اگر لفظِ ‘‘بدعت’’ اور ‘‘اِحداث’’ کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ ہوتی اور اِن کا معنی ہی ضلالت و گمراہی ہوتا تو اِن اَلفاظ کی نسبت کبھی بھی اَعمالِ حسنہ اور اَفعالِ خیر کی طرف نہ کی جاتی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے استعمال کرتے۔
تقسیمِ بدعت پر اِستدلال کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درج ذیل فرمان نہایت اہم ہے جسے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اُون کے کپڑے پہنے ہوئے کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بدحالی اور ان کی ضرورت کو دیکھا تو لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے کچھ دیر کی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے، پھر ایک انصاری درہموں کی تھیلی لے کر حاضر ہوا، پھر دوسرا آیا اور پھر لانے والوں کا تانتا بندھ گیا، حتی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے، تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
1. مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ.
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017
نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554
ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514
ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803
بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531
‘‘جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’
اِمام مسلم (261ھ)نے اس حدیثِ مبارکہ کا باب ‘‘من سن سنة حسنة او سيئة’’ قائم کیا ہے یعنی جس نے اچھی سنت اور بری سنت کا طریقہ وضع کیا۔ امام مسلم نے یہ باب قائم کر کے واضح کر دیا کہ یہاں پر لفظِ سنت سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ جہاں بھی لفظِ سنت استعمال ہو وہاں اس سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سنت صحابہ یا سنت خلفاء راشدین ہی ہو گا ۔ اگر ایسا ہوتا تو امام مسلم کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی نسبت ‘‘سیئۃ’’ کا لفظ استعمال نہ کرتے کیونکہ جو معروف اور متداول معنی میں سنت ہے وہ کبھی سیئۃ ہو ہی نہیں سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو سیئہ یا برا کہنے والا کافر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت عین دین ہے اور بدعت اس کی مخالف اور ضد ہے لہٰذا امام مسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ اور ‘‘سنۃ سیئۃ’’ کی اصطلاح استعمال کر کے اپنا مذہب واضح کر دیا کہ یہاں سنت سے مراد سنتِ رسول نہیں بلکہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ ہے۔ بات واضح ہو گئی کہ زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں لفظِ سنت اپنے شرعی معنی میں یعنی سنتِ رسول یا سنتِ خلفاء راشدین کے معنی میں نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی ہو تو وہ کبھی سیئہ ہو ہی نہیں سکتا اور جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں بلکہ نیا عمل ہے تو وہ بدعت ہے کیونکہ بدعت کہتے ہی ‘‘نئے کام’’ کو ہیں۔
اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ‘‘سنت’’ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ‘‘سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ‘‘حسنہ’’ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہو سکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ‘‘من عمل’’ تو کہہ سکتے ہیں مگر ‘‘من سن’’ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جب سنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہو تو پھر عام آدمی اس سے کیا ‘‘راہ’’ نکالے گا وہ تو صرف عمل اور اتباع کا پابند ہے پس ثابت ہوا کہ ‘‘سن’’ سے مراد نیا عمل اور بدعت ہے۔
علامہ نووی (676ھ) ‘‘شرح صحیح مسلم (1 : 327)’’ میں لکھتے ہیں :
حدیث کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة(1) میں عموم مراد نہیں ہے اور تخصیص کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے : ‘‘من سنّ فی الاسلام سنّة حسنة.’’ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ‘‘کل بدعة ضلالة’’ میں بدعت سے مراد محدثاتِ باطلہ اور بدعاتِ مذمومہ ہیں۔
(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607
2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
جس طرح بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، اسی طرح سنت کی بھی دو قسمیں ہیں، سنتِ شرعی اور سنتِ لغوی۔ سنتِ شرعی سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہے اور جو سنت شرعی نہیں صاف ظاہر ہے وہ سنت لغوی ہو گی۔ سنتِ لغوی سے مراد نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ ہے۔ ائمہ اور محدثین نئے کام اور نئے عمل کو بدعت بھی کہتے ہیں اِس طرح آپ سنتِ لغوی کو بدعتِ لغوی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جو کام سنت نہیں صاف ظاہر ہے پھر وہ بدعت ہی ہو گا اور اسی بدعت کو مصطلحین نے حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا ہے۔
مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘‘منْ سنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً’’ یعنی جس کسی نے اسلام میں کسی ‘‘نیک طریقہ‘‘ کی ابتداء کی۔ اب یہاں مطابقت پیدا کرنے اور نفسِ مسئلہ کو سمجھنے کیلئے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ‘‘مَنْ اَحْدَثَ فی اَمْرِنَا هَذَا’’ کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہر اِحداث ممنوع و مردود نہیں بلکہ صرف وہ اِحداث ممنوع ہو گا جس کی کوئی اصل یا نظیر دین میں نہ ہو۔
زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں اس نئے راستے کو ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کہا گیا ہے یعنی وہ راستہ تھا تو نیا مگر اپنے نئے پن کے باوجود اچھا تھا، بھلائی اور خیر کا راستہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے راستے کو جسے سنۃ حسنۃکے ساتھ ساتھ دیگر اَحادیث مبارکہ میں سنۃ صالحۃ،(1) سنۃ خیر،(2) سنۃِ ہدیٰ،(3) نعم البدعۃ(4) اور بدعۃ ھدی(5) وغیرہ بھی کہا گیا ہے۔ شریعت اس نئے راستے یا طریقے کو اپنانے کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس حوالے سے اسی حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا : ‘‘فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ’’ (اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہء اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی۔) اب اس حدیث کی رو سے اچھا نیا راستہ نکالنا بدعتِ حسنہ ہو گیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ کی اصل سنتِ حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعتِ حسنہ اپنی اپنی اصل میں سنت ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ جس نے مسلمانوں میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا جس نے وہ برا طریقہ ایجاد کیا۔ امام مسلم کے مذہب، اس حدیث کے باب اور متنِ حدیث سے ثابت ہو گیا کہ سنتِ حسنہ سے مراد بدعتِ حسنہ ہے اور سنتِ سیئہ سے مراد بدعتِ سیئہ ہے۔
(1) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673
(2) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675
(3) ابن عبد البر، التمهيد،24 : 327
(4) بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
(5) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674
امام مسلم اسی باب میں دوسری سند کے ساتھ ایک اور حدیث بعض الفاظ کے تغيُر کے ساتھ لائے ہیں۔ حضرت جریر بن عبد اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
2. لاَ يَسُنُّ عَبْدٌ سُنَّةً صَالِحَةً يُعْمَلُ بِهَا بَعْدَهَ ثُمَّ ذَکَرَ تَمَامَ الْحَدِيْثِ.
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673
احمد بن حنبل ، المسند، 4 : 360 رقم : 19206
ْ‘‘جو شخص کسی نیک طریقہ کو ایجاد کرتا ہے جس پر اسکے کے بعد عمل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حسب سابق حدیث ہے۔’’
اسی طرح اِمام ابو القاسم ہبۃ اللہ لالکائی (418ھ) حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا :
3. من سن سنة حسنة هدی فأتبع عليها کان له أجره و مثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئ، و من سن سنة ضلالة فأتبع عليها کان عليه وزره و مثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئ.
اللالکائی، إعتقاد أهل السنة، 1 : 52، رقم : 7
احمد بن حنبل،المسند، 2 : 520، رقم : 10759
‘‘جس نے کسی ‘‘نیک طریقہ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس کا اسکو اجر ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے کسی ‘‘برے طریقہ’’ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اسے اسکا گناہ ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’
اِمام ابنِ عبد البر (463ھ) نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے جس میں ‘‘سنۃ ھدی’’ اور ‘‘سنۃ ضلالۃ’’ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
4. من سن سنة هدی فاتبع عليها کان له اجره او مثل اجر من منقوص من أجورهم شيئا و من سن سنة ضلالة فاتبع عليها کان عليه وزرها و مثل اوزار من منقوص من اوزارهم شيئا.
ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 237
‘‘جس نے کسی ‘‘اچھے طریقے’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس کا اس کو اجر ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی، اور جس شخص نے کسی ‘‘برے طریقے’’ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اسے اس کا گناہ ملے گا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔’’
ان اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کے ساتھ ساتھ دوسری اصطلاحات ‘‘سنۃ صالحۃ’’ اور ‘‘سنۃ ھدی’’ بھی استعمال فرمائی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اَحادیث میں مختلف اِصطلاحات اس لیے استعمال فرمائی ہیں تاکہ یہ تصور واضح ہو جائے کہ لفظِ سنت ہر جگہ اپنے معروف اور متداول معنی میں نہیں بلکہ اس کے حسنہ اور سيِّئہ ہونے کا اِنحصار اُس ‘‘نئے کام’’ پر ہے جس کی طرف اِس کی نسبت کی جا رہی ہے۔ نفسِ مسئلہ سے متعلق آخری حدیث جو اِمام مسلم (261ھ)نے اسی باب کے ذیل میں نقل کی ہے وہ درج ذیل ہے :
5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ رَسُوْل اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُهُ، لَا يُنْقِصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.
مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674
ترمذي، السنن، کتاب العلم عن رسول اﷲA، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43
ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4 : 201، رقم : 4609
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 1 : 75، رقم : 206
ابن حبان، الصحيح باب ذکر الحکم فيمن دعا إلی هدی او ضلالة فاتبع عليه، 1 : 318، رقم : 112
دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 513
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 397، رقم : 9149
أبو عوانة، المسند، 3 : 494، رقم : 5823
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لئے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے اور ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لئے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس بد عملی کا مرتکب ہونے والوں پر ہے اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔’’
اس حدیث اور اس سے قبل بیان کی گئی دیگر اَحادیثِ مبارکہ میں ایک قدرِ مشترک ہے اور ان میں باقاعدہ ایک منطقی ربط ہے وہ یہ کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز میں جوڑا جوڑا ہوتا ہے اِسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطلاحات کے بھی متقابل جوڑے بیان فرمائے ہیں یعنی اگر اللہ کے نظامِ تخلیق اور نظامِ قدرت میں متقابل جوڑے مثلاً بیٹا بیٹی، عورت مرد، بھائی بہن، نر مادہ، اسی طرح اچھا برا، اونچا نیچا، امیر غریب، مشرق و مغرب، زمین و آسمان، ظاہر و باطن وغیرہ ہو سکتے ہیں تو پھر وہی جوڑا جوڑا بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز کو دُہرا دُہرا جوڑا اور دو دو کر کے بیان فرمایا ہے تو پھر بدعت کی تقسیم میں یہ جھگڑا کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی، حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر اَحادیثِ مبارکہ میں اصطلاحات کے متقابل جوڑے بیان کیے ہیں مثلاً تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اِصطلاحات کے درج ذیل متقابل جوڑوں کو اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے :
نعم البدعۃ (1) ۔۔۔۔۔ بدعت ضلالۃ (2)
دعوتِ ھُدًی (3) ۔۔۔۔۔ دعوتِ ضلالۃ (4)
سنۃ حسنۃ (5) ۔۔۔۔۔ سنۃ سیئۃ (6)
سنۃ ھدیً (7) ۔۔۔۔۔ سنۃ ضلا لۃ (8)
سنۃ صالحۃ (9) ۔۔۔۔۔ سنۃ ضلا لۃ (10)
سنۃ خیر (11) fg سنۃ شر (12)
(1) بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
(2) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 : 45، رقم : 2677
(3) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674
(4) ايضاً،
(5) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
(6) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
(7) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327
(8) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327
(9) مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673
(10) ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 327
(11) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675
(12) ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675
ان ساری تفصیلات سے ثابت ہوا کہ جوڑوں کے اس فطری نظام کو نہ ماننا اصل میں اللہ کے نظامِ تخلیق، نظامِ قدرت، نظامِ شریعت، نظامِ احکام اور نظامِ اجر و ثواب کا انکار کرنا ہے۔
‘‘مَنْ دَعَا اِلٰی ضَلاَلة’’ سے اِستدلال جس طرح ‘‘مَنْ دَعَا اِلَی هُدًی’’ میں لفظِ ہدایت عام ہے اسی طرح ‘‘من دعا الی ضلالة’’ میں ضلالۃ کا کلمہ بھی عام ہے، لہٰذا اب کوئی بھی عمل جو گمراہی پر مبنی ہو وہ ضلالہ ہو گا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف وہی اعمال جنہیں کتاب و سنت میں حرام کہا گیا ہے ضلالہ شمار ہوں گے اور اس کے علاوہ بے شمار وہ اعمال جو دین میں نقصان کا باعث ہیں، جو اَخلاق اور شرم و حیاء کے خلاف ہیں، جو عقائد و مذہب کے خلاف ہیں، جو معاشرتی اقدار کے خلاف ہیں ‘‘ضلالۃ’’ شمار نہیں ہوں گے ،بلکہ اس کے برعکس وہ تمام اعمال جن کے حرام ہونے کا اگرچہ کتاب و سنت میں ذکر نہ ہو لیکن وہ روحِ دین سے متناقض و متخالف ہوں ‘‘ضلالۃ’’ہوں گے۔
زیر بحث حدیثِ مبارکہ میں ضلالۃ اور ھُدی کے الفاظ باہم متقابل ہیں۔ اگر مفہومِ مخالف یعنی ضلالۃ کے مفہوم کو پہلے متعین کر لیا جائے تو اس کے بعد متقابل مفہوم خود بخود متعین ہو جائے گا، جیسے مسئلہ توحید اور شرک میں اگر توحید کا مفہوم پہلے متعین کر لیا جائے تو شرک کا مفہوم خود بخود واضح ہو جائے گا مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ غیر اللہ کو وسیلہ بنانا شرک ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ پھر کیا اللہ کو وسیلہ بنایاجائے گا؟ اور اگر اللہ کو وسیلہ بنایا جائے گا تو پھر اللہ کس کے لیے وسیلہ ہو گا یعنی مقصود کون ہو گا؟ کیونکہ وسیلہ مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ وسیلہ اللہ کا حق نہیں بلکہ مخلوق کا حق ہے، لہٰذا مخلوق کو اگر اس کا حق دیا گیا تو وہ شرک کیسے ہو گیا؟ اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دو چیزیں متقابل ہوں اور ان میں سے ایک کا مفہوم پہلے متعیّن کر لیا جائے تو دوسری کو سمجھنا اور اس کا اِطلاق کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
‘‘صحیح مسلم’’ کی مذکورہ روایت میں ہم نے پہلے ‘‘من دعا الی ضلالة’’ کا مفہوم متعین کیا ‘‘من دعا الی هدًی’’ کا نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ‘‘ھدًی’’ پر تو بحث اور اختلاف ہے۔کوئی کہہ سکتا کہ اس سے مراد صرف سنت ہے حالانکہ ہم سنت کے علاوہ بھی بے شمار اُمورِ خیر مراد لیتے ہیں، لہٰذا جو چیز بحث طلب ہے اس کا تعین تو نہیں ہو گا اور جس کا تعین آسان ہے اس کا کر لیا جائے۔ مذکورہ حدیث میں لفظِ ‘‘ضلالۃ’’ عام ہے جس کا اِطلاق ہر قسم کے ضلالات، سيِّئات، قبیحات اور کریہات پر ہوتا ہے یعنی وہ نئے اُمور جو محرّمہ ہوں یا مفضی اِلی الحرام یا اُمت کو گمراہی کی طرف لے جا رہے ہوں، سب ‘‘ضلالۃ’’ میں داخل ہوں گے لہٰذا جس طرح ضلالۃ کو عام اور وسیع تناظر میں لیا جائے گا اسی طرح اس کے متقابل ‘‘من دعا الی هدًی’’ کے مفہوم کو بھی عام اور وسیع تناظر میں لیا جائے گا۔ یعنی ‘‘ھُدًی’’ سے مراد کتاب و سنت کے حکم کی طرف بلانا بھی ہے۔ اور ایسے بے شمار اعمالِ صالحہ کی طرف بھی جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم نہیں ملتا۔ جیسے اس طرح کے اُمورِ خیر کی طرف دعوت کہ جس سے لوگوں کے اَخلاق سنور جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہو جائے، لوگوں کے اندر عبادت کا ذوق و شوق پیدا ہو جائے، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کے ادب و اِحترام کا جذبہ پیدا ہو جائے، تلاوتِ قرآن اور صدقہ و خیرات کی ترغیب ملے، الغرض کوئی بھی خیر کا پہلو جو اُمت میں بہتری کا سبب بنے ‘‘مَنْ دَعَا اِلَی هُدًی’’ میں شامل ہو گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحیح حدیث کی روشنی میں دونوں متقابل چیزوں کے راستوں کا کھلنا اور ان پر اَجر و گناہ، دونوں صورتوں میں متحقق ہوتے ہیں۔
امام ترمذی (279ھ) اسی مفہوم کی ایک اور حدیث حضرت جریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
6. مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، فَلَهُ أَجْرُهُ، وَ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنِ اتَّبََعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَ مَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ، وَ مِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا.
ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675
عسقلانی، فتح الباری، 13 : 302
مبارکپوری ،تحفة الأحوذی، 7 : 365
ابن حزم، المحلی، 8 : 16
‘‘جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اور اسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا۔ جبکہ انکے ثواب میں کوئی کمی (بھی) نہ ہوگی۔ اور جس نے برا طریقہ جاری کیا پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تو اس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کے گناہ کے برابر بھی جو اس پر عمل پیرا ہوئے۔ بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔’’
یہ حدیثِ مبارکہ اِمام ترمذی کتاب العلم میں باب ما جاء فيمن دعا الی هدیً فاتبع أو إلی ضلالة کے ذیل میں لائے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر ‘‘من دعا الی هدیً’’ کو سنت کے ساتھ مخصوص کر دینا ہوتا تو امام ترمذی لفظِ ‘‘ھدًی’’ استعمال کرنے کی بجائے فقط ‘‘سنۃ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے یعنی واضح طور پر کہہ دیتے کہ ہر وہ چیز جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کی سنت نہیں، وہ بدعت اور ضلالت و گمراہی ہے تو اس طرح ضلالت کے متقابل لفظِ سنت اور ھدًی ہوتے مگر چونکہ ایسا نہیں لہٰذا انہوں نے ضلالۃ کے مقابلے میں لفظ ھدًی استعمال کیا تاکہ اس میں اُمورِ سنت کے ساتھ ساتھ وہ اُمور بھی داخل ہو جائیں جو مبنی بر خیر اور تابع سنت ہیں۔ جس طرح سنتوں کو نفل، مستحبات، حسنات اور اعمالِ خیر بھی کہہ دیتے ہیں اسی طرح ‘‘ھدًی’’ میں سنت اور تابع سنت تمام اُمور آ جاتے ہیں۔ امام مسلم (261ھ) نے بھی امام ترمذی کی طرح باب من سن سنة حسنة أو سيئة و من دعا إلی هدی أو ضلالة قائم کر کے اس کے ذیل میں مَنْ دَعَا اِلی هدًی والی حدیث بیان کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ امام مسلم کا بھی وہی مذہب ہے جو امام ترمذی کا ہے۔
زیر بحث حدیثِ مبارکہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس طرح ‘‘صحیح مسلم’’ کی حدیث میں سنۃ حسنۃ اور سنۃ سیئۃ کی اِصطلاح اِستعمال ہوئی تھی اسی طرح ترمذی کی اس حدیث میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پاک سے سنۃ خیرٍ اور سنۃ شرٍّ کی اِصطلاح استعمال ہوئی۔ یہاں سنت سے مراد سنتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنتِ لغوی ہے ورنہ یہ تقسیم نہ ہوتی کیونکہ سنتِ شرعی کبھی ‘‘شرّ‘‘ نہیں ہو سکتی وہ خیر ہی خیر ہوتی ہے، لہٰذا یہاں ‘‘سنۃ خیر’’ سے مراد کوئی نیا کام، کوئی اُسوہ اور کوئی اچھا طریقہ مراد ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جب سنت شرعی مراد نہ رہی تو نئے کام کی وجہ سے اسے بدعت کہیں گے دوسرے لفظوں میں اسے بدعت خیر اور بدعت شر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور آنے والے زمانوں میں سنت خیر یا بدعت خیر کے اجراء اور پھر اس پر عمل کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجر کی نوید سنائی ہے کہ جس نے کوئی نیا کام کیا جو میری سنت میں نہیں تھا یعنی بدعت تھا مگر خیر اور بھلائی کا کام تھا اس کے لیے اجر ہے۔ اسی طرح اگر شر اور برائی کی بدعت کا آغاز کیا تو اس پر گناہ ہے۔ مختصر یہ کہ نصوصِ قطعیہ سے بدعت کی تقسیم ثابت ہوتی ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کے فوراً بعد ‘‘باب ما جاء فی الاخذ بالسنة وإجتناب البدعة’’ قائم کیا ہے۔ اس باب میں وہ سنت کے مقابلے میں اجتناب عن البدعۃ کی بحث لائے لہٰذا یہاں سنت سے مراد سنتِ شرعی اور بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہو گی۔ اَصل میں اِمام ترمذی یہاں اُوپر نیچے دو باب قائم کر کے اپنا علمی مسلک اور مذہب بیان کر رہے ہیں، پہلے اُنہوں نے باب ما جاء فيمن دعا الی هدی فاتُّبِعَ أوْ إِلی ضَلالَة قائم کیا اور اس کے فوراً بعد باب ماجاء فی الاخذ بالسنة و اجتناب البدعة قائم کیا۔ پہلے باب میں لفظ ھدًی اور ضلالۃ میں وسعت اور تعمیم ہے جبکہ دوسرے باب میں چونکہ سنت کے متقابل لفظ بدعت ہے لہٰذا اس میں تخصیص اور تقیید ہے۔ یعنی سنت سے مراد سنتِ شرعی اور بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہے۔ یعنی دو باب قائم کرنے کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اِمام ترمذی کے نزدیک ہر نیا کام سیئہ اور ضلالہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دوسرے باب میں حدیث فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين کو ذکر کیا ہے جس کے مفہوم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اور اپنے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کے ساتھ معین و محصور کر کے سنتِ شرعیہ قرار دے دیا لہٰذا جب سنت کا معنی متعین کر دیا تو اس کے متقابل اور متضاد بدعتِ سیئۃ ہو گی، اسی حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایسی بدعات سیئات سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وإياکم ومحدثاتِ الأمورِ فإنّها ضلالة (1) یعنی میرے امر کے خلاف جو محدثات الامور یعنی فتنہء ارتداد، فتنہ انکار زکوٰۃ، فتنہ ادعاء نبوت وغیرہ سر اٹھائیں انہیں چھوڑ دینا اور میری اور میرے صحابہ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینا۔ گویا یہاں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کے معنی کو اتنی بڑی شناخت کے ذیل میں ذکر کر کے اپنی اور خلفاء راشدین کی سنت کے متقابل ٹھہرایا۔ جب اس باب کو امام ترمذی نے الگ کر دیا تو باقی جتنے بھی نئے کام بچے ان کے لیے دونوں راستے کھول دیے گئے، اسی لیے اس سے پچھلے باب کی حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنۃ خیر اور سنۃ شر کے الفاظ استعمال کیے کہ اگر نئے امور نیکی، بھلائی اور خیر پر مبنی ہوں گے تو سنت حسنہ یا بدعتِ حسنہ ہوں گے اور اگر برائی، ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہوں گے تو سنت سیئہ یا بدعت سیئہ ہوں گے۔
(1) 1. ترمذی، الجامع الصحيح، ، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة و اِجتناب البدع، 5 : 44، رقم : 2676
2. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
امام ترمذی اس سے اگلے باب میں حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
7. مَنْ أحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أمِيْتَتْ بَعْدِي، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الأجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا، مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لاَ تَرْضِی اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، کَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ ذَلِکَ مَنْ أوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا.
ترمذی، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 : 45، رقم : 2677
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب مَن احيا سنّة قد ا ميتت، 1 : 76، رقم : 209
بزار، المسند، 8 : 314، رقم : 3385
طبرانی، المعجم الکبير، 17 : 16، رقم : 10
بيهقی، کتاب الإعتقاد، 1 : 231
منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 49، رقم : 97
‘‘جس نے میرے بعد کوئی ایسی سنت زندہ کی جو مردہ ہو چکی تھی تو اس کیلئے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا اس پر دیگر عمل کرنے والوں کے لئے۔ اس کے باوجود ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جس نے گمراہی کی بدعت نکالی جسے اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے تو اس پر اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس برائی کا دیگر ارتکاب کرنے والوں پر ہے اور اس سے ان کے گناہوں کے بوجھ میں بالکل کمی نہیں آئے گی۔’’
اِس حدیثِ مبارکہ میں لفظِ سنت کو بدعت کے متقابل لایا گیا ہے۔ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ سنت ہر جگہ بدعت کے متقابل نہیں ہوتی لیکن جس حدیثِ مبارکہ میں تخصیص کے ساتھ سنت کو بدعت کے مقابلے میں لایا جائے تو وہاں سنت سے مراد سنتِ شرعیہ اور بدعت سے مراد بدعت شرعیہ ہوتی ہے۔ یہ ایسی بدعت ہوتی ہے جس کے کرنے سے کوئی نہ کوئی سنت ترک ہوتی ہے اس موقف کی تائید مسند احمد کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
8. مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً اِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُنَّةِ فَتَمَسُّکٌ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ اِحْدَاثِ بِدْعَةً.
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 105، رقم : 17095
‘‘جب کوئی قوم دین میں بدعت کا آغاز کرتی ہے تو اس کے مثل ایک سنت اُٹھا لی جاتی ہے لہٰذا سنت کو مضبوطی سے پکڑ نا، اِحداثِ بدعت سے بہتر ہے۔’’
زیر نظر حدیثِ مبارکہ میں وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً فرمانے کی بجائے اِضافت کے ساتھ وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ فرمایا یعنی جس نے گمراہی کی بدعت ایجاد کی۔ اس سے قبل اس سے ملتی جلتی تراکیب سنۃ سیئۃ اور سنۃ شر کی صورت میں گزر چکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر بدعت ‘‘ضلا لۃ‘‘ نہیں ہوتی اگر ہر بدعت گمراہی کی بدعت ہوتی تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کبھی اضافت کے ساتھ یہ کلمہ نہ فرماتے۔ اگر بدعت کے معنی ہی ضلالت و گمراہی ہوتے تو کبھی بھی بدعۃ ضلالۃٍ نہ فرمایا جاتا جیسے عبادۃ خیر، عبادۃ صالحہ اور صلاۃ خیر کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی کیونکہ جو کلمہ خود اپنے معنی میں واضح ہو اور اس میں تقسیم کی گنجائش نہ ہو یا اس کا مدمقابل کوئی نہ ہو تو اس میں اِضافت لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ بعض اوقات زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے مرکب توصیفی آ جاتا ہے لہٰذا جب ‘‘بدعۃ ضلالۃٍ’’ فرمایا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کر دیا کہ میری مراد یہاں نیکی اور بھلائی کے نیک کام نہیں بلکہ برائی اور گمراہی کے کام ہیں۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ‘‘کل بدعة ضلالة’’ کا مفہوم متعین فرما دیا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ صرف وہ بدعت گمراہی ہو گی جو مبنی برضلالت ہو گی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بدعۃ ضلالۃ ہمیشہ ‘‘اماتتِ سنت’’ کے مقابلے میں آتی ہے۔ اس سے کوئی نہ کوئی سنت متروک ہوتی ہے۔ اسی بدعت کے لئے فرمایا گیا کہ جس نے اس کے مقابلے میں سنت کو زندہ کیا اس کے لئے اجر ہے اور جس نے ایسی بدعت کی راہ نکالی جو سنت کے ترک کا باعث ہو تو وہ گمراہی ہے۔
اب اَربابِ فکر و دانش خود فیصلہ کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلِ میلاد، اولیاء اﷲ کے لئے اِیصالِ ثواب، نمازوں کے بعد مصافحہ، اَذان کے بعد صلوۃ و سلام اور دیگر جمیع اُمورِ صالحات سے کون سی سنت متروک ہو رہی ہے، بلکہ یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر مبنی اعمال ہیں۔ اب ان تفصیلات سے بدعۃ ضلالۃ کا مفہوم متعین ہو گیا کہ آپ کسی عمل کو اس وقت تک بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ شرعیہ نہیں کہہ سکتے جب تک اس کے متقابل کوئی سنت ثابت نہ ہو کہ اس عمل نے اس سنت کو متروک کر دیا ہے یا یہ بدعت اس سنت سے ٹکراتی ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر نئے کام پر کل بدعة ضلالة کا حکم نہیں لگایا جا سکتا لہٰذا اب اگر کوئی یہ کہے کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں کہا جائے گا کہ نہیں بلکہ کل بدعۃ سیئۃ ضلالۃ یعنی صرف بدعت سیئہ باعثِ ضلالت ہو گی۔ اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ نے یہ معنی کہاں سے نکال لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے من ابتدع بدعة ضلالة میں بدعۃ ضلالۃ کو مضاف، مضاف الیہ کر کے اس معنی کو خود متعین فرما دیا ہے کہ کوئی عمل اس وقت تک بدعت ضلالہ نہیں ہو گا جب تک وہ کسی خاص سنت کے ترک ہو جانے کاسبب نہ بنے۔
معروف اہلِ حدیث عالم مولانا صدیق حسن خان بھو پالی (1307ھ) بھی واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں (1327ھ) اپنی کتاب ‘‘ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
‘‘بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’
گویا بھوپالی صاحب نے ہر اُس نئے عمل کو بدعت ماننے سے اِنکار کر دیا ہے جس کے مدّمقابل کوئی خاص سنت ترک نہ ہو. اُنکے نزدیک ایسا ہر نیا عمل اپنی اصل میں مباح اور جائز ہے۔
اس حوالے سے ایک بہت اہم دلیل یہ ہے کہ وہ نیا کام جسے اُمت کی اکثریت اچھا سمجھ کر کر رہی ہو اور ان کرنے والوں میں صرف ان پڑھ دیہاتی لوگ اور عوام الناس ہی نہ ہوں بلکہ اُمت کے اکابر علماء، فقہاء، محققین اور مجتہدین بھی شامل ہوں تو وہ کام کبھی برا یعنی بدعتِ ضلالہ نہیں ہو سکتا لہٰذا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کا کسی کام کو کثرت کے ساتھ کرنا دلیل شرعی بنا دیا یعنی جمہور امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ اس کی دلیل مسند احمد بن حنبل کی درج ذیل روایت ہے جس میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
9. إِنَّ اﷲَ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ الْعِباد ،ِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَجَدَ قُلُوْبَ أصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُوْنَ عَلَی دِيْنِهِ، فَمَا رَأی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَا رَاَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ سَيِّئٌ.
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
طبرانی،المعجم الکبير ، 9 : 112، رقم : 8583
بزار، المسند، 5 : 212، رقم : 1816
حاکم ، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465
بيهقی ، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114
طيالسی ، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246
‘‘اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا لہٰذ اِسے اپنی ذات کیلے منتخب فرما لیا۔پھر رسالت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعو رضی اللہ عنہم فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کے بعد پھر لوگوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے دلوں کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو اُنہیں اپنے نبی کا وزیر بنا دیا جو اُس نبی کے دین کے لیے مقاتلہ کرتے ہیں۔ پس جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو یہ برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے‘‘
زیرِ بحث موضوع پر مزید دلائل سے قبل مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں ضمنًا ایک بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد نبوت و رسالت ملی اور پھر نبوت و رسالت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَوصافِ حسنہ سے نوازا گیا۔ یہ بات غلط ہے بلکہ ‘‘فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْرَ قُلُوْبِ العِبَادِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَابْتَعَثَه بِرِسَالَتِهِ’’ کے الفاظ واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب دلوں سے اچھے دل والا بعثت سے پہلے بنایا گیا یعنی شانِ محبوبیت پہلے دی گئی اور نبوت و رسالت کے ساتھ مبعوث بعد میں فرمایا گیا۔ نفسِ مضمون سے متعلقہ بات مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہ ہے کہ حضورA نے اعمالِ حسنہ اور اعمالِ قبیحہ کے تعیّن کے لئے یہ دلیل شرعی دے دی کہ مسلمان بالعموم جس کام کو اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کو یہ برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔ اِمام طبرانی(360ھ) المعجم الکبیر میں اس روایت کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں :
10. مَارَاٰهُ المُؤْمِنُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَارَاٰهُ المُوْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ.
طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465
بيهقی، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114
طيالسی، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246
‘‘جس کام کو مومنین اچھا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو مومنین برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔’’
اب یہاں پر قرآن و حدیث کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی قبیح کام پر متفق نہیں ہو سکتی۔ اس لئے فرمایا مسلمان جسے عام طور پر اچھا جانیں وہ اﷲ کے ہاں بھی اچھا ہے اور مسلمان جسے برا جانیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی برا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا کسی چیز کو بالعموم اچھا جاننا شرعًا دلیل ہے۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص عمل جو اپنی ہیئت کذائیہ میں نیا ہے۔ کتاب و سنت کی نصوص، عہدِ رسالتمآب اور عہدِ صحابہ میں ثابت نہیں مگر اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے حسنہ ہو گیا تو اس کا جواب مذکورہ روایت میں ہے کہ جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ حسنہ ہے۔ لہٰذا اگر اس کی ہئیت کذائیہ ثابت نہیں تو مذکورہ دلیل کی بنا پر اس کی اصل اور دلیل ثابت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعتِ سیّئہ نہ رہی۔ اَب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اس میں ذکر و اَذکار، صلوۃ و سلام، نعت خوانی ان تمام اَعمالِ حسنہ کی اصل مذکورہ روایت ہے۔ یہی روایت اِمام بزار رحمۃ اللہ علیہ (229ھ) نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے :
11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : فَمَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَ مَا رَآهُ الْمُؤْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ.
بزار، المسند، 5 : 212، رقم : 1816
طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
احمد بن حنبل ، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
حاکم ، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465
بيهقی ، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114
طيالسی ، المسند، 1 : 33، رقم : 246
‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جس (عمل) کو کوئی مومن اچھا جانے وہ (عمل) اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے تمام مومنین برا جانیں وہ خدا کے نزدیک بھی بُرا ہے۔’’
اس حدیثِ مبارکہ میں بہت ہی اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ ہر وہ نیا کام جو مصلحتِ دینی پر مبنی ہو اور اسے کوئی مردِ مؤمن جو متقی، عالم، فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجتہدانہ بصیرت کا حامل بھی ہو، وہ اسے اچھاجانے تو وہ مباح اور جائز ہے۔ یعنی دلائلِ شرعیہ پر نظر رکھنے والا مردِ مو من کبھی بھی غیر شرعی اُمور کو جائز نہیں کہتا۔ اس حوالے سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث بھی نفسِ مضمون کو سمجھنے میں مدد دے گی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَهُ اَجْرَان وَ اِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأ فَلَهُ اجْر.
بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب اجر الحاکم اِذا اجتهد، 6 : 2676، رقم : 6919
مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب بيان اجر الحاکم اِذا اجتهد فأصاب او اخطأ، 3 : 1342، رقم : 1716
ترمذی، الجا مع الصحيح، ابواب الاحکام، باب ماجاء فی القاضی يصيب ويخطیٰ، 3 : 615، رقم : 1326
أبو داود،السنن، کتاب القضاء، باب فی القاضی يخْطِی، 3 : 299، رقم : 3574
نسائی، السنن، کتاب آداب القضاة، باب الاصابة فی الحکم، 8 : 223، رقم : 5381
ابن ماجه، السنن، کتاب الأحکام، باب الحاکم يجتهد فيصيب الحق، 2 : 776، رقم : 2314
‘‘جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ کر دے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جب اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے غلطی ہو جائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔’’
یہ صرف مجتہد کی شان ہے کہ اس کا اجتہاد، اجتہادِ صحیح تھا مگر نتیجہ خطاء کی صورت میں نکلا تو اس کے لئے بھی اجر ہے۔ ایسے ہی مجتہد کے متعلق فرمایا گیا کہ مَا رَاٰهُ المُؤْمِنُ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ یعنی جس کو کوئی ایک مردِ مومن جو دلیلِ شرعی، تقوٰی اور صالحیت پر قائم رہنے والا ہو، اچھا جانتا ہو وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ لہٰذا کسی کام کو اچھا سمجھ کر قبول کرنے کے لئے تو ایک مردِ مومن کا اچھا سمجھنا بھی کافی ہے۔ لیکن اس کے برعکس کسی کام کو ضلالہ، گمراہی اور مردود قرار دینے کے لئے فرمایا : ‘‘ما راٰه المؤمنون قبيحًا فهو عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ’’ یعنی جس کو سارے مومن مل کر برا کہیں تب وہ اﷲ کے ہاں برا ہوگا۔ کسی کام کو بدعتِ سیّئہ قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اُمت کی اکثریت اسے بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ قبیحہ سمجھے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ کسی کام کو اچھا سمجھنے کے لئے صرف ایک مردِ مومن کافی ہے۔ اس پر دلیل کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دلیل فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا رَاٰهُ المُؤمِنُ حَسَنٌ فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ ہے اور فرمانِ رسولA پر دلیل طلب کرنا کفر ہے۔ مگر اس کے باوجود سمجھانے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر کوئی ایک مومن بھی کسی چیز کو حسن کہے تو وہ حسن کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہاں مومن سے مراد ‘‘مومنِ مجتہد‘‘ ہے اور ایسے مومن کے لئے فرمایا گیا : اِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أخْطَأ فَلَهُ اَجْرٌ کہ اگر مومنِ مجتہد خطاء بھی کر بیٹھے تو بھی اس کے لئے اجر ہے۔ چونکہ اس مومنِ مجتہد کا فیصلہ ہر صورت میںـ باعثِ اجر ہے اس لئے اس کو ‘‘حسن‘‘ فرمایا گیا۔ جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کا اجر بھی اس کو دیا جائے گا کیونکہ مومن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایسا عمل ایجاد کرے گا جو سنت فوت ہونے کہ باعث ہو کیونکہ اس کا ٹکراؤ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے نہیں ہے کیونکہ وہ خود بھی عامل بالسنہ ہے۔ اس لئے جب وہ حکم دیتا ہے تو حسن ہوتا ہے لیکن کسی امر کو قبیح اور ضلالہ کہنا بہت بڑی بات ہے اس لئے فرمایا : مَا رَاٰهُ الْمُوْمِنوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اﷲِ قَبِيْحٌ : یہاں لفظِ ‘‘مؤمنون’’ جمع کا صیغہ استعمال کیا یعنی جس عمل کو کثرت سے مؤمنین قبیح کہیں وہ عند اﷲ بھی قبیح ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ جمہور اُمت کبھی ضلالت و قباحت پر جمع نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اس کے پیچھے اُمت کی اکثریت اور اﷲ کی نصرت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اُمت کی اسی اکثریت کو حدیث مبارکہ میں ‘‘الجماعۃ’’ اور ‘‘السواد الاعظم’’ کہا گیا ہے۔ ‘‘جامع ترمذی’’ کی کتاب الفتن کے باب ما جاء فی لزوم الجماعة میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اﷲَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي (أوْ قَالَ أمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم) عَلَی ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذََّ إِلَی النَّار.
ترمذی، السنن، کتاب الفتن ، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 466، رقم : 2167
حاکم، المستدرک، 1 : 201، رقم : 397
مناوی، فيض القدير، 2 : 271
‘‘اللہ تعالیٰ میری اُمت (یا فرمایا : اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ میں ڈال دیا گیا۔’’
اِس حدیثِ مبارکہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سو فی صد افرادِ اُمت کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہونگے بلکہ اس سے مراد ہمیشہ اکثریت ہوتی ہے کہ اُمت کی اکثریت کبھی ضلالہ پر مجتمع نہیں ہوگی کیونکہ يَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَة یعنی اﷲ کی حفاظت کا ہاتھ ہمیشہ جماعت پر ہوتا ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسی باب میں ایک اور حدیث روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کے ساتھ رہنے اور دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقوں، مسلکوں اور گروہوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
عليکم بالجماعة و اياکم والفرقة فان الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد من اراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة.
ترمذی،الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4 : 465، رقم : 2165
احمد بن حنبل ، المسند، 5 : 370، رقم : 23194
بيهقی، السنن لکبری ، 5 : 388، رقم : 9225
بيهقی، شعب الايمان، 7 : 488، رقم : 11085
هيثمی، مجمع الزوائد، 5 : 217
‘‘تم پر جماعت کے ساتھ ملے رہنا لازم ہے اور علیحدگی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ دو آدمیوں سے دور رہتا ہے (لہٰذا) جو شخص جنت کا وسط (اعلیٰ درجات) چاہتا ہے اس کے لئے جماعت سے وابستگی لازمی ہے۔’’
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلقین فرمائی کہ شیطان سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ فرقوں اور گروہوں کو چھوڑ کر جماعت کے ساتھ وآبستہ ہو جاؤ ۔جماعت اور سوادِ اعظم کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اثنان خير من واحد وثلاثة خير من اثنين واربعة خير من ثلاثة فعليکم بالجماعة فإن اﷲ لن يجمع أمتی إلا علی هدي.
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21190
هيثمی، مجمع الزوائد، 1 : 177
ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 457، رقم : 37192
بيهقی، شعب الايمان، 6 : 67، رقم : 7517
ابن ابی عاصم، السنة، 1 : 42، رقم : 85
‘‘(کسی مسئلے پر) دو کا ایک کے مقابلے میں جمع ہونا بہتر ہے۔ اسی طرح تین دو کے مقابلے میں بہتر ہیں اور چار تین کے مقابلے میں۔ تم پر (اکثریتی) جماعت کی پیروی لازم ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ میری اُمت کو سوائے ہدایت کے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہونے دے گا۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمثیل سے سمجھایا کہ دو کا اکٹھا ہونا ایک سے بہتر ہے۔ تین کا دو سے بہتر ہے اور چار کا تین سے بہتر ہے۔ یہ مثالیں دینے کے فورًا بعد فرمایا : علیکم بالجماعۃ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکثریت کو جماعت کا درجہ دے دیا اور اُمت کو نصیحت کی کہ وہ سب سے بڑی جماعت کے ساتھ ہو جائیں۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (405ھ) نے ‘‘المستدرک’’ میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَجْمَعُ اﷲُ هَذِهِ الأمَّةَ عَلَی الضَّلَالَةِ أبَدًا وَ قَالَ : يَدُ اﷲِ عَليَ الْجَمَاعَةِ، فاتبعوا السواد الاعظم، فانه من شذّ شذّ فی النار.
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، کتاب العلم، 1 : 200، رقم : 391
ترمذی، الجامع الصحيح،کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4 : 266، رقم : 2167
نسائی، السنن، کتاب المحاربة، باب قتل من فارق الجماعة، 7 : 92، رقم : 4020
طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 193، رقم : 7249
طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 186، رقم : 489
‘‘اللہ تعالیٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا اور فرمایاجماعت پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے پس تم سوادِ اعظم کی اتباع کرو کیونکہ جو ان سے الگ ہوا گویا وہ آگ میں جا گرا۔’’
اس حدیثِ مبارکہ نے بالکل واضح کر دیا اور تخصیص کر دی کہ اﷲ کا دستِ حفاظت اس مسلک پر ہوگا جو سب سے بڑا مسلک یعنی سوادِ اعظم ہوگا تو گویا جس مسلک پر اُمت کی اکثریت قائل اور عامل ہو گی اس پر اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہو گا۔ اسی حوالے سے ‘‘سنن ابن ماجہ’’ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إنّ اُمّتی لا تجتمع علی ضلالة فاذا رائتم اختلافاً فعليکم بالسواد الاعظم.
ابن ماجه، السنن، کتاب السنن، باب السواد الاعظم، 2 : 1303، رقم : 3950
ا بن حميد، المسند، 1 : 367، رقم : 1220
ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662
ابونعيم اصفهانی، حلية الاؤلياء، 9 : 238
ذهبی، سير اعلام النبلاء، 12 : 196
‘‘بیشک میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی پس جب تم اختلاف دیکھو توتم پر سوادِ اعظم (اکثریتی جماعت) کے ساتھ رہنا لازم ہے۔’’
اس حدیثِ مبارکہ میں بصورتِ اختلاف سوادِ اعظم کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘سنن ابن ماجہ’’ کی کتاب الفتن کے باب افتراق الامم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَ الَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أمَّتِيْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَ سَبْعِيْنَ فِرْقَةً َوَاحِدَةً فِی الْجَنَّةِ وَ ثِنْتَانِ وَ سَبْعُوْنَ فِی النَّارِ قِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ مَنْ هُمْ قَالَ الْجَمَاعَةُ.
اِبنِ ماجه، السنن،کتاب الفتن، باب اِفتراق الاُ مم ، 2 : 1322 ، رقم : 3992
ابن أبی عاصم، السنه، 1 : 23، رقم : 36
طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 70، رقم : 129
اللالکا ئی، إعتقاد اهل السنة، 1 : 101، رقم : 149
‘‘قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔جن میں سے ایک جنت اور بہتر جہنم میں ہوں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ جنتی کون ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو جماعت کو پکڑے رہیں گے۔’’
سنن ابن ماجہ کی اس روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پیمانہ (criterion) مقرر فرما دیا کہ اُمت کی اکثریت جن عقائد کو اپنائے گی وہ صحیح ہوں گے۔ لہٰذا بڑے مسلک یعنی سوادِ اعظم کے ساتھ جڑے رہنا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج جو اعمال اُمت کی اکثریت میں رائج ہیں انہیں بدعتِ ضلالہ اور گمراہی کہا جاتا ہے حالانکہ چند خاص طبقات کو چھوڑ کر پورا عالمِ عرب اہلِ سنت و جماعت کے طریقے پر عامل ہے۔ مراکش، سوڈان، الجزائر، ترکی، یونان، ایران، عراق، فلسطین، اُردن، شام اور مصر کے عوام کی بھاری اکثریت اہلِ سنت کے طور طریقوں، شعائر اور کلچر پر عامل ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک میں ادائیگی کے طریقے ذرا مختلف ہیں مگر بنیادی عقائد ایک ہی ہیں۔ المختصر یہ کہ یہ تمام بنیادی عقائد جن کو بعض لوگ تقسیمِ بدعت کے قائل نہ ہونے کی وجہ سے بدعتِ ضلالہ، گمراہی اور شرک وغیرہ کہتے ہیں، جمہورِ اُمت انہیں مباح اور جائز سمجھتی ہے کیونکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ‘‘اِنَّ اُمتی لا تجتمع علی الضلالة’’ کے مطابق اُمت کی اکثریت کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی، لہٰذا اُن کے عقائد اقرب الی الکتاب و سنۃ ہیں اور انہیں ضلالہ و گمراہی کہنا بذات خود جہالت و گمراہی ہے۔
بدعت کی اقسام اور تفصیلات کو متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنی کتب میں اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے جن میں سے چند معروف کتب کے نام درج ذیل ہیں :
الجامع لأحکام القرآن، از امام قرطبی(671ه)، 2 : 87
شعب الايمان، از اِمام بيهقی(458ه)، 3 : 177
المدخل الی السنن الکبری، از امام بيهقی(458ه)، 1 : 206
احياء العلوم الدين، از امام غزالی(505ه)، 2 : 3
النهاية فی غريب الحديث والأثر، از ابن اثير جزری(606ه)، 1 : 106
قواعد الاحکام فی مصالح الانام، از عز الدين بن عبد السلام (660ه)، 2 : 173
تهذيب الاسماء واللغات، از امام نووی(676ه)، 3 : 22
انوار البروق فی انوار الفروق، از امام قرافی(684ه)، 4 : 202
لسان العرب، از ابن منظور افريقی(711ه)، 8 : 6
منهاج السنه، از امام ابن تيميه (728ه)، 4 : 224
سير اعلام النبلاء ، از امام ذهبی(748ه)، 8 : 458
تفسير القرآن العظيم، از ابن کثير(774ه)، 1 : 161
الاعتصام، از امام شاطبی(790ه)، 2 : 111.115
المنثور فی القواعد، از امام زرکشی(794ه)، 1 : 217
جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم، از ابن رجب حنبلی(795ه) : 160
الکواکب الدراری فی شرح صحيح البخاری، از علامه کرمانی(796ه)، 9 : 154
اکمال اکمال المعلم، از علامه وشتانی مالکی(828ه)، 3 : 23
فتح الباری، از ابن حجر عسقلانی(852ه)، 4 : 253
عمدة القاری شرح صحيح البخاری، از علامه عينی(855ه)، 11 : 126
مکمل اکمال المعلم، از علامه سنوسی مالکی(895ه)، 3 : 23
القول البديع فی الصلاة علی الحبيب الشفيع، از امام سخاوی(902ه) : 192
فتح المغيث شرح الفية الحديث، از امام سخاوی(902ه)، 2 : 27
حسن المقصد فی عمل المولد، از امام سيو طی(911ه) : 51
الديباج علی صحيح مسلم بن الحجاج، از امام سيوطی(911ه)، 2 : 445
تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، از امام سيو طی(911ه)، 1 : 105
الحاوی للفتاوٰی، از امام سيوطی(911ه)، 1 : 192
سبل الهدٰی والرشاد، از علامه صالحی شامی(911ه)، 1 : 370
ارشاد الساری لشرح صحيح بخاری، از امام قسطلانی(923ه)، 3 : 426
اليواقيت والجواهر فی بيان عقائد الأکابر، از علامه شعرانی(973ه)، 2 : 288
فتاویٰ الحديثيه، از ابن حجر مکی(974ه) : 130
مرقاة المفا تيح ،از ملا علی قاری(1014ه)، 1 : 216
فيض القدير شرح الجامع الصغير، از علامه مناوی(1031ه)، 1 : 439
سيرت حلبيه از علامه حلبی(1044ه)، 1 : 136
أشعة اللمعات، از شيخ عبدالحق محدث دهلوی(1052ه)، 1 : 125
درّ مختار علی هامش الرد، از علامه حصکفی (1088ه)، 1 : 362
شرح الموطا، ازامام زرقانی(1122ه)، 1 : 238
تاج العروس من جواهر القاموس، از مرتضی زبيدی(1205ه)، 11 : 9
حاشيه طحطاوی علی مراقی الفلاح، از امام طحطاوی(1231ه) : 114
ردالمحتار شرح درالمختار، از علامه شامی(1252ه)، 1 : 524
نيل الأوطار شرح منتقي الأخبار، از علامه شوکانی(1255ه)، 3 : 325
روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم، از علامه آلوسی(1270ه)، 27 : 192
هدية المهدی، از شيخ وحيد الزمان(1327ه) : 117
عون المعبود شرح سنن أبی دائود ،از عظيم آبادی(1329ه)، 12 : 235
مجمع بحار الانوار، از علامه طاهر پتنی، 1 : 80
حواشی الشروانی، علامه شروانی، 10 : 235
تحفة الاحوذی، علامه عبد الرحمن مبارکپوری(1353ه)، 7 : 366
فتح الملهم شرح صحيح مسلم، از شيخ شبير احمد عثمانی(1369ه)، 2 : 406
مغنی المحتاج اِلیٰ معرفة معانی الفاظ المنهاج، از امام شربينی، 4 : 436
اَوجز المسالک الی مؤطا مالک، از علامه زکرياکاندهلوي(1402ه)، 2 : 297
فتاوی اللجنة الدائمة للبحوت العلمية و الإفتائ، از ابن باز(1421ه)، 2 : 325
مفاهيم يجب ان تصح، از شيخ علوی مالکی(1425ه) : 102.106
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے کام کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لئے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب وغیرہ پر اثر پڑتا ہے یا اس کا ان کے ساتھ اختلاف یا تعارض رونما ہوتا ہے۔
اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے۔
بدعت کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے اِس پر بار بار زور دیا جا چکا ہے کہ کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر قابلِ تقلید ٹھہرا لیا جائے یا پھر اسے ضروریاتِ دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہگار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھاجائے، تو اس صورت میں بلاشبہ جائز اور مباح بدعت بھی ناجائز اور قبیح بن جاتی ہے اور اگر جائز اور مستحسن بدعت میں ناجائز امور کو شامل کر دیا جائے جن کی رو سے روحِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہو تو بلاشبہ وہ بدعت بھی قابلِ مذمت ہو گی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved