ایک اسلامی رياست میں ان تمام بنيادی لوازمات کی فراہمی رياست کی ذ مہ داری ہے جن پر زندگی کے قيام و استحکام کا انصار ہے۔ ان بنيادی ضروريات زندگی کو چار حصوں میں تقسیم کيا جا سکتا ہے۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ایک مرتبہ شروع دن میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ ننگے پاؤں اور ننگے جسم دھاری دار چادریں پہنے اور تلواریں لٹکائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ لوگ قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے اس فقر و فاقہ اور خستہ حالی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گيا پریشانی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر تشریف لے آتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم ديا۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ديا خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ نساء کی ابتدائی آیت کریمہ تلاوت کی :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.
‘‘اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمايا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا ديا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقويٰ اختيار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہےo’’
اور سورہ الحشر کی آیت (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ) ‘‘اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئے کہ اس نے کل (قيامت) کے لئے آگے کيا بھیجا ہے۔’’- پڑھ کر لوگوں کو اپنے غریب، مفلس اور حاجت مند بھائیوں پر صدقے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمايا کہ ہر آدمی کو چاہیے کہ اس کے پاس ایک ہی دينار ہو، ایک ہی درہم ہو، ایک ہی کپڑا ہو ایک ہی صاع گندم ہو يا ایک صاع کھجور ہو، اس میں سے صدقہ کرے۔ حتيٰ کہ اگر اس کے پاس ایک کھجور ہے تو کھجور کے ٹکڑے سے بھی اپنے بھائیوں کی مدد کرے آپ کا فرمان تھا کہ لوگ گھروں کو دوڑ کر گئے اور دھڑا دھڑ حسب توفیق چیزیں لانے لگے۔ راوی کا بيان ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف کھانے اور کپڑے کے ڈھیر لگ گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس جذبہ ہمدردی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنی مسرت ہوئی کہ :
رأيت وجه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يتهلّل کأنه مذهبة.
النساء، 4 : 1
الحشر، 59 : 18
1. مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ، 2 : 705، رقم : 1017
2. نسائی، السنن الکبری، 2 : 39، رقم : 23335
3. ابن أبی شیبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803
4. بیھقی، السنن الکبری، 4 : 175، رقم : 7530
5. طبرانی، المعجم الکبیر، 2 : 328، رقم : 2372
‘‘میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور خوشی سے یوں کھل اٹھا گويا کہ وہ چمکتا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔’’
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ فقر و فاقہ اور سخت بہوک نے مجھے اور میرے دو ساتھیوں کو آ ليا، حتيٰ کہ بہوک کی شدت کی وجہ سے ہماری آنکہوں میں اندھیرا ہونے لگا۔ جب اور کوئی سبيل نظر نہ آئی تو ہم نے سوچا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلتے ہیں۔ مگر وہاں بھی افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی بھی ہمیں اپنے پاس ٹھہرانے کے لئے تيار نہ ہوا۔ اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے اور فرمايا کہ یہ چار بکرياں ہیں ان کا دودھ پیو اور ہمیں بھی پلاتے رہو۔ ہم کئی روز تک حضور کے مہمان رہے ہمارا معمول یہ تھا کہ بکریوں کے دودھ کے چار حصے کرتے ایک حصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھر کر رکھ دیتے اور باقی اپنے اپنے حصے کا پی کر سو جاتے۔
ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 5 : 338
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے بھوک نے ستايا تو میں مجبوراً گھر سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نکل پڑا راستے میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ملاقات ہوئی تو وہ تعجب سے پوچھنے لگے ابو ہریرہ! اس وقت کدھر کا قصد ہے؟ میں نے انہیں بتايا کہ مجھے اس وقت بھوک نے گھر سے نکلنے پر مجبور کر ديا ہے وہ کہنے لگے بخدا ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں بھی بھوک ہی نے گھروں سے نکالا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سب مل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اس وقت تم سب کیسے آئے؟ہم نے عرض کيا : يا رسول اللہ! اس وقت بھوک ہمیں آپ کے پاس لائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر ناگواری کا کوئی تاثر نظر نہیں آيا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً کھجوروں کا ایک طبق منگايا اور ہر آدمی کو دو دو کھجوریں عنایت فرماتے ہوئے فرمايا یہ کھا لو اور اوپر سے پانی پی لو یہ آج تمہارے لئے کافی ہوں گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک کھجور کھا لی اور دوسری بچا کر اپنی گود میں رکھ لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ابو ہریرہ تم نے یہ کھجور کیوں بچا رکھی ہے؟ میں نے عرض کيا : اپنی والدہ کے لئے۔ فرمايا : تم کھاؤ تمہاری والدہ کے لئے ہم مزید دو کھجوریں دے دیں گے۔ چنانچہ وہ کھجوریں میں نے کھا لیں اور والدہ کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید دو کھجوریں دے دیں۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 329
2. ذھبی، سیر أعلام النبلائ، 2 : 592
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لکثرة من يغشاه وأضيافه وقوم يلزمونه لذالک فلا يأکل طعاما أبدا إلّا معه أصحابه وأهل الحاجة يتتبعون من المسجد.
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 409
‘‘کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آنے والے مہمانوں اور مفلس لوگوں کی وجہ سے جو کھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہتے تھے (آپ کے ہاں فاقہ کی کیفیت رہتی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کھانا تناول فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور وہ اہلِ حاجت بھی شریک ہو جاتے جو مسجد سے آپ کے پیچھے آ جاتے۔’’
ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے قبل ایک رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بکری کا دودھ دوہ کر مجھے پلايا جس کا دودھ گھر والوں کو ملا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والے کہنے لگے کہ آج رات بھی اسی طرح بھوکے گزار لیں گے جس طرح کل رات بھوکے گزاری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ بلند اخلاق اور کمال ایثار دیکھ کر صبح ہوتے ہی ابوبصرہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
(2) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 397، رقم : 27269
2. ھیثمی، مجمع الزوائد، 5 : 31
یعنی ضرورت مندوں کی کفالت کے لئے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بلکہ پورا خانوادہ نبوت اکثر اوقات فاقہ کشی کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يبيت الليالی المتتابعة طاويا وأهله لا يجدون عشاء وکان أکثر خبزهم خبز الشعير.
1. ترمذی، السنن، کتاب الزھد عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء في معیشۃ النبي وأهله، 4 : 580، رقم : 2360
2. ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب خبز الشعیر، 2 : 1111، رقم : 3347
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 255، رقم : 2303
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے گھر والے کئی کئی راتیں متواتر بھوکے گزارتے کیونکہ رات کا کھانا میسر نہ ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں جب بھی روٹی میسر ہوتی تو اکثر جو کی روٹی ہوتی۔’’
حقِ خوراک کی فراہمی کا اہتمام نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی زندگی میں بکثرت نظر آتا ہے بلکہ قومی زندگی میں بھی قوانین کے نفاذ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حق کی کما حقہ ادائیگی کو ملحوظ رکھا اور جہاں کہیں اس اساسی حق کی وجہ سے شرعی قوانین کے نفاذ کا معاملہ در پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولاً لوگوں کو حقِ معاش کی فراہمی کو ترجیح دی۔ حضرت عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ قحط نے مجھے آ ليا تو ایک روز میں مدینے کے ایک باغ میں داخل ہو گيا اور ایک خوشہ توڑ کر پہلے خود کھايا اور پھر کچھ (اپنے اہلِ خانہ کے لئے) اپنے کپڑے میں ڈال ليا۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گيا۔ اس نے ایک تو ميری پٹائی کی اور پھر وہ پھل جو میں نے کپڑے میں باندھ رکھے تھے اپنے قبضے میں لے لئے اور مجھے اس حالت میں لیکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ گيا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ سننے کے بعد مجھے کوئی سزا دینے کی بجائے اسے فرمايا :
‘‘جب یہ بیچارہ جاہل تھا تو تو نے اسے تعلیم کیوں نہ دی۔ جب یہ بیچارہ بھوکا تھا تو اسے کھانے کو کیوں نہ ديا۔ پھر اسے حکم ديا کہ اس کا کپڑا اسے واپس کر دو چنانچہ اس نے مجھے کپڑا واپس کر ديا اور آپ کے حکم سے مجھے وسق (ایک اونٹ کا بوجھ) يا نصف وسق غلہ بھی ديا۔’’
1. أبو داود، السنن، کتاب الجھاد، باب في ابن السبيل يأکل من التمر، 3 : 39، رقم : 2620
2. نسائی، السنن، کتاب آداب القضاۃ، باب الاستعداد، 8 : 240، رقم : 5409
3. ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب من مر علی ماشیۃ قوم أو حائط ھل یصیب منه، 2 : 770، رقم : 2298
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف شرعی قوانین کے نفاذ میں لوگوں کے معاشی مسائل کو مستحضر رکھا بلکہ عبادات میں بھی معاشی تنگی کا لحاظ رکھا۔ جس سے اسلام کی عطا کردہ نظریہ حيات میں انسان کی بنيادی ضروريات کی فراہمی کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : يا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گيا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : کيا ہوا؟ اس نے عرض کيا :
‘‘میں رمضان المبارک کے روزے میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : تیرے پاس اتنا مال ہے جس سے کفارہ میں ایک غلام آزاد کر سکے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : کيا تو دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟ اس نے عرض کيا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا کيا تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے عرض کيا : نہیں۔ فرمايا پھر بیٹھ جا۔ اتنے میں کھجوروں کا ایک ٹوکرا کسی نے لاکر خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کيا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمايا : یہ ٹوکرا لے جا اور اسے فقراء پر صدقہ کر دے۔ اس نے عرض کيا : يا رسول اللہ! اس وادی میں ہم سے بڑھ کر ضرورت مند گھر کوئی نہیں۔ اس کی یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے حتيٰ کہ آپ کے سامنے کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ پھر فرمايا : جا اپنے اہلِ خانہ کو ہی یہ کھجوریں دے دے۔’’
1۔ أبوداود، السنن، کتاب الصوم، باب کفارۃ من أتی أهله في رمضان، 2 : 313، رقم : 2390
2. بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، 5 : 2260، رقم : 5737
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 208، رقم : 6944
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مہاجرین جب مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو اس وقت جو مسائل درپیش تھے ان میں سے ایک پانی کا مسئلہ بھی تھا۔ پورے گھر میں رومہ کے کنویں کے علاوہ کہیں پانی نہ تھا۔ مگر اس کنویں کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ذریعہ معاش بنايا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخير حضرات کو مسلمانوں کے لئے اس کی خریداری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمايا کہ جو آدمی اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دے اللہ تعاليٰ اسے جنت میں اس سے کہیں بہتر کنواں عطا کرے گا۔
یہ سعادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو میسر آئی کہ آپ وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کرنے پر تيار ہو گئے مگر کنویں کا مالک نصف حصہ فروخت کرنے پر آمادہ ہوا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم کے عوض نصف کنواں خرید ليا اور یہ شرط طے پائی کہ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی باری ہو گی اور دوسرے دن یہودی کی۔ اس طرح جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی باری ہوتی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر کر رکھ لیتے کہ دو دن تک کے لئے وہ پانی کافی ہوتا جب یہودی نے دیکھا کہ اس طرح خاطر خواہ نفع حاصل نہیں ہو رہا تو وہ بقیہ نصف بھی فروخت کرنے پر تيار ہو گيا۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باقی نصف بھی آٹھ ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر ديا۔
1. ابن عبد البر، الاستیعاب، 3 : 1039
2. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 2 : 268
یہی عمل ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی رعايا کی خدمت اور ان کی ضروريات کا کس قدر خيال تھا اس کا اندازہ اس سے ملتا ہے کہ مدینہ کے اطراف میں ایک نابينا بڑھيا تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روزانہ علی الصبح اس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لئے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص ان سے بھی پہلے آ کر یہ کام کر جاتا تھا ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ کچھ رات گزرنے کے بعد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ خلیفہ اول یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس ضعيفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔ آپ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بولے :
‘‘اے خلیفہ رسول! قسم ہے کيا آپ ہی روزانہ یہ کام کر جاتے تھے۔’’
ہندی، کنز العمال، 12 : 490، رقم : 35607
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس بات کا سخت اہتمام کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ ملک میں جس قدر اپاہج، ازکار رفتہ يا مفلوج ہوں، ان کی تنخواہیں بيت المال سے مقرر کر دی جائیں۔ لاکھوں سے متجاوز آدمی ایسے تھے جن کو گھر بیٹھے خورا ک ملتی تھی۔ پہلے آپ نے یہ انتظام شروع کيا کہ ایک جریب (تقریباً 25 سیر) آٹا پکايا جائے جسے 30 آدمیوں نے کھايا۔ اس طرح دونوں وقت کے لئے یہ مقدار کافی ٹھہری تو فرمايا کہ ایک آدمی کو مہینے بھر کی خوراک کے لئے دو جریب آٹا کافی ہے پھر آپ نے حکم ديا کہ ہر شخص کے لئے اس قدر آٹا مقرر کيا جائے آپ اعلانِ عام کے لئے منبر پر تشریف لائے اور پیمانہ ہاتھ میں لے کر فرمايا کہ میں نے تم لوگوں کے لیے اس قدر خوراک مقرر کر دی ہے جو شخص اس کو گھٹائے گا اس کو خدا سمجھے گا۔
بلاذری، فتوح البلدان : 476
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیمانے ہاتھ میں لیکر فرمايا :
إنّي قد فرضت لکلّ نفس مسلمة في کل شهر مدی حنطة وقسطی زيت وقسطی خل فقال رجل : والعبد قال نعم والعبد.
1. بلاذری، فتوح البلدان : 476
2. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 18 : 171
‘‘میں نے ہر مسلمان کے لئے فی ماہ دو مد گہیوں اور دو قسط سرکہ مقرر کيا۔ اس پر ایک شخص نے کہا : کياغلام کے لئے بھی؟ فرمايا ہاں غلام کے لئے بھی۔’’
اس طرح آپ نے یہ حکم بلا تخصیص مذہب جاری کيا۔ آپ نے بيت المال کے عامل کو ہدایت لکھی کہ رب ذوالجلال کے فرمان {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقْرَاءِ وَالْمَسَاکِيْنَ} میں فقراء سے مسلمان اور مساکین سے اہلِ کتاب مراد ہیں۔
أبو یوسف، کتاب الخراج : 136
مملکت کے عام شہریوں کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقدامات کا یہ عالم تھا کہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سعد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے :
اتّخذ عمر دار الرقيق فجعل فيها الدقيق والسويق والتمر والزبيب وما يحتاج إليه يعين به المنقطع وانضيف بعمر ووضع عمر في طريق السبل بين مکة والمدينة ما يصلح من ينقطع به.
ابن سعد، الطبقات الکبری، 3 : 283
‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سٹور يا لنگر خانہ بنوايا جس میں آٹا، جو، کھجور، پنیر اور دیگر ضروريات کی چیزیں رکھوائیں۔ جس سے آپ مسافروں اور بھولے بھٹکوں کی امداد فرمايا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے درميان راستے میں سرائیں بنوائیں جہاں مسافر آ کر آرام کرتے تھے۔’’
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اولادِ لقطہ یعنی گمنام بچوں کی کفالت کا بھی اہتمام فرمايا۔ آپ نے ان بچوں کے لئے یہ انتظام کيا کہ جہاں (شاہراہ وغیرہ پر) اس قسم کا کوئی بچہ ملے اس کو دودھ پلانے اور دیگر مصارف کا انتظام بيت المال سے کيا۔ چنانچہ ان مصارف کے لئے اوّل 100 درہم سالانہ مقرر ہوئے تھے۔ جنہیں ان کا ولی بيت المال سے وصول کر لیتا تھا۔
بلاذری، فتوح البلدان : 467
18ھ میں مدینہ اور اطراف و اکناف میں مشہور قحط پڑا جس کی وجہ سے اس سال کا نام تاریخِ اسلام میں عام الرمادہ پڑ گيا۔ اسلامی رياست کے لئے یہ ایک آزمائش کا موقع تھا۔ اس موقع پر جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کمال احساس ذمہ داری سے عامۃ الناس کی مشکلات دور کرنے کے لئے تگ و دو کی، وہ مسلمان حکمرانوں کے لئے ہمیشہ ایک نمونہ رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں غذائی اجناس کی عام تقسیم کی اور سرکاری طور پر ہزاروں افراد کے لئے کھانا پکوا کر دونوں وقت کھلانے کا انتظام کيا۔ دوسرے علاقوں اور مصر و شام سے غلہ، آٹا، چربی، تیل اور دوسری اشيائے ضرورت منگوائیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مویشی اور اونٹ باہر سے منگوا کر ذبح کروائے اور پورے قحط زدہ علاقے میں اعلان کر ديا کہ باہر سے آنے والے ان سرکاری قافلوں سے ضرورت کے مطابق چیزیں لے لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قحط کا مقابلہ جنگی بنيادوں پر کيا اور شخصی طور پر تمام انتظامات کی نگرانی کی اور اس حد تک ہر انتظام کو انجام ديا کہ لوگ کہہ رہے تھے :
لو لم يرفع اﷲ المحل عام الرمادة لظننا أنّ عمر يموت همًا بأمر المسلمين.
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 315
‘‘اگر اللہ عام الرمادہ میں قحط دور نہ کرتا تو ہمیں اندیشہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے اس مسئلہ میں فکر کرتے کرتے فوت ہو جاتے۔’’
اس قحط کے سال میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے ہاتھ میں لاٹھی لئے ہوئے گشت کر رہے تھے کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : اے بندہ خدا! دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے جواب ديا : ‘‘اے بندہ خدا! وہ مشغول ہے‘‘ آپ آگے بڑھ گئے جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمايا اور اس شخص نے وہی جواب ديا۔ جب تین بار اس شخص نے یہی جواب ديا تو آپ نے پوچھا کہ تیرا داياں ہاتھ کس کام میں مشغول ہے؟ اس نے جواب ديا کہ موتہ کی لڑائی میں کام آ گيا۔ یہ سن کر آپ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں وضو کون کرواتا ہے؟ تمہارا سر کون دہوتا ہے؟ کپڑے کون دھوتا ہے اور فلاں فلاں کام کون کرتا ہے؟ پھر آپ نے اس کے لئے ایک ملازم لگوايا اسے ایک سواری دلوائی اور دوسرے سامان ضرورت بھی دلوائے۔
أبو یوسف، کتاب الآثار، 1 : 208، رقم : 927
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمايا :
لئن عشت إن شاء اﷲ لأسيرَن في الرعية حولا فإنّی أعلم أنّ للنّاس حوائج تقطع عنی، أما هم فلا يصلون إليّ وأما عمالهم فلا يرفعونها إليّ فأسير إلي الشام فأقيم بها عشرين ثم أسير إلی مصر فأقيم بها شهرين ثم أسير إلی البحرين فأقيم بها شهرين ثم أسير إلی الکوفة فأقيم بها شهرين ثم أسير إلی البصرة فأقيم بها شهرين.
ابن جوزی، مناقب عمر بن خطاب : 121
‘‘انشاء اﷲ اگر میں زندہ رہا تو میں پورا سال عوام کے درميان دورے کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں کی بہت سی حاجات ہیں جو صرف میں ہی پوری کر سکتا ہوں، پس وہ يا تو مجھ تک پہنچ نہیں سکتے يا ان کے عمال انہیں میرے پاس پہنچنے نہیں دیتے۔ پس میں شام کے دورے پر جاؤں گا اور وہاں بیس دن قيام کروں گا، پھر میں مصر کا دورہ کروں گا اور وہاں دو ماہ قيام کروں گا، پھر میں بحرین کا دورہ کروں گا اور وہاں دو ماہ قيام کروں گا، پھر میں کوفہ کا دورہ کروں گا اور وہاں دو ماہ قيام کروں گا، پھر میں بصرہ کا دورہ کروں گا اور وہاں دو ماہ قيام کروں گا۔’’
ان تمام تر اہتمامات کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رعايا کے احوال کی فکر دامن گیر رہتی۔ آپ اکثر فرماتے کہ عمال رعايا کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر شخص مجھ تک پہنچ نہیں سکتا۔ اس بنا پر آپ نے ارادہ فرمايا تھا کہ شام، جزیرہ، کوفہ، مصر، بحرین اور بصرہ کا دورہ کریں۔ ہر جگہ2، 2 ماہ ٹھہریں اور رعايا کی بذات خود خبرگيری کریں مگر موت نے آپ کو اس کی مہلت نہ دی۔
ارشادِ ربانی ہے :
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ.
الاعراف، 7 : 26
‘‘اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اُتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اُتارا ہے اور وہی) تقويٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانياں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریںo۔’’
یعنی لباس کی فراہمی بھی بنيادی ضرورياتِ زندگی میں شامل ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضرورت مندوں کو لباس کی فراہمی کا اہتمام بھی فرمايا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حوالے سے خود تکلیف کا سامنا کرنا پڑا :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
بينا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جالس إذ أتاه صبي فقال : أنّ أمّي تستکسيک درعًا فقال : من ساعة إلی ساعة يظهر فعد إلينا فذهب إلی أمّه فقالت : قل له إن أمّی تستکسيک الدرع الّذی عليک فدخل صلی الله عليه وآله وسلم داره ونزع قميصه و أعطاه وقعد عريانًا وأذن بلال وانتظرفلم يخرج إلی الصّلاة.
آلوسی، روح المعانی، 15 : 65
ایک خاتون نے اپنا لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بھیجا اور درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قمیض عطا کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ اس وقت نہیں پھر کسی وقت آ جانا لڑکا واپس گيا تو اس کی ماں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہو اگر اور قمیض نہیں تو آپ کے جسم پر تو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور قمیض اتار کر لڑکے کے حوالے کر دی۔ اب مزید کوئی کپڑا نہ ہونے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں ہی بیٹھے رہے حتيٰ کہ نماز کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف نہ لا سکے۔ صحابہ کو تشویش ہوئی جب تحقیق کی تو اصل صورت حال معلوم ہوئی۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ :
1۔ عورت کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قمیض کا تقاضا کرنا اس امر کا اظہار ہے کہ اسلامی معاشرے کے ایک عام فرد کو بھی اس حقیقت کا علم تھا کہ کفالت عامہ کی ذمہ داری سربراہ مملکت پر ہے۔
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی دوسرا لباس نہ ہونے کے باوجود اپنا کرتا مبارک عورت کے حوالے کر کے مسلمان سربراہ مملکت کے لئے ایک عملی مثال قائم فرما دی کہ رعايا کی خبر گيری اور ان کی بنيادی ضروريات کی کفالت کے لئے سربراہ مملکت کو کس حد تک اہتمام کرنا چاہیے۔
حضرت ابو حداد رضی اللہ عنہ ایک غریب صحابی تھے انہوں نے ایک یہودی سرمایہ دار سے قرض ليا ہوا تھا اور ان کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس تن ڈھانپنے کے کپڑوں کے سوا کچھ اثاثہ نہ تھا۔ یہودی سرمایہ دار نے قرض کی واپسی کا تقاضا کيا۔ حضرت ابو حداد رضی اللہ عنہ نے مہلت مانگی۔ مگر وہ یہودی نہ مانا۔ جب یہودی کسی طور مہلت دینے پر راضی نہ ہوا توآپ نے اپنا تہہ بند اُتار کر یہودی کے حوالے کر ديا اور سر مبارک سے عمامہ اُتار کر کمر سے لپیٹ ليا۔
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 423
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما بيان کرتے ہیں :
أنّ رسول اﷲ رأی صاحب بز فاشتری منه قميصًا بأربعة دراهم فخرج وهو عليه فإذا رجل من الأنصار فقال : يا رسول اﷲ، اکسني قميصا کساک اﷲ من ثياب الجنّة فنزع القميص فکساه إياه ثم رجع إلی صاحب الحانوت فاشتری منه قميصًا بأربعة دراهم.
ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 6 : 39
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کپڑے کے ایک تاجر سے چار درہم میں ایک قمیض خریدی۔ اسے زیب تن فرما کر آپ باہر نکلے ہی تھے کہ ایک انصاری سامنے آيا اور عرض کرنے لگا : يا رسول اللہ! مجھے قمیض پہنائیے (شاید وہ ننگے جسم تھا) اللہ تعاليٰ آپ کو جنت کے کپڑوں میں سے قمیض پہنائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اور تو کوئی قمیض نہ تھی وہی قمیض اتاری اور اس انصاری کو پہنا دی۔ پھر دکان پر تشریف لے گئے اور وہاں سے اپنے لئے مزید ایک قمیص چار درہم میں خریدی۔’’
ایک صحابیہ رضي اﷲ عنھا ایک بُنی ہوئی چادر آپ کے پاس لائیں اور عرض کرنے لگیں يا رسول اللہ! میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنايا ہے اور ميری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے زیب تن فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ چادر زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے عرض کيا : يا رسول اللہ! کتنی خوبصورت چادر ہے مجھے عنایت فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُتار کر دے دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس سے تشریف لے گئے تو لوگوں نے اس شخص سے کہا تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر مانگ کر اچھا نہیں کيا؟ کيا تجھے پتہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چادر کی ضرورت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کا سوال بھی رد نہیں کرتے۔ وہ صحابی کہنے لگے درآنحالیکہ میں نے یہ چادر پہننے کے لئے نہیں مانگی بلکہ ميری تو یہ آرزو تھی کہ اس چادر سے میں اپنا کفن بناؤں۔
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب من استعد الکفن في زمن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلم ینکر عليہ، 1 : 429، رقم : 1218
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حقِ رہائش کو انسان کا بنيادی حق بيان فرمايا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
ليس لإبن آدم حق في سوی هذه الخصال بيت يسکنه وثوب يواری عورته وجلف الخبز والماء.
1. ترمذی، السنن، کتاب الزھد، باب منه، 4 : 571، رقم : 2341
2. عبد بن حمید، المسند، 1 : 46، رقم : 46
3. حاکم، المستدرک، 4 : 374، رقم : 7866
4. بیھقی، شعب الایمان، 5 : 157، رقم : 680
‘‘ابن آدم کے لئے سوائے ان اُمور کے کوئی ضروری حق نہیں، رہنے کے لئے گھر، ستر ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور ضرورت کی روٹی اور پانی۔’’
اسلامی رياست میں نہ صرف بنيادی ضروريات کی فراہمی رياست کی ذمہ داری ہے۔ جس کا مفصل تذکرہ اُوپر گزر چکا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ سے واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کو مالی کفالت کی ضرورت ہو تو رياست اس کا بھی اہتمام کرے تاکہ افرادِ معاشرہ معاشی مجبوریوں کے شکنجوں سے نجات حاصل کر سکیں اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر اپنی معاشی تخلیق کے عمل کو شروع کر سکیں۔
جب فتوحات ہونے لگیں اور بيت المال میں مال غنیمت آنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیتِ قرآنی : {اَلنَّبِيُّ اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ} کا حوالہ دیتے ہوئے اعلانِ عام فرمايا :
فأيّما مومن مات وترک مالا فليرثه عصبته من کانوا فإن ترک دينا أو ضياعاً فليأتنی فأنا مولاه.
1. بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب النبی أولی بالمؤمنین من أنفسهم، 4 : 1795، رقم : 4503
‘‘جو مومن بھی مال چھوڑ کر مرے گا اس کے وارث اس کے عصبہ (قریبی رشتہ دار) ہوں گے جو کوئی بھی ہوں گے اور اگر وہ اپنے ذمہ دین (قرض) چھوڑ کر مرا يا بچے (جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو) چھوڑ کر مرا تو وہ قرض اور یتیم بچے میرے ذمہ۔ میں ہی ان کا والی ہوں۔ ( یعنی ان کی کفالت کروں گا اور ان پر مال خرچ کروں گا۔ )
دوسرے مقام پر ارشاد فرمايا :
فأيکم ما ترک دينا أو ضيعة فادعونی فأنا وليه.
1. مسلم، الصحیح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثتہ، 3 : 1238، رقم : 1619
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 318، رقم : 8219
3. بیھقی، السنن الکبريٰ، 6 : 201، رقم : 11910
4. عبد الرزاق، المصنف، 8 : 291، رقم : 15261
‘‘تم میں سے جو آدمی قرض يا چہوٹے بچے چہوڑ کر مر جائے تو مجھے بلاؤ۔ بے شک قرض اور بچوں کے معاملے میں اس کا ولی میں ہوں۔’’
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بحرین سے خراج اور جزیے کا مال بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا اس مال کو مسجد (کے صحن) میں پھیلا دو۔ بقول راوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جتنے بھی اموال آئے ان میں یہ سب سے زيادہ تھا (محدثین نے ایک لاکھ درہم کا اندازہ لگايا ہے) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے باہر تشریف لائے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ جب نماز ہو چکی تو آپ مال کے پاس بیٹھ گئے۔ پس جو بھی نظر آتا اسے ضرورت کے مطابق عطا فرما دیتے اور آپ اس وقت تک نہ اٹھے جب تک سارا مال تقسیم نہ ہو گيا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔ (3)
(3) بخاری، الصحیح، کتاب الصلاة، باب القسمۃ وتعلیق القنو في المسجد، 1 : 162
بحیثیتِ سربراہ اسلامی رياست، رياست کی جملہ آمدنی اور محاصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تمام تر آمدنی کو شخصی تصرف میں لانے کی بجائے مسلمانوں کی ملکیت قرار ديا۔ حتيٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ کی ساری رقم بھی اپنے اور اپنے اہل و عيال اور خاندان بنو ہاشم پر حرام فرما دی اور اسے بحکم الہی غربا اور اہلِ حاجت کا حق قرار ديا۔
قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ما أوتيکم من شئ وما أمنعکموه إن أنا إلّا خازن أضع حيث أمرت.
1. أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفی، باب فيما یلزم الإمام من أمر الرعية والحجبۃ عنه، 3 : 135، رقم : 2949
2. إسحاق بن راهویہ، المسند، 1 : 425، رقم : 486
3. ابن عبد البر، التمھید، 40 : 51
4. مناوي، فیض القدیر، 5 : 430
‘‘فرمايا : میں تم کو نہ کچھ دے سکتا ہوں اور نہ کچھ روک سکتا ہوں۔ میں صرف خزانچی ہوں جس جگہ صرف کرنے کا مجھے حکم ديا جاتا ہے وہاں ہی صرف کرتا ہوں۔’’
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک دراصل مسلمان حکمرانوں کے لئے صرف خرچ کے باب میں ایک رہنما اُصول فراہم کرتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک ضرورت مند آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آيا اور درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کچھ عنایت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا اس وقت تو میرے پاس کوئی چیز نہیں البتہ جو کچھ لینا چاہتے ہو میرے نام پر خرید لو جب میرے پاس کوئی چیز آ جائے گی تو میں ادائیگی کر دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اس وقت حاضر خدمت تھے نے عرض کيا : يا رسول اللہ! آپ جس چیز پر قدرت نہیں رکھتے يا جو چیز آپ کے پاس نہیں، اللہ نے جب آپ کو اس کا مکلف نہیں کيا تو آپ خواہ مخواہ کیوں تکلیف فرماتے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کو پسند نہ فرمايا۔ ایک انصاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری کو دیکھا تو عرض کيا : يا رسول اللہ! آپ خرچ فرماتے رہیں اور عرش والے مالک سے کسی قسم کی کمی کا خوف نہ فرمائیں۔ انصاری کی یہ بات سنتے ہی آپ کا چہرہ انور خوشی سے کھل اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا مجھے اسی چیز کا حکم ديا گيا ہے۔
ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، 1 : 294
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن عمرو بن حزم غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے انہوں نے مدینہ منورہ کے ایک سرمایہ دار یہودی سے تیس وسق قرض لے رکھا تھا۔ اتفاقاً حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی کھجوریں کم پھل لائیں جس سے یہودی کا قرض پورا نہیں ہوتا تھا یہودی نے تقاضا کيا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے سارا واقعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کيا اور سفارش کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے کہا کہ تو اپنے قرض کے بدلے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کی ساری کھجوریں لے لے اور اس پر اکتفا کر لے مگر یہودی کسی طور نہ مانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے باغ میں تشریف لے گئے اور باغ کے درختوں کے درميان چلے پھرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی تاثیر تھی کہ جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تمام درختوں کے خوشے کھجوروں سے لبریز ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمايا کہ اب کھجوریں اُتارو اور یہودی کا قرض ادا کر دو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کھجوریں اُتاریں اور قرض خواہ کی تیس وسق کھجوریں ادا کیں پھر بھی سترہ وسق کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ یہ واقعہ عمر (رضی اللہ عنہ) کو بھی بتا دو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمايا :
لقد علمت حين مشی فيها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ليبارکن فيها.
1. بخاری، الصحیح، کتاب في الاستقراض وأداء الدیون والحجر والتفليس، باب إذا قاص أو جازفہ في الدین تمرا بتمر أو غیرہ، 2 : 844، رقم : 2266
2. فريابی، دلائل النبوۃ، 1 : 83
‘‘مجھے اسی وقت یقین ہو گيا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ میں چلے تھے کہ کھجوروں میں ضرور بالضرور برکت ہو گی۔’’
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک آدمی کو پھلوں کی تجارت میں کسی وجہ سے نقصان ہو گيا۔ تجارت میں خسارے کی وجہ سے وہ مقروض ہو گيا اور قرض خواہ اسے پریشان کرنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی یہ پریشانی دیکھی نہ گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمايا کہ صدقہ خيرات کر کے اس بیچارے کو اس مصیبت سے نکالو۔ حکم ملنے کی دیر تھی سب نے حسب استعداد اس کی امداد کی مگر سب رقم ملا کر بھی اس کے قرض کی رقم کے برابر نہ ہو سکی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرض خواہوں سے فرمايا تم لوگ بھی کچھ ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرو۔ جو کچھ اس کے پاس موجود ہے وہ لے لو اور باقی چھوڑ دو۔
1. مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب استحباب الوضع من الدین، 3 : 1191، رقم : 1556
2. ترمذي، السنن، کتاب الزکاۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء من تحل له الصدقۃ من الغارمین وغیرھم، 3 : 44، رقم : 655
3. نسائي، السنن، کتاب البیوع، باب وضع الجوائح، 7 : 265، رقم : 4530
4. أبو داود، السنن، کتاب البیوع، باب في وضع الجائعۃ، 3 : 276، رقم : 3469
یہ واقعہ فتوحات اور خوش حالی سے پہلے کا ہے جب فتوحات عام ہونے لگیں تو آپ نے اعلان عام فرما ديا کہ جو آدمی قرض چھوڑ کر مرے اور اسے چکانے کے لئے کوئی چیز نہ چہوڑے تو اس کا قرض ادا کرنا ہمارے ذمہ ہے۔
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا (جو شاید کسی دیہات کا رہنے والا تھا) اور اپنی معاشی بدحالی کا تذکرہ کرنے لگا۔ اتفاق سے اس وقت آپ کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ موجود تھا جو پہاڑوں کے درميان چر رہا تھا۔ سائل کی غربت اور محتاجی کو دیکھ کر آپ نے فرمايا یہ سارا ریوڑ لے جا۔ اسے اس قدر بخشش کی امید نہ تھی۔ وہ جب یہ ریوڑ لیکر اپنے قبیلے میں واپس پہنچا تو کہنے لگا لوگو! اسلام قبول کر لو کیونکہ پیغمبر اسلام اتنے فياض اور سخی ہیں کہ جب دینے پر آتے ہیں تو کسی قسم کے فقر اور تنگ دستی سے نہیں ڈرتے۔
1. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ما سئل رسول اﷲ شيئا قط فقال لا وکثرۃ عطائہ، 4 : 1806، رقم : 2312
2. ابن حبان، الصحیح، 14 : 287، رقم : 6373
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 259، رقم : 13756
4. أبو یعلی، المسند، 6 : 56، رقم : 3302
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا ربیعہ! کيا تو شادی نہیں کرے گا؟ میں نے عرض کی يا رسول اللہ! میں نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت سے غافل کر دے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہوگئے۔ کچھ دن بعد پھر مجھ سے پوچھا ربیعہ کيا تو شادی نہیں کرے گا؟ میں نے عرض کيا : يا رسول اللہ! ایک تو میں نہیں چاہتا کہ کوئی مصروفیت مجھے آپ کی خدمت سے غافل کرے دوسرے میرے پاس اتنی رقم نہیں کہ بیوی کو مہر بھی دے سکوں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ایک دن پھر آپ نے پوچھا ربیعہ کيا تو شادی نہیں کرے گا؟ میں نے عرض کيا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کون رشتہ دے گا؟ میرے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں کہ بیوی کو دے سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
‘‘جا فلاں قبیلہ کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں حکم ديا ہے کہ مجھ سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دو۔’’
انہوں نے پیغامِ نکاح سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور مجھے مرحبا کہا اور مجھے اپنی لڑکی نکاح میں دے دی۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آيا اور عرض کيا : يا رسول اللہ! اب حق مہر کہاں سے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمايا کہ ربیعہ کے لئے ایک گٹھلی کے برابر سونے کا انتظام کرو۔ انہوں نے سونا جمع کر کے مجھے ديا اور میں نے لا کر اپنی بیوی کے گھر والوں کو دے ديا۔ میں پھر حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کيا : يا رسول اللہ! اب ولیمہ کہاں سے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے فرمايا : ربیعہ کے لئے ایک مینڈھے کی قیمت کا انتظام کرو۔ انہوں نے فوراً مینڈھے کا انتظام کر ديا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمايا کہ (سیدہ )عائشہ کے پاس جاؤ اور ان کے پاس جتنے جو ہیں وہ لے آؤ۔ میں گيا تو انہوں نے تمام جو میرے حوالے کر دیئے حالانکہ کاشانہء نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کے سوا شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ میرے سسرال والوں نے کہا کہ جو ہم تيار کر دیتے ہیں وہ مینڈھا اپنے ساتھیوں سے ذبح کروا لو۔ اس طرح ولیمہ تيار ہو گيا۔’’
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 58
2. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2 : 188 رقم : 2718
3. ھیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 256
قرآن حکیم کی عطا کردہ معاشی تعلیمات، جن کی عملی تعبیر و تشریح سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میسر آتی ہے اور جس پر عمل خلفائے راشدین نے اپنے مبارک ادوار میں عمل کر کے ملت اسلامیہ کیلئے عملی مثال قائم کی، سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مثالی فلاحی معاشرے اور فلاحی رياست کا قيام اسلام کی عطا کردہ تعلیمات پر عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔ جہاں افراد معاشرہ کو ہر نوع کا معاشی تحفظ عطا کيا گيا ہو۔ تاکہ وہ معاشی تعطل سے نکل کر تخلیق کی راہ پر گامزن ہو سکیں جس میں انفرادی اور قومی ارتقاء کا راز مضمر ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نظامِ معیشت کا بنيادی تصور جملہ اموال میں حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کے حق سے متعلق ہے۔ اسلام نے ہمارے کمائے ہوئے مال میں محروم المعیشت افراد کا باقاعدہ حق رکھ ديا ہے۔ جس کی حیثیت محض اخلاقی اور ترغیبی نہیں، شرعی و وجوبی اور قانونی ہے۔ اس کی ادائیگی محض نفلی نیکی نہیں، فرض ہے جسے پورا نہ کرنا حرام بلکہ جرم ہے۔ اگر اہلِ ثروت از خود حاجت مندوں کے حقوق اپنے مال سے ادا نہ کریں تو رياست کی ذمہ داری ہے کہ بذریعہ قانون ان واجب الادا حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرے ورنہ یہ حق تلفی، استحصال اور صریحاً ظلم و زيادتی متصور ہو گا۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَفِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ.
الذاريات، 51 : 19
‘‘اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھاo’’
دوسرے مقام پر اسی حکم کو ان الفاظ میں بيان کيا گيا ہے :
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌo لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
المعارج، 70 : 24، 25
‘‘اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہےo مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کاo’’
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس ضمن میں جس کسی کو بھی اپنے اموال کے منافع میں شریک کرنے کا حکم ديا گيا ہے، اس کے لئے ایتائے حق (حق ادا کرنے) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جن سے ان حق داروں کی قانونی و شرعی حیثیت اُجاگر ہوتی ہے جس کی رو سے وہ اسلامی رياست سے اس حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهُ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ.
بنی اسرائیل، 17 : 26
‘‘اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو)۔’’
اس پر مستزاد یہ کہ لینے والے کا حق اتنا ہی ضروری اور قابلِ احترام قرار ديا گيا ہے جتنا کہ دینے والے کا اپنا حق۔ اس میں مالک کو بلحاظ مقدار (Quantity) ترجیح تو بہرحال حاصل ہے ليکن بلحاظ معيار (Quality) دینے والے اور لینے والے دونوں برابر کے حقدار ہیں۔ اور شریک فی المنافع (Beneficiary) کا حق کسی لحاظ سے بھی مالک یعنی قابض و متصرف (owner) کے حق سے کمتر يا گھٹيا نہیں ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد فرمايا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ
البقرۃ، 2 : 267
‘‘اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کيا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں ديا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو۔’’
یعنی دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پیش کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ اسی تصور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں بيان فرمايا :
1. ليس المؤمن الّذي يشبع وجاره جائع إلی جنبه.
1. أبو یعلی، المسند، 5 : 92، رقم : 2699
2. طبراني، المعجم الکبیر، 12 : 154، رقم : 12741
3. بیھقي، السنن الکبريٰ، 10 : 3، رقم : 19452
‘‘وہ شخص کامل مومن نہیں جو خود تو سیر ہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا پڑا رہے۔’’
2. ما أمن بي من يات شبعانًا وجاره جائع إلی جنبه وهو يعلم به.
1. طبرانی، المعجم الکبیر، 1 : 259، رقم : 751
2. ھیثمی، مجمع الزوائد، 8 : 167
3. منذري، الترغیب والترھیب، 3 : 243، رقم : 3874
‘‘وہ آدمی میرے اُوپر ایمان نہ لايا جس نے خود تو رات سیر ہو کر بسر کی مگر اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا سويا اور یہ بات اس کے علم میں تھی۔’’
3. أيما أهل عرصة أصبح فيهم امرؤ جائعًا فقد برء ت منهم ذمة اﷲ ومنها.
1. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2 : 14، رقم : 2165
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 33، رقم : 4880
3. ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4 : 302، رقم : 20396
4. أبو یعلی، المسند، 10 : 117، رقم : 5746
‘‘جس بستی میں کسی شخص نے اس حال میں صبح کی کہ رات بھر بھوکا رہا اس بستی سے اللہ کی حفاظت اور نگرانی کا وعدہ ختم ہوجاتا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال بن حارث مزنی سے غیر مزروعہ زمین واپس لے لی تھی جو انہیں حضور عليہ الصلوۃ والسلام نے عطا فرمائی تھی۔ حالانکہ وہ اس پر رضامند نہ تھے۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد ملاحظہ ہو :
إنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لم يقطعک لتحجره عن النّاس. إنّما أقطعک لتعمل فخذ منها ما قدرت علی عمارته وردّ الباقي.
1. أبوعبید، کتاب الاموال : 368، رقم : 712
3. یحی بن آدم، کتاب الخراج : 294
‘‘یقین جانو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہ علاقہ اس لئے نہیں بخشا تھا کہ تم اسے لوگوں سے روک کر بیٹھ جاؤ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ علاقہ اس لئے عطا فرمايا تھا کہ تم اسے آباد کرو۔ لہذا جس حصے کی آباد کاری تم کر سکتے ہو وہ تم لے لو اور بقیہ واپس کر دو۔’’
قرآنِ حکیم نے غرباء و مساکین کا حق ہر دوسرے حق پر مقدم رکھا ہے۔ حتيٰ کہ وراثت میں جس پر ورثاء کا مکمل طور پر نجی حق ہوتا ہے اللہ تعاليٰ نے نادار اور غریب لوگوں کو وہاں بھی محروم نہیں رہنے ديا بلکہ ارشاد فرمايا :
وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُوْلُو الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفاً.
النساء، 4 : 8
‘‘اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہوo’’
اس آیت سے دو اُصول مستنبط ہوتے ہیں :
1۔ یہ کہ اسی مال میں سے یتاميٰ و مساکین (مستحقین) کو دو جو ورثاء میں تقسیم کيا جا رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ورثاء تو بہتر مال لے جائیں ليکن مستحقین کو گھٹيا مال دے ديا جائے۔ یہاں ‘‘منہ‘‘ کا مفہوم اور اس حصہ آیت کا افادہ کلام یہی ظاہر کر رہا ہے۔
2۔ مزید برآں یہ کہ وراثت میں غرباء مستحقین کے حق کا شرعی وجوب بھی ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ‘‘فارزقوھم امر کا صیغہ ہے۔ یعنی حکم ديا جا رہا ہے کہ مال وراثت میں غرباء اور مساکین کو شریک کيا جائے۔
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ مال وراثت بلا شرکت غیرے ورثاء کا حق ہوتا ہے ليکن اس میں بھی مستحقین کو شریک کرنے کا حکم ان کے حق کے شرعی وجوب اور اہمیت پر دلالت کر رہا ہے۔ اس امر کی وضاحت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی درج ذیل قول سے ہوتی ہے :
أمر اﷲ عزوجل المؤمنين عند قسمة مواريثهم أن يصلوا أرحامهم ويتاماهم ومساکينهم من الوصية فإن لم تکن وصية وصل لهم من الميراث.
1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 5 : 49
2. طبری، جامع البيان عن تأویل أی القرآن، 4 : 266
3. شافعی، أحکام القرآن، 1 : 147
‘‘اللہ تعاليٰ نے ایمان والوں کو حکم ديا ہے کہ جب مال وراثت تقسیم ہونے لگے تو رشتہ داروں کے ساتھ یتاميٰ و مساکین کو بھی وصیت میں شامل کریں اور اگر ان کے حق میں وصیت نہ کی گئی ہو تو پھر انہیں وراثت میں شریک کيا جائے۔’’
اس سے ثابت ہوا کہ مستحق غرباء و مساکین یعنی ناداروں کو حصہ، ملکیت وراثت میں سے بہر صورت ديا جائے گا۔ خواہ وہ وصیت کے طور پر ہو يا مال وراثت میں سے۔
فأيّما مؤمن مات وترک مالًا فليرثه عصبته من کانوا فإن ترک دينا أو ضياعاً فليأتني وأنا مولاه.
1. بخاري، الصحیح، کتاب التفسیر، باب اَلنَّبِيُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ، 4 : 1795، رقم : 4503
2. مسلم، الصحیح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثتہ، 3 : 1237، رقم : 1619
3. ترمذي، السنن، کتاب الفرائض، باب ما جاء من ترک مالا فلورثتہ، 4 : 413، رقم : 2090
‘‘جو مومن بھی مال چھوڑ کر مرے گا اس کے وارث اس کے عصبہ (قریبی رشتہ دار) ہوں گے جو کوئی بھی ہوں گے اور اگر وہ اپنے ذمہ دَین (قرض) يا بچے (جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو) چھوڑ کر مرا تو وہ قرض اور یتیم بچے میرے ذمہ ہیں اور میں ہی ان کا والی ہوں (یعنی ان کی کفالت کروں گا اور ان پر مال خرچ کروں گا)۔’’
فأيکم ما ترک دينا أوضيعة فادعوني فأنا وليه.
1. مسلم، الصحیح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثتہ، 3 : 1238، رقم : 1619
2. أبوداود، السنن، کتاب الفرائض، باب فی میراث ذوی الأرحام، 3 : 123، رقم : 2900
3. عبدالرزاق، المصنف، 8 : 291، رقم : 15261
4. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 318، رقم : 8219
5. بیہقي، السنن الکبری، 6 : 201، رقم : 11910
‘‘تم میں سے جو آدمی قرض يا چھوٹے بچے چھوڑ کر مر جائے تو مجھے بلاؤ، بیشک قرض اور بچوں کے معاملے میں اس کا میں ولی ہوں۔’’
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أتی النبي صلی الله عليه وآله وسلم بمال من البحرين، فقال : انثروه في المسجد، وکان أکثر مال أُتی به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فخرج رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلی الصلاة ولم يلتفت إليه، فلما قضی الصلاة جاء فجلس إليه، فما کان يری أحداً إلّا أعطاه، … فما قام رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وثم منها درهم.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب القسمۃ وتعليق القنو في المسجد، 1 : 162، رقم : 411
2. بیھقي، السنن الکبری، 6 : 356، رقم : 12807
‘‘بحرین سے خراج اور جزئیے کا مال بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اس مال کو مسجد (کے صحن) میں پھیلا دو۔ بقول راوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جتنے بھی اموال آئے ان میں یہ سب سے زيادہ تھا (محدثین نے ایک لاکھ درہم کا اندازہ لگايا ہے) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے باہر تشریف لائے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ جب نماز ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال کے پاس بیٹھ گئے۔ پس جو بھی نظر آتا اسے ضرورت کے مطابق عطا فرما دیتے ۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک نہ اٹھے جب تک سارا مال تقسیم نہ ہو گيا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔’’
اس ضمن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی (إنّ في المال لحقّا سوی الزّکاة) ‘‘بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں‘‘- اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کر دینے سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ مال کا حق ادا ہو گيا۔ بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں سے مستحقین کے ایسے حقوق ہیں جن کا ادا کرنا فرض کا درجہ رکھتا ہے۔
1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 241
2. طبری، جامع البيان عن تأویل آی القرآن، 15 : 71
3. طبری، جامع البيان عن تأویل أی القرآن، 2 : 96
مستحقین کے حقوق کی ادائیگی اس قدر اہم ہے کہ قرآن مجید کی نظر میں اسے نظر انداز کرنے کی صورت میں کوئی بھی عمل، عملِ صالح نہیں قرار پاتا قرآن اس تصور کی نفی کرتے ہوئے بڑی صراحت کے ساتھ ‘‘نیکی کے تصور" کو یوں بيان کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.
آل عمران، 3 : 91
‘‘تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔’’
یہاں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ قرآن حکیم میں جس جگہ بھی ‘‘تقويٰ" اور ‘‘متقین" کی تعریف بيان کی گئی ہے۔ وہاں ‘‘انفاق فی المال" کی صفت کو کہیں بھی نظر انداز نہیں کيا گيا۔ بلکہ اس صفت کو اس قدر نماياں انداز سے پیش کيا گيا ہے کہ یہ ‘‘عین تقوی" يا متقین کا جزو لا ینفک معلوم ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں سب سے پہلے ‘‘متقین کی اصطلاح اور ان کی تعریف سورہ بقرہ کے آغاز میں وارد ہوئی ہے اور اس میں ان کے لئے ‘‘ومما رزقناهم ينفقون" کی شرط پوری کرنا لازمی قرار ديا گيا ہے۔ یعنی انہیں اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے محتاجوں اور ناداروں کا معاشی تعطل دور کرنے کے لئے خرچ کرنا ہو گا۔ دوسرے مقام پر ایجابی انداز سے نیکی کا مفہوم واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا :
وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ.
البقره، 2 : 177
‘‘بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قيامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔’’
گويا برّ، صدق اور تقويٰ تمام تصورات کا تقاضائے اوّلین اسی حق کی ادائیگی ہے۔ اس کے بغیر انسان صالحیت کے کسی مقام کو حاصل نہیں کر سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
ما أوتيکم من شيء وما أمنعکموه إنّ أنا إلّا خازن أضع حيث أمرت.
1. أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، 3 : 135، رقم : 2949
2. إسحاق بن راهویہ، المسند، 1 : 425، رقم : 486
3. ابن عبد البر، التمھید، 40 : 51
4. مناوي، فیض القدیر، 5 : 430
‘‘میں تم کو نہ کچھ دے سکتا ہوں اور نہ کچھ روک سکتا ہوں۔ میں صرف خزانچی ہوں جس جگہ صرف کرنے کا مجھے حکم ديا جاتا ہے وہاں ہی صرف کرتا ہوں۔’’
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک دراصل مسلمان حکمرانوں کے لئے صرف و خرچ کے باب میں ایک رہنما اُصول فراہم کرتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إنّ رجلاً جاء إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فسأله أن يعطيه فقال النبي صلی الله عليه وآله وسلم ما عندي شيء ولکن ابتع عليّ فإذا جائني شی قضيته، فقال عمر : يا رسول اﷲ، قد أعطيته فما کلفک اﷲ ما لا تقدر عليه، فکره النّبي صلی الله عليه وآله وسلم قول عمر، فقال رجل من الأنصار : يا رسول اﷲ أنفق ولا تخف من ذي العرش إقلالاً. فتبسم رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وعرف البشر في وجهه لقول الأنصاري ثم قال : بهذا کما أمرت.
1. ترمذي، الشمائل المحمدیۃ، 1 : 294
2. مقدسي، الأحادیث المختارۃ، 1 : 180، رقم : 88
3. ابن أبي الدنيا، مکارم الأخلاق، 1 : 118، رقم : 390
‘‘ایک مرتبہ ایک ضرورت مند آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آيا اور درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے کچھ عنایت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا اس وقت تو میرے پاس کوئی چیز نہیں البتہ جو کچھ لینا چاہتے ہو میرے نام پر خرید لو جب میرے پاس کوئی چیز آ جائے گی تو میں ادائیگی کر دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اس وقت حاضرِ خدمت تھے، نے عرض کيا : يا رسول اللہ! آپ جس چیز پر قدرت نہیں رکھتے يا جو چیز آپ کے پاس نہیں، اللہ نے جب آپ کو اس کا مکلف نہیں کيا تو آپ خواہ مخواہ کیوں تکلیف فرماتے ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کو پسند نہ فرمايا۔ ایک انصاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری کو دیکھا تو عرض کيا : يا رسول اللہ! آپ خرچ فرماتے رہیں اور عرش والے مالک سے کسی قسم کی کمی کا خوف نہ فرمائیں۔ انصاری کی یہ بات سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اور خوشی سے کھل اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا مجھے اسی چیز کا حکم ديا گيا ہے۔’’
سیرتِ مبارکہ سے اس باب میں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ اسلامی رياست ان تمام ذرائع اور اسباب کا سد باب کرے جو ناجائز، استحصالی اور اسلامی تعلیمات کے منافی معیشت کے فروغ کی راہ ہموار کرتے ہوں۔ ان میں سر فہرست سود ہے۔
اللہ تبارک و تعاليٰ نے اہلِ اقتدار کی ذمہ داری بيان کرتے ہوئے فرمايا ہے :
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ.
الحج، 22 : 41
‘‘(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختيار میں ہےo’’
جبکہ اس کے برعکس سود اس مثالی نظام کی کلیتاً نفی کا نام ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
اَلَّذِيْنَ يَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ.
البقرۃ، 2 : 275
‘‘جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قيامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر ديا ہو۔’’
یعنی قيامت کے دن سود خور اس فالج زدہ شخص کی طرح کھڑے ہو جائیں گے جیسے کسی کو کوئی شیطان يا جن چھو جائے اور اس کے ہوش و حواس جاتے رہیں قيامت کے دن جس کو فالج زدہ کھڑا دیکھو سمجھ لو کہ وہ سود خور ہے اور اس حرام خوری کے باعث آج قيامت کے دن اس کے اوسان خطا کر دیئے گئے ہیں۔ پھر فرمايا :
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا.
البقره، 2 : 275
‘‘یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے۔’’
سود خوروں کو اس لئے شیطان کے مس شدہ کی طرح ہوش و حواس سے عاری کر کے کھڑا کيا جائیگا کہ جب انہیں کہا جاتا تھا کہ سود چہوڑ دو تو وہ کہتے تھے بھئی سود لینا ایک نفع ہی تو ہے جیسے تم کاروبار میں نفع کماتے ہو۔ ہم قرض کے ذریعے مال کماتے ہیں۔ فرمايا چونکہ انہوں نے تجارت کو سود کے برابر اور سود کو تجارت کے برابر قرار دے ديا تھا اور یہ اتنا بڑا جرم ہے جس کے باعث قيامت کے دن انہیں شیطان زدہ اشخاص کی طرح کھڑا کيا جائے گا۔
وَاَحَلَّ اﷲُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا.
البقره، 2 : 275
‘‘حالانکہ اﷲ نے تجارت (سودا گری) کو حلال فرمايا ہے اور سود کو حرام کيا ہے۔’’
سود کو اللہ تعاليٰ نے حرام کر ديا ہے۔ اگر تجارت کے ذریعہ نفع کماؤ تو یہ نفع حلال ہے اگر قرض دے کر سود کے ذریعہ نفع کماؤ تو یہ حرام ہے۔
پھر فرمايا :
فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ.
البقرۃ، 2 : 275
‘‘پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آ گيا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے۔’’
وہ لوگ جن تک قرآن کا حکم نہیں پہنچا تھا۔ وہ سود لیتے اور دیتے رہے۔ جب قرآن کا حکم آ گيا انہوں نے سود ختم کر ديا ان کے لئے فرمايا کہ جنھوں نے سود چہوڑ ديا ان کا پچھلا ليا ديا اللہ نے معاف کر ديا۔ فرمايا :
وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.
البقره، 2 : 275
‘‘اور جس نے پھر بھی ليا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گےo’’
یعنی جنہوں نے نصیحتِ الہی اور فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر بھی سود اور سودی نظام نہ چھوڑا وہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں جلتے رہیں گے۔
ارشادِ ربانی ہے :
يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ.
البقره، 2 : 276
‘‘اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زيادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتاo’’
اس آیہ مبارکہ میں اس بنيادی حقیقت کی طرف متوجہ کيا گيا ہے کہ سود پر مبنی معیشت معاشرے میں ظلم، استحصال اور استبداد کو راہ دے گی جس سے عام فردِ معاشرہ کی معاشی نشو و نما کی راہ رک جائے گی کیونکہ سود کا نظام معاشی بحران کے سوا کچھ نہیں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
الرّبا وإن کثر فإنّ عاقبته تصير إلی قلٍّ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 395، رقم : 3754
‘‘سود اگرچہ کتنا ہی زيادہ ہو جائے مگر اس کا نتیجہ قلت ہے۔’’
جبکہ صدقات کا مفہوم معاشی پیداوار میں عام آدمی کو شریک کر کے عام فرد معاشرہ کے لئے بھی معاشی نمو کی راہ کھولنا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا نتیجہ انجام کار معاشی خوشحالی ہوتا ہے :
ما نقصت صدقة من مال.
مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، 4 : 2001، رقم : 2588
2. دارمی، السنن، 1 : 486، رقم : 1676
‘‘کوئی صدقہ کسی مال سے کچھ گھٹاتا نہیں۔’’
قرآنِ حکیم میں اس تصور کو دوسرے مقام پر یوں بيان کيا گيا ہے :
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ.
الروم، 30 : 39
‘‘اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمھارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اﷲ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ (و خيرات) میں دیتے ہو (فقط) اﷲ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عند اﷲ) کثرت سے بڑھانے والے ہیںo’’
اللہ تعاليٰ نے مسلمانوں کو سود ترک کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمايا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.
البقره، 2 : 278
‘‘اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گيا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo’’
اہلِ ایمان کو آواز دی گئی کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والو، قرآن اور اسلام پر ایمان لانے والو، اللہ کو رب اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رسول ماننے والو! سود کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ سود کو ختم کرنے کا اعلان آ چکا ہے جو سود تم لے چکے تھے اور دے چکے تھے وہ گزر گيا۔ اگر اللہ سے ڈرتے ہو تو سود کا بقیہ لین دین بند کر دو۔ پھر اللہ تعاليٰ نے سود خوروں سے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے ارشاد فرمايا :
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ.
البقره، 2 : 279
‘‘پھر اگر تم نے ایسا نہ کيا تو اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ۔’’
اگر اللہ تعاليٰ کا یہ واضح حکم سن کر بھی تم نے سود کا لین دین اور سود کا نظام ختم نہ کيا تو سود خورو پھر تيار ہو جاؤ تمہارے خلاف، تمہارے استحصالی نظام کے خلاف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اعلانِ جنگ ہو چکا ہے۔
اُمتِ مسلمہ کو اب دو راستوں میں سے ایک راستے کو قبول کرنا ہو گا اگر اللہ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنا چاہیں تو سودی نظام کو لات مارنا ہو گی اور اگر سود کی راہ پر چلنا چاہیں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف (معاذ اللہ) جنگ کے لئے خود کو تيار کرنا ہو گا۔ اللہ رب العزت نے فرمايا :
وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ.
البقرۃ، 2 : 279
‘‘اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کيا جائےo’’
ايامِ جاہلیت میں عرب سود خوری کا عام طور پر یہ طریقہ تھا کہ ایک خاص میعاد کے لئے اُدھار سود پر ديا جاتا تھا اور اگر اس مقررہ مدت تک قرض دار ادائیگی نہ کر سکتا تو مزید مہلت کے ساتھ سود کی مقدار بھی بڑھا دی جاتی تھی اور اس طرح ہر آنے والے دور میں سود کی مقدار اضعاف مضاعف (دوگنی چوگنی) ہو جاتی تھی۔ قرآن حکیم نے نہ صرف سود کی عام شکل بلکہ اس شکل کی بھی جو سود کی بد ترین صورت ہے ممانعت فرمائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ سود چاہے کسی بھی نوع کا ہو اللہ کے ہاں قابلِ گرفت اور ناجائز ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
آل عمران، 3 : 130
‘‘اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھايا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاوo’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں جا بجا سود خوری پر وعید سنائی ہے :
عن أبي هريرة رضی الله عنه عن النّبي صلی الله عليه وآله وسلم قال : اجتنبوا السبع الموبقات قالوا : يا رسول اﷲ وما هن؟ قال : الشرک باﷲ والسحر وقتل النّفس الّتی حرم اﷲ إلّا بالحق وأکل الرّبوا وأکل مال اليتيم والتّولّی يوم الزحف وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات.
(1) بخاري، الصحیح، کتاب الوصايا، باب قول اﷲ تعاليٰ : إنّ الذين يأکلون أموال الیتامی ظلما، 3 : 1017، رقم : 2615
‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کيا : يا رسول اللہ! وہ سات چیزیں کونسی ہیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اللہ تعاليٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ایسی جان کو ناحق مار ڈالنا جس کا مارنا اللہ تعاليٰ نے حرام فرما ديا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے روز پیٹھ دکھا کر بھاگنا اور بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔’’
عن جابر بن عبد اﷲ رضی الله عنه لعن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أکل الربوا وموکله وکاتبه وشاهديه وقال هم سواء.
(2) 1. مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب لعن أکل الربا ومؤکله، 3 : 1219، رقم : 1598
2. أبو یعلی، المسند، 3 : 377، رقم : 1849
3. بیھقي، السنن الکبريٰ، 5 : 275، رقم : 10248
‘‘حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے اور سودی تحریر يا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمايا کہ یہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔’’
عن أبي هريرة رضی الله عنه عن النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم قال : أربع حق علی اﷲ أن لا يدخلهم الجنّة ولا يذيقهم نعيمها مدمن الخمر وأکل الربا وأکل مال اليتيم بغير حق والعاق لوالديه.
1. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2 : 43، رقم : 2260
2. منذري، الترغیب والترھیب، 3 : 4، رقم : 2844
‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعاليٰ نے اپنے اوپر لازم کيا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہ فرمائے گا اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائے گا : عادی شرابی، سود کھانے والا، ناحق یتیم کا مال کھانے والا، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔’’
ان چار عملوں میں جس میں کوئی ایک عمل بھی ہوگا اللہ تعاليٰ اس کو کبھی بھی جنت میں داخل نہیں کریگا اور نہ جنت کی نعمتوں میں سے اسے حصہ ملے گا جب تک وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں چھوڑ کر تائب نہ ہو جائے۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
عن أبي هريرة رضی الله عنه عن النّبي صلی الله عليه وآله وسلم الربوا ثلاثة ويعودن حوبًا أيسرها أن ينکح الرّجل أمّه.
(2) ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب التغلیظ في الربا، 2 : 764، رقم : 2274
‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کے تہتر گناہ ہیں ان میں سے ادنيٰ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔’’
عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : الربا سبعون بابًا أدناها کالّذي يقع علی أمّه.
(3) بیھقي، شعب الإیمان، 4 : 394، رقم : 5520
‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کے ستر دروازے ( ستر قسمیں) ہیں ان میں سے ادنيٰ ایسا ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔’’
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کے ستر باب ہیں، کم سے کم گناہ ماں کے ساتھ بدکاری کی مثل ہے۔’’
اور عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یوں ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کے تہتر باب ہیں اور ادنيٰ درجہ یہ ہے جیسے کوئی ماں سے بدکاری کرے۔
بیھقي، شعب الإیمان، 4 : 394، رقم : 5519
(5) سود کا ایک درہم (روپیہ) کھانا چھتیس دفعہ زنا سے زيادہ سخت ہے
ارشادِ نبوی ہے :
عن عبد اﷲ بن حنظلة رضی الله عنه غسيل الملائکة قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : درهم ربا أکله الرّجل وهو يعلم أشدّ من ستة وثلاثين زنية.
1. دار قطنی، السنن، 3 : 16، رقم : 48
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 225، رقم : 22007
3. بزار، المسند، 8 : 309، رقم : 3381
‘‘حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ (جن کو شہید ہونے کے بعد فرشتوں نے غسل ديا تھا) نے روایت کيا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زيادہ شدید (جرم) ہے۔ بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے۔’’
عن عبد اﷲ بن سلام رضی الله عنه عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : الدرهم يصيبه الرّجل من الربا أعظم عند اﷲ من ثلاثة وثلاثين زنية يزنيها في الإسلام.
1. ھیثمي، مجمع الزوائد، 4 : 117
2. منذري، الرغیب والترھیب، 3 : 5، رقم : 2848
‘‘حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : ایک درہم جس کو کوئی شخص سود سے حاصل کرے اللہ تعاليٰ کے نزدیک تینتیس زانیوں کے حالت اسلام میں زنا کرنے سے بھی زيادہ شدید جرم ہے۔’’
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
عن عبداﷲ بن مسعود رضی الله عنه قال : إنّ النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم قال : الربا بضع وسبعون بابًا والشرک مثل ذالک.
بزار، المسند، 5 : 318، رقم : 1935
‘‘حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سود کے ستر سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر ہے۔ )‘‘
عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أتيت ليلة أسري بي علی قوم بطونهم کالبيوت فيها الحيات تری من خارج بطونهم فقلت من هؤلاء يا جبرائيل قال : هؤلاء أکلة الرّبا.
1. ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب التغلیظ في الربا، 2 : 763، رقم : 2273
2. ابن أبی شیبۃ، المصنف، 1 : 26، رقم : 193
‘‘حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدہوں سے بھرے ہوئے گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے دريافت کيا : یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب ديا : یہ سود خور ہیں۔’’
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامعاشی جہت سے مطالعہ، اسلام کی معاشی تعلیمات کی اہمیت اور دنيا میں موجود دوسرے معاشی نظاموں اور افکار کے مقابل اسلام کے معاشی نظام کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانیت کئی معاشی نظاموں سے گزری۔ دورِ جدید میں اشتراکیت اور سرمایہ داریت دو ایسے معاشی نظام ہیں جن کے فلسفہ پر عمل ہوتا رہا ليکن یہ دونوں نظام افراط يا تفریط کا شکار ہیں۔ اشتراکیت میں انفرادی ملکیت کی نفی کر کے پورے معاشرے کو ایک اَن دیکھے اور نادیدہ معاشی غاصب کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ديا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جاری معاشی سرگرمیوں سے ہر فرد اتنا مستفید نہیں ہو سکتا جتنا اس کا حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ صدی میں اس نظام کی بڑی حد تک ناکامی کا مشاہدہ چشمِ عالم کر چکی ہے۔ دوسرا بڑا نظام سرمایہ داریت ہے جس کا مغرب میں بہت چرچا ہی نہیں بلکہ مغربی دانشور اِسے انسانیت کی معراج اور انسانی شعور اور ارتقاء کا آخری نکتہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ليکن یہاں انفرادی ملکیت کی وہ لا محدود تصویر موجود ہے۔ جس کے تحت امیر اور صاحبِ ثروت ایسی کسی پابندی کے ماتحت نہیں آتا کہ جس کے تحت وہ افرادِ معاشرہ کے لئے بھی اتنے ہی معاشی فوائد کے دروازے کھولنے کا پابند ہو جن سے وہ خود مستفید ہو رہا ہے۔
ليکن ان سب کے مقابل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے ملنے والا نظام اعتدال و توازن کا حامل ہے۔ جہاں نہ تو انفرادی ملکیت کی نفی کر کے فرد کو اجتماع کے سامنے بے بس اور بے اختيار کر ديا گيا ہے اور نہ ہی انفرادی ملکیت کو وہ لا محدودیت دی گئی ہے کہ جس سے معاشرے میں ارتکاز و اکتناز کا وہ لا محدود سلسلہ شروع ہو جائے کہ دولت چند ہاتھوں میں ہی مرتکز ہو کر رہ جائے بلکہ اسلام نے انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو تصورِ امانت سے بدلا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات سے اس تصور کو وہ علمی اور فکری وضاحت عطا فرمائی جس کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔ جنھوں نے صاحب ثروت ہوتے ہوئے اپنے وسائل اور معاشی ذخائر معاشرے کی فلاح و بہبود، دینِ حق کے ابلاغ و استحکام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کے فروغ و نفوذ کے لئے وقف کيا۔ نتیجتاً پورا معاشرہ ایک ایسے معاشی اور معاشرتی عدل کا مرقع بن گيا کہ تاریخ میں چشمِ عالم نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ پورے معاشرے میں کہیں بھی کوئی معاشی تعطل کا شکار يا محرومی میں مبتلا فرد موجود نہ تھا۔ آج جبکہ انسانیت دیگر دائرہ ہائے حيات کی طرح معاشی دائرہ میں مسائل کا شکار ہے۔ آج سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی وہ راہنمائی مل سکتی ہے جسے لے کر ہم اس مثالی نظام کی طرف بڑھ سکیں جس کا نظارہ دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ خلافتِ راشدہ میں ہو چکا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved