al-Jihad-ul-Akbar

باب ششم :جہاد بالمال

اَلْبَابُ السَّادِسُ: اَلْجِهَادُ بِالْمَالِ

اَلْقُرْآن

  1. اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُکَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِکَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِيْنِo

(الماعون، 107 /3-1)

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟o تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o

  1. وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرٰیo

(الليل، 92 /10-8)

اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہاo اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایاo تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لیے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)o

(3) فَکُّ رَقَبَةٍo اَوْ اِطْعٰـمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍo يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍo اَوْ مِسْکِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍo

(البلد، 90 /13)

وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)oقرابت دار یتیم کوoیا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo

(1) اَلْجِهَادُ بِالْمَالِ مُقَدَّمٌ عَلَی الْجِهَادِ بِالسَّيْفِ

{جہاد بالمال، جہاد بالسیف سے مقدم ہے}

اَلْقُرْآن

(1) فَضَّلَ اللہُ الْمُجَاهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَی الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً.

(النساء، 4 /95)

اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر مرتبہ میں فضیلت بخشی ہے۔

(2) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللہِ.

(التوبة، 9 /20)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے وہ اللہ کی بارگاہ میں درجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔

(3) وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِط ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

(التوبة، 9 /41)

اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (حقیقت) آشنا ہوo

(4) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِط اُولٰـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَo

(الحجرات، 49 /15)

ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعواے ایمان میں) سچے ہیںo

(5) تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِهِ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

(الصف، 61 /11)

(وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہوo

اَلْحَدِيث

45 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : رَجُلٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللہِ بِمَالِهِ وَنَفْسِهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

  1. أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب فضل الجهاد والرباط، 3 /1503، الرقم /1888، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /16، الرقم /11141، وابن حبان في الصحيح، 2 /369، الرقم /606، والطبراني في مسند الشاميين، 3 /54، الرقم /1793.

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: لوگوں میں سے کون سا شخص افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بہترین وہ ہے)جو شخص اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتا ہے۔

اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

(2) رَفَاهِيَةُ النَّاسِ الْاِجْتِمَاعِيَةُ وَالْأُمُوْرُ الْخَيْرِيَةُ جِهَادٌ

{سماجی فلاح و بہبود اور خیراتی اُمور جہاد ہیں}

اَلْقُرْآن

يَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِهِ عَلِيْمٌo

(البقرة، 2 /215)

آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo

اَلْحَدِيث

46 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: اَلسَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْکِيْنِ کَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيْلِ اللہِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

  1. أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب النفقات، باب فضل النفقة علی الأهل، 5 /2047، الرقم /5038، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب الساعي علی الأرملة، 5 /2237، الرقم /5660، ومسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملة والمسکين واليتيم، 4 /2286، الرقم /2982، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 /361، الرقم /8717، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في السعي علی الأرملة واليتيم، 4 /346، الرقم /1969، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب فضل الساعي علی الأرملة، 5 /86، الرقم /2577، وابن ماجه في السنن،کتاب التجارة، باب الحث علی المکاسب، 2 /724.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

47 / 3. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ عَالَ ثَـلَاثَةً مِنَ الْأَيْتَامِ کَانَ کَمَنْ قَامَ لَيْلَهُ، وَصَامَ نَهَارَهُ، وَغَدَا وَرَاحَ شَاهِرًا سَيْفَهُ فِي سَبِيْلِ اللہِ، وَکُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ أَخَوَيْنِ، کَهَاتَيْنِ أُخْتَانِ، وَأَلْصَقَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَی.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

  1. أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب حق اليتيم، 2 /1213، الرقم /3680، والديلمي في مسند الفردوس، 3 /489، الرقم /5520، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /235، الرقم /3834.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تین یتیم بچوں کی کفالت کی وہ اُس شخص جیسا ہے جو رات بھر عبادت کرتا رہا، دن میں روزے رکھتا رہا اور صبح و شام تلوار لے کر اللہ کی راہ میں جنگ کرتا رہا۔ میں اور وہ شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو ملا کر دکھایا۔

اِس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

48 / 4. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْيُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةُ، وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيئِ الْبَصَرِ لََکَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيْقِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.

  1. أخرجه الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في صنائع المعروف، 4 /339، الرقم /1956، والبزار في المسند، 9 /457، الرقم /4070، وابن حبان في الصحيح، 2 /286، الرقم /529، والبخاري في الأدب المفرد، 1 /307، الرقم /891، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /183، الرقم /8342، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1 /235.

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو سیدھا راستہ بتانا صدقہ ہے۔ کسی اندھے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا (بھی) صدقہ ہے۔

اس حدیث کو امام ترمذی، بزار، ابنِ حبان اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

49 / 5. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَيْسَ مِنْ نَفْسِ ابْنِ آدََمَ إِلاَّ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ فِي کُلِّ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيْهِ الشَّمْسُ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، وَمِنْ أَيْنَ لَنَا صَدَقَةٌ نَتَصَدَّقُ بِهَا؟ فَقَالَ: إِنَّ أَبْوَابَ الْخَيْرِ لَکَثِيْرَةٌ: التَّسْبِيْحُ وَالتَّحْمِيْدُ وَالتَّکْبِيْرُ وَالتَّهْلِيْلُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَتُمِيْطُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِيْقِ، وَتُسْمِعُ الْأَصَمَّ، وَتَهْدِي الْأَعْمٰی، وَتَدُلُّ الْمُسْتَدِلَّ عَلٰی حَاجَتِهِ، وَتَسْعٰی بِشِدَّةِ سَاقَيْکَ مَعَ اللَّهْفَانِ الْمُسْتَغِيْثِ، وَتَحْمِلُ بِشِدِّةِ ذِرَاعَيْکَ مَعَ الضَّعِيْفِ. فَهٰذَا کُلُّهُ صَدَقَةٌ مِنْکَ عَلٰی نَفْسِکَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَاللَّفْظُ لَهُ.

  1. أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 /168، الرقم /21522، والنسائي في السنن الکبری، 5 /325، الرقم /9027، وابن حبان في الصحيح، 8 /171، الرقم /3377، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 /106، الرقم /7618، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /377، الرقم /4503، والهيثمي فی موارد الظمآن، 1 /219، الرقم /862.

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر روز، جس میں سورج نکلتا ہے، ہر انسان پر صدقہ لازم ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہم صدقہ کے لیے سامان کہاں سے لائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے دروازے کثیر ہیں۔ سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ ﷲِ، اللہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ کہنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا، بہرے کو بات سنوانا، نابینا کو راستہ بتانا، راہنمائی چاہنے والے کو راہنمائی دینا، اپنی ٹانگوں سے چل کر مظلوم فریادی کی مدد کرنا اور اپنی قوتِ بازو سے ضعیف کی مدد کرنا۔ یہ سب تمہاری طرف سے تمہاری جان کا صدقہ ہیں۔

اِسے امام احمد اور نسائی نے اور ابنِ حبان نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

50-51 / 6. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلْجُلُوْسُ مَعَ الْفُقَرَاءِ مِنَ التَّوَاضُعِ وَهُوَ مِنْ أَفْضَلِ الْجِهَادِ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ فِي الْمُسْنَدِ کَمَا قَالَ السُّيُوطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.

50: أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 /124، الرقم /2646، وذکره السيوطي في جمع الجوامع المعروف بـ: الجامع الکبير، 3 /615، الرقم /21 /10424، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 6 /200، الرقم /16585.

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فقراء اور مساکین کے ہمراہ بیٹھنا عجز و انکساری کی علامت ہے اور یہ افضل ترین جہاد ہے۔

اسے امام دیلمی نے ’مسند الفردوس‘ میں روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی اور ہندی نے بیان کیا ہے۔

(51) قَالَ إِسْمَاعِيْلُ الْحَقِّيُّ: وَکَانَ طَاوُوْسٌ يَرَی السَّعْيَ عَلَی الْأَخَوَاتِ أَفْضَلَ مِنَ الْجِهَادِ فِي سَبِيْلِ اللہِ.

51: إسماعيل الحقي في تفسير روح البيان، 1 /173.

شیخ اسماعیل الحقی فرماتے ہیں: حضرت طاووس (مستحق) بہنوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی اَفضل قرار دیتے تھے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved