زمین بلا شبہ قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے جو نہایت فراخی سے بنی نوع انسان کو عطا کيا گيا ہے۔ زمین معاشی پیداوار کا بے بہا خزانہ ہے جس میں اصلاً تمام انسانوں کا حق معاش برابر ہے۔ مگر جو اس پر شرعاً قابض اور متصرف ہو اور اس میں اپنا سرمایہ يا محنت صرف کرے اس کا حق، انتفاع اور استعمال میں دوسروں پر فائق ہو جاتا ہے۔ ورنہ اصلاً سب انسان برابر ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
1. هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا.
البقره، 2 : 29
‘‘وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کيا۔’’
اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ زمین اور اس کے اندر موجود خزانے بنيادی طور پر تمام انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ سو اس حق کو اُصولاً کسی خاص طبقے تک محدود کر دينا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا منشائے ایزدی کے خلاف ہے۔
2۔ دوسرے مقام پر سورہ الاعراف میں فرمايا :
وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْـلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ.
الاعراف، 7 : 10
‘‘اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کيا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo’’
اس آیت کریمہ میں تمام انسانوں کے لئے زمین کے اندر پائے جانے والے اسباب معاش مذکور ہیں اور یہ کہ انہیں زمین پر قابض و متصرف ہونے کا حق ديا گيا ہے۔
3۔ تیسرے مقام پر ارشاد فرمايا :
فَاَنْبَتْنَا فِيْهَا حَبًّاO وَّعِنَبًا وَّقَضْبًاO وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْـلًا وَّحَدَائِقَ غُلْبًاO وَّفَاکِهَةً وَّاَبًّاO مَّتَاعًا لَّکُمْ َولِاَنْعَامِکُمْ.
عبس، 80 : 27.32
‘‘پھر ہم نے اس میں اناج اگايا۔ اور انگور اور ترکاری۔ اور زیتون اور کھجور۔ اور گھنے گھنے باغات۔ اور (طرح طرح کے) پھل میوے اور (جانوروں کا) چارہ۔ خود تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لئے متاعِ (زیست)o’’
مذکورہ بالا آيات میں عموم ملکیت يا عموم انتفاع کا ذکر اشارتاً کيا گيا ہے۔ اب قرآن مجید کا وہ ارشاد ملاحظہ فرمائیں جس میں بصراحت تخلیقِ ارضی کے اندر اصلاً سب کا حق برابر ہونا مذکور ہے۔
4۔ ارشادِ الہی ہے :
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ.
حم السجدہ، 41 : 10
‘‘اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنيات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں ( اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کيا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہےo’’
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی زمین وقف کر دی تھی اس میں کھجور کے درخت تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کيا : يا رسول اللہ! مجھے ایک زمین ملی ہے جو بڑی نفیس ہے میں وہ خيرات کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
تصدق بأصله لا يباع ولا يوهب ولا يورث ولکن ينفق ثمره فتصدق به عمر.
1. بخاری، الصحیح، کتاب الوصايا، باب قول اﷲ تعالی وابتلوا الیتامی حتّی إذا بلغوا النکاح، 3 : 1017، رقم : 2613
2.نسائي، السنن الکبريٰ، 4 : 94، رقم : 6428
3. ابن حبان، الصحیح، 11 : 264، رقم : 4901
‘‘اصل زمین کو صدقہ کر دو تاکہ نہ اسے فروخت کيا جا سکے نہ ہبہ کی جا سکے اور نہ ورثہ بن سکے۔ البتہ اس کا پھل راہ خدا میں وقف کر ديا جائے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر ديا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے تقسیم و تحدید اراضی کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے :
لولا آخر المسلمين ما فتحت قرية إلّا قسمتها بين أهلها کما قسم النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم خيبر.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب المزارعۃ، باب أوقاف أصحاب النّبيّ وأرض الخراج، 2 : 822، رقم : 2209
2۔ أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب ما جاء في حکم أرض خيبر، 3 : 161، رقم : 3020
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 40، رقم : 284
4۔ بزار، المسند، 1 : 399، رقم : 276
‘‘اگر مجھے آئندہ جو لوگ مسلمان ہوں گے ان کا خيال نہ ہوتا تو میں جس بستی کو فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں تقسیم کر دیتا جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خيبر کو تقسیم فرما ديا۔
جب کوئی شخص حلال طریقے سے مال جمع کرتا ہے اور اعتدال و ميانہ روی کیساتھ خرچ کرتا ہے تو جو کچھ اس میں سے اسکے پاس بچ جاتا ہے حکومت اور اسکے قوانین اسکی حفاظت کرتے ہیں۔ معاشرے کیلئے ضروری ہے وہ اسکی ملکیت میں پائی جانے والی ہر چیز کو عزت سے دیکھے اور اس کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسکا مال اسکی مرضی کے بغیر حاصل کرے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
کلّ المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم، 4 : 1986، رقم : 2564
2۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن، 2 : 1298، رقم : 3933
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 277، رقم : 7713
4۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 6 : 92
‘‘مسلمان (کی سب چیزیں) دوسرے مسلمان پر حرام ہیں : اسکا خون، مال اور عزت و آبرو۔
ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ.
النساء، 4 : 29
‘‘اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اسکے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہوo’’
اسی وجہ سے شریعت میں چوری اور تمام قسم کی زيادتیوں کی سزاؤں کیلئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ وہ شخص جسکے پاس اپنی ضروريات سے زائد مال بچ جائے اس پر واجب ہے کہ وہ اس میں اتنا مال کہ جس سے کسی دوسرے شخص کی مدد ہو سکے نکالے۔ اس عمل کو زکوٰۃ سے تعبیر کيا جاتا ہے۔ یہ نقد اموال میں اڑھائی فی صد ہوتی ہے اور ان لوگوں کی ضروريات کو پورا کرنے کے لئے دی جاتی ہے جو کام کرنے سے عاجز ہوں۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ کے مال سے ایسے منصوبے پایہء تکمیل کو پہنچائے جائیں کہ جس سے معاشرتی عدل و انصاف ہو سکے اور لوگوں کا معيار زندگی بلند ہو۔
تصورِ زکوٰۃ کی بنياد ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو کام کرنے پر قادر نہیں اور وہ لوگ جو کام پر تو قادر ہیں مگر کوئی کام انہیں ملتا نہیں اور وہ لوگ جنہیں کام مل تو جاتا ہے مگر اس کام کے عوض جو اُجرت انہیں ملتی ہے اس سے ضروريات زندگی پوری نہیں ہوتیں۔ لہذا ایسے لوگوں کی مدد کرنا زکوٰۃ کی ادائیگی میں پیشِ نظر ہے۔
لوگوں کے پاس ضرورياتِ زندگی سے زائد جو مال ہے اس میں محروم المعیشت اور فقراء کا حق ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَالَّذِيْنَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ. لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ.
المعارج، 70 : 24.25
‘‘اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کاo’’
جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے تو اس کا ہرصاحبِ نصاب پر ادا کرنا ضروری ہے اور اگر ادا نہیں کرتا تو حکومت اس سے یہ زکوٰۃجبراًلے سکتی ہے۔ بعض مذہبی سکالرز کی رائے ہے کہ اگر کوئی شخص زکوٰۃادا نہیں کرتا تو اس کا معاقبہ اس طرح کيا جائے کہ حکومت اس سے زکوٰۃ کے علاوہ اس کے مال سے کچھ حصہ بطور سزا لے لے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ کے بارے میں فرمايا :
من أعطاها مؤتجرًا فله أجرها، ومن کتمها فإنّا آخذوها.
1۔ عبد الرزاق، المصنف، 4 : 18، رقم : 6824
2۔ طبراني، المعجم الکبیر، 19 : 410، رقم : 984
3۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 4 : 105، رقم : 7120
‘‘جس نے اجر کے لئے زکوٰۃ ادا کی اسے اجر عطا کيا جائے گا اورجس نے اسے چھپايا ہم اس سے لیں گے۔’’
دنيا میں عزت و تکریم کے اعتبار سے تمام لوگ مساوی ہیں جس طرح کہ ارشاد باری تعاليٰ ہی :
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْ اٰدَمَ.
بنی اسرائیل، 17 : 70
‘‘اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔
قرآنِ مجید نے آیت کریمہ میں مصارف زکوٰۃ بيان کئے ہیں۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ.
التوبۃ، 9 : 60
‘‘بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کیلئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی اُلفت پیدا کرنا مقصود ہو اور(مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اُتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کيا جانا حق ہے)۔
علماء نے فقیر اور مسکین کے بارے میں اختلاف کيا ہے کہ کيا یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں يا دونوں میں سے ایک کی حالت دوسرے سے ابتر ہے۔
فقیر وہ شخص ہوتا ہے جو کام کر سکتا ہے ليکن وہ اسے ملتا نہیں يا ملتا ہے ليکن اسے اس کام سے اتنا معاوضہ نہیں ملتا کہ جس سے وہ اپنے اہل وعيال کے اخراجات کو پورا کر سکے، جبکہ مسکین وہ شخص ہے جو کام کرنے سے عاجز ہوتا ہے جیسے نابينا، اپاہج وغیرہ۔
اور ‘‘فی سبيل اللہ سے مراد ہر وہ منصوبہ (Project) ہے جس سے فقراء اور تمام لوگ فائدہ حاصل کر سکیں جیسے ہسپتال، سکول، پناہ گاہیں اور یتیم خانے وغیرہ۔
جب حکومت کو پتاچل جائے کہ زکوٰۃ کے مال سے فقیروں اور محتاجوں کی ضروريات پوری نہیں ہو رہیں تو حکومت کیلئے جائز ہے کہ لوگوں کے اموال میں سے اتنی مقدار لے کہ جس سے لوگوں کی ضروريات کو پورا کيا جا سکے اور ان غریبوں کا معيارِ زندگی بلند ہو سکے۔ اس سلسلے میں دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے روایت کيا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
إنّ اﷲ فرض علی أغنياء المسلمين في أموالهم قدر الّذي يسع فقرائهم ولن يجهد الفقراء إلّا إذا جاعوا وعروا مما يصنع أغنياؤهم ألا وإنّ اﷲ محاسبهم يوم القيامة حسابًا شديدًا ومعذّبهم عذابًا نکرًا.
1۔ طبرانی، المعجم الأوسط، 4 : 49، رقم : 3579
2۔ منذری، الترغیب و الترھیب، 1 : 306، رقم : 1130
3۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، 3 : 62
‘‘اللہ تعاليٰ نے مسلمان امیر لوگوں پر فرض کيا ہے کہ وہ اپنے اموال سے اتنی مقدار غریبوں کو دیں کہ جس سے انکے رزق میں وسعت آ جائے اور جب غریب بہوکے ننگے ہوں تو وہ ہر گز نہ مانگیں سوائے اسکے جو امیر لوگوں نے انکے لئے بنايا ہو۔ خبردار! بے شک اللہ قيامت کے دن ان کا سخت احتساب کرے گا اور انہیں دردناک عذاب دے گا (اگر وہ ایسا نہیں کرتے)۔’’
اسی موضوع کے تحت ابن حزم نے جو کچھ اپنی کتاب ‘‘المحلی‘‘ میں لکھا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے :
‘‘تمام امیر لوگوں پر لازم ہے کہ غریبوں کی ضروريات زندگی کو پورا کریں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو حاکم انہیں مجبور کرے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ اگر انہیں زکوٰۃ نہ دی جائے تو اتنا ضرور انہیں ديا جائے کہ جس سے انکی روٹی، کپڑا اور مکان کی ضروريات پوری ہو سکیں۔
ابن حزم، المحلی، 6 : 154، 155
اس پر قرآن مجید سے دلیل کچھ یوں ہے :
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهُ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ.
بنی اسرائیل، 17 : 26
‘‘اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو)۔
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمايا :
وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ.
النساء، 4 : 36
‘‘اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے)اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے) اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کيا کرو)۔
ان آياتِ کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے مساکین اور مسافروں کا حق قرابت داروں کے ساتھ فرض قرار ديا ہے۔ مساکین و فقراء اور غرباء کا حق ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں ہے کہ ان سے پوچھا جائے گا :
مَا سَلَکَکُمْ فِيْ سَقَرَo قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَo وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِيْنَ.
المدثر، 74 : 42.44
‘‘(اور کہیں گے : ) تمہیں کيا چیز دوزخ میں لے گئیo وہ کہیں گے : ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھےo اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھےo’’
اس آیت کریمہ میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعاليٰ نے مساکین کو کھانا کھلانے کو نماز کے واجب ہونے کے ساتھ بيان کيا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
من لا يرحم لا يرحم.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد، 5 : 2235، رقم : 5651
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمۃ الصبيان، 4 : 1808، رقم : 2318
3۔ ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الولد، 4 : 318، رقم : 1911
4۔ أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی قبلۃ الرجل ولدہ، 4 : 355، رقم : 5218
5۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 228، رقم : 7121
6۔ ابن حبان، الصحیح، 2 : 202، رقم : 457
‘‘جو شخص (دوسروں پر) رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کيا جاتا۔
اس حدیث پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے پاس زائد مال ہو اور اپنے مسلمان بھائی کو بھوکا ننگا دیکھنے کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو بلاشبہ اس نے اس پر رحم نہیں کيا، لہذا وہ خدا کی رحمت کا مستحق نہیں۔
حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ فقیر لوگ تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
من کان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، إن أربع فخامس أو سادس.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب مواقیت الصلاة، باب السمر مع الضیف والأهل، 1 : 217، رقم : 577
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 198، رقم : 1709
3۔ أبو عوانہ، المسند، 5 : 204، رقم : 8398
4۔ بیہقی، الإعتقاد، 1 : 312
‘‘جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہے وہ (اصحابِ صفہ میں سے) تیسرے شخص کو ساتھ لے جائے اور اگر چار (اشخاص کا کھانا ہے) تو پانچویں يا چھٹے شخص کو کھلائے۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الإکراہ، باب يمين الرجل، 6 : 2550، رقم : 6551
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم، 2 : 862، رقم : 2310
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، 4 : 1996 : رقم : 2580
4۔ ترمذی، السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء فی الستر علی المسلم، 4 : 34، رقم : 1426
‘‘ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی اسے ظالم کے حوالے کرتا ہے۔’’
جس شخص نے اپنے بھائی کو بھوکا ننگا چہوڑا حالانکہ وہ اسے کھلا اور پہنا سکتا تھا تو گويا اس نے اسے ظالم سماج کے حوالے کر ديا۔
اسلام نے طاقت کے ناجائز استعمال اور مال کے ناجائز حصول سے منع کيا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے اور حکامِ وقت اور امراء کو ہدیہ (gift) دينا حرام قرار ديا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے عمال کے زائد مال و دولت کو تقسیم کر دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ یہ تمہارے پاس کہاں سے آيا ہے؟ تم نہ صرف آگ جمع کر رہے ہو بلکہ اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی منتقل کر رہے ہو۔ کسی والی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اُمت کے مال سے کچھ لے مگر اتنا لے سکتا ہے جو اس کے لیے کافی ہو۔ اسی طرح جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حاکم مقرر ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا :
‘‘میں اپنے اہل و عيال کے لیے کما کر ان کو کھلاتا تھا۔ اب جب کہ میں تمہاری خدمت پر مامور ہو گيا ہوں تو تم میرے لئے اپنے بيت المال سے حصہ مقرر کرو۔
1۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، 3 : 184
2۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1 : 72
پس حضرت ابو عبيدہ رضی اللہ عنہ نے ایک عام اوسط مسلم گھرانے کی مقدار ان کیلئے خرچہ مقرر کيا جس میں گرمی سردی کا کپڑا اور سواری بھی شامل تھی۔ یہ ایک ہزار درہم کے برابر تھا بعد میں 500 مزید بڑھا دئیے گئے۔
ابن سعد، الطبقات الکبری، 3 : 184
قرآن و سنت سے ماخوذ تصور ملکیت کے تحت اگر مملوکہ مال کے تمام حقوق جو دوسروں کو منافع میں شریک کرنے سے متعلق ہیں۔ پورے طور پر ادا نہ کئے جائیں تو نہ صرف ملکیت ہی ناجائز ہو جاتی ہے بلکہ بجائے خود وہ عذاب آخرت کا باعث بن جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِلا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ.
التوبۃ، 9 : 34
‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیںo’’
ایک حدیث مبارکہ میں بھی ضرورت سے زائد مال کو مستحقین پر خرچ کرنے کا حکم ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
يا ابن آدم، إنّک أن تبذل الفضل خير لک وإن تمسکه شرّ لک ولا تلام علی کفاف وابدأ بمن تعول.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بيان أن الید العليا خير من الید السفلی، 2 : 718، رقم : 1036
2۔ ترمذی، السنن، کتاب الزھد عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب منه، 4 : 573، رقم : 2343
3۔ أبو نعیم، المسند المستخرج علی صحیح إمام مسلم، 3 : 106
4۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظيم، 1 : 257
‘‘اے ابن آدم! ضرورت سے زائد مال خرچ کر دينا تیرے لیے زيادہ اچھا ہے۔ اور اگر تو اس مال کو خرچ کرنے سے روک لے گا تو یہ تیرے لیے باعث شر ہوگا۔ البتہ بقدر ضرورت بچا کر رکہنا تمہارے لیے باعث عار نہیں ہوگا اور انفاق کا آغاز اپنے قرابت داروں سے کر۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس باب میں جو تصور اپنے عمل مبارک سے واضح فرمايا ہے ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
لو کان لي مثل أحد ذهباً لسرّني أن لا تمر علي ثلاث ليال وعندی منه شیء إلّا شيئا أرصده لدين.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النبی : ما أحب أن لی مثل أحد ذھبا، 5 : 2368، رقم : 6080
2۔ بیہقي، السنن الکبريٰ، 4 : 82، رقم : 7021
‘‘اگر میرے پاس اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی ہوتا تو (ایسی صورت میں بھی) میرے لیے یہی باعث راحت ہوتی کہ میں تین راتیں گزرنے تک اسے راہ خدا میں خرچ کر دوں اور اس مال میں سے اسی قدر بچا کر رکھتا جو قرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوتا۔
مراد یہ کہ اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی ہوتا تو سوائے قرض کی ادائیگی جیسی ضرورت کے باقی تین دن کے اندر اندر تقسیم کر دينا ہی میرے لیے باعثِ مسرت امر ہوتا۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دولت خواہ جائز ذرائع سے ہی کمائی گئی ہو ليکن اگر اسے جمع کر کے رکھ ديا جاتا ہے اور وہ افراد معاشرہ کے درميان گردش نہیں کرتی تو اس ذخيرہ اندوزی (hoarding) پر دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے :
1. وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِلا فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo يَوْمَ يُحْمٰی عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ هَذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ.
التوبۃ، 9 : 34، 35
‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیںo جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانياں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کيا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھےo’’
2. لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْئٍ فَاِنَّ اﷲَ بِهِ عَلِيْمٌ.
آل عمران، 3 : 92
‘‘تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہےo’’
احتکار و اکتناز کی نفی اور انفاق فی سبيل اللہ کے حکم کی اہمیت احادیث مبارکہ میں بھی متعدد مقامات پر بيان کی گئی ہے۔
1۔ حضرت ابو سعید خدری صسے روایت ہے :
من کان عنده فضل زاد فيعد به علی من لا زاد له.
أبو داود، السنن، کتاب الزکوۃ، باب فی حقوق المال، 1 : 522، رقم : 1663
‘‘جس کے پاس زيادہ سامان (زیست) ہو تو وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس کوئی زاد راہ نہیں ہے۔’’
2۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال لوگ مالی تنگی اور عسرت کی حالت میں تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے موقع پر فرمايا تم میں سے کوئی شخص تیسری رات کے بعد اس حالت میں نہ اٹھے کہ اس کے گھر گوشت کی ایک بوٹی بھی ہو۔ (چنانچہ اس طرح عمل کيا گيا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گوشت ذخيرہ کرنے کی بجائے بانٹ ديا) اگلے سال بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی تعمیل میں سارا گوشت تقسیم کر ديا اور آئندہ ضرورت کے لئے بچا کر نہ رکھا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کيا :
يا رسول اﷲ، نفعل کما فعلنا العام الماضی قال کلوا وأطمعوا وادخروا فإنّ ذالک العام کان بالنّاس جهد فأردت أن تعينوا.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الاضاحی، باب یوکل من لحوم الرضاحی، 5 : 2115، رقم : 5249
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الاضاحی، باب بيان ما کان من النھی، 3 : 1563، رقم : 1974
‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کيا : يارسول اللہ! ہم اس مرتبہ بھی سابقہ سال کی طرح کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اس سال کھاؤ بھی اور (حسب ضرورت) بچا کر بھی رکھ لو پچھلے سال لوگ پریشان تھے پس میں نے چاہا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کرو۔
3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے معمول کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بيان کرتے ہیں :
کان ابن عمر رضی الله عنه لا يأکل حتّی يؤتی بمسکين يأکل معه.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب المؤمن يأکل فی معی واحد فيه، 5 : 2061، رقم : 5078
2۔ أبو عوانہ، المسند، 3 : 10، رقم : 8417
3۔ أبو عوانہ، المسند، 5 : 209، رقم : 8417
‘‘حضرت ابن عمر کے ساتھ جب تک کوئی حاجت مند مل کر کھانا نہ کھاتا آپ کھانا تناول نہ فرماتے تھے۔’’
4۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کنّا نعدّ الماعون علی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم عارية الدلو والقدر.
1۔ أبو داود، السنن، کتاب الزکوۃ، باب فی حقوق المال، 1 : 520، رقم : 1657
2۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، 7 : 143
3۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 4 : 183، رقم : 7578
‘‘ہم عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈول اور ہنڈيا تک عاریۃ ضرورت مندوں کو دينا ماعون تصور کرتے تھے۔
5۔ قحط کے زمانے میں لوگوں کی مشکلات رفع کرنے کے اہتمام کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمايا :
‘‘خدا کی قسم! اگر قحط رفع نہ ہوتا تو میں کوئی بھی ایسا گھر نہ چھوڑتا جس میں کھانا موجود ہوتا مگر اس کے افراد کے برابر دیگر مستحقین اور محتاجین کو اس میں کلیتاً داخل نہ کر دیتا کیونکہ ایک شخص کا کھانا یقینا دو افراد کو ہلاک ہونے سے بچا لیتا۔
بخاری، الأدب المفرد : 198، رقم : 562
6۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسی نوعیت کی ایک روایت امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بيان کی ہے :
لو استقبلت من أمری ما استدبرت لأخذت فضول أموال الأغنياء فقسمتها علی فقراء المهاجرين.
ابن حزم، المحلی، 6 : 158
‘‘بے شک مجھ کو اس امر کا خيال پہلے آ جاتا تو میں مالداروں کی زائد دولت لیکر فقراء مہاجرین میں تقسیم کردیتا۔
7۔ حضرت بلال بن الحارث المزنی رضی اللہ عنہ کو ایک قطع اراضی عطا فرمايا تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آيا تو آپ نے انہیں کہا اے بلال! حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ نے تمہیں یہ قطع اراضی عطا فرمايا تھا کیونکہ جو بھی آپ کی بارگاہ میں سوال لیکر آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے خالی نہ لوٹاتے تھے مگر تمہیں یہ علاقہ اس لئے نہیں عطا کيا گيا تھا کہ تم اسے لوگوں سے روک کر بیٹھ جاؤ۔ بلکہ اس لئے عطا کيا تھا کہ تم اسے آباد کرو۔ لہذا جس قدر زمین کو تم آباد کر سکتے ہو رکھ لو اور باقی لوٹا دو۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے زائد زمین واپس لے کر مسلمانوں میں تقسیم کر دی۔
یحی بن آدم، کتاب الخراج، روایت : 294
اسی نوعیت کی روايات امام ابو یوسف کی کتاب الخراج صفحہ : 256، 257 اور امام ابو عبید قاسم بن سعد کی کتاب الاموال حدیث نمبر 712 کے تحت بيان کی گئی ہیں۔
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ دولت کمانے کے باب میں کسی سطح پر بھی فاسد معاشيات کو بروئے کار لانا جائز نہیں۔ دوسرے شعبوں کی طرح معاملات کے اس شعبہ میں بھی عدل و انصاف کو اساس و بنياد قرار دياگيا ہے۔ اکتسابِ معیشت کے باب میں صرف حلال ذرائع کی اجازت دی گئی ہے اور حرام ذرائع معاش سوسائٹی میں کلیتہً ممنوع قرار دیئے گئے ہیں تاکہ استحصال کا دروازہ ہی نہ کھلنے پائے۔ چنانچہ حسب ذیل تصریحات اس کی شاہد ہیں :
1. اَحَلَّ اﷲُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا.
البقره، 2 : 275
‘‘اﷲ نے تجارت (سودا گری) کو حلال فرمايا ہے اور سود کو حرام کيا ہے۔’’
2. يَمْحَقُ اﷲُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِی الصَّدَقَاتِط وَاﷲُ لَا يُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِيْمٍ
البقره، 2 : 276
‘‘اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زيادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتاo’’
3. وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَO الَّذِيْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَO وَاِذَا کَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ.
المطففین، 83 : 1.3
‘‘بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے۔ یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں۔ اور جب انہیں (خود) ناپ کر يا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیںo’’
4. وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْم.
بنی اسرئیل، 17 : 35
‘‘اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو۔
5.يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ.
النساء، 4 : 29
‘‘اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں صرف اور خرچ میں اقتصاد کا حکم ديا وہاں اسراف سے بھی منع فرمايا۔ کیونکہ اسراف، تبذیر اور تعیش کواسلام نے ناپسند قرار ديا ہے۔ ان سے معاشرتی طبقات میں ناہمواری جنم لیتی ہے اور اس سے ان لوگوں کے دلوں میں حسد پیدا ہوتا ہے جن کے پاس مال کی فراوانی نہیں ہے۔ مزید برآں اس تفاوت سے اخلاقی قدریں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور معاشرے میں فساد و انتشار عام ہو جاتا ہے۔ تعیش پسند طبقہ ہر قوم میں اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کا باعث رہا ہے۔ قرآن مجید ایسے طبقے کے بارے میں مختلف جگہوں پر بيان کرتا ہے کہ یہ طبقہ ہر اصلاح کرنے والے شخص کا دشمن ہوتا ہے اور ہر نبی اور داعی کے ساتھ جنگ کرتا رہا ہے اور اس کا مقصد اپنے اموال کی حفاظت ہے۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ. وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ.
السبا، 34 : 34، 35
‘‘اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے خوشحال لوگوں نے (ہمیشہ یہی) کہا کہ تم جو (ہدایت) دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کے مُنکِر ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم مال و اولاد میں بہت زيادہ ہیں اور ہم پر عذاب نہیں کيا جائے گاo’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
کلوا واشربوا وتصدقوا والبسوا ما لم يخالطه اسراف أو مخيلة.
1۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب اللباس، باب البس ما شئت ما أخطأک سرف أو مخیلۃ، 2 : 1192، رقم : 3605
2۔ ابن أبي شیبه، المصنف، 5 : 171، رقم : 24877
3۔ منذري، الترغیب والترھیب، 3 : 102، رقم : 3251
‘‘کھاؤ اور پیو اور دوسروں پر صدقہ کرو، کپڑے بنا کر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر و استکبار نہ ہو۔’’
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسراف اور تعیش دونوں چیزیں مال کی کثرت اور اس کا چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے دولت کے چند محدود ہاتہوں میں جمع ہونے کو ناپسند قرار ديا ہے اور اسی وجہ سے غنائم کو محتاجوں پر تقسیم کرنے کا حکم ديا ہے۔ ارشاد فرمايا :
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.
الحشر، 59 : 7
‘‘(یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درميان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔’’
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابين عراق، مصر اور شام کی اراضی کو فاتحین کے مابين تقسیم کرنے پر اختلاف پیدا ہو گيا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان علاقوں کی زمین کو تقسیم کيا جائے۔ اس رائے کی بعض صحابہ نے مخالفت کی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کيا :
واﷲ إذن ليکونن ما نکره، إنّک إن قسمتها صار الربح العظيم في أيدی القوم، ثم يتبدرون، فيصير ذلک إلی الرّجل الواحد أو المرأة، ثم يأتی من بعدهم قوم يسدّون من الإسلام مسدّا وهم لا يجدون شيئا فانظر أمرًا يسع أوّلهم وآخرهم.
1۔ أبوعبید، کتاب الاموال : 61، رقم : 152
2۔ عسقلانی، فتح الباری، 6 : 224، رقم : 2957
3۔ شوکانی، نیل الاوطار، 8 : 2 16
4۔ شمس الحق عظیم آبادی، عون المعبود، 8 : 195
‘‘بخدا! اگر ایسا کيا گيا تو ناخوشگوار نتائج پیدا ہونگے۔ زمینوں کی تقسیم سے بے تحاشا دولت لوگوں کے ہاتھ لگ جائیگی۔ پھر انکے مرنے پر ممکن ہے کہ ایک مرد يا عورت کو مل جائے اور جو لوگ انکے بعد اسلام کی مدافعت میں حصہ لیں، انہیں کچھ بھی نہ مل سکے گا۔ لہذا کسی ایسی رائے کو اپنائیے جو ان کے موجود اور بعد میں آنیوالے مسلمانوں کے لئے خوشحالی کا باعث ہو۔’’
لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کر ليا۔ یہ انکار حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے کہ مال چند خاص ہاتھوں میں محصور نہ ہو جبکہ اکثریت اس سے محروم رہ جائے اور یہ انکار اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے :
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.
الحشر، 59 : 7
‘‘(یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درميان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔’’
معاشی تعطل اور غربت معاشرتی امراض میں سے ایک مرض ہے اور اس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
کاد الفقر أن يکون کفرًا.
1۔ بیھقی، شعب الإیمان، 5 : 267، رقم : 6612
2۔ أبونعیم، حلیۃ الأولياء، 3 : 53
‘‘قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسان کو کفر تک لے جائے۔’’
اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقر، بھوک، بے بسی، سستی اور قرض سے اپنی دعاؤں میں پناہ مانگتے تھے۔ علاوہ ازیں گونگے پن، بہرے پن اور بیماری سے پناہ مانگتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب تعاليٰ کی بارگاہ میں التجا کرتے تھے :
اللهم إنّي أعوذبک من الکفر والفقر.
1۔ نسائي، السنن، کتاب السهو، باب التعوذ في دبر الصلاة، 3 : 73، رقم : 1347
2۔ أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب ما یقول إذا أصبح، 4 : 324، رقم : 5090
3۔ ابن حبان، الصحیح، 3 : 302، رقم : 1026
4۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1 : 383، رقم : 927
‘‘اے اللہ! میں کفر اور فقر سے آپ کی پنا مانگتا ہوں۔’’
اسی طرح کئی اور دلائل ہیں جن میں اسلام نے غربت و افلاس اور بھوک کے بارے میں بيان کيا ہے کہ اس میں کوئی عزت و تکریم نہیں اور یہ فقر و افلاس انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔
یہ بات واضح ہو گئی کہ فقر و افلاس ایک معاشرتی و اجتماعی مرض ہے اور ایسی بلاء ہے کہ جس سے دوسرے جسمانی امراض کی طرح پناہ مانگی جاتی ہے۔ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ رزق کے حصول کے لئے خود محنت و کوشش کرے۔ ایسے عمل کو اسلام عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
فَامْشُوْا فِيْ مَنَاکِبِهَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِهِ.
الملک، 67 : 15
‘‘سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو، اور اُس کے (دئیے ہوئے) رِزق میں سے کھاؤ۔
حدیث مبارکہ میں ہے :
عن أبي بردة سئل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أيّ الکسب أفضل؟ قال : عمل الرّجل بيده.
1۔ حاکم، المستدرک، 2 : 12، رقم : 2158
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 141، رقم : 17304
3۔ بزار، المسند، 9 : 183، رقم : 3731
4۔ طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 332، رقم : 2140
5۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 4 : 276، رقم : 4411
‘‘حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کيا گيا کہ سب سے اچھا کسب کون سا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : بہترین کسب وہ ہے جو انسان خود اپنے ہاتھوں سے کرتا ہے۔’’
دوسرے مقام پر ارشاد فرمايا :
إنّ اﷲ يحب أن يری العبد محترفًا.
1۔ حکیم ترمذي، نوادر الأصول في أحادیث الرسول، 1 : 405
2۔ سیوطی، الدرا لمنثور، 8 : 238
‘‘بے شک اللہ تعاليٰ کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو پیشہ ور دیکھے۔’’
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سے ایک شخص گزرا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس شخص کی محنت و کاوش کو دیکھا (جو انہیں بہت اچھا لگا)۔ اس پر انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول! اگر وہ اللہ کے راستے میں نکلتا تو اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
إن کان خرج يسعی علی ولده صغارًا، فهو في سبيل اﷲ، وإن کان خرج يسعی علی أبوين شيخين کبيرين فهو في سبيل اﷲ، وإن کان خرج يسعی علی نفسه يعفها، فهو في سبيل اﷲ.
1۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 19 : 129، رقم : 282
2۔ بیھقی، السنن الکبريٰ، 7 : 479
3۔ بیھقی، شعب الإیمان، 6 : 185، رقم : 4853
4۔ منذری، الترغیب والترھیب، 2 : 335، رقم : 2610
5۔ ھیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 325
‘‘اگر وہ اپنے بچوں کے واسطے جدوجہد کرنے کے لئے نکلا ہوا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں نکلا ہوا ہے اور اگر وہ اپنے بوڑھے والدین کے واسطے جد و جہد کرنے کے لئے نکلا ہے تو اللہ کے راستے میں ہے اور اگر وہ اپنے نفس کے واسطے جد و جہد کرنے کے لئے نکلا ہے کہ وہ اس کو روکے تو بھی وہ اللہ کے راستے میں ہے۔’’
مزدور کی محنت کے عوض اس کی پوری اُجرت دينا واجب ہے اور اگر مزدوری اس کی محنت سے کم ہو تو ظلم ہے اور اللہ تعاليٰ ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
لاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ.
الاعراف، 7 : 85
‘‘لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ ديا کرو۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں وعید سنائی ہے جو ایک مزدور کو اس کا حق دینے سے چشم پوشی کرتا ہے اور اسے اس کی اُجرت نہیں دیتا۔ حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمايا :
ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة رجل أعطی بي ثمّ غدر ورجل باع حرّا فأکل ثمنه، ورجل استأجر أجيرًا فاستوفی منه ولم يعط أجره.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب إثم من باع حراء، 2 : 776، رقم : 2114
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب الإجارۃ، باب إثم من منع أجر الأجیر، 2 : 792، رقم : 2150
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الأحکام، باب أجر الأجرا، 2 : 816، رقم : 2442
4۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 358، رقم : 8677
‘‘تین ایسے لوگ ہیں جن کا قيامت کے روز میں دشمن ہوں گا : ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر عہد کيا پھر اسے پورا نہ کيا، دوسرا وہ شخص جس نے آزاد شخص کو غلام بنا کر بیچا اور اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ جس نے مزدور سے پورا کام کروا کر اس کی پوری اُجرت ادا نہیں کی۔’’
تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر شہری کو معاشرتی ضمانت، راحت و سکون اور معیشت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ اپنے فرائض کو بجا لا رہا ہے يا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے فرائض کی ادائیگی سے عاجز ہو جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
الخلق عيال اﷲ.
1۔ طبراني، المعجم الأوسط، 5 : 365، رقم : 5541
2۔ أبو یعلی، المسند، 6 : 65، رقم : 3315
3۔ ہیثمي، مجمع الزوائد، 8 : 191
‘‘تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔’’
رزق کی فراہمی کی یہ ذمہ داری جو رب العالمین نے اپنے ذمہ لی، اسلامی رياست کے اندر نيابتِ الہی میں اسلامی حکومت کی طرف سے انجام دی جائے گی۔
قرآن و حدیث کی انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ خلفائے راشدین نے اپنے دورِ خلافت میں اس ذمہ داری کا کمال احساس رکھا اور اسے پورا کرنے کے لئے مصروفِ کار رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمايا :
لو مات جمل ضياعاً علی شط الفرات لخشيت أن يسألني اﷲ عنه.
ابن سعد، الطبقات الکبری، 3 : 305
‘‘اگر ساحلِ فرات پر کوئی بے سہارا اونٹ مر جائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے بارے میں باز پرس کرے گا۔’’
ألا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعيته فالإمام الذي علی الناس راع وهو مسئول عن رعيته.
1۔ بخاري، الصحیح، کتاب الأحکام، باب قول اﷲ تعالی أطیعوا اﷲ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم، 6 : 2611، رقم : 6719
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب فضیلۃ الإمام العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق بالرعية، 3 : 1459، رقم : 1829
‘‘آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک آدمی نگران ہے اور (روزِ قيامت) اس سے اس کی رعیت (ما تحت لوگوں) کے بارے میں باز پرس کی جائے گی تو (اس طرح) لوگوں پر امیر يا حکمران بھی ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعايا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔’’
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے پاس سے گزرے جو کہ لوگوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ انہوں نے اسے ڈانٹا اور اس پوچھا کہ کس چیز نے اسے بھیک مانگنے پر مجبور کيا ہے۔ جب یہ ثابت ہو گيا کہ وہ مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہے تو اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو برا بھلا کہا اور فرمايا :
ما أنصفناک، أن کنّا أخذنا منک الجزية في شبيبتک ثم ضعيناک في کبرک قال : ثم أجری عليه من بيت المال ما يصلحه.
(2) أبو عبید، الأموال : 57
‘‘اے شخص! ہم نے تیرے ساتھ انصاف نہیں کيا، ہم نے تجھ سے بہت بھاری جزیہ ليا اور تجھے کمزور و ناتواں چھوڑا۔ پس اسے بيت المال سے اتنا کچھ دے دو جو اس کے لیے کافی ہو۔’’
اسلام کی تعلیمات میں سے ہے کہ کسبِ خبیث کے تمام ذرائع کو حرام قرار ديا جائے اور خبیث ذرائع کو متعین کيا جائے کہ ہر وہ چیز جو بغیر کسی مد مقابل عمل اور محنت کے حاصل کی جائے کسبِ خبیث میں شمار ہو گی جیسے چوری اور دھوکے سے حاصل کی گئی چیز، يا ہر وہ چیز جو ایسے کسب کے عوض حاصل کی جائے جس کا نقصان اور ضرر ہو وہ بھی کسبِ خبیث میں شمار ہو گی۔ جیسے شراب، خنزیر اور نشہ آور اشياء سے کمائی ہوئی رقم۔ یہ تمام ذرائع کسب ایسے ہیں جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی اور نہ ہی ان کی حلت کو تسلیم کيا ہے۔
ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
اَرَءَ يْتَ الَّذِيْ يُکَذِّبُ بِالدِّيْنِo فَذٰلِکَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَo وَلَا يَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِيْنِo فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَo الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَo الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآءُ ْونَo وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ.
الماعون : 107
‘‘کيا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئےo جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ ياد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)o وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیونکہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)o اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتےo’’
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہمی ذمہ داریوں کی وضاحت ایک مثال سے یوں بيان فرمائی :
مثل القائم علی حدود اﷲ والواقع فيها کمثل قوم استهموا علی سفينة فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها فکان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مرّوا علی من فوقهم فقالوا : لو أنّا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نوذ من فوقنا فإن يترکوهم وما أرادوا هلکوا جميعا وإن أخذ وعلی أيديهم نجوا ونجوا جميعا.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب شرکۃ، باب ھل یقرع في القسمۃ والاستھام فيه، 2 : 882، رقم : 2361
2۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب منه، 4 : 470، رقم : 2173
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 268، رقم : 18387
4۔ بزار، المسند، 8 : 237، رقم : 3298
‘‘اللہ تعاليٰ کی حدود کو قائم کرنے والے اور اس کو توڑنے والوں کی مثال اس قوم کی سی ہے جس کشتی کے سواروں نے اپنا حصہ تقسیم کر ليا۔ بعض کے حصے میں اوپر والا حصہ آيا اور بعض کے حصے میں نیچے والا۔ پس جو لوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس جانا پڑتا تھا۔ (نیچے والوں نے کہا) کیوں نہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کر لیں اور اوپر والوں کے پاس جانے کی زحمت سے بچیں۔ پس اگر وہ انہیں ان کے ارادے کے مطابق چھوڑے رہیں توسب ہلاک ہو جائیں گے اوراگر ان کے ہاتھ پکڑ لیں تو خود بھی بچ جائیں اوردوسرے سب بھی بچ جائیں۔’’
2۔ حضرت ابو موسيٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
إنّ الأشعريين إذا أرملوا في الغزو، أو قلّ طعام عيالهم بالمدينة جمعوا ما کان عندهم في ثوب واحد ثمّ اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسّويّة فهم منّي وأنا منهم.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الشرکۃ، باب الشرکۃ فی الطعام، 2 : 880، رقم : 2354
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل الأشعریین، 4 : 1944، رقم : 2500
3۔ نسائي، السنن الکبری، 5 : 247، رقم : 8798
‘‘اشعریوں کا جب دورانِ جہاد توشہ ختم ہونے لگے يا مدینہ منورہ میں اُن کا سامان خورد و نوش تھوڑا رہ جائے تو وہ سارے بچے ہوئے کو ایک کپڑے میں جمع کرتے اور پھر ایک برتن کے ساتھ آپس میں تقسیم کر لیتے۔ پس وہ مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں۔’’
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
طعام الإثنين کافي الثّلاثة، وطعام الثّلاثة کافي الأربعة.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب طعام الواحد، 5 : 2061، رقم : 5077
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام، 3 : 1630، رقم : 2058
3۔ ترمذي، السنن، کتاب الأطعمۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء في طعام الواحد يکفی الإثنين، 4 : 267، رقم : 1820
‘‘دو کا کھانا تین کے لئے کافی ہے اور تین کا کھانا چار کے لئے کافی ہے۔’’
4۔ امام مسلم حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
طعام الواحد يکفی الإثنين، وطعام الإثنين يکفی الأربعة، وطعام الأربعة يکفی الثمانية.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام، 3 : 1630، رقم : 2059
2۔ ترمذي، السنن، کتاب الأطعمۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء في طعام الواحد يکفی الإثنين، 4 : 267، رقم : 1820
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب طعام الواحد يکفی الاثنین، 2 : 1084، رقم : 3254
‘‘ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے، دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوتا ہے۔’’
5۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں : جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے ایک شخص سواری پر آيا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
من کان معه فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له ومن کان له فضل من زاد فليعد به علی من لا زاد له.
مسلم، الصحیح، کتاب اللقطعۃ، باب استحباب المؤاساۃ، 3 : 1354، رقم : 1728
‘‘جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس کھانا نہیں۔’’
حدیث کے راوی بيان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی مال کی اقسام بيان کیں حتيٰ کہ ہم نے محسوس کيا کہ زائد مال میں سے ہمارا کوئی حق نہیں۔
ارشاد ربانی ہے :
وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ.
البقره، 2 : 177
‘‘بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قيامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔’’
ارشاد ربانی کی رو سے گويا بندگی یہ ہے کہ انسان کس حد تک اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر اس کے پریشان حال بندوں سے عملی ہمدردی اور بھی خواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اگر دل میں انسانیت کا یہ درد اور جذبہ خدمت نہ ہو بلکہ اس کے برعکس زندگی کا طرز عمل خود غرضانہ، مفاد پرستانہ اور بہیمانہ ہو تو کوئی عبادت، عبادت نہیں اور نہ کوئی نماز، نماز ہے۔ بلکہ یہ سب دکھلاوا اور ريا کاری بن جاتا ہے جو انسان کو بجائے خدا کے قریب کرنے کے جہنم کا ایندھن بنا دے گا۔
نماز کی روح اور دین نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل غایت یہی ہے کہ محبت الہی میں بندگانِ خدا کی ہر ممکن خدمت کی جائے۔ معاشرے کے بے سہارا اور محتاج لوگوں کی خدمت و کفالت در حقیقت رضائے الہی اور قرب الہی کا باعث ہے اور یہی مقصودِ نماز ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے فرمايا :
يا عائشة! لا تردی المسکين ولو بشق تمرة. يا عائشة، أحبی المساکين وقرّبيهم فإنّ اﷲ يقرّبک يوم القيامة.
1۔ ترمذی، السنن، کتاب الزھد عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء أن فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل أغنيائھم، 4 : 577، رقم : 2352
2۔ بیھقی، السنن الکبری، 7 : 12، رقم : 12931
3۔ بیھقی، شعب الإیمان، 2 : 167، رقم : 1453
4۔ منذری، الترغیب والترھیب، 4 : 67، رقم : 4825
‘‘اے عائشہ! کسی بھی محتاج اور ضرورت مند کو مایوس نہ کر خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزيد يہ کہ غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کيا کرو اوران سے قربت حاصل کيا کرو۔ بیشک (اس کے صلہ میں) اللہ تعاليٰ روزِقيامت تمھیں اپنے قرب سے نوازیں گے۔’’
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
السّاعلي علی الأرملة والمسکين کالمجاهد في سبيل اﷲ أو القائم اللّيل الصّائم النهار.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب فضل النفقہ، 5 : 2047، رقم : 5038
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الزھد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملۃ، 4 : 2286، رقم : 2982
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 361، رقم : 8717
4۔ طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 100، رقم : 304
‘‘بیوہ عورتوں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے اور اس نیکو کار کے برابر ہے جو (عمر بھر) ساری رات عبادت کرے اور دن کو روزے رکھے۔’’
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
أنا وکافل اليتيم في الجنّة هکذا وقال بإصبعيه السّبابة والوسطی.
1۔ بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب فضل من یعول یتیما، 5 : 2237، رقم : 5659
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الزھد والرقائق، باب الإحسان إلی الأرملۃ، 4 : 2287، رقم : 2983
3۔ أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 375، رقم : 8868
4۔ ابن حبان، الصحیح، 2 : 207، رقم : 460
5۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 20 : 320، رقم : 759
6۔ ھیثمی، مجمع الزوائد، 8 : 162
‘‘میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلياں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشتِ شہادت اور درميانی انگلی سے اشارہ فرمايا۔’’
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر سورہ ماعون کی تعلیم کو اس طرح دہرايا گيا ہے :
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهِ مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا.
الدھر، 76 : 8
‘‘اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo’’
اس سلسلے میں صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم کے معمول کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلا حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کا معمول یہ تھا :
کان ابن عمر رضی الله عنه لا يأکل حتّی يوتی بمسکين يأکل معه.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب المؤمن يأکل فی معی، 5 : 2061، رقم : 5078
2۔ أبو عوانہ، المسند، 3 : 10، رقم : 8417
‘‘حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ جب تک کوئی حاجت مند مل کر کھانا نہ کھاتا آپ کھانا تناول نہ فرماتے تھے۔’’
جس طرح اوپر بيان ہو چکا ہے کہ روح نماز در حقیقت وہ جذبہ اور طرزِ عمل ہے جو معاشرے کے بے سہارا ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی زندگی سنوارنے سے عبارت ہو یہی عمل اصل دین ہے۔
1۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَمَا اَدْرٰاکَ مَا الْعَقَبَةُo فَکُّ رَقَبَةٍo اَوْ اِطْعَامٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍo يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍo اَوْ مِسْکِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍo ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِo اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِo وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ.
البلد، 90 : 12. 19
‘‘اور آپ کيا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کيا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo يا بہوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)o قرابت دار یتیم کو o يا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہےo پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیںo یہی لوگ دائیں طرف والے (یعنی اہلِ سعادت و مغفرت) ہیںo اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کيا وہ بائیں طرف والے ہیں (یعنی اہلِ شقاوت و عذاب) ہیںo’’
2. کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَo وَلَا تَحٰضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِيْنِo وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمَّاo وَّتُحِبُوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
الفجر، 89 : 17.20
‘‘یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo’’
ان آيات کے بعد یہ فرمايا گيا کہ ایسے لوگ جہنم کے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ اس طرز عمل کو بے دینی اور قوم ثمود کی تباہی کا باعث قرار ديا ہے۔
قرآن حکیم نے قارونی ذہنیت بيان کی کہ جب قوم نے قارون سے کہا کہ وہ غرور و تکبر کو چھوڑ کر بارگاہ اُلوہیت میں جھک جائے اور اللہ تعاليٰ کے دیئے ہوئے خزانوں میں سے معاشرے کے مستحق افراد کی مدد کرے تو وہ جو کہ سرمایہ و دولت کے نشہ میں بدمست تھا۔ اس نصیحت کے جواب میں کہنے لگا :
قَالَ اِنَّمَا اُوْتِيْتُهُ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِيْ اَوَ لَمْ يَعْلَمْ اِنَّ اﷲَ قَدْ اَهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا.
القصص، 28 : 78
‘‘وہ کہنے لگا : (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر ديا گيا ہے جو میرے پاس ہے۔ کيا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر ديا تھاجو طاقت میں اس سے کہیں زيادہ سخت تھیں اور (مال و دولت اور افرادی قوت کے) جمع کرنے میں کہیں زيادہ (آگے) تھیں، اور (بوقتِ ہلاکت) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (مزید تحقیق يا کوئی عذر اور سبب) نہیں پوچھا جائے گاo’’
ان آيات نے سرمایہ پرستانہ قارونی فکر اور اسلامی فکر میں واضح حد فاصل (line of distinction) قائم کر دی ہے۔ قارونی فکر، اپنے سرمایہ و دولت کو نہ تو اللہ کی عطا تصور کرتی ہے، نہ خود کو نائب و امین سمجھتی ہے اور نہ ہی اس میں دوسروں کے حق کو تسلیم کرتی ہے جسے مستحقین پر خرچ کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہو۔ اس کے برعکس اسلامی فکر میں سرمایہ و دولت، انسانی علم کی پیداوار نہیں بلکہ محض اللہ کی عطا ہے انسان اس کا مالک نہیں بلکہ محض نائب و امین ہے اور اس میں دوسرے مستحق افراد کا بھی اسی طرح حق ہے جیسے خود مالک کا ہوتا ہے۔
قرآن مجید نے ایک اور مقام پر یہ پیغام اس قدر بلیغ انداز میں واضح فرمايا ہے کہ اگر اس اُلوہی پیغام کی معنویت اور روحِ انسان کے قلب و باطن میں اُتر جائے تو مفاد پرستانہ ذہنیت کا کلیتًا خاتمہ ہو جائے اور یہ ساری طبقاتی کشمکش اپنی موت مر جائے۔ قرآن حکیم نے فرمايا :
أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَo أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَo لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَo إِنَّا لَمُغْرَمُونَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَo أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَo لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَo أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَo أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَo نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْکِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ.
الواقعہ، 56 : 63۔ 73
‘‘بھلا یہ بتاؤ جو (بیج) تم کاشت کرتے ہو۔ تو کيا اُس (سے کھیتی) کو تم اُگاتے ہو يا ہم اُگانے والے ہیں؟اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں پھر تم تعجب اور ندامت ہی کرتے رہ جاؤ۔ (اور کہنے لگو) : ہم پر تاوان پڑ گيا۔ بلکہ ہم بے نصیب ہوگئے۔ بھلا یہ بتاؤ جو پانی تم پیتے ہو۔ کيا اسے تم نے بادل سے اتارا ہے يا ہم اتارنے والے ہیں؟اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔ بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو۔ کيا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کيا ہے يا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں؟ ہم ہی نے اِس (درخت کی آگ) کو (آتشِ جہنّم کی) ياد دلانے والی (نصیحت و عبرت) اور جنگلوں کے مسافروں کے لئے باعثِ منفعت بنايا ہےo’’
قرآن حکیم کے ان ارشادات اور احکامات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ :
1۔ جملہ اموال میں تمام بنی آدم کا حق برابری کی بنياد پر رکھا گيا ہے۔
2۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس مال کو صرف اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے دوسروں کو اس سے متمتع ہونے سے روک لے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ امارت (حکومت) کا سوال کيا توحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
أنت ضعيف وهي أمانة وهي يوم القيامة خزي وندامة إلا من أخذها بحقها وأدی ما عليه فيها.
1. أبو یوسف، کتاب الخراج : 9
2. أبو عبید، کتاب الأموال : 11، رقم : 6
‘‘اے ابو ذر! تو کمزور ہے اور یہ (امارت و حکومت ) ایک بہت بڑی امانت اور بروز قيامت (امیر کے لئے)رسوائی اور ندامت کا باعث ہے۔ البتہ (اس حاکم کے لئے رسوائی نہیں ہو گی) جس نے اس کو اس کے حق کے ساتھ اختيار کيا اور امارت و حکومت میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی اس کو کما حقہ ادا کيا۔’’
یعنی شریعتِ اسلامیہ میں امارت و سيادت کے منصب پر فائز شخصیت اپنی رعیت کی کفالت سے کسی صورت بھی بری الذمہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ خلافت کی تعریف کرتے ہوئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمايا :
إن الخليفة هو الذي يقضي بکتاب اﷲ، ويشفق علی الرعية شفقة الرجل علی أهله، فقال کعب الأحبار : صدق.
أبو عبید، کتاب الأموال : 13، رقم : 12
‘‘خلیفہ وہ ہے جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اور (اپنی) رعايا پر اس طرح شفقت کرے جس طرح آدمی اپنے اہل و عيال پر شفقت کرتا ہے۔ یہ سن کر کعب الاحبار نے کہا : سلیمان نے سچ کہا۔’’
مندرجہ بالا تعریف کی تشریح کرتے ہوئے ابن تیمیہ (661۔ 728ھ) کہتے ہیں :
الوالي راع علی الناس بمنزلة راعي الغنم.(3)
(3) ابن تیمیہ، السياسۃ الشریعۃ في إصلاح الراعي والرعية : 16
‘‘جس طرح گڈريا بکریوں کی رکھوالی کرتا ہے اسی طرح سربراہ حکومت رعايا کا راعی ہے۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
ما من أمير يلي أمر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعیتہ النار، 1 : 126، رقم : 142
2۔ طبراني، المعجم الکبیر، 20 : 225، رقم : 524
3۔ أبو عوانہ، المسند، 1 : 40، رقم : 89
‘‘جو آدمی مسلمانوں کے معاملے (حکومت) کا نگران بنے پھر ان کی بہتری کے لئے کوشش نہ کرے اور نہ ہی ان کی خير خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا۔’’
ما من عبد يسترعيه اﷲ رعية فلم يحطها بنصحه إلا لم يجد رائحة الجنة.
بخاري، الصحیح، کتاب الأحکام، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح، 6 : 2614، رقم : 6731
‘‘جس بندے کو رب ذو الجلال نے کسی رعايا کا حکمران بنايا۔ پھر اس نے اس کے ساتھ پوری خير خواہی نہ برتی تو وہ (حکمران) جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔’’
ما من عبد يسترعيه اﷲ رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم اﷲ عليه الجنة.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعیتہ النار، 1 : 125، رقم : 142
2۔ دارمي، السنن، 2 : 417، رقم : 2796
3۔ ابن حبان، الصحیح، 10 : 346، رقم : 4495
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : جس بندے کو رب ذو الجلال نے کسی رعايا کا حکمران بنايا اور وہ اس حال میں مرتا ہے کہ قوم کا خير خواہ نہ ہو تو اللہ تعاليٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔’’
منصف اور عادل حکمران کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشا د فرمايا :
إن المقسطين عند اﷲ علی منابر من نور عن يمين الرحمٰن عزوجل وکلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حکمهم وأهليهم وما ولوا.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب فضیلۃ الإمام العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق بالرعية، 3 : 1458، رقم : 1827
2۔ نسائي، السنن الکبری، 3 : 460، رقم : 5916
3۔ ابن أبي شیبۃ، المصنف، 7 : 39، رقم : 34035
‘‘بے شک انصاف کرنے والے (حکام و امراء) اللہ تعاليٰ کے پاس نور کے منبروں پر اس کے داہنے ہاتھ پر ہوں گے اور اللہ تعاليٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلہ میں اپنے لوگوں میں اور اپنے زیرِ حکومت امور میں عادل ہیں۔’’
السلطان ولي من لاولي له.
1۔ ترمذي، السنن، کتاب النکاح، باب ما حاء لا نکاح إلا بولي، 3 : 407، رقم : 1102
2۔ أبو داود، السنن، کتاب النکاح، باب في الولي، 2 : 229، رقم : 2083
3۔ ابن حبان، الصحیح، 9 : 386، رقم : 4075
4۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2 : 182، رقم : 2706
‘‘حکمران (يا حکومت ) ہر اس آدمی کا سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔’’
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ اسلامی رياست کی بنيادی ذمہ داری ہے کہ وہ محروم المعیشت افراد کے معاشی استحکام اور ان کی کفالت کا اہتمام کرے اور اس کے لئے جملہ ذرائع بروئے کار لائے جائیں بقول امام ابن حزم (م 456ھ) :
فرض علی الأغنياء من أهل کل بلد أن يقوموا بفقرائهم ويجبرهم السلطان علی ذلک إن لم تقم الزکوات بهم ولا في سائر أموال المسلمين بهم فيقام لهم بما يأکلون من القوت الذي لابد منه ومن اللباس للشتاء والصيف بمثل ذلک وبمسکن يکنهم من المطر والصيف والشمس وعيون المارة.
ابن حزم، المحلی، 6 : 156
‘‘ہر ملک کے مال دار لوگوں پر فرض ہے کہ اپنے غریب لوگوں کی کفالت کریں اگر زکوٰۃ کی آمدنی اور سارے مسلمانوں کا مالِ فئی اس کے لئے کافی نہ ہو تو سلطان ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا ان (اہلِ حاجت) کے لئے اتنے مال کا انتظام کيا جائے گا جس سے وہ بقدر ضرورت غذا حاصل کر سکیں اور اس طرح جاڑے اور گرمی کا لباس وغیرہ بھی (حاصل کر سکیں) اور ایک ایسا مکان جو انہیں بارش، گرمی، دہوپ اور راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ رکھ سکے۔’’
عوام کی معاشی ضروريات کی تکمیل کی ذمہ داری حکومتِ وقت پر کس حد تک عائد ہوتی ہے اس کا انداز ہ امیر المومنين حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ سے ہوتا ہے جو آپ نے قادسیہ کی فتح کی خوشخبری سنانے کے بعد ارشاد فرمايا :
إنّي حريص علی أن لا أری حاجة إلّا سددتها ما اتسع بعضنا لبعض فإذا عجز ذلک عنّا تاسينا في عيشنا حتّی نستوی في الکفاف. ولوددت أنّکم علمتم من نفسي مثل الّذي وقع فيها لکم. ولست معلمکم إلّا بالعمل إنّي واﷲ لست بملک فاستعبدکم ولکني عبد اﷲ عرض علي الإمانة فإن أبيتها ورددتها عليکم واتّبعتکم حتّی تشبعوا في بيوتکم وترووا سعدت بکم وإن أنا حملتها واستتبعتکم إلی بيتی شقيت بکم ففرحت قليلا وحزنت طويلا. فبقيت لا اقال ولا ارد فأستعتب.
ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 7 : 46
‘‘مجھے اسی بات کی بڑی فکر رہتی ہے کہ جہاں بھی (تمہاری) کوئی ضرورت دیکھوں اسے پورا کروں۔ جب تک ہم میں سے بعض اسے بعض کے لئے پورا کرنے کی گنجائش رکھتے ہوں۔ جب ہمارے اندر اتنی گنجائش نہ رہ جائے تو ہم باہمی امداد کے ذریعے گزر اوقات کریں گے یہاں تک کہ سب کا معيار زندگی ایک سا ہو جائے۔ کاش تم جان سکتے کہ میرے دل میں تمہارا کتنا خيال ہے۔ ليکن میں یہ بات تمہیں عمل کے ذریعے ہی سمجھا سکتا ہوں۔ خدا کی قسم میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو اپنا غلام بنا کر رکھوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں (خلافت حکومت کی ) امانت میرے سپرد کی گئی ہے۔ اب اگر میں اس کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھوں بلکہ (تمہاری امانت سمجھ کر) تمہاری طرف واپس کر دوں اور (تمہاری خدمت و ادائے حقوق کے لئے) تمہارے پیچھے پیچھے چلوں یہاں تک کہ تم اپنے گھروں میں سیر ہو کر کھا پی سکو تو میں تمہارے ذریعے فلاح پاؤں گا اور اگر میں اسے اپنا بنا لوں اور تمہیں اپنے پیچھے پیچھے چلنے اور (اپنے حقوق طلب کرنے کے لئے) اپنے گھر آنے پر مجبور کر دوں تو تمہارے ذریعہ میرا انجام خراب ہو گا۔ (دنيا میں) کچھ عرصے خوشی منا لوں گا مگر (آخرت میں) عرصہ دراز تک غمگین رہوں گا اور میرا حال یہ ہو گا کہ نہ کوئی مجھے کچھ کہنے والا ہو گا اور نہ کوئی ميری بات کا جواب دے گا کہ میں اپنا عذر بيان کر کے معافی حاصل کر سکوں۔’’
غربا کی عزت نفس کے احترام کو بيان کرنے کے لیے قرآن حکیم نے سورہ نحل میں نہایت پر لطف اور پر مغز استدلال قائم کيا ہے۔ ارشاد فرمايا :
وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ.
النحل، 16 : 71
‘‘اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیر دست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنيادی ضروريات کی حد تک) برابر ہیں، تو کيا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟o’’
اس آیتِ کریمہ میں تین مقامات خاص طور پر قابل توجہ ہیں :
1. فَمَا الَّذِيْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّيْ رِزْقِهِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُمْ.
‘‘وہ جنھیں رزق میں فضیلت دی گئی ہے اپنے رزق میں سے کچھ بھی اپنے زیر دستوں کو نہیں لوٹاتے۔’’
2. فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ.
‘‘حالانکہ وہ سب اس (حق رزق) میں برابر کے حق دار ہیں۔’’
3. اَفَبِنِعْمَةِ اﷲِ يَجْحَدُوْنَ.
‘‘تو کيا وہ ایسا کر کے (یعنی انہیں محروم رکھ کر ) اللہ کی نعمتوں کا کھلا انکار نہیں کر رہے؟
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص اپنی سواری پر سوار آيا اور کسی چیز کی ضرورت کی وجہ سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
من کان معه فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له ومن کان له فضل من زاد فليعد به علی من لا زاد له.
مسلم، الصحیح، کتاب اللقطعۃ، باب استحباب المؤاساۃ، 3 : 1354، رقم : 1728
‘‘جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس کھانا نہیں۔’’
حدیث پاک میں قابل توجہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ ہیں ‘‘فليعد بہ‘‘ یعنی لوٹا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمايا کہ غرباء کو عطاء کر دو۔ دینے اور لوٹانے میں بڑا واضح فرق پايا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے ذاتی حق میں سے کسی کو کچھ دے دیں تو یہ عطاء ہو گی ليکن اگر معاشرے کے ظالمانہ استحصالی نظام کے تحت کسی غریب کا حق بھی آپ نے سلب کر کے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور آپ اسے اس کے حقیقی حقدار تک پہنچا دیں تو یہ دينا نہیں بلکہ لوٹانا ہو گا۔
2۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک سال لوگ مالی تنگی اور عسرت کی حالت میں تھے تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے موقع پر فرمايا :
من ضحی منکم فلا يصبحن بعد ثالثة وفي بيته منه شيئ.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأضاحی، باب ما یؤکل من لحوم، 5 : 215، رقم : 5249
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الأضاحی، باب ما کان من النھی عن أکل لحوم الأضاحی بعد ثلاث، 3 : 1563، رقم : 1974
3۔ ابن حبان، الصحیح، 13 : 253، رقم : 5929
4۔ بیھقی، السنن الکبری، 9 : 292
‘‘تم میں سے جو شخص قربانی کرے تو وہ تیسری رات کے بعد اس حالت میں نہ اٹھے کہ اس کے گھر میں گوشت کی ایک بوٹی بھی ہو۔’’
چنانچہ اسی طرح عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گوشت ذخيرہ کرنے کے بجائے بانٹ ديا۔ اگلے سال بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسی حکم کی تعمیل میں سارا گوشت تقسیم کر ديا اور آئندہ ضرورت کے لئے بچا کر نہ رکھا اور عرض کيا :
يا رسول اﷲ! نفعل کما فعلنا عام الماضی.
‘‘يا رسول اللہ! ہم اس مرتبہ بھی سابقہ سال کی طرح کریں۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
کلوا وأطعموا وادّخروا فإنّ ذلک العام کان بالنّاس جهد فأردت أن تعينوا فيها.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الأضاحی، باب ما یؤکل من لحوم، 5 : 215، رقم : 5249
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الأضاحی، باب ما کان من النھی عن أکل لحوم الأضاحی بعد ثلاث، 3 : 1563، رقم : 1974
3۔ ابن حبان، الصحیح، 13 : 253، رقم : 5929
4۔ بیھقی، السنن الکبری، 9 : 292
‘‘اس سال کھاؤ، کھلاؤ اور (حسبِ ضرورت) بچا کر بھی رکھو۔ پچھلے سال لوگ پریشان حال تھے پس میں نے چاہا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کرو۔’’
3۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر اپنا باغ اپنے مستحق رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر ديا :
فقسّمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمّه.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الأقارب، 2 : 530، رقم : 1392
2۔ ابن حبان، الصحیح، 16 : 150، رقم : 7182
3۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظيم، 1 : 382
‘‘پس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر ديا۔’’
گويا معاشرے میں مال اور رزق کی تقسیم کا نظام انسان کی پیدا کردہ ناہمواریوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ حالانکہ اللہ تعاليٰ نے تمام انسانوں کو برابر کا حقِ معاش عطا فرمايا ہے۔ لہذا معاشرے کے متمول اورصاحبِ ثروت افراد کا معاشرے کے محروم المعیشت اور مفلوک الحال لوگوں کو معاشی حقوق ادا اکرنا ان پر احسان نہیں بلکہ یہ اصل حقدار کو اس کا حق لوٹانا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
ليس المؤمن الّذی يشبع وعمّه جائع.
1۔ أبو یعلی، المسند، 5 : 92، رقم : 2699
2۔ طبرانی، المعجم الکبیر، 12 : 154، رقم : 12741
3۔ عبد بن حمید، المسند، 1 : 231، رقم : 694
4۔ ھیثمی، مجمع الزوائد، 8 : 167
‘‘وہ شخص ہرگز مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔’’
اس حدیث مبارکہ کی رو سے بنيادی ضروريات کا ہر فرد معاشرہ کو بہم پہنچانا شرط ایمان قرار ديا گيا ہے اور کم سے کم ذمہ داری ہر ایک پڑوسی کی دوسرے پڑوسی کے حوالے سے یہ ہے کہ کوئی شخص بھی کسی بنيادی ضرورت سے محروم نہ رہے۔ چونکہ تمام افراد معاشرہ ایک دوسرے کے ساتھ پڑوسی کے رشتے میں منسلک ہیں۔ اس لئے یہ ذمہ داری پورے معاشرے کی ہے کہ اپنے کسی فرد کو بھی بنيادی حق معاش سے محروم نہ رہنے دے۔ اسلامی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی تنفیذ کا اہتمام کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved