: 1114
امام ابو منصور ازہری بیان کرتے ہیں: اور ارشاد باری تعالیٰ {محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} کا معنی ’تمام نبیوں کا فرد آخر‘ ہے۔ اور آپ ﷺ کے اسمائے گرامی میںسے ایک ’عاقب‘ ہے جس کے معنی بھی ’سب انبیاء کے آخری فرد‘ کے ہیں۔
قَالَ الإْمَامُ إِسْمَاعِیْلُ بْنُ عَبَّادٍ فِي الْمُحِیْطِ فِي اللُّغَۃِ: وَخِتَامُ الْوَادِي: أَقْصَاهُ وَخَاتِمَۃُ السُّوْرَۃِ آخِرُھَا. وَکَذٰلِکَ خَاتِمُ کُلِّ شَيْئٍ.
إسماعیل بن عباد في المحیط في اللغۃ، 4: 315
امام اسماعیل بن عباد المحیط في اللغۃ میں بیان کرتے ہیں: اور وادی کے ختام سے مراد اس کا آخری کنارا ہے اور سورت کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے اور یہی معنی ہر شے کے خاتم کا ہے۔
قَالَ الإْمَامُ ابْنُ حَمَّادٍ الْجَوْهَرِيُّ فِي الصِّحَاحِ: وَالْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ بِکَسْرِ التَّاءِ وَفَتْحِھَا وَالْخَیْتَامُ وَالْخَاتَامُ کُلُّهُ بِمَعْنًی وَالْجَمْعُ: اَلْخَوَاتِیْمُ وَخَاتِمَۃُ الشَّيْئِ آخِرُهُ۔ وَمُحَمَّدٌ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ.
الجوھري في الصحاح في اللغۃ، 1: 330
امام ابن حماد الجوہری الصحاح میں لفظِ خاتم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خاتم تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنیٰ ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں۔
قَالَ الإْمَامُ ابْنُ زَکَرِیَّا فِي مَقَایِیْسِں اللُّغَۃِ: خَتْمٌ: وَھُوَ بُلُوْغُ آخِرِ الشَّيْئِ: یُقَالُ: خَتَمْتُ الْعَمَلَ وَخَتَمَ الْقَارِئُ السُّوْرَۃَ. فَأَمَّا الْخَتَمُ، وَھُوَ الطَّبْعُ عَلَی الشَّيْئِ فَذَلِکَ مِنَ الْبَابِ أَیْضًا، ِلأَنَّ الطَّبْعَ عَلَی الشَّيْئِ لَا یَکُوْنُ إِلَّا بَعْدَ بُلُوْغِ آخِرِہِ … وَالْخَاتَمُ مُشْتَقٌّ مِنْهُ. وَالنَّبِيُّ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ ِلأَنَّهُ آخِرُھُمْ.
ابن زکریا في مقاییس اللغۃ: 324
امام ابن زکریا مقاییس اللغۃ میں بیان کرتے ہیں: ختم کا معنی کسی چیز کے آخر پر پہنچنا ہے۔ کہا جاتا ہے: میںنے کام ختم کر لیا اور قاری نے سورت ختم کر لی۔ پھر ختم کامعنی کسی شے پر مہر کرنا بھی ہے اور یہ بھی اسی باب سے ہے کیونکہ کسی شے پر مہر اس کے آخرپر پہنچنے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ اور خاتم اسی سے مشتق (derived) ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ ﷺ ان سب سے آخر پر (مبعوث ہوئے) ہیں۔
قَالَ الإْمَامُ رَاغِبٌ الْأَصْفَهَانِيُّ فِي الْمُفْرَدَاتِ فِي غَرِیْبِ الْقُرْآنِ: وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ ِلأَنَّهٗ خَتَمَ النُّبُوَّۃَ أَيْ: تَمَّمَھَا بِمَجِیْئِهٖ.
الأصفہاني في المفردات في غریب القرآن، کتاب الخاء
امام راغب اصفہانی ؒاپنی شہرۂ آفاق کتاب المفردات في غریب القرآن میں خاتم النبیین کے ذیل میں لکھتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا یعنی اپنی بعثت سے اسے مکمل فرما دیا۔
قَالَ الإْمَامُ ابْنُ الْأَثِیْرِ الْجَزَرِيُّ: فِیْہِ: (آمِیْنٌ خَاتَمُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ عَلَی عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ)، قِیْلَ: مَعْنَاهُ طَابَعَهُ وَعَلَامَتُهُ الَّتِي تَدْفَعُ عَنْھُمُ الْأَعْرَاضَ وَالْعَاھَاتِ، لِأَنَّ خَاتَمَ الْکِتَابِ یَصُوْنُهُ وَیَمْنَعُ النَّاظِرِیْنَ عَمَّا فِي بَاطِنِهٖ وَتُفْتَحُ تَاؤُهُ وَتُکْسَرُ، لُغَتَانِ.
ابن الأثیر في النهایۃ، 2: 10
امام ابن اثیر جزری لفظ خاتم کے حوالے سے لکھتے ہیں: حدیث میں ہے کہ آمین الله تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر خاتم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی الله تعالیٰ کی مہر اور ایسی علامت ہے جو ان سے بیماریوں اور آفتوں کو دور کرتی ہے،کیونکہ جب مکتوب پر مہر لگا دی جاتی ہے تو وہ مکتوب کو کسی اور چیز کے دخول سے محفوظ رکھتی ہے اور لوگوں کو اس مکتوب کے دیکھنے سے منع کرتی ہے۔ خاتَم اور خاتِم اس لفظ میں دو لغتیں ہیں۔
قَالَ ابْنُ خَالِدٍ الْقَرَشِيُّ فِي صُرَاحِ اللُّغَۃِ: خَاتِمَۃُ الشَّيْئِ آخِرُهُ وَمُحَمَّدٌ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ بِالْفَتْحِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ أَجْمَعِیْنَ.
ابن خالد في صراح اللغۃ، باب المیم، فصل الخاء: 288
ابن خالد القرشی اپنی کتاب صراح اللغۃ میں خاتمہ کے معنی کسی شے کے آخر کے ہیں اور اسی معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء یعنی سب سے آخری نبی ہیں۔
قَالَ ابْنُ مَنْظُوْرٍ الْأَفْرِیْقِيُّ فِي لِسَانِ الْعَرَبِ: وَخَاتِمُ کُلِّ شَيْئٍ وَخَاتِمَتُهُ: عَاقِبَتُهُ وَآخِرُهُ.
ابن منظور في لسان العرب، 12: 164
ابن منظور افریقی لسان العرب میں بیان کرتے ہیں: خاتم اور خاتمہ ہر چیز کے آخر اور انجام کو کہا جاتا ہے۔
وَقَالَ أَیْضًا فِي مِثَالِهٖ: خِتَامُ الْوَادِي أَقْصَاهُ وَخِتَامُ الْقَوْمِ وَخَاتِمُھُمْ وَخَاتَمُھُمْ آخِرُھُمْ. عَنِ اللِّحْیَانِيِّ: وَمُحَمَّدٌ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ.
ختام الوادی، وادی کے آخری کنارے کوکہتے ہیں اور ختام القوم، خاتم القوم (بکسر التاء) اور خاتم القوم (بفتح التاء)، ان سب کا معنی ہے: ’قوم کا آخری فرد۔‘ اسی معنی میں لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء ہیں (کیونکہ آپ ﷺ باعتبارِ بعثت گروہِ انبیاء کے آخری فرد ہیں)۔
قَالَ الْعَلَّامَۃُ ابْنُ مَنْظُوْرٍ: قَالَ الْأَزْھَرِيُّ فِي التَّھْذِیْبِ:
وَالْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ (بِکَسْرِ التَّاءِ وَبِفَتْحِھَا) مِنْ أَسْمَاءِ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي التَّنْزِیْلِ الْعَزِیْزِ: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} أَيْ آخِرُھُمْ۔ قَالَ: وَقَدْ قُرِیئَ وَخَاتِمَ، وَقَوْلُ الْعَجَّاجِ: مُبَارَکٌ لِلْأَنْبِیَاءِ خَاتِمِ، إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَی الْقِرَائَۃِ الْمَشْهُوْرَۃِ فَکُسَِر، وَمِنْ أَسْمَائِهٖ الْعَاقِبُ أَیْضًا وَمَعْنَاهُ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ.
ابن منظور في لسان العرب، باب حرف المیم، فصل الخاء، 12: 164
علامہ ابن منظور بیان کرتے ہیں کہ أزہری نے التھذیب میں بیان کیا:
خاتم اور خاتم (تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم ﷺ کے اسماء میں سے ہیں اور قرآن مجید میں ہے: {محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} یعنی آپ ﷺ تمام انبیاء کے آخر پرہیں۔ اور اسے خاتِم (بکسر التائ) بھی پڑھا گیا ہے اور عجاج کاقول ’مبارَک للأنبیاء خاتِمِ‘ قراء تِ مشہورہ پر کسر ہ کے ساتھ ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے ’عاقب‘ ہے جس کا معنی بھی ’انبیاء کا آخر ‘ہے۔
قَالَ فِي کِتَابِهٖ مُخْتَارِ الصِّحَاحِ فِي مَعْنَی لَفْظِ الْخَاتِمِ: وَالْخَاتَمُ بِفَتْحِ التَّاءِ وَکَسْرِھَا وَالْخَیْتَامُ وَالْخَاتَامُ کُلُّهُ بِمَعْنًی وَالْجَمْعُ الْخَوَاتِیْمُ وَخَاتِمَۃُ الشَّيْئِ آخِرُهُ وَمُحَمَّدٌ ﷺ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ.
الرازي في مختارالصحاح: 71
امام رازی اپنی کتاب مختار الصحاح میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خاتم تاء کی زبر اورزیر کے ساتھ اور خیتام اور خاتام ان سب (الفاظ) کے ایک ہی معنی ہیں اور ان کی جمع خواتیم ہے اور کسی شے کے خاتمے سے مراد اس کا آخر ہے۔ اس معنی میں حضرت محمد ﷺ خاتم الانبیاء (آخری نبی) ہیں۔
قَالَ الْفَیْرُوْزَ آبَادِيُّ فِي الْقَامُوْسِ الْمُحِیْطِ: خَتَمَهُ یَخْتِمُهُ خَتْمًا وَخِتَامًا، طَبَعَهُ وَعَلَی قَلْبِهٖ جَعَلَهُ لَا یَفْھَمُ شَیْئًا وَلَا یَخْرُجُ مِنْهُ شَيْئٌ وَالشَّيْئُ خَتْمًا بَلَغَ آخِرَهُ.
علامہ فیروز آبادی اپنی کتاب القاموس المحیط میں لفظ ختم کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ختمہ یختمہ ختمًا وختامًا کے معنی ہیں کہ اس نے اس پر مہر کر دی اور اس کے دل پر مہرکر دی سے مراد ہے کہ اسے ایسا بنا دیا کہ وہ نہ توکچھ سمجھتا ہے اور نہ اس سے کوئی خیر کی بات ہی نکلتی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کے سوچنے سمجھنے اور نیکی کی طرف راغب ہونے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں) اور کسی شے کو ختم کرنے کا مفہوم ہے اس کے آخر پر پہنچنا۔
وَقَالَ أَیْضًا: وَالْخَاتَمُ … مِنْ کُلِّ شَيْئٍ عَاقِبَتُهُ وَآخِرَتُهُ کَخَاتِمَتِهٖ وَآخِرُ الْقَوْمِ کَالْخَاتِمِ.
فیروز آبادي في القاموس المحیط، فصل الخائ، باب المیم، 4: 104
اور لفظ خاتَم کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں: اور خاتَم (تاء پر زبر) کے معنی ہیں: کسی شے کے اخیر میں آنے والا اور کسی شے کا آخر، خاتمہ کی طرح اور آخرِ قوم، خاتِم (تاء پر زیر) کی طرح۔
لغاتِ حدیث کی ایک معتبر کتاب مجمع البحار (1: 329) میں لفظ خاتم کا معنی درج ذیل ہے:
خَاتِمُ النُّبُوَّۃِ بِکَسْرِ التَّاءِ أَيْ فَاعِلِ الْخَتْمِ وَھُوَ الْإِتْمَامُ وَبِفَتْحِهَا بِمَعْنَی الطَّابَعِ أَيْ شَيْئٌ یَدُلُّ عَلَی أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهٗ.
خاتم النبوۃ میں تاء کی زیر کے ساتھ خاتِم ہو یعنی ختم کا فاعل ہو تو اس کا معنی ہوگا نبوت کو تمام کرنے والا۔ اور تاء کی زبر کے ساتھ خاتَم ہو تو اس کا معنی مہر ہوگا، یعنی وہ شے جو اس پر دلالت کرے کہ اب اس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی کتاب میں (1: 330) اس لفظ کی مزید وضاحت یو ں بیان ہوئی ہے:
اَلْخَاتَمُ وَالْخَاتِمُ مِنْ أَسْمَائِهٖ ﷺ بِالْفَتْحِ اِسْمٌ أَيْ آخِرُھُمْ وَبِالْکَسْرِ اِسْمُ فَاعِلٍ.
(تاء کی زیر اور زبر کے ساتھ) خاتِم اور خاتَم حضور نبی اکرم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے۔ تاء پر زبر کے ساتھ اسم ہے جس کے معنی آخر کے ہیں، اور زیر کے ساتھ اسم فاعل ہے جس کے معنی ختم یا تمام کرنے والے کے ہیں۔
علامہ ابو البقاء کی کتاب کلیات میں جسے لغات عرب میں انتہائی معتمد کتاب کا درجہ حاصل ہے اس لغوی تحقیق کو یوں واضح کیا گیا ہے:
وَتَسْمِیَۃُ نَبِیِّنَا خَاتِمَ الْأَنْبِیَاءِ ِلأَنَّ الْخَاتِمَ اٰخِرُ الْقَوْمِ. قَالَ اللهُ تَعَالٰی: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أبَا أحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ}.
(2) أبو البقاء في الکلیات: 319۔
اور ہمارے نبی ﷺ کا نام خاتم الانبیاء اس لیے رکھا گیا کہ خاتم آخرِ قوم کو کہتے ہیں اور اسی معنی میں ارشاد باری تعالیٰ {محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} ہے کہ آپ سب نبیوں کے آخر میں ہیں۔
علامہ زبیدی اپنی کتاب تاج العروس میں لفظِ خاتم کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وَالْخَاتِمُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ عَاقِبَتُهُ وَآخِرَتُهُ کَخَاتِمَتِهٖ وَالْخَاتِمُ: آخِرُ الْقَوْمِ کَالْخَاتِمِ وَمِنْهُ قَوْلُهُ تَعَالٰی: {وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} أيْ آخِرُھُمْ.
الزبیدي في تاج العروس، فصل الخاء من باب المیم، 16: 190
اور ہر شے کے خاتم کے معنی اس کے اخیر اور آخر کے ہیں، کسی شے کے خاتمہ کی طرح اور خاتم (تاء کی کسرہ اور فتح کے ساتھ) کے معنی خاتم کی طرح آخرِ قوم کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ {اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} اسی معنی میں ہے یعنی تمام انبیاء کے فردِ آخر۔
موصوف اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
وَخِتَامُ الْوَادِيْ أَقْصَاهُ وَخِتَامُ الْقَوْمِ: آخِرُھُمْ، عَنِ اللِّحْیَانِيِّ وَمِنْ أَسْمَائِهٖ ﷺ الْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَھُوَ الَّذِيْ خَتَمَ النُّبُوَّۃَ بِمَجِیْئِهٖ.
الزبیدي في تاج العروس، فصل الخاء من باب المیم، 16: 191
اور وادی کے ختام سے مراد اس کا آخری کنارا ہے اور قوم کے ختام سے مراد اس کا آخری فرد ہے۔ لحیانی سے منقول ہے کہ ختم اور خاتم (تا کی زیر کے ساتھ اور زبر کے ساتھ یہ دونوں) حضور نبی اکرم ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے ہیں۔ اور خاتم وہ ذات ہے جس نے اپنی تشریف آوری سے (سلسلہ) نبوت ختم فرما دیا۔
موصوف کے نزدیک لفظ ختم اور خاتم کے معنی کی وضاحت درج ذیل ہے:
خَتَمَ الشَّيْئَ خَتْمًا بَلَغَ آخِرَهُ وَالْقُرْآنُ وَالْکِتَابُ قَرَأَهُ کُلَّهُ وَأَتَمَّهُ.
اس نے (فلاں)شے کو ختم کیا (کا معنی ہے کہ) وہ اس کے آخر پر پہنچا۔ اور قرآن اور (کسی کتاب) کو ختم کیا (یعنی) اسے پورے کا پورا پڑھا اور مکمل کیا۔
اَلْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَالْخَاتَامُ آخِرُالْقَوْمِ.
خاتِم (تاء پر زیر) اور خاتَم (تاء پر زبر) اور خاتام کے معنی آخر قوم کے ہیں۔
اَلْخَاتِمَۃُ مُؤَنَّثُ الْخَاتِمِ وَمِنْ کُلِّ شَيْئٍ أَقْصَاهُ وَتَمَامُهُ وَعَاقِبَتُهُ وَآخِرَتُهُ کَخَاتِمَۃِ الْکِتَابِ وَغَیْرِہِ.
البستاني في محیط المحیط: 217
خاتمہ خاتم کا مؤنث ہے اور کسی شے کے خاتمہ سے مراد اس کا انتہائی کنارا، اخیر اور آخر ہے، جیسے کتاب کا خاتمہ وغیرہ۔
آیت کریمہ {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} سے اِستدلال
اہلِ لغت نے لفظِ خاتم کے مذکورہ معنی کی تائید میں آیت کریمہ خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ (المطففین، 83: 26) سے بھی استدلال کیا ہے، علامہ جوہری لکھتے ہیں:
{خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أَيْ آخِرُهٗ ِلأَنَّ آخِرَ مَا یَجِدُوْنَهُ رَائِحَۃُ الْمِسْکِ.
الجوہري في الصحاح في اللغۃ، 1: 379
{اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کاآخر کیونکہ اہلِ جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو حاصل ہوگی۔
امام ابن زکریا اس حوالے سے لکھتے ہیں:
{خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أَيْ إِنَّ آخِرَ مَا یَجِدُوْنَهُ مِنْهُ عِنْدَ شُرْبِھِمْ إِیَّاهُ رَائِحَۃُ الْمِسْکِ.
ابن زکریا في معجم مقاییس اللغۃ، 1: 324
اس کا ختام کستوری ہو گا یعنی اہلِ جنت اس مشروبِ خاص کو نوش کرنے کے بعد آخر پر کستوری کی خوشبو پائیں گے۔
لسان العرب اور تاج العروس میں مرقوم ہے:
وَخِتَامُ کُلِّ مَشْرُوْبٍ: آخِرُهُ. وَفِي التَّنْزِیْلِ الْعَزِیْزِ {خِتٰـمُهٗ مِسْکٌ} أَيْ آخِرُهُ ِلأَنَّ آخِرَ مَا یَجِدُوْنَهٗ رَائِحَۃُ الْمِسْکِ.
ابن منظور في لسان العرب، 12: 164، والزبیدي في تاج العروس، 16: 191۔
اور ہر مشروب کے ختام سے مراد اس کا آخر ہے۔ قرآن عزیز میں ہے {اس کا ختام کستوری ہوگا} یعنی اس کا آخر، کیونکہ اہل جنت کو اس مشروب کے آخر پر کستوری کی خوشبو آئے گی۔
ختام اور خاتم قریب المعنی ہیں
فراء کے نزدیک ختام اور خاتم قریب المعنی الفاظ ہیں:
قَالَ الْفَرَّائُ: وَالْخَاتِمُ وَالْخِتَامُ مُتَقَارِبَانِ فِي الْمَعْنَی، إِلَّا أَنَّ الْخَاتِمَ الْإِسْمُ وَالْخِتَامَ الْمَصْدَرُ.
ابن منظور في لسان العرب، فصل الخاء، 12: 164
فراء کہتے ہیں: خاتِم اور ختام دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں، مگر یہ کہ خاتِم اسم ہے اور ختام مصدر ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved