1. عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ لهُ رَجُلٌ : يَا أَبَا عُمَارَةَ، وَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ : لاَ، وَاللهِ، مَا وَلَّی النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلٰکِنْ وَلّٰی سَرَعَانُ النَّاسِ، فَلَقِيَهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ رضي الله عنه آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ :
أَنَا النَّبِيُّ لاَ کَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب بغلة النبي صلی الله عليه وآله وسلم البيضاء، 3 / 1054، الرقم : 2719، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب في غزوة حنين، 3 / 1400. 1401، الرقم : 1776.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کسی شخص نے دریافت کیا : اے ابو عمارہ! کیا غزوہ حنین میں آپ لوگوں نے پیٹھ دکھائی تھی؟ انہوں نے فرمایا : نہیں، خدا کی قسم! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیٹھ نہیں دکھائی، ہاں بعض جلد باز لوگ بھاگ نکلے تو اہلِ ہوازن نے انہیں تیروں کی باڑ پر رکھ لیا جبکہ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سفید خچر پر جلوہ افروز تھے جس کی لگام حضرت ابو سفیان بن حارث نے تھام رکھی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
میں نبیِ برحق ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں
میں عبد المطلب (جیسے سردار) کا لختِ جگر ہوں
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
2. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : جَعَلَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ يَحْفِرُوْنَ الْخَنْدَقَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ، وَيَنْقُلُوْنَ التُّرَابَ عَلٰی مُتُوْنِهِمْ، وَيَقُوْلُوْنَ :
نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدَا
عَلَی الإِسْلَامِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا
وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُجِيْبُهُمْ وَيَقُوْلُ :
اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ
الْآخِرَة
فَبَارِکْ فِي الْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَة
وفي رواية : عَنْ سَهْلٍ رضي الله عنه قَالَ : جَائَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلٰی أَکْتَادِنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم :
اَللّٰهُمَّ، لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ
فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب حفر الخندق، 3 / 1043، الرقم : 2679. 2680، وأيضًا في کتاب المناقب، باب دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم أصلح الأنصار والمهاجرة، 3 / 1381، الرقم : 3585، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة الأحزاب وهي الخندق، 3 / 1431، الرقم : 1804.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (غزوئہ خندق کے موقع پر) مہاجرین اور انصار صحابہ مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اور اپنی پشتوں پر مٹی (کے ٹوکرے) لاد کر لے جاتے ہوئے یہ شعر پڑھتے تھے :
ہم وہ (لوگ) ہیں جنہوں نے دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تاحیات بیعتِ اسلام کی ہے۔
’’یہ سماعت فرما کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر اپنے پروانوں کے لیے جواباً یہ الفاظ جاری ہو جاتے :
یااللہ! اصل بھلائی (و کامیابی) تو آخرت کی (زندگی میں بھلائی و کامیابی) ہے، پس انصار و مہاجرین کو برکت عطا فرما۔
ایک روایت میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے جبکہ ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا کر منتقل کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
یااللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے پس تو (اس زندگی میں سرخرو ہونے کے لیے) مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
3. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، يَقُوْلُ : هَجَاهُمْ حَسَّانُ، فَشَفٰی وَاشْتَفٰی. قَالَ حَسَّانُ :
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
هَجَوْتَ مُحمَّدًا بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اللهِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مَتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب من أحب أن لا يسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وأيضًا في کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1934. 1935، الرقم : 2489.2490.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : (اے حسان!) جب تک تم اللہ عزوجل اور اس کے رسول کا دفاع (بصورتِ شعر) کرتے رہو گے روح القدس تمہاری تائید کرتے رہیں گے۔ نیز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کر دیا) اور خود شفایاب ہوئے (یعنی ان کا اپنا سینہ ٹھنڈا کیا)۔ حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا تو اللہ عزوجل ہی کے پاس ہے۔
’’تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک ہیں اور اَدیانِ باطلہ سے اِعراض کرنے والے ہیں، وہ اللہ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔
’’بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
4. عَنْ عُرْوَةَ رضي الله عنه قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها تَکْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4 / 1518، الرقم : 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب التوبة، باب في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4 / 2137، الرقم : 2770، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، الرقم : 25665.
’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے (باوجود اس کے کہ حضرت حسان بھی ان پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے)۔ آپ فرماتی تھیں : (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے :
’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لیے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
5. عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِحَسَّانَ : اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية للبخاري : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه : اهْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ.
5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 / 1176، الرقم : 3041، وأيضًا في کتاب المغازي، باب مرجع النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الأحزاب ومخرجه إلی بني قريظة، 4 / 1512، الرقم : 3897، وأيضًا في کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5 / 2279، الرقم : 5801، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2486.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو، یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
6. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ رضي الله عنه قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ : يَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِکَ، وَکَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُوْ بِالْقَوْمِ يَقُوْلُ :
اَللّٰهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا
فَاغْفِرْ فِدَآءً لَکَ مَا أَبْقَيْنَا
وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا
وَأَلْقِيَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
إِنَّا إِذَا صِيْحَ بِنَا أَبَيْنَا
وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوْا عَلَيْنَا
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ هٰذَا السَّائِقُ؟ قَالُوْا : عَامِرُ بْنُ الْأَکْوَعِ. قَالَ : يَرْحَمُهُ اللهُ. قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : وَجَبَتْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1537، الرقم : 3960، وأيضًا في کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشعر والرجز والحداء وما يکره منه، 5 / 2277، الرقم : 5796، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب غزوة خيبر، 3 / 1427، الرقم : 1802.
’’حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی جانب نکلے۔ ہم رات کے وقت سفر کر رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا : اے عامر! آپ ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے؟ حضرت عامر شاعر تھے۔ چنانچہ وہ نیچے اتر آئے اور لوگوں کے سامنے یوں حدی خوانی کرنے لگے :
’’اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت حاصل کرتے نہ زکوٰۃ دیتے اور نہ نماز پڑھتے۔ پس اے اللہ! ہم تجھ پر (اور تیرے دین پر) قربان ہوں، تو ہمیں بخش دے، جب تک ہم اس دنیا میں باقی ہیں۔ اور اگر ہمارا مقابلہ کسی دشمن سے ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ، اور ہم پر سکینہ نازل فرما۔ اور اگر دشمن ہم پر چلائے یا ہم پر حملہ آور ہو تو ہم اس کا انکار کریں (اور اس کا مقابلہ کریں نہ کہ اس کے آگے ہتھیار پھینک دیں)۔‘‘
’’تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ حدی خوانی کرنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا : عامر بن اکوع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ ہم میں سے ایک شخص (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ) کہنے لگے کہ ان کے لیے (شہادت اور جنت) واجب ہو گئی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
7. عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ دِيْنَارٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ :
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ : حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ أَبِيْهِ : رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلٰی وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتّٰی يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه.
7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الإستسقاء إذا قُحِطوا، 1 / 342، الرقم : 963، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 93، الرقم : 5673، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 405، الرقم : 1272.
’’حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت ابوطالب کے اس شعر کو بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے سنا :
’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے فریاد رس، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
’’حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رُخِ زیبا) کے وسیلے سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔‘‘
’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے فریاد رس، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
8. وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا تَمَثَّلَتْ بِهٰذَا الْبَيْتِ وَأَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه يَقْضِي :
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
رَبِيْعُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه : ذَاکَ وَاللهِ، رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 7، الرقم : 26، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 279، الرقم : 26067، 6 / 535، الرقم : 31967، وأيضًا في کتاب الأدب، 1 / 381، الرقم : 414، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 198، والمروزي في مسند أبي بکر رضي الله عنه، 1 / 91، الرقم : 39، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 272.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ یہ اشعار پڑھا کرتی تھیں اور ابو بکر رضی اللہ عنہ (ان شعار کے بارے) فیصلہ فرماتے تھے :
’’وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کی (زندگی میں) بہار (کی طرح ہیں) اور بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
’’پس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر سن کر فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم! اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات ہی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال ثقہ ہیں۔
9. عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ رضي الله عنهما قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم غَدَاةَ بُنِيَ عَلَيَّ، فَجَلَسَ عَلٰی فِرَاشِي کَمَجْلِسِکَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، يَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَومَ بَدْرٍ، حَتّٰی قَالَتْ جَارِيَةٌ :
وَفِيْنَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقُوْلِي هٰکَذَا وَقُوْلِي مَا کُنْتِ تَقُوْلِيْنَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدرًا، 4 / 1469، الرقم : 3779، وأيضًا في کتاب النکاح، باب ضرب الدف في النکاح والوليمة، 5 / 1976، الرقم : 4852، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 359.360، الرقم : 27066، 27072، والترمذي في السنن، کتاب النکاح، باب ما جاء في إعلان النکاح، 3 / 399، الرقم : 1090.
’’حضرت رُبیع بنت معوذ رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میری شبِ زفاف کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ہمارے گھر) تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح جلوہ افروز ہوئے جیسا کہ آپ (راوی) بیٹھے ہیں۔ اس وقت کچھ بچیاں دف بجا کر جنگِ بدر میں شہید ہو جانے والے اپنے بزرگوں کی شان میں قصیدہ گا رہی تھیں۔ یہاں تک کہ ایک بچی نے کہا :
’’(آج) ہم میں ایسے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں جو (آنے والے) کل کی باتیں جانتے ہیں۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ نہ کہو بلکہ وہی کہو جو تم پہلے کہہ رہی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : قَالَ حَسَّانُ رضي الله عنه : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِي أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ : کَيْفَ بِقَرَابَتِي مِنْهُ؟ قَالَ : وَالَّذِي أَکْرَمَکَ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْخَمِيْرِ. فَقَالَ حَسَّانُ :
وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ
بَنُوْ بِنْتِ مَخْزُوْمٍ وَوَالِدُکَ الْعَبْدُ
قَصِيْدَتُهُ هٰذِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
10 : أخرجه أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1934، الرقم : 2489، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26021، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 238، الرقم : 20894، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 103، الرقم : 8.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے ابو سفیان کی ہجو کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا کرو گے؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت و تکریم عطا کی ہے! میں آپ (کے نسب مبارک) کو ان سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گُندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ قصیدہ کہا :
’’آل ہاشم کی بزرگی کا کوہان بنتِ مخزوم کی اولاد ہے، اور تیرا باپ تو غلام تھا۔‘‘
اس میں آپ کا مکمل قصیدہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ عَائِشًةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اهْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ : اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلٰی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضي الله عنه : قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلٰی هٰذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ يُحَرِّکُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيْهِمْ نَسَبًا حَتّٰی يُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي. فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ. وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْهُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.
11 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1935، الرقم : 2490، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 38، الرقم : 3582، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 629، الرقم : 929، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 238، الرقم : 20895، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 64، الرقم : 21.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو کیوں کہ ان (گستاخوں) پر (میری نعت اور اپنی ہجو) تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا اور پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا۔ جب حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے، آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے۔ پھر اپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے، پھر عرض کیا : (یا رسول اللہ!) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے، (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ابو بکر نے میرے لیے آپ کا نسب الگ کر دیاہے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، طبرانی اور طبری نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ عُمَرَ رضي الله عنه مَرَّ بِحَسَّانَ رضي الله عنه وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ : قَدْ کُنْتُ أنْشِدُ وَفِيْهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْکَ. ثُمَّ الْتَفَتَ إِلٰی أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : أَنْشُدُکَ اللهَ، أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَجِبْ عَنِّي اَللّٰهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ؟ قَالَ : اَللّٰهُمَّ، نَعَمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
12 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1932، الرقم : 2485، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 222، الرقم : 21986، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في الشعر، 4 / 303، الرقم : 5013، والنسائي في السنن، کتاب المساجد، باب الرخصة في إنشاد الشعر الحسن في المسجد، 2 / 48، الرقم : 716، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 262، الرقم : 795، 6 / 51، الرقم : 9999.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، درآنحالیکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھور کر ان کی طرف دیکھا تو حضرت حسان نے کہا : میں مسجد میں اس وقت بھی شعر پڑھتا تھا جب مسجد میں آپ سے افضل شخص (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ظاہرا بھی) موجود تھے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا : (اے ابوہریرہ!) میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں : کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : (اے حسان!) میری طرف سے (مشرکین کو) جواب دو۔ اے اللہ! اس کی روح القدس (جبریل علیہ السلام ) کے ذریعہ سے تائید فرما؟ تو انہوں نے کہا : ہاں، اللہ کی قسم! (سنا ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
13. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ مَدَحْتُ اللهَ بِمَدْحَة، وَمَدَحْتُکَ بِأخْرٰی. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَاتِ وَابْدَأْ بِمَدْحَةِ اللهِ عزوجل.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
13 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 24، الرقم : 15624، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 279، الرقم : 26065، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 374، الرقم : 1158، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 633، الرقم : 934، والبخاري في الأدب المفرد / 126، الرقم : 342، والطبراني في العجم الکبير، 1 / 287، الرقم : 843، والبيهقي في شعب الإيمان، 4 / 89، الرقم : 4365، والحسيني فيالبيان والتعريف، 2 / 252، الرقم : 1636، وقال : أخرجه البغوي، وابن عدي في الکامل، 5 / 200.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! بے شک میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بیان کی ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاؤ (مجھے بھی سناؤ) اور ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ، ابن ابی عاصم، طبری اور بخاری نے ’الادب المفرد ‘ میں روایت کیا ہے۔
14. عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِمَحَامِدَ وَمِدَحٍ، وَإِيَّاکَ. قَالَ : هَاتِ مَا حَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عزوجل. قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : أَحَدُ أَسَانِيْدِ أَحْمَدَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ وَالْحُسَيْنِيُّ : أَحَدُ أَسَانِيْدِ أَحْمَدَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
14 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، الرقم : 15633، 15038، وأيضًا في فضائل الصحابة، 1 / 260. 261، الرقم : 334. 335، والبخاري في الأدب المفرد / 125، الرقم : 342، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 287، الرقم : 844، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 46، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 95، وأيضًا، 9 / 66، وأيضًا، 8 / 118، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 154، الرقم : 411، والمناوي في فيض القدير، 2 / 162.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ وہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اللہ! میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاؤ مجھے بھی سناؤ (اور ابتدائ) اللہ تعالیٰ کی حمد سے کرو جو تم نے بیان کی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ انہوں نے (حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں اور طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : امام احمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ امام مناوی اور حسینی نے بھی فرمایا : امام احمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
15. عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : اهْجُوْا بِالشِّعْرِ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، کَأَنَّمَا يَنْضَحُوْهُمْ بِالنَّبْلِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وفي رواية : عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لکَأَنَّمَا تَنْضَحُوْنَهُمْ بِالنَّبْلِ فِيْمَا تَقُوْلُوْنَ لَهُمْ مِنَ الشِّعْرِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
15 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 456، 460، الرقم : 15824، 15834، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 632، الرقم : 932، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 74، الرقم : 209، وأيضًا في المعجم الکبير، 19 / 76، الرقم : 152.153، وأيضًا في مسند الشامين، 4 / 245، الرقم : 3196، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 239، الرقم : 20899، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 1 / 190.
’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (کفار و مشرکین کی اپنے) اشعار کے ذریعے مذمت کیا کرو، بے شک مومن اپنی جان ومال (اور زبان) کے ساتھ جہاد کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں مجھ محمد مصطفی کی جان ہے! گویا (مدحتِ رسول پرمشتمل) یہ اشعار ان پر تیروں کی طرح برستے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! گویا تم اپنے کہے ہوئے اشعار کی شکل میں ان (کفار و مشرکین) پر تیر برساتے ہو۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ شُرَيْحٍ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَ : قِيْلَ لَهَا : هَلْ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَمَثَّلُ بِشَيئٍ مِنَ الشِّعْرِ؟ قَالَتْ : کَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ رضي الله عنه وَيَتَمَثَّلُ وَيَقُوْلُ :
وَيَأتِيْکَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَاللَّفْظُ لِلتِّرْمِذِيِّ وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
16 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 156، 222، الرقم : 25270، 25904، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5 / 139، الرقم : 2848، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 248، الرقم : 10835، والطبري في تهذيب الآثار، 2 / 658. 659، الرقم : 973.974، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 272، الرقم : 26014، وأيضًا في کتاب الأدب، 1 / 343، الرقم : 362، والبخاري في الأدب المفرد / 300، الرقم : 867، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 297.
’’حضرت شریح روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور نمونہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا : (ہاں ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ شعر بطور نمونہ پڑھتے :
’’تیرے پاس وہ شخص خبریں لے کر حاضر ہوگا جسے تو نے ان کے لانے کے لیے زادِ راہ بھی نہیں دیا ہوگا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
17. عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه : کُنْتَ تُجَالِسُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ : نَعَمْ، کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ، جَلَسَ فِي مُصَلاَّهُ، حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَيَتَحَدَّثُ أَصْحَابُهُ يَذْکُرُوْنَ حَدِيْثَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَيُنْشِدُوْنَ الشِّعْرَ، وَيَضْحَکُوْنَ، وَيَتَبَسَّمُ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
17 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب قعود الإمام في مصلاه بعد التسليم، 3 / 80، الرقم : 1358، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 404، الرقم : 1281، وأيضًا، 6 / 51، الرقم : 9998.
’’حضرت سماک بن حرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نمازِ فجر پڑھ کر فارغ ہوتے تو اپنی نماز کی جگہ پر تشریف فرما رہتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا۔ پھر اپنے صحابہ کرام سے گفتگو فرماتے رہتے۔ وہ لوگ زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کرتے، اور شعر پڑھتے اور مسکراتے، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی (ان کے اشعار سماعت فرما کر) تبسم ریز ہو جاتے۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : حَضَرْتُ حَرْبًا، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه :
يَا نَفْسِ
أَلَا أَرَاکِ تَکْرَهِيْنَ الْجَنَّةَ
أَحْلِفُ بِاللهِ لَتَنْزِلِنَّهْ
طَائِعَةً أَوْ لَتُکْرِهِنَّهْ
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ. وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
18 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب القتال في سبيل اللہ، 2 / 934، الرقم : 2793، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 279، الرقم : 26066، وأيضًا في کتاب الأدب / 380، الرقم : 413، وأبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 120، وابن أبي عاصم في الجهاد، 2 / 612.613، الرقم : 258، وإسناده حسن، وابن منصور في السنن، 2 / 340، الرقم : 2835.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں ایک جنگ میں موجود تھا، تو میں نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’اے نفس! میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو جنت میں جانا پسند نہیں کرتا، لیکن خدا کی قسم! تجھے ضرور جنت میں جانا ہو گا، چاہے خوشی سے جائے یا بغیر خوشی کے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابنِ ابی شیبہ اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ اس کی اسناد حسن ہے۔
19. عَنْ خَيْثَمَةَ قَالَ : أَتٰی عُمَرَ رضي الله عنه شَاعِرٌ فَقَالَ : أُنْشِدُکَ فَاسْتَنْشَدَهُ، فَجَعَلَ هُوَ يُنْشِدُ وَذَکَرَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم فِي شِعْرهِ، فَقَالَ :
غَفَرَ اللهُ لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَا صَبَرَ.
فَقَالَ : يَقُوْلُ عُمَرُ رضي الله عنه : قَدْ فَعَلَ، قَالَ : ثُمَّ أَبَا بَکْرٍ جَمِيْعًا وَعُمَرَ فَقَالَ : مَا شَاء اللهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
19 : أخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 146، الرقم : 125، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26025، وأيضًا في کتاب الأدب / 362، الرقم : 389.
’’حضرت خیثمہ سے روایت ہے، وہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شاعر آیا اور آپ سے عرض کیا : میں آپ کو شعر سنانا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے اسے شعر سنانے کی اجازت دی، سو اس نے شعر پڑھنا شروع کیا اور اس ضمن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا اور کہنے لگا :
’’اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت فرمائے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی نشرو اشاعت میں مصیبتوں پر صبر کیا۔‘‘
’’حضرت خیثمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ (پھر شاعر نے کہا : ) اس کے بعد ان کے رفیق غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی وطیرہ اختیار کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بلکہ سب جانثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی طرہ امتیاز رہا ہے۔ تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو (یعنی تمام صحابہ منشائِ الٰہی پر ہی راضی رہتے تھے)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے فضائل الصحابۃ میں اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا هُوَ بِجَوَارٍ يَضْرِبْنَ بِدُفِّهِنَّ وَيَتَغَنَّيْنَ وَيَقُلْنَ :
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ
يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَعْلَمُ اللهُ إِنِّي لَأحِبُّکُنَّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
وفي رواية : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ بَارِکْ فِيْهِنَّ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالنَّسَائِيُّ.
20 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1 / 612، الرقم : 1899، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 190، الرقم : 229، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 120، وأبو يعلی في المسند، 6 / 134، الرقم : 3409، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 75، الرقم : 26.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں :
’’ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا : (میرا ) اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
’’ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! انہیں برکت عطا فرما۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، ابو یعلی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنِ ابْنِ سِِيْرِيْنَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. وَهُوَ مُحَاصِرٌ أَهْلَ الطَّائِفِ. لِکَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه، وَهُوَ إِلٰی جَنْبِهِ : هِيْهِ،(1) يَسْتَنْشِدُهُ. فَأَنْشَدَهُ قَصِيْدَةً... فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَهُنَّ أَسْرَعُ فِيْهِمْ مِنْ وَقْعِ النَّبْلِ(2). رَوَاهُ ابْنُ رَاشِدٍ.
(1) معناها : طلب الاستزادة من الحديث. (النهاية)
(2) معناها : السِّهام العربية التي تستخدم في القتال، ولا واحد لها من لَفْظِها، والإنبال : رد السهام وتجهيزها للرامي بها. (النهاية)
21 : أخرجه معمر بن راشد في الجامع، باب الشِّعْر والرَّجَز، 11 / 263، الرقم : 20501.
’’امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اہلِ طائف کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔ ۔۔۔ جو کہ آپ کے پہلو میں کھڑے تھے۔ سے فرمایا : لاؤ، مجھے شعر سناؤ۔ تو انہوںنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پورا قصیدہ سنایا۔۔ ۔ ۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک یہ اشعار دشمنوں کے لیے نیزوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام معمر بن راشد نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضي الله عنه قَالَ : أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَعْبُ بْنُ زُهَيْرٍ ’بَانَتْ سُعَادُ‘، فِي مَسْجِدِهِ بِالْمَدِيْنَةِ، فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَهُ :
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ
وَصَارِمٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
أَشَارَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِکُمِّهِ إِلَی الْخَلْقِ لِيَسْمَعُوْا مِنْهُ... الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن زہیر نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب اپنے اس قول پر پہنچا :
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ظلم و جبر کے علم برداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
توحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر کو غور سے) سنیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
23. وفي رواية : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا انْتَهٰی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطَلٍ(1) إِلٰی کَعْبِ بْنِ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سُلْمٰی وَکَانَ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْعَدَهُ بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطَلٍ، فَقِيْلَ لِکَعْبٍ : إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ، فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَدُلَّ عَلٰی أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنه، وَأَخْبَرَهُ خَبَرَهُ، فَمَشٰی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلٰی إِثْرِهِ حَتّٰی صَارَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَقَالَ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ : اَلرَّجُلُ يُبَايِعُکَ، فَمَدَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَهُ، فَمَدَّ کَعْبٌ يَدَهُ، فَبَايَعَهُ، وَسَفَرَ عَنْ وَجْهِهِ، فَأَنْشَدَهُ :
(1) قَالَ أَبُوْ دَاوُدُ فِي السُّنَنِ، 3 / 60 : إِسْمُهُ عَبْدُ اللهِ وَکَانَ أَبُوْ بَرْزَةَ الأَسْلَمِيُّ رضي الله عنه قَتَلَهُ.
نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أَوْعَدَنِي
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ مَأْمُوْلُ
إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَائُت بِهِ
مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ
فَکَسَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بُرْدَةً لَهُ، فَاشْتَرَاهَا مُعَاوِيَةُ رضي الله عنه مِنْ وَلَدِهِ بِمَالٍ فَهِيَ الَّتِي تَلْبَسُهَا الْخُلَفَاءُ فِي الْأَعْيَادِ.
رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي ’’الْبِدَايَةِ‘‘ وَقَالَ : قُلْتُ : وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَعْطَا بُرْدَتَهُ حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ... وَهٰکَذَا الْحَافِظُ أَبُوْ الْحَسَنِ ابْنُ الْأَثِيْرِ فِي ’’الْغَابَةِ‘‘، قَالَ : هِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ : وَهٰذَا مِنَ الْأمُوْرِ الْمَشْهُوْرَةِ جِدًّا.
22.23 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 670. 673، الرقم : 6477. 6479، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 177. 178، الرقم : 403، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 243، الرقم : 77، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 381، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 594، وابن هشام في السيرة النبوية، 5 / 191، والکلاعي في الاکتفاء، 2 / 268، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 4 / 373.
’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب کعب بن زہیر کے پاس (گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بھی وہی دھمکی دی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن خطل کو دی تھی تو کعب سے کہا گیا کہ اگر تو بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا۔ تو اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا تو وہ ان کے پاس گیا اور انہیں اپنی ساری بات بتا دی۔ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے اور کعب بن زہیر اُن کے پیچھے پیچھے چل دیے (تاکہ کوئی صحابی راستے میں ہی اسے پہچان کر قتل نہ کر دے) یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) یہ ایک آدمی ہے جو آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔ سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو کعب بن زہیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کر لی۔ پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس میں ہے :
’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دھمکی دی ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) امید کی جاتی ہے۔‘‘
’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ظلم و جبر کے علم برداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خوش ہو کر) اسے اپنی چادر پہنائی جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی اولاد سے مال کے عوض خرید لی اور یہی وہ چادر ہے جسے (بعد میں) خلفاء عید (اور دیگر اہم تہواروں کے موقع) پر پہنا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن قانع اور حافظ عسقلانی نے روایت کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے ’البدایہ‘ میں روایت کرنے کے بعد فرمایا : میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر مبارک ان کو اس وقت عطا فرمائی جب انہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح فرمائی۔۔ ۔ اسی طرح حافظ ابوالحسن ابن الاثیر نے ’اسد الغابۃ‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفاء کے پاس رہی اور یہ بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔
24. عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ أَبُوْ طَالِبٍ إِذَا رَأی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ :
وَشَقَّ لَهُ مِنِ اسْمِهِ لِيُجِلَّهُ
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَهٰذَا مُحَمَّدٌ
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّغِيْرِ وَابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
24 : أخرجه البخاري في التاريخ الصغير، 1 / 13، الرقم : 31، وابن حبان في الثقات، 1 / 42، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 41، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 160، وابن عبد البر في الاستيعاب، 9 / 154، والعسقلاني في الإصابة، 7 / 235، وأيضًا في فتح الباري، 6 / 555، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 32.33، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 1 / 133، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 526، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 134، والزرقاني في شرحه علی الموطأ، 4 / 557، والعظيم آبادي في عون المعبود، 3 / 189.
’’حضرت علی بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکتے تو یہ شعر گنگناتے :
’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکریم کی خاطر آپ کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، پس عرش والا محمود اور یہ محمد ہیں۔‘‘
اسے امام بخاری نے التاریخ الصغیر میں، امام ابن حبان نے الثقات میں، اور ابو نعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
25. عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَائِشَةَ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّا دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْمَدِيْنَةَ... فَتَلَقَّی النَّاسَ وَالْعَوَاتِقَ فَوْقَ الْجَاجِيْرِ، وَالصِّبْيَانُ وَالْوَلَائِدُ يَقُوْلُوْنَ :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَاللهِ دَاعِ
وَأَخَذَتِ الْحَبَشَةُ يَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ لِقُدُوْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَرَحًا بِذَالِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَلَانِيُّ وَمُحِبُّ الدِّيْنِ الطَّبَرِيُّ.
25 : أخرجه ابن حبان في الثقات، 1 / 131، وابن عبد البر في التمهيد، 14 / 82، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 261، 8 / 129، والعيني في عمدة القاري، 17 / 60، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 / 480.
’’حضرت عبید اللہ بن عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں اور عورتوں کو (اپنے استقبال کے لیے) مکانوں کی چھتوں پر پایا۔ اور (مدینہ منورہ کے) بچے اور بچیاں یہ پڑھ رہے تھے :
’’ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کا چاند (یعنی چہرۂ وَالضُّحٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) طلوع ہوگیا، اور ہم پر اُس وقت تک شکر ادا کرتے رہنا واجب ہو گیا جب تک کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا دعوت دے رہا ہے (یعنی جب تک کوئی بھی خدا کا نام لینے والا باقی رہے گا)۔‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کا جشن منانے کی خاطر حبشہ کے لوگ اپنے آلاتِ حرب کے ساتھ رقص کرتے رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان نے الثقات میں، اور ابن عبد البر، عسقلانی اور محب طبری نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضي الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَاتِ لَا يَفْضُضِ اللهُ فَاکَ. فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضي الله عنه يَقُوْلُ :
وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ وَضَاءَ تْ بِنُوْرِکَ الْأفُقُ
فَنَحْنُ فِي الضِّيَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ
رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
26 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 / 213، الرقم : 4167، والحاکم في المستدرک، 3 / 369، الرقم : 5417، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 364، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 102، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 447، الرقم : 664، والعسقلاني في الإصابة، 2 / 274، الرقم : 2247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 217، والخطابي في إصلاح غلط المحدثين، 1 / 101، الرقم : 57، وابن قدامة في المغني، 10 / 176، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2 / 258، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 66، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 146، والحلبي في السيرة، 1 / 92.
’’حضرت خُر یم بن اَوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح و نعت بیان کرنا چاہتا ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لاؤ مجھے سناؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو)۔ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا :
’’آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا۔ پس ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان ہدایت کی راہوں پر گامزن ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ حَکِيْمَ بْنَ حِزَامٍ خَرَجَ إِلَی الْيَمَنِ فَاشْتَرٰی حُلَّةَ ذِي يَزَنٍ، فَقَدِمَ بِهَا الْمَدِيْنَةَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأَهْدَاهَا لَهُ فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَقَالَ : إِنَّا لَا نَقْبَلُ هَدِيَّةَ مُشْرِکٍ، فَبَاعَهَا حَکِيْمٌ فَأَمَرَ بِهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَاشْتُرِيَتْ لَهُ، فَلَبِسَهَا، ثُمَّ دَخَلَ فِيْهَا الْمَسْجِدَ، فَقَالَ حَکِيْمٌ : فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ فِيْهَا، لَکَأَنَّهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَمَا مَلَکْتُ نَفْسِي حِيْنَ رَأَيْتُهُ کَذَالِکَ أَنْ قُلْتُ :
مَا يَنْظُرُ الْحُکَّامُ بِالْحُکْمِ بَعْدَ
مَا
بَدَا وَاضِحٌ ذُوْ غُرَّة وَحَجُوْلُ
إِذَا وَاضَخُوْهُ الْمَجْدَ أَرْبٰی عَلَيْهِمْ
بِمُسْتَفْرَغِ مَاءِ الذِّنَابِ سَجِيْلُ
فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ نَحْوَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
27 : أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 671، الرقم : 987، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 193، 202، الرقم : 3094، 3125، والحاکم في المستدرک، 3 / 551، الرقم : 6050، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 8 / 73، 15 / 101. 102، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 504، والمزي في تهذيب الکمال، 7 / 175، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 278.
’’حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے (قبولِ اسلام سے پہلے بغرض تجارت) یمن کا سفر کیا اور (وہاں سے) آپ نے ایک عمدہ اور جاذبِ نظر لباس خریدا۔ پھر واپس مدینہ منورہ آ کر وہ لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تحفتاً پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لباس قبول کرنے سے انکار فرمایا اور یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ ہم مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتے۔ تو حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسے فروخت کرنے کا (عندیہ دیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے لیے خریدنے کا حکم دیا۔ وہ لباس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خرید لیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے زیبِ تن کیا، پھر مسجد میں تشریف لائے توحضرت حکیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لباس میں دیکھ کر بے ساختہ کہہ اٹھے : میں نے اس لباس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین جچتا ہوا انسان کبھی نہیں دیکھا۔ آپ تو چودھویں کا چاند دکھائی دیتے ہیں۔ اور بے قابو ہو کر یہ اشعار پڑھنے لگے :
’’جب روشن، چمکتے دمکتے اور گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلوہ افروز ہوتے ہیں تو (حسن و قبح) کا حکم لگانے والے (حسن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھو کر) اپنا (منصب) حکم بھول جاتے ہیں۔ جب لوگوں نے ان کے ساتھ عظمت اور بزرگی میں مقابلہ کرنا چاہا تو وہ ان سب پر (عطاؤں اور کرم نوازیوں سے بھرے) بڑے بڑے ڈولوں کے ساتھ سبقت لے گئے۔‘‘
پس اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، طبرانی اور اسی طرح حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
28. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ : أَنَا. قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ : أَنَا. قَالَ : إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ. قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضي الله عنه : أَنَا. إِذْ قَالَ : أُهْجُهُمْ، فَإِنَّهُ سَيُعِيْنَُکَ عَلَيْهِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ. رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ.
28 : أخرجه الطحاوي فيشرح معاني الآثار، 4 / 297، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 416، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 590.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں۔ اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس بھی تمہاری مدد کرے گا۔‘‘
اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔
29. عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ، فَمَرَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه، فَإِذَا النَّاسُ قَدْ أَخَبُّوْا : أَي عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ، أَي عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ. قَالَ : فَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم دَعَانِي، فَجِئْتُ، فَقَالَ لِي : اجْلِسْ هَاهُنَا. فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي : کَيْفَ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ کَأَنَّهُ يَتَعَجَّبُ، فَقُلْتُ : أَنْظُرُ ثُمَّ أَقُوْلُ قَالَ : فَعَلَيْکَ بِالْمُشْرِکِيْنَ. وَلَمْ أَکُنْ هَيَّأْتُ شَيْئًا. فَأَنْشَدْتُهُ هٰذِهِ الْکَلِمَةَ :
فَأَخْبِرُوْنِي، أَثْمَانَ الْعَبَائِ مَتٰی
کُنْتُمْ بَطَارِيْقَ أَوْ دَانَتْ لَکُمْ مُضَرُ
فَعَرَفْتُ الْکَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ :
يَا هَاشِمَ الْخَيْرِ، إِنَّ اللهَ فَضَّلَکُمْ
عَلَی الْبَرِيَّةِ فَضْلًا مَا لَهُ غَيْرُ
إِنِّي تَفَرَّسْتُ فِيْکَ الْخَيْرَ أَعْرِفُهُ
فِرَاسَةً خَالَفَتْهُمْ فِي الَّذِي نَظَرُوْا
وَلَوْ سَأَلْتَ أَوِ اسْتَنْصَرْتَ بَعْضَهُمْ
فِي جُلِّ أَمْرِکَ مَا آوُوْا وَلَا نَصَرُوْا
فَثَبَّتَ اللهُ مَا آتَاکَ مِنْ حُسْنٍ
تَثْبِيْتَ مُوْسَی وَنَصْرًا کَالَّذِي نُصِرُوْا
فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُتَبَسِّمًا، وَقَالَ : وَأَنْتَ فَثَبَّتَکَ اللهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْمَقْدِسِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
29 : أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 661، الرقم : 977، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 528، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 108، الرقم : 17، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 94.95، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 234، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 124، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 336.
’’حضرت شعبی سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ سو انہیں دیکھ کر لوگوں نے پکارنا شروع کیا : اے عبد اللہ بن رواحہ! اے عبد اللہ بن رواحہ! تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں سمجھ گیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یاد فرمایا ہے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے عبد اللہ!) یہاں بیٹھ جاؤ۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : تم اتنے اچھے شعر کیسے کہہ لیتے ہو؟ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب کا اظہار فرمایا تو میں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں سوچتا ہوں، پھر کہتا ہوں (یعنی شعر کہنے میں ذرا غور و تدبر سے کام لیتا ہوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو (ابھی) تم مشرکین پر اپنے اشعار کے ذریعہ حملہ آور ہو جاؤ۔ (حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ) میں نے کوئی تیاری نہیں کر رکھی تھی، سو اس وقت فی البدیہہ میرے ذہن میں یہ کلام آیا :
’’(اے مشرکو!) تم مجھے عبا کی قیمتیں بتاؤ، اور یہ کہ تم کب جنگ کے ماہر تھے یا قبیلہ مضر تمہارے فرماں بردار ہوئے۔‘‘
پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر ناگواری محسوس کی، تو میں نے یہ اشعار پڑھے :
’’اے صاحبِ خیر (اور سردارِ بنو) ہاشم! بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوق پر فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے اور جس کا کوئی ثانی نہیں، بے شک میں نے آپ کو ہمیشہ نیکی کرنے والا ہی پایا جسے میں جانتا ہوں، ایسی بھلائی جس نے ان کی مخالفت کی اس چیز میں جس میں انہوں نے غور کیا۔ اور اگر آپ دین کے معاملہ میں ان میں سے بعض سے سوال کرتے یا مدد و نصرت طلب کرتے تو وہ ہرگز پناہ دینے اور مدد و نصرت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کے حسنِ بے پایاں کو سلامت رکھے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ثابت قدم رکھا، اور وہ مدد عطا فرمائے جو انہیں (انبیاء و رُسل کو) عطا فرمائی گئی تھی۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنی نعت پر مشتمل یہ کلام سن کر) مسکراتے ہوئے میری طرف تشریف لائے اور فرمایا : اے ابن رواحہ! اللہ تعالیٰ تمہیں (اس محبت پر) ثابت قدم رکھے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن سعد اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔
30. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَتٰی فَقِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَهْجُوْکَ، فَقَامَ ابْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ. فَقَالَ : أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ ثَبَّتَ اللهُ. قَالَ : نَعَمْ. قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ،
فَثَبَّتَ اللهُ مَا أَعْطَاکَ مِنْ حُسْنٍ
تَثْبِيْتَ مُوْسٰی وَنَصْرًا مِثْلَ مَا نُصِرُوْا
قَالَ : وَأَنْتَ يَفْعَلُ اللهُ بِکَ خَيْرًا مِثْلَ ذَالِکَ. ثُمَّ وَثَبَ کَعْبٌ رضي الله عنه، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ. قَالَ : أَنْتَ الَّذِي تَقُوْلُ : هَمَّتْ؟ قَالَ : نَعَمْ. قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ،
هَمَّتْ سَخِيْنَةُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّهَا
فَلْيَغْلَبَنَّ مَغَالِبَ الْغَلَّابُ
قَالَ : أَمَا أَنَّ اللهَ لَمْ يَنْسَ ذَالِکَ لَکَ. قَالَ : ثُمَّ قَامَ حَسَّانُ رضي الله عنه، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي فِيْهِ. وَأَخْرَجَ لِسَانًا لَهُ أَسْوَدَ. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ائْذَنْ لِي إِنْ شِئْتَ أَفْرَيْتُ بِهِ الْمَزَادَ. فَقَالَ : اذْهَبْ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ لِيُحَدِّثَکَ حَدِيْثَ الْقَوْمِ، وَأَيَّامَهُمْ وَأَحْسَابَهُمْ، ثُمَّ اهْجُهُمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا نَحْوُهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
30 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 556، الرقم : 6065، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1 / 242، الرقم : 295، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 12 / 405، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 336.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مسجد نبوی میں) تشریف لائے تو آپ سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب (اپنے اشعار میں) آپ کی مذمت (وہجو) کرتا ہے۔ اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ! (ابو سفیان کی ہجو و مذمت میں) مجھے (اشعار کہنے کی) اجازت دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدم رکھے۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!
’’پس اللہ تعالیٰ آپ کے عطا کر دہ حسنِ بے پایاں کو سلامت رکھے، جیسے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حسن کو سلامت رکھا، اور اسی طرح آپ کی بھی مدد و نصرت فرماتا رہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد و نصرت فرماتا رہا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا : اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اسی طرح بھلائی فرمائے گا۔ پھر حضرت کعب رضی اللہ عنہ اچانک اٹھے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ! مجھے بھی اجازت عنایت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو وہی ہے جس نے ’’ہَمَّتْ‘‘ والا شعر کہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں۔ (پھر فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!
’’قبیلہ سخینہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے مالک پر غالب آجائیں، پس چاہیے کہ بہت زیادہ غلبہ پانے والا شخص مغلوب جگہوں پر (ہمیشہ ہی) غالب آ جائے۔‘‘
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالیٰ تمہاری اس خدمت کو نہیں بھول سکتا جو تم نے پیش کی ہے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضرت حسان رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ! مجھے بھی اس (ابو سفیان) کی مذمت میں کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ پھر انہوں نے اپنی زبان نکالی جس کا کچھ حصہ کالا تھا اور عرض کیا : یا رسول اللہ اگر آپ کی مرضی ہو تو مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں (اپنی زبان کے نشتر سے) اس کا پیٹ چاک کروں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے تم) ابو بکر کے پاس جاؤ، وہ تمہیں ان کے (مخصوص ) ایام اور ان کے حسب و نسب کے بارے میں بتائیں گے۔ پھر تم ان کی مذمت کرو (اور اس کام میں) جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور اسی طرح ابن ابی دنیا نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔
31. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَيْسٍ رضي الله عنه عَنْ أُمِّهِ وَهِيَ بِنْتُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ عَلٰی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه فِي مَجْلِسٍ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يُنْشِدُ. فَلَمَّا رَأٰی مَکَانَهُ تَقَبَّضَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا کُنْتُمْ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ کَعْبٌ : کُنْتُ أُنْشِدُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَنْشِدْ، فَأَنْشَدَ. حَتّٰی مَرَّ بِقَوْلِهِ :
تَقَاتَلْنَا عَنْ جَذْمِنَا کُلَّ فَخْمَة
فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقُلْ : تَقَاتَلْنَا عَنْ جَذْمِنَا، وَلٰکِنْ قُلْ : تَقَاتَلْنَا عَنْ دِيْنِنَا. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا.
31 : أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 662، الرقم : 978، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6 / 162، الرقم : 3391، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف، 1 / 268، الرقم : 385.
’’حضرت عبد اللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کی والدہ سے مروی ہے۔ جو کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی سے گزرے تو وہاں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ مجلس سجائے بیٹھے اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لاتے یکھا تو (ادباً) اپنی جگہ پر ساکت ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (تم کیا کر رہے تھے؟ اپنی بات) جاری رکھو۔ تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں اشعار پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سناؤ۔ انہوں نے سنانا شروع کیا یہاں تک وہ اس قول پر پہنچے :
’’ہم اپنی آن اور نخوت کی خاطر بڑے سے بڑے آدمی سے ٹکرا جاتے تھے۔‘‘
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس پر ٹوک دیا اور فرمایا : یہ نہ کہو کہ ہم اپنی آن کی خاطر لڑتے مرتے ہیں بلکہ کہو : ہم اپنے دین (اور اپنے آقا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس) کی خاطر لڑتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن ابی عاصم اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ : کَانَ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِکٍ رضي الله عنه رَجُلًا حَسَنَ الصَّوْتِ فَکَانَ يَرْجُزُ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَبَيْنَمَا هُوَ يَرْجُزُ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ إِذْ قَارَبَ النِّسَاءَ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِيَّاکَ وَالْقَوَارِيْرَ، إِيَّاکَ وَالْقَوَارِيْرَ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
32 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 330، الرقم : 5273، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 350، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 391، الرقم : 8526، والعسقلاني في الإصابة، 1 / 280.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ خوبصورت آواز کے مالک تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی شجاعت) کے بارے میں رجزیہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔ پس ایک دفعہ جب وہ کسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی صفتِ شجاعت) کے بارے میں رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے تو (بے دھیانی میں) عورتوں کے قریب چلے گئے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے براء!) شیشے جیسی نازک عورتوں سے بچو۔ شیشے جیسی نازک عورتوں سے بچو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
33. عَنِ ابْنِ عِبَادٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أُنْشِدُکَ؟ قَالَ : لَا، فَأَنْشَدَهُ فِي الرَّابِعَةِ مِدْحَةً لَهُ، فَقَالَ : إِنْ کَانَ أَحَدٌ مِنَ الشُّعَرَاءِ يُحْسِنُ، فَقَدْ أَحْسَنْتَ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ.
33 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 280، الرقم : 26075، وأيضًا في کتاب الأدب / 369، الرقم : 400، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 10، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 64، الرقم : 4593، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 181، الرقم : 233، وابن أبي الدنيا في الإشراف في منازل الأشراف / 333، الرقم : 502، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 79، الرقم : 31، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 617، الرقم : 4475، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 119.
’’حضرت ابن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ بنو لیث کا ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں شعر سنانا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے منع فرمایا لیکن اس کے بے حد اصرار پر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمادی تو اس نے صحابہ کے پسند کرنے پر) چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت اور نعت بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر شعراء کے کلام میں سے کچھ اچھا کلام ہے تو تم نے جو کلام بیان کیا ہے یہی سب سے عمدہ کلام ہے۔‘‘
اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ، ابو نعیم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطَمِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَبْنِي الْمَسْجِدَ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ يَبْنِي الْمَسَاجِدَا
وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدَا
وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : وَيَتْلُوا الْقُرْآنَ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَهُمْ يَبْنُوْنَ الْمَسْجِدَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
34 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 277، الرقم : 26053، وأيضًا في کتاب الأدب / 370، الرقم : 401، والنميري في أخبار المدينة، 1 / 39، الرقم : 165، والعسقلاني في فتح الباري، 10 / 541.
’’حضرت ابو جعفر الخَطَمِی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کی تعمیر فرما رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ یہ شعر پڑھ رہے تھے :
’’کامیاب ہوگیا وہ شخص جو (ذکرِ الٰہی کے لیے) مسجدیں تعمیر کر رہا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھ رہا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے اشعار کے جواب میں) فرما رہے تھے کہ وہ (یعنی صحابہ کرام) اٹھتے بیٹھے تلاوت کر رہے تھے جبکہ وہ مسجد کی تعمیر میں بھی مصروف تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ قَالَ : أَنْشَدَ کَعْبُ بْنُ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سُلْمٰی رضي الله عنه رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ :
بَانَتْ سُعَادُ فَقَلْبِي الْيَوْمَ مَتْبُوْلُ
مُتَيَّمٌ عِنْدَهَا لَمْ يُفْدَ مَکْبُوْلُ
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْفَاکِهِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وفي رواية : وَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْمَعُ الشِّعْرَ وَيَسْتَحْسِنُ الْحَسَنَ مِنْهُ. رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
35 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 673، الرقم : 6478، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 243، الرقم : 20931، والفاکهي في أخبار مکة، 1 / 307، الرقم : 634، وابن عبد البر في الاستذکار، 8 / 241.
’’حضرت علی بن زید بن جدعان روایت کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر بن اَبی سلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں یہ اشعار سنائے، (اس قصیدے کا پہلا مصرعہ جو حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں اپنی محبوبہ کے فراق میں کہا تھا، مندرجہ ذیل ہے :)
’’سعاد جدا ہوگئی، آہ میرا دل اس کی محبت میں بیمار ہے، اس کے لیے ذلیل و رسوا ہو رہا ہے، اور اس (محبوبہ) کے ہاں ایسا قیدی ہے جس کا کوئی فدیہ نہیں ہے (یعنی دائمی قیدی ہے)۔‘‘
اسے امام حاکم، فاکہی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشعار سنا کرتے تھے، اور ان میں سے عمدہ اشعار کو سراہتے بھی تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
36. عَنْ حَبِيْبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضي الله عنه أَنْشَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم :
شَهِدْتُ بِإِذْنِ اللهِ أَنَّ مُحَمَّدًا
رَسُوْلُ الَّذِي فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ
وَأَنَّ أَبَا يحْيی وَيحْيٰی کِلَاهُمَا
لَهُ عَمَلٌ فِي دِيْنِهِ مُتَقَبَّلُ
وَأَنَّ أًخَا الْأَحْقَافِ إِذْ قَامَ فِيْهِمْ
يَقُوْلُ بِذَاتِ اللهِ فِيْهِمْ وَيَعْدِلُ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَأَنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
36 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 5 / 61، الرقم : 2653، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26017، وأيضًا في کتاب الأدب / 345، الرقم : 365، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 519، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 21، والزرعي في حاشية ابن القيم، 13 / 33.
’’حضرت حبیب بن ابی ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مندرجہ ذیل اشعار سنائے :
’’میں اللہ تعالیٰ کے اذن سے یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں پر بلند ربّ العزت کے برگزیدہ رسول ہیں اور بے شک ابو یحییٰ (یعنی زکریا) اور یحییٰ علیہما السلام دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں مقبول عمل ہیں۔ اور ہود علیہ السلام جب اپنی قوم میں کھڑے ہوتے تو فرماتے : اللہ کی ذات کی قسم! وہ نبی آخر الزماں ان میں ہیں اور وہ عدل و انصاف کرنے والے ہیں۔‘‘
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور وہ (نبی آخر الزماں) میں ہی ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
37. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ رضي الله عنه يَقُوْلُ : هَجَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْمُسْلِمِيْنَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الزِّبَعْرٰی وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. فَقَالَ الْمُهَاجِرُوْنَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَا تَأْمُرُ عَلِيًّا أَنْ يَهْجُوَ عَنَّا هٰؤُلَاءِ الْقَوْمَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ عَلِيٌّ هُنَالِکَ. ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا الْقَوْمُ نَصَرُوا النَّبِيَّ بِأَيْدِيْهِمْ وَأَسْلِحَتِهِمْ فَبِأَلْسِنَتِهِمْ أَحَقُّ أَنْ يَنْصُرُوْهُ. فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ : أَرَادَانَا. فَأَتَوْا حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ رضي الله عنه فَذَکَرُوْا ذَالِکَ لَهُ، فَأَقْبَلَ يَمْشِي حَتّٰی وَقَفَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمِقْوَلِي مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَبُصْرٰی. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ لَهَا. فَقَالَ حَسَّانُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهُ لاَ عِلْمَ لِي بِقُرَيْشٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَبِي بَکْرٍ : أَخْبِرْهُ عَنْهُمْ وَنَقِّبْ لَهُ فِي مَثَالِبِهِمْ. فَهَجَاهُمْ حَسَّانُ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ وَکَعْبُ بْنُ مَالِکٍ.
قَالَ ابْنُ سِيْرِيْنَ : أُنْبِئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ هُوَ يَسِيْرُ عَلٰی نَاقَتِهِ، وَشَنَقَهَا بِزَمَامِهَا، حَتّٰی وَضَعَتْ رَأَْسَهَا عِنْدَ قَادِمَةِ الرَّحْلِ. فَقَالَ : أَيْنَ کَعْبٌ؟ فَقَالَ کَعْبٌ : هَا أَنَذَا يَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ : خُذْ. قَالَ کَعْبٌ :
قَضَيْنَا مِنْ تِهَامَةَ کُلَّ رَيْبٍ
وَخَيْبَرَ ثُمَّ أَجْمَمْنَا السُّيُوْفَا
نُخَيِّرُهَا وَلَوْ نَطَقَتْ لَقَالَتْ
قَوَاطِعُهُنَّ دَوْسًا أَوْ ثَقِيْفَا
قَالَ : فَأَنْشَدَ الْکَلِمَةَ کُلَّهَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَهِيَ أَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ رَشْقِ النَّبْلِ.
وفي رواية : قَالَ مُحَمَّدٌ (يعني ابن سيرين) : فَنُبِّئْتُ أَنَّ دَوْسًا أَسْلَمَتْ بِکَلِمَةِکَعْبٍ هٰذِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وفي رواية : فَکَانَ حَسَّانُ وَکَعْبٌ يُعَارِضَانِهِمْ بِمِثْلِ قَوْلِهِمْ بِالْوَقَائِعِ وَالْأَيَّامِ وَالْمَآثِرِ، وَيُعِيْرُوْنَهُمْ بِالْمَنَاقِبِ، وَکَانَ ابْنُ رَوَاحَةَ يُعِيْرُهُمْ بِالْکُفْرِ، وَيَنْسِبُهُمْ إِلَی الْکُفْرِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ فِيْهِمْ شَيئٌ شَرًّا مِنَ الْکُفْرِ وَکَانُوْا فِي ذَالِکَ الزَّمَانِ، أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ حَسَّانَ وَکَعْبٍ وَأَهْوَنُ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلُ ابْنِ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا أَسْلَمُوْا وَفَقِهُوا الإِسْلَامَ کَانَ أَشَدُّ الْقَوْلِ عَلَيْهِمْ قَوْلَ ابْنِ رَوَاحَةَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ.
37 : أخرجه الطبري في تهذيب الآثار، 2 / 659.660، الرقم : 975.976، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 264، الرقم : 20502، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 96، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 338، والمناوي في فيض القدير، 1 / 447.
’’امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کے تین آدمیوں۔ عمرو بن العاص، عبد اللہ بن زبعری اور ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب۔ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، مہاجرین نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ ہماری طرف سے ان مشرکین کی مذمت کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی اس کام کے لیے نہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ایک قوم نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی اپنے ہاتھوں اور اسلحہ کے ساتھ مدد کی تو وہ اپنی زبانوں سے بھی اس کی مدد کرنے کی زیادہ حق دار ہے۔ تو انصار نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کی مراد ہم سے ہے۔ سو وہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ تو وہ آگے بڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے! مجھے یہ پسند نہیں مجھے میرے قول (یعنی نعتوں) کے بدلہ میں جو کچھ صنعاء اور بصری کے درمیان ہے وہ بھی ملے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کام کے لیے موزوں ہو۔ تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے قریش کے بارے میں علم نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو بکر! حسان کو قریش کے بارے میں بتا دو، اور ان کی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں بھی اسے آگاہ کر دو۔ پس حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہم نے مشرکین کی مذمت میں اشعار کہے۔‘‘
’’امام ابن سیرین فرماتے ہیں : مجھے بتایا گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اونٹنی مبارک پر جا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی لگام کھینچی، یہاں تک کہ اس نے اپنا سر زمین پر رکھ دیا اور بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کعب کہاں ہے؟ تو حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شعر پڑھنا شروع کرو۔ تو حضرت کعب نے کہا :
’’ہم نے تہامہ اور خیبر سے ہر شک کو ختم کر دیا، پھر ہم نے تلواریں جمع کیں اور انہیں اختیار دیا اور اگر وہ بول سکتیں تو یقینًا کہتیں کہ ان کی کاٹ قبیلہ دوس ہیں یا قبیلہ ثقیف۔‘‘
’’راوی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پورا قصیدہ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے! یہ اشعار ان کفار پر تیروں کے اثر انداز ہونے سے بھی زیادہ اثر رکھتے ہیں۔‘‘
’’ایک روایت میں امام محمد بن سیرین نے فرمایا : مجھے بتایا گیا کہ قبیلۂ دوس حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ان اشعار کی وجہ سے اسلام لے آیا۔‘‘
اسے امام طبری، عبد الرزاق اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسان بن ثابت اور حضرت کعب رضی اللہ عنہما کفار کو (اپنے اشعار کے ذریعے) آڑھے ہاتھوں لیتے، جیسا کہ مختلف واقعات، مخصوص دنوں اور کارناموں میں ان کے اشعار اور ان کے مناقب میں عیب لگاتے اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا عیب لگاتے اور کفر کی طرف منسوب کرتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے ہاں کفر سے بڑھ کر کوئی چیز بری نہیں ہے اور اس زمانہ میں ان کفار پر سب سے سخت قول حضرت حسان اور حضرت کعب رضی اللہ عنہما کا ہوتا اور سب سے ہلکا قول حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا ہوتا۔ مگر جب مشرکین مکہ نے اسلام قبول کر لیا اور اس کی سمجھ بوجھ حاصل کر لی تو ان پر سب سے سخت قول حضرت ابن رواحہ کا تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن سعد نے روایت کیا ہے جیسے کہ امام سیوطی نے فرمایا ہے۔
38. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ : حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ النَّابِغَةَ الْجَعْدِيَّ (وَإِسْمُهُ قَيْسُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنه لَهُ صُحْبَةٌ) يَقُوْلُ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَنْشَدْتُهُ قَوْلِي... فَلَمَّا أَنْشَدْتُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَفْضُضِ اللهُ فَاکَ. قَالَ : وَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا. وَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ أخْرٰی.
وفي رواية عَبْدِ اللهِ بْنِ جَرَّادٍ لِهٰذَا الْخَبَرِ، قَالَ : فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ کَأَنَّ فَاهُ الْبَرْدُ الْمَنْهَلُ يَتَلَأ لَأ وَيُبْرِقُ، مَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ وَلَا تَفَلَّتَتْ لِقَوْلِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَجَدْتَ لَا يَفْضُضِ اللهُ فَاکَ. قَالَ : وَعَاشَ النَّابِغَةُ بِدَعْوَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی أَتَتْ عَلَيْهِ مِائَةٌ وَاثْنَتَا عَشَرَةَ سَنَةً.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْعَسْقَلَانِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَقَالَ : رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
وقال السيوطي في الخصائص : أَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ مِنْ طَرِيْقِ يَعْلَی بْنِ الْأَشْدَقِ. قَالَ : سَمِعْتُ النَّابِغَةَ رضي الله عنه نَابِغَةَ بَنِي جَعْدَةَ يَقُوْلُ : أَنْشَدْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم هٰذَا الشِّعْرَ فَأَعْجَبَهُ. فَقَالَ : أَجَدْتَ لَا يَفْضُضِ اللهُ فَاکَ. فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَلَقَدْ أَتٰی عَلَيْهِ نَيِّفٌ وَمِائَةُ سَنَة وَمَا ذَهَبَ لَهُ سِنٌّ. ثُمَّ أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ وَجْه آخَرَ عَنِ النَّابِغَةِ وَأَخْرَجَهُ ابْنُ أَبِي أسَامَةَ مِنْ وَجْه آخَرَ عَنْهُ. وَفِيْهِ : فَکَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، فَکَانَ إِذَا سَقَطَتْ لَهُ سِنٌّ نَبَتَتْ لَهُ أخْرٰی. وَأَخْرَجَهُ ابْنُ السَّکَنِ مِنْ وَجْه آخَرَ عَنْهُ، وَفِيْهِ : فَرَأَيْتُ أَسْنَانَ النَّابِغَةِ أَبْيَضَ مِنَ الْبَرْدِ لِدَعْوَةِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم.
38 : أخرجه ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1514.1517، 1743، الرقم : 2648، 3154، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 588، الرقم : 7407، 6 / 394، وقال : أخرجه البزار وأبو نعيم في تاريخ أصبهان، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 126، وقال : رواه البزار، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 844، الرقم : 894، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 1 / 274،276، والسيوطي في الخصائص الکبری، 2 / 282، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 6 / 168.
’’حضرت حسین بن عبید اللہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس نے بتایا جس نے حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ (ان کا پورا نام قیس بن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہے اور انہیں شرفِ صحابیت حاصل ہے) سے سنا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا کلام سنایا۔ پس جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے (اور تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو)۔ اور (اس دعا کے نتیجہ میں) وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس جگہ دوسرا دانت نکل آتا تھا۔‘‘
’’یہی حدیث عبد اللہ بن جراد سے بھی مروی ہے۔ اس میں ہے کہ میں نے آپ (نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ ) کی طرف دیکھا گویا ان کا منہ (پہاڑوں پر) گری ہوئی برف کی طرف روشن اور چمکدار تھا۔ ان کا کوئی دانت گرا نہ کبھی خراب ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی بدولت : ’’تم نے خوب کہا، اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔‘‘ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی بدولت حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ نے طویل زندگی پائی یہاں تک کہ آپ 112 سال زندہ رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن عبد البر، عسقلانی اور ہیثمی نے روایت کیا اور فرمایا : اسے امام بزار نے بھی روایت کیا ہے۔
’’امام سیوطی الخصائص الکبری میں بیان کرتے ہیں کہ امام بیہقی اور امام ابونعیم نے یعلی بن اشدق کے طریق سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نابغہ جو کہ نابغہ بنی جعدہ ہیں کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : میں نے اس شعر کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بہت پسند آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا خوب کہا ہے! اللہ تعالیٰ تمہارے دانت سلامت رکھے۔ پس میں نے انہیں دیکھا کہ ان کی عمر سو اور کچھ سال اوپر ہو گئی تھی لیکن ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔ اور امام بیہقی نے یہ حدیث ایک اور طریق سے حضرت نابغہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی اسامہ نے بھی ان ہی سے ایک اور طریق سے اس کی روایت کی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں : ’’حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑھ کر خوبصورت دانتوں والے تھے اور جب ان کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا دانت نکل آتا۔‘‘ اور امام ابن سَکن نے آپ ہی سے ایک اور طریق سے اس کو روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں : ’’میں نے حضرت نابغہ رضی اللہ عنہ کے دندان سفید اولوں سے بڑھ کر سفید دیکھے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان کے لیے دعا کا نتیجہ تھا۔‘‘
39. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا قَالَتْ : مَا سَمِعْتُ بِشِعْرٍ أَحْسَنَ مِنْ شِعْرِ حَسَّانَ رضي الله عنه وَلَا تَمَثَّلْتُ بِهِ إِلَّا رَجَوْتُ لَهُ الْجَنَّةَ، قَوْلُهُ لِأَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ :
هَجُوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللهِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ
فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ
أَتَشْتِمُهُ وَلَسْتَ لَهُ بِکُفْئٍ
فَشَرُّکُمَا لِخَيْرِکُمَا الْفَدَاءُ
لِسَانِي صَارِمٌ لَا عَيْبَ فِيْهِ
وَيَجْرِي لَا تُکَدِّرُهُ الدَّلاَّءُ
فَقِيْلَ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ، أَلَيْسَ هٰذَا لَغْوًا؟ قَالَتْ : لَا، إِنَّمَا اللَّغْوُ مَا قِيْلَ عِنْدَ النِّسَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
39 : أخرجه الطبري في جامع البيان، 18 / 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 274، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 158، والمزي في تهذيب الکمال، 35 / 39.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ فرماتی ہیں : میں نے ایسا شعر نہیں سنا کہ جو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی شاعری سے بہتر ہو اور میں نے جب بھی حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا تو ان کے لیے جنت کی آرزو کی۔ (بالخصوص) ان کا وہ شعر جو کہ ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب کی (ہجو میں) انہوں نے کہا تھا :
’’تو نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت کی تو میں تجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اس مذمت کا جواب دیتا ہوں اور اس جواب کی جزاء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاؤں گا، کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ میرے والد اور میرے دادا اور میری شرافت اور ناموس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموس و شرافت کو تم سے بچانے والی (ڈھال) ہے۔ تمہاری مجال کیسے ہوئی کہ تم (ہمارے آقا) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (سبّ و شتم) کرو جبکہ تم تو خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نعلین کے برابر بھی نہیں گردانے جاتے۔ بس پھر یہ بات ٹھہری کے تمہارا شر تمہارے خیر پر قربان ہو گیا۔ میری زبان تو (گستاخِ رسول کے خلاف) تیزی سے کاٹ کرنے والی ہے اور اِس میں کوئی عیب اور دوہرا معیار نہیں (یعنی ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں ہم ساری مصلحتیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں)۔ اور یہ زبان (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی میں ہمیشہ) محو رہی ہے اور کوئی پلیدی اسے گدلا نہیں سکے گی۔‘‘
تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا : اے اُمّ المؤمنین! کیا یہ لغو بات نہیں؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نہیں، بلکہ فضول باتیں وہ ہیں جو عورتوں کے ہاں بطور تغزل کہی جاتی ہیں (جبکہ یہ تو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
40. عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ : کَانَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه شَاعِرًا وَکَانَ عُمَرُ رضي الله عنه شَاعِرًا وَکَانَ عَلِيٌّ رضي الله عنه شَاعِرًا. وفي رواية : وَکَانَ عَلِيٌّ رضي الله عنه أَشْعَرَ الثَّلَاثَةِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ.
40 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 274، الرقم : 26028، وأيضًا في کتاب الأدب / 346، الرقم : 366، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 / 520، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1225، الرقم : 1999.
’’امام شعبی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر، عمر اور علی رضی اللہ عنہم شاعر تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ تینوں احباب میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے شاعر تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، ابن عساکر اور ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔
41. وفي رواية : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : کَانَ شُعَرَاءُ أَصْحَابِ مُحًمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ، وَحَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ، وَکَعْبَ بْنَ مَالِکٍ رضي الله عنهم. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
41 : أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 10 / 240.241، الرقم : 20909. 20912، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 28 / 93، 50 / 192، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 525.
’’ایک روایت میں امام محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شعراء صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم شامل تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved