Aqsam-e-Bid’at:

فصل اول

فصل اَوّل : بدعت کی دو معروف تقسیمات

اَکابر اَئمہ اِسلام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی۔ صرف وہ بدعت ناجائز اور ممنوع ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال، دلیل یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو۔ ایسی بدعت شریعت کے کسی نہ کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو ’’نیا کام’’ احکامِ شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ ایسے اُمور میں داخل ہو جو اَصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتے ہیں تو ایسے جملہ نئے کام محض لغوی اِعتبار سے تو ’’بدعت’’ کہلائیں گے کیونکہ ’’بدعت’’ کا لغوی معنی ہی ’’نیا کام’’ ہے ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور باعثِ ضلالت۔ یقینا ایسے اُمور مبنی بر خیر ’’اُمورِ حسنہ’’ متصور ہوں گے۔

تمام تر لفظی اور اِصطلاحی اِختلافات کے باوجود تمام مکاتبِ فکر اِس اَمر پر متفق ہیں کہ کسی بھی نئے عمل کی حلّت و حرمت یا جواز و عدمِ جواز کے تعیّن کے لیے بدعت کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر، ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد اِیجاد ہوا حرام یا مردود قرار دے دیا جائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اِسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور اِستنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں، اِن کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا۔ کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے نہ ہی عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں۔ اِنہیں تو بعد میں ضرورت کے پیشِ نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اِعتبار سے نئے ہیں، لہٰذا اگر بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ کی جائے تو یہ سب اُمور حرام قرار پائیں گے۔

بدعت کی پہلی تقسیم

  1. بدعتِ لغوی
  2. بدعتِ شرعی

1۔ بدعتِ لُغوی (Literal Innovation)

بدعتِ لغوی سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو صراحتاً کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن ان کی اَصل، مثال یا نظیر شریعت میں موجود ہو اور یہ شریعت کے مستحسنات کے ذیل میں آتے ہوں جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، قرآنی آیات پر اِعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام وغیرہ۔ یہ سب اُمور بدعاتِ لغویہ میں شامل ہیں۔

1۔ اِمام اِبن تیمیہ (728ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ’’ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذهِ(1) کے ذیل میں بدعتِ لغوی کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

إنّما سمّاها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإنّ البدعة الشّرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی.(2)

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 250

2. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

(2) ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224

’’اِسے(یعنی باجماعت نمازِ تراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لُغوی ہے، بدعتِ شرعی نہیں ہے۔ بدعتِ شرعی وہ گم راہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر اَنجام دی جائے۔’’

2. حافظ عماد الدين اسماعيل ابن کثير ’’تفسير القرآن العظيم (1 : 161) ميں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسيم بيان کرتے ہوئے لکھتے ہيں :

والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله صلی الله عليه وآله وسلم : (فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضی الله عنه عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : (نعمت البدعة هذه).

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإنّ کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’

مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه(1) میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ۔

(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 2500

2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250

اَہم نکتہ

علامہ اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ

القرآن، ص، 38 : 30

’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’

اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔

3۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم فی شرح خمسین حدیثا من جوامع الکلم (ص : 253)’’ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

وقد روی الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعی يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه.(1) ومراد الشافعی رضی الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل فی الشريعة ترجع إليه و هی البدعة فی إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعنی ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، وإنما هی بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة.

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

4. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ بدعت محمودہ اور بدعت مذمومہ۔ بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے مطابق و موافق ہو اور جو بدعت سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے۔ انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه سے اِستدلال کیا ہے اور امام شافعی کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے ۔بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے۔ اسی پر بدعتِ شرعی کا اِطلاق ہوتا ہے۔اس کے برعکس بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہو یعنی شریعت میں اس کی اَصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو یہی بدعت لُغوی ہے شرعی نہیں۔

4۔ علامہ بدر الدین محمد بن عبداللہ زرکشی اپنی کتاب ’’المنثور فی القواعد (1 : 217)’’ میں بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فأما فی الشرع فموضوعة للحادث المذموم، وإذا أريد الممدوح قُيدَتْ و يکون ذالک مجازًا شرعياً حقيقة لغوية.

’’شرع میں عام طور پر لفظِ بدعت، محدثہ مذمومہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب بدعت ممدوحہ مراد ہو تو اسے مقید کیا جائے گا لہٰذا یہ بدعت مجازاً شرعی ہو گی اور حقیقتاً لغوی ہو گی۔’’

5۔ اِمام محمد عبد الباقی زرقانی بہت بڑے محدث اور شارح گزرے ہیں۔ وہ حدیث نعمت البدعة هذه(1) کے ذیل میں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250

2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

3. ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 : 266

4. زرقانی، شرح الزرقانی علی مؤطا الامام مالک، 1 : 340

سماها بدعة لانه صلی الله عليه وآله وسلم لم يسن الإجتماع لها، و هو لغة ما أحدث علی غير مثال سبق، و تطلق شرعاً علی مقابل السنة و هی مالم يکن فی عهده صلی الله عليه وآله وسلم ثم تنقسم إلی الأحکام الخمسة وحديث : ’’کل بدعة ضلالة’’ (1) عام مخصوص وقد رغب فيها عمر. (2)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

(2) زرقانی، شرح المؤطا، 1 : 238

’’باجماعت نماز تراویح کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے اجتماع سنت قرار نہیں دیا اور لغوی اعتبار سے بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا گیا ہو اور شرعی طور پر بدعتِ سیّئہ کو سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جسے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ کیا گیا ہو پھر بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور حدیث ’’کلّ بدعة ضلالة’’ عام مخصوص ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس (نماز تراویح) کی ترغیب دی ہے۔’’

2۔ بدعتِ شرعی (Legal Innovation)

بدعتِ شرعی سے مراد اَیسے نئے اُمور ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متخالف و متناقض ہوں اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کے بھی مخالف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اَصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو، ’’بدعت شرعی’’ ہے۔ ذیل میں بدعتِ شرعی کی چند تعریفات ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ علامہ ابن تیمیہ (728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے معروف فتاویٰ ’’مجموع الفتاویٰ (3 : 195)’’ میں لکھتے ہیں :

والبدعة ما خالفت الکتاب والسنة أو اجماع سلف الأمّة من الاعتقادات والعبادات کأقوال الخوارج والروافض والقدرية والجهمية.

’’بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔’’

2۔ شیخ ابن رجب حنبلی (المتوفی 795ھ) بدعت شرعی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا اصل له فی الشريعة يدل عليه واما ما کان له اصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة.

ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 : 252

’’بدعت (شرعی) سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا۔’’

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هَذا مَا لَيْسَ مِنْه فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :

من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد(1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلی الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء فی ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک فی البدع اللغوية لا الشرعية.(2)

(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718

2. ابن ماجه، السنن،المقدمه، باب تعظيم حديث رسول اﷲ، 1 : 7، رقم : 14

3. أحمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372

4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26

5. دار قطنی، السنن، 4 : 224، رقم : 78

(2) ابن رجب حنبلی، جامع العلوم و الحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم : 252

’’(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ) جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہوگی اور دین اس چیز سے بری ہوگا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔’’

3۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالمِ دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس کے نتیجے میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.

’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے۔ جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’

وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت آتی ہے اور قرآن و حدیث کے کسی حکم سے متضاد بھی نہیں وہ مشروع، مباح اور جائز ہے۔ اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کی روح کے منافی ہی نہیں بلکہ منشائے اِلٰہی کے خلاف بھی ہے۔

4۔ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ’’تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی’’میں لکھتے ہیں :

بقوله صلی الله عليه وآله وسلم : کل بدعة ضلالة(1) والمراد بالبعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلی الله عليه وآله وسلم : کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شی وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع فی کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک فی البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر فی التراويح (نعمت البدعة هذه) (2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان(3) لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روی عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه فی التراويح.(4)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

(2) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250

2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250

4. ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1 / 266

(3) 1. بخاری، الصحيح، کتاب الجمعه، باب الجلوس علی المنبر، 1 : 310، رقم : 873

2. شمس الحق،عون المعبود، 3 : 302

3. وادياشی، تحفة المحتاج، 1 : 506، رقم : 624

4. شوکانی، نيل الاوطار، 3 : 323

(4) مبارک پوری، جامع الترمذی مع شرح تحفة الاحوذی، 3 : 378

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کل بدعة ضلالة (ہر بدعت گمراہی ہے) - میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول کل بدعة ضلالة جوامع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اَسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیہ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان نعمت البدعة هذه ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت هذه بدعة فنعمت البدعة’’ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے)۔ اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ باجماعت نماز تراویح ’’نعمت البدعۃ’’ ہے)۔’’

وضاحت

تقسیمِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بعض اوقات ایک کام محض لُغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں۔ بعض لوگ بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں۔ لفظِ بدعت، چونکہ بَدَعَ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’نیا کام’’ کے ہیں۔ اس لئے لُغوی اعتبار سے ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نامقبول بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اِس اِبہام سے بچنے کے لیے بدعت کی ایک اُصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا، مذموم، حرام اور باعث ضلالت قرار نہیں دیا بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعۃِ لغویہ’’ کے زمرے میں رکھا ہے اور کسی کو ’’بدعۃِ شرعیۃ’’ کے زمرے میں۔ اس طرح صرف بدعتِ شرعیہ کو ہی بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔

اس تقسیم کو صراحتاً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے ابنِ تیمیہ (728ھ)، ابنِ کثیر (774ھ)، ابنِ رجب حنبلی (795ھ)، علامہ شوکانی (1255ھ) اور علامہ بھوپالی(1307ھ) سے لے کر شیخ عبد العزیز بن باز (1421ھ) تک، ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض علماء اور محدّثین جو اپنے آپ کو ’’سلفی’’ کہتے ہیں، سوادِ اَعظم سے اپنے آپ کو جدا قرار دیتے ہیں اور کسی لحاظ سے بھی بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم جائز نہیں سمجھتے وہ بھی بدعت کو بدعتِ لُغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ جب کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ بھی کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لُغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت وحرمت کو جانچنے کے لئے اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ حسنہ’’ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ’’ یا ’’بدعتِ مذمومہ۔’’

مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور’’ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعة ضلالة’’ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعةٍ سيّئةٍ ضلالةٌ’’ ہے لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی۔ وہ اِس طرح کہ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی’’ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ’’بدعتِ مذمومہ’’ یا ’’بدعتِ ضلالہ’’ ہوگی لیکن اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہو گی۔

بدعتِ حسنہ کی اَہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی کی گئی ہے سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہو گی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالتاً اَمرِ خیر اور اَمرِ صالح ہوگا جسے شریعتِ اِسلامیہ کے عمومی دلائل و اَحکام کی اُصولی تائید میسّر ہوگی۔ اِسی لئے تمام اَئمہ و محدّثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔

اگر ہر نیا کام محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کے لئے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں۔ انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اُصول، اِصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں لہٰذا بلا شک و شبہ یہ سب بدعتِ لُغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔ مزید برآں اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تو دینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے طریق پر درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔ یہ فقط قرآن و حدیث کے سماع و روایت پر مبنی تھا۔ لہٰذا قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لے کر حرمِ کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔ اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اِشکال دور کرنے کے لیے بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم ناگزیر ہے۔

بدعت کی دوسری تقسیم

  1. بدعتِ حسنہ
  2. بدعتِ سیّئۃ

1۔ بدعتِ حسنہ (Commendable Innovation)

بدعتِ حسنہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جس کی اَصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو اوروہ احکامِ شریعت سے متخالف و متناقض نہ ہو بلکہ شریعت کے مستحسنات کے تحت داخل ہو۔

1۔ اِمام بدرالدین عینی (855ھ) ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (11 : 126)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم کرتے ہوئے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ قبیحہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

البدعة علی نوعين : اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی بدعة حسنة واِن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی بدعة مستقبحة.

’’بدعت کی دوقسمیں ہیں، اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ مستقبحۃ ہو گی۔’’

2۔ اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی بدعت کو بنیادی طور پر حسنہ اور سیّئہ میں تقسیم کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات’’ میں فرماتے ہیں :

البدعة منقسمة الی حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علی امامته و جلالته و تمکنه فی انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام فی آخر ’’کتاب القواعد’’ البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق فی ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشريعة فان دخلت فی قواعد الايجاب فهی واجبة و إن دخلت فی قواعد التحريم فهی محرمة و إن دخلت فی قواعد المندوب فهی مندوبه و ان دخلت فی قواعد المکروه فهی مکروهة و ان دخلت فی قواعد المباح فهی مباحة.

  1. تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22

  2. نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 286

  3. سيوطی، حسن المقصد فی عمل المولد : 51

’’بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد’’ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے۔’’

3۔ علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ’’ اور ’’بدعت ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

قال الشافعي رحمه اﷲ : البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه.(1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح فی المدخل.(2)

(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250

2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250

(2) ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه، 20 : 16

’’امام شافعی نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل’’ میں روایت کیا ہے۔’’

4۔ علامہ ابو اسحاق شاطبی بہت بڑے اُصولی، محدّث اور فقیہ گزرے ہیں۔ آپ کا شمار آٹھویں صدی ہجری کے جدید فکر کے حامل فقہاء میں ہوتا ہے۔ آپ اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام (2 : 111)’’ میں بدعتِ حسنہ کا استناد و اِعتبار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنة حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.

’’مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔’’

5۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری (4 : 253)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، وتطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، وإلَّا فهی من قسم المباح وقد تنقسم إلی الأحکام الخمسة.

’’بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میںناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔’’

6۔ اِمام ابن حزم اُندلسی اپنی کتاب ’’الأحکام فی اُصول الاحکام (1 : 47)’’ میں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ مذمومہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلی الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضی الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علی فساده فتمادی عليه القائل به.

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعة هذه قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔’’

2۔ بدعتِ سیّئۃ (Condemned innovation)

بدعتِ سیئہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب و سنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امرِ دین کو توڑے۔

1۔ علامہ اسماعیل حقی (1137ھ) بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت صرف اُس عمل کو کہا جائے گا جو سنتِ رسول یا عملِ صحابہ و تابعین کے خلاف ہو، فرماتے ہیں :

أن البدعة هی الفعلة المخترعة فی الدين علی خلاف ما کان عليه النبی صلی الله عليه وآله وسلم وکانت عليه الصحابة والتابعون.

اسماعيل حقی، تفسير روح البيان، 9 : 24

’’بدعت اس فعل کو کہا جاتا ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت کے خلاف گھڑا جائے ایسے ہی وہ عمل صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے بھی مخالف ہو۔’’

2۔ اِمام ملا علی قاری حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام : من سنّ فی الاسلام سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها(1) وجمع أبوبکر وعمر القرآن و کتبه زيد فی المصحف و جدد فی عهد عثمان.(2)

(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017

2. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554

3. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

(2) ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216

’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔’’ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔’’

3۔ اِمام ابن حجر مکی (976ھ) اِسی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وفی الحديث کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار(1) وهو محمول علی المحرمة لا غير.(2)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

6. طبرانی، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786

7. طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624

(2) ابن حجر مکی،الفتاوی الحديثيه : 130

’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی’’ اس حدیث کو بدعتِ محرمہ پر محمول کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔’’

4۔ مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے بدعتِ سیئہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

ومنها ما هی ترک المسنون و تحريف المشروع وهی الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الأصل.

وحيد الزمان، هدية المهدی : 117

’’اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت ترک ہو رہی ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’

5۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملهم شرح صحيح مسلم (2 : 406)’’ میں حدیث کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے بدعتِ سیئہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

قال علي القاری قال فی الازهار أی کل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلوة والسلام (من سن فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها) (1) وجمع ابو بکر وعمر القرآن(2) و کتبه زيد فی المصحف و جُدد فی عهد عثمان رضی الله عنه قال النووی البدعة کل شئ عمل علی غير مثال سبق و فی الشرع إحداث مالم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وقوله : کل بدعة ضلالة (3) عام مخصوص.

(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017

2. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554

3. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308

(2) 1. بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، 4 : 1720، رقم : 4402

2. بخاری، الصحيح، کتاب الاحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، 6 : 2629، رقم : 6768

3. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة، 5 : 283، رقم : 3103

4. نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 7، رقم : 2202

(3) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624

’’ملا علی قاری الازھار میں بیان کرتے ہیں کہ ’’کل بدعة ضلالة’’ سے ہر بدعت سیّئَہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول دلیل ہے کہ ’’من سن فی الاسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها’’ جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے قرآن کو جمع کیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مصحف میں لکھا اور عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی تجدید کی گئی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ بدعت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں جس کو مثالِ سابق کے بغیر عمل میں لایا جائے اور اِصطلاحِ شرع میں ہر وہ نیا کام جو عہدِ نبوی میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے اور حدیث کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص ہے۔’’

بدعتِ حسنہ بدعتِ لُغوی ہے

بے شمار اُمورِ خیر اور اُمورِ صالحہ کو اُن کے ’’نئے پن’’ کی و جہ سے بعض علماء اور محدّثین بدعتِ لغوی اور بعض بدعتِ حسنہ کہتے ہیں۔ حقیقت میں دونوں اِصطلاحات کا مقصود و مفہوم ایک ہی ہے۔ صرف الفاظ کا فرق ہے۔ پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کے ساتھ ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں۔ ہم ان دونوں تقسیمات میں کوئی تضاد نہیں سمجھتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر کہتے ہیں۔ ذیل میں چند اُن علماء اور محدّثین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی بجائے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی اِس تقسیم پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ اَمر واضح ہو جاتا ہے کہ بدعتِ حسنہ ہی بدعتِ لغوی ہے اور بدعتِ سیئہ ہی بدعتِ شرعی ہے۔

1۔ اِمام ابن تیمیہ(728ھ) اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ (4 : 224)’’ میں ’’نعمت البدعة هذه’’ کے ذیل میں نمازِ تراویح کو بدعتِ لغوی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی.

’’اِسے(یعنی نمازِتراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعت شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔’’

2۔ اسی طرح حافظ ابن کثیر (774ھ) بھی ’’تفسير القرآن العظيم (ا : 161)’’ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے نمازِ تراویح کو بدعتِ لغویہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله : فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة(1) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه.(2)

(1) 1. أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة،4 : 200، رقم : 4607

2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676

3. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42

4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126

5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

(2) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اَوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة’’ اور بعض اَوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ اَمیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نمازِ تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’

جیسا کہ ہم اس سے قبل ذکر کر چکے ہیں کہ علامہ اِبنِ تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان : ’’نعمت البدعة هذه’’ میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالاں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ.

ص، 38 : 30

’’(حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھاo’’

اس آیت میں لفظِ نعم اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہم نے جسے نعم البدعة هذه کہا ہے لغت ہی کی رو سے اِس کا معنی بدعتِ حسنہ بنتا ہے یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے۔

3۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم (1 : 252)’’ میں نئے اُمورِ صالحہ کو بدعتِ لغو ی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔’’

پس ثابت ہوا کہ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرنے والوں کے نزدیک بھی بدعتِ حسنہ سے مراد بدعتِ لغوی ہے۔

بدعتِ سیّئۃ ہی بدعتِ شرعی ہے

جمہور ائمہ و محدّثین اور اَکابر فقہاء نے حدیث نعمت البدعة هذه (1) اور مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَة (2) اور اس جیسی دیگر احادیث کی روشنی میں بدعت کی تقسیم ’’حسنہ’’ اور ’’سیئہ’’ میں کی ہے جب کہ چند دیگر علماء نے بدعت لغوی اور بدعت شرعی میں تقسیم کی ہے۔ اگر ان دونوں تقسیمات پر تھوڑا سا تفکر و تدبر کیا جائے تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ نفسِ بدعت کا مفہوم اِن دونوں طبقات کے نزدیک ایک ہی ہے۔ دونوں کے نزدیک بدعتِ سیّئہ ہی بدعتِ شرعی ہے اور بدعتِ شرعی ہی بدعتِ سیئہ ہے۔ اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (204ھ)، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (671ھ)، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458ھ)، امام ابن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ) اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (676ھ) وغیرہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح جبکہ علامہ ابن تیمیہ (728ھ)، حافظ ابن کثیر (774ھ)، علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اور علامہ شوکانی (1255ھ) وغیرہ بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کی اِصطلاح اِستعمال کرتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ دونوں طبقات کی اِصطلاحات کا باہمی موازنہ کرنے اور دونوں کے مقصود و مطلوب پر غور کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دونوں عملی طور پر بدعت کی تقسیم پر متفق ہیں۔ مزید برآں دونوں کے نزدیک بدعتِ حسنہ ہی بدعتِ لغوی ہے اور بدعتِ سیئہ ہی بدعتِ شرعی ہے۔

(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250

2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906

3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100

4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379

5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269

(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674

2. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، رقم : 1017

3. نسائی، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، رقم : 2554

4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203

5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved