1. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، قَالَ عِمْرَانُ : فَـلَا أَدْرِي : أَذَکَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَـلَاثاً. ثُمَّ إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ، وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ، وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يَفُوْنَ، وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السِّمَنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1335، الرقم : 3450، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1964، الرقم : 5235.
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ اور پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین زمانوں کا)۔ (فرمایا : ) پھر تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی کہ وہ گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی. وہ خیانت کریں گے اور ان پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ وہ نذریں مانیں گے مگر ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : سُئِلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ : قَرْنِي ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِيْنَهُ وَيَمِيْنُهُ شَهَادَتَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب إذا قال أشهد باﷲ أو شهدت باﷲ، 6 / 2452، الرقم : 6282، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1963، الرقم : 2533.
’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا : (یا رسول اﷲ!) کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے زمانے کے لوگ، پھر جو ان کے بعد ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں. پھر تو ایسی قوم آئے گی کہ ان کی گواہی قسم کے آگے اور ان کی قسم گواہی کے آگے آگے بھاگی پھرے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِءَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فََيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1335، الرقم : 3449، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532.
’’حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ تو وہ لوگ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان صحابہ کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی. پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو پھر انہیں (ان تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی. پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں (یعنی تابعین) کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (ان تبع تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُوْنَ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَحِبَ الرَّسُوْلَ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَغْزُوْنَ فَيُقَالُ لَهُمْ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ الرَّسُوْلَ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحُمَيْدِيُّ.
4 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1316، الرقم : 3399، وابن حبان في الصحيح، 11 / 86، الرقم : 4768، والحميدي في المسند، 2 / 328، الرقم : 743 .
’’حضرت ابو سعید (خدری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ جنگ کریں گے تو ان سے کہا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو (ان صحابہ کی برکت سے) انہیں فتح دے دی جائے گی. پھر وہ جہاد کریںگے تو ان سے کہا جائے گا : تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں! تو انہیں (تابعین کی برکت سے) فتح دے دی جائے گی.‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور حمیدی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَخْرُجُ الْجَيْشُ مِنْ جُيُوْشِهِمْ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ أَحَدٌ صَحِبَ مُحَمَّدًا فَتَسْتَنْصِرُوْنَ بِهِ فَتُنْصَرُوْا؟ ثُمَّ يُقَالُ : هَلْ فَيْکُمْ مَنْ صَحِبَ مُحَمَّدًا؟ فَيُقَالُ : لَا. فَمَنْ صَحِبَ أَصْحَابَهُ؟ فَيُقَالُ : لَا. فَيُقَالُ : مَنْ رَاٰی مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَهُ؟ فَلَوُ سَمِعُوْا بِهِ مِنْ وَرَاءِ الْبَحْرِ لأَتَوْهُ. وفي رواية زاد : ثُمَّ يَبْقٰی قَوْمٌ يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يَدْرُوْنَ مَا هُوَ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی مِنْ طَرِيْقَيْنِ وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ، وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : وَهٰذَا الإِسْنَادُ صَحِيْحٌ.
أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 132، 200، الرقم : 2182، 2306، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 313، الرقم : 1020، والعسقلاني في المطالب العالية، 17 / 79، الرقم : 4165، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 18.
’’ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ضرور بالضرور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کے لشکروں میں سے ایک لشکر جہاد کے لیے نکلے گا تو کہا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے جس کے توسل سے تم (دشمن کے مقابلے میں) نصرت طلب کرو تو فتح یاب ہو جاؤ؟ پھر کہا جائے گا : کیا تم میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. پھر کہا جائے گا : کوئی ان کے صحابہ کی صحبت پانے والا (یعنی تابعی) ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. پھر کہا جائے گا : کوئی ایسا شخص جس نے ان کے صحابہ کی صحبت پانے والے (یعنی تبع تابعی) کی زیارت کی ہے؟ کہا جائے گا : نہیں. اور اگر وہ اس کے متعلق سمندر کے اس پار سے بھی سنتے تو ضرور اس کے پاس آجاتے.‘‘ اور ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : پھر ایسی قوم باقی رہ جائے گی جو قرآن پڑھے گی (مگر یہ) نہیں جانتی ہو گی کہ وہ کیا ہے۔ (یعنی اس کے اصل مطالب و مفاہیم سے نابلد ہو گی).‘‘
اسے امام ابو یعلی اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : امام ابو یعلی نے اسے دو طریق سے روایت کیا ہے اور دونوں کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں. اور امام عسقلانی نے بھی فرمایا : یہ اسناد صحیح ہے۔
5. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
5 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا.‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
6 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأٰی مَنْ رَآنِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
7 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رأی النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 694، الرقم : 3858، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 347، الرقم : 3082، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 265، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 116، الرقم : 7659.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس مسلمان کو جہنم کی آگ ہرگز نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی میرے صحابی) کو دیکھا.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لَهُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، طُوْبٰی لِمَنْ رَآکَ وَآمَنَ بِکَ قَالَ : طُوْبٰی لِمَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِي ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِي وَلَمْ يَرَنِي. قَالَ لَهُ رَجُلٌ : وَمَا طُوْبٰی؟ قَالَ : شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ مَسِيْرَةُ مِاءَةِ عَامٍ ثِيَابُ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَخْرُجُ مِنْ أَکْمَامِهَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 71، الرقم : 11691، وأبو يعلی في المسند، 2 / 519، وابن حبان في الصحيح، 16 / 213، الرقم : 7230، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 90، الرقم : 1733، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 47، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 67.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبارکباد ہے اس کے لیے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں یقینا) مبارکباد ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، (مگر) پھر مبارکباد ہے، پھر مبارکباد ہے، پھر مبارکباد ہے اس کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا تک نہیں، ایک شخص نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ! وہ) طوبیٰ (مبارکباد) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (طوبیٰ) جنت کا ایک درخت ہے جو ایک صدی کی مسافت تک پھیلا ہوا ہے۔ اہلِ جنت کے کپڑے اسی کے (پھلوں کے) چھلکے سے تیار ہوں گے.‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔
8. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلصَّحَابَةِ وَلِمَنْ رَأٰی مَنْ رَآنِي قَالَ : قُلْتُ : وَمَا قَوْلُهُ : وَلِمَنْ رَأٰی قَالَ : مَنْ رَأٰی مَنْ رَآهُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الْمُتَّقِي الْهِنْدِيُّ : وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
8 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 166، الرقم : 5874، وابن حبان في الثقات، 7 / 135، الرقم : 9345، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 254، والدولابي في الکنی والأسمائ، 3 / 1194، الرقم : 2098، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 20، والهندي في کنز العمال، 11 / 243، الرقم : 32490.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے میرے اﷲ! میرے صحابہ کو بخش دے اور اسے بھی بخش دے جس نے ان کو دیکھا جنہوں نے مجھے دیکھا. راوی کہتے ہیں میں نے کہا : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان ’’ولمن رأٰی‘‘ (اور جس نے دیکھا) سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے انہیں (یعنی صحابہ کو) دیکھا.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابن حبان اور امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں. اور متقی ہندی نے بھی کہا : اس کے رجال ثقات ہیں.
9. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلنَّجُوْمُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَاِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتٰی أَصْحَابِي مَا يُوْعَدُوْنَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتٰی اُمَّتِي مَا يُوْعَدُوْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
9 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب بيان أن بقاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم أمان لأصحابه وبقاء أصحابه أمان للأمة، 4 / 1961، الرقم : 2531، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 398، وأبو يعلی في المسند، 13 / 260، الرقم : 7276.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تارے آسمان کے لیے بچائو ہیں اور جب تارے ختم ہو جائیں گے تو جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ (یعنی قیامت) آسمان پر آ جائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لیے ڈھال ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے صحابہ پر بھی وہ وقت آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے بچائو ہیں اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آئے گا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : رَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأْسَهُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ : اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لأَهْلِ السَّمَاءِ، وَأَنَا أَمَانٌ لأَصْحَابِي، وَأَصْحَابِي أَمَانٌ لأُمَّتِي.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : قُلْتُ : رِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ لٰـکِنَّهُمْ قَالُوْا : لَمْ يَسْمَعْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ مِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَإِنَّمَا أَخَذَ التَّفْسِيْرَ عَنْ مُجَاهِدٍ وَسَعِيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْهُ. قُلْتُ : بَعْدُ أَنْ عَرَفْتُ الْوَاسِطَةَ وَهِي مَعْرُوْفَةٌ بِالثِّقَةِ حَصَلَ الْوُثُوْقُ بِهِ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 6، الرقم : 6687، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 17، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 62.
’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اُٹھا کر فرمایا : ستارے اہل آسمان کے لیے امان (کا باعث) ہیں. اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان (کا باعث) ہوں. اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان (کا باعث) ہیں.‘‘
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی اسناد جید ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا : میں کہتا ہوں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے براہ راست سماع نہیں کیا جب کہ اس نے (حضرت ابن عباس کے شاگرد) حضرت مجاہد سے علم تفسیر اَخذ کیا اور سعید بن جبیر نے ان (مجاہد) سے تفسیر لی ہے۔ میں (ابن حجر عسقلانی) کہتا ہوں : جب ہمیں درمیان کے واسطہ کی بھی پہچان ہو گئی اور وہ واسطہ بھی ثقہ ہے تو اس سے اس راوی کی ثقاہت بھی متحقق ہو جاتی ہے۔
وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَهْمَا أُوْتِيْتُمْ مِنْ کِتَابِ اﷲِ فَالْعَمَلُ بِهِ لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ فِي تَرْکِهِ فَإِن لَمْ يَکُنْ فِيکِتَابِ اﷲِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةً فَإِنْ لَمْ يَکُنْ سُنَّتِي فَمَا قَالَ أَصْحَابِي إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ، فَأَيُمَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ وَاخْتِلاَفُ أَصْحَابِي لَکُمْ رَحْمَةٌ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ.
أخرجه البيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 162، الرقم : 152، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 275، الرقم : 1346، وابن عبد البر في التمهيد، 4 / 263، والخطيب بغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 48، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 160، الرقم : 6497.
’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بھی تمہیں کتاب اللہ کا حکم دیا جائے تو اس پر عمل لازم ہے، اس پر عمل نہ کرنے پر کسی کا عذر قابل قبول نہیں، اگر وہ (مسئلہ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو میری سنت میں اسے تلاش کرو جو تم میں موجود ہو اور اگر میری سنت سے بھی نہ پاؤ تو (اس مسئلہ کا حل) میرے صحابہ کے اقوال کے مطابق (تلاش) کرو. بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن پکڑ لو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی، قضاعی، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي يَمُوْتُ بِأَرْضٍ إِلَّا بُعِثَ قَاءِدًا وَنُوْرًا لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَتَمَّامُ الرَّازِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ.
10 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فيمن سبّ أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3865، ابن تمام الرازي في الفوائد، 1 / 107، الرقم : 251، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1 / 186، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 1 / 128، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 506، الرقم : 5568، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 2 / 416.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ میں سے جو صحابی کسی زمین پر فوت ہو گا تو قیامت کے دن اس خطّے کے لوگوں کے لیے قائد اور نور بن کر اٹھے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، تمام الرازی، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُغَفَّلِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَﷲَ اَﷲَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اﷲَ، وَمَنْ آذَی اﷲَ فَيُوْشِکُ أَنْ يَأْخُذَهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالرَّوْيَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
1أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في من سبّ أصحاب النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 87، الرقم : 16849، والروياني في المسند، 2 / 92، الرقم : 882، والبخاري في التاريخ الکبير، 5 / 131، الرقم : 389، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 8 / 287.
’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور میرے بعد ان کو اپنی تنقید کا نشانہ مت بنانا کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی (تو گویا) اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب (اﷲ تعالیٰ) اس کی گرفت فرمائے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، رویانی نے اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
12. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ اﷲِ عَلٰی شَرِّکُمْ. وفي رواية : فَالْعَنُوْهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
12 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے. ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَإِنَّهُ يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَإِنْ مَرِضُوْا فَـلَا تَعُوْدُوْهُمْ، وَإِنْ مَاتُوْا فَـلَا تَشْهَدُوْهُمْ، وَلَا تُنَاکِحُوْهُمْ، وَلَا تُوَارِثُوْهُمْ، وَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَيْهِمْ، وَلَا تُصَلُّوْا عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ الْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَالْمِزِّيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ الْخَلَّالِ نَحْوُهُ فِي السُّنَّةِ.
أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 143، الرقم : 4240، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 499، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14 / 344، وابن الخلال في السنة، 2 / 483، الرقم : 769.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو یقینا آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے گی. سو (یہ لوگ) اگر بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کی نمازِ جنازہ میں شریک مت ہونا، اور ان سے نکاح (وغیرہ کے معاملات) مت کرو، اور انہیں وارث مت بنانا، اور انہیں سلام مت کرنا، اور ان کے لیے دعا (مغفرت) بھی مت کرنا.‘‘
اس حدیث کو خطیب بغدادی، مزی، ابن عساکر نے اور اسی سے ملتی روایت ابن الخلال نے السنۃ میں بیان کی ہے۔
13. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه بالْجَابِيَةِ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ فِيْنَا مِثْلَ مُقَامِي فِيْکُمْ، فَقَالَ : احْفَظُوْنِي فِي أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْکَذِبُ، حَتّٰی يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ وَيَحْلِفُ وَمَا يُسْتَحْلَفُ.
وفي رواية : الَا أَحْسِنُوْا إِلٰی أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ …الحديث.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْمَقْدِسِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
13 :أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الأحکام، باب کراهية شهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم : 2363، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 387، الرقم : 9219، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 26، الرقم : 177، وابن حبان في الصحيح، 10 / 436، الرقم : 4576، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 631، الرقم : 1489، وابن منده في الإيمان، 2 / 983، الرقم : 1087، والبزار في المسند، 1 / 269، الرقم : 166، والحاکم في المستدرک، 1 / 197.199، الرقم : 387.390، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 204، الرقم : 2929، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 191، الرقم : 96.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر ہم سے خطاب کیا اور فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے تھے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور فرمایا : میرے صحابہ کا خیال رکھنا اور پھر جو ان کے بعد لوگ (تابعین) ہوں گے. ان کا اور پھر جو ان کے بعد (تبع تابعین) ہوں گے. پھر جھوٹ عام ہوجائے گا حتیٰ کہ ایک شخص خود سے ہی گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی اور وہ قسم کھائے گا حالانکہ اس سے قسم نہیں لی جائے گی. اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خبردار! میرے صحابہ سے اچھا سلوک کرنا اور پھر ان سے جو ان (صحابہ) کے بعد آئیں گے،الحدیث.‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، نسائی، احمد، ابن حبان اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام مقدسی نے بھی اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔
14. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی يُلْتَمَسَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي کَمَا تُلْتَمَسُ أَوْتُبْتَغَی الضَّالَّةُ، فَـلَا يُوْجَدُ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حُمَيْدٍ.
14 :أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 89، الرقم : 675، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 52، الرقم : 69، والعسقلاني في المطالب العالية، 17 / 84، الرقم : 4168.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک میرے صحابہث میں سے کسی آدمی کو اس طرح ڈھونڈا جائے گا جس طرح گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن وہ نہیں ملتی.‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور عبد بن حمید نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا ذُکِرَ أَصْحَابِي فَأَمْسِکُوْا، وَإِذَا ذُکِرَتِ النُّجُوْمُ فَأَمْسِکُوْا، وَإِِذَا ذُکِرَ الْقَدَرُ فَأَمْسِکُوْا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَفِيْهِ مُسْهِرُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَغَيْرُهُ وَفِيْهِ خِـلَافٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
15 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 198، الرقم : 10448، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 4 / 108، وعبد الرزاق في الأمالي في آثار الصحابة / 50، الرقم : 51، وابن عبد البر في التمهيد، 6 / 68، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 126، الرقم : 210، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 336، الرقم : 1337، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 202.
’’حضرت عبد اﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو خاموش ہو جاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش ہوجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو بھی خاموش ہو جاؤ.‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، ابو نعیم، عبد الرزاق اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کی سند میں مسہر بن عبد الملک ہے جسے ابن حبان وغیرہ ائمہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اس میں اختلاف ہے جبکہ بقیہ رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں.
16. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ يَکْثُرُوْنَ، وَإِنَّ أَصْحَابِي يَقِلُّوْنَ، فَـلَا تَسُبُّوْهُمْ لَعَنَ اﷲُ مَنْ سَبَّهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
16 :أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 133، الرقم : 2184، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 47، الرقم : 1203، وأيضًا في الدعائ / 581، الرقم : 2109، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 350، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 149.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بے شک لوگ کثیر تعداد میں ہیں اور میرے صحابہ قلیل ہیں. سو میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو ان کو برا بھلا کہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ عَطَائٍ يَعْنِي بْنَ أَبِي رِبَاحٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَفِظَنِي فِي أَصْحَابِي کُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَافِظًا وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
اخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 54، الرقم : 10.
’’ایک روایت میں (تابعی) حضرت عطا بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کے معاملے میں مجھے یاد رکھا (یعنی میرا لحاظ کیا) تو قیامت کے دن میں اسے یاد رکھوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو.‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ بِي أَصْحَابًا فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَاءِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
17 :أخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة، ذکر عويم بن ساعدة رضی الله عنه، 3 / 732، الرقم : 6656، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1000، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 3 / 370، الرقم : 1772، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 144، الرقم : 456، وأيضًا في المعجم الکبير، 17 / 140، الرقم : 349.
’’حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲتعالیٰ نے مجھے (اپنا پسندیدہ رسول) چنا اور میرے لیے میرے صحابہ کو چنا. سو اس نے میر ے لیے ان میں سے وزرائ، ازدواجی رشتہ دار (داماد اور سسر) اور انصار (یعنی مدد گار) بنائے. سو جس نے انہیں گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور قیامت کے روز اﷲتعالیٰ ان کے کسی فرض و نفل کو قبول نہیں کرے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، ابن ابی عاصم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
18. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَانَ يَقُوْلُ : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمْرَهُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هٰذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
18 :أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 162، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32415، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 484، الرقم : 1006، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 57، الرقم : 15، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 24، الرقم : 59.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا مت کہو، پس ان کے عمل کا ایک لمحہ تم میں سے کسی کے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، ابن ابی عاصم اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے کہا : یہ اسناد صحیح اور رجال ثقات ہیں.
19. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ اﷲَ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلٰی دِيْنِهِ، فَمَا رَأَی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا، فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ سَيِّء.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُوْنَ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
19 :أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم : 3600، والبزار في المسند، 5 / 212، الرقم : 1816، 1702، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 58، الرقم : 3602، وأيضًا في المعجم الکبير، 9 / 112، 115، الرقم : 8582، 8593، والطيالسي في المسند، 1 / 33، الرقم : 246، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 375، والبيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 114، الرقم : 49، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 177.178، والعسقلاني في الأمالي المطلقة / 65.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں کے دلوں سے بہتر قلب پایا تو اسے اپنے لیے چن لیا (اور خاص کر لیا) اور انہیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا. پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو (صرف اپنے لیے) منتخب کرنے کے بعد دوبارہ قلوبِ انسانی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں کو سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر بنا دیا وہ ان کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے : انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کا مددگار بنا دیا) سو جس شے کو مسلمان اچھا جانیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بھی) اچھی اور جسے وہ بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بُری ہے۔‘‘
اسے امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں. اور عسقلانی نے بھی کہا : یہ حدیث حسن ہے۔
20. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ : سُءِلَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما : هَلْ کَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَضْحَکُوْنَ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَالإِيْمَانُ فِي قُلُوْبِهِمْ أَعْظَمُ مِنَ الْجِبَالِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ رَاشِدٍ.
وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : احْفَظُوْنِي فِي أَصْحَابِي، فَإِنَّهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ.
20 :أخرجه أبو نعيم في حلية الأوليائ، 1 / 311، وابن راشد في الجامع، 11 / 327، 451، الرقم : 20671، 20976، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3 / 1343، الرقم : 4749، والعيني في عمدة القاري، 22 / 150، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 / 418، الرقم : 720.
’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے پوچھا گیا : کیا صحابہ کرام ہنستے بھی تھے؟ تو انہوں نے فرمایا : ہاں! اور ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی بڑا تھا.‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم اور ابن راشد نے روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں میرا لحاظ کرنا کیوں کہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں.‘‘ اس حدیث کو امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ عَاءِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي اﷲ عنهما فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضي اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ رَاهْوَيْه.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل اهل بيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1883، الرقم : 2424، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 672، الرقم : 1149، وابن راهويه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے. حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ابی شیبہ، احمد اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔
22. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَی اخْتِـلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَالِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ.
22 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم : 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم : 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، الرقم : 17184، وابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم : 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 246، الرقم : 618.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے. ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور اطاعت کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کر لے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا).‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت نہیں ہے۔
23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰی حِرَاءَ هُوَ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْصِدِّيْقٌ أَوْشَهِيْدٌ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
23 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير، 4 / 1880، الرقم : 2417، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5 / 624، الرقم : 3696، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 59، الرقم : 8207.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم تھے اتنے میں پہاڑ لرزاں ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھہر جا، کیوں کہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔
24. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَولَا الْهِجْرَةُ لَکُنْتُ امْرَا مِنَ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
24 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التمنی، باب ما يجوز من اللو، 6 / 2646، الرقم : 6817.6818، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بإعطاء المؤلفة قلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061.
’’حضرت عبد اﷲ بن زید اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنھما، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر ہجرت (کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے .
25. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَةِ فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ.
وفي رواية : فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَة. وفي رواية : فَأَکْرِمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة. وفي رواية : اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَة، فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
25 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم اصلح الانصار والمهاجرة، 3 / 1381، الرقم : 3584، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة الاحزاب وهي الخندق، 3 / 1431، الرقم : 1804.1805.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، سو تو انصار، اور مہاجرین کی اصلاح فرما. ’’ایک روایت میں ہے : سو تو انصار، اور مہاجرین کی مغفرت فرما. ’’ایک روایت میں ہے : سو تو انصار اور مہاجرین کو عزت عطا فرما. ’’ایک روایت میں ہے : اے اللہ، بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کے معاملات دُرست فرما.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
26. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانُوْا يَرْتَجِزُوْنَ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُوْلُوْنَ : اللّٰهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَة فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
26 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مقدم النبي صلی الله عليه وآله وسلم المدينة، 3 / 1430، الرقم : 3717، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة الاحزاب وهي الخندق، 3 / 431، الرقم : 1805، وابو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في بناء المساجد، 1 / 123، الرقم : 453.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار و مہاجرین (خندق کھودتے وقت) رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کے ساتھ (رجزیہ اشعار پڑھنے میں شریک) تھے. اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے : اے اللہ، اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، سو تو انصار و مہاجرین کی مدد فرما.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں.
27. عَنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلٰی أَعْقَابِهِمْ … الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
27 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، 3 / 1431، الرقم : 3721، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب الوصية بالثلث، 3 / 1250، الرقم : 1628.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اﷲ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قبول فرما اور انہیں اُلٹے پاؤں نہ لوٹانا، الحدیث.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
28. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ : بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَرَکِبْنَا سَفِيْنَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِيْنَتُنَا إِلَی النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتّٰی قَدِمْنَا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَکُمْ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ السَّفِيْنَةِ هِجْرَتَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
28 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب هجرة الحبشة، 3 / 1407، الرقم : 3663، الرقم : 3663، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل جعفر بن ابي طالب واسماء بنت عميس واهل سفينتهم ث، 4 / 1946، الرقم : 2502.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجرت فرمانے کی خبر پہنچی تو اس وقت ہم یمن میں تھے، سو ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے، اس کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجاشی تک پہنچا دیا. وہاں ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی سنگت اختیار کی اور ان کے ساتھ رہنے لگے. یہاں تک کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے. پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر فتح کیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں تھے. تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتوں کا ثواب ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے .
29. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : آيَةُ الإِيْمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : آيَةُ الْمُنَافِقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ الْمُؤْمِنِ حُبُّ الْأَنْصَارِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
29 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان حب الأنصار، 1 / 14، الرقم : 17، وأيضًا في کتاب المناقب، باب حب الأنصار، 3 / 1379، الرقم : 3572، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الأنصار وعليث من الإيمان وعلاماته، 1 / 85، الرقم : 74.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار سے محبت، ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بُغض، نفاق کی علامت ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منافق کی علامت انصار سے بغض رکھنا اور مومن کی علامت انصار سے محبت کرنا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
30. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، أَوْ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اﷲُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اﷲُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية للنسائي : وَلَايُبْغِضُهُمْ إِلَّا کَافِرٌ.
30 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب حب الانصار، 3 / 1379، الرقم : 3572، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الأنصار وعلي رضی الله عنهم من الإيمان وعلاماته، 1 / 85، الرقم : 75، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الانصار وقريش، 5 / 712، الرقم : 3900، وقال : هذا حديث صحيح، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الانصار، 1 / 57، الرقم : 163.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، یا کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار سے صرف مومن محبت کرتا ہے اور ان سے بغض صرف منافق رکھتا ہے۔ سو جس نے ان سے محبت رکھی اس سے اللہ نے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس سے اللہ نے بغض رکھا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور نسائی کی روایت میں ہے : ’’ان سے سوائے کافر کے کوئی بغض نہیں رکھتا.‘‘
31. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَای صِبْيَانًا وَنِسَائً مُقْبِلِيْنَ مِنْ عُرْسٍ فَقَامَ نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مُمْثِلًا فَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ. اَللّٰهُمَّ، أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ يَعْنِي الْأَنْصَارَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
3أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم للانصار انتم احب الناس إلي، 3 / 1379، الرقم : 3574، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل الانصار، 4 / 1948، الرقم : 2508.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کے کچھ بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے استقبال کے لیے) کھڑے ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ تم محبوب ہو، مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ تم محبوب ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد انصار تھے.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
32. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُوْلُ : مَرَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَالْعَبَّاسُ رضي اﷲ عنهما بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْکُوْنَ، فَقَالَ : مَا يُبْکِيْکُمْ؟ قَالُوْا : ذَکَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَّا فَدَخَلَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرَهُ بِذَالِکَ قَالَ : فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ عَصَبَ عَلٰی رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ قَالَ : فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَالِکَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ کَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوا الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوْا عَنْ مُسِيْءِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
32 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم اقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم، 3 / 1383، الرقم : 3588، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل الأنصار، 4 / 1949، الرقم : 2510.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہما انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو دیکھا وہ رو رہے تھے تو ان سے پوچھا : کیا چیز تمہیں رلا رہی ہے؟ تو انہوں نے کہا : ہمیں اپنی مجلسوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹھنا یاد آ رہا ہے، تو وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ساری صورتحال عرض کی تو راوی کہتے ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہِ مبارک) سے باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ سر مبارک پر پٹی کی طرح باندھ رکھا تھا. راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور یہ آخری بار تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز نہیں ہوئے. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے فرمایا : میں تمہیں انصار کے بارے میں نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیوں کہ وہ میرے مخلص ساتھی اور ہمراز ہیں. ان پر جو فرائض تھے وہ ادا کر چکے اور ان کا حق باقی ہے۔ لہٰذا ان کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرنا اور جو ان میں سے قصوروار ہوں ان سے درگزر کرنا.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيْدٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا يُبْغِضُ الْأَنْصَارَ رَجَلٌ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
33 :أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن حب الانصار وعلي من الإيمان وعلاماته، 1 / 86، الرقم : 76.77، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الانصار وقريش، 5 / 715، الرقم : 3906، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 86، 88، الرقم : 8323، 8333، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 34، الرقم : 11318، 11425، وابو يعلی في المسند، 2 / 287، الرقم : 1007، والطيالسي في المسند، 1 / 290، الرقم : 2182.
’’حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
34. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ الْمِقْدَادُ يَومَ بَدْرٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِيْلَ لِمُوْسٰی : {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ} [المائدة، 5 : 24]، وَلٰـکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّهُ سُرِّيَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ.
34 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : فاذهب انت وربک فقاتلا إنا هاهنا قاعدون، 4 / 1684، الرقم : 4333، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 333، الرقم : 11140، واحمد بن حنبل في المسند، 4 / 314، الرقم : 18073، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 555، الرقم : 220، وقال : إسناده حسن.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے وقت حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! ہم آپ سے وہ بات ہر گز نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ں سے کہی تھی کہ ’’آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں.‘‘ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اس جواب سے بہت خوشی و مسرت ہوئی.‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاکُمُ اﷲُ عزوجل بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ مُتَفَرِّقِيْنَ فَجَمَعَکُمُ اﷲُ بِي؟ أَلَمْ آتِکُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ اﷲُ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ بِي؟ قَالُوا : بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : أَفَـلَا تَقُوْلُوْنَ : جِئْتَنَا خَاءِفًا فَآمَنَّاکَ، وَطَرِيْدًا فآوَيْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ. فَقَالُوْا : بَلْ ِﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْمَنُّ بِهِ عَلَيْنَا وَلِرَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ زَيْدٍ، وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ.
35 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، 4 / 1574، الرقم : 4075، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب إعطاء المؤلفة لقلوبهم علی الإسلام، 2 / 738، الرقم : 1061، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 91، الرقم : 8347، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 72، الرقم : 242، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، الرقم : 12040، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2 / 800، الرقم : 1435، وابن حبان في الثقات، 2 / 81.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے گروہ انصار کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے سو اللہ تعالیٰ نے میرے سبب تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں (ایک جگہ) جمع فرما دیا؟ کیا میں تمہارے پاس وقت نہیں آیا جب تم باہم دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرما دی؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم یہ کیوں نہیں کہتے : آپ ہمارے پاس حالتِ خوف میں تشریف لائے تو ہم نے آپ کو امان دی، اور آپ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب آپ کی قوم نے آپ کو ملک بدر کر دیا تو ہم نے آپ کو پناہ دی، اور آپ ہمارے پاس شکستہ حالی میں تشریف لائے تو ہم نے آپ کی مدد و نصرت کی. انہوں نے عرض کیا : (یہ آپ پر ہمارا کوئی احسان نہیں) بلکہ (آپ کا ہمارے پاس تشریف لانا) تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم پر احسان ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری و مسلم نے طویل روایت میں حضرت عبد اﷲ بن زید رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ اور امام نسائی، احمد اور ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ الفاظ احمد کے ہیں.
36. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وَالتِّرْمِذِيُّ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه وزاد : وَلِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ.
وَقَالَ َالتِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
36 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : هم الذين يقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اﷲ حتی ينفضوا، 4 / 1862، الرقم : 4623، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة ث، باب من فضائل الانصار، 4 / 1948، الرقم : 2506، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب فضائل الانصار وقريش، 5 / 715، الرقم : 3909، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 86، الرقم : 10146.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! انصار اور انصار کے بیٹوں، اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں.
امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافے سے روایت کیا : اور انصار کی عورتوں (بیویوں) کی بھی مغفرت فرما.‘‘
امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
37. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَهْلِ بَدْرٍ : فَلَعَلَّ اﷲَ اطَّلَعَ إِلٰی أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ، أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
37 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب فضل مَن شَهِدَ بدرًا، 4 / 1463، الرقم : 3762، وأيضًا في کتاب الجهاد، باب الجاسوس، 3 / 1095، الرقم : 2845، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أهل بدر ث، وقصة حاطب بن أبي بلتعة رضی الله عنه، 4 / 1941، الرقم : 2494، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الممتحنة، 5 / 409، الرقم : 3305، والدارمي في السنن، 2 / 404، الرقم : 2761.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحابِ بدر کے بارے میں فرمایا : اﷲتعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف (رحمت کی) نظر ڈالی. پھر فرمایا : تم جو عمل کرنا چاہتے ہو کرو بیشک تمہارے لیے جنت لازم ہو گئی ہے یا فرمایا : میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
38. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَومَ الْحُدَيْبِيَةِ : أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَکُنَّا أَلْفاً وَأَرْبَعَ مِاءَة، وَلَوْ کُنْتُ أُبْصِرُ الْيَوْمَ لَأَرَيْتُکُمْ مَکَانَ الشَّجَرَةِ.
مُتْفَقٌ عَلَيْهِ.
38 :أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3923، ومسلم في الصحيح، کتاب الامارة، باب استحباب مبايعة الإمام الجيش، عند إرادة القتال، وبيان بيعة الرضوان تحت الشجرة، 3 / 1484، الرقم : 1856.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن ہمیں فرمایا : تم زمین پر بسنے والوں میں سب سے بہتر ہو اور ہم چودہ سو افراد تھے اور اگر آج میں دیکھ سکتا تو تمہیں (حدیبیہ کے) اس درخت کی جگہ دکھا دیتا.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
39. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ : أَبُوْ بَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، وَأَبُوْ عُبَيْدَةَ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ث، قَالَ : فَعَدَّ هٰؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَکَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَومُ : نَنْشُدُکَ بِاﷲِ يَا أَبَا الْأَعْوَرِ، مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُونِي بِاﷲِ أَبُو الأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ : أَصَحُّ.
39 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنه، 5 / 648، الرقم : 3748، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 56، الرقم : 8195، واحمد بن حنبل في المسند، 1 / 188، الرقم : 1631، وابن حبان في الصحيح، 15 / 463، الرقم : 7002، والشاشي في المسند، 1 / 247.
’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، (اور وہ یہ ہیں) ابوبکر جنتی ہے، عمر جنتی ہے، عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبد الرحمن، ابو عبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (ث) جنتی ہیں، راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہو گئے. لوگوں نے کہا : ابو اعور! ہم آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں (بتائیے) دسواں آدمی کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دی ہے، (دسواں) ابو اعور (یعنی سعید بن زید خود) جنتی ہیں.‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے السنن میں اور امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اس حدیث کو اصح (صحیح ترین) کہا ہے۔
40. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُوْ بَکْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اﷲِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَائً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَوُهُمْ أُبَيٌّ. وَلِکُلِّ أُمَّة أَمِيْنٌ وَأَمِيْنُ هذِهِ الْأُمَّةِ أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَاءِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا إِسْنَادٌ صَحِيْحٌ.
40 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل وزيد بن ثابت وابي بن کعب وابي عبيدة بن الجراح ث، 5 / 664.665، الرقم : 3790.3791، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضائل خباب رضی الله عنه، 1 / 55، الرقم : 154، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 67، 78، الرقم : 8242، 8287، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 281، الرقم : 14022، وابو يعلی في المسند، 10 / 141، الرقم : 5763، والحاکم في المستدرک، 3 / 477، الرقم : 5784.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے سب سے زیادہ میری امت پر مہربان ابو بکر ہے، احکام الٰہی میں سب سے زیادہ سخت عمر ہے، شرم و حیاء میں سب سے زیادہ سچا عثمان ہے، حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والا معاذ بن جبل ہے، علم الفرائض کا سب سے زیادہ جاننے والا زید بن ثابت ہے اور سب سے اچھا قاری ابی بن کعب ہے اور ہر امت کا کوئی نہ کوئی امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی،نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس کی اِسناد صحیح ہے۔
41. عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَغْزُوْ بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَة مِنَ الْأَنْصَارِ مَعَهُ إِذَا غَزَا فَيَسْقِيْنَ الْمَاءَ يُدَاوِيْنَ الْجَرْحٰی. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
4أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة النساء مع الرجال، 3 / 1443، الرقم : 1810، والترمذي في السنن، کتاب السير، باب ما جاء في خروج النساء في الحرب، 4 / 139، الرقم : 1575، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في النساء يغزون، 3 / 18، الرقم : 2531، والمروزي في السنة، 1 / 48، الرقم : 152.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جہاد کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت اُم سلیم اورانصار کی کچھ عورتیں بھی ہوتی تھیں، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں تھیں.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ الْأَنْصَارِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأُدَاوِی الْجَرْحٰی، وَأَقُوْمُ عَلَی الْمَرْضٰی.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب النساء العازيات يرضخ لَهُنَّ ولا يسهم، 3 / 1447، الرقم : 1812، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب العبيد والنساء يشهدن مع المسلمين، 2 / 952، الرقم : 2856، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 84، الرقم : 20811.
’’حضرت اُم علطیہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، میں مجاہدین کے عقب میں خیموں میں رہتی تھی. مجاہدین کے لیے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی عیادت کرتی.‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved