1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم: بُني الإسلام علی خمس، 1 / 12، الرقم: 8، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان أرکان الإسلام ودعائمه العظام، 1 / 45، الرقم: 16، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء بني الإسلام علی خمس، 5 / 5، الرقم: 2609، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب علی کم بني الإسلام، 8 / 107، الرقم: 5001.
’’حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رضی الله عنه، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ. قَالَ: مَا لَهُ مَا لَهُ؟ وَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَرَبٌ مَا لَهُ، تَعبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 / 505، الرقم: 1332، وأيضًا في کتاب الأدب، باب فضل صِلةِ الرَّحمِ، 5 / 2231، الرقم: 5637، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الإيمان الذي يدخل به الجنة، وأن من تمسک بما أمر به دخل الجنة، 1 / 42، الرقم: 13، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 418، الرقم: 23596، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 445، الرقم: 5880.
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ نبوی میں عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ (اس شخص کو آگے بڑھتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے دیکھ کر لوگوں نے) کہا: اسے کیا ہوا ہے؟ اسے کیا ہوا؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کچھ نہیں ہوا۔ اسے مجھ سے کام ہے۔ اسے کہنے دو۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا:) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رشتہ داروں سے میل جول رکھو اور حسنِ سلوک کرو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ أَعْرَابِهًّا أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقالَ: دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ، إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّي الزَّکَاةَ الْمَفْرُوْضَةَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ. قَالَ: وَالَّذي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا أَزِيدُ عَلٰی هٰذَا. فَلَمَّا وَلّٰی، قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلٰی هٰذَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2 / 506، الرقم: 1333، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة وأن تمسک بما أمر به دخل الجنة، 1 / 44، الرقم: 14، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 12، وأبوعوانة في المسند، 1 / 17، الرقم: 4، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 / 207.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ایسے عمل کی طرف میری راہنمائی فرمائیں جسے انجام دینے سے جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ فرض نمازیں اور مقررہ زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس اعرابی نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں ان اَحکام پر کوئی اضافہ نہیں کروں گا۔ پس جب وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جسے اہلِ جنت میں سے کسی کو دیکھنا پسند ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيْبًا مِنْهُ، وَنَحْنُ نَسِيْرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ. قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيْرٌ عَلٰی مَنْ يَسَّرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ. ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أَدُلُّکَ عَلٰی أَبْوَابِ الْخَيْرِ: اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِیُ الْخَطِيْئَةَ، کَمَا يُطْفِیُ الْمَاءُ النَّارَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ.
4: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 231، الرقم: 22069، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في حرمة الصلاة، 5 / 11، الرقم: 2616، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنة، 2 / 1314، الرقم: 3973، والمستدرک في الحاکم، 2 / 447، الرقم: 3548، وابن حبان في الصحيح، 1 / 447، الرقم: 214، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 194، الرقم: 20303، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 131، الرقم: 266.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا، ایک روز چلتے چلتے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوگیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے مجھ سے بہت بڑی بات کا سوال کیا، البتہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے اس کے لئے آسان ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں نیکی کے دروازے نہ بتلاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا (مٹا) دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حدیث کے مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
5. عَنْ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ الْمُصَلُّوْنَ، وَمَنْ يُقِيْمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ الَّتِي کَتَبَهُنَّ اللهُ عَلٰی عِبَادِهِ، وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَيَحْتَسِبُ صَوْمَهُ، وَيُؤْتِي الزَّکَاةَ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ يَحْتَسِبُهَا، وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ الَّتِي نَهَی اللهُ عَنْهَا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَمِ الْکَبَاءِرُ؟ قَالَ: هِيَ تِسْعٌ: أَعْظَمُهُنَّ الإِشْرَاکُ بِاللهِ، وَقَتْلُ الْمُؤْمِنِ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ، وَالسِّحْرُ، وَأَکْلُ مَالِ الْيَتِيْمِ، وَأَکْلُ الرِّبَا، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ الْمُسْلِمَيْنِ، وَاسْتِحْلالُ الْبَيْتِ الْحَرَامِ، قِبْلَتُکُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا. لَا يَمُوتُ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ هٰؤُلَاءِ الْکَبَاءِرَ، وَيُقِيْمُ الصَّلَاةَ وَيُؤْتِي الزَّکَاةَ، إِلَّا رَافَقَ مُحَمَّدًا فِي بُحْبُوحَةِ جَنَّةٍ، أَبْوَابُهَا مَصَارِيْعُ الذَّهَبِ.
رَوَاهُ اْلحَاکِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
5: أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 127، الرقم: 197، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 47، الرقم: 101، والبيهقی في السنن الکبریٰ، 10 / 186، الرقم: 20541.
’’حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: نمازی اللہ کے ولی ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر فرض کردہ پانچ نمازوں کی پابندی کرتا ہے، اَجر و ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے، خوش دلی سے حصولِ ثواب کے لئے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے (وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ولی ہے)۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کبائر کتنے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کبیرہ گناہ نو ہیں: ان میں سے سنگین ترین اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے، مومن کو ناحق قتل کرنا، جنگ میں فرار ہو جانا، پاک دامن عورت پر الزام لگانا، جادو کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا اور بیت اللہ شریف کی حرمت کو پامال کرنا ہے۔ جس شخص کو اس حالت میں موت آئے کہ اس نے ان کبائر میں سے کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو، نماز قائم کرتا رہا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہو وہ ایسی جنت کے وسط میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ ہوگا جس کے دروازوں کی چوکٹھیں سونے کی بنی ہوئی ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں۔
6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ مِنْ أُمَّتِهِ: اکْفَلُوا لِي بِسِتِّ خِصَالٍ وَأَکْفُلُ لَکُمْ بِالْجَنَّةِ. قُلْتُ: مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالً: اَلصَّلَاةُ، وَالزَّکَاةُ، وَالأَمَانَةُ، وَالْفَرْجُ، وَالْبَطْنُ وَاللِّسَانُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
6: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 154، الرقم: 4925، وأيضًا، 8 / 208، الرقم: 8599، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 150، الرقم: 554، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 293.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں سے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ (چھ چیزیں) کون سی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز و زکوٰۃ (کی ادائیگی)، امانت داری، شرم گاہ (کی حفاظت)، پیٹ (کو حرام سے بچانا)اور زبان (سے بری بات نہ کہنا)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ أَدّٰی رَجُلٌ زَکَاةَ مَالِهِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ أَدّٰی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ والْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
7: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 13، الرقم: 2258، والحاکم في المستدرک، 1 / 547، الرقم: 1439، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 353، الرقم: 9830، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 161، الرقم: 1579.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول الله! اس آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس سے اس کے مال کا شر جاتا رہا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن خزیمہ، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ طبرانی کے ہیں اور امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَدَّيْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَکُنْ لَهُ فِيْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ إِصْرُهُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
8: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 8 / 110، الرقم: 2471، وابن حبان في الصحيح، 5 / 11، الرقم: 3216، والحاکم في المستدرک، 1 / 547، الرقم: 1440، والبيهقی في السنن الکبریٰ، 4 / 84، الرقم: 7032.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کر دیا، اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کردے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہوگا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ، ابن حبان اورحاکم نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
9. عَنِ الْحَسَنِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: حَصِّنُوا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ. رَوَاهُ أَبُو دَاؤدَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
9: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب المراسيل، باب الزکاة والصدقات، 62، الرقم: 96، والطبراني عن عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما في المعجم الأوسط، 2 / 274، الرقم: 1963، وأيضًا في المعجم الکبير، 10 / 128، الرقم: 10194، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 282، الرقم: 3557، والديلمي في مسند الفردوس عن أنس بن مالک، 2 / 129، الرقم: 2658.
’’حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ بنا لو اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، أَنَّهُ قَالَ: أَتٰی رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي ذُو مَالٍ کَثِيرٍ، وَذُو أَهْلٍ وَوَلَدٍ وَحَاضِرَةٍ، فَأَخْبِرْنِي کَيْفَ أُنْفِقُ، وَکَيْفَ أَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: تُخْرِجُ الزَّکَاةَ مِنْ مَالِکَ فَإِنَّهَا طُهْرَةٌ تُطَهِرُکَ، وَتَصِلُ أَقْرِبَاءَکَ، وَتَعْرِفُ حَقَّ السَّاءِلِ وَالْجَارِ وَالْمِسْکِينِ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَقْلِلْ لِي. قَالَ: فَأْتِ ذَا القُرْبٰی حَقَّهُ، وَالْمِسْکِيْنَ، وَابْنَ السَّبِيْلِ، وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْزِيْراً. فَقَالَ: حَسْبِيْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِذا أَدَّيْتُ الزَّکَاةَ إِلٰی رَسُوْلِکَ فَقَدْ بَرِئْتُ مِنْهَا إِلَی اللهِ وَرَسُوْلِهِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: نَعَمْ، إِذَا أَدَّيْتَهَا إِلٰی رَسُوْلِي فَقَدْ بَرِئْتَ مِنْهَا، فَلَکَ أَجْرُهَا وَإِثْمُهَا عَلٰی مَنْ بَدَّلَهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
10: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 136، الرقم: 12417، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 338، الرقم: 8802، والحاکم في المستدرک، 2 / 392، الرقم: 3374، والهيثمي في مسند الحارث، 1 / 385، الرقم: 288، والبيهقی في السنن الکبری، 4 / 97، الرقم: 7075.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بنو تمیم کا ایک شخص رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا: یا رسول الله! میں بہت مالدار، کثیر اہل و عیال اور خاندان والا شخص ہوں، آپ مجھے ہدایت فرما دیں کہ میں کیسے خرچ کروں اور کس کام پر کروں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے مال میں سے زکوۃ ادا کیا کرو کیونکہ زکوۃ وہ پاکیزگی ہے جو تجھے پاک کر دے گی اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرو، اور سوال کرنے والے اور ہمسائے اور مسکین کاحق پہچان لیا کرو۔ اس نے عرض کیا: یا رسول الله! کچھ کم کر دیجئے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔ وہ کہنے لگا: یا رسول الله! بس یہ میرے لئے کافی ہے، جب میں اپنے مال کی زکوٰۃ آپ کے قاصدوں کے حوالے کر دوں تو الله اور اس کے رسول کی نگاہوں میں، میں بری ہو جاؤں گا؟ اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! جب تم میرے قاصد کو زکوٰۃ ادا کر دو تو تم اس سے عہدہ برآ ہو گئے اور تمہیں اس کا اجر ملے گا اور گناہ اُس کے ذمے ہو گا جو اس میں تبدیلی کردے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ عَلْقَمَةَ رضی الله عنه، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَهُمْ عَامُ الْمُرَيْسِيْعِ حِيْنَ أَسْلَمُوْا: مِنْ تَمَامِ إِسْلَامِکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا زَکَاةَ أَمْوَالِکُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
11: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 8، الرقم: 6، والشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 309، الرقم: 2334، وابن القانع في معجم الصحابة، 2 / 285، الرقم: 816.
’’حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، عام المریسیع میں جب وہ اسلام لائے تو انہیں فرمایا: تمہارے اسلام کی تکمیل میں سے ایک یہ ہے کہ تم اپنے مال کی (کامل) زکوٰۃ ادا کیا کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنهما يَقُولَانِ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَکَبَّ فَأَکَبَّ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْکِي لَا نَدْرِي عَلٰی مَاذَا حَلَفَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأسَهُ، فِي وَجْهِهِ الْبُشْرٰی، فَکَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ وَيُخْرِجُ الزَّکَاةَ، وَيَجْتَنِبُ الْکَبَاءِرَ السَّبْعَ، إِلَّا فُتِّحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. فَقِيلَ لَهُ: ادْخُلْ بِسَلَامٍ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
12: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5 / 8، الرقم: 2438، والبخاري في التاريخ الکبير،4 / 316، الرقم: 2967.
’’حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے)۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھک گئے اور ہم میں سے ہر شخص جھک کر رونے لگا لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کونسی قسم کھائی، بعد ازاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرئہ انور پر مسرت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ خوشی ہمیں (انتہائی قیمتی) سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ بعد ازاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچ نمازیں صحیح ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، (اپنے مال سے) زکوٰۃ نکالے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچے تواس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ پھر اُسے ارشاد فرمایا جائے گا: سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
13. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْغَاضِرِيِّ مِنْ غَاضِرَةِ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِيمَانِ، مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهُ وَأَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَعْطٰی زَکَاةَ مَالِهِ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، رَافِدَةً عَلَيْهِ کُلَّ عَامٍ، وَلَا يُعْطِي الْهَرِمَةَ وَلَا الدَّرِنَةَ وَلَا الْمَرِيضَةَ وَلَا الشَّرَطَ اللَّئِيمَةَ، وَلٰکِنْ مِنْ وَسَطِ أَمْوَالِکُمْ، فَإِنَّ اللهَ لَمْ يَسْأَلْکُمْ خَيْرَهُ وَلَمْ يَأمُرْکُمْ بِشَرِّهِ. رَوَاهُ أَبُودَاؤدَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
13: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في الزکاة السائمة، 2 / 103، الرقم: 1582، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 334، الرقم: 555، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 31، الرقم: 54، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 85، الرقم: 2461، والبيهقی في السنن الکبری، 4 / 95، الرقم: 7067.
’’قبیلہ غاضرہ قیس کے حضرت عبد الله بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین کام ایسے ہیں کہ جو شخص انہیں سر انجام دے وہ ایمان کی حلاوت محسوس کرے گا: جو شخص یہ یقین رکھتے ہوئے ایک الله کی عبادت کرے کہ الله تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں؛ اپنے مال کی زکوٰۃ ہر سال خوش دلی اور فراخ دلی سے ادا کرے؛ بوڑھا، خارش زدہ، بیمار اور گھٹیا جانور زکوٰۃ میں نہ دے بلکہ درمیانہ مال دے کہ یقیناً الله تعالیٰ نے تم سے نہ تو بہترین مال مانگا ہے اور نہ ہی برا مال دینے کا حکم دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا، وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَکَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: أَتُعْطِيْنَ زَکَاةَ هٰذَا؟ قَالَتْ: لَا؟ قَالَ أَيَسُرُّکِ أَنْ يُسَوِّرَکِ اللهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟ قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا فَأَلْقَتْهُمَا إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَقَالَتْ: هُمَاللهِ وَلِرَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ.
14: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 204، الرقم: 6901، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب الکنز ما هو وزکاة الحلي، 2 / 95، الرقم: 1563، والنسائي في السنن کتاب الزکاة، باب زکاة الحلي، 5 / 38، الرقم: 2479، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 4 / 140، الرقم: 3740.
’’عمرو بن شعیب نے اپنے والد ماجد سے اور انہوں نے ان کے جد امجد حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جس نے سونے کے دو بھاری کنگن پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ وہ عرض گزار ہوئی: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تمہیں اچھا لگتا ہے کہ قیامت کے روز ان کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے؟ پس اس نے انہیں اُتار کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض گزار ہوئی: یہ دونوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، أَوْ: وَالَّذِي لَا إِلٰهَ غَيْرُهُ، أَوْ کَمَا حَلَفَ. مَا مِنْ رَجُلٍ تَکُونُ لَهُ إِبِلٌ، أَوْ بَقَرٌ، أَوْ غَنَمٌ، لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُتِيَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَعْظَمَ مَا تَکُونُ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، کُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتّٰی يُقْضٰی بَيْنَ النَّاسِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب زکاة البقرة، 2 / 530، الرقم: 1391، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب تغليظ عقوبة من لا يؤدي الزکاة، 2 / 686، الرقم: 990، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 169، الرقم: 21529، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم في منع الزکاة من التشديد، 3 / 12، الرقم: 617، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة باب التغليظ في حبس الزکاة، 5 / 10، الرقم: 2440، والبزار في المسند، 9 / 400، الرقم: 3993.
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، یا قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، یا جس طرح بھی قسم کھائی۔ کوئی آدمی ایسا نہیں جس کے پاس اونٹ یا گائیں یا بکریاں ہوں اور وہ ان کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ جانور اس طرح لائے جائیں گے کہ پہلے سے بہت بڑے اور موٹے تازہ ہوں گے۔ وہ اسے اپنے کُھروں سے روندیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے۔ جب آخری جانور بھی اس کے اوپر سے گزر جائے گا تو پہلا پھر آ جائے گا (اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا) یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَکَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيْبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَيْهِ، يَعْنِي شِدْقَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا مَالُکَ، أَنَا کَنْزُکَ، ثُمَّ تَلَا ﴿وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ [آل عمران، 3: 180]. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة، 2 / 508، الرقم: 1338، وأيضًا في کتاب التفسير، باب ﴿وَلَا يَاْ مُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰائِکَةَ وَالنَّبِيّنَ اَرْبَابًا﴾، 4 / 1663، الرقم: 4289، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 355، الرقم: 8646، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب مانع زکاة ماله، 5 / 39، الرقم: 2482.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے روز اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی، جس کے سر پر دو سیاہ نشان ہوں گے۔ قیامت کے روز اُسے اُس کا طوق پہنایا جائے گا، پھر وہ اس کے دونوں جبڑوں کو ڈسے گا، پھر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: (اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا)۔ اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنهما، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ رَجُلٍ لَا يُؤَدِّي زَکَاةَ مَالِهِ، إِلَّا جَعَلَ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي عُنُقِهِ شُجَاعًا، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا مِصْدَاقَهُ مِنْ کِتَابِ اللهِ: ﴿وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾، وَقَالَ مَرَّةً، قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِصْدَاقَهُ: ﴿سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ [آل عمران، 3: 180] وَمَنِ اقْتَطَعَ مَالَ أَخِيْهِ الْمُسْلِمِ بِيَمِيْنٍ، لَقِيَ اللهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِصْدَاقَهُ مِنْ کِتَابِ اللهِ، ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا اُولٰئِکَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَلَا يُکَلِّمُهُمُ اللهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَکِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌo﴾. [آل عمران، 3: 77].
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
17: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 / 232، الرقم: 3012، والنسائي في السنن الکبریٰ، کتاب الزکاة، باب التغليظ في حبس الزکاة، 2 / 7، الرقم: 2221، وأبو عوانة في المسند، 4 / 45، الرقم: 5973، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب الزکاة، باب ما ورد من الوعيد فيمن کنز مال زکاة ولم يؤد زکاته، 4 / 81، الرقم: 7016.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی گردن میں بہت بڑا سانپ ڈالے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطورِ دلیل یہ آیت مبارکہ پڑھی: (اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے)۔ راوی نے کہا: ایک مرتبہ بطور دلیل یہ آیت بھی پڑھی: (عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے) اور فرمایا: جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان بھائی کا مال ہتھیالے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطورِ دلیل یہ آیتِ کریمہ پڑھی: (بے شک جو لوگ الله کے عہد اور اپنی قسموں کا تھوڑی سی قیمت کے عوض سودا کر دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ قیامت کے دن الله ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی ان کی طرف نگاہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاکیزگی دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔)
اِس حدیث کو امام ترمذی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
18. عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ، . . . قَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَاللهِ، لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ، فَإِنَّ الزَّکَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ، لَوْ مَنَعُوْنِي عَنَاقًا کَانُوْا يُؤَدُّونَهَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَقَاتَلْتُهُمْ عَلٰی مَنْعِهَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل من أبی قبول الفرائض وما نسبوا إلی الردة، 6 / 2538، الرقم: 6526، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتی يقولوا: لا إله إلا الله محمد رسول الله 1 / 51، الرقم: 20، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 19، الرقم: 117، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا لا إله إلا الله، 5 / 3، الرقم: 2607، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، 2 / 93، الرقم: 1556، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب مانع الزکاة 5 / 14، الرقم: 2443.
’’عبید اللہ بن عبد الله بن عتبہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو۔ ۔ ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے، کیونکہ زکوٰۃ مالی حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر وہ اونٹ کا بچہ بھی دینے سے انکار کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں (بطورِ زکوٰۃ) دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس روکنے پر ضرور ان کے ساتھ جنگ کروں گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ: ﴿وَالَّذِينَ يَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ﴾ [التوبة، 9: 34] قَالَ: کَبُرَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه: أَنَا أُفَرِّجُ عَنْکُمْ. فَانْطَلَقَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّهُ کَبُرَ عَلٰی أَصْحَابِکَ هٰذِهِ الْآيَةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ لَمْ يَفْرِضِ الزَّکَاةَ إِلَّا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِکُمْ، وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ لِتَکُونَ لِمَنْ بَعْدَکُمْ. فَکَبَّرَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا أُخْبِرُکَ بِخَيْرِ مَا يَکْنِزُ الْمَرْئُ: اَلْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ. رَوَاهُ أَبُودَاؤدَ وَالْحَاکِمُ.
19: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في حقوق المال، 2 / 126، الرقم: 1664، والحاکم فيالمستدرک، کتاب الزکاة، 1 / 567، الرقم: 1487، وأبو يعلی في المسند، 4 / 378، الرقم: 2499، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب الزکاة، باب تفسير الکنز الذي ورد الوعيد فيه، 4 / 83، الرقم: 7027.
’’حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے: جب یہ آیت (اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں) نازل ہوئی تو مسلمانوں کو یہ بات بہت مشکل نظر آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ حضرات کی مشکل میں حل کرتا ہوں۔ پس وہ بارگاہِ نبوی میں جاکر عرض گزار ہوئے: یا نبی اللہ! اس آیت پر عمل کرنا آپ کے اصحاب کو بڑا مشکل نظر آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو فرض نہیں فرمایا مگر باقی مال کو پاک کرنے کے لیے اور میراث کو فرض فرمایا ہے تاکہ وہ تمہارے بعد والوں کے لیے ہوجائے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں آدمی کا بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے کہ جب آدمی اس کی طرف دیکھے تو وہ عورت اُسے خوشی دے اور جب اسے حکم دے تو تعمیل کرے اور جب وہ غائب ہو تو (خاوند کے گھر بار اور اپنی عزت و ناموس کی) حفاظت کرے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، أَنَّ الْعَبَّاسَ رضی الله عنه سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذٰلِکَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُودَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِیِّ.
20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 104، الرقم: 822، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في تعجيل الزکاة 2 / 115، الرقم: 1624، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في تعجيل الزکاة، 3 / 63، الرقم: 678، وابن ماجه في السنن، باب تعجيل الزکاة، قبل محلها، 1 / 572، الرقم: 1795، والدارمي في السنن، کتاب الزکاة، باب في تعجيل الزکاة، 1 / 470، الرقم: 1636، والحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، باب ذکر إسلام العباس، 3 / 375، الرقم: 5431، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 48، الرقم: 2330، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب الأيمان، باب الکفّارة قبل الحنث، 10 / 54، الرقم: 19751.
’’حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وقت سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
21. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِيمَا دُوْنَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عًلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
21: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ليس فيما دون خمس زود صدقة، 2 / 529، الرقم: 1390، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، 2 / 675، الرقم: 980، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الرقم: 11831، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الورق، 5 / 36، الرقم: 2474، ومالک في الموطأ، کتاب الزکاة، 1 / 244، الرقم: 578.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولہ: 36ء6120 گرام) چاندی سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ واجب ہے اور نہ پانچ وسق (بتیس من) کھجوروں سے کم میں زکوٰۃ (واجب) ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
22. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: فَإِذَا کَانَتْ لَکَ مِاءَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ، فَفِيْهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ عَلَيْکَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي الذَّهَبِ حَتّٰی تَکُوْنَ لَکَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا کَانَ لَکَ عِشْرُوْنَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَعَلِيٌّ يَقُوْلُ فَبِحِسَابِ ذٰلِکَ أَوْ رَفَعَهُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَکَاةٌ حَتّٰی يَحُوْلَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، إِلَّا أَنَّ جَرِيْرًا. قَالَ: ابْنُ وَهْبٍ يَزِيْدُ فِي الْحَدِيْثِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَيْسَ فِي مَالٍ زَکَاةٌ حَتّٰی يَحُوْلَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاؤدَ.
22: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في زکاة السائمة، 2 / 100، الرقم: 1573، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب الزکاة، باب نصاب الذھب وقدر الواجب فيه إذا حال عليه الحول، 4 / 137، الرقم: 7325.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوجائیں اور ان پر سال گزر جائے تو ان پر پانچ درہم ہیں اور سونے میں تم پر کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ بیس دینار ہوجائیں۔ جب تمہارے پاس بیس دینار ہوجائیں اور ان پر سال گزر جائے تو ان پر نصف دینار زکوٰۃ ہے۔ زیادہ ہوں تو اسی حساب سے۔ نہیں معلوم کہ فبحساب ذٰلک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اور مال میں اس وقت تک زکوٰۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔ جریر نے ابن وہب سے روایت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی مال پر اس وقت تک زکوٰۃ نہیں جب تک اُس پر سال نہ گزر جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيْقِ، فَهَاتُوْا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ کُلِّ أَرْبَعِيْنَ دِرْهَمًا، دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِيْنَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ، فَفِيْهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
23: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 92، الرقم: 711، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في زکاة السائمة، 2 / 101، الرقم: 1574، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في زکاة الذهب والورق، 3 / 16، الرقم: 620، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب الزکاة، باب لا صدقة في الخيل، 4 / 117، الرقم: 7198.
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے (خدمت کے) گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کر دی، پس چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو، چالیس درہموں میں ایک درہم ہے۔ ایک سو ننانوے (درہموں) پر کچھ (واجب) نہیں، جب دو سو (درہم) ہو جائیں تو ان پر پانچ درہم (زکوٰۃ واجب) ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابوداود اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
24. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فِيْمَا سَقَتِ الأَنْهَارُ وَالْعُيُوْنُ الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي فَفِيْهِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ.
24: أخرجه أبو داود، کتاب الزکاة، باب الرجل يبتاع صدقته، 2 / 108، الرقم: 1597، والنسائي في السنن الکبری، کتاب الزکاة، باب ما يوجب العشر و ما يوجب نصف العشر، 2 / 22، الرقم: 2268، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 278، الرقم: 13109.
’’حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس زمین کو نہر یا چشمے سیراب کریں اس میں عشر (دسواں حصہ) ہے، اور جس زمین کو رہٹ سے سیراب کیا جائے اس میںنصف عشر ( بیسواں حصہ) ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔
25. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَيْسَ فِيْمَا دُوْنَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيْمَا دُوْنَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيْمَا دُوْنَ خَمْسِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
25: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ما أدی زکاته فليس بکنز لقول النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 509، الرقم: 1340، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، 2 / 673، الرقم: 979، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب ما تجب فيه الزکاة، 2 / 94، الرقم: 1558، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب من استفاد مالا، 1 / 571، الرقم: 1793، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الرقيق، 5 / 36، الرقم: 2774.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ اوقیہ (ساڑے باون تولہ چاندی) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق (اناج) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
26. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: فِيْمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ وَالْغَيْمُ الْعُشُورُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
26: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب ما فيه العشر أو نصف العشر، 2 / 675، الرقم: 981، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 38، الرقم: 2309، والدار قطني في السنن، کتاب الزکاة، باب في قدر الصدقة فيما أخرجت الأرض وخرص الثمار، 2 / 130، الرقم: 10.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوںنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جن زمینوں کو دریا اور بارش سیراب کریں ان میں عشر (یعنی دسواں حصہ دینا واجب) ہے اور جو زمینیں اونٹ کے ذریعہ سیراب کی جائیں ان میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ دینا واجب) ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ خَصِيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ زَکَاةِ الطَّعَامِ، فَقَالَ: فِيْمَا قَلَّ مِنْهُ أَوْ کَثُرَ الْعُشْرُ وَنِصْفُ الْعُشْرِ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
27: أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، کتاب الزکاة، باب زکاة ما يخرج الأرض، 2 / 88، الرقم: 3020، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 371، الرقم: 10028.
’’حضرت خصیف حضرت مجاہد سے راویت کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے حضرت مجاہد سے غلہ کی زکوۃ کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا: پیداوار کم ہو یا زیادہ اس میں عشر اور نصف عشر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طحاوی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ: فِي کُلِّ شَيْئٍ أَخْرَجَتِ الْأَرْضُ الصَّدَقَةُ.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
28: أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، کتاب الزکاة، باب زکاة ما يخرج الأرض، 2 / 88، الرقم: 3019، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 371، الرقم: 10029.
’’حضرت ابراہیم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: زمین کی ہر پیداوار میں زکوۃ واجب ہے۔‘‘ اسے امام طحاوی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لِأَبِي دَاؤدَ.
29: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 407، الرقم: 9270، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب الرجل يبتاع صدقته، 2 / 108، الرقم: 1595، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الخيل، 5 / 35، الرقم: 2469، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة الخيل والرقيق، 1 / 579، الرقم: 1812، ومالک في الموطأ، 1 / 277، الرقم: 611.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان پر اس کی لونڈی، غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو داود، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ابوداود کے ہیں۔
30. عَنْ زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِ اللهِ، قَالَتْ: کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّکُنَّ. وَکَانَتْ زَيْنَبُ تُنْفِقُ عَلٰی عَبْدِ اللهِ وَأَيْتَامٍ فِي حَجْرِهَا. قَالَ: فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللهِ: سَلْ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْکَ وَعَلٰی أَيْتَامِی فِي حَجْرِي مِنَ الصَّدَقَةِ؟ فَقَالَ: سَلِي أَنْتِ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَوَجَدْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَی الْبَابِ، حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي، فَمَرَّ عَلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا: سَلِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلٰی زَوْجِي وَأَيْتَامٍ لِي فِي حَجْرِي. وَقُلْنَا: لَا تُخْبِرْ بِنَا. فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَنْ هُمَا؟ قَالَ: زَيْنَبُ، قَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ قَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: نَعَمْ لَهَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
30: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الزکاة علی الزوج والأيتام في الحجر، 2 / 533، الرقم: 1397، والنسائي في السنن الکبریٰ، کتاب عشرة النساء، باب الفضل في نفقة المرأة علی زوجها، 5 / 381، الرقم: 9202، وأبوعوانة في المسند، 2 / 149، الرقم: 2623.
’’حضرت عبد الله (بن مسعود) رضی اللہ عنہما کی زوجہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں مسجد میں تھی تو میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کرو خواہ اپنے زیوروں سے۔ حضرت زینب اپنے خاوند حضرت عبد الله (بن مسعود) رضی اللہ عنہما اور اپنے زیرِ کفالت یتیم بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔ انہوں نے حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ سے گزارش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھیے کہ کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں زکوٰۃ سے آپ پر اور اپنے زیرِ کفالت بچوں پر خرچ کروں۔ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تم خود ہی پوچھو۔ پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل پڑی تو انصار کی ایک عورت کو دروازے پر پایا اور اس کی حاجت بھی میرے جیسی تھی، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھیے کہ اگر میں اپنے خاوند اور اپنے زیر کفالت یتیم بچوں پر خرچ کروں تو کیا یہ میرے لیے جائز ہے؟ اور ہم نے یہ بھی کہا کہ ہمارے متعلق نہ بتانا۔ وہ اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ کون ہیں؟ عرض کی زینب۔ فرمایا: کون سی زینب؟ عرض گزار ہوئے: عبد الله (بن مسعود) رضی اللہ عنہما کی بیوی۔ فرمایا: ہاں ان کے لیے دوہرا اجر ہے: ایک قرابت کا اجر اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
31. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَيْسَ الْمِسْکِينُ بِهٰذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوْفُ عَلَی النَّاسِ، فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ. قَالُوا: فَمَا الْمِسْکِينُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًی يُغْنِيْهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ، فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
31: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب قول الله تعالی: لاَ يَسئلونَ النَّاسَ إلحافًا، 2 / 538، الرقم: 1409، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب المسکين الذي لايجد غنی ولا يفطن له فيتصدق عليه، 2 / 719، الرقم: 1039، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 316، الرقم: 8172، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب تفسير المسکين، 5 / 85، الرقم: 2572، ومالک في الموطأ، کتاب صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم باب ما جاء في المسکين، 2 / 923، الرقم، 1645، والدارمي في السنن، کتاب الزکاة، باب المسکين الذي يتصدق عليه، 1 / 462، الرقم: 1615، وابن حبان في الصحيح، 8 / 139، الرقم: 3352.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے اور ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اس کو مستغنی کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی اور فقر کا پتا چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
32. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ رَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ غَارِمٍ، أَوْ غَازٍ فِي سَبِيْلِ اللهِ، أَوْ مِسْکِيْنٍ تُصُدِّقَ عَلَيْهِ مِنْهَا فَأَهْدٰی مِنْهَا لِغَنِيٍّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وأَبُوْ دَاؤدَ وَابْنُ مَاجَه.
32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم: 1155، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يجوز له أخذ الصدقة وهو غني، 2 / 119، الرقم: 1635، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب من تحل له الصدقة، 1 / 590، الرقم، 1841، ومالک في الموطأ، کتاب الزکاة، باب أخذ الصدقة ومن يجوز له أخذها، 1 / 268، الرقم: 604، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 109، الرقم، 1751، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 281، الرقم: 895.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مال دار کے لیے زکوۃ حلال نہیں ہے مگر پانچ قسم کے لوگوں کے لیے: زکوٰۃ کا عامل ہو، مال زکوٰۃ کو اپنے مال سے خریدے، یا مقروض ہو، یا الله کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو، یا مسکین کو صدقہ دیا اور مسکین نے اس میں سے غنی کو ہدیہ دیا۔
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
33. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إلَّا لِثَلاثَةٍ: لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ.
33: أخرجه أحمد بن حنبل في السند، 3 / 126، الرقم: 12300، وأبوداود في السنن کتاب الزکاة، باب ما تجوز فيه المسألة، 2 / 120، الرقم: 1641، وابن ماجه في السنن، کتاب التجارات، باب بيع المزايدة، 2 / 740، الرقم: 2198، والطيالسي في المسند، 1 / 285، الرقم: 2145.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص کے علاوہ کسی کے لئے سوال کرنا درست نہیں: ایک وہ شخص جو خاک پر لٹا دینے والی محتاجی میں مبتلا ہو، دوسرا وہ جو سخت قرضے میں گھر گیا ہو یا وہ شخص جسے دیت کی ادائیگی کی مجبور ی ہو۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللهِ أَوِ ابْنِ السَّبِيلِ، أَوْ جَارٍ فَقِيْرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَکَ، أَوْ يَدْعُوْکَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
34: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 97، الرقم: 11948، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يجوز له أخذ الصدقة وهو غنی، 2 / 119، الرقم: 1637، والبيهقی في السنن الکبریٰ، کتاب قسم الصدقات، باب سهم سبيل الله، 7 / 22، الرقم: 12978.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ حلال نہیں ہوتا غنی کے لیے مگر اس صورت میں جب وہ جہاد کرے یا مسافر ہو، یا غریب ہمسائے کو صدقہ دیا جاتا ہو اور وہ تمہیں بطورِ ہدیہ دے یا تمہاری دعوت کر دے (تو جائز ہے)۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابوداود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
35. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِیٍّ وَلَا ذِيْ مِرَّةٍ سَوِيٍّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيَُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيَُّ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَقَبِيْصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ، وَقَالَ: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوٰی شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ هٰذَا الْحَدِيْثَ بِهٰذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هٰذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ. وَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ قَوِهًّا مُحْتَاجًا وَلَمْ يَکُنْ عِنْدَهُ شَيْءٌ، فَتُصُدِّقَ عَلَيْهِ أَجْزَأَ عَنِ الْمُتَصَدِّقِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَوَجْهُ هٰذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَی الْمَسْأَلَةِ.
35: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 164، الرقم: 6530، وأبوداود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يعطی من الصدقة وحد الغنی، 2 / 118، الرقم: 1634، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء من لا تحل له الصدقة، 3 / 42، الرقم: 652، والنسائی فی السنن، کتاب الزکاة، باب إذا لم يکن له درهم وکان له عدلها، 5 / 99، الرقم: 2597، وابن ماجه في السنن، کتاب الزکاة، باب من سأل عن ظهر غنی، 1 / 589، الرقم: 1839.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غنی اور تندرست آدمی کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو داود اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں: اس باب میں حضرت ابوہریرہ، حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق سے بھی روایات منقول ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: حدیثِ عبد اللہ بن عمرو حسن ہے، شعبہ نے سعد بن ابراہیم سے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ غیر مرفوع روایت کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غنی اور تندرست کے لیے مانگنا جائز نہیں لیکن اگر تندرست شخص محتاج ہو اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور کوئی اسے زکوٰۃ دے دے تو دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ بعض علماء کے نزدیک اس حدیث کی بنیاد سوال (بھیک مانگنے) پر ہے (کہ بھیک مانگنا جائز نہیں)۔
36. عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ رضی الله عنه: قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُوَ يَقْسِمُ الصَّدَقَةَ فَسَأَلَاهُ مِنْهَا، فَرَفَعَ فِيْنَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ، فَرَآنَا جَلْدَيْنِ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُکُمَا، وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُکْتَسِبٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
36: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 224، الرقم: 18001، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يعطی من الصدقة وحد الغنی، 2 / 118، الرقم:1633، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب مسألة القوي المکتسب، 5 / 99، الرقم: 2598، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 109، الرقم: 7154، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 424، الرقم: 10666، والدارقطني في السنن، کتاب الزکاة، باب لا تحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي، 2 / 119، الرقم: 7، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 137، الرقم: 2722.
’’حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ دو آدمیوں نے مجھے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقے کا مال تقسیم فرما رہے تھے۔ پس انہوں نے اس میں سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نگاہیں جھکالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دیکھا کہ ہم دونوں موٹے تازے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں ورنہ اس میں غنی اور کمانے کے قابل طاقت ور کا حق نہیں ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابوداود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
37. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّعْدِيِّ: أَنَّهُ قَدِمَ عَلٰی عُمَرَ فِي خِلَافَتِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّکَ تَلِيَ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيْتَ الْعُمَالَةَ کَرِهْتَهَا؟ فَقُلْتُ: بَلٰی. فَقَالَ عُمَرُ: مَا تُرِيدُ إِلٰی ذٰلِکَ؟ قُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ تَکُونَ عُمَالَتِي صَدَقَةً عَلَی الْمُسْلِمِيْنَ. قَالَ عُمَرُ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي کُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُعْطِيْنِي الْعَطَاءَ، فَأَقُوْلُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتّٰی أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَکَ مِنْ هٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَاءِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلَّا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَعَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ: أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُعْطِيْنِي الْعَطَاءَ، فَأَقُوْلُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتّٰی أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَکَ مِنْ هٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَاءِلٍ فَخُذْهُ، وَمَالَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ.
37: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأحکام، باب رزق الحکام والعاملين عليها 6 / 2620، الرقم: 6744، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 17، الرقم: 100، وأيضًا، 1 / 21، الرقم: 136، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب من آتاه الله مالا من غير مسألة، 5 / 104، الرقم: 2607.
’’عبد الله بن سعدی بیان کرتے ہیں کہ جب وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اُن کے پاس حاضر ہوئے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے فرمایا: کیا مجھ سے یہ بیان نہیں کیا گیا کہ تم لوگوں کا کام کرتے ہو اور جب تمہیں معاوضہ دیا جاتا ہے تو تم اُسے نا پسند کرتے ہو؟ پس میں نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے تمہارا مقصد کیا ہے؟ میں عرض گزار ہوا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں مال بھی رکھتا ہوں، اس لیے چاہتا ہوں کہ میری اُجرت مسلمانوں پر خیرات ہوتی رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایسا ہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مال عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ فلاں کو دے دیجیے کہ وہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک دفعہ مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ اسے کسی اور کو عطا فرما دیجیے جو مجھ سے بڑھ کر حاجت مند ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور مال دار بن کر خیرات کرو۔ اگر مال تمہارے پاس اس طریقے سے آئے کہ تم اُس کے منتظر اور سائل نہ ہو تو اُسے لے لو ورنہ اپنے دل کو اُس کے پیچھے نہ چلاؤ۔‘‘اِس حدیث کو امام بخاری اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
’’زہری سے روایت ہے کہ انہیں سالم بن عبد الله نے بتایا: عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مال عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ یہ اُسے دے دیجیے جومجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ یہاں تک کہ مجھے ایک دفعہ مال عطا فرمایا تو میں عرض گزار ہوا کہ یہ مال اس کو عنایت فرما دیجیے جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہو۔ تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے لے کر مالدار ہو جاؤ اور پھر خود خیرات کرو، اور جو مال تمہارے پاس اس طرح آئے کہ تم اُس کے طلب گار یا سائل نہ ہو تو اُسے لے لو اور اگر نہ لینا ہو تو پھر اُس کے پیچھے دل کو نہ بھگاؤ۔‘‘
38. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلٰی رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَأَتَيْتُهُ وَقَعَدْتُ، فَاسْتَقْبَلَنِي، وَقَالَ، مَنِ اسْتَغْنٰی أَغْنَاهُ اللهُ، وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللهُ، وَمَنِ اسْتَکْفٰی کَفَاهُ اللهُ، وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ. فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَةٍ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
38: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 7، الرقم: 11059، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يعطی من الصدقة وحد الغنی، 2 / 116، الرقم: 1628، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب من الملحف، 5 / 98، الرقم: 2595، والدارقطني في السنن، 2 / 118، الرقم: 1، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 150، الرقم: 1630.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میری والدہ نے (شدید ضرورت کے تحت کچھ مانگنے کے لئے) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجا، میں حاضر ہو کر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا رُخِ انور میری طرف کر کے بیٹھے اور ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں سے بے نیاز ہوگا اللہ تعالیٰ اسے لوگوں سے بے نیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو شخص تھوڑے مال پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص بھیک مانگے گاحالانکہ اس کے پاس ایک اُوقیہ (چالیس درہم) کے برابر مال ہو گا تو اس نے الحاف کیا (یعنی گڑگڑا کر بھیک مانگی)۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میری یاقوتہ نامی اونٹنی ایک اوقیہ سے بڑھ کر ہے۔ میں واپس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال نہیں کیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ نسائی کے ہیں۔
39. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيْهِ، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَسْأَلَتُهُ فِي وَجْهِهِ خُمُوْشٌ، أَوْ خُدُوْشٌ، أَوْ کُدُوْحٌ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ الله، وَمَا يُغْنِيْهِ؟ قَالَ: خَمْسُوْنَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
39: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء من تحل له الزکاة، 3 / 40، الرقم: 650، والحاکم في المستدرک، 1 / 565، الرقم: 1479، والبيهقي في السنن الکبریٰ، کتاب قسم الصدقات، باب لا وقت فيما يعطی الفقراء والمساکين إلی مايخرجون به من الفقر والمسکنة، 7 / 24، الرقم: 12986.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس حالت میں (لوگوں سے) مانگاکہ اس کے پاس اتنا مال ہے جو اسے غنی کر دے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں زخموں اور خراشوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کتنا مال کسی کو غنی بنا دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پچاس درہم (چاندی) یا اس کی قیمت کا سونا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
40. عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ، کَدٌّ يَکُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا، أَوْ فِي أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
40: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 10، الرقم: 20118، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في النهي عن المسألة، 3 / 65، الرقم: 681، والنسائي في السنن کتاب الزکاة، باب مسألة الرجل في أمره بدله منه، 5 / 100، الرقم: 2600، وابن حبان في الصحيح، 8 / 181، الرقم: 3386، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 163، الرقم: 6769.
’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سوال (یعنی بھیک مانگنا) ایک زخم ہے جس کے ساتھ آدمی اپنا چہرہ زخمی کرتا ہے، البتہ کوئی شخص حکمران سے یا کسی ضروری اَمر میں سوال کرے (تو جائز ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
41. عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِیِّ، يَقُوْلُ: أَمَّرَنِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَومِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي مِنْ صَدَقَاتِهِمْ. فَفَعَلَ وَکَتَبَ لِي بِذٰلِکَ کِتَابًا. فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ اللهَ لَمْ يَرْضَ بِحُکْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ، حَتّٰی حَکَمَ فِيْهَا هُوَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَائٍ، فَإِنْ کُنْتَ مِنْ تِلْکَ الْأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُکَ مِنْهَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاؤدَ وَالطَّحَاوِيُّ .
41: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب من يعطي من الصدقة وحد الغني، 2 / 117، الرقم: 1630، والطحاوي في شرح معاني الٓاثار، کتاب الزکاة، باب ذي المرة السوي الفقير هل يحل له الصدقة أم لا، 2 / 65، الرقم: 2937، والبيهقي في السنن الکبریٰ، استدلالا بالآية في الصدقات، 4 / 173، الرقم: 7522.
’’حضرت زیاد بن سودائی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے میری قوم کا امیر مقرر فرمایا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ان کے صدقات میں سے کچھ دیجیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا اور مجھے اس کے متعلق تحریر عطا فرمائی۔ پھر ایک دوسرا شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے بھی عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے مالِ زکوٰۃ میں سے کچھ دیجیے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک تعالیٰ زکوٰۃ کے سلسلے میں نبی یا کسی اور شخص کے (ذاتی) فیصلے کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے آسمان سے فیصلہ نازل فرمایا۔ اس نے مالِ زکوٰۃ کو آٹھ قسم کے لوگوں میں تقسیم فرمایا ہے، اگر تم بھی ان میں سے ہو تو آؤ میں تمہیں اس میں سے دیتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابوداود اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved