1. فَصْلٌ فِي التَّمَسُّکِ بِالسُّنَّةِ النَّبَوِيَةِ
(حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتِ مطہرہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا بیان)
2. فَصْلٌ فِي التَّجَنُّبِ عَنِ الْبِدْعَةِ السَّيِئَةِ
( بُری بدعت سے بچتے رہنے کا بیان)
3. فَصْلٌ فِي الْبِدْعَةِ الْحَسَنَةِ وَإِثْبَاتِ أَصْلِهَا مِنَ السُّنَّةِ
(بدعتِ حسنہ اور سنت سے اس کی اصل کے ثبوت کا بیان)
850 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَي اللهَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأحکام، باب: قول الله تعالي: أَطِيْعُوا اللهَ وَ أَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أَوْلِي الأَمْرِ مِنْکُمْ: (النساء: 59)، 6 / 2611، وفي کتاب: الجهاد، باب: يقاتل مِن وراء الإمام ويُتّقَي به، 3 / 1080، الرقم: 2797، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإمارة، باب: وجوب طاعة الأمراء معصية وتحريمها في المعصعية، 3 / 1466، الرقم: 1835، والنسائي في السنن، کتاب: البيعة، باب: الترغيب في طاعة الإمام، 7 / 154، الرقم: 4193، 5510، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: اتباع سنة رسول الله ﷺ ، 1 / 4، الرقم: 3، وفي کتاب: الجهاد، باب: طاعة الإمام، الرقم: 2859، 2859، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 46، الرقم: 1597، وابن حبان في الصحيح، 10 / 420، الرقم: 4556، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 252، الرقم: 7428.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔‘‘
851 / 2. عَنْ حُذَيْفَةَ رضى الله عنه قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِي جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ، وَنَزَلَ الْقُرْآنُ فَقَرَؤُوْا الْقُرْآنَ، وَعَلِمُوْا مِنَ السُّنَّةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم: 6848، ومسلم في الصحيح، کتاب: الإيمان، باب: رفع الأمانة والإيمان من بعض القلوب، وعرض الفتن علي القلوب، 1 / 126، الرقم: 143، والترمذي في السنن، کتاب: الفتن عن رسول الله ﷺ ، باب: ماجاء في رفع الأمانة، 4 / 474، الرقم: 2179، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 383، الرقم: 23303.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا: (وحی الٰہی کی) امانت آسمان سے لوگوں کے دلوں کی تہہ میں نازل فرمائی گئی اور قرآن کریم نازل ہوا۔ سو انہوں نے قرآن کریم پڑھا اور سنت سیکھی۔‘‘
852 / 3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: کُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَي. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ ، وَمَنْ يَأْبَي؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَي. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم: 6851، وابن حبان في الصحيح، 1 / 196، الرقم: 17، والحاکم في المستدرک، 1 / 122، الرقم: 182، 4 / 275، الرقم: 8626، وقال: صحيح الإسناد، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 361، الرقم: 8713.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس نے انکار کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔‘‘
853 / 4. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما قَالَ: جَاءَتْ مَلَائِکَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ نَائِمٌ.. . فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يقْظَانُ، فَقَالُوْا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ ﷺ ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ ، وَمَنْ عَصَي مُحَمَّدًا فَقَدْ عَصَى اللهَ ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 4: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بِسُنَنِ رسول الله ﷺ ، 6 / 2655، الرقم: 6852.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ ﷺ استراحت فرما رہے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا: یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا: (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: حقیقی گھر جنت ہی ہے اور محمد ﷺ (حق کی طرف) بلانے والے ہیں۔ جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی (درحقیقت) اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘
854 / 5. عَنْ مَالِکٍ رضى الله عنه أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: تَرَکْتُ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا: کِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِهِ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْحَاکِمُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه.
الحديث رقم 5: أخرجه مالک في الموطأ، کتاب: القدر، باب: النهي عن القول بالقدر، 2 / 899، الرقم: 1594، والحاکم في المستدرک، 1 / 172، الرقم: 319، وابن عبد البر في التمهيد، 24 / 331، الرقم: 128، والواسطي في تاريخ واسط، 1 / 50.
’’امام مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اُس کے نبی ﷺ کی سنت۔‘‘
855 / 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَدًا: کِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِهِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
الحديث رقم 6: أخرجه الحاکم في المستدرک، 1 / 171، الرقم: 318، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 114، وفي الاعتقاد، 1 / 228، والمروزي في السنة، 1 / 26، الرقم: 68، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 41، الرقم: 66، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 21، وابن حزم في الأحکام، 6 / 243، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 206، وابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 10.
’’حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب فرمایا اور فرمایا: اے لوگو! یقیناً میں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت۔‘‘
856 / 7. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضى الله عنه قَالَ: وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَ وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ ؟ قَالَ: أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَي اللهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَي اخْتِلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ ، باب: ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم: 2676، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم: 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم: 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، وابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم: 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم: 329، وقال: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 246، الرقم: 618.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے۔ ایک شخص نے کہا: یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول الله ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا)۔‘‘
857 / 8. عَنِ ابْنِ عَوْنٍ رضى الله عنه قَالَ: ثَلاَثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلِإخْوَانِي. هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ يَتَعَلَّمُوْهَا وَيَسْأَلُوْا عَنْهَا، وَالْقُرْآنُ أَنْ يَتَفَهَمُوْهُ وَيَسْأَلُوْا عَنْهُ، وَيَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
الحديث رقم 8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، 6 / 2654، والبيهقي في کتاب الزهد الکبير، 2 / 96، الرقم: 132، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 61، الرقم: 36.
’’حضرت ابن عون رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تین چیزیں میں اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہوں ایک یہ کہ وہ اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق سوال کریں۔ دوسرا قرآن کریم کہ اسے سمجھیں اور اس کے متعلق پوچھیں، تیسرا یہ کہ بھلائی کے سوا لوگوں سے کنارہ کش رہیں۔‘‘
858 / 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: الْمُتَمَسِّکُ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَهُ أَجْرُ شَهِيْدٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهِ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.
وفي رواية لأبي نعيم: عَنِ ابْنِ فَارِسٍ رضى الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِثْلَهُ وَقَالَ: لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيْدٍ.
الحديث رقم 9: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 315، الرقم: 5414، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8 / 200، والديلمي عن ابن عباس رضى الله عنهما في مسند الفردوس، 4 / 198، الرقم: 6608، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 41، الرقم: 65، وقال: رواه الطبراني بإسناد لا بأس به، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 172، وقال: رجاله ثقات، وابن عدي عن بن عباس رضى الله عنهما في الکامل، 2 / 327، الرقم: 460، وقال: وأرجو أنه لا بأس به، والذهبي في ميزان الاعتدال، 2 / 270، والعسقلاني في لسان الميزان، 2 / 246، الرقم: 1033، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 13.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری سنت کو اس وقت مضبوطی سے تھامے رکھنے والے کے لئے جبکہ میری امت فساد میں مبتلا ہوگئی شہید کے برابر ثواب ہے۔
اور امام ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’حضرت ابن فارس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی اور اس میں آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کے لئے سو شہیدوں کے برابر ثواب ہے۔‘‘
859 / 10. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: سَيَأْتِيْکُمْ عَنِّي أَحَادِيْثُ مُخَتَلِفَةٌ فَمَا جَاءَ کُمْ مُوَافِقًا لِکِتَابِ اللهِ وَسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي وَمَا جَاءَ کُمْ مُخَالِفًا لِکِتَابِ اللهِ وَسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْخَطِيْبُ.
الحديث رقم 10: أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 321، الرقم: 3456، والخطيب الغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 430، والذهبي في ميزان الاعتدال، 3 / 315، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1 / 23، وابن عدي في الکامل، 4 / 69.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس میری طرف (منسوب شدہ) مختلف احادیث پہنچیں گی، سو جو تمہارے پاس قرآن پاک اور میری سنت کے موافق پہنچے تو (جان لو کہ) وہ میری طرف سے (ہی) ہے اور جو تمہارے پاس قرآن پاک اور میری سنت سے متصادم قول پہنچے تو (جان لو کہ) وہ میری طرف سے نہیں ہے۔‘‘
860 / 11. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَالَيْسَ فِيْهِ فَهُوَ رَدٌّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الصلح، باب: إذا اصطلحوا علي جور فالصلح مردود، 2 / 959، الرقم: 2550، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأقضية، باب: نقض الأحکام الباطلة ورد محدثات الأمور، 3 / 1343، الرقم: 1718، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في لزوم السنة، 5 / 12 الرقم: 4606، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: تعظيم حديث رسول الله ﷺ والتغليظ علي من عارضه، 1 / 7 الرقم: 14.
861 / 12. وفي روايةٍ لهما: وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.
الحديث رقم 12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: البيوع، (40) باب: النجش ومن قال لايجوزذلک البيع، 2 / 753، وفي الصحيح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: إذا اجتهد العامل أو الحاکم فأخطا خلاف الرسول علم فحکمه مردود، 6 / 2675، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأقضية، باب: نقض الأحکام الباطلة ورد محدثات الأمور، 3 / 1343، الرقم: 1718، وأبو عوانة في المسند، 4 / 171، الرقم: 6408، والدارقطني في السنن، 4 / 227، الرقم: 80. 82، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 180، الرقم: 25511.
’’حضرت عائشہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہ ہو تووہ ردّ ہے۔‘‘
’’بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے: جو کوئی ایسا کام کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
862 / 13. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنهما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ. حَتَّي کَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ، يَقُوْلُ: صَبَّحَکُمْ وَمَسَّاکُمْ. وَيَقُوْلُ: بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ وَيَقْرُنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَي. وَيَقُوْلُ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ کِتَابُ اللهِ. وَخَيْرُ الْهُدَي هُدَي مُحَمَّدٍ. وَشَرُّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا. وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ثُمَّ يَقُوْلُ: أَنَا أَوْلَي بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ. مَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ وَمَنْ تَرَکَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 13: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجمعة، باب: تخفيف الصلاة والخطبة، 2 / 592، الرقم: 867، والنسائي في السنن، کتاب: صلاة العيدين، باب: کيف الخطبة، 3 / 188، الرقم: 1578، وفي السنن الکبري، 1 / 550، الرقم: 1786، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: اجتناب البدع والجدل، 1 / 17، الرقم: 45، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 310، الرقم: 14373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 186، الرقم: 10، والدارمي في السنن، 1 / 80، الرقم: 206، وابن راشد في الجامع، 11 / 159، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 160، الرقم: 9418، وفي المعجم الکبير، 3 / 100، الرقم: 8531، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 206، الرقم: 5544، وأبو يعلي في المسند، 4 / 85، 90، الرقم: 2111، 2119، وابن الجارود في المنتقي، 1 / 83، الرقم: 297، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 44، الرقم: 78، والرمهرمزي في أمثال الحديث، 1 / 22، الرقم: 8.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ ﷺ کی چشمان مقدس سرخ ہو جاتیں، آواز بلند ہوتی اور جلال زیادہ ہو جاتا اور یوں لگتا جیسے آپ کسی ایسے لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح و شام میں حملہ کرنے والا ہو۔ اور فرماتے: میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں پھر آپ ﷺ انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور حمد و ثناء کے بعد فرماتے یاد رکھو بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت، محمد مصطفیٰ کی سیرت ہے اور بدترین کام عبادت کے نئے طریقے (نکالنا) ہیں اور عبادت کا ہر نیا طریقہ گمراہی ہے پھر فرماتے: ہر مومن کی جان پر تصرف کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں۔ جس شخص نے مال چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جس نے قرض یا اہل و عیال کو چھوڑا وہ میرے ذمہ ہیں۔‘‘
863 / 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنهما قَالَ: خَطَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَى اللهِ تَعَالَي حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ: (کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِيْنَ) (الأنْبياء، 21: 104) إِلَى آخِرِ الآيَةِ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُکْسَي يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام، ألَاَ وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُوْلُ: يَا رَبِّ أُصَيْحَابِي فَيُقَالُ: إِنَّک لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ، فَأَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: (وَکُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ) (المائدة، 5: 117) فَيُقَالُ: إِنَّ هَؤُلاءِ لَمْ يَزَالُوْا مُرْتَدِّيْنَ عَلَي أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: وکنت عليهم شهيدا مادمت فيهم فلما توفيتني کنت أنت الرقيب عليهم وأنت علي کل شيء شهيد، 4 / 1691، الرقم: 4349، وفي کتاب: تفسير القرآن، باب: کما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا، 4 / 1766، الرقم: 4463، و في کتاب: الرقاق، باب: کيف الحشر، 5 / 2391، الرقم: 6161، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب: فناء الدنيا وبيان الحشر يوم القيامة، 4 / 2194، الرقم: 2860، والترمذي في السنن، کتاب: الجنائز عن رسول الله ﷺ ، باب: ذکر أول من يکسي، 4 / 117، الرقم: 2087، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 235، الرقم: 2096.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک روز خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم بروز حشر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں حاضر کئے جاؤ گے کہ برہنہ پا، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ہو گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اعادہ) ضرور کرنے والے ہیں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق میں سب سے پہلے جنہیں لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ خبردار ہو جاؤ کہ پھر میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا۔ فرشتے انہیں جہنم کی طرف ہانکیں گے۔ میں عرض کروں گا: اے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ فرمایا جائے گا: آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد یہ کیا گل کھلاتے رہے۔ پس میں بھی وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا: ’’اور میں ان (کے عقائد و اعمال) پر (اس وقت تک) خبر دار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا۔‘‘ پس کہا جائے گا جوں ہی آپ ان سے جدا ہوئے تھے یہ اسی وقت مرتد ہو گئے تھے۔‘‘
864 / 15. عَنْ حُذَيْفَةَ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا يَقْبَلُ اللهُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ صَوْمًا وَلَا صَلَاةً وَلَا صَدَقَةً وَلَا حَجًّا وَلَا عُمْرَةً وَلَا جِهَادًا وَلَا صَرْفًا وَلَا عَدْلًا يَخْرُجُ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
ورواه ابن ماجه وابن أبي عاصم في کتاب السنة من حديث ابن عباس رضى الله عنهما ولفظهما: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَبَي اللهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّي يَدَعَ بِدْعَتَهُ.
وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ حَجَبَ التَّوبَةَ عَنْ صَاحِبِ کُلِّ بِدْعَةٍ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
الحديث رقم 15: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: اجتناب البدع والجدل، 1 / 19، الرقم: 49.50، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 21.22، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 281، الرقم: 4202، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 449، الرقم: 7238، 7 / 59، الرقم: 9456، وابن راهويه في المسند، 1 / 377، الرقم: 397، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 6 / 72، الرقم: 2054. 2055، إسناده حسن، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 143، الرقم: 2732، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 45، الرقم: 87، وقال: إسناده حسن، وابن حبان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 609، والمزي في تهذيب الکمال، 26 / 374، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 9 / 381، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 189، وقال: ورجاله موثقون، والمناوي في فيض القدير، 2 / 200، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 199، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 11، الرقم: 19.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد اور کوئی فرض و نفل (عبادت) قبول نہیں فرماتا، وہ اسلام سے یوں خارج ہو جاتا ہے جیسے آٹے سے بال خارج ہو جاتا ہے۔
اور امام ابن ماجہ اور امام ابن ابی عاصم نے ’’کتاب السنہ‘‘ میں حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما کی روایت بیان کی۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ نے کسی بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ وہ بدعت چھوڑ نہ دے۔
اور ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک الله تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اس (ارتکابِ بدعت) سے باز نہیں آ جاتا۔‘‘
865 / 16. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يُکْثِرُ أَنْ يَقُوْلَ قَبْلَ أَنْ يَمُوْتَ: سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَيْکَ. قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ ، مَا هَذِهِ الْکَلِمَاتُ الَّتِي أَرَاکَ أَحْدَثْتَهَا تَقُوْلُهَا؟ قَالَ: جُعِلَتْ لِي عَلَامَةٌ فِي أُمَّتِي إِذَا رَأَيْتُهَا قُلْتُهَا (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ) (النصر، 110: 1) إلي آخِر السُّوْرَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
الحديث رقم 16: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الصلاة، باب: ما يقال في الرکوع والسجود، 1 / 351، الرقم: 484، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 42، الرقم: 29332، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 2 / 98، الرقم: 1076، والطبري في جامع البيان، 30 / 334.
’’حضرت عائشہ رضي الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ وصال سے پہلے بکثرت یہ کلمات فرماتے تھے: (سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَيْکَ)میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب آپ نے یہ نئے کلمات کیوں پڑھنے شروع کر دیئے۔ جنھیں میں آپ کو پڑہتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کی ایک علامت مقرر کر رکھی ہے جب میں امت میں اس علامت کو دیکھتا ہوں تو سورہ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ) پڑھتا ہوں (اس سورت میں جو حکم ہے اس پر عمل کرتا ہوں)۔‘‘
866 / 17. عَنْ رَافِعِ بْنِ خُدِيْجٍ رضى الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ فَأَرَادَ أَنْ يَنْهَضَ قَالَ: (سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَ بِحَمْدِکَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَيْکَ عَمِلْتُ سُوْءًا وَظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ). فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ ، هَذِهِ کَلِمَاتٌ أَحْدَثْتَهُنَّ قَالَ: أَجَلْ جَاءَ نِي جِبْرَئِيْلُ فَقَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ هُنَّ کَفَّارَةُ الْمَجَالِسِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَصَحَّحَهُ.
وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الثَلَاثَةِ بِاخْتِصَارٍ بِإِسْنَادٍ جَيِدٍ.
الحديث رقم 17: أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 113، الرقم: 1020، وفي عمل اليوم والليلة، 1 / 320، الرقم: 427، والحاکم في المستدرک، 1 / 721، الرقم: 1972، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 264، الرقم: 2339.
’’حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جب حضور نبی اکرم ﷺ کے گرد جمع ہوتے اور آپ ﷺ (مجلس ختم ہونے کے بعد) اٹھنے لگتے تو فرماتے: ’’اے اللہ! تیرے لئے ہی پاکی ہے اور تیرے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں، خواہ میں نے کوئی برا عمل کیا ہے یا اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ پس تو مجھے بخش دے یقیناً تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے یہ نئے کلمات پڑھے ہیں۔ فرمایا: ہاں! ابھی میرے پاس جبرئیل آئے تھے اور مجھ سے کہا: اے محمد مصطفیٰ! یہ الفاظ مجالس کا کفارہ ہیں۔‘‘
867 / 18. عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رضى الله عنهما جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ رضي الله عنها، وَإِذَا نَاسٌ يُصَلُّوْنَ فِي الْمَسْجِدِ صَلَاةَ الضُّحَي. قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 18: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: العمرة، باب: کم اعتمر النبي ﷺ ، 2 / 630، الرقم: 1685، ومسلم في الصحيح، کتاب: الحج، باب: بيان عدد عمر النبي ﷺ وزمانهن، 2 / 917، الرقم: 1255، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 358، الرقم: 3070، وابن حبان في الصحيح، 9 / 269، الرقم: 3945، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 128، الرقم: 6126، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 172، الرقم: 616، وابن راهويه في المسند، 3 / 614، الرقم: 1187، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 52، الرقم: 1121، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 4 / 5، وفي شرح النووي علي صحيح مسلم، 8 / 237، والزيلعي في نصب الراية، 3 / 94.
’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہما مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے اُن لوگوں کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: بدعت (حسنہ) ہے۔‘‘
868 / 19. عَن الْأَعْرَجِ رضى الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ صَلَاةِ الضُّحَي وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى حُجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ وَنِعْمَتِ الْبِدْعَةُ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.
الحديث رقم 19: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 172، الرقم: 7775، والعسقلاني في فتح الباري، 3 / 52، الرقم: 1121.
’’حضرت اعرج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے نماز چاشت کے متعلق سوال کیا جب وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے حجرہ مبارک کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو انہوں نے فرمایا: بدعت ہے اور بہت اچھی بدعت ہے۔‘‘
869 / 20. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضى الله عنه لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُوْنَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلاَتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أَرَي لَوْ جَمَعْتُ هؤُلاءِ عَلَي قَارِيءٍ وَاحِدٍ لَکَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَي أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَي وَالنَّاسُ يُصَلُّوْنَ بِصَلَاةِ قَارِءِهِمْ، قَالَ عُمَرُ: نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُوْنَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُوْمُوْنَ، يُرِيْدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَکَانَ النَّاسُ يَقُوْمُوْنَ أَوَّلَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمَالِکٌ.
الحديث رقم 20: أخرجه البخاري في صحيح، کتاب: صلاة التراويح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، الرقم: 1906، ومالک في الموطا، کتاب: الصلاة في رمضان، باب: ماجاء في قيام رمضان، 1 / 114، الرقم: 650، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 155، الرقم: 155، وعبد الرزاق في المصنف، 4 / 258، الرقم: 7723، والبيهقي في السنن الکبري، 12، 493، الرقم: 4378، وفي شعب الإيمان، 3 / 177، الرقم: 3269.
’’حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی گروہ کے ساتھ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو اچھا ہو گا پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کردیا گیا پھر میں ایک دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا اور لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے، اور جس نماز (تہجد) سے یہ سوئے رہتے ہیں اس سے بہتر ہے جس کا قیام کرتے ہیں (یعنی تراویح سے)۔ مراد ہے آخر رات جبکہ لوگ رات کے پہلے پہر قیام کرتے تھے (یعنی تہجد کی نماز تراویح سے افضل ہے)۔‘‘
870 / 21. عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ. مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيئٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
الحديث رقم 21: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 / 704، الرقم: 1017، وفي کتاب: العلم، باب: من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلي هدي أوضلالة، 4 / 2059، الرقم: 1017، والنسائي في السنن، کتاب: الزکاة، باب: التحريض علي الصدقة، 5 / 75، الرقم: 2554، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 / 74.75، الرقم: 203، 206، 207، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 358، والدارمي في السنن، 1 / 140، الرقم: 512، والبزار في المسند، 7 / 366، الرقم: 2963.
’’حضرت جَریر بن عبد الله رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اعمال کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے اور جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتدا کی تو اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اس پر ان کا گناہ بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘
871 / 22. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى هُدًي، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 22: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: العلم، باب: من سن سنة حسنة أو سيئة، ومن دعا إلي هدي أو ضلالة، 4 / 2060، الرقم: 2674، والترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ ، باب: ما جاء فيمن دعا إلي هدي فاتبع أو إلي ضلالة، 5 / 43، الرقم: 2674، وأبوداود في السنن کتاب: السنة، باب: لزوم السنة، 4 / 201، الرقم: 4609، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 / 75، الرقم: 205 - 606، وابن حبان في الصحيح، باب: ذکر الحکم فيمن دعا إلي هدي أو ضلالة فاتبع عليه، 1 / 318، الرقم: 112، والدرمي في السنن، 1 / 141، الرقم: 513، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 397، الرقم: 9149، وأبو عوانة في المسند، 3 / 494، الرقم: 5823، وأبويعلي في المسند، 11 / 373، الرقم: 6489، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 52، الرقم: 6، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 52، الرقم: 113.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
872 / 23. عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، فَلَهُ أَجْرُهُ، وَمِثْلُ أُجُوْرِ مَنِ اتَّبًعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 23: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ ، باب: ما جاء فيمن دعا إلي هدي فاتبع أو إلي ضلالة، 5 / 43، الرقم: 2675، والعسقلاني في فتح الباري، 13 / 302، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 7 / 365، وابن حزم في المحلي، 8 / 116، وفي الإحکام في أصول الأحکام، 1 / 11.
’’حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا جبکہ ان کے ثواب میں کوئی کمی (بھی) نہ ہو گی اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا۔ پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کے گناہ کے برابر بھی جو اس پر عمل پیرا ہوئے۔ بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔‘‘
873 / 24. عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيْتَتْ بَعْدِي، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا تُرْضِي اللهَ وَرَسُوْلَهُ، کَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ ذَلِکَ مَنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
الحديث رقم 24: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: العلم عن رسول الله ﷺ ، باب: ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 45، الرقم: 2677، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: مَن أحيا سنّة قد أميتت، 1 / 76، الرقم: 209 - 210، والبزار في المسند، 8 / 314، الرقم: 3385، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 16، الرقم: 10، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 231، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 49، الرقم: 97.
’’حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی تو اس کے لئے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا اس پر دیگر عمل کرنے والوں کے لئے۔ باوجود اس کے ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ عزوجل اور اس کا رسول ﷺ پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا دیگر ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔‘‘
874 / 25. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضى الله عنه قَالَ: فَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ وَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ قَبِيْحٌ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 25: أخرجه البزار في المسند، 5 / 212، الرقم: 1816، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 112، الرقم: 8583، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 379، الرقم: 3600، والحاکم في المستدرک، 3 / 83، الرقم: 4465، وأبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 375، والبيهقي في المدخل إلي السنن الکبري، 1 / 114، وفي الاعتقاد، 1 / 322، والطيالسي في المسند، 1 / 33، الرقم: 246، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 254.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جس (عمل) کو کوئی (ایک) مومن اچھا جانے وہ (عمل) اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس عمل کو (جماعت) مومنین برا جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved