اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
أبغض الحلال عند الله الطلاق.
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في کراهية الطلاق، 2 :
255، رقم : 2178
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الطلاق، باب حدثنا سويد بن سعيد، 1 : 659، رقم : 2018
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا :
ولا خلق الله شياء علٰي وجه الارض ابغض اليه من الطلاق.
’’اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر کوئی چیز طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ پیدا نہیں فرمائی۔‘‘
دارقطنی، السنن، 4 : 35
اگر طلاق کے اختیار کے استعمال کے علاوہ کوئی صورت نہ ہو تو اندریں حالات اس اختیار کے استعمال سے عورت کو کسی طرح سے بھی مبتلائے اذیت کرنے کی ممانعت کی گئی۔ ارشادِ ربانی ہے :
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
’’طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیںo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 229
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO
’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 241
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًاO
’’اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے مقرر کرلو، اگر وہ دونوں صلح کا ارادہ رکھیں تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 35
اگرچہ طلاق کا حق مرد کو دیا گیا مگر اس ذیل میں بھی عورت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے درج ذیل حقوق عطا کئے گئے :
شریعت میں سب سے اہم حق جو طلاق کے وقت عورت کو دیا گیا ہے وہ مہر ہے، البتہ مباشرت سے قبل طلاق ہونے کی صورت میں آدھا مہر ملتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ.
’’اگر تم انہیں چھونے سے قبل طلاق دو اور اُن کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو مقرر کئے ہوئے مہر کا آدھا اُنہیں دو‘‘۔
القرآن، البقره، 2 : 237
اسی طرح عورت کو خرچ و سامان دینا ہے، شریعت اسلامیہ نے عورت کے لئے جب اسے طلاق دی جائے خرچ و سامان دینے کا حکم دیا ہے۔ امام احمد کا مسلک ہے کہ ہر قسم کی مطلقہ کے لئے یہ حق ہے اور یہ ہر ایک کے لئے واجب ہے یہی قول حضرت علی رضی اللہ عنہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابوقلابہ زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے، اُن کی دلیل یہ آیت ہے :
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO
’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 241
دوسرے مقام پرارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًاO
’’اے نبیء (مکرَّم!) اپنی ازواج سے فرما دیں کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوںo‘‘
القرآن، الأحزاب، 33 : 28
اسلام نے عورت کویہ حق دیا ہے کہ طلاق کے بعد وہ جب تک عدت میں ہے، اگر اس کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کے ترکہ سے میراث ملے گی، جس طرح غیر مطلقہ بیوی کو ملتی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس نے شادی نہ کی ہو، عدت کے بعد بھی میراث میں حصہ ملے گا۔ یہی قول کئی صحابہ سے بھی مروی ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ چاہے اس کا طلاق دیتے وقت شوہر بیمار ہو یا نہ ہو، وہ اس لئے کہ شوہر کو ابھی اسے روکنے کا اور رجوع کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے اور وہ بھی اس کی مرضی سے، ولی اور گواہوں کی موجودگی کے بغیر اور بلا کسی نئے مہر کے۔
بچے کی تربیت اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے اس کی نگرانی حضانت کہلاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کی حضانت کا حق اس کی ماں کو عطا کیا۔ ماں کے بعد بچے کی حضانت کا حق اس کی ماں کی ماں کو اور پھر باپ پھر باپ کی ماں کو حاصل ہے۔ بچے کی حضانت کی سب سے زیادہ حقدار اُس کی ماں ہے، درج ذیل حدیث سے ثابت ہے :
عن عبد الله بن عمرو ان امراة قالت يا رسول الله ان ابني هذا کان بطني له وعاء وثديي له سقاء و حجري له حواء و ان اباه طلقني و اراد ان ينتزعه مني. فقال رسول الله ﷺ : انت احق به ما لم تنکحي.
’’عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ یہ میرا بچہ ہے میرا پیٹ اس کا برتن تھا، میرے پستان اس کے مشکیزے اور میری گود اس کی آرام گاہ، اس کے باپ نے مجھے طلاق دیدی ہے اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی زیادہ مستحق تو ہے، جب تک تو نکاح نہ کرلے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالولد، 2 : 283،
رقم : 2276
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182
3. حاکم، المستدرک، 2 : 225، رقم : 2830
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4
اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطا کرتے ہوئے وراثت کا حق بھی عطا کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاO
’’ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ لڑکیوں کا بھی حصہ ہے اور یہ حصے خدا کی طرف سے مقررہ ہیںo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 7
یعنی اُصولی طور پر لڑکا اور لڑکی دونوں وراثت میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے کے حقدار ہیں اور کوئی شخص انہیں ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔
قرآن حکیم نے اولاد کے حق وراثت کا تعین کرتے ہوئے بھی خواتین کا حق وراثت بالتفصیل بیان کیا ہے :
يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ.
’’تمہاری اولاد سے متعلق اللہ کا یہ تاکیدی حکم ہے کہ ترکے میں لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ اگر اکیلی لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (میت کے) ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ اپنے پیچھے اولاد بھی چھوڑے، اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہی ہوں تو ماں کے لئے ایک تہائی (ماں باپ کے ساتھ) بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہوگا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 11
اس آیہ مبارکہ میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ تقسیم کی اکائی لڑکی کا حصہ قرار دیا گیا ہے، یعنی سب کے حصے لڑکی کے حصے سے گنے جائیں گے۔ گویا تمام تقسیم اس محور کے گرد گھومے گی۔ جاہلیت میں لڑکیوں کو ترکے میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ اکثر دوسرے مذاہب میں اب بھی ہے لیکن اسلام کی نظر میں لڑکی کو ترکے کا حصہ دینا کتنا ضروری ہے، وہ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے تو تقسیم وراثت کی عمارت کی بنیاد ہی لڑکی کے حصے پر رکھی پھر یوصیکم اللہ کہہ کر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت تاکیدی حکم ہے۔
اس آیت مبارکہ سے تقسیم کے یہ اصول معلوم ہوئے :
(1) اگر اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو ایک لڑکے کو ایک لڑکی سے دگنا ملے گا اور اسی اصول پر سب ترکہ لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، صرف لڑکوں کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ وہ سب برابر کے حصے دار ہوں گے۔
(2) اگر اولاد میں لڑکا کوئی نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں۔ تو ان کو بھی دو تہائی ہی ملے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ان معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ ایک صحابی سعد بن ربیع غزوہ احد میں شہید ہوگئے۔ انہوں نے اولاد میں صرف دو لڑکیاں چھوڑ دیں۔ سعد کے بھائی نے سارے ترکے پر قبضہ کر لیا اور لڑکیوں کو کچھ نہ دیا۔ اس پر سعد کی بیوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ سعد کی دو لڑکیاں موجود ہیں، لیکن ان کے چچا نے انہیں ان کے باپ کے ترکے میں سے ایک جبہ بھی نہیں دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد کے بھائی کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ مرحوم کی دونوں بیٹیوں کو اس کے ترکے میں سے دو تہائی اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور بقیہ خود رکھ لو۔
1. ترمذي، السنن، کتاب الفرائض، باب ما جاء في الميراث البنات،
4 : 414، رقم : 2092
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الفرائض، باب ماجاء في الميراث، 3 : 120، رقم : 2891
(3) اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تواسے ترکے کا نصف ملے گا اور باقی نصف دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہوگا۔
(4) اگر اولاد کے ساتھ میت کے ماں باپ بھی زندہ ہوں تو پہلے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مندرجہ بالا شرح سے اولاد کو ملے گا۔
(5) اگر متوفی کے اولاد کوئی نہ ہو، صرف ماں باپ ہوں، تو اس صورت میں ترکے کا تہائی ماں کو اور باقی باپ کو ملے گا۔
(6) آخری صورت یہ بیان کی کہ اگر متوفی کے ورثا میں ماں باپ کے ساتھ بھائی بہن بھی ہوں، تو ماں کا حصہ چھٹا ہوگا۔
ممکن تھا کہ کوئی شخص ماں باپ کو اولاد کا وارث قرار دینے پر اعتراض کرتا، کیونکہ اس سے پہلے دنیا کے تمام مذاہب میں صرف اولاد ہی وارث قرار دی گئی تھی۔ اس لئے فرمایا :
آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللهِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاO
’’تمہارے باپ دادا (بھی ہیں) اور اولاد بھی، لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے نفع رسانی کے لحاظ سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے۔ (یہ حصے) اللہ نے مقرر کئے ہیں۔ بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 11
یعنی یہ اعتراض کہ باپ دادا کیوں وارث بنائے گئے نادانی کی بات ہے۔ اس حکم کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ انسان کے لئے اوپر کے رشتے دار زیادہ اچھے ہیں یا نیچے کے۔ ہماری فلاح اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے۔
قرآن حکیم نے شوہر یا بیوی میں سے کسی کے بھی انتقال کی صورت میں اس کے مال وراثت میں سے دوسرے فریق کا حصہ بالتفصیل بیان کیا ہے۔ بیوی کے انتقال کی صورت میں خاوند کا حصہ بیان کرتے ہوئے کہا :
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
’’تمہاری بیویوں کے ترکے میں سے تمہارے لئے نصف ہے، اگر ان کے کوئی اولاد نہ ہو، اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اُنہوں نے جو ترکہ چھوڑا ہے اس کا ایک چوتھائی ہے (یہ تقسیم) ان کی وصیت (کی تعمیل) اور ان کے قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہو گی۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 12
اور شوہر کی وفات کی صورت میں بتایا :
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
’’ اور تمہارے ترکے میں سے تمہاری بیویوں کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اگر تمہارے کوئی اولاد نہیں۔ اگر تمہاری اولاد بھی ہو، تو تمہارے ترکے میں سے ان کا حصہ آٹھواں ہے۔ (یہ تقسیم) تمہاری وصیت کی تعمیل اور تمہارے قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہو گی۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 12
کلالہ اس میت کو کہتے ہیں جس کے والدین ہوں نہ اولاد۔ ایسی عورت یا مرد فوت ہو جائے اور اس کے پیچھے نہ اس کا باپ ہو، نہ بیٹا، تو اس کی جائیداد کی تقسیم کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :
ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں :
(1) اگر پہلی صورت یعنی سگے بھائی بہن موجود ہیں تو حکم دیا :
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ.
’’لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہو گا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 176
ظاہرہے کہ اگر بہنیں دو سے زیادہ ہوں تو وہ سب اس دوتہائی میں برابر کی شریک ہوں گی۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ علاتی بھائی بہن ہوں، یعنی باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں تو اس صورت میں حکم دیا :
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
’’اور اگر بہت سے بھائی بہن ہوں تو پھر (تقسیم یوں ہو گی کہ) ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 176
یعنی جیسے اولاد کے درمیان ترکے کی تقسیم کا اُصول ہے۔ ۔ ۔ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر۔ ۔ ۔ وہی یہاں بھی استعمال ہو گا۔
(3) تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اخیافی بھائی بہن ہوں یعنی عورت نے ایک خاوند کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور دونوں سے اولاد ہو۔ اگر ان میں سے کوئی مرجائے اور کلالہ ہو :
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.
’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 12
یعنی کلالہ کی وراثت کی تقسیم کے احکام میں بھی عورت کو حق وراثت کا مستحق قرار دیا گیا اور اس کے واضح احکام بیان کئے گئے جن کا خلاصہ ہم درج ذیل پانچ اُصولوں میں بیان کر سکتے ہیں :
(1) جہاں صرف اولاد ہو، اورکوئی دوسرا وارث نہ ہو، اور اولاد میں بھی تمام لڑکے ہوں، تو ترکہ ان لڑکوں میں بحصہ مساوی تقسیم ہو گا۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا، اور اسی اُصول پر تمام ترکہ تقسیم ہو گا اگر لڑکا کوئی نہ ہو، صرف ایک لڑکی ہو، تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور اگر دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں، تواُنہیں دو تہائی ملے گا۔
(2) جہاں اولاد ہو یا نہ ہو، لیکن ماں باپ موجود ہوں۔ اگر اولاد ہو تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ اور باقی اولاد میں نمبر (1) کے اُصول پر تقسیم ہو گا۔ اگر اولاد نہ ہو تو ماں کو ایک تہائی اور باقی دو تہائی باپ کو۔
(3) اولاد نہ ہو، لیکن بھائی بہن ہوں، تو ماں کو ایک تہائی کی جگہ چھٹا حصہ ملے گا۔ یہاں پھر اختلاف ہے کہ ان بھائی بہنوں کو کتنا ملے گا۔ بعض کے نزدیک ماں کو ایک چھٹا حصہ ملے گا، دوسرا چھٹا ان بھائی بہنوں میں تقسیم ہو گا، اور باپ کو حسب سابق بقیہ دو تہائی۔ بعض کے نزدیک یہاں بھی کلالہ کا اُصول جاری ہو گا، یعنی اگر ایک بھائی یا ایک بہن ہے، تو اسے چھٹا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، اور باپ کو دو تہائی۔ اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو ان سب کو ایک تہائی، ماں کو چھٹا حصہ اور باقی نصف باپ کو۔
(4) زوجین کی صورت میں، اگر بیوی اولاد چھوڑ کر مرے تو خاوند کو ترکے کا چوتھائی اور باقی تین چوتھائی اولاد میں نمبر (1) کے اُصول پر تقسیم ہو گا۔ اگر اولاد نہ ہو، تو خاوند کو نصف اور بقیہ دوسرے رشتے داروں کو اُوپر کے قواعد کی رو سے۔ اگر خاوند اولاد چھوڑ کر مرے تو بیوی کا آٹھواں حصہ ہے۔ اگر اولاد نہ ہو، تو چوتھا اور بقیہ ترکہ دوسرے رشتہ داروں میں تقسیم ہو گا۔
(5) کلالہ جہاں اعیانی یا علاتی یا اخیافی بھائی بہن ہوں جیسے کہ اُوپر بیان ہوا۔ تقسیم میں یہ ترتیب مدنظر رکھی جائے گی۔ سب سے پہلے خاوند یا بیوی کو حصہ ملے گا، پھر والدین کو اور پھر اولاد کو۔ اگر اولاد نہ ہو یا اولاد یا والدین دونوں میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو، تو سب سے آخر میں بھائی بہن حق دار ہوں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved