اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔
یہاں ہم اسلام کے قائم کردہ معاشرے میں عورت کی تکریم و منزلت کا جائزہ پیش کرتے ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا.
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 1
2۔ عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت ہٹا دی گئی اور اس پر سے ذلت کا داغ دور کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں کو شیطان نے وسوسہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جنت سے اخراج کے مستحق ہوئے تھے جبکہ عیسائی روایات کے مطابق شیطان نے حضرت حواء علیہا السلام کو بہکا دیا اور یوں حضرت حواء علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کے بھی جنت سے اخراج کا سبب بنیں۔ قرآن حکیم اس باطل نظریہ کا رد کرتے ہوئے فرماتا ہے :
فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ.
’’پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 36
3۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے :
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.
’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘
القرآن، آل عمران، 3 : 195
4۔ عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی۔ یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔
5۔ اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔
6۔ عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم نکاح جو درحقیقت زنا تھے، اسلام نے ان سب کو باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔
اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے :
معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں :
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO
’’(اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النور، 24 : 30
’’فرج‘‘ کے لغوی معنی میں تمام ایسے اعضاء شامل ہیں، جو گناہ کی ترغیب میں معاون ہو سکتے ہیں، مثلاً آنکھ، کان، منہ، پاؤں اور اس لیے اس حکم کی روح یہ قرار پاتی ہے کہ نہ بری نظر سے کسی کو دیکھو، نہ فحش کلام سنو اور نہ خود کہو، اور نہ پاؤں سے چل کر کسی ایسے مقام پر جاؤ، جہاں گناہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا.
’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘
القرآن، النور، 24 : 31
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
’’اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo‘‘
القرآن، النور، 24 : 58
اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔
ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔
هندي، کنز العمال، 5 : 411
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یوں مذکور ہے :
استفاف رجل ناسا من هذيل فأرسلوا جارية لهم تحطب فأعجبت الضعيف فتبعها فأرادها علي نفسهانا متنعت فعارکها ساعة فانفلتت منه انفلاتة فرمته بحجر ففضت کبده فمات ثم جاء ت إلي أهلها فأخبرتهم فذهب أهلها إلي عمرا فأخبروه فأرسل عمر فوجد أثارهما فقال عمر قتيل الله لا يوري أبدا.
’’ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 9 : 435
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 166، رقم : 154
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 431، رقم : 27793
4. خلال، السنة، 1 : 166، رقم : 154
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 337
6. ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 257
7. ابن حزم، المحلي، 8 : 25
8. ابن قدامه، المغني، 9 : 152
9. عسقلاني، تلخيص الحبير4 : 86، رقم : 1817
10. انصاري، خلاصة البدر المنير، 2 : 332، رقم : 2488
معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo‘‘
القرآن، النور، 24 : 27، 28
خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ہاں جاتے تو باہر سے السلام علیکم فرماتے، تاکہ صاحبِ خانہ کو معلوم ہو جائے اور وہ آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دے۔ اگر پہلی بار کوئی جواب نہ ملتا تو دوسری مرتبہ السلام علیکم کہتے۔ اگر اب بھی کوئی جواب نہ ملتا تو تیسری مرتبہ پھر یہی کرتے اور اس کے بعد بھی جواب نہ ملنے پر واپس تشریف لے جاتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حسبِ معمول السلام علیکم کہا۔ سعد نے جواب میں آہستہ سے وعلیکم السلام کہا جو آپ سن نہ سکے۔ اسی طرح تینوں بار ہوا۔ آخر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خیال کرکے واپس جانے لگے کہ غالباً گھر میں کوئی نہیں تو حضرت سعد دوڑ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے گئے اور عرض کیا :
يا رسول الله! إني کنت أسمع تسليمک و أرد عليک ردا خفيا لتکثر علينا من السلام.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جواب تو دیا تھا لیکن آہستہ سے، میں یہ چاہتا تھا کہ آپ زیادہ سے زیادہ بار ہمارے لئے دُعا کریں (کیونکہ السلام علیکم بھی سلامتی کی دُعا ہے)۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الأدب، باب کم مره يسلم، 4 : 347،
رقم : 5185
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 421
3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 253، رقم : 902
4. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 439، رقم : 8808
5. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 280
انہی معنوں میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :
إذا استاذن احدکم ثلاثا فلم يوذن له فليرجع.
’’جب تم میں سے کوئی شخص (کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے) تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا آئے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاسئذان، باب التسليم، 5 : 2305، رقم
: 5891
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب الإستئذان، 3 : 1694، رقم : 2153
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 398
4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 122، رقم : 5806
5. طيالسي، المسند، 1 : 70، رقم : 518
6. حميدي، المسند، 2 : 321، رقم : 734
7. ابويعليٰ، المسند، 2 : 269، رقم : 981
8. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 168، رقم : 1687
9. بيهقي، السنن، 8 : 339، رقم : 39
10. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 449، رقم : 2502
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سلام کے جواب میں صاحبِ خانہ مکان کے اندر سے نام وغیرہ پوچھے تو فوراً اپنا نام بتانا چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اندر سے پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناگواری سے فرمایا : ’’میں ہوں، میں ہوں‘‘ اور باہر تشریف لے آئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محض ’’میں ہوں‘‘ جواب دینے کو ناپسند فرمایا۔
بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب إزا قال من ذا، 5 : 2306، رقم : 5896
اس میں تعلیم یہ ہے کہ پوچھنے پر اپنا نام بتانا چاہیے، محض ’’میں ہوں‘‘ کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون ہے؟ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملتا تو متجسس لوگ ادھر ادھر جھانکنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنے سے منع فرمایا، کیونکہ اس سے اجازت طلب کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح جھانکے اور صاحب خانہ اسے سزا دینے کے لئے اسے کنکری یا پتھر مار دے جس سے جھانکنے والے کی آنکھ پھوٹ جائے یا اسے کوئی زخم پہنچ جائے تو صاحب مکان بری الذمہ ہے اور جھانکنے والے کو قصاص نہیں دیا جائے گا۔
بخاري، الصحيح، کتاب الإستئذان، باب من أجل البصر، 5 : 2304، رقم : 5888
کسی کے گھر میں اجازت لے کر داخل ہونے کے اس عام حکم کے بعد فرمایا کہ تم کسی کے گھر سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو تمہارا فرض ہے کہ پردے کے پیچھے سے سوال کرو تاکہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کرنا پڑے جو دونوں کے لئے اخلاقی لحاظ سے اچھا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ.
’’اور جب تم عورتوں سے کوئی چیز طلب کرو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگ لو۔ یہ تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔‘‘
القرآن، الاحزاب، 33 : 53
عورتوں کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام آئے۔ قرآن حکیم میں خواتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی آرائش و زیبائش کو افشا نہ کرنے کی تعلیم دے کر اس پاکیزگیء معاشرت کی بنیاد رکھی گئی جو خواتین کے حق رازداری و عصمت و عفت کی حفاظت کو یقینی بناسکتی ہے :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمتگار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کمسنی کے باعث ابھی) عورتوں کے پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنیٰ ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) انکا وہ سنگھار معلوم ہوجائے جسے وہ (حکم شریعت سے) پوشیدہ کیے ہوئے ہیں اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہوکر) فلاح پا جاؤo‘‘
القرآن، النور، 24 : 31
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ.
’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔‘‘
القرآن، الأحزاب، 33 : 59
اسلام کی تعلیمات کا آغاز اِقْرَاْ سے کیا گیا اور تعلیم کو شرفِ انسانیت اور شناختِ پروردگار کی اساس قرار دیا گیا :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں جونک کی طرح) معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھئیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo‘‘
القرآن، العلق، 96 : 1 - 5
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران.
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم، 3 : 1096،
رقم : 2849
2. ابو عوانه، المسند، 1 : 103، رقم : 68
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 118، رقم : 12635
4. روياني، المسند، 1 : 307، رقم : 458
یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام اگر باندیوں تک کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو کارِ ثواب قرار دیتا ہے تو وہ آزاد لڑکوں اور لڑکیوں کے تعلیم سے محروم رکھے جانے کو کیونکر گوارا کر سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے :
طلب العلم فريضة علي کل مسلم.
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر حصولِ علم میں ہر طرح کے امتیاز اور تنگ نظری کو مٹانے کی خاطر نہایت لطیف پیرائے میں فرمایا :
1. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فضل العلماء، 1 : 81، رقم
: 224
2. ابويعليٰ، المسند، 5 : 223، رقم : 2837
3. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 195، رقم : 10439
4. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 8، رقم : 9
5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 36، رقم : 22
6. ابويعليٰ، المعجم، 1 : 257، رقم : 320
7. شعب الايمان، 2 : 203، رقم : 1663
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 1 : 119
9. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 52، رقم : 109
10. کناني، مصباح الزجاجة، 1 : 30، رقم : 81
الکلمة الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو احق بها.
’’علم اور عقل کی بات مؤمن کا گمشدہ مال ہے، پس جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرنے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب العلم، ماجاء في فضل الفقه، 5 : 51،
رقم : 2687
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 240، رقم : 35681
4. روياني، المسند، 1 : 75، رقم : 33
5. بيهقي، سنن الکبريٰ، 6 : 190، رقم : 11851
6. شيباني، الاحاد والمثاني، 3 : 264، رقم : 1639
7. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 152، رقم : 2770
8. ابونعيم اصبهاني، حلية الاولياء، 3 : 354
9. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 307، رقم : 4169
10. مناوي، فيض القدير، 2 : 545
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی :
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله ﷺ قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب المدارة مع النساء، 5 :
1987، رقم : 4889
2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468
3. ترمذي، السنن، کتاب الطلاق، باب ماجاء في مدارة النساء، 3 : 493، رقم : 1188
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 428، رقم : 9521
5. ابن حبان، الصحيح، 9 : 487، رقم : 4180
6. دارمي، السنن، 2 : 199، رقم : 2222
7. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197
8. ابوعوانة، المسند، 3 : 142، رقم : 4495
9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 178، رقم : 565
10. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 303، رقم : 304
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي ﷺ قال : من کان يؤمن بالله واليوم الاخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فانهن خلقن من ضلع و ان اعوج شئ في الضلع اعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء خيرا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور سب سے اوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی پس عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، 5 : 1987،
رقم : 4890
2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1091، رقم : 1468
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 197
4. ابن راهويه، المسند، 1 : 250، رقم : 214
5. ابويعليٰ، المسند، 11 : 85، رقم : 6218
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14499
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.
’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 32
عورت کا حق ملکیت طلاق کی صورت میں بھی قائم رہتا ہے۔ طلاق رجعی کے بارے میں ابنِ قدامہ نے لکھا ہے کہ اگر شوہر نے ایسی بیماری جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو، کے دوران میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر دورانِ عدت اسی بیماری سے مرگیا تو بیوی اس کی وارث ہوگی اور اگر بیوی مرگئی تو شوہر اُس کا وارث نہیں ہوگا۔ یہی رائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
ابن قدامه، المغني، 6 : 329
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
اذا طلقها مريضا ورثته ما کانت في العدة ولا يرثها.
’’اگر شوہر نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دی تو بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہو گا۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 64، رقم : 12201
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 4 : 171
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 363، رقم : 14908
4. مالک بن انس، المدونة الکبريٰ، 6 : 38
5. ابن حزم، المحلي، 10 : 219
طلاق مغلظہ کے بارے میں قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ عروۃ البارقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوکر میرے پاس آئے اور اس شخص کے بارے میں بیان کیا جو اپنی بیوی کو حالت مرض میں تین طلاقیں دے دے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیوی دوران عدت اس کی وارث ہوگی لیکن شوہر اس کا وارث نہیں ہوگا۔
1. ابن حزم، المحلي، 10 : 219، 228
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 97
اسلام سے قبل مشرکینِ عرب بلا امتیاز ہر عورت سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ باپ مر جاتا تو بیٹا ماں سے شادی کر لیتا۔ جصاص نے ’احکام القرآن (2 :۔ 148)‘ میں سوتیلی ماں سے نکاح کے متعلق لکھا ہے :
و قد کان نکاح إمراة الأب مستفيضا شائعا في الجاهلية.
’’اور باپ کی بیوہ سے شادی کر لینا جاہلیت میں عام معمول تھا۔‘‘
اسلام نے عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح حرام قرار دیا اور اس کی پوری فہرست گنوا دی۔ ارشادِ ربانی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ.
’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب حرام کردی گئی ہیں۔ اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ) تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 23
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے :
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : جاء رجلي الي رسول الله ﷺ فقال : يا رسول الله! من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال : ’’امک، ‘‘ قال : ثم من؟ قال : ’’ثم امک، ‘‘ قال : ثم من؟ قال : ’’ثم امک‘‘، قال ثم من؟ قال : ’’ثم ابوک‘‘.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب من أحق الناس، 5 : 2227،
رقم : 5626
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب بر الوالد ين4 : 1974، رقم : 2548
3. ابن راهوية، المسند، 1 : 216، رقم : 172
4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 220، رقم : 3766
5. الحسيني، البيان و التعريف، 1 : 171، رقم : 447
6. کناني، مصباح الزجاجة، 4 : 98، رقم : 1278
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا، ارشادِ ربانی ہے :
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ.
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 11
قرآن حکیم نے بیٹی کی پیدائش پر غم و غصے کو جاہلیت کی رسم اور انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت کی :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌO يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَO
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہےo وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (بزعم خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کردے) خبردار کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 58، 59
اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت کرکے دورِ جاہلیت کی اس رسم بد کا قلع قمع کیا جو اسلام کی آمد سے قبل اس معاشرے میں جاری تھی :
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًاO
’’اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو ہم ہی انہیں (بھی) رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo‘‘
القرآن، بني اسرائيل، 17 : 31
قرآن حکیم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے، وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ بطور بہن عورت کا وراثت کا حق بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :
وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.
’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہوگی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد۔‘‘
القرآن، النسآء، 4 : 12
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
’’لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اسکا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور اگر (بصورت کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے برابر ہوگا۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 176
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل و بقاء کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی نعمت قرار دیا :
وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَO
’’اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (بیویوں) سے تمہارے لیے بیٹے، پوتے اور نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 72
دوسرے مقام پر بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے حسن سلوک کو یوں بیان کیا گیا :
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَآئِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُواْ مَا كَتَبَ اللّهُ لَكُمْ وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَO
’’تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرمادیا، پس (اب روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے چاہا کرو، اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہوکر) نمایاں ہوجائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران میں شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اللہ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان کے توڑنے کے نزدیک نہ جاؤ، اِسی طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان کرتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریںo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 187
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌO
’’اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹانے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کرلیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 228
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
’’اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 12
یہ قرآنِ حکیم ہی کی تعلیمات کا عملی ابلاغ تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی :
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : جاء رجل الي النبي ﷺ فقال : يا رسول الله! اني کتبت في غزوة کذا و کذا و امراتي حاجة، قال : ارجع فحج مع امراتک.
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3
: 1114، رقم : 2896
2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب من اکتتب في جيش، 3 : 1094، رقم : 2844
3. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب سفر المرأه مع محرم، 2 : 978، رقم : 1341
4. ابن حبان، الصحيح، 9 : 42، رقم : 3757
5. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 137، رقم : 2529
6. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 424، 425، رقم : 12201، 12205
اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے :
عن زيد هو ابن اسلم عن ابيه قال : کنت مع عبدالله بن عمر رضي الله عنهما بطريق مکة فبلغه عن صفية بنت ابي عبيد شدة وجع، فاسرع السير حتي اذا کان بعد غروب الشفق ثم نزل فصلي المغرب والعتمة يجمع بينهما و قال : إني رايت النبي ﷺ اذا جد به السير اخر المغرب و جمع بينهما.
’’زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ کے سفر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا انہیں اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت ابوعبید کے بارے میں خبر پہنچی کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انہوں نے رفتار تیز کر دی اور مغرب کے بعد جب شفق غائب ہو گئی تو سواری سے اترے اور مغرب کی نماز ادا کر کے نماز عشاء بھی اس کے ساتھ ملا کر پڑھ لی اور فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر طے کرنے میں جلدی ہوتی تو مغرب میں دیر کر کے مغرب و عشاء کو جمع فرما لیتے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب السافر إذا جد به، 2 : 639،
رقم : 1711
2. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد، باب السرعة في السير، 3 : 1093، رقم : 2838
3. عسقلاني، فتح الباري، 2 : 573، رقم : 1041
4. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 3 : 102
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات کی روشنی میں عورت کے درج ذیل نمایاں حقوق سامنے آتے ہیں :
اسلام سے قبل عورتوں کو مردوں کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا اور انہیں نکاح کا حق حاصل نہ تھا۔ اسلام نے عورت کو نکاح کا حق دیا کہ جو یتیم ہو، باندی ہو یا مطلقہ، شریعت کے مقرر کردہ اُصول و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اُنہیں نکاح کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا :
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 232
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌO
’’اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 234
وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًاO
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 4
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِن فَضْلِهِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’’اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کانکاح کردیا کرو جو بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا (نکاح کردیا کرو) اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردیگا اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہےo‘‘
القرآن، النور، 24 : 32
اگرچہ کئی معاشرتی اور سماجی حکمتوں کے پیش نظر اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کا حق دیا، مگر اسے بیویوں کے مابین عدل و انصاف سے مشروط ٹھہرایا اور اس صورت میں جب مرد ایک سے زائد بیویوں میں عدل قائم نہ رکھ سکیں، اُنہیں ایک ہی نکاح کرنے کی تلقین کی :
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْO
’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرط عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کرسکوگے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 3
وَلَن تَسْتَطِيعُواْ أَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًاO
’’اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کرسکو اگرچہ تم کتنا ہی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلانِ طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کرلو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 129
ان آیات مبارکہ سے واضح ہے کہ اسلام کا رجحان یک زوجگی کی طرف ہے اور ان حالات میں جہاں اسلام نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے اسے عدل و مساوات سے مشروط ٹھرایا ہے کہ مرد ان تمام معاملات میں جو اس کے بس میں ہیں مثلاً غذا، لباس، مکان، شب باشی اور حسن معاشرت میں سب کے ساتھ عدل کا سلوک کرے۔ گویا ایک سے زائد شادیوں کا قرآنی فرمان حکم نہیں بلکہ اجازت ہے جو بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتی ہیں جنگ، حادثات، طبی اور طبعی حالات بعض اوقات ایسی صورت پیدا کردیتے ہیں کہ معاشرے میں اگر ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد ہو تو وہ سنگین سماجی مشکلات کا شکار ہو جائے جس کے اکثر نظائر ان معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں ایک سے زیادہ شادیوں پر قانونی پابندی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اسلام کا تصور عدل ہے۔ وہ معاشرہ جہاں ظہور اسلام سے قبل دس دس شادیاں کرنے کا رواج تھا اور ہر طرح کی جنسی بے اعتدالی عام تھی اسلام نے اسے حرام ٹھرایا اور شادیوں کو صرف چار تک محدود کر کے عورت کے تقدس اور سماجی حقوق کو تحفظ عطا کر دیا۔
نابالغ لڑکی یا لڑکے کا بلوغت سے قبل ولی کے کیے ہوئے نکاح کو بالغ ہونے پر رد کر دینے کا اختیار ’خیارِ بلوغ‘ کہلاتا ہے۔ اسلام نے خواتین کو ازدواجی حقوق عطا کرتے ہوئے خیارِ بلوغ کا حق عطا کیا جو اسلام کے نزدیک انفرادی حقوق کے باب میں ذاتی اختیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ احناف کے نزدیک اگر کسی ولی نے نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کیا ہو تو وہ لڑکا یا لڑکی بالغ ہونے پر خیارِ بلوغ کا حق استعمال کرکے نکاح ختم کرسکتے ہیں۔
جس طرح بالغ خاتون کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ولی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا ہو تو عدم رضا کی بناء پر اسے اس نکاح کو تسلیم نہ کرنے اور باطل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح ایک نابالغہ کو بھی جس کا نکاح نا بالغی کے زمانہ میں کسی ولی نے کیا ہو، بلوغ کے بعد عدم رضا کی بناء پر خیار بلوغ حاصل ہے۔
خیارِ بلوغ کے حق کی بناء پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میں قدامہ بن مظعون نے اپنی بھتیجی اور حضرت عثمان بن مظعون کی صاحب زادی کا نکاح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کر دیا تھا اور وہ لڑکی بوقت نکاح نابالغ تھی۔ بلوغت کے بعد اُس لڑکی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا :
عن عبدالله بن عمر، قال : توفي عثمان بن مظعون، و ترک ابنة له من خويلة بنت حکيم بن أمية بن حارثة بن الأوقص، قال : و أوصي إلي أخيه قدامة بن مظعون، قال عبدالله : و هما خالاي، قال : فخطبت إلي قدامة بن مظعون ابنة عثمان بن مظعون، فزوجنيها، ودخل المغيرة بن شعبة. يعني إلي أمها. فأرغبها في المال، فحطت إليه، و حطت الجارية إلي هوي أمها، فأبتا، حتي ارتفع أمرهما إلي رسول الله ﷺ، فقال قدامة بن مظعون : يا رسول الله! ابنة أخي، أوصي بها إلي، فزوجتها ابن عمتها عبدالله بن عمر، فلم أقصر بها في الصلاح ولا في الکفاءة، و لکنها امرأة، و إنما حطت إلي هوي أمها. قال : فقال رسول الله ﷺ : هي يتيمة، ولا تنکح إلا باذنها. قال : فانتزعت والله مني بعد أن ملکتها، فزوجوها المغيرة.
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعون فوت ہوئے اور پسماندگان میں خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن اوقص سے ایک بیٹی چھوڑی اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو وصیت کی۔ راوی عبداللہ کہتے ہیں : یہ دونوں میرے خالو تھے۔ میں نے قدامہ بن مظعون کو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے میرا نکاح اس سے کرا دیا اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ اس لڑکی کی ماں کے پاس آیا اور اسے مال کا لالچ دیا۔ وہ عورت اس کی طرف مائل ہو گئی اور لڑکی بھی اپنی ماں کی خواہش کی طرف راغب ہو گئی پھر ان دونوں نے انکار کر دیا یہاں تک کہ ان کا معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔ قدامہ بن مظعون نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی پس میں اس کی شادی اس کے ماموں زاد عبداللہ بن عمر سے کر دی۔ میں نے اس کی بھلائی اور کفو میں کوئی کمی نہ کی لیکن یہ عورت اپنی ماں کی خواہش کی طرف مائل ہو گئی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ یتیم ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ راوی کہتے ہیں : اس کے بعد میرا اس کے مالک بننے کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا اور اس نے مغیرہ سے شادی کر لی۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 130، رقم : 6136
2. دارقطني، السنن، 3 : 230
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 113، 120، رقم : 13434، 13470
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 280
ایک دوسری سند کے ساتھ مروی حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
فأمره النبي ﷺ أن يفارقها، وقال : لا تنکحوا اليتامٰي حتي تستأمروهن فإن سکتن فهو إذنهن.
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی علیحدگی کا حکم دیا اور فرمایا : یتیم بچیوں کا نکاح ان کے اجازت کے بغیر نہ کیا جائے پس اگر وہ خاموش رہیں تو وہی ان کی اجازت ہے۔‘‘
بيهقي، السنن الکبري، 7 : 121
اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں ڈھیروں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے :
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO
’’اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گےo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 20
لاَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَO
’’تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دیدو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 236
مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 226
یعنی اگر بیوی کی کسی غلطی کی وجہ سے تم نے یہ قسم کھائی ہے تو عفو و درگزر کرتے ہوئے اسے معاف کر دو، اور اگر کسی معقول سبب کے بغیر تم نے یوں ہی قسم کھالی تھی تو قسم کا کفارہ دے کر رجوع کر لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیوں کو بخش دے گا۔ اگر خاوند چار ماہ تک رجوع نہ کرے، تو پھر بعض فقہاء کے نزدیک خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قال النبي ﷺ: إنک لتصوم الدهر و تقوم اليل. فقلت : نعم، قال : انک اذا فعلت ذلک هجمت له العين، و نفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر کله. قلت : فاني أطيق أکثر من ذلک، قال فصم صوم داؤد عليه السلام، کان يصوم يوما و يفطر يوما.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہمیشہ روزہ رکھتے اور ہمیشہ قیام کرتے ہو؟ میں عرض گزار ہوا : جی۔ فرمایا : اگر ایسا کرتے رہو گے تو تمہاری آنکھوں میں گڑھے پڑ جائیں گے اور تمہارا جسم بے جان ہو جائے گا، نیز ہر مہینے میں تین روزے رکھنا گویا ہمیشہ روزہ رکھنا ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا : داؤد علیہ السلام والے روزے رکھ لیا کرو جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھاتے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم داود، 2 : 698، رقم
: 1878
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصوم، باب نهي عن صوم الدهر، 2 : 813، رقم : 1159
3. ترمذي، السنن، کتاب الصوم عن رسول الله، باب ما جاء في سرد الصوم، 3 : 140، رقم
: 770
4. دارمي، السنن، 2 : 33، رقم : 1752
5. ابن حبان، الصحيح، 6 : 325، رقم : 2590، 14 : 118، رقم : 6226
6. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 181، رقم : 1145
7. بيهقي، السنن الصغري، 1 : 477، رقم : 838
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 193
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 530
عبادت میں زیادہ شغف بھی بیوی سے بے توجہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر خاوند دن بھر روزہ رکھے اور راتوں کو نمازیں پڑھتا رہے تو ظاہر ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لیے صوم وصال یعنی روزے پر روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور زیادہ سے زیادہ صوم داؤدی کی اجازت دی ہے کہ ایک دن روزہ رکھو، ایک دن نہ رکھو۔
اسی طرح عبادت میں بھی اعتدال کا حکم فرمایا :
عن عون بن ابي حجيفه، عن ابيه قال : اخي النبي ﷺ بين سلمان و ابي الدرداء فزار سلمان ابا الدرداء فرأي ام الدرداء متبذلة، فقال لها : ماشانک؟ قالت : اخوک ابوالدرداء ليس له حاجة في الدنيا، فجاء ابوالدرداء فصنع له طعاما، فقال : کل. قال : فاني صائم، قال : ما انا باٰکل حتي تاکل، قال : فاکل، فلما کان الليل ذهب ابوالدرداء يقوم. قال : نم، فنام ثم ذهب يقوم. فقال : نم، فلما کان من اخر الليل قال سلمان، قم الان فصليا. فقال له سلمان : ان لربک عليک حقا ولنفسک عليک حقا ولاهلک عليک حقا فاعط کل ذي حق حقه. فاتي النبي ﷺ فذکر ذلک له فقال النبي ﷺ : صدق سلمان.
’’حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہما کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ حضرت سلمان ایک روز حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے۔ اُم درداء کو غمگین دیکھا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : کہو، یہ کیا حال کر رکھا ہے؟ اُم درداء کہنے لگیں : تمہارے بھائی ابودرداء کو دُنیا کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنے میں ابودرداء آ گئے، کھانا تیار کروایا گیا اور کہا کہ آپ کھائیں۔ سلمان بولے میرا روزہ ہے۔ ابودرداء نے کہا جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ جب رات ہوئی (اور دونوں نے کھانا کھا لیا) تو ابودرداء نماز کے لیے اُٹھنے لگے۔ سلمان بولے سو جاؤ۔ اس پر ابودرداء سو گئے۔ (رات گئے پھر کسی وقت) اُٹھے اور (نماز کے لیے) جانے لگے تو سلمان نے پھر کہا سو جاؤ۔ ابودرداء پھر سو گئے۔ اخیر رات میں سلمان نے کہا، اب اُٹھو۔ چنانچہ دونوں نے اُٹھ کر نماز ادا کی۔ پھر سلمان کہنے لگے، تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اور نفس کا بھی، اور گھر والوں کا بھی۔ لہٰذا ہر ایک حقدار کا حق ادا کرو۔ دن میں جب ابودرداء حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سلمان نے سچ کہا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب من أقسم علي أخيه، 2 : 694،
رقم : 1867
2. ترمذي، السنن، کتاب الزهد، باب منه، 4 : 608، رقم : 2413
3. ابويعليٰ، المسند، 2 : 193، رقم : 898
4. واسطي، تاريخ واسط، 1 : 233
5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 637
6. زيلعي، نصب الراية، 2 : 465
اسی طرح کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان ہوا ہے۔ حضرت عثمان بہت عبادت گزار اور راہبانہ زندگی بسر کرنے والے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی خولہ بنت حکیم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں، تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ ہر طرح کے زنانہ بناؤ سنگھار سے عاری ہیں۔ پوچھا کہ کیا سبب ہے؟ بولیں کہ میرے میاں دن بھر روزہ رکھتے ہیں، رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں۔ میں سنگھار کس کے لیے کروں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے قصہ بیان کیا۔ اس پر حضور علیہ السلام عثمان کے پاس گئے اور اُن سے فرمایا :
يا عثمان! ان الرهبانية لم تکتب علينا، أفمالک في أسوة؟
’’عثمان ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے۔ کیا تمہارے لیے میرا طرزِ زندگی پیروی کے لائق نہیں؟‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 226، رقم : 25935
2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 185، رقم : 9
3. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 168، رقم : 10375
4. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 150، رقم : 12591
5. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 38، رقم : 8319
6. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 313، رقم : 1288
7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 452
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ سے خاص طور پر فرمایا :
والله! اني لأخشاکم ﷲ و اتقاکم له لکني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد، واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني.
’’خدا کی قسم، میں تمہاری نسبت خدا سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں اور بہت متقی ہوں۔ اس کے باوجود روزہ بھی رکھتا ہوں، اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جو میری سنت سے روگردانی کرے گا، وہ میرے طریقے پر نہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب ترغيب النکاح، 5 : 1949،
رقم : 4776
2. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، 2 : 1020، رقم : 1401
3. نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب النهي عن التبتل، 6 : 60، رقم : 3217
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 190، رقم : 14
5. ابن حبان، الصحيح، 2 : 20، رقم : 317
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 77، رقم : 13226
7. احمد بن حنبل، مسند، 2 : 158، رقم : 6478
8. عبد بن حميد، مسند، 1 : 392، رقم : 1318
9. بيهقي، شعب الايمان، 4 : 381، رقم : 5377
10. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 30، رقم : 2953
11. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 358، رقم : 7030
12. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 105
اس کے مقابلے میں عورت کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔ ارشاد فرمایا :
لا تصوم المرأة وبعلها شاهد إلا باذنه.
’’اپنے خاوند کی موجودگی میں عورت (نفلی) روزہ نہ رکھے مگر اس کی اجازت سے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم المرأة، 5 : 1993، رقم
: 4896
2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، باب ما جاء في کراهية، 3 : 151، رقم : 782
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الصوم، باب المرأة تصوم، 2 : 230، رقم : 2458
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 247، رقم : 3289
5. دارمي، السنن، 2 : 21، رقم : 1720
6. ابن حبان، الصحيح، 8 : 339، رقم : 3572
7. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 319، رقم : 2168
8. حاکم، المستدرک، 4 : 191، رقم : 7329
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 192، رقم : 7639
10. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 200
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حق کی اہمیت کو اپنی سنت مبارکہ سے واضح فرمایا۔ آپ کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ کسی سفر یا غزوہ پر تشریف لے جاتے تو بیویوں میں قرعہ ڈالتے اور جس کے نام قرعہ نکل آتا، اُسے ساتھ لے جاتے۔
بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب القرعة بين النساء، 5 : 1999، رقم : 4913
ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے یہ شعر سنے :
تطاول هذا الليل تسري کواکبه
وارَّقني ان لاضجيع ألاعبه
فوالله لولا الله تخشي عواقبه
لَزُحزِحَ من هذا السرير جوانبه
(یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔ خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔ )
سيوطي، تاريخ الخلفاء : 139
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سُن کر افسوس کیا اور فوراً اپنی صاحبزادی اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور پوچھا بیٹی! ایک عورت شوہر کے بغیر کتنے دن گزار سکتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا : ’’چار ماہ۔‘‘ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ فوج کے ساتھ باہر نہ رہے۔ خود قرآن حکیم نے یہ معیاد مقرر کی ہے :
لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیں (اور آپس میں میل ملاپ کرلیں) تو اللہ رحمت سے بخشنے والاہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 226
گویا یہاں قرآن حکیم نے اس امر کو واضح کر دیا کہ خاوند اور بیوی زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک علیحدہ رہ سکتے ہیں، اس سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ اگر وہ اس دوران صلح کر لیں تو درست ہے۔ اس سے زیادہ بیوی اور شوہر کا الگ الگ رہنا دونوں کے لیے جسمانی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے مضر ہے۔ یہی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے جواب کا مقصود تھا اور اسی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم نافذ کیا۔
مرد کو عورت کی جملہ ضروریات کا کفیل بنایا گیا ہے۔ اس میں اُس کی خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ شامل ہیں :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ.
’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 34
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلََى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَكُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّآ آتَيْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO
’’اور مائیں اپنے بچوں کو دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ کے ذمہ ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 233
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَO
’’اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہےo‘‘
القرآن، البقره، 2 : 241
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ.
’’اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں۔‘‘
القرآن، الطلاق، 65 : 1
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًاO
’’تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کردو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کردیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گاo‘‘
القرآن، الطلاق، 65 : 6، 7
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں عورت کے اس حق کی پاسداری کی تلقین فرمائی :
1. فاتقو الله في النساء فإنکم اخذتموهن بامان الله واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم عليهن ان لا يوطئن فرشکم احدا تکرهونه، فان فعلن ذلک فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف.
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبي ﷺ، 2 : 889، رقم
: 1218
2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول الله ﷺ، 2 : 1025، رقم : 3074
3. ابن حبان، الصحيح، 4 : 311، 9 : 257
4. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 3 : 336، رقم : 14706
6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، رقم : 13601
8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 295، رقم : 14502
9. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 272
10. ابن حزم، المحلي، 9 : 510، 10 : 72
11. ابن قدامه، المغني، 3 : 203
12. اندلسي، حجة الوداع، 1 : 169، رقم : 92
13. محمد بن اسحاق، اخبار مکة، 3 : 127، رقم : 1891
14. ابونعيم، المسند، 3 : 318، رقم : 2828
15. ابوطيب، عون المعبود، 5 : 263
16. ابن حبان، الثقات، 2 : 128
17. اندلسي، تحفة المحتاج، 2 : 161
2۔ حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
أن رجلا سأل النبي ﷺ : ما حق المرأة علي الزوج؟ قال : أن يطعمها إذا طعم، و أن يکسوها إذا اکتسي، ولا يضرب الوجه، ولا يقبح، ولا يهجر إلا في البيت.
’’ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : عورت کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے، اُسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاه، باب حق المرأة، 1 : 593،
رقم : 1850
2. ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأة، 2 : 244، رقم : 2142
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة، 3 : 466، رقم : 1162
4. نسائي، السنن الکبري، 5 : 373، رقم : 1971
5. نسائي، السنن الکبري، 6 : 323، رقم : 11104
6. ابن حبان، الصحيح، 9 : 482، رقم : 4175
7. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 295
8. هيثمي، موارد الظمآن : 313، رقم : 1286
3۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہندہ کے اپنے خاوند کی کنجوسی کی شکایت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خذي ما يکفيک و ولدک بالمعروف.
’’تو (ابوسفیان کے مال سے) اتنا مال لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے باعزت طور پر کافی ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب النفقات، باب إذا لم ينفق الرجل، 5
: 2052، رقم : 5049
2. ابن ماجه، السنن، کتاب التجارات، باب التغليظ في الرباء 2 : 769، رقم : 2293
3. دارمي، السنن، 2 : 211، رقم : 2259
4. ابن راهويه، المسند، 2 : 224، رقم : 732
5. ابويعليٰ، المسند، 8 : 98، رقم : 4636
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 270، رقم : 2187
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 8 : 237
8. ابن قدامه، المغني، 8 : 156، 161؛ 10 : 276
9. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 131
اگر نفقہ واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ابوسفیان کی اجازت کے بغیر مال لینے کی اجازت نہ فرماتے۔
مسلم فقہاء نے عورت کے اس حق کو نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اجماع و عقلی طور پر بھی ثابت قرار دیا۔ الکاسانی کے مطابق :
’’جہاں تک اجماع سے وجوبِ نفقہ کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں پوری امت کا اجماع ہے کہ خاوند پر بیوی کا نفقہ واجب ہے۔
’’عقلی طور پر شوہر پر بیوی کا نفقہ واجب ہونا اس طرح ہے کہ وہ خاوند کے حق کے طور پر اس کی قید نکاح میں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی قید نکاح کا نفع بھی خاوند ہی کو لوٹ رہا ہے لہٰذا اس کی کفالت بھی خاوند کے ذمہ ہی ہونی چاہئے۔ اگر اس کی کفالت کی ذمہ داری خاوند پر نہ ڈالی جائے اور نہ وہ خود خاوند کے حق کے باعث باہر نکل کر کما سکے تو اس طرح وہ ہلاک ہو جائے گی لہٰذا اس کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قاضی کا خرچہ مسلمانوں کے بیت المال سے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ وہ انہی کے کام میں محبوس (روکا گیا) ہے اور کسی دوسرے ذریعے سے کمائی نہیں کرسکتا لہٰذا اس کے اخراجات ان کے مال یعنی بیت المال سے وضع کیے جائیں گے۔ اسی طرح یہاں (عورت کے نفقہ میں) ہے۔‘‘
کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 46
عورت کا مرد پر یہ بھی حق ہے کہ وہ عورت پر اعتماد کرے، گھر کے معاملات میں اس سے مشورہ کرتا رہے۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس معاملے میں یہی تھا۔ قرآن حکیم میں ہے :
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ.
’’اور جب نبیء (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنی ایک زوجہ سے ایک رازدارانہ بات ارشاد فرمائی، پھر جب وہ اُس (بات) کا ذکر کر بیٹھیں اور اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اسے ظاہر فرما دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس کا کچھ حصّہ جِتا دیا اور کچھ حصّہ (بتانے) سے چشم پوشی فرمائی۔‘‘
القرآن، التحريم، 66 : 3
گھریلو معاملات میں عورت، مرد کی راز دان ہے لیکن اگر عورت غلطی یا نادانی سے کوئی خلاف مصلحت کام کر بیٹھے تو مرد کو چاہیے کہ اس کی تشہیر نہ کرے، نہ اسے اعلانیہ ملامت کرے، جس سے معاشرے میں اس کی سبکی ہو۔ عورت کی عزت و وقار کی حفاظت مرد کا فرض اوّلین ہے کیونکہ یہ خود اس کی عزت اور وقار ہے۔ عورت کی سبکی اُس کی عزت اور وقار کے مجروح ہونے کا باعث بنتی ہے۔ مرد کوچاہیے کہ اسے اس کی غلطی سے آگاہ کر دے اور آئندہ کے لیے اسے محتاط رہنے کا مشورہ دے۔ قرآن حکیم نے عورت اور مرد کے تعلقات کو ایک نہایت لطیف مثال کے ذریعے بیان کیا ہے۔
هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.
’’عورتیں تمہارے لیے لباس (کا درجہ رکھتی) ہیں اور تم ان کے لیے لباس (کا درجہ رکھتے) ہو۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 187
اور لباس سے متعلق ایک دوسری جگہ کہا :
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا.
’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں لباس دیا ہے، جو تمہارے عیب ڈھانکتا ہے اور تمہاری زینت (اور آرائش کا ذریعہ ) ہے۔‘‘
القرآن، الاعراف، 7 : 26
یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرنے والے ہیں۔ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کی غلطیوں پر پردہ ڈالے اور عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کے نقائص ظاہر نہ ہونے دے۔
ازدواجی زندگی میں اگر مرد اور عورت کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں تو ذمہ داریاں بھی ہیں۔ پہلے مرد کو حکم دیا :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
’’عورتوں کے ساتھ معاشرت میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 19
اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی خاندانی زندگی نہایت قابل رحم تھی۔ قدر و منزلت تو درکنار اسے جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ان کنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتي انزل الله تعالي فيهن ما انزل و قسم لهن ما قسم.
’’خدا کی قسم زمانہ جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، حتیٰ کہ خدا نے ان سے متعلق جو احکام نازل کرنا چاہے نازل کر دیئے اور جو حقوق ان کے مقرر کرنا تھے، مقرر کر دیئے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب النکاح، باب حکم العزل، 2 : 1108، رقم
: 1479
2. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب تبتغي مرضاة، 4 : 1886، رقم : 4629
3. ابوعوانه، المسند، 3 : 167
4. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 658، رقم : 4629
5. عسقلاني، فتح الباري، 9 : 281
اور تو اور عورت، جانوروں اور دوسرے ساز و سامان کی طرح رہن تک رکھی جاسکتی تھی۔
بخاري، الصحيح، کتاب الرهن، باب رهن السلاح، 2 : 887، رقم : 2375
وہ رہن ہی نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ فروخت بھی کی جاتی تھی غرضیکہ وہ محض مرد کی خواہشات نفسانی کی تسکین کا ذریعہ تھی اور مرد پر اس کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔ اسلام نے بتایا کہ عورت کے بھی مرد پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے عورت پر ہیں اور وہ ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حقدار ہے۔
اسلام نے نکاح کو ایک معاہدہ قرار دے کر بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے :
وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO
’’اور تمہاری عورتیں تم سے مضبوط عہد لے چکی ہیںo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 21
اس ’’مضبوط عہد‘‘ کی تفسیر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں یوں فرمائی :
اتقوا الله في النساء فانکم اخذتموهن بامانة الله.
’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت لیا ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حجةالنبي ﷺ، 2 :
185، رقم : 1905
2. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول الله ﷺ، 2 : 1025، رقم : 3074
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 2 : 421، رقم : 4001
4. ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 251، رقم : 2809
5. دارمي، السنن، 2 : 69، رقم : 1850
6. عبد بن حميد، المسند، 1 : 343، رقم : 1135
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 8
8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 144، 295، 304
9. ابن قدامه، المغني، 3 : 203
گویا نکاح کو ایک امانت قرار دیا ہے اور جیسے ہر ایک معاہدے میں دونوں فریقوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، اسی طرح امانت کا حال ہے۔ چونکہ نکاح ایک معاہدہ اور ایک امانت ہے، اس لیے جیسے مرد کے عورت پر بعض حقوق ہیں، ویسے ہی عورت کی طرف سے اس کے ذمے بعض فرائض بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے عورتوں سے گھریلو زندگی میں نیکی اور انصاف کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خيرکم خيرکم لأهله.
’’تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنے اہل (یعنی بیوی بچوں) کے لیے اچھا ہے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي
ﷺ، 5 : 907، رقم : 3895
2. ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 : 636، رقم : 1977
3. ابن حبان، الصحيح، 9 : 484، رقم : 4177
4. دارمي، السنن، 2 : 212، رقم : 2260
5. بزار، المسند، 3 : 197، رقم : 974
6. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 363، رقم : 853
7. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 227، رقم : 1243
8. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 468
خاوند پر بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ بیوی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے :
وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آيَاتِ اللهِ هُزُوًا.
’’اور ان کو ضرر پہنچانے اور زیادتی کرنے کے لئے نہ روکے رکھو۔ جو ایسا کرے گا اس نے گویا اپنے آپ پر ظلم کیا اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 231
یہ آیت ان احکام سے متعلق ہے جہاں خاوند کو بار بارطلاق دینے اور رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتے ہیں اس لئے اسے معروف طریقے سے طلاق دے کر آزاد نہیں کر دیتے، بلکہ طلاق دیتے ہیں اورپھر رجوع کر لیتے ہیں، پھر طلاق دیتے ہیں اور پھر کچھ دن کے بعد رجوع کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت ایک دائمی اذیت میں مبتلا رہتی ہے۔ یہ گویا اللہ کے احکام اور رعایتوں سے تمسخر ہے۔ اس سے منع فرمایا گیا کہ ان کو ظلم اور زیادتی کے لئے نہ روک رکھو۔ اس آیت مبارکہ میں یہاں ایک عام اصول بیان کر دیا ہے کہ عورت پر ظلم اور زیادتی نہ کرو۔ ظلم اور زیادتی کی تعیین نہیں کی، کیونکہ یہ جسمانی بھی ہوسکتی ہے، ذہنی اور روحانی بھی۔
اس امر میں اُمتِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ بچہ کی پرورش کی مستحق سب سے پہلے اُس کی ماں ہے۔ البتہ اس اَمر میں اختلاف ہے کہ بچہ یا بچی کی پرورش کا حق ماں کو کتنی عمر تک رہتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب بچہ خود کھانے پینے، لباس پہننے اور استنجاء کرنے لگے تو اُس کی پرورش کا حق ماں سے باپ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ لڑکے کی اس حالت کو پہنچنے کی عمر کا اندازہ علامہ خصاف نے سات آٹھ سال بیان کیا ہے، البتہ ماں کو لڑکی کی پرورش کا حق اس کے بالغ ہونے تک ہے۔ یہی قول امام ابو یوسف کا ہے۔ امام محمد کے نزدیک جب لڑکی میں نفسانی خواہش ظاہر ہو تو اس وقت تک ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے۔ متاخرین احناف نے امام محمد کے قول کو پسند کیا ہے۔
1. داماد آفندي، مجمع الانهر، 1 : 481، 482
2. کاساني، بدائع الصنائع، 4 : 42
3. ابن همام، فتح القدير، 3 : 316
ماں کو بچہ کی پرورش کا حق حاصل ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی آیت ظاہر نص کے طور پر تو موجود نہیں مگر اقتضاء نص کے طور پر فقہاء کرام نے آیتِ رضاعت۔۔ ۔ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ. . . سے ثابت کیا ہے کہ صغر سنی میں بچہ کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔
فقہاء کرام نے مذکورہ آیت مبارکہ کے ساتھ ساتھ درج ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا ہے :
1۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے بعد نکلے تو حمزہ کی بیٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا اور آواز دی : اے چچا! اے چچا! پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ لیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : اپنے چچا کی بیٹی کو لو۔ چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اُسے اُٹھا لیا۔ اس بارے میں حضرت زید، علی اور جعفر رضی اللہ عنھم کا جھگڑا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے اسے لے لیا ہے کیونکہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا : وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے جبکہ زید نے کہا کہ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا :
الخالة بمنزلة الأم.
’’خالہ ماں کے درجہ میں ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب کيف يکتب هذا، 2 : 960،
رقم : 2552
2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب عمرة القضاء، 4 : 1551، رقم : 4005
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب من أحق بالوالد، 2 : 284، رقم : 2280
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 127، 168، رقم : 8456، 8578
5. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 5، 6
6. مقدسي، الأحاديث المختاره، 2 : 392، 393، رقم : 779
2۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا :
يا رسول الله! ان ابني هذا، کان بطني له وعاء، و ثديي له سقاء، و حجري له حواء، و إن أباه طلقني و أراد أن ينتزعه مني.
’’اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے جس کے لئے میرا پیٹ ظرف تھا اور میری چھاتی مشکیزہ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ تھی۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے لے لے۔‘‘
اس پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنت أحق به ما لم تنکحي.
’’تو اپنے بچہ کی زیادہ مستحق ہے جب تک کہ تو (دوسرا) نکاح نہ کرلے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب نفقة، 2 : 283، رقم :
2276
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 182
3. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 153، رقم : 2276
4. دارقطني، السنن، 3 : 304، 305
5. حاکم، المستدرک، 2 : 225
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 4، 5
3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری عورت اُمِ عاصم کو طلاق دی۔ عاصم اپنی نانی کے زیرِ پرورش تھا۔ اُس کی نانی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تنازعہ پیش کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا :
أن يکون الولد مع جدته، والنفقة علي عمر، وقال : هي أحق به.
’’لڑکا اپنی نانی کے پاس رہے گا، عمر کو نفقہ دینا ہو گا۔ اور کہا : یہ نانی اس بچہ کی (پرورش کرنے کی) زیادہ حق دار ہے۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5
2. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 155، رقم : 12602
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کی ماں کے حق میں فیصلہ کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
لا توله والدة عن ولدها.
’’والدہ کو اس کے بچہ سے مت چھڑاؤ۔‘‘
بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5
عبدالرحمن بن ابی زناد اہل مدینہ سے فقہاء کا قول روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے بیٹے عاصم کے حق میں فیصلہ کیا کہ اس کی پرورش اس کی نانی کرے گی یہاں تک کہ عاصم بالغ ہوگیا، اور اُم عاصم اُس دن زندہ تھی اور (دوسرے شخص کے) نکاح میں تھی۔
بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 5
ابو حسین مرغینانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ولأن الأم أشفق وأقدر علي الحضانة، فکان الدفع إليها أنظر، و إليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله : ريقها خير له من شهد و عسل عندک يا عمر.
’’یعنی اس لئے کہ ماں بچہ کے حق میں انتہا سے زیادہ شفیق ہوتی ہے اور نگرانی و حفاظت پر مرد کی نسبت زیادہ قدرت رکھتی ہے۔ اسی شفقت کی طرف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا ہے : اے عمر! بچے کی ماں کا لعاب دہن بچے کے حق میں تمہارے شہد سے بھی زیادہ شیریں ہو گا۔‘‘
مرغيناني، الهداية، 2 : 37
مرغینانی مزید لکھتے ہیں :
’’باپ کی نسبت ماں اس لئے زیادہ شفیق ہوتی ہے کہ حقیقت میں بچہ ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بچہ کو قینچی کے ذریعے کاٹ کر ماں سے جدا کیا جاتا ہے اور عورت اسی پرورش میں مشغول ہونے کی وجہ سے حضانت پر زیادہ حق رکھتی ہے بخلاف مرد کے کہ وہ مال حاصل کرنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔‘‘
اسی طرح امام شافعی نے استدلال میں یہی احادیث پیش کی ہیں اور والدہ کے تقدم کی علت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے :
فلما کان لا يعقل کانت الأم أولي به علي أن ذلک حق للولد لا لأبوين، لأن الأم أحني عليه و أرق من الأب.
’’پس جب کہ بچہ نا سمجھ ہو تو ماں اس کی پرورش کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ یہ بچہ کا حق ہے نہ کہ والدین کی محبت و الفت و شفقت کے درجات کا۔‘‘
شافعي، الأم، 8 : 235
ابن قدامہ حنبلی اپنی کتاب ’المغنی (7 : 613، 614)‘ میں لکھتے ہیں :
الأم أحق بکفالة الطفل و المعتوة إذا طلقت. . . ولأنها أقرب إليه و أشفق عليه ولا يشارکها في القرب إلا أبوه، و ليس له مثل شفقتها، ولايتولي الحضانة بنفسه و إنما يدفعه إلي امرأته و أمه أولي به من أم أبيه.
’’بچے اور عدیم العقل کی پرورش کی ماں زیادہ حق دار ہے جبکہ اُسے طلاق دے دی گئی ہو۔۔ ۔ کیونکہ بچہ سے زیادہ قریب اور زیادہ شفقت رکھنے والی ماں ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اس قرب و شفقت میں باپ کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود حقیقت تویہ ہے کہ باپ بھی ماں جیسی شفقت نہیں رکھتا، اور نانی دادی کی نسبت سے اولیٰ ہو گی۔‘‘
ابن قدامہ مزید لکھتے ہیں :
و الحضانة إنما تثبت لحظ الولد فلا تشرع علي وجه يکون فيه هلاکه و هلاک دينه.
’’اور حضانت بچے کی بہبود و فلاح کے پیش نظر مقرر کی گئی ہے، لہٰذا کسی ایسے طریقے پر درست نہ ہو گی جس سے بچے کی ذات اور دین ضائع ہونے کا اندیشہ ہو۔‘‘
اگر عورت اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور اپنے شوہر کی بداخلاقی، مکاری یا اُس کی کمزوری سے نالاں ہو جائے اور اُسے ناپسند کرے اور اُسے خوف ہو کہ حدود اللہ کی پاسداری نہ کر سکے گی تو وہ شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے اور یہ کسی عوض کے بدلے ہو گا جس سے وہ اپنی جان چھڑائے۔ اس کی دلیل یہ آیت قرآنی ہے :
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.
’’پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو (اندریں صورت) ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی حاصل کر لے‘‘۔
القرآن، البقره، 2 : 229
شریعتِ مطہرہ نے طلاق کو صرف شوہر کا حق قرار دیا ہے، کیونکہ شوہر ہی خاص طور سے رشتہ زوجیت قائم رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور وہ زوجیت کی بناء پر کافی مال خرچ کر چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ طلاق نہ دینے کو ترجیح دیتا ہے کیوں کہ طلاق کی صورت میں اسے مؤخر شدہ مہر اور عورت کے دوسرے مالی حقوق ادا کرنا پڑتے ہیں۔
چونکہ بیوی پر شوہر کے کوئی مالی حقوق واجب نہیں ہوتے، اس لئے شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کے لئے خلع کا حق رکھا ہے تاکہ اس کے پاس بھی تفریق کا حق موجود ہو۔
عورت کے اس حق کو احادیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا :
عن ابن عباس : أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبي ﷺ فقالت : يا رسول الله. ثابت بن قيس، ما اعتب عليه في خلق ولا دين، ولکني اکره الکفر في الاسلام. فقال رسول الله ﷺ : أتردين عليه حديقته؟ قالت : نعم. قال رسول الله ﷺ : اقبل الحديقة و طلقها تطليقة.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں : یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے کہا : ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب الخلع 5 : 2021، رقم : 4971
تاہم اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حالت میں خلع لینا دُرست نہیں ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ايما امرأة سألت زوجها الطلاق ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة.
’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبوحرام ہے۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 277، رقم : 22433
خلع عورت کا ایسا حق ہے کہ جب عورت خلع لے لیتی ہے تو اپنے نفس کی مالک ہو جاتی ہے اور اُس کا معاملہ خود اُس کے ہاتھ میں آجاتا ہے، کیونکہ اس شخص کی زوجیت سے آزادی کے لئے اس نے مال خرچ کیا ہے۔
خلع کو عورت کے لئے مرد سے چھٹکارے کا ذریعہ بنایا گیا ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہو اور اُس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو گویا یہ طلاق کی طرح عورت کے پاس ایک حق ہے اس میں عورت کو شوہر سے لیا ہوا مہر واپس کرنا ہوتا ہے۔
وہ چند صورتیں جن میں عورت کی طرف سے طلاق یا خلع واقع ہوتا ہے، درج ذیل ہیں :
1۔ نکاح کے وقت عورت نے اپنے لئے طلاق کا حق رکھا ہو اور شوہر نے اُس پر موافقت کی ہو۔ اس شرط کو استعمال کرنا اُس کا حق ہے۔
2۔ جب وہ شوہر کی مخالفت کے باعث اپنے نفس پر نافرمانی کے گناہ میں پڑنے کا خوف کرے۔
3۔ اس سے شوہر کا سلوک برا ہو، یعنی وہ اس پر اُس کے دین یا جان کے بارے میں ظلم روا رکھے اور عورت اس سے مال دے کر طلاق حاصل کرنا چاہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے :
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ.
’’پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 229
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیوی سے ناروا سلوک کرنے والے شوہر کے لئے اس سے مہر لینا بھی مکروہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اسلام دین مروت ہے وہ عورت سے برا سلوک قبول نہیں کرتا کہ جب اُسے طلاق دے تو اُس کا مال بھی لے لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناًO
’’اور جب تم ایک کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے کسی کو سونے کے ڈھیر بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ نہ لو بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اُس سے واپس لو گےo‘‘
القرآن، النساء 4، : 20
4۔ شوہر اپنی بیوی سے جنسی تعلق پر قادر نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے گی، قاضی اُسے ایک سال کی مہلت دیگا کہ (وہ علاج کرائے) اس کے بعد اگر وہ جنسی تعلق پر قادر نہ ہو سکے اور عورت علیحدگی کا مطالبہ کرے تو قاضی اُن کے درمیان علیحدگی کرا دے گا۔
5۔ شوہر مجنون ہو جائے یا اُسے برص یا جزام (کوڑھ) کی بیماری لاحق ہو جائے تو بیوی کے لئے یہ حق ہے کہ وہ عدالت میں معاملہ اُٹھائے اور علیحدگی کی مطالبہ کرے، اس پر قاضی اُن میں علیحدگی کرا سکتا ہے۔
مرغيناني، الهدايه، 3 : 268
الغرض عورت کو ہر سطح پر اسلام نے وہ تحفظ اور عزت و احترام عطا کیا جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے نظام زندگی میں نہیں ملتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved