اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اہل عرب کے عورت سے اس بدترین رویے کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
وَيَجْعَلُونَ ِللهِ مَا يَكْرَهُونَ.
’’اور وہ اللہ کے لیے وہ کچھ (یعنی بیٹیاں) ٹھہراتے ہیں جسے وہ خود ناپسند کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 62
یعنی کفار مکہ اللہ کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ دوسری آیت میں ہے :
وَيَجْعَلُونَ ِللهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَO
’’اور یہ لوگ خدا کے لیے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (حالاں کہ) وہ ان سے پاک ہے اور اپنے لیے وہ جو چاہیں (یعنی بیٹے)o‘‘
القرآن، النحل، 16 : 57
یعنی یہ لوگ فرشتوں کے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے جب کہ اُنہیں خود بیٹیاں پسند نہ تھیں بلکہ بیٹے پسند تھے۔
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 573
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 122، 123، 126
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 27 : 61
4. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 116
5. محلي، تفسير جلالين : 353
قرآن حکیم کی ان آیات سے واضح ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورت کا مرتبہ ناپسندیدہ تھا وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لیے تھی اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے۔ اہل عرب کے اس طرز عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے :
وَقَالُواْ مَا فِي بُطُونِ هَـذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءَ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ إِنَّهُ حِكِيمٌ عَلِيمٌO
’’اور وہ کہتے کہ جو ان جانوروں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر (پیدا ہونے والا) جانور مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہوں گے عنقریب خدا ان کو ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بے شک وہ حکمت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
القرآن، الأنعام، 6 : 139
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اہلِ عرب مردوں کے لیے خاص چیز ’دودھ‘ ہے جو وہ اپنی عورتوں کے لیے حرام قرار دیتے تھے اور اُن کے مرد ہی اسے پیا کرتے تھے اسی طرح جب کوئی بکری نر بچہ جنتی تو وہ ان کے مردوں کا ہوتا اور اگر بکری پیدا ہوتی تو وہ اسے ذبح نہ کرتے، یونہی چھوڑ دیتے تھے۔ اور اگر مردہ جانور ہوتا تو سب شریک ہوتے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 242
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 47، 48، 67
3. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 11 : 128
4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 6 : 338
5. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 7 : 95، 113
6. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 8 : 74
7. شافعي، أحکام القرآن، 2 : 101
ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں سدی سے نقل کیا ہے :
فهذه الانعام ما ولد منها من حي فهو خالص للرجال دون النساء و إماما ولد من ميت فيأکله الرجال و النساء.
’’ان جانوروں سے زندہ پیدا ہونے والا بچہ خالص ان کے مردوں کے کھانے کے لیے ہوتا اور عورتوں کے لیے حرام ہوتا اور مردہ پیدا ہونے والے بچے کو مرد و عورت سب کھاتے، (اس طرح وہ مردوں کو ترجیح دیا کرتے تھے)۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 8 : 48
2. بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 7، رقم : 1775
3. شافعي، الأم، 2 : 243
4. مالک، المدونة الکبريٰ، 15 : 106
ذیل میں ہم اسلام سے قبل عورتوں کے معاشرتی مقام بارے اَہم نکات بیان کریں گے :
دورِ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے اس لیے وہ لڑکی پیدا ہونے پر غصہ ہوتے، حالاں کہ وہ یہ جانتے تھے کہ نظام کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہے اس کے باوجود اس نظام کے خلاف اس حد تک چلے جاتے کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔
قرآن کریم میں ان قوموں کے طرز عمل کے خلاف آیت اتری ہے کہ جب انکے ہاں کسی بچی کی ولادت ہوتی تو وہ غضب ناک ہوتے تھے۔ قرآن کریم نے ان کی اس قبیح عادت کو اس طرح بیان کیا ہے :
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌO يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَO
’’اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ میں گھٹتا جاتا ہےo وہ (بزعم خویش) اس ’’بری خبر‘‘ کے عار کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے۔ وہ (سوچتا ہے کہ) آیا اس کو ذلت کی حالت میں لیے پھرے یا زندہ زمین میں دبا دے۔ خبردار! کتنا برا خیال ہے جو وہ کرتے ہیںo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 58، 59
لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم قبیح کو قرآن حکیم دوسرے مقام پر اس طرح بیان کرتا ہے :
وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْO بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْO
’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گاo کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیاo‘‘
القرآن، التکوير : 8، 9
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے کہ قیس بن عاصم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اپنی بیٹیوں کو زمانۂ جاہلیت میں زندہ دفن کردیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کردو۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میں بہت سے اونٹوں کا مالک ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہر بیٹی کی طرف سے ایک اونٹ کی قربانی دو۔
ایک روایت کے مطابق انہوں نے زمانۂ جاہلیت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو ہر لڑکی کے بدلے ایک اونٹ قربان کر دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے بارہ بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرنے کی تلقین فرمائی۔ (1) یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکیوں کو عار یا فقر کے ڈر سے زندہ دفن کردیتے تھے۔ (2)
(1) ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 478
(2)1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 30 : 66
2. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 19 : 232
3. شافعي، احکام القرآن، 1 : 626
4. شافعي، الام، 6 : 3
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 17
6. ابن حزم، الاحکام في اصول الاحکام، 5 : 170
7. ابن حزم، الاحکام في اصول الاحکام، 7 : 377
اللہ تعالیٰ نے قتل انسانی کی ممانعت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَO
’’آپ ان سے کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ ماں باپ کے ساتھ احسان کیا کرو۔ اور اپنی اولاد کو فقر کے ڈر سے قتل نہ کیا کرو۔ ہم تمہیں اور ان کو رزق دیں گے اور بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ جانا اور کسی جان کو جن کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر ان باتوں کی وہ تمہیں تاکید کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لوo‘‘
القرآن، الانعام، 6 : 151
شادی جو خاندانی زندگی کے قیام و تسلسل کا ادارہ ہے، اہل عرب کے ہاں اصول و ضوابط سے آزاد تھا جس میں عورت کی عزت و عصمت اور عفت و تکریم کا کوئی تصور کارفرما نہ تھا۔ اہل عرب میں شادی کے درج ذیل طریقے رائج تھے :
یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا۔ اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی۔
بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا۔ یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی۔ بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا۔
یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔ عورت اور مرد آپس میں کسی ایک مدت مقررہ تک ایک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدت مقررہ پوری ہوتے ہی نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔
دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی۔
یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے۔
جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا۔ یوں ایک آزاد عورت غلام بن کربک جاتی۔ اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی۔
وٹے سٹے کی شادی۔ یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا۔ اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی۔
فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح۔ مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔
اجتماعی نکاح۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً دس آدمی ایک ہی عورت کے لیے جمع ہوتے اور ہر ایک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور وہ بغیر کسی پس وپیش کے آجاتے پھر وہ جسے چاہتی (پسند کرتی یا اچھا سمجھتی) اسے کہتی کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔
فاحشہ عورتوں سے تعلق، یہ بھی نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس میں دو فرق تھے، ایک تویہ کہ اس میں دس سے زیادہ افراد بھی ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط میں دس سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔
مذکورہ طریقہ ہائے زواج سے ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عورت کی زمانۂ جاہلیت میں حیثیت مال و متاع کی طرح تھی اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا۔
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، کتاب النکاح،
9 : 182. 185
2. بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب من قال : لا نکاح إلا بولي 5 : 1970، رقم : 4834
3. ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في وجوه النکاح 2 : 281، رقم : 2272
4. دارقطني، السنن الکبريٰ، 7 : 110
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 110
6. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 3 : 120
7. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 3 : 120
مذکورہ محدثین کرام نے درج بالا اقسام نکاح میں سے بعض کو بیان کیا ہے۔
قبل از اسلام اخلاقی اقدار کے انحطاط کا یہ عالم تھا کہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں زنا کا اقرار بھی کیا کرتے تھے اور زنا عربی معاشرے میں بڑے پیمانے پر عام تھا بلکہ بہت سے لوگ عورت کو زنا پر مجبور بھی کیا کرتے تھے۔ مگر اسلام نے اسکی ممانعت کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.
’’اور اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو (خصوصاً) جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں کہ تم دنیاوی زندگی کا سامان کماؤ۔‘‘
القرآن، النور، 24 : 33
اس آیت کا شان نزول یہ تھا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور کیا کرتا تھا کہ مال کمائے اور ان کے ذریعے اپنی بڑائی حاصل کرے۔
اسی طرح زمانہ جاہلیت میں عربوں کی بیویوں کی کوئی تعداد متعین نہ تھی اور عرب ایک سے زائد شادیاں کرتے تھے اور اسکے ذریعے اپنی بڑائی کا اظہار کرتے۔ مگر اسلام نے چار بیویوں کی تعداد مقرر کر دی اسی طرح اسلام نے تعدد ازواج کے لیے بھی شرائط مقرر کیں۔ ارشاد ربانی ہے :
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْO
’’اگر تم کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کر لو، دو دو عورتوں سے تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے (مگر یہ اجازت عدل سے مشروط ہے) پس اگر تم کو احتمال ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی عورت سے نکاح کرو یا جو کنیزیں (شرعاً) تمہاری ملک میں ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo‘‘
القرآن، النساء، 4 : 3
زمانۂ جاہلیت میں عورت کو کسی چیز کی مالک بننے کا حق حاصل نہ تھا۔ عورتوں کو کوئی وارثت نہ ملتی تھی، صرف مردوں کو وارث بننے کا حق حاصل تھا، اس پر اُن کی دلیل یہ تھی کہ وہ ہتھیار اُٹھاتے ہیں، قبیلوں کا دفاع کرتے ہیں اور اس معاشرے میں عورتوں کو محض میراث سے محروم کرنے پر اکتفاء نہ کیا گیا، بلکہ وہ عورت کو بھی وراثت میں سامان کی طرح بانٹ دیتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے ورثاء اس عورت کے حقدار ہوتے، اگر وہ چاہتے تو ان میں سے کوئی اس سے شادی کر لیتا تھا یا جس سے چاہتے اُسی سے اس کی شادی کرا دیتے اور چاہتے تو نہ کراتے۔ اس طرح عورت کے سسرالی اُس کے میکے والوں سے زیادہ اس پر حق رکھتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ.
القرآن، النساء، 4 : 91
’’اے ایمان والو! تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) جبراً مالک ہو جاؤ اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو، اُنہیں مت روک رکھنا۔‘‘(2)
1. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب لا يحل لکم، 4 :
1670، رقم : 4303
2. بخاري، الصحيح، کتاب الاکراه، باب من الاکراه، 6 : 2548، رقم : 6549
3. ابوداؤد، السنن، کتاب النکاح، باب قوله تعالي، 2 : 230، رقم : 2089
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 321
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 138
6. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 305
7. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 5 : 94
8. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 247
9. مزي، تهذيب الکمال، 20 : 131
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا اور اُس کی باندی ہوتی تو اس کا کوئی دوست اس باندی پر کپڑا ڈال دیتا، اب کوئی دوسرا شخص اس باندی پر دعویٰ نہیں کر سکتا تھا یہ شخص اگر وہ باندی خوبصورت ہوتی تو اس سے شادی کر لیتا اور اگر بد ہئیت ہوتی تو اسے اپنے پاس تاحیات روکے رکھتا۔
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 465
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 307
3. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 247
4. شمس الحق، عون المعبود، 6 : 80
ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو اُس کے دوستوں میں سے کوئی اُس کی عورت پر کپڑا ڈال دیتا اور اُس کے نکاح کا وارث بن جاتا، اس کے علاوہ کوئی اس سے شادی نہ کر سکتا تھا وہ عورت اسی کے پاس محبوس رہتی تاوقتیکہ فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا نہ لے۔
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 466
2. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 4 : 307
یہ زمانۂ جاہلیت کی عورت کا حال تھا، اس معاشرے میں گنتی کی چند عورتیں ہی ایسی تھیں جنہیں مالک بننے کا حق ملا اور وہ جائیداد کی مالک تھیں، جیسے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما۔ یہ اپنی تجارت کی بھی مالک تھیں، لیکن یہ انفرادی واقعہ ہے، من حیث المجموع جاہلیت کے معاشرے میں عورت کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved