(1) وَاَلْقَوْا اِلَی اللهِ یَوْمَئِذِنِ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَo اَلَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللهِ زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَo
(النحل، 16/ 87-88)
اور یہ (مشرکین) اس دن اللہ کے حضور عاجزی و فرمانبرداری ظاہر کریں گے اور ان سے وہ سارا بہتان جاتا رہے گا جو یہ باندھا کرتے تھےo جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اللہ کی راہ سے روکتے رہے ہم ان کے عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس وجہ سے کہ وہ فساد انگیزی کرتے تھےo
(2) وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلاَّ بِالْحَقِّ ط وَاِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَo
(الحجر، 15/ 85)
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے عبث پیدا نہیں کیا، اور یقینا قیامت کی گھڑی آنے والی ہے سو (اے اخلاقِ مجسّم!) آپ بڑے حسن و خوبی کے ساتھ درگزر کرتے رہئےo
(3) اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَکَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ م بِمَا تَسْعٰیo
(طٰہ، 20/ 15)
بے شک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس (عمل) کا بدلہ دیا جائے جس کے لیے وہ کوشاں ہےo
(4) وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قُلْ لَّکُمْ مِّيْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَo
(سبا، 34/ 29-30)
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدۂِ (آخرت) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو؟o فرما دیجیے: تمہارے لئے وعدہ کا دن مقرر ہے نہ تم اس سے ایک گھڑی پیچھے رہوگے اور نہ آگے بڑھ سکوگےo
(5) اَزِفَتِ الْاٰزِفَةُo لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللهِ کَاشِفَةٌo
(النجم، 53/ 57-58)
آنے والی (قیامت کی گھڑی) قریب آ پہنچیo اللہ کے سوا اِسے کوئی ظاہر (اور قائم) کرنے والا نہیں ہےo
(6) بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰی وَاَمَرُّo
(القمر، 54/ 46)
بلکہ اُن کا (اصل) وعدہ تو قیامت ہے اور قیامت کی گھڑی بہت ہی سخت اور بہت ہی تلخ ہےo
(7) اَلْحَآقَّةُo مَا الْحَآقَّةُo وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا الْحَآقَّةُo
(الحاقۃ، 69/ 1-3)
یقینا واقع ہونے والی گھڑیo کیا چیز ہے یقینا واقع ہونے والی گھڑیo اور آپ کو کس چیز نے خبردار کیا کہ یقینا واقع ہونے والی (قیامت) کیسی ہےo
(8) اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَی الَّذِيْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ط اُوْلٰٓـئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌo
(الشوریٰ، 42/ 42)
بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہےo
(9) هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلآَّ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ط یَوْمَ یَاْتِيْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ط قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَo
(الأنعام، 6/ 158)
وہ فقط اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس (عذاب کے) فرشتے آ پہنچیں یا آپ کا رب (خود) آ جائے یا آپ کے رب کی کچھ (مخصوص) نشانیاں (عیاناً) آ جائیں۔ (انہیں بتا دیجیے کہ) جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں (یوں ظاہراً) آ پہنچیں گی (تو اس وقت) کسی (ایسے) شخص کا ایمان اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے اپنے ایمان (کی حالت) میں کوئی نیکی نہیں کمائی تھی، فرما دیجیے: تم انتظار کرو ہم (بھی) منتظر ہیںo
(10) وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی هٰذَا الْفَتْحُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَایَنْفَعُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا اِيْمَانُهُمْ وَلَاهُمْ یُنْظَرُوْنَo فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ اِنَّهُمْ مُّنْتَظِرُوْنَo
(السجدۃ، 32/ 28-30)
اور کہتے ہیں یہ فیصلہ (کا دن) کب ہوگا اگر تم سچے ہوo آپ فرما دیں: فیصلہ کے دن نہ کافروں کو ان کا ایمان فائدہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گیo پس آپ اُن سے منہ پھیر لیجیے اور انتظار کیجیے اور وہ لوگ (بھی) انتظار کر رہے ہیںo
(11) فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً ج فَقَدْ جَآء اَشْرَاطُهَا ج فَاَنّٰی لَهُمْ اِذَا جَآءتْهُمْ ذِکْرٰهُمْo
(محمد، 47/ 18)
تو اب یہ (منکر) لوگ صرف قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ پہنچے؟ سو واقعی اس کی نشانیاں (قریب) آ پہنچی ہیں، پھر انہیں ان کی نصیحت کہاں (مفید) ہو گی جب (خود) قیامت (ہی) آ پہنچے گیo
(12) اَلَّذِيْنَ هُمْ فِيْ غَمْرَةٍ سَاهُوْنَo یَسْئَلُوْنَ اَيَّانَ یَوْمُ الدِّيْنِo یَوْمَ هُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَo
(الذاریات، 51/ 11-13)
جو جہالت و غفلت میں (آخرت کو) بھول جانے والے ہیںo پوچھتے ہیں یومِ جزا کب ہوگا؟o (فرما دیجیے:) اُس دن (ہوگا جب) وہ آتشِ دوزخ میں تپائے جائیں گےo
(13) اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَی الَّذِيْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ط اُوْلٰٓـئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌo وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِo وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ وَّلِیٍّ مِّنْم بَعْدِهٖ ط وَتَرَی الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ یَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍo
(الشوریٰ، 42/ 42-44)
بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہےo اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہےo اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اُس کے لیے اُس کے بعد کوئی کارساز نہیں ہوتا، اور آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب وہ عذابِ (آخرت) دیکھ لیں گے (تو) کہیں گے: کیا (دنیا میں) پلٹ جانے کی کوئی سبیل ہے؟o
(14) وَقَالُوْٓا أَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا أَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًاo قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًاo اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِيْ صُدُوْرِکُمْ ج فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِيْدُنَاط قُلِ الَّذِيْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ج فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَيْکَ رُءوْسَھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَط قُلْ عَسٰٓی اَنْ يَّکُوْنَ قَرِيْبًاo
(الإسراء، 17/ 49-51)
اور کہتے ہیں: جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں ازسرِنو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟o فرما دیجیے: تم پتھر ہو جاؤ یا لوہاo یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں (ان چیزوں سے بھی) زیادہ سخت ہو (کہ اس میں زندگی پانے کی بالکل صلاحیت ہی نہ ہو)، پھر وہ (اس حال میں) کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ فرما دیجیے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا تھا، پھر وہ (تعجب اور تمسخر کے طور پر) آپ کے سامنے اپنے سر ہلا دیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ فرما دیجیے: امید ہے جلد ہی ہو جائے گاo
(15) وَقَالُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌo أَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا أَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَo اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَo قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دٰخِرُوْنَo فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَاهُمْ یَنْظُرُوْنَo وَقَالُوْا یٰـوَيْلَنَا هٰذَا یَوْمُ الدِّيْنِo
(الصافات، 37/ 15-20)
اور کہتے ہیں کہ یہ تو صرف کھلا جادو ہےo کیا جب ہم مرجائیں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو ہم یقینی طور پر (دوبارہ زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے؟o اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اٹھائے جائیں گے)؟o فرما دیجیے: ہاں اور (بلکہ) تم ذلیل و رسوا (بھی) ہو گےo پس وہ تو محض ایک (زور دار آواز کی) سخت جھڑک ہوگی سو سب اچانک (اٹھ کر) دیکھنے لگ جائیں گےo اور کہیں گے: ہائے ہماری شامت، یہ تو جزا کا دن ہےo
(16) یَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ ط وَمَا یُدْرِيْکَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَکُوْنُ قَرِيْبًاo
(الأحزاب، 33/ 63)
لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمادیجیے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کِس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہوo
(17) اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاo وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاo وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَهَاo یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاo
(الزلزال، 99/ 1-4)
جب زمین اپنے سخت بھونچال سے بڑی شدت کے ساتھ تھرتھرائی جائے گیo اور زمین اپنے (سب) بوجھ نکال باہر پھینکے گیo اور انسان (حیران و ششدر ہو کر) کہے گا: اسے کیا ہوگیا ہےo اس دن وہ اپنے حالات خود ظاہر کر دے گیo
(18) اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْo وَ اَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْo وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْo وَ اَلْقَتْ مَا فِيْھَا وَتَخَلَّتْo
(الانشقاق، 84/ 1-4)
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گےo اور اپنے رب کا حکمِ (اِنشقاق) بجا لائیں گے اور (یہی تعمیلِ اَمر) اُس کے لائق ہےo اور جب زمین (ریزہ ریزہ کر کے) پھیلا دی جائے گیo اور جو کچھ اس کے اندر ہے وہ اسے نکال باہر پھینکے گی اور خالی ہو جائے گیo
(19) وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍo يَّصْلَوْنَھَا یَوْمَ الدِّيْنِo وَمَا ھُمْ عَنْھَا بِغَآئِبِيْنَo وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا یَوْمُ الدِّيْنِo ثُمَّ مَآ اَدْرٰ کَ مَا یَوْمُ الدِّيْنِo یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ ِﷲِo
(الانفطار، 82/ 14-19)
اور بے شک بدکار دوزخِ (سوزاں) میں ہوں گےo وہ اس میں قیامت کے روز داخل ہوں گےo اور وہ اس (دوزخ) سے (کبھی بھی) غائب نہ ہو سکیں گےo اور آپ نے کیا سمجھا کہ روزِ جزا کیا ہےo پھر آپ نے کیا جانا کہ روزِ جزا کیا ہےo (یہ) وہ دن ہے جب کوئی شخص کسی کے لیے کسی چیز کا مالک نہ ہوگا، اور حکم فرمائی اس دن اللہ ہی کی ہو گیo
(20) اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰیo ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰیo اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo اَلَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰیo ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰیo فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰیo اَلَيْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰیo
(القیامۃ، 34 - 40)
تمہارے لیے (مرتے وقت) تباہی ہے، پھر (قبر میں) تباہی ہےo پھر تمہارے لیے (روزِ قیامت) ہلاکت ہے، پھر (دوزخ کی) ہلاکت ہےo کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گاo کیا وہ (اپنی اِبتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہےo پھر وہ (رحم میں جال کی طرح جما ہوا) ایک معلق وجود بن گیا، پھر اُس نے (تمام جسمانی اَعضاء کی اِبتدائی شکل کو اس وجود میں) پیدا فرمایا، پھر اس نے (انہیں) درست کیاo پھر یہ کہ اس نے اسی نطفہ ہی کے ذریعہ دو قسمیں بنائیں: مرد اور عورتo تو کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مُردوں کو پھر سے زندہ کر دےo
1۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَھَاتَيْنِ۔ قَالَ: وَضَمَّ السَّبَابَةَ وَالْوُسْطٰی۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
1: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ﷺ : بعثت أنا والساعۃ کھاتین، 5/ 2385، الرقم/ 6139، ومسلم في الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب قرب السّاعۃ، 4/ 2269، الرقم/ 2951، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 4/ 761، الرقم/ 374۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو جوڑ کر فرمایا: میری بعثت اور قیامت اس طرح باہم جڑے ہوئے ہیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُهٗ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءوْسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
2: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، 1/ 50، الرقم/ 100، ومسلم في الصحیح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضہ وظھور الجھل، 4/ 2058، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في ذھاب العلم، 5/ 31، الرقم/ 2652، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب اجتناب الرأي والقیاس، 1/ 20، الرقم/ 52، والنسائي في السنن الکبری، 3/ 455، الرقم/ 5907، والدارمي في السنن، المقدمۃ، باب في ذھاب العلم، 1/ 89، الرقم/ 239، وابن حبان في الصحیح، 10/ 432، الرقم/ 4571، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 21، الرقم/ 55۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا: آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّکُمْ حَدِيْثًا سَمِعْتُهٗ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لَا یُحَدِّثُکُمْ بِهٖ أَحَدٌ غَيْرِي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ وَیَکْثُرَ الْجَهْلُ وَیَکْثُرَ الزِّنَا وَیَکْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَیَقِلَّ الرِّجَالُ وَیَکْثُرَ النِّسَاءُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النکاح، باب یقل الرجال ویکثر النسائ، 5/ 2005، الرقم/ 4933، ومسلم في الصحیح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضتہ وظھور الجھل والفتن في آخر الزمان، 4/ 2056، الرقم/ 2671، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في أشراط الساعۃ، 4/ 491، الرقم/ 2205، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب أشراط الساعۃ، 2/ 1343، الرقم/ 4045۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث ضرور بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی اور میرے سوا اس حدیث کو تم سے کوئی بیان بھی نہیں کر سکتا۔ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اُٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا اور شراب پینے کی کثرت ہو جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے، عورتیں بڑھ جائیں گی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ وَأَبِي مُوْسٰی رضي الله عنهما، قَالَا: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : إِنَّ بَيْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ لَأَيَّامًا یَنْزِلُ فِيْهَا الْجَهْلُ، وَیُرْفَعُ فِيْهَا الْعِلْمُ، وَیَکْثُرُ فِيْهَا الْهَرْجُ، وَالْهَرْجُ اَلْقَتْلُ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
4: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الفتن، باب ظہور الفتن، 6/ 2590، الرقم/ 6653-6654، ومسلم في الصحیح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضہ وظھور الجھل والفتن في آخر الزمان، 4/ 2056، الرقم/ (10) 2672، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 389، الرقم/ 3695، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الہرج والعبادۃ فیہ، 4/ 489، الرقم/ 2200، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب ذہاب القرآن والعلم، 2/ 1345، الرقم/ 4050-4051۔
حضرت عبداللہ (بن مسعود) اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما دونوں سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت سے کچھ عرصہ پہلے کا زمانہ ایسا ہو گا کہ اُس میں (چہار سو) جہالت اُترے گی، علم اُٹھا لیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا اور ہرج قتل (و غارت) کو کہتے ہیں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، لَا تَذْهَبُ الدُّنْیَا حَتّٰی یَأْتِيَ عَلَی النَّاسِ یَوْمٌ لَا یَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ فَقِيْلَ: کَيْفَ یَکُوْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: الْھَرْجُ، اَلْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِي النَّارِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔
5: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی أن یکون مکان المیت من البلائ، 4/ 2231، الرقم/ 2908، والدیلمي في مسند الفردوس، 4/ 371، الرقم/ 7074، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 1/ 223، الرقم/ 23۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا دن نہ آجائے، جس میں نہ قاتل کو یہ علم ہو گا کہ اس نے کیوں قتل کیا اور نہ مقتول کو یہ خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل کیا گیا۔ عرض کیا گیا: (یارسول اللہ!) یہ کیسے ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بکثرت کشت و خون ہو گا، قاتل اور مقتول دونوں (اپنی بدنیتی اور ارادے کی وجہ سے) دوزخ میں ہوں گے۔
اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِيْدٍ قَالَ: ذَکَرَ النَّبِيُّ ﷺ شَيْئًا فَقَالَ: ذَاکَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَيْفَ یَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِءهٗ أَبْنَائَنَا وَیُقْرِءُهٗ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ زِیَادُ إِنْ کُنْتُ لَأَرَاکَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِيْنَةِ أَوَ لَيْسَ هٰذِهِ الْیَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی یَقْرَءُوْنَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيْلَ لَا یَعْمَلُوْنَ بِشَيئٍ مِمَّا فِيْهِمَا۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْکِنَانِيُّ: وَرِجَالُ إِسْنَادِهٖ ثِقَاتٌ۔
6: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 160، الرقم/ 17508، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب ذھاب القرآن والعلم، 2/ 1344، الرقم/ 4048، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6/ 145، الرقم/ 30199، والحاکم في المستدرک، 3/ 681، الرقم/ 6500، والطبراني في المعجم الکبیر، 5/ 265، الرقم/ 5291، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 4/ 54، الرقم/ 1999، وذکرہ الکناني في مصباح الوجاجۃ، 4/ 194، الرقم/ 8241۔
حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی چیز (یعنی قیامت) کا تذکرہ کیا اور فرمایا: یہ اُس وقت ہوگا جب علم جاتا رہے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! علم کیسے جاتا رہے گا جبکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، میں تو تجھے مدینہ کے فقیہ تر لوگوں میں سے سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اُن کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے (اسی بد عملی اور زبانی جمع خرچ کے نتیجہ میں یہ اُمت بھی وحی کی برکات سے محروم ہوجائے گی، بس قیل و قال باقی رہ جائے گا)۔
اس حدیث کو امام اَحمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام کنانی نے فرمایا: اس کی اسناد کے رجال ثقہ ہیں۔
7۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا اتُّخِذَ الْفَيئُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّکَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهٗ وَعَقَّ أُمَّهٗ وَأَدْنَی صَدِيْقَهٗ وَأَقْصَی أَبَاهٗ، وَظَھَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ فَاسِقُھُمْ وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَھُمْ، وَأُکْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهٖ وَظَھَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَھَا فَلْیَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَالِکَ رِيْحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآیَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْکُهٗ فَتَتَابَعَ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
7: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامۃ حلول المسخ والخسف، 4/ 495، الرقم/ 2211، 2210، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 150، الرقم/ 469، والمقریٔ في السنن الواردۃ في الفتن، 3/ 683684، الرقم/ 320، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 4/ 5، الرقم/ 4544۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا، غیر دینی کاموں کے لیے علم حاصل کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی، اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، قبیلے کا بدکار شخص اُن کا سردار بن بیٹھے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر (یعنی حکمران) بن جائے گا اور آدمی کی عزت محض اُس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا، (کھلے عام اور کثرت سے) شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد والے لوگ، پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کریں گے، اُس وقت سرخ آندھی، زلزلے، زمین میں دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو۔ یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔
اِس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ أَبِي قِـلَابَةَ قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : عَلَيْکُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَقَبْضُهٗ أَنْ یُذْهَبَ بِأَصْحَابِهٖ، وَعَلَيْکُمْ بِالْعِلْمِ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِي مَتٰی یُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ یُفْتَقَرُ إِلٰی مَا عِنْدَهٗ، وَإِنَّکُمْ سَتَجِدُوْنَ أَقْوَامًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّهُمْ یَدْعُوْنَکُمْ إِلٰی کِتَابِ اللهِ وَقَدْ نَبَذُوْهُ وَرَاءَ ظُهُوْرِهِمْ، فَعَلَيْکُمْ بِالْعِلْمِ وَإِيَّاکُمْ وَالتَّبَدُّعَ، وَإِيَّاکُمْ وَالتَّنَطُّعَ، وَإِيَّاکُمْ وَالتَّعَمُّقَ، وَعَلَيْکُمْ بِالْعَتِيْقِ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
8: أخرجہ الدارمي في السنن، المقدمۃ، باب من ھاب الفتیا وکرہ التنطع والتبدع، 1/ 66، الرقم/ 143، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 252، الرقم/ 20465، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/ 170، الرقم/ 8845، وذکرہ الدیلمي في مسند الفردوس، 2/ 41، الرقم/ 2236۔
حضرت ابو قِلابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم کے اُٹھ جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کرلو، علم کا اُٹھ جانا یہ ہے کہ اہلِ علم رخصت ہو جائیں گے، خوب مضبوطی سے علم حاصل کرو، اُس شخص کو کیا خبر کہ کب اس کی طرف حاجتمندی پیش آ جائے یا اُس کے علم کی دوسروں کو ضرورت پیش آ جائے۔ عنقریب تم ایسے لوگوں کو پاؤگے جن کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ تمہیں قرآنی دعوت دے رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہوگا۔ اِس لیے علم پر مضبوطی سے قائم رہو۔ دین میں نئی باتوں، بے سود موشگافیوں اور غیر ضروری غور و خوض سے بچو اور (سلف صالحین کے) پرانے راستہ پر قائم رہو۔
اِس حدیث کو امام دارمی، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُجْعَلَ کِتَابُ اللهِ عَارًا وَیَکُوْنَ الإِسْلَامُ غَرِيْبًا حَتّٰی یُنْقَصَ الْعِلْمُ وَیُھْرَمَ الزَّمَانُ وَیُنْقَصَ عُمَرَ الْبَشَرِ وَیُنْقَصَ السِّنُوْنُ وَالثَّمَرَاتُ وَیُؤْتَمِنُ التُّھَمَاءُ وَیُتَّھَمُ الأَمْنَاءُ وَیُصَدِّقُ الْکَاذِبُ وَیُکَذِّبَ الصَّادِقُ وَیَکْثُرُ الْھَرْجُ، قَالُوْا: مَا الْھَرْجُ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، اَلْقَتْلُ وَحَتّٰی تُبْنَی الْغُرُفُ فَتَطَاوَلُ وَحَتّٰی تَحْزَنَ ذَوَاتَ الأَوْلَادِ وَتَفْرَحَ الْعَوَاقِرُ وَیُظْھَرَ الْبَغْيُّ وَالْحَسَدُ وَالشُّحُ وَیُغِيْضَ الْعِلْمُ غَيْضًا وَیُفِيْضَ الْجَھْلُ فَيْضًا وَیَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَالشِّتَاء قَيْضًا وَحَتّٰی یُجْھَرَ بِالْفَحْشَاءِ وَتَزُوْلُ الأَرْضُ زَوَالًا۔
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ۔
أخرجہ ابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 21/ 274۔
ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) کو عار ٹھہرایا جائے گا اور اسلام اجنبی ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، انسان کی عمر کم ہو جائے گی، ماہ و سال اور غلہ و ثمرات میں (بے برکتی اور) کمی رونما ہو گی، ناقابل اعتماد لوگوں کو امین اور امانت دار لوگوں کو ناقابل اعتماد سمجھا جائے گا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا قرار دیا جائے گا، ھرج عام ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قتل، قتل۔ اور یہاں تک کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور ان پر فخر کیا جائے گا، یہاں تک کہ صاحب اولاد عورتیں غمزدہ ہوں گی اور بے اولاد خوش ہوں گی، ظلم، حسد اور لالچ کا دور دورہ ہو گا، علم کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے اور جہالت کا سیلاب اُمنڈ آئے گا، اولاد غم و غصہ کا موجب ہو گی اور موسم سرما میں گرمی ہو گی۔ یہاں تک کہ بدکاری اعلانیہ ہونے لگے گی۔ ان حالات میں زمین کی طنابیں کھینچ دی جائیں گی۔
اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ الرَّحْمَانِ الْأَنْصَارِيِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ کَثْرَةِ الْمَطَرِ وَقِلَّةِ النَّبَاتِ وَکَثْرَةِ الْقُرَاءِ وَقِلَّةِ الْفُقَھَاءِ وَکَثْرَةِ الأُمْرَاءِ وَقِلَّةِ الأَمْنَاءِ۔
ذَکَرَهُ الْهَيْثِمِيُّ وَالْهِنْدِيُّ۔
ذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 331، والھندي في کنز العمال، 14/ 220، الرقم/ 38472۔
ایک روایت میں حضرت عبد الرحمن انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قربِ قیامت کی نشانیوں میں بارش کا زیادہ ہو جانا، فصلوں کا کم ہو جانا، قراء کا زیادہ ہو جانا اور(شرعی احکام کی سمجھ بوجھ رکھنے والے) فقہاء کا کم ہو جانا، امراء کا زیادہ ہو جانا اور امانت داروں کا کم ہو جانا شامل ہے۔
اسے امام ہیثمی اور ہندی نے بیان کیا ہے۔
9۔ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِيْدٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ لِإِنْسَانٍ: إِنَّکَ فِي زَمَانٍ کَثِيْرٌ فُقَهَاؤُهٗ قَلِيْلٌ قُرَّاؤُهٗ تُحْفَظُ فِيْهِ حُدُوْدُ الْقُرْآنِ وَتُضَيَّعُ حُرُوْفُهٗ قَلِيْلٌ مَنْ یَسْأَلُ کَثِيْرٌ مَنْ یُعْطِي یُطِيْلُوْنَ فِيْهِ الصَّلَاةَ وَیَقْصُرُوْنَ الْخُطْبَةَ یُبَدُّوْنَ أَعْمَالَهُمْ قَبْلَ أَهْوَائِهِمْ وَسَیَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ قَلِيْلٌ فُقَهَاؤُهٗ کَثِيْرٌ قُرَّاؤُهٗ یُحْفَظُ فِيْهِ حُرُوْفُ الْقُرْآنِ وَتُضَيَّعُ حُدُوْدُهٗ کَثِيْرٌ مَنْ یَسْأَلُ قَلِيْلٌ مَنْ یُعْطِي یُطِيْلُوْنَ فِيْهِ الْخُطْبَةَ وَیَقْصُرُوْنَ الصَّلَاةَ یُبَدُّوْنَ فِيْهِ أَهْوَائَهُمْ قَبْلَ أَعْمَالِهِمْ۔
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْمُقْرِئُ۔
9: أخرجہ مالک بن أنس في الموطأ، کتاب النداء للصلاۃ، باب جامع الصلاۃ، 1/ 173، الرقم/ 417، والمقرئ الداني في السنن الواردۃ في الفتن، 3/ 674- 675، الرقم/ 317۔
یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو! تم ایسے زمانہ میں ہو جس میں فقیہ زیادہ ہیں اور قاری کم، اس زمانہ میں قرآن کے حروف سے زیادہ اس کی حدود کی نگہداشت کی جاتی ہے، مانگنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں، خطبہ مختصر اور نماز لمبی ہوتی ہے، اس زمانہ میں لوگ اعمال کو خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں۔ اور (قرب قیامت کے وقت) ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں فقیہ کم ہوں گے اور قاری زیادہ، قرآن کے حروف کی حفاظت کی جائے گی مگر اس کی حدود کو پامال کیا جائے گا، مانگنے والوں کی بھیڑ ہوگی لیکن دینے والے کم ہوں گے، تقریریں بڑی لمبی چوڑی کی جائیں گی لیکن نماز مختصر سی پڑھی جائے گی اور لوگ اعمال سے زیادہ اپنی خواہشات کو مقدم رکھیں گے۔
اسے امام مالک اور مقرئ نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: لَا یَأْتِي عَلَيْکُمْ عَامٌ إِلاَّ وَهُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِي کَانَ قَبْلَهٗ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَاماً أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ وَلَا أَمِيْرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيْرٍ، وَلٰـکِنْ عُلَمَاؤُکُمْ وَخِیَارُکُمْ وَفُقَهَاؤُکُمْ یَذْهَبُوْنَ، ثُمَّ لَا تَجِدُوْنَ مِنْهُمْ خَلَفًا وَیَجِيئُ قَوْمٌ یَقِيْسُوْنَ الأُمُوْرَ بِرَأْیِهِمْ۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
10: أخرجہ الدارمي في السنن، المقدمۃ، باب تغیر الزمان وما یحدث فیہ، 1/ 76، الرقم/ 188۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم پر ہر آئندہ سال پہلے سے برا آئے گا میری مراد یہ نہیں کہ پہلا سال دوسرے سال سے غلہ کی فراوانی میں اچھا ہوگا یا ایک امیر دوسرے امیر سے بہتر ہو گا، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ تمہارے علماء صالحین اور فقیہ ایک ایک کرکے اُٹھتے جائیں گے اور تم اُن کا بدل نہیں پاؤ گے اور (قحط الرجال کے اس زمانہ میں) بعض ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دینی مسائل کو محض اپنی ذاتی قیاس آرائی سے حل کریں گے۔
اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِيْـلَاتٌ مَائِـلَاتٌ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔
11: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب اللباس والزینۃ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات، 3/ 1680، الرقم/ 2128، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 355، الرقم/ 8650، وأبو یعلی في المسند، 12/ 46، الرقم/ 6690، وابن حبان في الصحیح، 16/ 500، 501، الرقم/ 7461، والطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 80، الرقم/ 5854، والبیھقي في السنن الکبری، 2/ 234، الرقم/ 3077، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/ 401، الرقم/ 3783۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو دوزخی گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا (بعد میں پیدا ہوں گے) ایک وہ گروہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دم کی مانند کوڑے ہوں گے وہ اُن کو لوگوں کے منہ پر (ناحق) ماریں گے۔ دوم وہ عورتیں جو (کہنے کو تو) لباس پہنے ہوئے ہوں گی لیکن درحقیقت برہنہ ہوں گی اور (لوگوں کو اپنے جسم کی نمائش اور لباس کی زیبائش سے اپنی طرف) مائل کریں گی اور (خود بھی مردوں سے اختلاط کی طرف) مائل ہوں گی۔
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابن حبان اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: سَیَکُوْنُ فِي آخِرِ هٰذِهِ الأُمَّةِ رِجَالٌ یَرْکَبُوْنَ عَلَی الْمِیَاثِرِ حَتّٰی یَأْتُوْا أَبْوَابَ مَسَاجِدِھِمْ نِسَاؤُھُمْ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ۔
(1) أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 223، الرقم/ 7083، والحاکم في المستدرک، 4/ 483، الرقم/ 8346، والھیثمي في مجمع الزوائد، 5/ 137۔
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو مہنگی گاڑیوں کی مخملیں گدیوں پر بیٹھ کر مسجدوں کے دروازوں تک پہنچا کریں گے، ان کی عورتیں لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی۔
اِس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
12۔ عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: یَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَـلَانِیَةِ أَعْدَاءُ السَّرِيْرَةِ فَقِيْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَکَيْفَ یَکُوْنُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ذٰلِکَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلٰی بَعْضٍ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
12: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 235، الرقم/ 22108، والطبراني في مسند الشامیین، 2/ 341، الرقم/ 1456، وأبونعیم في حلیۃ الأولیائ، 6/ 102، وذکرہ الدیلمي في مسند الفردوس، 5/ 452، الرقم/ 8713۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے طبقات اور گروہ ہوں گے جو ظاہری طور پر (ایک دوسرے کے لیے) خیر سگالی کا مظاہرہ کریں گے اور اندر سے ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ایسا کیونکر ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے سے (شدید نفرت رکھنے کے باوجود صرف) خوف اور لالچ کی وجہ سے (بظاہر دوستی وخیر خواہی کا مظاہرہ کریں گے)۔
اس حدیث کو امام اَحمد، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
13۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یُوْشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَيْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَةُ إِلٰی قَصْعَتِهَا فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِيْرٌ وَلٰـکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَهَابَةَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوْبِکُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاهِیَةُ الْمَوْتِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ۔
13: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 278، الرقم/ 22450، وأبوداود في السنن، کتاب الملاحم، باب في تداعي الأمم علی الإسلام، 4/ 111، الرقم/ 4297، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7/ 463، الرقم/ 37247، والطیالسي في المسند، 1/ 133، الرقم/ 992۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے کہ جب دیگر اقوام تمہیں مٹانے کے لیے (مل کر سازشیں کریں گی اور) ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے (لذیذ) کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلتِ تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہو گے البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دے گا۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔
اِس حدیث کو امام احمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
14۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی أَحَدٌ إِلَّا أَکَلَ الرِّبَا فَإِنْ لَمْ یَأْکُلْهٗ أَصَابَهٗ مِنْ بُخَارِهٖ۔ وَفِي رِوَایَةٍ: مِنْ غُبَارِهٖ۔
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ۔
14: أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب البیوع، باب في اجتناب الشبھات، 3/ 243، الرقم/ 3331، والنسائي في السنن، کتاب التجارات، باب اجتناب الشبھات في الکسب، 7/ 243، الرقم/ 4455، وابن ماجہ في السنن، کتاب التجارات، باب التغلیظ في الربا، 2/ 765، الرقم/ 2278، والحاکم في المستدرک، 2/ 13، الرقم/ 2162، والبیھقي في السنن الکبری، 5/ 276، الرقم/ 10253، والمنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 8، الرقم/ 2864۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقینا لوگوں پر ایسا دور بھی آئے گا جب کوئی شخص بھی سود سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر کسی نے براہ راست سود نہ بھی کھایا ہو تب بھی سود کا بخار اور ایک روایت کے مطابق سود کا غبار اُسے بہر صورت پہنچ کر رہے گا (گویا وہ براہ راست سود خوری کے جرم کا مرتکب نہ بھی ہو تب بھی پاکیزہ مال کی برکت سے محروم رہے گا)۔
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
15۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فِي هٰذِهِ الأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَتٰی ذَاکَ؟ قَالَ: إِذَا ظَھَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ۔
15: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في علامۃ حلول المسخ والخسف، 4/ 495، الرقم/ 2212، والخطیب البغدادي في تاریخ البغداد، 10/ 272۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس اُمت کے اندر زمین میں دھنسنے، شکلیں بگڑنے اور آسمان سے پتھر برسنے کا عذاب نازل ہو گا۔ تو کسی صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کب ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب گانے اور ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا اورجب شرابیں سرِ عام پی جائیں گی۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
16۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ یَفْشُوَ الْمَالُ وَیَکْثُرَ، وَتَفْشُوَ التِّجَارَةُ، وَیَظْهَرَ الْعِلْمُ۔
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ۔ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَإِسْنَادُهٗ عَلٰی شَرْطِهِمَا۔
16: أخرجہ النسائي في السنن، کتاب البیوع، باب التجارۃ، 7/ 244، الرقم/ 4456، وأیضًا في السنن الکبری، 4/ 5، الرقم/ 6048، والحاکم في المستدرک، 2/ 9، الرقم/ 2147، والمقرئ في السنن الواردۃ في الفتن، 3/ 565-566، الرقم/ 251۔
حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مال عام اور کثیر ہو جائے گا، تجارت پھیلے گی اور دنیوی علم کا دور دورہ ہو گا۔
اسے امام نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور بخاری و مسلم کی شرائط پر ہے۔
17۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَجْتَمِعُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَالطَّحَاوِيُّ وَالْفَرْیَابِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
17: أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6/ 163، الرقم/ 30355، وأیضًا، 7/ 505، الرقم/ 37586، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2/ 172، والفریابي في صفۃ المنافق/ 80، الرقم/ 108- 110، والدیلمي في مسند الفردوس، 5/ 441، الرقم/ 8680، والمقدسي في ذخیرۃ الحفاظ، 5/ 2767، الرقم/ 6469۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ مساجد میں اکٹھے ہوں گے اور باجماعت نمازیں پڑھیں گے، لیکن ان میں کوئی ایک بھی (صحیح) مؤمن نہیں ہوگا۔
اسے امام ابن ابی شیبہ، حاکم، طحاوی، فریابی، دیلمی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ قَالَ: یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَجْتَمِعُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ، لَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْآجُرِّيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4/ 489، الرقم/ 8365، والآجري في کتاب الشریعۃ، 2/ 601-602، الرقم/ 236-237۔
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) مساجد میں اکٹھے ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا۔
اسے امام حاکم اور آجری نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ قَالَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَجْتَمِعُوْنَ فِي مَسَاجِدِهِمْ، مَا فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ۔
رَوَاهُ الْآجُرِّيُّ۔
أخرجہ الآجري في کتاب الشریعۃ، 2/ 602-603، الرقم/ 238۔
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: لوگوں پر ضرور بالضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں وہ (باجماعت نمازوں کے لیے) اپنی مساجد میں جمع ہوں گے لیکن ان میں کوئی ایک بھی مومن نہیں ہوگا۔
اسے امام آجری نے روایت کیا ہے۔
18۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا اسْتَحَلَّتْ أُمَّتِي سِتًّا فَعَلَيْھِمُ الدِّمَارُ، إِذَا ظَھَرَ فِيْھِمُ التَّـلَاعُنُ، وَشَرِبُوْا الْخُمُوْرَ وَلَبِسُوْا الْحَرِيْرَ، وَاتَّخَذُوْا الْقِیَانَ، وَاکْتَفَی الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْھَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ۔
18: أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 18، الرقم/ 1086، والبیھقي في شعب الإیمان، 4/ 377، الرقم/ 5469، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 6/ 123، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 71، الرقم/ 3123، والھیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 331، والھندي في کنز العمال، 7/ 177۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میری اُمت چھ چیزوں کو حلال سمجھنے لگے گی تو اُن پر تباہی نازل ہو گی۔ جب اُن میں باہمی لعنت ملامت عام ہو جائے، لوگ کثرت سے شرابیں پینے لگیں، مرد ریشمی لباس پہننے لگیں، لوگ گانے بجانے اور رقص کرنے والی عورتیں رکھنے لگیں، مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی لذت حاصل کرنے لگیں (یعنی ہم جنس پرستی عام ہو جائے اور gays اور lesbians کے گروہ عام ہو جائیں اس وقت تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرے گی)۔
اِس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
19۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه فِي رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، ھَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ لِي: یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا۔ أَلَا، وَإِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکُوْنَ الْوَلَدُ غَيْضًا وَأَنْ یَکُوْنَ الْمَطْرُ قَيْظًا وَأَنْ تَفِيْضَ الأَشْرَارُ فَيْضًا،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُصَدَّقَ الْکَاذِبُ وَأَنْ یُکَذَّبَ الصَّادِقُ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ وَأَنْ یُخَوَّنَ الأَمِيْنُ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تُوَاصَلَ الأَطْبَاقُ وَأَنْ تَقَاطَعَ الأَرْحَامُ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَسُوْدَ کُلَّ قَبِيْلَةٍ مُنَافِقُوْھَا وَکُلَّ سُوْقٍ فُجَّارُھَا،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوْبُ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکُوْنَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيْلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقْدِ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تَکْثُفَ الْمَسَاجِدُ وَأَنْ تَعْلُوَ الْمَنَابِرُ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یُعْمَرَ خَرَابُ الدُّنْیَا وَیُخْرَبُ عِمْرَانُھَا،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ وَتُشْرَبَ الْخُمُوْرِ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا شُرْبَ الْخُمُوْرِ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا اَلشُّرَطُ وَالْغَمَّازُوْنَ وَاللَّمَّازُوْنَ،
یَا ابْنَ مَسْعُوْدٍ، إِنَّ مِنْ أَعْـلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِھَا أَنْ یَکْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَی۔
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
19: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 10/ 229، الرقم/ 10556، وأیضًا في المعجم الأوسط، 5/ 127، الرقم/ 4861۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی علم ایسا بھی ہے جس سے قربِ قیامت کے بارے میں جانا جا سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابنِ مسعود! بے شک قیامت کے کچھ آثار و علامات ہیں وہ یہ کہ اولاد (نافرمانی کے سبب والدین کے لیے) غم و غصہ کا باعث ہو گی، بارش کے باوجود گرمی ہو گی اور بدکاروں کا طوفان برپا ہوگا،
’اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ خیانت کرنے والے کو امین اور امین کو خیانت کرنے والا بتلایا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بیگانوں سے تعلق جوڑا جائے گا اور خونی رشتوں سے توڑا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر قبیلے کی قیادت اس کے منافقوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور ہر بازار کی قیادت اس کے بدمعاشوں کے ہاتھ میں ہو گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد سجائی جائیں گی اور دل ویران ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مومن (نیک اور دیانت دار آدمی) اپنے قبیلہ میں بھیڑ بکری سے زیادہ حقیر سمجھا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مرد، مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے جنسی تعلق استوار کریں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی اور اُن کے منبر عالی شان ہوں گے،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا کے ویرانوں کو آباد اور آبادیوں کو ویران کیا جائے گا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ گانے بجانے کا سامان عام ہوگا اور شراب نوشی کا دور دورہ ہوگا،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ ہے کہ مختلف اَقسام کی شرابیں پی جائیں گی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ (معاشرے میں) پولیس والوں، چغلی کرنے والوں اور طعنہ بازوں کی بہتات ہوگی،
اے ابن مسعود! بے شک قیامت کے آثار و علامات میں سے یہ بھی ہے کہ ناجائز بچوں کی ولادت کثرت سے ہوگی۔
اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
20۔ عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ کَثُرَ لُبْسُ الطِّیَالَسَةِ وَکَثُرَتِ التِّجَارَةُ وَکَثُرَ الْمَالُ وَعَظُمَ رَبُّ الْمَالِ بِمَالِهٖ وَکَثُرَتِ الْفَاحِشَةُ وَکَانَتْ إِمَارَةُ الصِّبْیَانِ وَکَثُرَ النِّسَاءُ وَجَارَ السُّلْطَانُ وَطُفِّفَ فِي الْمِکْیَالِ وَالْمِيْزَانِ وَیُرَبِّي الرَّجُلُ جَرْوَ کَلْبٍ خَيْرٌ لَهٗ مِنْ أَنْ یُرَبِّيَ وَلَدًا لَهٗ وَلَا یُوَقَّرُ کَبِيْرٌ وَلَا یُرْحَمُ صَغِيْرٌ وَیَکْثُرُ أَوْلَادُ الزِّنَا حَتّٰی أَنَّ الرَّجُلَ لَیُغَشِّي الْمَرْأَةَ عَلٰی قَارِعَةِ الطَّرِيْقِ فَیَقُوْلُ أَمْثَلُھُمْ فِي ذٰلِکَ الزَّمَانِ: لَوْ اِعْتَزَلْتُمَا عَنِ الطِّرِيْقِ وَیَلْبَسُوْنَ جُلُوْدَ الضَّأَنِ عَلٰی قُلُوْبِ الذِّئَابِ۔ أَمْثَلُھُمْ فِي ذٰلِکَ الزَّمَانِ الْمُدَاھِنُ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
20: أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3/ 386، الرقم/ 5464، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 126، الرقم/ 4860، والھیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 325۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زمانۂ قیامت قریب ہو گا تو ریشم کثرت سے پہنا جانے لگے گا، تجارت بڑھ جائے گی اور مال کی کثرت ہو گی، مال کا سود اصلِ زرّ (Capital) سے بڑھ جائے گا، فحاشی بڑھ جائے گی اور کم عمر لوگوں کی حکومت ہو گی، عورتوں کی کثرت ہو گی، حکمرانوں کا ظلم بڑھ جائے گا، ناپ تول میں کمی کی جائے گی، آدمی اپنے کتے کے پلے کی نگہداشت اپنے بیٹے کی نگہداشت سے بڑھ کر کرے گا، بڑوں کی عزت نہیں کی جائے گی اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کی جائے گی، بدکاری سے پیدا ہونے والے بچوں کی کثرت ہو گی۔ یہاں تک کہ مرد عورت کے ساتھ گزرگاہوں میں ہی بدکاری کرنے لگے گا اور اُس زمانے میں جو ان میں سے بہتر شخص ہو گا اُن سے کہے گا: (تمہاری بے حیائی کی انتہاء یہ ہے کہ) تم راستے سے بھی ہٹنا گوارا نہیں کرتے۔ اس زمانے میں بھیڑیے کا دل رکھنے والوں نے بھیڑ کی کھال پہن رکھی ہو گی (یعنی لوگ باہر سے نرم مزاج اور اندر سے ظالم اور خونخوار ہوں گے)۔ اُس زمانے میں اُن میں سے اچھے لوگ بھی خوشامد کریں گے۔
اِس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
21۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَسْلَمُ لِذِي دِيْنٍ دِيْنُهٗ إِلَّا مَنْ ھَرَبَ بِدِيْنِهٖ مِنْ شَاھِقٍ إِلٰی شَاھِقٍ وَمِنْ جُحْرٍ إِلٰی جُحْرٍ فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ الزَّمَانُ لَمْ تُنَلِ الْمَعِيْشَةُ إِلَّا بِسَخَطِ اللهِ، فَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ کَانَ ھِـلَاکُ الرَّجُلِ عَلٰی یَدَي زَوْجَتِهٖ وَوَلَدِهٖ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَهٗ زَوْجَةٌ وَلَا وَلَدٌ کَانَ ھِلَاکُهٗ عَلٰی یَدَي أَبَوَيْهِ، فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَهٗ أَبَوَانِ کَانَ ھِلَاکُهٗ عَلٰی یَدَي قَرَابَتِهٖ أَوِ الْجِيْرَانِ۔ قَالُوْا: کَيْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: یُعَیِّرُوْنَهٗ بِضِيْقِ الْمَعِيْشَةِ فَعِنْدَ ذٰلِکَ یُوْرِدُ نَفْسَهُ الْمَوَارِدَ الَّتِي تَھْلِکُ فِيْھَا۔
رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ وَالْمُنْذِرِيُّ۔
21: أخرجہ البیھقي في کتاب الزھد الکبیر، 2/ 183، الرقم/ 439، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 3/ 299، الرقم/ 4152۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دیندار آدمی کا دین سلامت نہیں رہے گا سوائے اُس شخص کے جو اپنا دین بچانے کے لیے کسی پہاڑی کی چوٹی سے دوسری چوٹی پر یا ایک سرنگ سے دوسری سرنگ میں اپنا دین اپنے ساتھ لے کر نہ بھاگتا پھرے۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اس وقت معیشت صرف اُنہی ذرائع سے حاصل ہو گی جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔ جب ایسا زمانہ آ جائے تو اُس وقت آدمی کی ہلاکت کی وجہ اُس کی بیوی یا اُس کی اولاد ہو گی اور اگر کسی کی بیوی اور اولاد نہ ہوئی تو اس کے والدین اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ اگر اس کے والدین نہ ہوئے تو اس کی ہلاکت اس کے قریبی رشتہ داروں یا ہمسایوں کے ہاتھوں ہو گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں کر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اُسے تنگی معاش (پیسے کی کمی) کا طعنہ دیں گے جس کی وجہ سے وہ (دولت سمیٹنے کے لیے) اپنے آپ کو ایسے اُمور میں ملوث کر لے گا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔
اِس حدیث کو امام بیہقی اور منذری نے روایت کیا ہے۔
22۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما یُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهٗ قَالَ: مِنْ اِقْتِرَابِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوْضَعَ الأَخْیَارُ وَیُفْتَحَ الْقَوْلُ وَیُخْزَنَ الْعَمَلُ وَیُقْرَأَ بِالْقَوْمِ، اَلْمَثْنَاةُ لَيْسَ فِيْھِمْ أَحَدٌ یُنْکِرُھَا۔ قِيْلَ: وَمَا الْمَثْنَاةُ؟ قَالَ: مَا اکْتُتِبَتْ سِوٰی کِتَابِ اللهِ۔
رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔
22: أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4/ 597، الرقم/ 8660، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 326۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قربِ قیامت (کی نشانیوں) میں سے یہ بھی ہے کہ (سوسائٹی میں) اشرار (یعنی برے لوگوں) کا رتبہ بلند اور اَخیار (نیکو کاروں) کا رتبہ گرا دیا جائے گا اور قیل و قال (یعنی بحث و مناظرہ) عام ہو جائے گا اور عمل پر تالے پڑ جائیں گے۔ لوگوں میں مثناۃ پڑھی جائے گی اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس کا انکار (یعنی اس کے خلاف آواز بلند) نہیں کرے گا۔ عرض کیا گیا: مَثْنَاۃ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب (اور اُس کی تعلیمات) کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہو گا وہ مثناۃ ہے (اور اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی جائے گی گویا قرآنی تعلیمات کی کھلی مخالفت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی)۔
اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved