اللہ تعالیٰ پر بندوں کے حقوق

ﷲ تعالیٰ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے

بَابٌ فِي أَنَّهٗ تَعَالٰی خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ

اَلْقُرْآن

(1) وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍo

(البقرۃ، 2: 212)

اور الله جسے چاہتا ہے بے حساب نوازتا ہے۔

(2) وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا ط کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo

(هود، 11: 6)

اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق الله (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔

(3) وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللهُ یَرْزُقُهَا وَإِیَّاکُمْ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo

(العنکبوت، 29: 60)

اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) نہیں اٹھائے پھرتے الله انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

(4) یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْکُمْ ط هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُاللهِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ط لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَo

(فاطر، 35: 3)

اے لوگو! اپنے اوپر الله کے انعام کو یاد کرو، کیا الله کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔

(5) اللهُ لَطِیْفٌم بِعِبَادِهٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ ج وَهُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُo

(الشورٰی، 42: 19)

اللہ اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم فرمانے والا ہے، جسے چاہتا ہے رِزق و عطا سے نوازتا ہے اور وہ بڑی قوت والا بڑی عزّت والا ہے۔

(6) اِنَّ اللهَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُo

(الذاریات، 51: 58)

بے شک الله ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔ (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں)۔

(7) یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ط وَاللهُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo

(الجمعۃ، 62: 9-11)

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجیے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

(8) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ.

(الطلاق، 65: 3)

بے شک الله ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے۔

اَلْحَدِیْث

74: عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَیْسَ أَحَدٌ أَوْ لَیْسَ شَيئٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَهٗ مِنَ اللهِ، إِنَّهُمْ لَیَدْعُوْنَ لَهٗ وَلَدًا، وَإِنَّهٗ لَیُعَافِیْهِمْ وَیَرْزُقُهُمْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الصبر علی الأذی وقول الله تعالی:{إنما یوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب}، 5: 2262، الرقم: 5748، أیضًا في الأدب المفرد: 141، الرقم: 389، والدیلمي في مسند الفردوس، 4: 105، الرقم: 6330

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں یا کوئی چیز ایسی نہیں کہ اذیت ناک بات سنے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کر سکے۔ (یہاں تک کہ) کچھ لوگ (اُس کی شان کے برعکس) اس کے لیے اولاد ٹھہراتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اُن سے درگزر فرماتا ہے اور انہیں روزی دیتا رہتا ہے۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

75: عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تُکْرِھُوْا مَرْضَاکُمْ عَلَی الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، فَإِنَّ رَبَّهُمْ یُطْعِمُهُمْ وَیَسْقِیْهِمْ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ یَعْلٰی. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ.

أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الطب، باب ما جاء لا تکرھوا مرضاکم علی الطعام والشراب، 4: 384، الرقم: 2040، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطب، باب لا تکرھوا المریض علی الطعام، 2: 1140، الرقم: 3444، والحاکم عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ في المستدرک، 1: 501، الرقم: 1296، والبزار في المسند، 3: 223، الرقم: 1010، وأبو یعلی في المسند، 3: 281، الرقم: 1741، والطبراني في المعجم الکبیر، 17: 193، الرقم: 807

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اپنے بیماروں کو کھانے پینے پر مجبور نہ کیا کرو کیونکہ ان کا پروردگار اُنہیں کھلاتا اور پلاتا ہے۔

اِسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں، حاکم، بزار اور ابو یعلی نے بھی اِسے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے، اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

76-80: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَیُّهَا النَّاسُ، اتَّقُوا اللهَ، وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ، فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا، وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا، فَاتَّقُوا اللهَ، وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ، خُذُوْا مَا حَلَّ، وَدَعُوْا مَا حَرُمَ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.

أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب التجارات، باب الاقتصاد في طلب المعیشۃ، 2: 725، الرقم: 2144، وابن حبان في الصحیح، 8: 33، الرقم: 3241، والحاکم في المستدرک، 4: 361، الرقم: 7924، والبیہقي في السنن الکبری، 5: 264، الرقم: 10184

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تلاشِ رزق میں جائز اور احسن ذرائع اختیار کرو کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اُس کا مقررہ رزق پورا نہیں ہو جاتا، اگرچہ اس (رزق کے پہنچنے) میں دیر لگے۔ لهٰذا خدا سے ڈرو، جائز اور عمدہ ذرائع سے روزی تلاش کرو، رزقِ حلال حاصل کرو اور رزقِ حرام کو چھوڑ دو۔

اِسے امام ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

(77) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: قَالَ اللهُ تعالیٰ : إِنِّي وَالْجِنُّ وَالإِنْسُ فِي نَبَأٍ عَظِیْمٍ، أَخْلُقُ وَیَعْبُدُ غَیْرِي، وَأَرْزُقُ وَیَشْکُرُ غَیْرِي.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْھَقِيُّ وَالدَّیْلَمِيُّ.

أخرجہ الطبراني في مسند الشامین، 2: 93، الرقم: 974، 975، والبیہقي في شعب الإیمان، 4: 134، الرقم: 4563، والدیلمي في مسند الفردوس، 3: 166، الرقم: 4439

ایک روایت میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا اور جن و انس کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے (اُن میں بہت سے ایسے ہیں کہ) انہیں پیدا میں کرتا ہوں جبکہ وہ عبادت غیروں کی کرتے ہیں۔ رزق میں دیتا ہوں جبکہ وہ شکر غیروں کا اداکرتے ہیں۔

اِسے امام طبرانی، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

(78) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ فَرَّ أَحَدُکُمْ مِنْ رِزْقِهٖ لَأَدْرَکَهٗ کَمَا یُدْرِکُهُ الْمَوْتُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 4: 363، الرقم: 4444، وأیضًا في المعجم الصغیر، 1: 365، الرقم: 611، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 4: 72

ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اگر کوئی اپنے رزق سے فرار اختیار کرے تو وہ اُسے ویسے ہی پا لیتا ہے جیسے موت اُسے پا لیتی ہے۔

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

(79) وَفِي رِوَایَةِ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ هَرَبَ مِنْ رِزْقِهٖ کَمَا یَهْرُبُ مِنَ الْمَوْتِ، لَأَدْرَکَهٗ رِزْقُهٗ کَمَا یُدْرِکُهُ الْمَوْتُ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ وَالْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ.

أخرجہ أبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 7: 90، وأیضًا، 8: 246، والبخاري في التاریخ الکبیر، 5: 134، الرقم: 399، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 5: 43

ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ابن آدم اگر اپنے رزق سے اس طرح بھاگے جیسے اپنی موت سے بھاگتا ہے تو پھر بھی اُس کا رزق (مقسوم) اُسے اُسی طرح پہنچ جاتا ہے جیسے اُسے موت آ پہنچتی ہے۔

اِسے امام ابو نعیم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔

(80) وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہما، تعالیٰ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِي رُوْعِي: أَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَهَا، فَاتَّقُوا اللهَ، وَأَجْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ.

رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ.

أخرجہ القضاعي في مسند الشہاب، 2: 185، الرقم: 1151

ایک روایت میں حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: روح القدس (جبرائیل) علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ ہر شخص اپنا رزق (مقسوم) مکمل حاصل کر کے ہی اِس جہانِ فانی سے کوچ کرتا ہے، لهٰذا تم الله سے ڈرو اور تلاشِ رزق میں عمدہ اور جائز طریقہ اختیار کرو۔

اِسے امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔

81-82: عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: مَنْ آتَاهُ اللهُ مِنْ هٰذَا الْمَالِ شَیْئًا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَسْأَلَهٗ، فَلْیَقْبَلْهٗ، فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ سَاقَهُ اللهُ تعالیٰ إِلَیْهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّیَالِسِيُّ وَابْنُ رَاهَوَیْهِ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 292، الرقم: 7908، والطیالسي في المسند، 1: 325، الرقم: 2478، وابن راہویہ في المسند، 1: 183، الرقم: 132، وابن عبد البر في التمہید، 5: 91

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کسی کو الله تعالیٰ بغیر اُس کے طلب کیے مال عطا فرمائے تو اُسے چاہیے کہ وہ اُسے قبول کر لے کیونکہ یہ وہ رزق ہے جو الله تعالیٰ نے اُسے خود عطا کیا ہے۔

اِسے امام احمد، طیالسی اور ابن راہویہ نے روایت کیا ہے۔

(82) وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہما، تعالیٰ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ أَصَابَتْهُ فَاقَۃٌ، فَأَنْزَلَھَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهٗ، وَمَنْ أَنْزَلَھَا بِاللهِ، أَوْشَکَ اللهُ لَهٗ بِالْغِنٰی، إِمَّا بِمَوْتٍ عَاجِلٍ أَوْ غِنًی عَاجِلٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 407، الرقم: 3869، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاۃ، باب في الاستعفاف، 2: 622، الرقم: 1645، والترمذي في السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء في الھم في الدنیا وحبھا، 4: 563، الرقم: 2326، والطبراني في المعجم الکبیر، 10: 13، الرقم: 9785، وأبویعلی في المسند، 9: 275، الرقم: 5399، والبیھقي في السنن الکبری، 4: 196، الرقم: 7658، وأیضًا في شعب الإیمان، 2: 29، الرقم: 1078

ایک روایت میں حضرت (عبد الله) بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس شخص پر مفلسی آ گئی اور اس نے اپنی مفلسی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا تو اس کی مفلسی دور نہیں ہوگی۔ جس شخص نے اپنی مفلسی کو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا تو اُسے جلد موت کے ذریعے مفلسی سے نجات مل جائے گی، یا کچھ مدت بعد الله تعالیٰ اُسے (اپنی حکمت کے مطابق) غنی کر دے گا۔

اِسے امام احمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

83: عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَرْسَلَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ بِعَطَائٍ، فَرَدَّهٗ عُمَرُ۔ فَقَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِمَ رَدَدْتَهٗ؟ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَیْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ خَیْرًا لِأَحَدِنَا أَنْ لَا یَأْخُذَ مِنْ أَحَدٍ شَیْئًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّمَا ذٰلِکَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ، فَأَمَّا مَا کَانَ مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ یَرْزُقُکَهُ اللهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، لَا أَسْأَلُ أَحَدًا شَیْئًا، وَلَا یَأْتِینِي شَيئٌ مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ إِلَّا أَخَذْتُهٗ۔

رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ رَاشِدٍ.

أخرجہ مالک في الموطأ، 2: 998، الرقم: 1814، ومعمر بن راشد في الجامع، 11: 103، الرقم: 20044

حضرت عطاء بن یسار روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کچھ عطیہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ واپس کر دیا۔ بعد میں آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: تم نے وہ مال واپس کیوں کر دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا: (یا رسول الله!) آپ ﷺ ہی نے ارشاد فرمایا تھا۔ بہترین شخص وہ ہے جو کسی سے کچھ نہ لے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ تھا کہ مانگ کر کچھ نہ لے تاہم جو بن مانگے مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی عطاء ہوتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! آج کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں مانگوں گا، البتہ جو چیز بن مانگے مل جائے گی اُسے لے لیا کروں گا۔

اسے امام مالک اور ابن راشد نے روایت کیا ہے۔

84: 6۔ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: کُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَی الشَّامِ وَإِلٰی مِصْرَ، فَجَهَزْتُ إِلَی الْعِرَاقِ، فَأَتَیْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ j فَقُلْتُ لَهَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ، کُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَی الشَّامِ، فَجَهَزْتُ إِلَی الْعِرَاقِ، فَقَالَتْ: لَا تَفْعَلْ، مَا لَکَ وَلِمَتْجَرِکَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِذَا سَبَّبَ اللهُ لِأَحَدِکُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْہٍ، فَـلَا یَدَعْهُ حَتّٰی یَتَغَیَّرَ لَهٗ أَوْ یَتَنَکَّرَ لَهٗ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب التجارات، باب إذا قسم للرجل رزق من وجہ فلیلزمہ، 2: 726، الرقم: 2147، وذکرہ الخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2: 848، الرقم: 2785

حضرت نافع بیان کرتے ہیں: میں شام اور مصر، مال تجارت لے کر جایا کرتا تھا، ایک بار (شام و مصر کی بجائے) عراق جانے کا ارادہ کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ j کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے ام المومنین! میں پہلے سامانِ تجارت ملک شام لے جایا کرتا تھا، اب عراق جانے کا ارادہ ہے۔ اُنہوں نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اپنی وہی تجارت کرو، کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے رزق کا کوئی سبب پیدا فرما دے تو وہ اس وقت تک اُسے نہ چھوڑے جب تک اس ذریعۂ رزق میں خود تغیر یا خرابی پیدا نہ ہو جائے۔

اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

85-89: عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلٰی بِلَالٍ وَعِنْدَهٗ صَبْرٌ مِنْ تَمْرٍ، فَقَالَ: مَا هٰذَا یَا بِلَالُ؟ قَالَ: أَعُدُّ ذٰلِکَ لِأَضْیَافِکَ، قَالَ: أَمَا تَخْشٰی أَنْ یَکُوْنَ لَهٗ دُخَانٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، أَنْفِقْ یَا بِلَالُ، وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْـلَالًا.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالشَّاشِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجہ البزار في المسند، 5: 348، الرقم: 1978، والشاشي في المسند، 1: 391، الرقم: 389، والقضاعي في مسند الشہاب، 1: 437، الرقم: 749، والہیثمي في مسند الحارث، 2: 875، الرقم: 941

حضرت مسروق، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو ان کے پاس کھجور کا ایک ڈھیر تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: اے بلال! یہ کس لیے رکھا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: میں نے اسے آپ کے مہمانوں کے لیے سنبھال رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اس ڈھیر کا کہیں جہنم کی آگ میں دھواں نہ بن جائے؟ اے بلال! تو (سنبھال رکھنے کی بجائے) خرچ کر، اور عرش والے (رب) کی طرف سے کمی کا ڈر نہ رکھ۔

اِسے امام بزار، شاشی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

(86) وَفِي رِوَایَةِ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ رضی اللہ عنہ أَنَّ الْأَشْعَرِیِّیْنَ أَبَا مُوْسٰی وَأَبَا مَالِکٍ وَأَبَا عَامِرٍ رضوان اللہ علیہم اجمعین فِي نَفَرٍ مِنْهُمْ، لَمَّا هَاجَرُوْا قَدِمُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي فُلْکٍ، وَقَدْ أَرْمَلُوْا مِنَ الزَّادِ، فَأَرْسَلُوْا رَجُـلًا مِنْهُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَسْأَلُهٗ، فَلَمَّا انْتَهٰی إِلٰی بَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ سَمِعَهٗ یَقْرَأُ هٰذِهٖ الآیَةَ {وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُھَا [ھود، 11: 6]}. فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا الْأَشْعَرِیُّوْنَ بِأَهْوَنَ الدَّوَابِّ عَلَی اللهِ، فَرَجَعَ وَلَمْ یَدْخُلْ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ لِأَصْحَابِهٖ: أَبْشِرُوْا أَتَاکُمُ الْغَوْثُ، وَلَا یَظُنُّوْنَ إِلَّا أَنَّهٗ قَدْ کَلَّمَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَوَعَدَهٗ۔ فَبَیْنَاهُمْ کَذٰلِکَ إِذْ أَتَاهُمْ رَجُـلَانِ یَحْمِلَانِ قَصْعَۃً بَیْنَهُمَا مَمْلُوْئًا خُبْزًا وَلَحْمًا، فَأَکَلُوْا مِنْهَا مَا شَاؤُوْا، ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: لَوْ أَنَّا رَدَدْنَا هٰذَا الطَّعَامَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِیَقْضِيَ بِهٖ حَاجَتَهٗ فَقَالُوْا لِلرَّجُلَیْنِ: اذْهَبَا بِهٰذَا الطَّعَامِ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَإِنَّا قَدْ قَضَیْنَا مِنْهُ حَاجَتَنَا، ثُمَّ إِنَّهُمْ أَتَوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَمَا رَأَیْنَا طَعَامًا أَکْثَرَ وَلَا أَطْیَبَ مِنْ طَعَامٍ أَرْسَلْتَ بِهٖ، فَقَالَ: مَا أَرْسَلْتُ إِلَیْکُمْ شَیْئًا، فَأَخْبِرُوْهُ أَنَّهُمْ أَرْسَلُوْا صَاحِبَهُمْ، فَسَأَلَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَأَخْبَرَهٗ مَا صَنَعَ وَمَا قَالَ لَهُمْ۔ فَقَالَ ﷺ: ذٰلِکَ شَيئٌ رَزَقَکُمُوْهُ اللهُ سُبْحَانَهٗ.

رَوَاهُ الْحَکِیْمُ التِّرْمِذِيُّ.

أخرجہ الحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 3: 35، وذکرہ القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 9: 7، والسیوطي في الدر المنثور، 4: 401

ایک روایت میں حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اشعریین یعنی حضرت ابو موسیٰ، حضرت ابو مالک اور حضرت ابو عامر رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب ایک ساتھ ہجرت کی تو وہ ایک کشتی میں سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن کے پاس خوراک کا سامان ختم ہوگیا تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بھیجا تاکہ وہ آپ ﷺ سے کچھ لے آئے۔ جب وہ ساتھی آپ ﷺ کے دروازے پر پہنچا تو اس نے آپ ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: {وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُھَا} ’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق الله (کے ذمۂ کرم) پر ہے‘۔ تو اس آدمی نے کہا: اشعری اللہ تعالیٰ کے نزدیک چوپاؤں سے تو حقیر نہیں ہیں چنانچہ وہ (کچھ مانگے بغیر) لوٹ گیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر نہ ہوا اور جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا: تمہیں بشارت ہو تمہارے پاس غوث (مددگار) آیا ہے۔ انہوں نے تو صرف یہی گمان کیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس سے ہو کر آئے ہیں، لهٰذا آپ ﷺ نے اس کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا ہوگا۔ ابھی وہ اس کیفیت میں ہی تھے کہ اچانک ان کے پاس دو آدمی آئے۔ وہ دونوں روٹی اور گوشت سے بھرے ہوئے پیالے اٹھائے ہوئے تھے۔ سو انہوں نے جو چاہا ان میں سے کھا لیا، پھر انہوں نے آپس میں کہا: ہم یہ کھانا رسول اللہ ﷺ کو واپس لوٹا دیں تاکہ وہ بھی اس کے ذریعے اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے ان آدمیوں کو کہا یہ کھانا رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لے جاؤ کیونکہ ہم تو اپنی حاجت پوری کر چکے ہیں۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھانا لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! جو کھانا آپ نے ہمیں بھیجا ہے ہم نے اس سے زیادہ اور اس سے لذیذ تر کوئی کھانا نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے (حیرت سے) فرمایا: میں نے تو تمہاری طرف کوئی کھانا نہیں بھیجا۔ تب انہوں نے آپ ﷺ کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو آپ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے (سارا ماجرا) پوچھا تو جو ہوا تھا اس نے وہ سب کچھ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کردیا اور جو اس نے اپنے ساتھیوں کو جا کر کہا تھا وہ بھی عرض کر دیا۔ وہ سب کچھ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ وہی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارا رزق بنایا ہے۔

اِسے حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔

(87) وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، تعالیٰ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَتّٰی دَخَلَ بَعْضُ حِیْطَانِ الْأَنْصَارِ، فَجَعَلَ یَلْتَقِطُ مِنَ التَّمْرِ وَیَأْکُلُ۔ فَقَالَ لِي: یَا ابْنَ عُمَرَ، مَا لَکَ لَا تَأْکُلُ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَا أَشْتَهِیْهِ قَالَ: لٰـکِنِّي أَشْتَهِیْهِ، وَهٰذِهٖ صُبْحُ رَابِعَۃٍ لَمْ أَذُقْ طَعَامًا، وَلَمْ أَجِدْهُ، وَلَوْ شِئْتُ لَدَعَوْتُ رَبِّي، فَأَعْطَانِي مِثْلَ مُلْکِ کِسْرٰی وَقَیْصَرَ، فَکَیْفَ بِکَ یَا ابْنَ عُمَرَ، إِذَا بَقِیْتَ فِي قَوْمٍ یُخَبِّئُوْنَ رِزْقَ سَنَتِهِمْ، وَیَضْعَفُ الْیَقِیْنُ، فَوَاللهِ، مَا بَرِحْنَا وَلَا أَرَمْنَا حَتّٰی نَزَلَتْ: {وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللهُ یَرْزُقُهَا وَإِیَّاکُمْ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo [العنکبوت، 29: 60]}. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ لَمْ یَأْمُرْنِي بِکَنْزِ الدُّنْیَا وَلَا اتِّبَاعِ الشَّهَوَاتِ، فَمَنْ کَنَزَ دُنْیَا یُرِیْدُ بِهَا حَیَاۃً بَاقِیَۃً، فَإِنَّ الْحَیَاةَ بِیَدِ اللهِ، أَلَا وَإِنِّي لَا أَکْنِزُ دِیْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا رِزْقًا لِغَدٍ.

رَوَاهُ ابْنُ حُمَیْدٍ وَالأَصْبَهَانِيُّ وَأَیَّدَهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْعَسْقَلَانِيُّ.

أخرجہ عبد بن حمید في المسند: 259، الرقم: 816، وأبو الشیخ الأصبہاني في أخلاق النبي ﷺ وآدابہ، 4: 233، الرقم: 879، وابن أبي حاتم في تفسیر القرآن العظیم، 9: 3079، وذکرہ المنذري في الترغیب والترہیب، 4: 92، الرقم: 4943، والعسقلاني في المطالب العالیۃ، 13: 247، الرقم: 3158

ایک روایت میں حضرت (عبد الله) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ باہر نکلا پھر آپ ﷺ انصار کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ وہاں سے کھجوریں چن چن کر کھانے لگے اور مجھے فرمایا: اے ابن عمر! تو کھجوریں کیوں نہیں کھا رہا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے طلب نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے تو طلب ہے، اس لیے کہ یہ چوتھی صبح ہے، نہ میں نے کھانا چکھا اور نہ ہی مجھے ملا۔ اگر میں چاہتا تو اپنے رب سے دعا کرتا وہ مجھے ایسے خزانے عطا کرتا جیسے قیصر و کسریٰ کے پاس ہیں۔ اے ابن عمر! تیرا کیا خیال ہے جب تو ایسی قوم میں رہے گا جو اپنے سال بھر کا رزق ذخیرہ کریں گے اور ان کا یقین کمزور ہو جائے گا؟ انہوں نے بیان کیا: اللہ کی قسم! ہم اپنی جگہ سے ہلے بھی نہ تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی: {وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللهُ یَرْزُقُهَا وَإِیَّاکُمْ وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo} ’اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) نہیں اٹھائے پھرتے الله انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے اور خواہشات کی پیروی کرنے کا حکم نہیں دیا۔ جس نے بھی دنیا کے خزانوں کو جمع کیا اور اس سے وہ دائمی زندگی کی تمنا کرتا ہے تو یاد رکھو! زندگی (کی بقائ) صرف اللہ رب العزت کے دست قدرت میں ہے۔ خبردار! میں دینار اور درہم کا خزانہ ذخیرہ نہیں کرتا اور نہ ہی کل کے لیے رزق جمع کرتا ہوں۔

اِسے امام عبد بن حمید اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور عسقلانی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔

(88) وَفِي رِوَایَةِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ قَالَ: جِئْتُ حَتّٰی جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَأَخَذَ بِطَرَفِ عِمَامَتِي مِنْ وَرَائِي، ثُمَّ قَالَ: یَا زُبَیْرُ، إِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکَ خَاصَّۃً وَإِلَی النَّاسِ عَامَّۃً۔ أَتَدْرِي مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔ قَالَ: قَالَ رَبُّکُمْ حِیْنَ اسْتَوٰی عَلٰی عَرْشِهٖ وَنَظَرَ إِلٰی خَلْقِهٖ: عِبَادِي، أَنْتُمْ خَلْقِي وَأَنَا رَبُّکُمْ، أَرْزَاقُکُمْ بِیَدِي، فَـلَا تَتْعَبُوْا فِیْمَا تَکَفَّلْتُ لَکُمْ، وَاطْلُبُوْا مِنِّي أَرْزَاقَکُمْ، وَإِلَيَّ فَارْفَعُوْا حَوَائِجَکُمْ، انْصَبُوْا إِلَيَّ أَنْفُسَکُمْ أَصُبَّ عَلَیْکُمْ أَرْزَاقَکُمْ، أَتَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالَ اللهُ تَعَالٰی: عَبْدِي، أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَیْکَ، وَأَوْسِعْ، أُوْسِعْ عَلَیْکَ، وَلَا تُضَیِّقْ، فَأُضَیِّقَ عَلَیْکَ، وَلَا تَضُرَّ، فَأَضُرَّ عَلَیْکَ، وَلَا تَحْزَنْ، فَأَحْزَنَ عَلَیْکَ، إِنَّ بَابَ الرِّزْقِ مَفْتُوْحٌ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتِ، مُتَوَاصِلٌ إِلَی الْعَرْشِ، لَا یُغْلَقُ لَیْـلًا وَلَا نَهَارًا۔

یُنْزِلُ اللهُ تَعَالٰی مِنْهُ الرِّزْقَ عَلٰی کُلِّ امْرِیئٍ بِقَدْرِ نِیَّتِهٖ وَعَطِیَّتِهٖ وَصَدَقَتِهٖ وَنَفَقَتِهٖ۔ مَنْ أَکْثَرَ أُکْثِرَ لَهٗ، وَمَنْ أَقَلَّ أُقِلَّ لَهٗ، وَمَنْ أَمْسَکَ أُمْسِکَ عَلَیْهِ۔

یَا زُبَیْرُ، فَکُلْ وَأَعْطِ، وَلَا تُوْکِ فَیُوْکٰی عَلَیْکَ، وَلَا تُحْصِي فَیُحْصٰی عَلَیْکَ، وَلَا تَقْتِرْ فَیُقَتَّرَ عَلَیْکَ، وَلَا تُعَسِّرْ فَیُعَسَّرَ عَلَیْکَ، یَا زُبَیْرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُحِبُّ الإِنْفَاقِ وَیُبْغِضُ الإِقْتَارَ۔ وَإِنَّ السَّخَائَ مِنَ الْیَقِیْنِ، وَالْبُخْلَ مِنَ الشَّکِّ۔ فَـلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ أَیْقَنَ۔ وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ شَکَّ۔

یَا زُبَیْرُ، إِنَّ اللهَ یُحِبُّ السَّخَائَ وَلَوْ بِفَلْقِ تَمْرَۃٍ، وَالشَّجَاعَةَ وَلَوْ بِقَتْلِ عَقْرَبٍ أَوْ حَیَّۃٍ، یَا زُبَیْرُ، إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُحِبُّ الصَّبْرَ عِنْدَ زَلْزَلَةِ الزَّلْزَالِ، وَالْیَقِیْنَ النَّافِذَ عِنْدَ مَجِيئِ الشُّبُهَاتِ، وَالْعَقْلَ الْکَامِلَ عِنْدَ نُزُوْلِ الشَّهَوَاتِ، وَالْوَرَعَ الصَّادِقَ عِنْدَ الْحَرَامِ وَالْخَبِیْثَاتِ۔

یَا زُبَیْرُ، عَظِّمِ الإِخْوَانَ، وَجَلِّلِ الْأَبْرَارَ، وَوَقِّرِ الْأَخْیَارَ، وَصِلِ الْجَارَ، وَلَا تُمَاشِ الْفُجَّارَ۔ وَادْخُلِ الْجَنَّةَ بِلَا حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ۔ هٰذِهٖ وَصِیَّۃُ اللهِ إِلَيَّ، وَوَصِیَّتِي إِلَیْکَ یَا زُبَیْرُ.

رَوَاهُ الْحَکِیْمُ التِّرْمِذِيُّ وَأَیَّدَهُ السُّیُوْطِيُّ.

أخرجہ الحکیم الترمذي في نوادر الأصول، 2: 76-77، وذکرہ السیوطي في الدر المنثور، 6: 707-708، والآلوسي في روح المعاني، 22: 150

ایک روایت میں حضرت زبیر (بن عوام) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میرے عمامہ کی ایک جانب کو پکڑ لیا۔ پھر فرمایا: اے زبیر! میں تیری طرف خاص طور پر اور لوگوں کی طرف عام طور پر اللہ کا (ایک) پیغام لانے والا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تیرا رب اپنے عرش پر متمکن ہوا تو اس نے اپنی مخلوق کو دیکھا، فرمایا: میرے بندو! تم میری مخلوق ہو اور میں تمہارا رب ہوں، تمہارا رزق میرے ہاتھ میں ہے، میں نے تمہارے لیے جن چیزوں میں کفالت کا ذمہ لیا ہے (صرف) اس میں ہی نہ تھکتے رہنا۔ اپنا رزق مجھ سے طلب کرنا اور اپنی حاجات میرے حضور پیش کرتے رہنا، مزید میری بارگاہ میں قرب کے لیے خوب محنت کرنا، میں تمہارے رِزق کی تم پر فراوانی کر دوں گا۔ (آپ ﷺ نے فرمایا:) کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا رب کیا ارشاد فرماتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا، تم (لوگوں کے لیے) وسعت پیدا کرو، میں تم پر وسعت پیدا کروں گا، تم تنگی نہ دو، ورنہ میں تم پر تنگی کر دوں گا، تم نقصان نہ پہنچاؤ ورنہ میں تمہیں نقصان دوں گا، تم کسی کو غم نہ دو ورنہ میں تم پر غم لازم کر دوں گا، رزق کا دروازہ سات آسمانوں سے (اوپر کے مقام سے) کھلا ہوا ہے اور وہ عرش الٰہی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وہ نہ دن کو بند کیا جاتا ہے اور نہ رات کو۔

اللہ تعالیٰ اس دروازے سے ہر انسان پر اس کی نیت، اس کی طرف سے کیے جانے والے عطیات، صدقات و خیرات اور نفقات کے حساب سے رزق نازل فرماتا ہے۔ جو آدمی (حاجت مندوں پر اپنے عطیات، صدقات و خیرات اور نفقات یعنی ضرورت مندوں پر سخاوت میں جس قدر) اضافہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں (اسی قدر) اضافہ فرما دیتا ہے۔ جو اس میں کمی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں کمی فرما دیتا ہے۔ جو رزق کو (دوسروں پر) روک دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رزق کو روک لیتا ہے۔

اے زبیر! خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو بھی کھلاؤ۔ مشکیزے کا منہ بند نہ کرو، ورنہ تجھ پر اس کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ تو (خلقِ خدا پر خرچ کو) شمار نہ کر ورنہ تجھ پر بھی گنتی کی جائے گی۔ بخل نہ کر ورنہ تجھ سے بھی عطا روک لی جائے گی۔ مقروض پر سختی نہ کر ورنہ تجھ پر سختی کی جائے گی۔ اے زبیر! اللہ تعالیٰ مال خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے اور روک کر رکھنے کوبہت نا پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ سخاوت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین ہے۔ جبکہ بخل کا سبب شک ہے، جسے یقین کی دولت حاصل ہوتی ہے وہ دوزخ میں داخل نہیں کیا جاتا اور جو شک کرتا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوتا۔

اے زبیر! اللہ تعالیٰ سخاوت کو پسند فرماتا ہے اگرچہ وہ کھجور کے ایک ٹکڑے کی ہو، شجاعت کو پسند فرماتا ہے اگرچہ اس کا اظہار بچھو یا سانپ کو مارنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، اے زبیر! متزلزل کر دینے والے مصائب میں صبر کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور شبہات پیدا ہو جانے کی صورت میں کامل یقین اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ شہوات کے غلبے کے وقت مکمل عقلمندی سے کام لینا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ حرام اور خبیث چیزوں سے واسطہ پڑے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ کو خالص تقویٰ پسند ہے۔

اے زبیر! بھائیوں کی تعظیم کرو، نیک لوگوں کی تکریم کرو، اہل خیر کی توقیر کرو۔ پڑوسیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ فسق و فجور والوں کے ساتھ نہ چلو پھرو۔ (اگر تم ایسا کردار اور رویہ اختیار کر لو) تو پھر حساب و کتاب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مجھے تاکیدی حکم تھا اور میں تجھے اس کی وصیت کرتا ہوں۔

اِسے امام حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام سیوطی نے ان کی تائید کی ہے۔

(89) وَفِي رِوَایَةِ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِنَّ اللهَ تعالیٰ یُنْزِلُ الرِّزْقَ عَلٰی قَدْرِ الْمُؤْنَةِ، وَیُنْزِلُ الصَّبْرَ عَلٰی قَدْرِ الْبَـلَاءِ.

رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْهَیْثَمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ.

أخرجہ القضاعي في مسند الشہاب، 2: 11، الرقم: 992، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 15: 400، والہیثمي في مسند الحارث، کتاب البیوع، باب نزول الرزق علی قدر المؤنۃ، 4: 489، الرقم: 423، والعسقلاني في المطالب العالیۃ، 5: 582۔
(1) السیوطي في الدر المنثور، 4: 401

ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ (اپنے بندے پر) ضرورت و کفالت کے مطابق رزق اُتارتا ہے اور آزمائش کے مطابق صبر نازل فرماتا ہے۔

اِسے امام قضاعی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے جب کہ ہیثمی نے مذکورہ الفاظ سے بیان کیا ہے۔

عَنْ أَبِي الْخَیْرِ الْبَصْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَوْحَی اللهُ تَعَالٰی إِلٰی دَاوُدَ علیہ السلام: تَزْعُمُ أَنَّکَ تُحِبُّنِي وَتُسِيئُ بِي الظَّنَّ صَبَاحًا وَمَسَائً۔ أَمَا کَانَتْ لَکَ عِبْرَۃٌ إِنْ شَقَقْتُ سَبْعَ أَرْضِیْنَ، فَأَرَیْتُکَ ذَرَّۃً فِي فِیْهَا بُرَّۃٌ لَمْ أَنْسَهَا.

ذَکَرَهُ السُّیُوطِيُّ فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ.

ابو الخیر البصری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: (میرے بندوں کو بتا دے کہ اے میرے بندے!) تو یہ گمان کرتا ہے تجھے مجھ سے محبت ہے، حالانکہ تو صبح و شام میرے بارے میں بدگمانی بھی کرتا ہے؟ کیا تیری عبرت و نصیحتکے لیے یہ کافی نہیں کہ میں سات زمینیں پھاڑ کر بھی تجھے وہ چیونٹی دکھا دوں جس کے منہ میں رزق کا دانہ ہو (یعنی زمین کی اس قدر گہرائی میں بھی اسے رزق ملتا رہا ہے) اور میں اسے بھولا نہیں ہوں (تو تجھے کیسے بھلا دوں گا)۔

اِسے امام سیوطی نے ’الدر المنثور‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved