قَالَ السَّخَاوِيُّ (م 902 ه) فِي تَرْجُمَةِ عَمِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنه :
وَجُعِلَ عَلٰی قَبْرِه قُبَّةٌ فَهُوَ يزَارُ وَيتَبَرَّکُ بِه.
شمس الدين السخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 / 307
امام شمس الدین سخاوی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی میں لکھتے ہیں : ’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ (گنبد) بنایا گیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ کی زیارت کی جاتی ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کی جاتی ہے.‘‘
خطیب بغدادی (463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے. خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إِنِّي لَأَتَبَرَّکُ بِأَبِي حَنِيْفَةَ، وَأَجِيئُ إِلٰی قَبْرِه فِي کُلِّ يَوْمٍ . يَعْنِي زَائِرًا . فَإِذَا عُرِضَتْ لِي حَاجَةٌ صَلَّيْتُ رَکْعَتَيْنِ، وَجِئْتُ إِلٰی قَبْرِه، وَسَأَلْتُ اﷲَ تَعَالَی الْحَاجَةَ عِنْدَه، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي حَتّٰی تُقْضٰی.
ذکره خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 1 / 123، وابن حجر الهيتمي في الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم / 94، وابن عابدين الشامي في رد المحتار علی الدر المختار، 1 / 41، وزاھد الکوثري في مقالات الکوثري / 381.
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں. جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں. پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے.‘‘
مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی بن موسی رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قَدْ زُرْتُه مِرَارًا کَثِيْرَةً، وَمَا حَلَّتْ بِي شِدَّةٌ فِي وَقْتِ مُقَامِي بِطَوْسٍ، وَزُرْتُ قَبْرَ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَی الرِّضَا صَلَوَاتُ اﷲِ عَلٰی جَدِّه وَعَلَيْهِ، وَدَعَوْتُ اﷲَ تَعَالَی إِزَالَتَهَا عَنِّي إِلَّا اسْتُجِيْبَ لِي، وَزَالَتْ عَنِّي تِلْکَ الشِّدَّةُ وًهذَا شَيئٌ جَرَّبْتُه مِرَارًا فَوَجَدْتُه کَذَالِکَ، امَاتَنَا اﷲُ عَلٰی مَحَبَّةِ الْمُصْطَفٰی وَاهْلِ بَيْتِه صلی الله عليه وآله وسلم وَعَلَيْهِمْ اجْمَعِيْنَ.
ذکره ابن حبان في کتاب الثقات، 8 / 457، الرقم : 14411.
’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، میرے شہر طوس میں قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی. یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا. اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے.‘‘
(4) ابو الفرج ہندبائی کا امام احمد بن حنبل کے مزار پر حاضری کا معمول
امام ابو القاسم ابن ہبۃ اﷲ (م 571ھ) نے لکھا ہے :
عَنْ أَبِي الْفَرَجِ الْهِنْدَبَائِيِّ يَقُوْلُ : کُنْتُ أَزُوْرُ قَبْرَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَتَرَکْتُه مُدَّةً، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ قَائِلًا يَقُوْلُ لِي : لِمَ تَرَکْتَ زِيَارَةَ قَبْرِ إِمَامِ السُّنَّةِ.
ذکره ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 5 / 333
’’ابو الفراج ہندبائی نے بیان کیا ہے : میں اکثر امام احمد بن حنبل کی قبر کی زیارت کیا کرتا تھا پس ایک عرصہ تک میں نے زیارت کرنا چھوڑ دیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے : تو نے امام السنۃ (امام احمد بن حنبل) کی قبر کی زیارت کو کیوں ترک کیا؟‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک مستحسن عمل تھا جب انہوں نے چھوڑ دیا تو انہیں بذریعہ خواب ترغیب دی گئی کہ اس کو ترک نہ کیا جائے.
امام ذہبی (748ھ) نے امیرالمؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے، لکھتے ہیں :
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی. اسی اثناء میں اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں. قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا :
أَرَی أَنْ تَخْرُجَ وَيَخْرُجَ النَّاسُ مَعَکَ إِلٰی قَبْرِ الْإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيْلِ الْبُخَارِيِّ، وَقَبْرُه بِخَرْتَنْکَ، وَنَسْتَسْقِي عِنْدَه فَعَسَی اﷲُ أَنْ يَسْقِيْنَا. قَالَ : فَقَالَ الْقَاضِي : نَعَمْ، مَا رَأَيْتُ. فَخَرَجَ الْقَاضِي وَالنَّاسُ مَعَه، وَاسْتَسْقَی الْقَاضِي بِالنَّاسِ، وَبَکَی النَّاسُ عِنْدَ الْقَبْرِ وَتَشَفَّعُوْا بِصَاحِبِه. فَأَرْسَلَ اﷲُ تَعَالَی السَّمَائَ بِمَائٍ عَظِيْمٍ غَزِيْرٍ، أَقَامَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِه بِخَرْتَنْکَ سَبْعَةَ أَيَامٍ أَوْ نَحْوِهَا لَا يَسْتَطِيْعُ أَحَدٌ اَلْوُصُوْلُ إِلٰی سَمَرْقَنْدَ مِنْ کَثْرَةِ الْمَطَرِ وَغَزَارَتِه، وَبَيْنَ خَرْتَنْکَ وَسَمَرْقَنْدَ نَحْوُ ثَ.لَاثَةِ أَمْيَالٍ.
ذکره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 12 / 469.
’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے. قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے. پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سو قاضی نے لوگوں کو ساتھ مل کر بارش طلب کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے. اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) کثیر وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا.‘‘
امام ابنِ عساکر نے زیارتِ صالحین کی ترغیب پر ایک ایمان افروز واقعہ ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ وَالِدِي أَبَا مُحَمَّدٍ الْحَسَنَ بْنِ هِبَةِ اﷲِ يَحْکِي أَنَّه خَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ لِزِيَارَةِ قَبْرِ بِلَالٍ رضی الله عنه فَوَجَدَ امْرَأَةٍ أَعْجَمِيَةٍ وَهِيَ تَبْکِي عِنْدَ قَبْرِه، فَقَالَ الْبَعْضُ : مَنْ يحْسِنُ بِالْفَارِسِيَةِ، سَلْهَا عَنْ سَبَبِ بُکَائِهَا، فَقَالَتْ : قَبْرُ مَنْ هَذَا الَّذِي إِلٰی جَنْبِ قَبْرِ بِلَالٍ؟ فَقُلْتُ : هَذَا قَبْرُ أَبِي بَکْرٍ الشَّهْرَزُوْرِيِّ، وَهَذَا قَبْرُ أَبِيْهِ أَبِي إِسْحَاقَ، أَحَدُهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَالآخِرُ خَلْفَه، فَقَالَتْ : کَيْفَ قَدْ زُرْتُ قَبْرَ بِلَالٍ مَرَّةً ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَجَاوَرْتُ بِهَا فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي النَّوْمِ، وَهُوَ يَقُوْلُ لِي : زُرْتِ قَبْرَ بِلَالٍ وَمَا زُرْتِ جَارَه؟ فَرَجَعْتُ مِنَ الْمَدِيْنَةِ لِزِيَارَتِه أَوْ کَمَا قَالَ.
ذکره ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 54 / 226.
’’میرے والد گرامی ابو محمد الحسن بن ہبۃ اﷲ نے مجھے اپنا واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبرِ مبارک کی زیارت کے لیے گئے تو وہاں انہوں نے قبر کے پاس ایک عجمی عورت کو روتے ہوئے پایا. وہاں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ جو اچھی طرح فارسی جانتا ہو وہ اس خاتون سے پوچھے کہ اس کے رونے کا سبب کیا ہے؟جب اس سے پوچھا گیا تو اس عورت نے دریافت کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کے پہلو میں یہ دوسری قبر کس کی ہے؟ میں نے کہا : یہ قبر ابوبکر شہرزوری کی ہے اور دوسری ان کے والد ابو اسحاق کی ہے. ایک بالکل سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے ہے اور دوسری اس کے پیچھے. اس عورت نے کہا : میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کی، پھر میں زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے چلی گئی اور (جب) قبرِ انور کے پاس گئی تو میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تُو نے بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت تو کی مگر اس کے قریب موجود دوسری قبر کی زیارت نہ کی؟ لہٰذا اب میں (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکوے کا ازالہ کرنے کے لئے) مدینہ منورہ سے اس قبر کی زیارت کے لئے آئی ہوں.‘‘
علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی (متوفی 521ھ) ’’طبقات الحنابلۃ (2 : 63)‘‘ میں صوفی زاہد علی بن محمد بن بشار کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ جب اُن کاوصال ہو گیا تو
دُفِنَ بِالْعَقَبَةِ قَرِيْبًا مِنَ النَّجْمَی، وَقَبْرُهُ الآنَ ظَاهِرٌ يَتَبَرَّکُ النَّاسُ بِزِيَارَتِه.
’’انہیں نجمی کے قریب گھاٹی میں دفن کیاگیا، اب اُن کی قبر مشہور و معروف ہے، لوگ اس کی زیارت سے برکت حاصل کرتے ہیں.‘‘
قَالَ الْقَزْوِيْنِيُّ فِي تَرْجَمَةِ صَالِحِ بْنِ احْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ : ابُو الْفَضْلِ الْکَوْمَلَابَادِيُّ الْهَمْدَانِيُّ، وَالدُّعَائُ عِنْدَ قَبْرِه مُسْتَجَابٌ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ طَاهِرٍ الْعَابِدَ يَقُوْلُ : سَمِعْتُ بَعْضَ الْمَشَائِخِ يَقُوْلُ : مَا مِنْ رَجُلٍ يَقِفُ عَلٰی قَبْرِ صَالِحٍ الْکَوْمَلَابَادِيُّ فَيَقُوْلُ : سَبْعَ مَرَّاتٍ، يَا کَافِي الْمُهِمَّاتِ، وَيَا بَدِيْعَ السَّمَاوَاتِ وَالْارْضِ، اکْفِنَا مَا يهِمُّنَا ثُمَّ يَدْعُوْ بِمَا بَدَا لَه إِلَّا اسْتُجِيْبَ لَه قَالَ شَيْرَوَيْهِ : جَرَّبْتُه فَوَجَدْتُه ذَالِکَ.
ذکره القزويني في التدوين في اخبار قزوين، 3 / 90.91.
’’امام قزوینی حضرت صالح بن احمد بن محمد بن صالح ابو فضل الکوملابادی ہمدانی کے حالاتِ زندگی میں بیان کرتے ہیں. : اُن کی قبر پر دعائیں قبول ہوتی ہیں. میں محمد بن طاہر عابد سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بعض مشائخ سے سنا : وہ فرماتے ہیں کہ شخص حضرت صالح الکوملابادی کے مزار پر حاضر ہو اور سات بار یہ الفاظ کہے : ’’یا کافي المہمات ویا بدیع السماوات والارض اکفنا ما یہمنا‘‘ (اے مشکلات حل کرنے والے! اے زمین و آسمان کو وجود میں لانے والے! جس چیز کا ہم نے ارادہ کیا ہے اُس کے لیے ہماری کفایت فرما) اور پھر وہ دعا مانگے جس کا اُس نے ارادہ کیا ہے تو وہ دعا ضرور قبول ہو گی. شیرویہ کہتے ہیں کہ میں نے اِس کا تجربہ کیا ہے اور میں نے اِسے سچ پایا.‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved