1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِيُّهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147، وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘
اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
2. عَنْ عَاءَشِةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي بَابِ وُصُوْلِ ثَوَابِ الصَّدَقَاتِ إِلَی الْمَيِتِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے۔
3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ، جَاءَتْ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُو اﷲَ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘
اِسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رضي اﷲ عنهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَيءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُکَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں. حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَجُـلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَالدُّعَاءُ. وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هٰذَا الْحَدِيْثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مُرْسَلًا.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا.‘‘
اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔
6. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : اَلْمَاءُ. قَالَ : فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ : هٰذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912.
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘
اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : سَقْيُ الْمَاءِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ أَوْ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379.
’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا. (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا.‘‘
اِسے امام نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ : نَعَمْ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی. اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ فَقَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ : فَدَيْنُ اﷲِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس اﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، إِذَا أَتَتْهُ امْرَأَةٌ. فَقَالَتْ : إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلٰی أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ : فَقَالَ : وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ. أَفَأَصُوْمُ عَنْهَا؟ قَالَ : صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : حُجِّي عَنْهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316، وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی. اس عورت نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَ تِ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ. قَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُخْتِکِ دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : بَلٰی، قَالَ : فَحَقُّ اﷲِ أَحَقُّ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912-2915، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے۔‘‘
اِسے امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فََقَالَ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرَأَيْتَ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
اِسے امام ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَبِيْهَا مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ. قَالَ : حُجِّيْ عَنْ أَبِيکِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَکَانَ کُلِّ يَوْمٍ مِسْکِيْنًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘
اِسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يَصُمْ أُطْعِمَ عَنْهُ وَلَمْ يَکُنْ عَلَيْهِ قَضَاءٌ وَإِنْ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِيُّهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2401، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 256، الرقم : 8021.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہو جائے پھرصحت یاب نہ ہو بلکہ مر جائے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے اور اس کے اوپر قضا نہیں ہے۔ اور اگر اس نے نذر مانی ہو تو اس کا ولی اس کی نذر پورا کرے .‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هٰذَا؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الرقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 702، الرقم : 1200، وأبو يعلی في المسند، 1 / 355، الرقم : 459، والحاکم في المستدرک، 4 / 255، الرقم : 7556.
’’حنش کا بیان ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض کیا : یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی. چنانچہ (ارشادِ عالی کے تحت) میں (ہمیشہ) ایک قربانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پیش کرتا ہوں.‘‘
اِسے امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ : انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ فَإِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا : إِلٰی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الْأُبُلَّةُ، قُلْنَا : نَعَمْ، قَالَ : مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْکُمْ أَنْ يُصَلِّيَ لِي فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ أَرْبَعًا وَيَقُوْلَ : هٰذِهِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ. سَمِعْتُ خَلِيْلِي رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ لَا يَقُوْمُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308.
’’ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں. اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا.‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَةِ أَنْ يَنْحَرَ مِاءَةَ بَدَنَةٍ وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِيْنَ بَدَنَةً، وَأَنَّ عَمْرًوا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَالِکَ. فَقَالَ : أَمَّا أَبُوْکَ فَلَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيْدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ نَفَعَهُ ذَالِکَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704.
’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
19. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ کَانَ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَةِ أَنْ يَنْحَرَ مِاءَةَ بَدَنَةٍ، وَإِنَّ هِشَّامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِيْنَ، أَفَيُجْزِيءَ عَنْهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَبَاکَ لَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيْدِ فَصُمْتَ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتَ عَنْهُ أَوْ أَعْتَقْتَ عَنْهُ، بَلَغَهُ ذَالِکَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 119.
’’حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ عَطَائٍ وَسُفْيَانَ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ث قَالُوْا : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أُعْتِقُ عَنْ أَبِي وَقَدْ مَاتَ؟ قَالَ : نَعَمْ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.
’’حضرت عطائ، حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم ث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ أَبِي جَعْفَرَ أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ رضي اﷲ عنهما کَانَا يُعْتِقَانِ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه بَعْدَ مَوْتِهِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.
’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
22. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَجَّ عَنْ أَبَوَيْهِ أَوْ قَضَی عَنْهُمَا مَغْرَمًا بُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الْأَبْرَارِ.
رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکو کاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا.‘‘
اِسے امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَيْهِ تُقُبِّلَ مِنْهُ وَمِنْهُمَا، وَاسْتُبْشِرَتْ أَرْوَاحُهُمَا فِي السَّمَاءِ، وَکُتِبَ عِنْدَ اﷲِ تَعَالٰی بِرًّا. رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ.
أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اِسے امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔
24. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِکَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ وَيَبْرُکُ فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا : يَا عَائِشَةُ، هَلُمِّي الْمُدْيَةَ. ثُمَّ قَالَ : اشْحَذِيْهَا بِحَجَرٍ. فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اﷲِ، اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ. ثُمَّ ضَحّٰی بِهِ. رَوَاهُ مُسْلِم وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کے ہاتھ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَبْرَيْنِ، فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيرٍ، أَمَّا هٰذَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هٰذَا فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِعَسِيْبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلٰی هٰذَا وَاحِدًا وَعَلٰی هٰذَا وَاحِدًا. ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی.‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وفي رواية عنه : قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ أَخَذَ جَرِيْدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوئ، باب ما جاء في غسل البول، 1 / 88، الرقم : 215، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2069، وابن حبان في الصحيح، 7 / 398، الرقم : 3128، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 225، الرقم : 1980.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب دیا جا رہا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا. ایک پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اُس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا. لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایسا کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شاید کہ اﷲ تعالیٰ اِن کے عذاب میں تخفیف رکھے گی جب تک یہ سوکھ نہ جائیں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وفي رواية عنه : قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِحَائِطٍ مِنْ حِيْطَانِ الْمَدِيْنَةِ أَوْ مَکَّةَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُوْرِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ. ثُمَّ قَالَ : بَلٰی، کَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَکَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِجَرِيْدَةٍ، فَکَسَرَهَا کِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلٰی کُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا کِسْرَةً. فَقِيْلَ لَهُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ : لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلٰی أَنْ يَيْبَسَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوئ، باب من الکبائر أن لا يستتر من بوله، 1 / 88، الرقم : 213، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2068، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 32، الرقم : 55، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 663، الرقم : 2198.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ یا مکہ معظمہ کے ایک باغ کے پاس سے گزرے تو دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں. پھر فرمایا : بلکہ اِن میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ٹہنی منگوائی اور اُس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر اُن میں سے ایک حصہ رکھ دیا. عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی اِن کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی.‘‘ اِسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِيْنَ تُوُفِّيَ، فَلَمَّا صَلّٰی عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوُضِعَ ِفي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِيْـلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِيْلَ : يا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ : لَقَدْ تَضَايَقَ عَلٰی هٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتّٰی فَرَّجَهُ اﷲُ عزوجل عَنْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی.‘‘
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘
اِسے امام مسلم نے، بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِِِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
وَقَالَ التِِِّرْمِذِيُّ : وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَسُعْدَی الْمُرِّيَةِ وَهِيَ امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ. حَدِيْثُ أَبِي سَعِيْدٍ حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ صَحِيحٌ
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوہریرہ، اُم سلمہ، عائشہ صدیقہ، جابر اور سعدی مریہ زوجہ طلحہ بن عبید اللہ ث سے بھی روایات منقول ہیں. یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے
وفي رواية : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857.
’’ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘
اِسے امام مسلم، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ ابْنُ عَابِدِيْنِ الشَّامِيُّ :
أَمَّا عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ فَالْحَدِيْثُ أَيْ : لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. مَحْمُوْلٌ عَلٰی حَقِيْقَتِهِ، لِأَنَّ اﷲَ تَعَالٰی يُحْيِيْهِ عَلٰی مَا جَاءَتْ بِهِ الْآثَارُ.
ذکره ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191.
امام ابن عابدین شامی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں.‘‘
وفي رواية : قال مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِص وَهُوَ يَمُوْتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر، 1 / 466، الرقم : 1450.
’’ایک روایت میں محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں : میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو.‘‘ اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِينَ. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ لِـلْأَحْيَاءِ؟ قَالَ : أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 / 465، الرقم : 1446، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 279، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 510، الرقم : 1626، والهندي في کنز العمال، 15 / 237، الرقم : 42163.
’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے فوت شدگان کو
لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِينَ
کی تلقین کیا کرو. صحابہ کرام ث نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
أخرجه النسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1827.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے ہلاک ہو جانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ الأَوْدِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ أَبَا أُمَامَةَ وَهُوَ فِي النَّزْعِ، فَقَالَ : إِذَا أَنَا مُتُّ، فَاصْنَعُوا بِي کَمَا أَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ نصْنَعَ بِمَوْتَانَا، أَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِکُمْ، فَسَوَّيْتُمُ التُّرَابَ عَلٰی قَبْرِهِ، فَلْيَقُمْ أَحَدُکُمْ عَلٰی رَأسِ قَبْرِهِ، ثُمَّ لِيَقُلْ : يَا فُـلَانَ بْنِ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْمَعُهُ وَلَا يُجِيْبُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْتَوِی قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَقُوْلُ : أَرْشِدْنَا رَحِمَکَ اﷲُ، وَلٰـکِنْ لَا تَشْعُرُونَ، فَلْيَقُلْ : اُذْکُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، وَأَنَّکَ رَضِيْتَ بِاﷲِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا، فَإِنَّ مُنْکَرًا وَنَکِيْرًا يَأخُذُ وَاحِدٌ مِنْهُمْا بِيَدِ صَاحِبِهِ، وَيَقُوْلُ : انْطَلِقْ بِنَا مَا نَقْعُدُ عِنْدَ مَنْ قَدْ لُقِّنَ حُجَّتَهُ، فَيَکُوْنُ اﷲُ حَجِيْجَهُ دُوْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَإِنْ لَمْ يَعْرِفْ أُمَّهُ؟ قَالَ : فَيَنْسُبُهُ إِلٰی حَوَّاءَ، يَا فُـلَانَ بْنِ حَوَّاءَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. وَقَال ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَـلَانِيُّ : إِسْنَادُهُ صَالِحٌ وَقَدْ قَوَاهُ الضِّيَاءُ فِي أَحْکَامِهِ. وَقَالَ ابْنُ الْمُلَقَّنِ : وَلَيْسَ فِي إِسْنَادِهِ إِلَّا سَعِيْدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ فَـلَا أَعْرِفُهُ وَلَهُ شَوَاهِدٌ کَثِيْرَةٌ يَعْتَضِّدُ بِهَا.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406.
’’ایک روایت میں حضرت سعید بن عبد اﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوائ.‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں.
30. عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ الْأَشْهَلِيِّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلّٰی عَلَی الْجَنَازَةِ قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِنَا وَمَيِتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَقالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما يقول في الصلاة علی الميت، 3 / 344، الرقم : 1024، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الدعائ، 4 / 74، الرقم : 1986، وأبوداود في السنن، کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت، 3 / 211، الرقم : 3201، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في الدعاء في الصلاة علی الجنازة، 1 / 480، الرقم : 1498، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 368، الرقم : 8795.
’’حضرت ابو ابراہیم اشہلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کی نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعائیہ کلمات ادا فرماتے : اے اللہ! ہمارے زندوں، مُردوں، حاضر و غائب، چھوٹوں، بڑوں، مَردوں اور عورتوں سب کو بخش دے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، نسائی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
31. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِتِ وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوْا لِأَخِيْکُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيْتَ، فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ.
رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378.
’’ایک روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں.
قَالَ مُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُّ فِي شَرْحِ هٰذَا الْحَدِيْثِ :
وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ : وَفِيْهِ إِيْمَاءٌ إِلٰی تَلْقِيْنِ الْمَيِتِ بَعْدَ تَمَامِ دَفْنِهِ وَکَيْفِيَتُهُ مَشْهُوْرَةٌ، وَهُوَ سُنَّةٌ عَلَی الْمُعْتَمَدِ مِنْ مَذْهَبِنَا خِلَافًا لِمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ بِدْعَةٌ، کَيْفَ، وَفِيْهِ حَدِيْثٌ صَرِيْحٌ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ اتِّفَاقًا، بَلِ اعْتَضَدَ بِشَوَاهِدَ يُرْتَقٰی بِهَا إِلٰی دَرَجَةِ الْحَسَنِ.
ذکره ملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 1 / 327.
ملا علی قاری اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 - {يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِ}- اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی) - کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں :
وَأَخْرَجَ سَعِيْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ وَضَمْرَةَ بْنِ حَبِيْبٍ وَحَکِيْمِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالُوْا : إِذَا سُوِّيَ عَلَی الْمَيِتِ قَبْرُهُ وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ، کَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالَ لِلْمَيِتِ عَنْدَ قَبْرِهِ : يَا فُـلَانُ! قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، يَا فُـلَانُ! قُلْ : رَبِّيَ اﷲُ وَدِيْنِي اَلْإِسْلَامُ وَنَبِيِي مُحَمَّدٌ. ثُمَّ يَنْصَرِفُ.
’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں. اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کی تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اِس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے۔
اس کے بعد امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے :
وَأَخْرَجَ ابْنُ مَنْدَهْ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِذَا مُتُّ فَدَفَنْتُمُوْنِي، فَلْيَقُمْ إِنْسَانٌ عِنْدَ رَأسِي، فَلْيَقُلْ : يَا صَدَی بْنَ عَجْلَانَ! اذْکُرْ مَا کُنْتَ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اﷲِ.
’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں.‘‘
حافظ ابن رجب الحنبلی اھوال القبور واحوال اھلھا الی النشور میں لکھتے ہیں :
حَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِي أَنَّ غَانِمًا جَاءَ الْمُعَافَی بْنَ عِمْرَانَ بَعْدَ مَا دُفِنَ، فَسَمِعَهُ وَهُوَ يُلَقَّنُ فِي قَبْرِهِ، وَهُوَ يَقُوْلُ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَيَقُوْلُ الْمُعَافٰی : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.
ابن رجب الحنبلي في أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور / 50.
’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا. پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی. تلقین کرنے والا کہہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲ. اور معافی بن عمران بھی جواباً کہہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ. ‘‘
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّلْقِيْنِ بَعْدَ الدَّفْنِ، فَيَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانٍ! اذْکُرْ دِيْنَکَ الَّذِي کُنْتَ عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، وَأَنَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ، لَا رَيْبَ فِيْهَا، وَأَنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقَبُوْرِ، وَأَنَّکَ رَضِيْتَ بِاﷲِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً، وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ إِخْوَانًا.
ابن عابدين الشامی في رد المحتار، 2 / 191.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو. تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، قرآن کو امام اور کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘
ٍ پھر فرماتے ہیں :
لَا نَهْيَ عَنِ التَّلْقِيْنِ بَعْدَ الدَّفْنِ لِأَنَّهُ لَا ضَرَرَ فِيْهِ، بَلْ فِيْهِ نَفْعٌ، فَإِنَّ الْمَيِتَ يَسْتَأنِسُ بِالذِّکْرِ عَلٰی مَا وَرَدَ فِيْهِ الْآثَارُ.
’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘
32. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : تُرْفَعُ لِلْمَيِتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ، فَيَقُوْلُ : أَي رَبِّ، أَيُّ شَيئٍ هٰذِهِ؟ فَيُقَالُ : وَلَدُکَ اسْتَغْفَرَ لَکَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
أخرجه البخاري في الأدب المفرد / 28، الرقم : 36
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ موت کے بعد جب میت کے لیے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے تو وہ عرض کرتی ہے : اے رب! یہ کیا ہے؟ اُسے کہا جاتا ہے : تیرے بیٹے نے تیرے لیے بخشش کی دعا کی ہے (یہ اِسی استغفار کے سبب ہے).‘‘ اِسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : يَتْبَعُ الرَّجُلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالُ الْجِبَالِ، فَيَقُوْلُ : أَنّٰی هٰذَا؟ فَيُقَالُ : بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ. رَوَاهُ الْهَيْثَمِيُّ.
أخرجه الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 210، والسيوطي في شرح الصدور / 296، الرقم : 20.
’’ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِ قیامت ایک شخص کو پہاڑوں جتنی نیکیاں ملیں گی وہ (حیران ہو کر) پوچھے گا : یہ کہاں سے آئیں؟ اُسے بتایا جائے گا : تیرے بیٹے کا تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنا اِس کا سبب ہے۔‘‘ اِسے امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔
33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْمَيِتُ فِي قَبْرِهِ إِلَّا يَشْبَهُ الْغَرِيْقَ الْمُتَهَوِّبََ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ وَلَدٍ أَوْ صَدِيْقٍ ثِقَةٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، وَإِنَّ اﷲَ لَيُدْخِلَ عَلٰی أَهْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْوَرِّ، أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدْيَةَ الْإِحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ : الِْاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَالصَّدَقَةُ عَنْهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 103، الرقم : 6323، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 203، الرقم : 7905، والهندي في کنز العمال، 15 / 317، الرقم : 42971، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 728، الرقم : 2355، والغزالي في إحياء علوم الدين، 4 / 492.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ، بھائی یا کسی دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے۔ جب اُسے دعا پہنچتی ہے تو اُسے دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ بے شک اہلِ دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر اجر عطا فرماتا ہے۔ مُردوں کے لئے زندوں کا بہترین تحفہ اُن کے لیے استغفار اور صدقہ کرنا ہے۔‘‘
اِسے امام دیلمی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا عَلٰی أَحَدِکُمْ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ تَطَوُّعاً فَيَجْعَلُهَا عَنْ أَبَوَيْهِ، فَيَکُوْنُ لَهُمَا أَجْرُهَا وَلَا يُنْقَصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 358، الرقم : 7726، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 138.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے کر دے، تو اس کے والدین کو اس کا (پورا) اجر ملتا ہے جب کہ اس کے اپنے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی.‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
35. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوْتُ مِنْهُمْ مَيِتٌ، فَيَتَصَدَّقُوْنَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيْلُ. عَلٰی طَبَقٍ مِنْ نُوْرٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلٰی شَفِيْرِ الْقَبْرِ، فَيَقُوْلُ : يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيْقِ، هٰذِهِ هَدِيَةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْکَ أَهْلُکَ فَاقْبَلْهَا. فَيُدْخَلُ عَلَيْهِ فَيَفْرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ وَيَحْزَنُ جِيْرَانُهُ الَّذِيْنَ لَا يُهْدَی إِلَيْهِمْ بِشَيئٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 315، الرقم : 6504، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 139.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب اہل خانہ میں سے کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کے لیے صدقہ و خیرات کر کے ایصال ثواب کرتا ہے تو اُس کے اِس ثواب کا تحفہ حضرت جبرائیل ں ایک خوبصورت تھال میں رکھ کر اس قبر والے کے سرہانے جا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اے صاحبِ قبر! تیرے فلاں عزیز نے یہ ثواب کا تحفہ بھیجا ہے تو اِسے قبول کر. وہ شخص اِسے قبول کر لیتا ہے، وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور (دوسرے قبر والوں کو) خوشخبری سناتا ہے اور اُس کے پڑوسیوں میں سے جن کو اس قسم کا کوئی تحفہ نہ ملا ہو وہ غمگین ہوتے ہیں.‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
36. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَالِکَ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ.
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لیے صدقہ کریں اور حج کریں اور ان کے لیے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘
اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا ہے۔
37. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا کُتِبَ لَهُ عِتْقًا مِنَ النَّارِ، وَکَانَ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُمَا أَجْرُ حَجَّةٍ تَامَّةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْقَصَ مِنْ أُجُوْرِهِمَا شَيءٌ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقيفي شعب الإيمان، 6 / 205، الرقم : 7912.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی اپنے والدین کی وفات کے بعد اُن کے لئے حج کرے تو اُس کے لئے جہنم سے چھٹکارا لکھ دیا جاتا ہے اور جس کی طرف سے حج کیا گیا اُس کو ایک مکمل حج کا ثواب ملے گا، بغیر اِس کے کہ اُن کے اَجر میں کمی بیشی کی جائے۔‘‘
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
38. عَنِ الدَّارَقُطْنِيِّ، قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ أَبَرُّ أَبَوَيَّ بَعَدَ مَوْتِهِمَا؟ فَقَالَ : إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْمَوْتِ أَنْ تُصَلِّيَ لَهُمَا مَعَ صَلَاتِکَ، وَأَنْ تَصُوْمَ لَهُمَا مَعَ صِيَامِکَ، وَأَنْ تَصَدَّقَ عَنْهُمَا مَعَ صَدَقَتِکَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَبَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12084، وبدر الدين العينيفي عمدة القاري، 3 / 119، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3 / 276.
’’امام دار قطنی روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ کیسے نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُن کی موت کے بعد اگر کوئی نیکی ہے تو وہ یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اُن کے لیے بھی نماز پڑھے اور اُن کے لیے اپنے روزوں کے ساتھ روزے رکھے اور اپنے صدقہ کے ساتھ اُن کی طرف سے بھی صدقہ کرے۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بدر الدین عینی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
39. عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اقْرَءُوا يٰس عَلٰی مَوْتَاکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
39 :أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب القرائة عند الميت، 3 / 191، الرقم : 3121، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ما يقال عند المريض إذا حضر، 1 / 466، الرقم : 1448، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 265، الرقم : 10913، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 27، الرقم : 20329.
’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے وفات پانے والوں کے پاس ’’سورہ یٰس‘‘ پڑھا کرو.‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ ص، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَقَرَأَ عِنْدَهُ أَوْ عِنْدَهُمَا يٰس غُفِرَ لَهُ.
رَواهُ الْعَيْنِيُّ.
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118.
’’ایک روایت میں ہے : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ کی قبر کی زیارت کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی (قبر کی) اور ان دونوں یا ایک کے پاس سورہ یسین پڑھی تو اُسے بخش دیا جائے گا.‘‘ اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه يَرْفَعُهُ : مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأَ سُوْرَةَ يٰس، خَفَّفَ اﷲُ عَنْهُمْ يَوْمَئِذٍ.
رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ وَقَالَ : رَوَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ النَّجَّارُ فِي السُّنَنِ.
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3 / 275.
’’ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں : جو شخص قبرستان گیا اور اس نے (مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنے کے لیے) سورہ یاسین پڑھی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ کم کر دے گا.‘‘
اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو بکر النجار نے اپنی ’السنن‘ میں روایت کیا ہے۔
40. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِذَا مَاتَ أَحَدُکُمْ فَـلَا تَحْبِسُوْهُ وَأَسْرِعُوْا بِهِ عَلٰی قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأ عِنْدَ رَأَسِهِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
40 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 444، الرقم : 31613، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 16، الرقم : 9294، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 284، الرقم : 1115، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 70.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اُسے روک نہ رکھو بلکہ اُسے جلدی قبر تک لے جائو، اُس کی قبر پر اُس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اور اُس کے پاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھو.‘‘
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ مَعِيْنٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ، فَقَالَ : حَدَّثَنَا مُبَشَّرُ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْعَـلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ لِبَنِيْهِ : إِذَا أَدْخَلْتُمُوْنِي قَبْرِي فَضَعُوْنِي فِي اللَّحْدِ وَقُوْلُوْا : بِاسْمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَسُنُّوْا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا وَاقْرَؤُوْا عِنْدَ رَأْسِي أَوَّلَ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتَهَا، فَإِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْتَحِبُّ ذَالِکَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 4 / 56، الرقم : 6860.
’’اور ایک روایت میں حضرت عباس بن محمد بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت یحییٰ بن معین سے قبر کے نزدیک تلاوتِ کلام مجید کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں مبشر بن اسماعیل الحلبی نے عبد الرحمن بن علاء بن لجلاج سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا : جب تم مجھے میری قبر میں اُتارو اور مجھے لحد میں رکھو تو ’بِاسْمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم‘ کہو اور پھر مجھ پر مٹی ڈالو اور میرے سرہانے سورہ بقرہ کا ابتدائی و آخری حصہ تلاوت کرو. کیونکہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ وہ اِس عمل کو مستحب جانتے تھے۔‘‘ اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
41. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَرَّ بَيْنَ الْمَقَابِرِ، فَقَرَأَ {قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ}، أَحَدَ عَشَرَ مَرَّةً، ثُمَّ وََهَبَ أَجْرَهَا لِـلْأَمْوَاتِ، أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ.
رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ. وَقَالَ : رَوَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ النَّجَّارُ فِي السُّنَنِ.
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی قبروں میں سے گزرا اور اُس نے گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر فوت شدگان کو ایصالِ ثواب کیا تو اُس کو اُن فوت شدگان کی تعداد کے مطابق اجر دیا جائے گا.‘‘
اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو بکر النجار نے اپنی ’السنن‘ میں روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَالَ : اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْکِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، ِﷲِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، هُوَ الْمَلِکُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ النُّوْرُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ قَالَ : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ لَمْ يَبْقَ لِوَالِدَيْهِ حَقٌّ إِلَّا أَدَّاهُ إِلَيْهِمَا.
رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ. وَقالَ : رَوَاهُ أَبُوْ حَفْصِ بْنِ شَاهِيْنَ(م835ه).
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118-119.
’’اور ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایک بار یوں کہے :
{اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْکِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، ِﷲِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، هُوَ الْمَلِکُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ النُّوْرُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، مَرَّةً وَاحِدَةً}
’’سب تعریفیں تمام جہانوں کے پروردگار کے لیے ہیں جو زمین و آسمان کا رب ہے، تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، زمین و آسمان میں اُسی کے لیے بڑائی ہے، وہی غالب، حکمت والا ہے، اُسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں جو زمین و آسمان اور تمام جہانوں کا رب ہے، اُسی کے لیے عظمت ہے، زمین و آسمان میں وہی غالب حکمت والا ہے، وہی بادشاہ اور زمین و آسمان اور تمام جہانوں کا رب ہے، اُسی کا نور زمین و آسمان میں ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے‘‘ اور پھر یوں دعا کرے : {اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ} ’’اے میرے مولا! اِس کا ثواب میرے والدین کو پہنچا.‘‘ تو اُس پر اُس کے والدین کا کوئی بھی حق باقی نہیں رہتا بلکہ اُس نے اُن کے تمام حقوق ادا کر دیئے۔‘‘
اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو حفص شاہین نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ : کَانَتِ الْأَنْصَارُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ عِنْدَ الْمَيِتِ بِسُوْرَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ. رَوَاهُ الـلَّالَکَائِيُّ.
أخرجه اللالکائي في اعتقاد أهل السنة / 164.
’’امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ اَنصار اِس امر کو مستحب گردانتے تھے کہ میت کے پاس کھڑے ہو کر قرآنی سورتوں کی تلاوت کی جائے۔‘‘
اِسے امام لالکائی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية عنه : قَالَ : کَانَتِ الْأَنْصَارُ إِذَا مَاتَ لَهُمُ الْمَيِتُ اخْتَلَفُوْا إِلٰی قَبْرِهِ، يَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ. رَوَاهُ مُـلَّا عَلِيُّ الْقَارِيُّ وَالسَّيُوْطِيُّ.
أخرجه ملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 4 / 173، والسيوطي في شرح الصدور، 1 / 303.
’’حضرت شعبی سے ہی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : انصار کا یہ معمول تھا کہ جب اُن کا کوئی عزیز فوت ہو جاتا تو وہ اُس کی قبر پر آتے جاتے اور وہاں قرآن پڑھتے تھے۔‘‘ اِسے ملا علی القاری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ : کَانَ يُقَالُ : اَلْأَمْوَاتُ أَحْوَجُ إِلَی الدُّعَاءِ مِنَ الْأَحْيَاءِ إِلَی الطَّعَامِ. رَوَاهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.
أخرجه ابن رجب الحنبلي في أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور / 132.
’’حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مُردوں کے بارے میںکہا جاتا تھا کہ جس طرح زندوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اُس سے بڑھ کر مُردوں کو دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ اِسے ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية : عَنْ سُفْيَانَ قَالَ : قَالَ طَاوُوْسٌ رضی الله عنه : إِنَّ الْمَوْتَی يُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعًا فَکَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ يُطْعَمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الْأَيَامِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ السُّيُوْطِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَلَهُ حُکْمُ الرَّفْعِ.
أخرجه أبو نعيم في حلية الأوليائ، 4 / 11، والعسقلاني في المطالب العالية، 5 / 330، الرقم : 834، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 2 / 289، والسيوطي في الديباج علی صحيح مسلم، 2 / 491، الرقم : 905، وأيضًا في شرحه علی سنن النسائي، 4 / 104.
’’حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک فوت ہونے والے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائش میں رہتے ہیں، اس لیے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام سیوطی نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے اور اِس کا حکم مرفوع روایت کا ہے۔
وفي رواية : عَنْ طَاؤُوْسِ : کَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ لَا يَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْمَيِتِ سَبْعَةَ أَيَامٍ، لِأَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ وَيُحَاسَبُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعَةَ أَيَامٍ.
أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري في شرح صحيح البخاري، 8 / 70.
’’حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک میت کی قبر میں آزمائش ہوتی ہے اور ان کا حساب ہوتا ہے۔‘‘
وَنَرَی الصَّدَقَةَ عَلٰی مَوْتَی الْمُسْلِمِيْنَ وَالدُّعَاءِ لَهُمْ وَنُؤْمِنُ بِأَنَّ اﷲَ يَنْفَعُهُمْ بِذَالِکَ.
ذکره الأشعري في الإبانة عن أصول الديانة، 1 / 31.
امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اور ہماری رائے میں مسلمان مُردوں کے لیے صدقہ کرنا اور اُن کے لیے دعا کرنا جائز ہے، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان (اَعمالِ صالحہ) کے بدلے نفع دے گا.‘‘
وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ، وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفِعَةٌ لِـلْأَمْوَاتِ.
ذکره الطحاوي في العقيدة الطحاوية / 56.
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ’عقیدہ طحاویہ‘ میں فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور صدقہ کرنا نفع دیتا ہے۔‘‘
وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ عَنْهُمْ نَفْعٌ لَهُمْ.
ذکره عبد اﷲ الهرري في المطالب الوفية شرح عقائد النسفية / 153.
امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیں اور اُن کے صدقات مُردوں کو نفع دیتے ہیں.‘‘
وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ أَيْ صَدَقَةِ الْأَحْيَاءِ عَنْهُمْ أَي عَنِ الْأَمْوَاتِ نَفْعٌ لَهُمْ.
ذکره سعد الدين التفتازاني في شرح لشرح العقائد المسمی بالنبراس مع التعليقات القسطاس / 579.
امام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) اُن کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور زندوں کا ان (مُردوں) کے لئے صدقہ کرنا انہیں نفع دیتا ہے۔‘‘
إِتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ أَنَّ الْأَمْوَاتَ يَنْتَفِعُوْنَ مِنْ سَعْيِ الْأَحْيَاءِ بِأَمْرَيْنِ : أَحَدُهُمَا : مَا تَسَبَّبَ إِلَيْهِ الْمَيِتُ فِي حَيَاتِهِ، وَالثَّانِي : دُعَاءُ الْمُسْلِمِيْنَ وَاسْتِغْفَارُهُمْ لَهُ، وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجُّ عَلٰی نِزَاعٍ فِيْمَا يَصِلُ مِنْ ثَوَابِ الْحَجِّ. فَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَنٍ (131-189ه) : أَنَّهُ إِنَّمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ ثَوَابُ النَّفَقَةِ، وَالْحَجُّ لِلْحَاجِّ. وَعِنْدَ عَامَةِ الْعُلَمَاءِ : ثَوَابُ الْحَجِّ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُ، وَهُوَ الصَّحِيْحُ. وَاخْتُلِفَ فِي الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ، کَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَالذِّکْرِ، فَذَهَبَ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمْهُوْرُ السَّلَفِ إِلٰی وَصُوْلِهَا، وَالْمَشْهُوْرُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ عََدْمُ وُصُوْلِهَا. وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ أَهْلِ الْکَلَامِ إِلٰی عَدْمِ وُصُوْلِ شَيْئٍ اَلْبَتَّةَ، لَا الدُّعَاءُ وَلَا غَيْرُهُ. وَقَوْلُهُمْ مَرْدُوْدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ.
ذکره ابن أبي العز الدمشقي في شرح العقيدة الطحاوية / 345- 346.
’’اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ مردہ لوگ زندوں کی طرف سے کیے گئے عمل سے دو اُمور میںنفع حاصل کرتے ہیں : ان دو میں سے ایک یہ کہ میت نے اپنی حیات میں کوئی عمل کیا ہو (جیسے صدقہ وغیرہ). اور دوسرا مسلمانوں کا ان کے لیے دعا و استغفار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور حج کرنا. اور حج کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں؟ پس محمد بن حسن الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ بے شک میت تک صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے، اور حج کا ثواب حج کرنے والے کے لیے ہے۔ عام علماء کا موقف ہے کہ حج کا ثواب محجوج عنہ (جس کی طرف سے حج کیا گیا) کے لیے ہے، اور یہی صحیح موقف ہے، اور بدنی عبادات، جیسے : روزہ، نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کا موقف ہے کہ ان کا ثواب پہنچتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب عدمِ وصول کا ہے۔ اہل کلام میں سے بعض اہل بدعات اِس طرف گئے ہیں کہ کسی بھی چیز کا ثواب مطلقًا نہیں پہنچتا، نہ دعا اور نہ ہی غیر دعا. اور اُن کا یہ قول کتاب و سنت کی روشنی میں مردود (ناقابل قبول) ہے۔‘‘
علامہ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی، 7 / 498-499 میں قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے گناہوں کی بخشش کے دس اَسباب بیان کیے ہیں. اُنہوں نے چوتھا اور پانچواں سبب اِیصالِ ثواب کو قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
اَلسَّبَبُ الرَّابِعُ : اَلدَّافِعُ لِلْعِقَابِ : دُعَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ لِلْمُؤْمِنِ، مِثْلُ صَلَا تِهِمْ عَلٰی جَنَازَتِهِ.
’’(گناہوں سے بخشش کا) چوتھا سبب اور عذاب سے بچانے والی مومن بندوں کی دوسرے مومنین کی (بخشش) کے لیے کی جانے والی دعائیں ہیں، جیسا کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں.‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ مَيِتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَبْلُغُوْنَ مِاءَةً کُلُّهُمْ يَشْفَعُوْنَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 654، الرقم : 947.
’’جس میت پر سو مسلمانوں کا گروہ نماز پڑھے اور وہ سب اس کے لئے شفاعت کریں تو اس کے حق میں اُن کی شفاعت قبول کر لی جاتی ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلٰی جَنَازَتِهِ أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا لَا يُشْرِکُونَ بِاﷲِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ اﷲُ فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 655، الرقم : 948.
’’جو مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اس کے جنازہ میں چالیس ایسے لوگ ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی مذکورہ بالا دو حدیثیں بیان کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں :
وَهٰذَا دُعَاءٌ لَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ. فَـلَا يَجُوْزُ أَنْ تُحْمَلَ الْمَغْفِرَةُ عَلَی الْمُؤْمِنِ التَّقِيِ الَّذِي اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ، وَکُفِّرَتْ عَنْهُ الصَّغَائِرُ وَحْدَهُ، فَإِنَّ ذَالِکَ مَغْفُوْرٌ لَهُ عِنْدَ الْمُتَنَازِعِيْنَ. فَعُلِمَ أَنَّ هٰذَا الدُّعَاءَ مِنْ أَسْبَابِ الْمَغْفِرَةِ لِلْمَيِتِ.
’’اور یہ دعائے بخشش اس کے لیے موت کے بعد ہے۔ اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ مغفرت صرف متقی مومن کے لئے ہے جو کہ پہلے ہی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ یک بارگی مٹا دیئے گئے ہیں. بے شک (صغیرہ گناہوں کا مٹایا جانا) تو اختلاف کرنے والوں کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے۔ پس جان لیا گیا ہے کہ دعا بھی میت کی مغفرت کے اسباب میں سے ہے۔‘‘
اِس کے بعد علامہ ابن تیمیہ پانچواں سبب لکھتے ہیں :
اَلسَّبَبُ الْخَامِسُ : مَا يُعْمَلُ لِلْمَيِتِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، کَالصَّدَقَةِ وَنَحْوِهَا، فَإِنَّ هٰذَا يُنْتَفَعُ بِهِ بِنُصُوْصِ السُّنَّةِ الصَّحِيْحَةِ الصَّرِيْحَةِ، وَاتِّفَاقِ الْأَئِمَّةِ وَکَذَالِکَ الْعِتْقِ، وَالْحَجِّ، بَلْ قَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ فِي الصَّحِيْحَيْنِ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. وَثَبَتَ مِثْلُ ذَالِکَ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ صَوْمِ النَّذْرِ مِنَ الْوُجُوْهِ الْأُخْرَی، وَلَا يَجُوْزُ أَنْ يُعَارَضَ هٰذَا بِقَوْلِهِ {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} [النجم،53 : 39] لِوَجْهَيْنِ :
أَحَدُهُمَا : أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ بِالنُّصُوْصِ الْمُتَوَاتِرَةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَنْتَفِعُ بِمَا لَيْسَ مِنْ سَعْيِهِ، کَدُعَاءِ الْمَلَائِکَةِ، وَاسْتِغْفَارِهِمْ لَهُ، کَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی : {اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا} [غافر، 40 : 7]. وَدُعَاءُ النَّبِيِيْنَ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَاسْتِغْفَارِهِمْ، وَکَدُعَاءِ الْمُصَلِّيْنَ لِلْمَيِتِ، وَلِمَنْ زَارُوْا قَبْرَهُ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.
ذکره ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 7 / 498-499.
’’(گناہوں کی بخشش کا) پانچواں سبب وہ نیک اعمال ہیں جو میت کے لئے کیے جاتے ہیں. جیسے صدقہ اور اس طرح کے اعمال. پس یہ بات سنت صحیحہ صریحہ کی نصوص سے ثابت ہے کہ میت کو ان اعمال کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے اور اسی طرح (میت کی طرف سے) غلام آزاد کرنے اور حج کرنے کا فائدہ (بھی میت کو پہنچتا) ہے۔بلکہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیحین میں ثابت شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر (ماہِ رمضان کے) روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے ادا کرے۔‘‘ اِسی طرح کا حکم الصحيح میں دیگر قرائن کی بنا پر منت کے روزوں سے بھی ثابت ہے۔ پس (یہ تمام تفاصیل جان لینے کے بعد) یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے قول {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} ’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی‘‘ کے ساتھ کوئی تعارض ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں :
پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ بات نصوص متواترہ اور ائمہ سلف کے اِجماع سے ثابت ہے کہ مؤمن کو اس عمل سے بھی فائدہ ملتا ہے جس کے لیے اُس نے کوئی کوشش نہ کی ہو، جیسا کہ ملائکہ کی دعا اور ان کا مومن بندے کے حق میں استغفار کرنا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں.} اور اِسی طرح نبیوں اور مؤمنین کی دعائیں اور ان کا استغفار کرنا، نماز پڑھنے والوں کا میت کے لیے دعا کرنا، اور قبروں پر جانے والوں کا صاحبِ قبر کے لیے دعا کرنا (بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے).‘‘
علامہ ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں بھی اِیصالِ ثواب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اِس کی مشروعیت پر بالتفصیل لکھا ہے :
فَأَمَّا مَا يَذْکُرُهُ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّهُ يَنْتَفِعُ الْمَيِتُ بِسَمَاعِ الْقُرْآنِ بِخِلَافِ مَا إِذَا قُرِءَ فِي مَکَانٍ آخَرَ، فَهٰذَا إِذَا عُنِيَ بِهِ : أَنَّهُ يَصِلُ الثَّوَابُ إِلَيْهِ إِذَا قُرِءَ عِنْدَ الْقَبْرِ خَاصَّةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَعْرُوْفِيْنَ، بَلِ النَّاسُ عَلٰی قَوْلَيْن :
أَحَدُهُمَا : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ مِنَ الصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهِمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ کَمَا يَصِلُ إِلَيْهِ ثَوَابُ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ، وَهٰذَا مَذْهَبُ أَبِي حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَغَيْرِهِمَا، وَقَوْلُ طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ وَهُوَ الصَّوَابُ لِأَدِلَّةٍ کَثِيْرَةٍ ذَکَرْنَا فِي غَيْرِ هٰذَا الْمَوْضِعِ.
وَالثَّانِي : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَةِ لَا يَصِلُ إِلَيْهِ بِحَالٍ. وَهُوَ مَشْهُوْرٌ عِنْدَ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ. وَمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ هٰـؤُلَاءِ يَخُصُّ مَکَانًا بِالْوُصُوْلِ أَوْ عَدْمِهِ.
فَأَمَّا اسْتِمَاعُ الْمَيِتِ لِـلْأَصْوَاتِ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهَا : فَحَقٌّ، لٰـکِنَّ الْمَيِتُ مَا بَقِيَ يُثَابُ بَعْدَ الْمَوْتِ عَلٰی عَمَلٍ يَعْمَلُهُ هُوَ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنِ اسْتِمَاعِ أَوْ غَيْرِهِ. وَإِنَّمَا يُنْعَمُ أَوْ يُعَذَّبُ بِمَا کَانَ قَدْ عَمِلَهُ فِي حَيَاتِهِ هُوَ، أَوْ بِمَا يَعْمَلُ غَيْرُهُ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَثَرِهِ، أَوْ بِمَا يُعَامَلُ بِهِ. کَمَا قَدِ اخْتُلِفَ فِي تَعْذِيْبِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِمَا يُهْدَی إِلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِالدُّعَاءِ لَهُ، وَإِهْدَاءِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ.
وَکَذَالِکَ قَدْ ذَکَرَ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَائِ مِنْ أَصْحَابِ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِمْ، وَنَقَلُوْهُ عَنْ أَحْمَدَ، وَذَکَرُوْا فِيْهِ آثَارًا : أَنَّ الْمَيِتَ يَتَأَلَّمُ بِمَا يُفْعَلُ عِنْدَهُ مِنَ الْمَعَاصِي. فَقَدْ يُقَالَ أَيْضًا : إِنَّهُ يُتَنَعَّمُ بِمَا يَسْمَعُهُ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَذِکْرِ اﷲِ.
ذکره ابن تيمية في إقتضاء الصراط المستقيم / 378-379.
’’اور بعض لوگوں کا جو یہ بیان ہے کہ میت کو قرآن حکیم سننے سے فائدہ ہوتا ہے (جب اس کی قبر کے پاس پڑھا جائے) بخلاف اس کے کہ جب کسی دوسری جگہ پر پڑھا جائے۔ اس بات سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ثواب صرف اسی صورت میں پہنچتا ہے جب خاص طور پر قبر کے پاس ہی پڑھا جائے، تو معروف علماء میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں دو آراء ہیں :
پہلا قول : بدنی عبادات کے بارے میں ہے جیساکہ نماز اور تلاوتِ قرآن حکیم اور اس کی علاوہ دیگر بدنی عبادات کا ثواب بھی میت کو پہنچے گا جس طرح مالی عبادات کا ثواب پہنچتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور یہ ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کا مذہب ہے۔ ان دونوں کے علاوہ شافعی اور مالکی فقہاء کے ایک گروہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہی حق ہے۔ اس پر بہت سے دلائل ہیں جنہیں ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ بیان کیا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا.‘‘
’’پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق
ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا
کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے
دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے
یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو
عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے)
ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش
کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر
نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس
ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن
اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے۔‘‘
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ایصال ثواب پر اہل سنت والجماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا کَذَا فِي الْهِدَايَةِ، بَلْ فِي زَکَاةِ التَّتَارْخَانِيَةِ عَنِ الْمُحِيْطِ، اَلْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْـلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ.
ذکره ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 243.
’’ہمارے علماء نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اِس بات کی تصریح کی ہے کہ انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے۔ خواہ وہ عمل نماز ہو، روزہ ہو، کوئی صدقہ ہو یا کچھ اور، اِسی طرح الھدایہ میں مذکورہ ہے۔ بلکہ فتاویٰ تتارخانیہ میں زکوٰۃ کے باب میں محیط سے منقول ہے ہے کہ ایصال ثواب کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کی نیت کرے، اِس طرح سب کو ثواب پہنچ جائے گا اور اِیصال کرنے والے کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی. یہی اہل سنت والجماعت کا موقف ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved