1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَفِي رِوَايَةٍ: فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاء.
وَفِي رِوَايَةٍ: فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 3 / 1194، الرقم: 3103، وفيکتاب الصوم، باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا وقال النبي صلی الله عليه وآله وسلم: من صام رمضان وقال: لا تقدموا رمضان، 2 / 672، الرقم: 1800، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل شهر رمضان، 2 / 758، الرقم: 1079، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 281، الرقم: 7767، 7768، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب ذکر الاختلاف علی الزهري فيه، 4 / 126، 128، الرقم: 2097، 2101.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور ایک روایت میں ہے: ’’آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ‘‘
اور ایک روایت میں ہے: ’’رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ‘‘
قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ: وَعِبَارَتُهُ: فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، کِنَايَةٌ عَنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَةِ وَإِزَالَةُ الْغَلْقِ عَنْ مَصَاعِدِ أَعْمَالِ الْعِبَادِ تَارَةً بِبَذْلِ التَّوْفِيْقِ وَأُخْرٰی بِحُسْنِ الْقَبُوْلِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ کِنَايَةٌ عَنْ تَنَزُّهِ أَنْفُسِ الصُّوَّامِ عَنْ رِجْسِ الْفَوَاحِشِ وَالتَّخَلُّصِ مِنَ الْبَوَاعِثِ عَنِ الْمَعَاصِي بِقَمْعِ الشَّهَوَاتِ.
العسقلاني، فتح الباري، 4: 114.
’’حافظ عسقلانی کہتے ہیں: حدیث مبارکہ کی یہ عبارت کہ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، یہ کنایہ ہے اللہ کی رحمت کے نازل ہونے اور بندوں کے اعمال کی بلندی میں حائل رکاوٹ کے ازالہ سے جو کبھی توفیق مہیا کرنے کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی حسنِ قبول کے ساتھ۔ اور جہنم کے دروازے بند ہونے سے مراد ہے: روزے داروں کے نفوس کو فواحش کی پلیدی سے بچاؤ اور نفسانی خواہشات کے قلع قمع کے ذریعے نافرمانی کا سبب بننے والی چیزوں سے خلاصی۔ ‘‘
قَالَ الْعَيْنِيُّ: فَإِنْ قُلْتَ: قَدْ تَقَعُ الشُّرُوْرُ وَالْمَعَاصِي فِي رَمَضَانَ کَثِيْرًا، فَلَوْ سُلْسِلَتْ لَمْ يَقَعْ شَيئٌ مِنْ ذٰلِکَ. قُلْتُ: هٰذَا فِي حَقِّ الصَّائِمِيْنَ الَّذِيْنَ حَافَظُوْا عَلَی شُرُوْطِ الصَّوْمِ وَرَاعُوْا آدَابَهُ. وَقِيْلَ: الْمُسَلْسَلُ بَعْضُ الشَّيَاطِيْنِ وَهُمُ الْمَرَدَةُ لَا کُلُّهُمْ کَمَا تَقَدَّمَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ وَالْمَقْصُوْدُ تَقْلِيْلُ الشُّرُوْرِ فِيْهِ، وَهٰذَا أَمْرٌ مَحْسُوْسٌ. فَإِنَّ وُقُوْعَ ذٰلِکَ فِيْهِ أَقَلُّ مِنْ غَيْرِهِ. وَقِيْلَ لَا يَلْزِمُ مِنْ تَسَلْسُلِهِمْ وَتَصْفِيْدِهِمْ کُلِّهِمْ أَنْ لَا تَقَعَ شُرُوْرٌ وَلَا مَعْصِيَةٌ لِأَنَّ لِذٰلِکَ أَسْبَابًا غَيْرَ الشَّيَاطِيْنِ کَالنُّفُوْسِ الْخَبِيْثَةِ وَالْعًادَاتِ الْقَبِيْحَةِ وَالشَّيَاطِيْنِ الْإنْسِيَةِ.
العيني، عمدة القاري، 10: 270
’’علامہ عینی کہتے ہیں: اگر آپ یہ کہیں کہ رمضان میں گناہ اور برائیاں کثرت سے واقع ہوتی ہیں۔ اگر شیطانوں کو باندھ دیا جاتا تو اس طرح کی کوئی چیز رونما نہ ہوتی۔ تو میں کہوں گا کہ یہ اَمر (گناہ کا واقع نہ ہونا) اُن روزے داروں کے لئے ہے جنہوں نے روزوں کی شرائط کی حفاظت اور اُن کے آداب کی پاسداری کی ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ شیاطین کو جکڑا جاتا ہے جو نہایت سرکش ہوتے ہیں، نہ کہ سارے (شیاطین کو جکڑا جاتا ہے) جیسا کہ بعض پہلی روایات میں ذکر ہوا ہے۔ اس سے مراد گناہوں کا کم ہونا ہے جو کہ ایک حسی بات ہے۔ اس مہینہ میں گناہوں کا وقوع باقی مہینوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تمام شیاطین کو جکڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ اور برائیاں بالکل وقوع پذیر نہ ہوں کیونکہ شیاطین کے علاوہ خبیث نفوس، بری عادات اور انسانی شیاطین کی وجہ سے بھی گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ ‘‘
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِيْ مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ. وَِﷲِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذٰلِکَ فِي کُلِّ لَيْلَةٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.
2: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 3 / 66، الرقم: 682، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر الرمضان، 1 / 526، الرقم: 1642، والحاکم في المستدرک، 1 / 582، الرقم: 1532، وابن حبان في الصحيح، 8 / 221، الرقم: 3435، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 303، الرقم: 8284
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جنات باندھ دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور منادی کرنے والا آواز دیتا ہے: اے خیر کے متلاشی! آگے آ، اور اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اور یوں اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور رمضان کی ہر رات ایسا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِي: وَلَعَلَّ طَاعَةَ الْمُطِيْعِيْنَ وَتَوْبَةَ الْمُذْنِبِيْنَ وَرُجُوْعَ الْمُقَصِّرِيْنَ فِي رَمَضَانَ مِنْ أَثَرِ النِّدَاءَ يْنِ، وَنَتِيْجَةِ إِقْبَالِ اللهِ تَعَالٰی عَلَی الطَّالِبِيْنَ. وَلهٰذا تَرٰی أَکْثَرَ الْمُسْلِمِيْنَ صَائِمِيْنَ حَتَّی الصِّغَارِ الْجَوَارِي بَلْ غَالِبِهِمُ الَّذِيْنَ يَتْرُکُوْنَ الصَّلَاةَ يَکُوْنُوْنَ حِيْنَئِذٍ مُصَلِّيْنَ مَعَ أَنَّ الصَّوْمَ أَصْعَبُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَهُوَ يُوْجِبُ ضَعْفَ الْبَدَنِ الَّذِي يَقْتَضِي الْکَسَلَ عَنِ الْعِبَادَةِ وَکَثْرَةَ النَّوْمِ عَادَةً، وَمَعَ ذٰلِکَ تَرَی الْمَسَاجِدَ مَعْمُوْرَةً وَبِإِحْيَاءِ اللَّيَالِي مَغْمُوْرَةً، وَالْحَمْدُِﷲِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.
الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 392.
’’ملا علی قاری کہتے ہیں: شاید رمضان میں اِطاعت گذاروں کی اِطاعت، گنہگاروں کی توبہ اور کوتاہی کرنے والوں کا رجوع (اِلی الله) اُن نداؤں کا اثر اور اللہ کریم کا اپنے طالبوں کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ بایں وجہ تم اکثر مسلمانوں حتی کہ چھوٹے بچوں کو بھی روزے رکھتے دیکھتے ہو بلکہ وہ لوگ جو نماز نہیں پڑھتے تھے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں باوجود اس کے کہ روزہ تو نماز سے بھی زیادہ مشکل عبادت ہے کیونکہ یہ جسمانی کمزوری کو لازم کرتا ہے جو عبادت سے غفلت کی متقاضی ہے، اور عادتاً نیند کی کثرت کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن باوجود اس کے مساجد راتوں کو مکمل بھری اور شب بیداریوں سے لبریز نظر آتی ہیں۔ ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور نیکی کرنے کی قوت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ۔ ‘‘
3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَکٌ، فَرَضَ اللهُ عزوجل عَلَيْکُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ. ﷲِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ شَيْبَةَ.
3: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصيام، باب ذکر الإختلاف علی معمر فيه، 4 / 129، الرقم: 2106، وفي السنن الکبری، 2 / 66، الرقم: 2416، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 270، الرقم: 8867، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 113، الرقم: 2594، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 60، الرقم: 1492، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 140.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہِ رمضان المبارک آیا، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ (کی عبادت اور اس کی رضا حاصل کرنے) کے لیے اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے، جو اس کے ثواب سے محروم کر دیا گیا وہ گویا ہر خیر سے ہی محروم کر دیا گیا۔ ‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ ﷲِ عُتَقَاءَ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ عَبِيْدًا وَإِمَاءً يُعْتِقُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِي کُلِّ يَوْمٍ دُعَاءً مُسْتَجَابًا، يَدْعُوْ فَيَسْتَجِيْبُ لَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ مُخْتَصَرًا وَابْنُ شَاهِيْنَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
4: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 254، الرقم: 7443 (عن أبي هريرة)، وابن شاهين في الترغيب فی فضائل الأعمال وثواب ذلک، 1 / 183، الرقم: 146.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک الله تعالیٰ (رمضان المبارک میں) ہر روز و شب کئی غلام اور باندیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے، اور بے شک (رمضان المبارک میں ) ہر روز مسلمان کے لئے ایک دعا مقبول ہوتی ہے، وہ دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور ابن شاہین نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
5. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمًا وَحَضَرَ رَمَضَانُ: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ، يَغْشَاکُمُ اللهُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اللهُ تَعَالٰی إِلٰی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِکُمْ مَلَائِکَتَهُ، فَأَرُوا اللهَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اللهِ عزوجل.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
5: أخرجه الطبراني في مسند الشاميين، 3 / 271، الرقم: 2238، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 60، الرقم: 1490، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 142.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا جبکہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا: تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آ گیا ہے، اس میں الله تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے۔ رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اس مہینہ میں الله تعالیٰ نیکی کی طرف تمہاری ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی عملی کوششوں کو دیکھتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی پیش کرو کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں بھی الله تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر دیا گیا۔ ‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے جیسا کہ امام منذری نے فرمایا ہے اور مذکورہ الفاظ بھی امام منذری کے ہیں۔
6. عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ وَأَهَلَّ رَمَضَانُ، فَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ يَکُونَ السَّنَةَ کُلَّهَا. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيْمَانِ.
6: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 313، الرقم: 3634، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 190، الرقم: 1886، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 62، الرقم: 1495.
’’حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا علم ہوتا تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ ‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
7. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ أَطْلَقً کُلَّ أَسِيْرِهِ وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيْمَانِ.
7: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 311، الرقم: 3629، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 150، والشعراني في الطبقات الکبری، 1 / 377، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 25.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام قیدیوں کو رہا فرما دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔ ‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
قَالَ السُّيُوْطِيُّ: وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ. فَإِنَّهُ کَانَ أَجْوَدَ مَا يَکُوْنُ فِي رَمَضَانَ، وَفِيْهِ نَدْبُ عِتْقِ الْأُسَارٰی عِنْدَ إِقْبَالِ رَمَضَانَ، وَالتَّوْسِعَةِ عَلَی الْفُقْرَاءِ وَالْمَسَاکِيْنَ.
السيوطي، الشمائل الشريفة، 1: 142
’’امام سیوطی نے کہا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مانگنے والے کو عطا فرماتے مگر رمضان میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ بڑھ کر عطا کرنے والے ہوتے اوراس (مہینہ) کے آنے پر قیدیوں کو رہا کرنا اور فقراء و مساکین پر خرچ میں وسعت لانا مستحب اور پسندیدہ (مندوب) ہے۔ ‘‘
قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِي: وَأَعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ أَيْ زِيَادَةٌ عَلَی مُعْتَادِهِ، وَإِلاَّ فَلَا کَانَ عِنْدَهُ لَاِفي غَيْرِ رَمَضَانَ أَيْضاً. فَقَدْ جَاءَ فِي صَحِيْحِ مُسْلِمٍ: إِنَّهُ مَا سُئِلَ شَيْئاً إِلَّا أَعْطَاهُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَماً بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَرَجَعَ إِلَی قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمُ، أَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّداً يُعْطِي عَطَاءَ مَنْ لَا يَخْشَی الْفَقْرَ. وَرَوَی الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيْثِ جَابِرٍ مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ شَيئٍ قَطُّ فَقَالَ: لَا.
وَکَذَا عِنْدَ مُسْلِمٍ أَيْ مَا طُلِبَ مِنْهُ شَيئٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا فَمَنَعَهُ. قَالَ الْفَرَزْدَقُ:
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُدِهِ
لَولَا التَّشَهُدُ کَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ
قَالَ الشَّيْخُ عِزُّ الدِّيْنِ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ: مَعْنَاهُ لَمْ يَقُلْ لَا مَنْعاً لِلْعَطَائِ. وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ لَا يَقُوْلُهَا اعْتِذَاراً کَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی: ﴿قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَيْه﴾ (التوبة، 9: 92) وَلَا يَخْفَی الْفَرْقُ بَيْنَ قَوْلِ ﴿لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ﴾ وبَيْنَ لَآ اَحْمِلُکُمْ ... وَفِي حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَجْوَدَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ مَا يَکُوْنُ فِي رَمَضَانَ، حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْريْلُ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم حَيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.
الملا علي القاري، مرقاة المفاتيح، 4: 399.400.
’’ملا علی قاری نے فرمایا: وَاعْطٰی کُلَّ سَائِلٍ سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رمضان شریف میں) اپنی عام عادت مبارکہ سے بھی زیادہ عطا فرماتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ عطا نہ کرتے، بلکہ صحیح مسلم میں تو یہاں تک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ بھی مانگا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو پہاڑوں کے درمیان جتنا ریوڑ آسکتا تھا اس کو عطا فرمایا۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹا اور کہنے لگا: اے میری قوم! پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آؤ کیونکہ جب وہ عطا فرماتے ہیں تو اس کے بعد کسی غربت و فقیری کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ امام بخاری نے حدیث جابر رضی اللہ عنہ کو روایت فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا۔ ‘‘
’’اسی طرح امام مسلم نے بھی بیان فرمایا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دنیاوی معاملات میں کوئی بھی سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا۔ فرزدق شاعر نے کیا خوب کہا:
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشہد کے علاوہ کبھی بھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا، اگر تشہد نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لفظ ’نہیں‘ بھی ’ہاں‘ ہوتا۔ ‘‘
’’شیخ عز الدین بن عبد السلام نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی عطا روکنے کے لئے لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا، اس کا یہ مطلب یہ بھی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی اور معنی کے لئے اعتذاراً بھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا ہو بلکہ فرمایا ہے (مگر اس کا سیاق و سباق کچھ اور ہے)۔ جیسے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: [آپ نے فرمایا: میں (بھی) کوئی (زائد سواری) نہیں پاتا ہوں جس پر تمہیں سوار کر سکوں]۔ اور [مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَيْہ] اور لَآ اَحْمِلُکُم کے درمیان فرق پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے۔ شیخین سے مروی حدیثِ ابن عباس ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں تو سب سے بڑھ کر سخاوت فرماتے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن کو دہراتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی میں تیز و سخت ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرمانے والے ہوتے تھے۔ ‘‘
8. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الْجَنَّةَ تُزَخْرَفُ لِرَمَضَانَ مِنْ رَأْسِ الْحَوْلِ إِلٰی حَوْلِ الْقَابِلِ، قَالَ: فَإِذَا کَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِيْحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ، نَشَرَتْ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ عَلَی الْحُوْرِ الْعِيْنِ فَيَقُلْنَ: يَا رَبِّ، اجْعَلْ لَنَا مِنْ عِبَادِکَ أَزْوَاجًا تَقَرُّ بِهِمْ أَعْيُنُنَا وَتَقَرُّ أَعْيُنُهُمْ بِنَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ والْبَيْهَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِيْمَانِ وَالَّلفْظُ لَهُ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 44، الرقم: 6800، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 312، الرقم: 3633، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 8 / 108
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت سال کے آغاز ہی سے اگلے سال تک رمضان المبارک کے لئے سجا دی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان المبارک کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جو جنت کے درختوں کے پتوں سے حور عین پر پھیل جاتی ہے۔ پس وہ حور عین یہ دعا مانگتی ہیں: اے الله! ہمارے لئے اپنے بندوں میں سے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے شعب الايمان میں مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے.
9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان، 1 / 22، الرقم: 38، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 / 523، الرقم: 760، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1372، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب ثواب من قام رمضان وصامه إيمانًا واحتسابا، 4 / 157، الرقم: 2206، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1 / 526، الرقم: 1641.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے گا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
10. عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَِّﷲِ عزوجل فِي کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ سِتَّمِاءَةِ أَلْفِ عَتِيْقٍ مِنَ النَّارِ، فَإِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ أَعْتَقَ بِعَدَدِ مَنْ مَضٰی.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي فَضَائِلِ الأَوْقَاتِ، وَقَالَ: هٰکَذَا جَاءَ مُرْسَلاً.
10: أخرجه البيهقي في فضائل الأوقات، 1!171 الرقم: 25، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2!63، الرقم: 1499.
’’امام حسن بصری سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ رمضان المبارک میں ہر رات چھ لاکھ لوگوں کو جہنم سے رہائی دیتا ہے اور جب آخری رات ہوتی ہے تو گزشتہ تمام راتوں میں رہا کردہ تعداد کے برابر مزید لوگوں کو جہنم سے خلاصی عطا فرماتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے فضائل الاوقات میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مرسل روایت ہوئی ہے۔
11. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَفِي رِوَايَةٍ لِلتِّرْمِذِيِّ: وَمَنْ دَخَلَهُ، لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا.
11: أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2 / 671، الرقم: 1797، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2 / 808، الرقم: 1152، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الرقم: 22869، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في فضل الصوم، 3 / 137، الرقم: 765، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، ذکر الاختلاف علی محمد بن أبي يعقوب في حديث، 4 / 168، الرقم: 2237، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل الصيام، 1 / 525، الرقم: 1640.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اس دروازہ سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا: کہاں ہیں روزہ دار؟ پس وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا، پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ ‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور امام ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے: ’’اور جو اس میں داخل ہو گا، کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ ‘‘
12. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُوْلُ الصِّيَامُ: أَي رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
12: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1 / 740، الرقم: 2036، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 346، الرقم: 1994، ورواه ابن أبي الدنيا في کتاب الجوع وغيره بإسناد حسن، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 50، الرقم: 1455، وقال: رواه الطبراني في الکبير ورجاله محتج بهم في الصحيح، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 181.
’’حضرت عبد الله بن عمرو (بن العاص) رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن روزِ قیامت بندۂ مومن کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے اللہ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا، پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا: میں نے رات کو اسے نیند سے روکے رکھا، پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: آمِيْنَ، آمِيْنَ، آمِيْنَ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ، قُلْتَ: آمِيْنَ، آمِيْنَ، آمِيْنَ؟ قَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ أَتَانِي فَقَالَ: مَنْ أَدْرَکَ شَهْرَ رَمَضًانَ وَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللهُ، قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا، فَلَمْ يَبَرَّهُمَا، فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللهُ، قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْکَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَأَبْعَدَهُ اللهُ، قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ أَحَدُهَا حَسَنٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ عَنْ شَيْخِهِ مُحَمَّدِ بْنِ حَوَانٍٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ وُثِّقُوْا.
13: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 3 / 188، الرقم: 907، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 192، الرقم: 1888، وأبو يعلی في المسند، 10 / 328، الرقم: 5922، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 225، الرقم: 646، والبزار في المسند، 4 / 240، الرقم: 1405، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 162، الرقم: 3871، 9 / 17، الرقم: 8994، وفي المعجم الکبير، 2 / 243، الرقم: 2022، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 218، الرقم: 3761، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 139، 10 / 164.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: آمین، آمین، آمین۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! (کیا وجہ ہے کہ) جب آپ منبر پر جلوہ گر ہوئے تو آپ نے کہا: آمین، آمین، آمین۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک جبرائیل امین میرے پاس آئے اور کہا: جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور اس کی بخشش نہ ہو اور وہ دوزخ میں داخل ہو جائے تو الله تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ جبرائیل نے مجھ سے کہا: ’آپ اس پر ’’آمین‘‘ کہیں۔ ‘ پس میں نے ’’آمین‘‘ کہا۔ اور (جبرائیل نے) کہا: جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آیا اور مر گیا تو جہنم کی آگ میں داخل ہو گیا، الله تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ آپ اس پر ’’آمین‘‘ کہیں۔ پس میں نے ’’آمین‘‘ کہا۔ پھر کہا کہ وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا اور وہ مر گیا تو وہ جہنم کی آگ میں داخل ہو گیا۔ پس الله تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ آپ اس پر ’’آمین‘‘ کہیں۔ تو میں نے اس پر بھی ’’آمین‘‘ کہا۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان، ابن خزیمہ، ابویعلی اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر ‘ میں روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے دو اسناد سے روایت کیا، ان میں سے ایک حسن ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام بزار نے اپنے شیخ محمد بن حوان سے روایت کیا، اسے میں نہیں جانتا جبکہ بقیہ تمام رجال ثقہ ہیں۔
14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب تطوع قيام رمضان من الإيمان، 1 / 22، الرقم: 37، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان، 1 / 523، الرقم: 759، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 408، الرقم: 9277، والنسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ثواب من قام رمضان إيمانا واحتسابا، 3 / 201، الرقم: 1602. 1603.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ماہِ رمضان المبارک میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ النَّوَوِيُّ: وَمَعْنَی احْتِسَابًا أَنْ يُرِيْدَ اللهَ تَعَالٰی وَحْدَهُ لَا يَقْصِدُ رُؤْيَةَ النَّاسِ وَلَا غَيْرَ ذٰلِکَ مِمَّا يُخَالِفُ الْإِخْلَاصَ. وَالْمُرَادُ بِقِيَامِ رَمَضَانَ صَلَاةُ التَّرَاوِيْحِ، وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَی اسْتِحْبَابِهَا وَاخْتَلَفُوْا فِي أَنَّ الْاَفْضَلَ صَلَاتُهَا مُنْفِرَدًا فِي بَيْتِهِ أَمْ فِي جَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ. فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَجُمْهُوْرُ أَصْحَابِهِ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَبَعْضُ الْمَالِکِيَّةِ وَغَيْرُهُمْ: اَلْأَفْضَلُ صَلَاتُهَا جَمَاعَةً کَمَا فَعَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَالصَّحَابَةُ رضی الله عنهم. وَاسْتَمَرَّ عَمَلُ الْمُسْلِمِيْنَ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ مِنَ الشَّعَائِرِ الظَّاهِرَةِ، فَأَشْبَهَ صَلَاةَ الْعِيْدِ.
النووي، شرح صحيح مسلم، 6: 39.
’’لفظ اِحتساب کا معنی یہ ہے کہ بندہ فقط اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی رضا چاہنے والا ہو، اور اس سے اس کا مقصد لوگوں کو دکھلاوا یا اس کے علاوہ دیگر اُمور نہ ہوں، جو اِخلاص کے منافی ہیں۔ ‘‘ اور رمضان میں قیام سے مراد یہ ہے کہ نماز تراویح قائم کرے، اس کے مستحب ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ نماز تراویح اکیلے پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ تو اس پر امام شافعی اور ان کے پیروکار جمہور شوافع، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل اور بعض مالکیوں اور دیگر علماء نے (نماز تراویح کو) جماعت کے ساتھ ادا کرنا افضل سمجھا ہے جیسے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ادا فرمائی اور بعد والے مسلمانوں نے بھی اس عمل (باجماعت نماز تراویح) کو جاری رکھا کیونکہ یہ اسلام کے ظاہری شعائر میں سے ایک ہے، اس لئے نمازِ عید کے ساتھ مشابہ ہو گئی۔ ‘‘
15. عَنِ النَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَقَالَ لَهُ: حَدِّثْنِي بِأَفْضَلِ شَيْئٍ سَمِعْتَهُ يُذْکَرُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ ذَکَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَی الشُّهُورِ، وَقَالَ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
رَوَاهُ اَلنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
15: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصيام، باب فضل الصيام، 4 / 158، الرقم: 2208، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في قيام شهر رمضان، 1 / 421، الرقم: 1328، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 335، الرقم: 2201، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 / 106، الرقم: 908.
’’حضرت نضر بن شیبان بیان کرتے ہیں کہ ان کی حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: مجھے رمضان المبارک کی عمدہ ترین فضیلت بیان کریں جو آپ نے سنی ہو۔ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو اُسے سب مہینوں سے افضل قرار دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کرے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک و صاف ہو گا جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ ‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: قَالَ اللهُ عزوجل: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصًّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2 / 673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2 / 807، الرقم: 1151، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 232، الرقم: 7174، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب ذکر الاختلاف علی أبی بن صالح فی هذا الحديث، 4 / 162، الرقم: 2213. 2218، وفي السنن الکبری، 2 / 90، الرقم: 2525.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (حدیث قدسی میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انسان کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزہ کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور روزہ ڈھال ہے۔ جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے۔ اور اگر اسے کوئی گالی دے یا اُس سے لڑے تو وہ یہ کہہ دے: میں روزہ سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بوُ اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک (فرحتِ اِفطار) جب وہ روزہ اِفطار کرتا ہے، اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔ ‘‘یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ: اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْمُرَادِ بِقَوْلِهِ تَعَالٰی: اَلصِّيَامُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ؛ مَعَ أَنَّ الْأَعْمَالَ کُلَّهَا لَهُ، وَهُوَ الَّذِي يَجْزِي بِهَا عَلَی أَقْوَالٍ أَحَدُهَا: أَنَّ الصَّوْمَ لَا يَقَعُ فِيْهِ الرِّيَاءُ کَمَا يَقَعُ فِي غَيْرِهِ. حَکَاهُ الْمَازِرِيُّ وَنَقَلَهُ عِيَاضٌ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ. وَلَفْظُ أَبِي عُبَيْدٍ فِي غَرِيْبِهِ: قَدْ عَلِمْنَا أَنَّ أَعْمَالَ الْبِرِّ کُلَّهَاللهِ وَهُوَ الَّذِي يَجْزِي بِهَا فَنَرٰی، وَاللهُ أَعْلَمُ أَنَّهُ إِنَّمَا خَصَّ الصِّيَامَ لِأَنَّهُ لَيْسَ يَظْهَرُ مِنِ ابْنِ آدَمَ بَفِعْلِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ شَيئٌ فِي الْقَلْبِ وَيُؤَيِّدُ هَذَا التَّأْوِيْلَ. قَوْلُهُ: لَيْسَ فِي الصِّيَامِ رِيَاءٌ، حَدَّثَنِيْهِ شَبَابَةُ عَنْ عَقِيْلٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، فَذَکَرَهُ يَعْنِي مُرْسَلًا، قَالَ: وَذٰلِکَ لِأَنَّ الْأَعْمَالَ لَا تَکُوْنُ إِلَّا بِالْحَرَکَاتِ إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّمَا هُوَ بِالنِّيَةَ الَّتِي تَخْفٰی عَنِ النَّاسِ. هٰذَا وَجْهُ الْحَدِيْثِ عِنْدِي.
العسقلاني، فتح الباري، 4: 107
’’حافظ عسقلانی کہتے ہیں: علماء نے اس قول۔ روزہ صرف میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ کی مراد میں اختلاف فرمایا ہے اور کئی اقوال کی رُو سے فرمایا کہ سارے اعمال ہی اللہ کے لئے ہیں اور وہی ان کی جزاء دیتا ہے۔ جن میں سے پہلا قول یہ ہے کہ روزہ ایسی عبادت ہے جس میں ریاء واقع نہیں ہوتی۔ جیسے باقی عبادات میں اس کے واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسے امام مارزی نے حکایت کیا ہے اور قاضی عیاض نے ابو عبید سے نقل کیا ہے جس کو ابو عبید نے اپنی کتاب الغریب میں بیان فرمایا کہ سارے اعمال حق (نیکی کے اعمال) اللہ کی ذات کے لئے ہیں، وہی ان کی جزاء دیتا ہے۔ پس ہمارا خیال ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس (ذاتِ باری تعالیٰ) نے روزے کو اپنے ساتھ خاص فرمایا کیونکہ روزہ انسان کے کسی ظاہری عضو سے رونما نہیں ہوتا بلکہ یہ قلبی عبادت ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بھی اس تاویل کی تائید کرتا ہے: ’’روزے میں ریاء کا شک و شبہ نہیں ہوتا۔ ‘‘ اس کو شبابہ نے روایت کیا عقیل سے اور انہوں نے امام زہری سے (مرسلاً) ذکر فرمایا ہے کہ سارے اعمال حرکات سے ظاہر ہوتے ہیں سوائے روزہ کے، اس کا تعلق نیت سے ہے جو لوگوں سے چھپی ہوتی ہے۔ ‘‘ (حافظ عسقلانی نے) کہا: میرے نزدیک یہی توجیہ اَحسن ہے۔ ‘‘
قَالَ الْعَيْنِيُّ: قُلْتُ: أَمَّا رَمَضَانُ فَإِنَّهُ شَهْرٌ عَظِيْمٌ، وَفِيْهِ الصَّوْمُ وَفِيْهِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَهُوَ مِنْ أَشْرَفِ الْعِبَادَاتِ. فِلِذٰلِکَ قَالَ: اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. فَلَا جَرَمَ يَتَضَاعَفُ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ وَالْخَيْرُ فِيْهِ وَکَذٰلِکَ الْعِبَادَاتُ. وَعَنْ هٰذَا قَالَ الزُّهْرِيُّ: تَسْبِيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ خَيْرٌ مِنْ سَبْعِيْنَ فِي غَيْرِهِ.
العيني، عمدة القاري، 1: 76
’’علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ عظمت والا ہے کیونکہ اسی میں روزہ (جیسی عظیم عبادت) اور شب قدر (جیسی عظیم رات) ہے۔ اسی وجہ سے (حدیثِ قدسی میں رب تعالیٰ نے) فرمایا: روزہ تو فقط میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دینے والا ہوں۔ یقینا اس ماہ مبارک میں صدقہ کا ثواب اور اعمال صالحہ و خیر اور اس طرح دیگر عبادات کا ثواب بھی کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور اسی سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے امام زہری نے فرمایا: رمضان میں ایک تسبیح (رمضان کے علاوہ) مہینوں کی ستر (70) تسبیحات سے افضل ہے۔ ‘‘
قَالَ الْمُنَاوِيُّ: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی يَقُوْلُ: إِنَّ الصَّوْمَ لِي أَيْ لَا يُتَعَبَّدُ بِهِ أَحَدٌ غَيْرِي أَوْ هُوَ سِرٌّ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ صَاحِبَهُ، بِأَنْ أُضَاعِفَ لَهُ الْجَزَاءَ مِنْ غَيْرِ عَدَدٍ وَلَا حِسَابٍ. إِنَّ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَيْنِ: إِذَا أَفْطًرَ فَرِحَ، قَالَ الْقَاضِي: ثَوَابُ الصَّوْمِ لَا ُيقَدَّرُ قَدْرَهُ وَلَا يَقْدِرُ عَلَی إِحْصَائِهِ إِلَّا اللهُ، فَلِذٰلِکَ يَتَوَلّٰی جَزَاءَ هُ بِنَفْسِهِ، وَلَا يَکِلُهُ إِلٰی مَلَائِکَتِهِ.
وَالْمُوْجِبُ لِاخْتِصَاصِ الصَّوْمِ بِهٰذَا الْفَضْلِ أَمْرَانِ: أَحَدُهُمَا: أَنَّ جَمِيْعَ الْعِبَادَةِ مِمَّا يَطَّلِعُ عَلَيْهِ الْعِبَادُ وَالصَّوْمُ سِرٌّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ، يَفْعَلُهُ خَالِصًا لِوَجْهِهِ وَيُعَامِلُهُ بِهِ طَالِبًا لِرِضَاهُ؛ الثَّانِي: أَنَّ جَمِيْعَ الْحَسَنَاتِ رَاجِعَةٌ إِلٰی صَرْفِ الْمَالِ فِيْمَا فِيْهِ رِضَاهُ، وَالصَّوْمُ يَتَضَمَّّنُ کَسْرَ النَّفْسِ وَتَعْرِيْضَ الْبَدَنِ لِلنَّقْصِ.
المناوي، فيض القدير، 2: 307
’’امام مناوی نے کہا: بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لئے ہے کیونکہ اس (عبادت) سے میرے علاوہ کسی کو بھی نہیں پوجا جاتا اور یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ایک راز ہے جس کی جزاء میں خود ہی عطاء کرتا ہوں بایں طور کہ روزے دار کو یہ اجر بڑھا کر بغیر عدد و شمار کے عطا فرماتا ہوں۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی جب روزہ دار افطار کرتا ہے۔ قاضی (عیاض) نے فرمایا روزہ کے ثواب و اجر کی کوئی مقدار نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کریم کے سوا اسے کوئی شمار کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کریم اس (روزہ) کے جزاء کی ذمہ داری خود لیتا ہے اور ملائکہ کو نہیں دیتا۔
اس فضل و کرم کو روزے کے ساتھ خاص کرنے کا موجب دو امر ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام عبادات پر بندے مطلع ہوتے ہیں مگر روزہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے، جو بندہ اپنے رب کریم کی رضا کے لئے کرتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ تمام نیکیاں مال کے ان اشیاء میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں جن میں اللہ کی رضا پوشیدہ ہوتی ہے، مگر روزہ (ایسی عبادت ہے جس) میں نفس کی کمزوری اور جسم کا بھوک و پیاس کی شدت پر صبر اور نقصان برداشت کرنے کے لئے پیش ہونا ہوتا ہے۔ ‘‘
17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعِفُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، إِلٰی سَبْعِ مِاءَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ اللهُ. يَقُولُ اللهُ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَائِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْکِ.
رَوَاهُ مُسْلِمُ وَأَحَمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ.
17: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب حفظ اللسان للصائم، 2 / 807، الرقم: 1150، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 266، الرقم: 7596، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل الصيام، 1 / 525، الرقم: 1638، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 90، الرقم: 2525، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 273، والرقم: 8116.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی آدم کے تمام اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک جتنا بھی اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے سوائے روزہ کے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا کیونکہ روزہ دار میرے لیے اپنی خواہشات اور کھانا چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد بن حنبل اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
18. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّمَا الصِّيَامُ جُنَّةٌ، يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
18: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 396، الرقم: 15299، والبزار عن ابن أبي الوقاص رضی الله عنه، 6 / 309، الرقم: 2321، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 58، الرقم: 8386، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 294، الرقم: 3582.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے، اس کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دیتا ہوں۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے اِسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ نیز بزار، طبرانی اور بیہقی نے بیان کیا ہے۔
19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسً خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ، لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ: خُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمُ الْمَلَائِکَةُ حَتّٰی يُفْطِرُوْا، وَيُزَيِّنُ اللهُ عزوجل کُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ، ثُمَّ يَقُوْلُ: يُوْشِکُ عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ الْمَئُوْنَةَ وَالْأَذٰی وَيَصِيرُوا إِلَيْکِ، وَيُصَفَّدُ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِيْنِ، فَلاَ يَخْلُصُوا (فِيْهِ) إِلٰی مَا کَانُوا يَخْلُصُونَ إِلَيْهِ فِي غَيْرِهِ، وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لاَ، وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفّٰی أَجْرَهُ إِذَا قَضٰی عَمَلَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
19: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 292، الرقم: 7904، وابن عبد البر في التمهيد، 16 / 153، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 56، الرقم: 1477، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 140، والهندي في کنز العمال، 8 / 219، الرقم: 23708.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان المبارک میں پانچ امتیازی خصوصیات سے نوازا گیا ہے جن سے پہلے کسی امت کو نہیں نوازا گیا تھا: (1) ان کے منہ سے آنے والی بو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔ (2) فرشتے افطاری کرنے تک ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ (3) الله تعالیٰ ہر روز اپنے بندوں کے لئے جنت کو خوب سجاتا ہے، پھر فرماتاہے: عنقریب میرے صالح بندوں سے سختی اور تکلیف کو دور کر دیا جائے گا اور وہ تیری طرف چلیں گے۔ (4) رمضان المبارک میں سرکش شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے، پس وہ اس ماہ میں اُس کام کی آزادی نہیں پائیں گے جس کی طرف وہ اس کے علاوہ مہینوں میں خلاصی پاتے تھے۔ (5) جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی ہے الله تعالیٰ ان کی بخشش فرماتا ہے۔ پس مجلس میں سے موجود ایک شخص نے استفسار کیا: کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ مزدور جب اپنے کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو اسے اس کی پوری اُجرت دی جاتی ہے۔ ‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُکُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ رَجُلٌ کَانَ يَصُوْمُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذٰلِکَ الْيَوْمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
20: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب لاَيتقدمن رمضان بصوم يوم ولا يومين، 2 / 676، الرقم: 1815، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب لا تقدموا رمضان بصوم يوم ولا يومين، 2 / 762، الرقم: 1082، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 347، الرقم: 8558، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في النهي أن يتقدم رمضان بصوم إلا من صام صوما فوافقه، 1 / 528، الرقم: 1650.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے، البتہ جو شخص پہلے اس دن روزہ رکھتا تھا (یعنی جس شخص کا معمول ہو) تو وہ اس دن روزہ رکھے۔ ‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
21. عَنْ عَمَّارٍ رضی الله عنه: مَنْ صَامَ يَوْمَ الشَّکِّ فَقَدْ عَصٰی أَبَا الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
21: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم إذا رأيتم الهلال فصوموا وإذا رأيتموه فأفطروا، 2 / 674(ذکره في ترجمة الباب)، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب کراهية صوم يوم الشک، 2 / 300، الرقم: 2334، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في کراهية صوم يوم الشک، 3 / 204، الرقم: 686، والنسائي في السن، کتاب الصيام، باب صيام يوم الشک، 4 / 153، الرقم: 2188، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في صيام يوم الشک، 1 / 527، الرقم: 1645.
’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: جس نے شک والے دن روزہ رکھا تو اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔ ‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: نَهٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ تَعْجِيلِ صَومِ يَومٍ قَبْلَ الرُّؤْيَةِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
22: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في صيام يوم الشک، 1 / 527، الرقم: 1646.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاند دیکھنے سے قبل روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: تَسَحَّرُوْا، فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَکَةً.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ وَأَبِي الدَّرْدَائِ رضی الله عنهم. قَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ أَکْلَةُ السَّحَرِ.
23: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب برکة السحور من غير إيجاب، 2 / 678، الرقم: 1823، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور وتأکيد استحبابه واستحباب تأخيره وتعجيل الفطر، 2 / 770، الرقم: 1095، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 229، الرقم: 13414، والترمذي في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في فضل السحور، 3 / 88، الرقم: 708، والنسائي في السنن، کتاب الصيام، باب الحث علی السحور، 4 / 140، الرقم: 2144.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: اس باب میں حضرت ابوہریرہ، عبد اللہ بن مسعود، جابر بن عبد اللہ، ابن عباس، عمرو بن العاص، عرباض بن ساریہ، عتبہ بن عبد اور ابو درداء رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: حدیث انس حسن صحیح ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کے درمیان صرف سحری کھانے کا فرق ہے۔ ‘‘
24. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ، قُلْتُ: کَمْ کَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب قدرکم بين السحور وصلاة الفجر، 2 / 678، الرقم: 1821، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور وتأکيد استحبابه واستحباب تاخيره وتعجيل الفطر، 2 / 271، الرقم: 1097، والترمذي في السنن، کتاب الصوم باب ما جاء في تأخير السحور، 3 / 84، الرقم: 703، والنسائي في السنن کتاب الصيام، باب قدر ما بين السحور وبين صلاة الصبح، 4 / 143، الرقم: 2155، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في تأخير السحور، 1 / 540، الرقم: 1694.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: پچاس آیتیں پڑھنے کے برابر۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
25. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَتَسَحَّرُ. فَقَالَ: إِنَّهَا بَرَکَةٌ أَعْطَاکُمُ اللهُ إِيَّاهَا، فَلَا تَدَعُوهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
25: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الصيام، باب فضل السحور، 4 / 145، الرقم: 2162، وفي السنن الکبری، 2 / 79، الرقم: 2472، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 90، الرقم: 1621.
’’حضرت عبد الله بن حارث نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ سحری برکت ہے جو الله تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے، پس تم اسے ترک نہ کرو۔ ‘‘
اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ: لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا أَخَّرُوا السُّحُوْرَ وَعَجَّلُوا الْفِطْرَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
26: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 172، الرقم: 21546.
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: میری اُمت اُس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور اِفطار میں جلدی کرتی رہے گی۔ ‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلسُّحُورُ أَکْلَةُ بَرَکَةٍ، فَلَا تَدَعُوْهُ وَلَوْ أَنْ يَجْرَعَ أَحَدُکُمْ جُرْعَةً مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّ اللهَ عزوجل وَمَلَائِکَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی الْمُتَسَحِّرِيْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 12، الرقم: 11101، وفي 3 / 44، الرقم: 11414، وابن الجعد في المسند 1 / 487، الرقم: 3391.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سحری کرنا سراپا برکت ہے، لہٰذا اسے نہ چھوڑو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ پینے سے ہی ہو۔ اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ ‘‘ اسے امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
28. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
28: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب تعجيل الإفطار، 2 / 692، الرقم: 1856، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور وتأکيد استحبابه واستحباب تأخيره وتعجيل الفطر، 2 / 771، الرقم: 1098، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في تعجيل الإفطار، 3 / 82، الرقم: 699، ومالک في الموطأ، کتاب الصيام، باب ما جاء في تعجيل الفطر، 1 / 288، الرقم: 634، والشافعي في المسند، 1 / 104.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک اِفطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
29. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: قَالَ اللهُ عزوجل: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في تعجيل الإفطار، 3 / 83، الرقم: 700، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 237، الرقم: 7240، وأبو يعلی في المسند، 10 / 378، الرقم: 5974، وابن حبان في الصحيح، 8 / 275، الرقم: 3507، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 54، الرقم: 149، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 237، الرقم: 7909.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری بارگاہ میں سب سے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو روزہ جلد افطار کرتے ہیں۔ ‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمدنے روایت کیا ہے۔
30. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: لَا يَزَالُ الدِّيْنُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِأَنَّ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارٰی يُؤَخِّرُوْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْدَاودَ وَالْحَاکِمُ.
30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 450، الرقم: 9809، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب ما يستحب من تعجيل الفطر، 2 / 305، الرقم: 2353، والنسائي في السنن الکبریٰ، کتاب الصوم، باب الترغيب في تعجيل الفطر، 2 / 253، الرقم: 3313، والحاکم في المستدرک، 1 / 596، الرقم: 1573، وابن حبان في الصحيح، 8 / 273، الرقم: 3503، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 275، الرقم: 2060، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 277، الرقم: 8944.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں تاخیر کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابوداود اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
31. عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ، فَلْيُفْطِرْ عَلٰی تَمْرٍ، فَإِنَّهُ بَرَکَةٌ؛ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَائُ، فَإِنَّهُ طَهُوْرٌ. وَقَالَ: اَلصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْکِينِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ.
31: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 18، الرقم: 16276، والترمذي في السنن، کتاب الزکوة، باب ما جاء في الصدقة علی ذي القرابة، 3 / 46، 47، الرقم: 658، والنسائي في السنن الکبریٰ، 4 / 164، الرقم: 6707، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء علی ما يستحب الفطر، 1 / 542، الرقم: 1699، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 273، الرقم: 6195، 6196، والدارمي في السنن، 2 / 13، الرقم: 1701.
’’سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اِفطار کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاک ہے۔ نیز فرمایا: مسکین کو صدقہ دینا صرف صدقہ ہے لیکن رشتہ دار پر صدقہ دو چیزیں ہیں: صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ، فَلْيُفْطِرْ عَلٰی تَمْرٍ. زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَإِنَّهُ بَرَکَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ، فَلْيُفْطِرْ عَلٰی مَاءٍ، فَإِنَّهُ طَهُوْرٌ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 17، الرقم: 16270، والترمذی فی السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء ما يستحب عليه الإفطار، 3 / 78، الرقم: 695، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء علی ما يستحب الفطر، 1 / 542، الرقم: 1699، والدارمي في السنن، 2 / 13 الرقم: 1701، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 278، الرقم: 2067، والحميدي في المسند، 2 / 362، الرقم: 823، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 272، 273، الرقم: 6194، 6195، 6196.
’’سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور کے ساتھ کرے۔ ابن عینیہ کی بیان کردہ روایت میں یہ اضافہ ہے کہ کھجور سے افطار کرنا باعث برکت ہے۔ اور اگر وہ کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
33. عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ: أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: اَللّٰهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاودَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
33: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 / 306، الرقم: 2358، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 344، الرقم: 9744، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 4 / 239، الرقم: 7923.
’’حضرت معاذ بن زہرہ (تابعی) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب افطار فرماتے تو کہتے: اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ابوداود، ابن اَبی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، کَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
34: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 192، الرقم: 21720، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في فضل من فطر صائما، 3 / 171، الرقم: 807، وابن ماجه في السنن، کتاب الصوم، باب في ثواب من فطر صائما، 1 / 555، الرقم: 1746، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 311، الرقم: 7905، والدارمي في السنن، 2 / 14، الرقم: 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 7، الرقم: 1048.
’’حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو اس کے لیے اس کی مثل ثواب ہے، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی ہو۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور وہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
35. عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَزَ غَازِيا أَوْحَاجاًّ أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، کَانَ لَهُ مِثْلُ أُجُوْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئاً.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
35: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 4 / 230، الرقم: 19555، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 256، الرقم: 5268، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 480، الرقم: 4122، وفي السنن الکبریٰ، 4 / 240، الرقم: 7929.
’’حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا یا کسی مجاہد کی تیاری کروائی یا کسی حاجی کی تیاری کروائی یا اس کے بعد اس کے اہلِ خانہ کا خیال رکھا تو اُس کے لئے بھی اتنا ہی اجر ہے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں سے کسی چیز کی کمی کی جائے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
36. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَِﷲِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحَمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
36: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور والعمل به في الصوم، 2 / 673، الرقم: 1804، وفي کتاب الأدب، باب قول الله تعالی: واجتنبوا قول الزور، 5 / 2251، الرقم: 5710، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 452، الرقم: 9838، وأبوداود في السنن، کتاب الصوم، باب الغيبة للصائم، 2 / 307، الرقم: 2362، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في التشديد في الغيبة للصائم، 3 / 87، الرقم: 707، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الغيبة والرفث للصائم، 1 / 539، الرقم: 1689.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (بحالتِ روزہ) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا ترک کرے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، احمد بن حنبل اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
37. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: کَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوْعُ، وَکَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ.
37: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 441، الرقم: 9683، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی الغيبة والرفث للصائم، 1 / 539، الرقم: 1690، والدارمي في السنن، باب في المحافظة علی الصوم، 2 / 390، الرقم: 2720، والنسائي في السنن الکبریٰ، 2 / 239، الرقم: 3239، وابن المبارک في المسند، 1 / 44، الرقم: 75.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بھوک کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ قیام کرنے والے کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ‘‘
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
38. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ، لَمْ يُجْزِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه.
38: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 442، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الصوم في السفر، 1 / 535، الرقم: 1672، الرقم: 9704، والدارقطني في السنن، 2 / 211، الرقم: 29، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 347، الرقم: 9783، 9784، وفي 3 / 110، الرقم: 12569، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 228، الرقم: 7855، وإسحاق بن راهويه في المسند، 1 / 296، الرقم: 273.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے بغیر عذر کے ماہ رمضان کا ایک روزہ چھوڑا تو زمانہ بھر کے روزے بھی اس کا بدل نہ ہوں گے۔ ‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اورابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
39. عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: قُلْتُ لِمُجَاهِدٍ: اَلصَّوْمُ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَصُوْمُ وَيُفْطِرُ.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: صَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي السَّفَرِ، وَأَفْطَرَ. رَوَاهُ النَّسَائِيُ وَابْنُ مَاجَه.
39: أخرجه النسائي فی السنن، کتاب الصيام، باب ذکر قوله الصائم في السفر کالمفطر في الحضر، 4 / 184، الرقم: 2292، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الصوم في السفر، 1 / 531، الرقم: 1661، والطبراني في المجعم الکبير، 11 / 285، الرقم: 11749.
’’حضرت عوام بن حوشب سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت مجاہد سے دریافت کیا: سفر میں روزہ رکھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں روزہ رکھتے اور افطار بھی فرماتے تھے۔ ‘‘
اور ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں کبھی روزہ رکھا اور کبھی افطار بھی فرمایا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
إِنَّ الصَّوْمَ فِي السَّفَرِ فِي رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنَ الْإِفْطَارِ وَيَشْهَدُ لَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَثِيْرًا مِنْ أَصْحَابِهِ صَامُوْا فِي رَمَضَانَ فِي سَفَرِ غَزْوَةِ فَتْحِ مَکَّةَ. (رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ) وَلَوْ کَانَ أَفْضَلُ التَّرْکِ مُطْلَقًا لِمَا وَقَعَ ذٰلِکَ. (عُمْدَةِ الْقَارِي وَعُمْدَةِ الرِّعَايَةِ مُخْتَصَرًا) إِسْتَفَادَ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيْثِ: أَنَّ الْمُسَافِرَ إِنْ کَانَ لَا يَسْتَضَرُّ بِالصَّوْمِ فَصَوْمُهُ أَفْضَلُ، وَإِنْ أَفْطَرَ جَاز. (کَذَا فِي الْهِدَايَةِ). وَقَالَ الْإِسْبِيْجَابِيُّ فِي شَرْحِ مُخْتَصَرِ الطَّحَاوِيِّ: اَلْأَفْضَلُ، فَإِنْ أَفْطَرَ مِنْ غَيْرِ مَشَقَّةٍ لَا يَأْثِمُ. قَالَهُ فِي عُمْدَةِ الْقَارِي. وَمَا رُوِي فِي الصَّحِيْحَيْنِ أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ کَانَ فِي سَفَرٍ، فَرَأَیٰ زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: مَا هٰذَا؟ قَالُوْا: صَائِمٌ. فَقَالَ: لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ. وَکَذَا مَا رَوٰی مُسْلِمٌ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلٰی مَکَّةَ فِي رَمَضَانَ حَتّٰی بَلَغَ کُرَاعَ الْغَمِيْمِ، فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَائٍ فَشَرِبَهُ. فَقِيْلَ لَهُ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: أُوْلٰئِکَ الْعُصَاةُ(1). وَکَذَا مَا رَوَی ابْنُ مَاجَه عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: صَائِمُ رَمَضَانَ فيِ السَّفَرِ کَالْمُفْطِرِ فِي الْحَضَرِ(2). مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّهُمُ اسْتَضَرُّوْا بِهِ وَأَوْرَثَ صَوْمُهُمْ ضَعْفًا أَوْ مَرَضًا، کَمَا يُعْلَمُ.
(1) أخرجه مسلم في کتاب الصيام، باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان للمسافر فی غير معصية إذا کان سفره مرحلتين فأکثر وأن الأفضل لمن أطاقه بلا ضرر أن يصوم ولمن يشق عليه أن يفطر 2 / 785، الرقم: 1114.
(2) أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في الإفطار فی السفر، 1 / 532، الرقم: 1666.
’’رمضان کے مہینے میں دورانِ سفر روزہ رکھنا روزہ چھوڑنے سے افضل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت ماہ رمضان المبارک میں جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ سفر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کئی صحابہ نے روزہ رکھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ اگر مطلقاً ترک کرنا افضل ہوتا تو عمدۃ القاری اور عمدۃ الرعایۃ اسے مختصراً یوں بیان نہ کرتے۔ انہی احادیث سے مستفاد ہے کہ اگر روزے دار کے لئے روزہ مضر نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے اور سفر میں روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ ہدایہ میں اسی طرح ہے۔ شرح مختصر الطحاوي میں اسبیجابی نے بھی اسے افضل قرار دیا ہے، اور اگر سفر میں بغیر مشقت کے روزہ نہ رکھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اسے عمدۃ القاری میں بیان کیا گیا ہے۔ اور صحیحین میں روایت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت زیادہ لوگوں کا ہجوم دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے: روزہ دار ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔ اور اس طرح مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان المبارک کے مہینے میں مکہ کے لئے نکلے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کراع الغمیم کے مقام پر پہنچے تو بعض لوگوں نے روزہ رکھ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور پی لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: بعض لوگوں نے تو روزہ رکھ لیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ نافرمان ہیں۔ اور اِسی طرح ابن ماجہ نے عبد الرحمن بن عوف سے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سفر میں رمضان کے روزے رکھنے والا ایسے ہے جیسے کہ کوئی گھر میں بغیر روزے کے ہو۔ تو یہ اس پر محمول ہے کہ سفر میں روزہ ان کو نقصان پہنچائے گا اور اُن میں کمزوری یا بیماری کا سبب بنے گا۔ جیسا کہ اس ارشاد گرامی کے صادر ہونے کے پس منظر سے پتہ چلتا ہے۔ ‘‘
40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ بِمَکَّةَ فَصَامَ وَقَامَ مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ لَهُ، کَتَبَ اللهُ لَهُ مِاءَةَ أَلْفِ شَهْرِ رَمَضَانَ، فِيمَا سِوَاهَا، وَکَتَبَ اللهُ لَهُ بِکُلّ يَوْمٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ. وَکُلِّ لَيْلَةٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ. وَکُلِّ يَوْمٍ حُمْلَانَ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللهِ. وَفِي کُلِّ يَوْمٍ حَسَنَةً. وَفِي کُلِّ لَيْلَةٍ حَسَنَةً. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
40: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب المناسک باب صيام شهر رمضان بمکة، 2 / 1041، الرقم: 3117، وذکره الکناني في مصباح الزجاجة، 3 / 217، والهندي في کنز العمال، 12 / 91، الرقم: 34657.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مکہ میں رمضان پائے اور روزے رکھے اور رات کو حسبِ توفیق عبادت کرے تو الله تعالیٰ اس کے لئے اس رمضان کے علاوہ ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا، اور ہر روزے کے عوض ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور اسی طرح ہر رات کی عبادت کے عوض بھی یہی اجر ملے گا۔ اور ہر روز اللہ تعالیٰ کی راہ میں لدے ہوئے گھوڑے صدقہ کرنے کا اجر ملے گا۔ ہر دن اور رات (مزید) ایک ایک نیکی (بھی) نامہ اعمال میں لکھی جائے گی۔ ‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
41. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلصَّلَاةُ فِي مَسْجِدِي هٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَالْجُمُعَةُ فِي مَسْجِدِي هٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلفِ جُمُعَةٍ فِيْمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَشَهْرُ رَمَضَانَ فِي مَسْجِدِي هٰذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلفِ شَهْرِ رَمَضَانَ فِيْمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الإِيْمَانِ.
41: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 487، الرقم: 4147، والهندي في کنز العمال، 12 / 106، الرقم: 34826، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 142، الرقم: 1841، والصنعاني في سبل السلام، 2 / 217.
’’حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے راویت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز کی ادائیگی اس کے علاوہ دیگر مساجد کی نسبت ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے، اور میری مسجد میں نمازِ جمعہ دیگر مساجد کی نسبت ہزار جمعوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے اور میری اس مسجد میں رمضان المبارک گزارنا دیگر مساجد کی نسبت ہزار رمضان سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔ ‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کیاہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved