قومی زندگی کی تین بنيادی جہتوں : معاشرت، معیشت اور سياست میں سے معیشت ایک بنيادی مرکزی اور محوری اہمیت کی حامل جہت ہے۔ جس کی اصلاح نہ صرف معیشت اور معاشرت کو بلکہ سياست کو اور من حیث المجموع پوری زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس جہت سے مطالعہ ایسے واضح اُصول فراہم کرتا ہے جو زندگی کے معاشی پہلو میں آنے والی خرابیوں کی اصلاح اور اس پہلو کے ارتقاء کے حوالے سے جملہ تقاضوں کا احاطہ کرتا ہے۔ قومی سطح پر معاشی زندگی میں استحصالی، خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل وہ بنيادی انحراف ہے جو اعليٰ اقدار کی تخلیق، ارتقاء اور استحکام میں سدِ راہ کے طور پر حائل رہتا ہے۔ کیونکہ جب انسانی طرزِ عمل پر حرص، لالچ، بخل و کینہ، خود غرضی اور مفاد پرستی غالب ہو جائے تو اجتماعی مفاد کی خاطر معاشرے سے انفاق، نفع بخشی اور فیض رسانی کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جہاں ارتکاز کا رجحان پیدا ہوتا ہے وہاں معاشرے کے عام افراد معاشی تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ معاشرتی زندگی میں تفاوت، ہر سطح پر مفاد پرستانہ طرزِ عمل کو جنم دیتی ہے۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنيادوں سے اٹھنے والی معیشت معاشرے کی سياسی اور اجتماعی اقدار کو بھی پامال کرتی ہے، اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے اپنے اخلاقِ رذیلہ اور اجتماعی بقاء کے تصور سے انحراف کے باعث بالآخر محکومی اور غلامی جیسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اندریں حالات اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ افرادِ معاشرہ کے دل سے افلاس کا خوف رفع کيا جائے۔ معاشی تعطل اور غیر فطری تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ایسا مؤثر اقتصادی نظام وضع کيا جائے جہاں ہر شخص کی تخلیقی جدوجہد بحال ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک معاشرے میں رائج معاشی نظام کے بنيادی تصورات، اَقدار اور عملی اقدامات میں ایسی بنيادی تبدیلياں نہ لائی جائیں جو ان اہداف کے حصول کو یقینی بناتی ہوں۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس حوالے سے مطالعہ ان جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل عطا کرتا ہے جس سے نہ صرف معاشرے میں آنے والی ان معاشی خرابیوں کو، جو بیک وقت معاشرتی اور سياسی اقدار کو مفلوج کر سکتی ہیں، کا ازالہ کرتا ہے بلکہ افرادِ معاشرہ کو مثبت معاشی طرزِ عمل پر گامزن کرنے کا داعیہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اس باب میں ہم سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاشی پہلو کے حوالے سے درج ذیل جہات کا جائزہ لے رہے ہیں :
اب ان پہلووں کی تفصیل بيان کی جاتی ہے :
کوئی بھی نظام زندگی اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک اس کے پس منظر میں کوئی واضح تصور، اُصول اور ضابطہ موجود نہ ہو۔ اسلام کا معاشی نظام بھی ان بنيادی تصورات اور تعلیمات پر مبنی ہے جو قرآن و سنت سے میسر آتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اسلام کے معاشی نظام کے خدو خال اور ان کے بنيادی تصورات نہ صرف واضح فرمائے بلکہ ایسی تعلیمات عطا فرمائیں جو معاشی رویوں اور رجحانات سے نہ صرف مختلف تھیں بلکہ آنے والے زمانوں کے لئے ایک رہنما اُصول قرار پائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذہب کے روایتی تصور کے بالکل برعکس جہاں دنيا کی سرگرمیوں کو قربِ خداوندی کے حصول میں سدِّ راہ اور رکاوٹ سمجھا جاتا تھا، جائز اور درست معاشی سرگرمیوں کی اہمیت کو بيان فرمايا اور انسان کی طبیعت میں موجود معاشی میلانات کی اصلاح کے لئے بنيادی تصورات مثلاً تصورِ ملکیت وغیرہ کو بدلتے ہوئے ایسی تعلیمات عطا فرمائیں کہ جن کے اوپر عمل پیرا ہوتے ہوئے معاشی زندگی ایک ایسے حسین اعتدال سے بہرہ ور ہوسکے جہاں ایک طرف تخلیقی معاشی سرگرمياں فروغ پذیر رہیں تو دوسری طرف افرادِ معاشرہ کے لیے ان تخلیقی اور معاشی سرگرمیوں سے مستفید ہونے اور ان سے نفع بخشی تک کے امکانات پانے کے تمام راستے بھی کھلے رہیں۔
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زندگی کے معاشی پہلو کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفع مند مال کی تعریف کی ہے اور اس مال کے کمانے کی خواہش اور اسے احسن طریقے سے خرچ کرنے اور اس مال کو مزید ثمر آور بنانے کو ضروری قرار ديا ہے اور ایسے صاحب حیثیت شخص کو سراہا ہے جو مال ملنے پر شاکر ہو اور اس مال کو لوگوں کی منفعت اور خير خواہی کیلئے خرچ کرے۔ جبکہ اس ضمن میں سوائے اللہ تعاليٰ کی خوشنودی کے اور کوئی چیز اس کے پیش نظر نہ ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
نعم المال الصالح للمرء الصالح.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 197، رقم : 17798
2. بخاری، الأدب المفرد : 112، رقم : 299
‘‘وہ کتنا ہی اچھا مال ہے جو کسی نیک انسان کے پاس ہو۔’’
ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً.
النساء، 4 : 5
‘‘اور تم بے سمجھوں کو اپنے (يا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنايا ہے۔’’
اس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت زندگی کی استواری میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع فرمايا ہے۔ ارشاد فرمايا :
إنّ اﷲ کره لکم ثلاثا : قيل وقال، وإضاعة المال، وکثرة السّؤال.
1. بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب قول اﷲ تعالی : لا یسألون النّاس إلحافا، 2 : 537، رقم : 1407
2. مسلم، الصحیح، کتاب الأقضیۃ، باب نھی عن کثرۃ السوال، 3 : 1340، رقم : 1715
3. قضاعی، مسند الشھاب، 2 : 155، رقم : 1088
‘‘اللہ تعاليٰ نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائیں ہیں : قیل و قال، مال کے ضياع اور کثرتِ سوال۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات میں مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں نیکی اور بدی کے امتياز میں ایک موثر بلکہ فیصلہ کن عامل قرار ديا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگايا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
1. کاد الفقر أن يکون کفراً.
1. قضاعي، مسند الشھاب، 1 : 342، رقم : 586
2. بیہقی، شعب الإیمان، 5 : 267، رقم : 6612
3. أبو نعیم، حلیۃ الأولياء، 3 : 53
‘‘ممکن ہے غربت و افلاس (کا رد عمل) کفر کی حد تک پہنچ جائے۔’’
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے اعتدال کو بھی معتدل معاشی سرگرمیوں سے مشروط قرار ديا :
2. الإقتصاد في النفقة نصف المعيشة.
1. طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 25، رقم : 6744
2. بیہقی، شعب الإیمان، 5 : 254، رقم : 6567
‘‘خرچ میں اعتدال آدھی معیشت ہے۔’’
3. ما عال من اقتصد.
1. طبرانی، المعجم الکبیر، 10 : 108، رقم : 10118
2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 10 : 252
‘‘جس نے ميانہ روی اختيار کی وہ محتاج نہیں ہوگا۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رزق حلال کے حصول کو فرض قرار ديا ہے۔
1. طلب کسب الحلال فريضة بعد الفريضة.
1. بیہقی، السنن الکبری، 6 : 128، رقم : 11695
2. بیہقی، شعب الإیمان، 6 : 420، رقم : 8741
3. قضاعی، مسند الشھاب، 1 : 104، رقم : 121
4. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 441، رقم : 3918
5. أبو نعیم، حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء، 7 : 126
‘‘رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔’’
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر یوں ارشاد فرمايا :
إذا صليتم الصبح فلا تناموا عن طلب أرزاقکم، فإنّ نومة الصبحة يمنع الرّزق.
1. ہندی، کنز العمال، 4 : 21، رقم : 9299
2. شعرانی، کشف الغمۃ عن جمیع الأمۃ، 2 : 3
‘‘جب صبح کی نماز ادا کر لو تو اپنے رزق کی طلب سے غافل ہو کر سو نہ جاؤ، کیونکہ صبح کی نیند رزق کو روکتی ہے۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محنت مزدوری اور اپنی معیشت کو سنوارنے کے لئے جدو جہد کرنے والے کی تعریف کی اور مزدور کو اﷲ تعاليٰ کا دوست قرار ديا ہے۔
1. عن رافع بن خديج، قال : قيل : يا رسول اﷲ، أيّ الکسب أطيب؟ قال : عمل الرّجل بيده وکلّ بيع مبرور.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 141، رقم : 17265
2. ھندی، کنز العمال، 4 : 124، رقم : 9861
3. خطیب تبریزی، مشکوۃ المصابیح، 2 : 133، رقم : 2783
‘‘حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گيا : يا رسول اﷲ! کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت۔’’
2. عن جابر بن عبد اﷲ قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : رحم اﷲ عبدًا سمحًا إذا باع. سمحا إذا اشتری. سمحا إذا اقتضٰی.
(1) ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب السماحۃ فی البیع، 2 : 742، رقم : 2203
‘‘حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اﷲ تعاليٰ ایسے لوگوں پر رحم کرتا ہے جو خرید و فروخت يا قرض کی واپسی پر دوسروں پر شائستہ ہیں اور ان کا خيال رکھتے ہیں۔’’
3. عن صخر الغامدی قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : اللهم بارک لأمّتي في بکورها. قال : وکان إذا بعث سرية أو جيشًا بعثهم في أوّل النّهار. قال : وکان صخر رجلا تاجرًا فکان يبعث تجارته في أوّل النّهار فأثری وکثر ماله.
ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب ما یرجی من البرکۃ فی البکور، 2 : 752، رقم : 2236
‘‘حضرت صخر غامدی رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اے اللہ! ميری اُمت کو اس کی صبح میں برکت دے۔
‘‘راوی بيان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی چھوٹا يا بڑا لشکر روانہ فرمانا ہوتا تو شروع دن میں روانہ فرماتے۔
‘‘راوی کہتے ہیں کہ حضرت صخر رضی اللہ عنہ تاجر آدمی تھے۔ وہ اپنے تجارتی قافلے شروع دن میں روانہ کرتے تو وہ بہت مال دار ہوگئے اور ان کا مال بہت بڑھ گيا۔’’
گويا آپ نے ان اوقات کی بھی تعریف اور نشان دہی فرمائی جو معاشی سرگرمیوں میں برکت کا ذریعہ ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے :
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا.
البقره، 2 : 29
‘‘وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کيا۔’’
ایک اور مقام پر ارشاد ہے
وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِيْهَا مَعَايِشَط قَلِيْـلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ.
الأعراف، 7 : 10
‘‘اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کيا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo’’
اسی طرح ارشاد فرمايا :
وَلاَ تُؤْتُواْ السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً.
النساء، 4 : 5
‘‘اور تم بے سمجہوں کو اپنے (يا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنايا ہے۔’’
اس آیہ کریمہ میں زندگی کی بقاء اور استحکام کے پہلو کو بيان کيا گيا ہے۔ فی الحقیقت مال وہی ہے جس کے اندر طبعاً انسانوں کے لئے نفع کا سامان موجود ہو۔ اللہ تعاليٰ نے انسانوں کو مختلف اشياء و اموال پر ملکیت (یعنی قبضہ و تصرف) کا حق اس لئے عطا فرمايا ہے کہ اسے بروئے کار لا کر وہ ان اموال پر محنت صرف کریں اور ان کے اندر تخلیق کی گئی خوابيدہ منفعتوں اور افادیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔ کیونکہ مال کو جب تک کسی کے قبضہ و تصرف میں نہ ديا جائے اس کی بالقوہ افادیت (potential utility) کو بالفعل افادیت (actual utility) میں نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر اس مال کے خلقی اور طبعی فوائد و ثمرات یونہی بے جان دور از کار اور عملاً غیر سود مند ہو کر پڑے رہیں اور خلق خدا ان سے صحیح فائدہ نہ اٹھا سکے تو اس مملوکہ شے يا مال کی تخلیق کا مقصد گويا پورا ہی نہ ہو پايا جبکہ اللہ تعاليٰ نے ہر شے کا مقصدِ تخلیق ہی خلقِ خدا کو فائدہ پہنچانا قرار ديا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی تعلیمات سے معاشرے میں معاشی استحکام پیدا فرمايا۔ جب سوسائٹی کے معاشی حالات اجتماعی طور پر اچھے نہ تھے تو آپ نے ان لوگوں کو جن کے پاس مال و اسباب تھا اس میں دوسروں کو شریک کرنے کی ترغیب اور حکم ارشاد فرمايا تاکہ معاشرے میں معاشی تفاوت پروان نہ چڑھ سکے۔
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
طعام الواحد يکفي الإثنين وطعام الإثنين يکفي الأربعة وطعام الأربعة يکفي الثمانية.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ في الطعام القليل، 3 : 1630، رقم : 2059
‘‘ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے، دو آدمیوں کا کھانا چار کے لئے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔’’
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمايا :
من کان معه فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له، ومن کان له فضل من زاد فليعد به علی من لا زاد له، قال : فذکر من أصناف المال ما ذکر حتّی رأينا أنه لا حق لأحد منّا في فضل.
1. مسلم، الصحیح، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المؤاساۃ بفضول المال، 3 : 1354، رقم : 1728
2. أبوداود، السنن، کتاب الزکاۃ، باب في حقوق المال، 2 : 125، رقم : 1663
‘‘تم میں سے جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ اس کو لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے۔ جس کے پاس ضرورت سے زائد سامان خورد و نوش ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختلف اصنافِ مال کا ذکر فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ ضرورت سے زائد کسی بھی شے میں ہمارا حق نہیں رہا۔’’
اسلام کے دیے ہوئے تصورِ معیشت کے تحت ہر شخص حتی القدور کسب معاش کا پابند ہے۔ بلا عذر شرعی تساہل، غفلت اور کاہلی کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن حکیم نے جا بجا اللہ تعاليٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی اہمیت کو بيان کيا ہے اور اس امر کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ تعاليٰ کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کيا جائے۔ انفاق فی سبيل اللہ کی یہ فضیلت اور مقام تب ہی میسر آئے گا جب افراد معاشرہ حتی المقدور اپنی تمام تر توانائیوں کو حصول رزق حلال کے لئے بروئے کار لائیں گے۔ کیونکہ ایک ایسا معاشرہ جہاں افراد، معاشرہ کی تخلیقی سرگرمیوں کے بجائے عضو معطل بن جائیں کسی طور ایک فلاحی اور اہلِ انفاق کا معاشرہ نہیں بن سکتا۔ سو ایسے افراد کو اسلامی معاشرہ قطعاً گوارا نہیں کرتا۔’’کسب معیشت‘‘ اور ‘‘ابتغاء رزق ‘‘کی اہمیت کو قرآن حکیم نے جا بجا بيان کيا ہے :
1. فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ.
الجمعۃ، 62 : 10
‘‘پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو۔’’
2. وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی.
سالنجم، 53 : 39
‘‘اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی۔’’
3. اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ لَا يَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اﷲِ الرِّزْقَ.
العنکبوت، 29 : 17
‘‘بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کيا کرو۔’’
4. وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ.
المزمل، 73 : 20
‘‘اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں۔’’
5. يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلاَلاً طَيِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ.
البقره، 2 : 168
‘‘اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔’’
6. لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.
النساء، 4 : 32
‘‘مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمايا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمايا۔’’
احادیثِ مبارکہ میں بھی کسبِ معاش کی اہمیت بيان کی گئی ہے :
1. قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : طلب کسب الحلال فريضة بعد الفريضة.
1. بیہقی، السنن الکبری، 6 : 128، رقم : 11695
2. بیہقی، شعب الإیمان، 6 : 420، رقم : 8741
3. قضاعی، مسند الشھاب، 1 : 104، رقم : 121
4. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 441، رقم : 3918
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : حلال معیشت کا طلب کرنا اللہ تعاليٰ کے فریضہ عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔’’
2. إنّ أطيب ما أکلتم من کسبکم.
1. ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب ما للرجل من مال، 2 : 768، رقم : 2290
2. ابن أبی شیبه، المصنف، 7 : 294، رقم : 36213
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 179، رقم : 6678
4. أحمدبن حنبل، المسند، 6 : 162، رقم : 25335
‘‘بے شک سب سے پاکیزہ (رزق ) جو تم کھاتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔’’
3. لا تناموا عن طلب أرزاقکم فيما بين صلاة الفجر إلی طلوع الشمس.
1. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 35، رقم : 7380
2. عجلونی، کشف الخفاء، 2 : 26، رقم : 1588
‘‘فجر کی نماز سے لے کر طلوع شمس تک رزق کی جد و جہد کئے بغیر نیند نہ کرو۔’’
4. إنّ من الذّنوب ذنوبًا لا يکفرها الصلاة ولا الصيام ولا الحج ولا العمرة قالوا : فما يکفرها يا رسول اﷲ؟ قال : الهموم في طلب المعيشة.
1۔ طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 38، رقم : 102
2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 64
3. أبو نعیم، حلیۃ الأولياء، 6 : 335
‘‘گناہوں میں سے کچھ گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہے، نہ روزہ، نہ حج اور نہ ہی عمرہ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کيا : يا رسول اﷲ! پھر ان کا کفارہ کيا ہے؟ فرمايا : طلب معیشت کی فکر اور جدوجہد۔’’
5. اطلبو الرّزق في خبايا الأرض.
1. أبو یعلی، المسند، 7 : 347، رقم : 4384
2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ، 1 : 313، رقم : 431
3. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 274، رقم : 895
4. قضاعی، مسند الشھاب، 1 : 404، رقم : 694
5. بیہقی، شعب الإیمان، 2 : 87، رقم : 1234
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ تم اپنی روزی کو زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔’’
6. قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء.
1. ترمذی، السنن، کتاب البیوع، باب ما جاء فی التجار، 3 : 515، رقم : 1209
2. عبد بن حمید، المسند، 1 : 299، رقم : 966
3. منذری، الترغیب والترھیب، 2 : 365، رقم : 2745
4. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظيم، 1 : 524
5. حکیم ترمذی، نوادر الأصول، 2 : 85
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔’’
7. قال : إنّ التّجار يبعثون يوم القيامة فجارا إلّا من اتقی اﷲ وبرّ وصدق.
1. ترمذي، السنن، کتاب البیوع عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ما جاء في التجار، 3 : 515، رقم : 1210
2. ابن ماجہ، السنن، کتاب التجارات، باب التوقي في التجارۃ، 2 : 726، رقم : 2146
3. ابن حبان، الصحیح، 11 : 277، رقم : 4910
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : قيامت کے دن تاجر فاسق و فاجر اٹھیں گے مگر یہ کہ جنہوں نے پرہیزگاری‘ بھلائی اور سچائی سے کاروبار کيا ہو (تو وہ اس حالت میں نہیں اٹھیں گے)۔’’
8. خير الکسب کسب العامل إذا نصح.
1. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 180، رقم : 2910
2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 61، 98
3. منذری، الترغیب والترھیب، 1 : 315، رقم : 1161
‘‘بہترین کمائی مزدوری کی ہے بشرطیکہ وہ خير خواہی اور بھلائی کے ساتھ کام والے کا کام انجام دے۔’’
9. إعط الأجير أجره قبل أن يجف عرقه.
1. بیہقی، السنن الکبريٰ، 6 : 121، رقم : 11439
2. ہیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 97
3. طبرانی، المعجم الصغیر، 1 : 43، رقم : 34
‘‘مزدور کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔’’
معاشی زندگی میں فساد اور خرابیوں کی ایک بڑی وجہ روایتی تصور ملکیت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملکیتِ اموال کے باب میں یہ بنيادی اُصول عطا فرمايا کہ اس سے مراد ملکیت نہیں محض امانت و نيابت ہے۔ یہاں ‘‘مالک‘‘ کا لفظ حقیقی معنی میں نہیں فقط امین اور نائب کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اسلامی نظام معیشت میں ‘‘ملکیت‘‘ کا یہ اضافی مفہوم سب سے زيادہ بنيادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس تصور کی وضاحت کے بغیر بقیہ اُصول و ضوابط پر گفتگو لا حاصل اور خلط مبحث کے سوا کچھ نہ ہو گی۔ اس لئے سب سے پہلے نظم معیشت میں ‘‘ملکیت‘‘ کے معنی و مفہوم کو متعین کرنے کے لئے اس کی توضیح کی جاتی ہے۔
قرآن حکیم کاملکیتِ اموال میں امانت و نيابت کا اُصول محض ایک تصور نہیں کیونکہ کسی حکم کو محض ایک اخلاقی تصور سمجھ لینے اور قانونی و شرعی حق تسلیم کرنے میں بہت بڑا فرق پايا جاتاہے۔ اگر امانت و نيابت کو محض ایک اخلاقی تصور سمجھ ليا جائے تو اس پر نظام معیشت قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ محض اخلاقی تصورات اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کی بنياد پر کوئی نظام قائم کيا جا سکے، جب تک ان تصورات کو قانونی وجوب کا درجہ حاصل نہ ہو جائے۔ چنانچہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
اٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِ.
الحدید، 57 : 7
‘‘اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنايا ہے۔’’
یہاں واضح طور پر ملکیت کو ‘‘استخلاف فی المال‘‘ قرار دے ديا گيا ہے۔ جس طرح ارشاد خداوندی ہے :
وَعَدَ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِيْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ.
النور، 24 : 55
‘‘اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمايا ہے (جس کا ایفاء اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانت اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے۔’’
اس آیہ کریمہ میں یہ نکتہ کھول کر بيان کر ديا گيا ہے کہ اسلامی نظامِ سياست میں حکومت اور اقتدار میں ‘‘استخلاف فی الارض‘‘ کا اُصول کار فرما ہے۔ اسی طرح نظامِ معیشت میں ملکیتِ اموال کو استخلاف فی المال کا درجہ ديا گيا ہے۔
اس سے مستنبط ہوا کہ نہ تو اسلامی نظامِ سياست میں کوئی حکمران روئے زمین پر اپنے آپ کو حاکم مطلق کہلا سکتا ہے اور نہ ہی اسلامی نظامِ معیشت میں کوئی شخص مطلقاً ملکیت کا دعوی کر سکتا ہے۔ بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر محض امین اور نائب ہیں لہذا دونوں مالکِ حقیقی کے حکم کے پابند ہیں اور کسی کو من مانی کرنے کا اختيار حاصل نہیں۔
قرآن مجید نے اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمايا :
وَمَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.
الحدید، 57 : 10
‘‘اور تمہیں کيا ہوگيا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔’’
اسلام کے تصورِ نيابت و امانت پر استوار ہونے والا معاشی ڈھانچہ کلیتاً اشتراکی اور سرمایہ دارانہ، دونوں نظاموں کے پیش کردہ تصورات سے یکسر جدا ہے اور اس میں افراط و تفریط سے پاک ایک متوازن عادلانہ نظامِ معیشت کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی اُصول کو ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمايا ہے :
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلاَئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ.
الأنعام، 6 : 165
‘‘اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنايا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کيا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔’’
یہاں بھی انسان کی حیثیت، اموالِ دنيا کی بابت خلافت و نيابت ہی کی بيان کی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر ديا گيا ہے کہ یہ سب کچھ آزمائش کے لئے ہے۔ یعنی ان اموال کے ساتھ کچھ شرائط و ضوابط اور مصالح وابستہ ہیں اور تمہیں نائب و امین بنايا ہی اس لئے گيا ہے کہ تمہیں پرکھا اور آزمايا جائے کہ آيا تم اس امانت کے جملہ حقوق اور مصالح کی رعایت کرتے ہو يا نہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ اسلامی نظام معیشت میں ‘‘ملکیت علی الاطلاق‘‘ کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ چنانچہ اس نظام کے احکام و قوانین اپنی ماہیت اور مزاج کے اعتبار سے مطلقاً دوسرے نظاموں سے مختلف ہیں۔
ایک اور مقام پر یہی تصور ان الفاظ میں واضح کيا گيا ہے کہ مال تو فی الحقیقت اللہ کا ہے اور وہ تمہیں فقط برتنے کے لئے ديا گيا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ تم اس پر اس طرح قابض ہو رہے ہو کہ دوسروں کو ان کا حق بھی نہیں دينا چاہتے۔ ارشادِ الہی ہے :
كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاَءِ وَهَـؤُلاَءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا.
بنی اسرائیل، 17 : 20
‘‘ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنيا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکّرم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہےo’’
یہاں بھی واضح طور پر اموال و اسباب کو فقط عطاء الہی قرار ديا گيا ہے۔ پھر انسان اس کا مالک مطلق کیسے بن سکتا ہے؟ واضح رہے کہ اس کی حیثیت فقط محافظ اور امین ہی کی ہو گی اور اس میں ہر فرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے مقبوضہ اور زیر تصرف مال سے جس طرح خود فائدہ اٹھا رہا ہے، دوسروں کو بھی اٹھانے دے۔ تب ہی وہ امانت میں سچا ہے ورنہ خائن اور غاصب ٹھہرے گا۔ کیونکہ آیتِ کریمہ نے دونوں صورتوں میں یہ شرط عائد کر دی ہے :
1. كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاَءِ
2. وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا
پہلی شق کا مفہوم یہ ہے کہ اموال و اسباب دنيا پر قابض و متصرف لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ جس طرح ہم نے ان اموال کے ذریعے ان کی مدد کی ہے اسی طرح ہم دوسروں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ یعنی بلا امتياز دوسروں کی مدد کرنا بھی ہم نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ پس کسی کو کيا حق پہنچتا ہے کہ وہ اوروں تک اس مدد و نصرت الہی کے پہنچنے میں رکاوٹ بنے، بلکہ اسے تو محض واسطہ بنايا گيا ہے۔ پس اسے اپنا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہئے تاکہ ہر ایک پر یہ نعمت جاری رہے۔
دوسری شق کا مفہوم انسانوں کو یہ بتلا رہا ہے کہ تمہارے رب کی عطاء و بخشش کسی کے لئے بھی بند نہیں ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم جو تم نے قائم رکھی ہے جس کا تم برملا اظہار کرتے ہو کہ ‘‘اللہ نے ہمیں ديا ہے، دوسروں کو محروم رکھا ہے سو ہم انہیں کیوں دیں؟‘‘ اس کا کوئی جواز نہیں اس ناروا طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اللہ کی عطا کردہ تقسیم ہی فطری تقسیم ہے جو قائم رہنی چاہیے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو۔
ارشاد ربانی کہ - ‘‘تمہارے رب کی عطا و بخشش ہر ایک کے لئے ہے اور وہ کسی پر بھی بند نہیں‘‘ - ایک عادلانہ معاشرے کے قيام کا ضامن ہے۔ مگر اس کا نظام یہ ہے کہ بعضوں کو آزمانے کے لئے بعضوں کا واسطہ معاش اور وسیلہ امداد بنا دیتا ہے۔ اب اگر کچھ لوگ معاشرے میں محروم اور معاشی تعطل کا شکار نظر آ رہے ہیں تو وہ مشیت الہی سے نہیں بلکہ ارباب اقتدار و اختيار کے ظلم و استحصال کے سبب سے ہیں۔ جو ان کے راستے میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ پس استحصالی نظام معیشت کی اس رکاوٹ کو راستے سے دور کرنا ہی حقیقت میں مشیت الہی ہے۔ قرآنی احکام انفاق اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُتارے گئے ہیں۔ اسی اُصول کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
طعام الواحد يکفی الإثنين وطعام الإثنين يکفی الأربعة وطعام الأربعة يکفی الثمانية.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ فی الطعام القليل، 3 : 1630، رقم : 2059
‘‘ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے، دو آدمیوں کا کھانا چار کے لئے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔’’
جس طرح ‘‘کسبِ معاش ‘‘ میں آپ نے یہ ضرور ی قرار ديا کہ حاصل کردہ شے ‘‘حلال‘‘ ہو ‘‘حرام‘‘ نہ ہو اور ‘‘طیب‘‘ ہو ‘‘خبیث ‘‘ نہ ہو۔ اسی طرح صرف اور خرچ کے معاملے میں اقتصاد کا حکم فرمايا۔ صرف اور خرچ کا پہلو دو حصوں میں منقسم ہے ایک کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے۔ اس کے متعلق ارشاد ہے :
1. کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا.
الأعراف، 7 : 31
‘‘کھاؤ اور پیو اور حد سے زيادہ خرچ نہ کرو۔’’
2. وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْراًo اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّيَاطِيْنِ.
بنی اسرائیل، 17 : 26، 27
‘‘اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہےo’’
ان ہر دو آيات میں اپنی جائز اور حلال کمائی کے صرف کرنے کو دو شرطوں کے ساتھ مشروط کيا گيا ہے ایک یہ کہ ‘‘اسراف‘‘ نہ ہو اور دوسری یہ کہ ‘‘تبذیر‘‘ نہ ہو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
1. الإقتصاد في النفقة نصف المعيشة.
1. طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 25، رقم : 76744
2. بیہقی، شعب الإیمان، 5 : 254، رقم : 6568
3. ہیثمی، مجمع الزوائد، 1 : 160
4. مناوی، فیض القدیر، 3 : 781
‘‘(آمدن و صرف میں) ميانہ روی معاشی زندگی کی خوشگواری کا نصف حصہ ہے۔’’
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے فرمايا :
أمسک عليک بعض مالک فهو خير لک.
‘‘اپنے مال میں سے کچھ بچا لو یہ تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔’’
تب حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کيا : خيبر (کی زمین) میں جو میرا حصہ ہے وہ میں نے بچا ليا ہے۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، 4 : 1607، رقم : 4156
2۔ أبوداود، السنن، کتاب الایمان والنذور، باب فیمن نذر، 3 : 240، رقم : 3317
3۔ ابن حبان، الصحیح، 8 : 163
4۔ عبد الرزاق، المصنف، 9 : 74
5۔ أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 454
3۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اس سوال پر - کہ میں اپنا کل مال خدا کی راہ میں بذریعہ وصیت دے ڈالتا ہوں - حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
أن تدع ورثتک أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتکففون النّاس في أيديهم.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ، 5 : 2047، رقم : 5039
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 173، رقم : 1488
3۔ أبوعوانہ، المسند، 3 : 483، رقم : 5777
4۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 6 : 268، رقم : 12345
‘‘اپنے ورثاء کو صاحب مال چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ محتاج رہ جائیں اور بھیک مانگتے پھریں۔’’
اس لئے تہائی مال میں وصیت کر دينا کافی ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَالَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَکَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا.
الفرقان، 25 : 67
‘‘اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زيادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درميان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہےo’’
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر فرماتے ہیں :
فشرع اﷲ عدل بين الغالی فيه والجا في عنه لا إفراط ولا تفريط.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظيم، 2 : 89
‘‘پس اللہ تعاليٰ نے اس میں غلو کرنے والے اور اس سے اعراض کرنے والے کے درميان عدل قائم کر ديا بغیر افراط و تفریط کے یعنی اس میں نہ افراط رہا اور نہ تفریط۔’’
پھر تبذیر سے نفرت دلاتے ہوئے مبذر کو شیطان کا ہم سَر بنايا اور اسی قسم کی اور بھی آيات ممانعت تبذیر میں نازل ہوئی ہیں۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں حق کے خلاف ہر قسم کے صرف اور خرچ کا نام ‘‘تبذیر‘‘ ہے۔
2۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے ناحق صرف کر ديا تو یہ تبذیر ہے۔
3۔ قتاوہ کہتے ہیں تبذیر نام ہے مال کو اللہ تعاليٰ کی نافرمانی، ناحق اور فساد کے مواقع میں صرف کرنے کا۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 5 : 52
4۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بروایت ہاشم رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمايا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بنی تمیم کا ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کيا کہ میں بہت مالدار ہوں اور میرے اہل و عيال بھی ہیں اور مہمانداری بھی خاصی ہوتی رہتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ بتائیے کہ میں کس طرح خرچ کروں، اور اس معاملے میں کيا کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : اپنے مال سے پہلے زکوٰۃ نکال اگر وہ زکوٰۃ کی مقدار کو پہنچتا ہے اس لیے کہ زکوٰۃ مال کو خباثت سے پاک کر دیتی ہے اور پھر اقرباء کے ساتھ مالی صلہ رحمی کر اور سائل مسافر اور مسکین کے حقوق کی ادائیگی کر۔ اس شخص نے عرض کيا : يا رسول اللہ! اس تمام تفصیل کو جامع اور مختصر الفاظ میں فرما دیجئے (کہ میں اس کو دستور زندگی بنا لوں) تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنا دی :
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهُ وَالْمِسْکِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا.
بنی اسرائیل، 17 : 26
‘‘اور قرابت داروں کو انکا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo’’
سائل نے یہ سن کر عرض کيا کہ بس یہ میرے لیے کافی ہے۔
1۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظيم، 3 : 37
2۔ أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، رقم : 12417
اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ آیت والذين اذا أنفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا وکان بين ذلک قواماً کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
‘‘اسراف اور تبذیر کے متعلق مفسرین نے مختلف وجوہ بيان کی ہیں ان میں سے قوی تر یہ ہے کہ ‘‘إنّه تعالٰی وصفهم بالقصد الّذی هو بين الغلو والتقصير‘‘ اللہ تعاليٰ نے اپنے نیک بندوں کا یہ وصف بيان کيا ہے کہ وہ معیشت کے معاملہ میں ميانہ روی اختيار کرتے ہیں نہ بے جاغلو کرتے ہیں نہ بے محل بخل برتتے ہیں۔ اسی لیے قرآن عزیز میں دوسری جگہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح مخاطب کيا گيا ہے :
وَلَا تَجْعَلْ يَدَکَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ.
بنی اسرائیل، 17 : 29
‘‘اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کہول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو)۔’’اور آیت ‘‘کان بين ذالک قواما‘‘ میں قوام سے اعتدال اور درميانی راہ مراد ہے یعنی ميانہ روی ان کا شعار ہے۔
رازی، التفسیر الکبیر، 24 : 95
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
من فقه الرجل رفقه في معيشة.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 194، رقم : 21742
2۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، 4 : 74
3۔ ابن أبی شیبۃ، المصنف، 7 : 124، رقم : 34688
4۔ طبرانی، مسند الشامیین، 2 : 352، رقم : 1482
5۔ دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 4 : 6، رقم : 6010
6۔ أبو نعیم، حلیۃ الأولياء، 1 : 211
‘‘کسی شخص کی دانائی میں سے یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنی معیشت میں نرمی (اعتدال) اختيار کرے۔’’
ان تمام حوالہ جات کا حاصل یہ ہے کہ نصوصِ قرآن و حدیث ‘‘معیشت‘‘ میں صرف اور خرچ کے متعلق یہ چند باتیں بنيادی طور پر ضروری قرار دی گئی ہیں۔
1۔ صرفِ مال میں نہ ‘‘اسراف‘‘ درست ہے نہ ‘‘تبذیر‘‘ اور نہ ‘‘تقتیر‘‘ اور تینوں الفاظ کا مفہوم اسلامی اصطلاح کے مطابق مراد ہے نہ کہ صرف لغوی معنی کے مطابق۔
2۔ ميانہ روی (اقتصاد) ہی معیشت کی عادلانہ راہ ہے اور صالح اجتماعی نظام معیشت کے لیے ایک ذریعہ۔
3۔’’فرد‘‘ چونکہ جسم جماعت کا ایک عضو ہے اس لیے اس کی انفرادی آمدنی پر اجتماعی معیشت کے حقوق بھی عائد ہیں اور جس قدر وہ کماتا ہے اسی نسبت سے یہ حقوق اس پر زيادہ ہوتے جاتے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں اس کا نام ‘‘انفاق فی سبيل اللہ‘‘ ہے۔
4۔ انفرادی معیشت میں اپنی اور اپنے اہل و عيال کی قوت لا یموت اور ساتر عورت لباس اور ضرورت رہائش کے مطابق مکان تمام حقوق سے مقدم اور فرض اولین ہے اور اس کے بعد دیگر تفاصیل ہیں جن کی اجمالی وضاحت یہ ہے :
الف) اگر وہ صاحبِ نصاب ہے تو سب سے پہلے صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ وغیرہ) کا ادا کرنا اس کے ذمے فرض ہے گويا اس صورت میں اجتماعی حق انفرادی حق پر مقدم ہے۔
ب) صدقات واجبہ کی اداء کے باوجود ‘‘انفرادی مال‘‘ پر کچھ اور بھی اجتماعی حقوق عائد ہیں اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : ‘‘إنّ في المال لحقا سوی الزکاة‘‘ مثلا اگر بيت المال کا خزانہ ہر شخص کی انفرادی معیشت کے لیے پورا نہ ہوسکے تو ‘‘خلیفہ‘‘ جبرا ً اہلِ دولت سے مال حاصل کر کے اس کمی کو پورا کر سکتا ہے اگرچہ وہ اربابِ دولت، صدقات واجبہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہو چکے ہوں۔
1۔ ترمذی، السنن، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء أن في المال، 3 : 48، رقم : 659
2۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 4 : 84، رقم : 7034
3۔ سعید بن منصور، السنن، 5 : 100، رقم : 926
4۔ سیوطی، شرح سنن ابن ماجہ، 1 : 128، رقم : 1789
5۔ مناوی، فیض القدیر، 2 : 472
ج) عام انسانی حالات میں صدقاتِ نافلہ یعنی ‘‘حقوق ثانوی‘‘ ایسی حالت میں ادا کئے جائیں کہ اپنے اور اہل و عيال کے لیے مال کا ایک حصہ محفوظ رہے تاکہ وہ مفلس و قلاش ہو کر نہ رہ جائیں۔ اس کی تعبیر یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ اس کو مستقبل کے لیے اپنے اور اہل و عيال کے لیے کچھ پس انداز کر رکھنا مناسب ہے۔ چنانچہ حدیث ‘‘خير الصّدقه ما کان عن ظهر غنی‘‘ (1) اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب لا صدقۃ إلا عن ظهر غنی، 2 : 518، رقم : 1360
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب بيان أن الید العليا خير من الید السفلی، 2 : 717، رقم : 1034
3۔ ابن خزیمہ، الصحیح، 4 : 96، رقم : 2436
4۔ ابن حبان، الصحیح، 8 : 149، رقم : 3363
د) خاص حالات انسانی میں ‘‘ایثار علی النفس‘‘ اولی اور افضل ہے یعنی اگر انسانی نفوس ضبط نفس اور صبر کے درجہ کمال پر فائز ہیں تو انفاق فی سبيل اللہ میں تمام مال کو صرف کر دينا محبوب ہے۔ چنانچہ آیت {وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَة} (2) ‘‘ان کو اگر ذاتی حاجت بھی ہوتی ہے تب بھی وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے ہیں‘‘ اور حدیث ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ أفضل الصّدقة جهد من مقل. (3) (سب سے بہترین صدقہ اسی شخص کا ہے جو قليل المال ہو کر مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالتا ہے)- اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(2) الحشر، 59 : 9
(3) بیہقی، السنن الکبريٰ، 4 : 180، رقم : 7561
اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک موقعہ پر تمام مال کو خدا کی راہ میں پیش کر دينا اسی مسئلہ کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ انفرادی معیشت میں ‘‘اقتصاد‘‘ (ميانہ روی) مطلوب ہے اور ‘‘اکتناز‘‘ (اجتماعی حقوق کو نظر انداز کر کے دولت کوذخيرہ کرنا) اور ‘‘احتکار‘‘ (ناجائز وسائل معیشت سے مال اکٹھا کرنا ) حرام اور مردود ہے اور انفرادی دولت، اجتماعی دولت کے لیے ایک ذریعہ ہے نہ کہ اس کے لیے سنگ راہ۔
آپ کے عطا کردہ معاشی اصولوں اور رہنمائی کے مطابق اَصل رِزق اور حق معاش میں سب انسان برابر ہیں۔ فرق اور تفاوت صرف درجات میں ہے۔ اصل رزق اور حقِ معاش میں کھانا، پینا، لباس، رہائش، بنيادی تعلیم اور علاج معالجہ جیسی تمام بنيادی ضروريات آجاتی ہیں۔ جن میں تمام انسان برابر کے حق دار کے طور پر شامل ہیں۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ.
حم السجدہ، 41 : 10
‘‘اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کيا، (یہ سارا رِزق اصلاً) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہےo’’
اس آیت کریمہ کا یہی مفہوم کئی مفسرین کرام نے بيان کيا ہے۔ ملاحظہ ہو :
والمعنی : وقدر فيها أقواتها سواء للمحتاجين واختاره طبری.
1۔ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1 : 256
2۔ طبری، جامع البيان فی تفسیر القرآن، 24 : 96
3۔ ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظيم، 4 : 94
‘‘اور اس آیت وَقَدَّرَ فِيْهَا اَقْوَاتَهَا کا معنی ہے کہ یہ تمام محتاجوں کے لئے برابر ہے، اور اس قول کو امام طبری نے اختيار کيا ہے۔’’
قرآن حکیم نے سورہ روم میں بھی یہی اسلوب اختيار کرتے ہوئے اس تصور کو مزید وضاحت کے ساتھ بيان کيا ہے :
ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ.
الروم، 30 : 28
‘‘اُس نے (نکتہ توحید سمجھانے کے لئے) تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بيان فرمائی ہے کہ کيا جو (لونڈی، غلام) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کيا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کيا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانياں کھول کر بيان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)o’’
یہاں بھی
‘‘فانتم فيه سوائ‘‘
. کا اعلان، بنيادی حق معاش میں سب کی برابری کا قطعی ثبوت کے طور پر آئینہ دار ہے جسے درجات رزق میں تفاوت کے منافی ہرگز نہیں گردانا جا سکتا۔ اس کا مفاد اجمالاً یہ ہے کہ ضروريات زندگی سے کوئی بھی محروم نہ رہنے پائے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کو نوعیت و ماہیت کے اعتبار سے ان کی فراہمی ایک جیسی ہو بلکہ ہر شے میں یہ فرق و تفاوت فطری اور نظام قدرت کا حصہ ہے۔ مگر دونوں کی حدیں الگ الگ ہیں۔ حق المعاش میں برابری کی اپنی حد ہے اور درجات معاشی میں تفاوت کی اپنی حد ہے۔ جس طرح برابری کا حق تفاوت کو نہیں مٹا سکتا، اسی طرح یہ حق بھی کسی کو نہیں پہنچتا کہ تفاوت کے نام پر حق معاش کی برابری کاخاتمہ کر دے۔ بلکہ کسی بھی فرد معاشرہ کے معاشی حقوق کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمايا :
من کان معه فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له، ومن کان له فضل من زاد فليعد به علی من لا زاد له، قال : فذکر من أصناف المال ما ذکر حتی رأينا أنه لا حق لأحد منّا في فضل.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المؤاساۃ بفضول المال، 3 : 1354، رقم : 1728
2۔ أبو داود، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی حقوق المال، 2 : 125، رقم : 1663
‘‘تم میں سے جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ اس کو لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے جس کے پاس ضرورت سے زائد سامان خورد و نوش ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختلف اصناف مال کا ذکر فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ ضرورت سے زائد کسی بھی شے میں ہمارا حق نہیں رہا۔’’
اسی طرح درجات رزق میں پائے جانے والے تفاوت کے حوالے سے قرآن مجید نے ایک بنيادی نکتہ یوں واضح کيا ہے۔ ارشاد فرمايا :
اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَط نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا.
الزخرف، 43 : 32
‘‘کيا آپ کے رب کی رحمتِ (نبوّت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درميان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں (کيا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔’’
پس ایک اسلامی معاشرے میں جہاں تمام افراد کے لئے بنيادی حق معاش میں مساوات کا حکم ديا گيا ہے، وہاں درجاتِ رزق میں تفاوت کا تصور بھی موجود ہے۔ ليکن یہ تفاوت صرف مراتب رزق میں روا ہے بنيادی حق میں نہیں۔ تفاوت رزق میں یہ تفاوت تقاضائے ربوبيت اور حکمت احتساب الہیہ پر مبنی ہے۔ جبکہ انسانوں کی طرف سے مستحقین کو بنيادی حق معیشت سے محروم رکھنا باری تعاليٰ کی خالقیت، ربوبيت اور رحمانیت کے منافی ہے۔
یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے درجاتِ رزق میں تفاوت کو آزمائش قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمايا :
وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَکُمْ فِيْ مَا اَتٰـکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ.
الانعام، 6 : 165
‘‘اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کيا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ بیشک آپ کا رب (عذاب کے حقداروں کو) جلد سزا دینے والا ہےo’’
یہ آزمائش اس لئے ہے کہ انسان حکم الہی کے مطابق دوسروں کے حق میں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری کس حد تک پوری کرتا ہے۔ اگر وہ یہ ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ اپنے جرم کی سنگینی کے مطابق سزا کا حقدار ہے اور قرآن کی نظر میں سزا کی ایک صورت اس نعمت سے محروم کر ديا جانا بھی ہے۔ جس کا حق اسلامی رياست کو حاصل ہے۔
یعنی اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے اللہ تعاليٰ کے دیئے ہوئے مال و دولت سے محروم المعیشت افراد کا حق ادا نہیں کرتا تو رياست کو یہ قانونی حق حاصل ہو گا کہ وہ اس سے حکماً ضرورت سے زائد چھین کر مستحقین میں تقسیم کر دے۔
ملکیت کے مندرجہ بالا تصور میں انفرادی ملکیت کی نفی نہیں کی گئی۔ قرآن حکیم نے جہاں جہاں بھی انفاق فی سبيل اللہ کی ترغیب دی ہے وہاں افراد معاشرہ کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ترغیب دی گئی ہے :
وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ.
الذاريات، 51 : 19
‘‘اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھاo’’
ان اور دیگر آيات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام نے انفرادی حق و مفاد کو تسلیم کيا اور اسے جائز قرار ديا ہے مگر {هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا} (2) (وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کيا) کے مصداق بنيادی حق معیشت کے حوالے سے ‘‘مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا‘‘ کو افراد معاشرہ کے لئے مباح قرار ديا۔ اس طرح کسی فرد واحد يا افراد جماعت کو اسلامی معاشرے میں ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ انہیں معاشی مفاد کے ایسے حقوق کا مالک بنا ديا جائے جو ‘‘مفاد عامہ‘‘ کے خلاف ہو۔ بلکہ جہاں بھی انفرادی مفاد کی وجہ سے اجتماعی مفاد پر زد پڑتی ہو وہاں اجتماعی مفاد کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے گی اسلامی معیشت کے اس بنيادی اصول کی وضاحت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے :
البقره، 2 : 29
1. عن أبيض بن حمال أنه وفد إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فاستقطعه الملح قال ابن المتوکّل الّذی بمأرب فقطعه له فلمّا أن ولّی قال رجل من المجلس : أتدری ما قطعت له إنّما قطعت له الماء العدّ قال : فانتزع منه.
1۔ أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب في إقطاع الأرضین، 3 : 174، رقم : 3064
2۔ بیہقی، السنن الکبريٰ، 6 : 149، رقم : 11608
‘‘حضرت ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مآرب میں نمک کی جو جھیل تھی اس کو عطیہ کے طور پر مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر عرض کيا : يا رسول اللہ! آپ نے نمک کا ہمیشہ جاری رہنے والا خزانہ کیوں اس کے حوالے کر ديا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اس کی اصل حقیقت سے آگاہی کے بعد واپس لے ليا اور دینے سے انکار فرما ديا۔’’
2. عن عمرو بن عوف المزنيّ إنّ النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم أقطع بلال بن الحارث المزنيّ معادن القبليّة جلسيّها وغوريّها وحيث يصلح الزّرع من قدس ولم يعطه حقّ مسلم وکتب له النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم (کتابا).
أبو داود، السنن، کتاب الخراج، باب اقطاع الأرضین، 3 : 173، رقم : 3062
‘‘حضرت عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال بن حارث کو مقام قبلیہ کے پست و بلند حصوں کی کانیں عطیہ کے طور پر دے دیں اور مقام قدس کے ان حصوں کو بھی ديا جو کھیتی کے قابل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عطیہ میں کسی مسلمان کا حق ان کو نہیں ديا اور اس کے لئے ان کو فرمان لکھ ديا۔’’
ان احادیث کی روشنی میں یہ اُصول طے پاجاتا ہے کہ جہاں عامۃ الناس کے مفادات کا معاملہ ہو وہاں کسی فرد واحد يا واحد مخصوص جماعت کو حق ملکیت نہیں دیئے جا سکتے۔
انفرادی مفادات پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دینے کے اصول پر عمل ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی نظر آتا ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عراق اور شام فتح ہوا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے مطالبہ کيا کہ ان ملکوں کی زمینوں کو ہم پر تقسیم کر کے ہمیں ان کا مالک بنا ديا جائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ خصوصیت کے ساتھ اس پر مصر تھے۔ مگر حضرت عمرص نے ایسا کرنے سے اس بنا پر انکار کر ديا کہ اگر مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں ہی تقسیم کر دی گئیں تو سرحدوں کے انتظامات، شہروں اور ملکوں کے انتظامات، لشکروں کی ضروريات، بعد میں آنے والے مسلمانوں کی حاجات اور دیگر مستحق غربا کی ضروريات کے لئے آمدنی کہاں سے آئے گی۔ اس معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں موجود اختلاف کو رفع کرنے کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اوّل جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس مشاورت منعقد کی اور اس معاملے کو ان کے سامنے پیش کر کے ان کی رائے طلب فرمائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دلائل سن کر سب نے آپ سے اتفاق کيا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابو یوسف فرماتے ہیں :
والّذي راٰی عمر رضی الله عنه من الامتناع من قسمة الأرضین بين من افتتحها عند ما عرفه اﷲ ما کان في کتابه من بيان ذلک توفیقًا من اﷲ کان له فيما صنع، وفيه کانت الخيرة لجميع المسلمين، وفيما راٰه من جمع خراج ذلک وقسمة بين المسلمين عموم النفع لجماعتهم.
ابو یوسف، کتاب الخراج : 29
‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہے کہ انہوں نے مجاہدین اور فاتحین کے درميان اراضی کو تقسیم کرنے سے انکار کر ديا اور اپنی رائے کی موافقت میں قرآن مجید کے دلائل پیش کیے یہ سب اللہ تعاليٰ کی توفیق کا نتیجہ تھا اور دراصل اس میں ہی تمام مسلمانوں کی بھلائی تھی اور خراج کا جمع ہونا اور اس کا مسلمانوں کی ضروريات پر خرچ ہونا جماعتی مفاد کے اعتبار سے تقسیم اراضی کے مقابلے میں بدر جہا مفید تھا۔’’
یعنی اسلام کے تصور معیشت اور قرآن حکیم کی انسانی فلاح اور عمل احسان کی تعلیم کی رو سے اسلامی معاشرہ میں اُصولی طور پر انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارتکازِ دولت کی ہر صورت کی اپنے قول و عمل سے نفی فرمائی۔ اگر کوئی شخص اپنے مملوکہ اموال کی آمدنی اور منافع اس خيال سے کہ یہ ميری ذاتی ملکیت ہے صرف اپنی ضروريات اور آسائشوں تک رکھے اور ان سے دوسروں کو فائدہ نہ اٹھانے دے یعنی دوسرے مستحقین کے شرعاً تسلیم شدہ حقوق پورے نہ کرے تو اسے دولت کا جمع کرنا يا ارتکاز و اکتناز کہا جائیگا اور یہ امر شریعت میں حرام بلکہ باعثِ عذاب جہنم ہے باوجود اس کے کہ اس نے وہ ساری دولت اپنے جائز ملکیتی ذرائع سے کمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
1.وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍo يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ.
التوبۃ، 9 : 34، 35
‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخيرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی oپھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانياں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کيا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھےo۔’’
2۔ اس کا مقصد بيان کرتے ہوئے ارشاد فرمايا :
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ.
الحشر، 59 : 7
‘‘(یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درميان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔’’
3. اَلَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُo يَحْسَبُ اَنَّ مَالَهُ اَخْلَدَهُo کَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِo وَمَا اَدْرَاکَ مَا الْحُطَمَةُo نَارُ اﷲِ الْمُوْقَدَةُo الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَةِo اِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌo فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ.
الهمزہ، 104 : 2۔ 9
‘‘(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لیے) جس نے مال جمع کيا اور اسے گن گن کر رکھتا ہےo وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گیo ہرگز نہیں! وہ ضرور حطمہ (یعنی چورا چورا کردینے والی آگ) میں پھینک ديا جائے گاo اور آپ کيا سمجھے ہیں کہ حطمہ (چورا چورا کر دینے والی آگ) کيا ہے؟ (یہ) اﷲ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہےo جو دلوں پر (اپنی اذیت کے ساتھ) چڑھ جائے گیo بیشک وہ (آگ) ان لوگوں پر ہر طرف سے بند کر دی جائے گیo (بھڑکتے شعلوں کے) لمبے لمبے ستونوں میں (اور ان لوگوں کے لئے کوئی راہ فرار نہ رہے گی)o’’
الغرض معاشی زندگی کے باب میں آپ کی عطا کردہ تعلیمات اور بنيادی تصورات اپنے معنی و مفہوم اور روح کے لحاظ سے انفرادیت کے حامل ہیں۔ یہ اسلام کے معاشی نظام کی وہ خشتِ اول ہیں جو اس کی پوری ساخت و تشکیل کو دنيا کے دیگر معاشی نظاموں سے ممتاز کرتی ہیں اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت عطا کرتی ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افرادِ معاشرہ کو کسبِ رزق کی تعلیم فرمائی اور معاشرے کے ماہرین صنعت و حرفت اور پیشہ ور کاریگروں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ کیونکہ کسبِ رزق انبياء کرام علیھم السلام کی سنت ہے اور بہترین کسبِ رزق وہ ہے جو اپنے ہاتھ سے کيا جائے۔ لہذا ضروری ہے کہ ایسے بے روزگار جو جان بوجھ کر کوئی کام نہیں کرتے انکی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ ایسے لوگ معاشرے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ اسلام میں اس طرح کی بے روزگاری گداگری اور توکل کا کوئی تصور نہیں بلکہ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب کو اختيار کيا جائے اور نتائج اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے حاصل کیے جائیں اور جو ایسا نہیں کرتا وہ توکل کرنے والا نہیں ہے۔ رزق کا حصول انتھک کوشش کے ساتھ مشروط ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَی اﷲُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.
التوبۃ، 9 : 105
‘‘اور فرما دیجئے : تم عمل کرو، سو عنقریب تمہارے عمل کو اللہ (بھی) دیکھ لے گا اور اسکا رسول (بھی) اور اہل ایمان (بھی)اور تم عنقریب ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ0 گے، سو وہ تمہیں ان (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہتے تھےo’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
ما أکل أحد طعامًا قط، خيرا من أن يأکل من عمل يده وأنّ نبي اﷲ داود کان يأکل من عمل يده.
بخاری، الصحیح، کتاب البیوع، باب کسب الرجل، 2 : 730، رقم : 1966
‘‘بہترین کھانا وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے کما کر کھائے اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھايا کرتے تھے۔’’
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
ما يزال الرّجل يسأل النّاس، حتّی يأتی يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم.
(2) 1. بخاری، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب من سأل الناس تکثرا، 1 : 536، رقم : 1405
2. طبرانی، المعجم الکبیر، 9 : 331، رقم : 98720
''آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قيامت کے دن جب وہ حاضر ہوگا تو اس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا۔''
مواخات مدینہ سے یہ امر واضح ہے کہ استحکام معیشت کے اقدامات کو ایک مستحسن عمل قرار دياگيا ہے۔ لہذا ان ذرائع معیشت کی تلاش کی جانی چاہیے جو معیشت کے استحکام کا باعث بنیں۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ اس کائنات میں پايا جاتا ہے وہ انسان کیلئے مسخر کر ديا گيا ہے اور وہ اس سے مستفید ہو رہا ہے۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اﷲَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْکُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِی اﷲِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِيْرٍ.
لقمان، 31 : 20
‘‘(لوگو!) کيا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما ديا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے (بھی) ہیں جو اﷲ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب (کی دلیل) کےo’’
دوسرے مقام پر ارشاد فرمايا :
قُلِّ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَامَ اﷲِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ.
الجاثیۃ، 45 : 14
‘‘آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ وہ اُن لوگوں کو نظر انداز کر دیں جو اللہ کے دنوں کی (آمد کی) امید اور خوف نہیں رکھتے تاکہ وہ اُن لوگوں کو اُن (کے اعمال) کا پورا بدلہ دے دے جو وہ کمايا کرتے تھےo’’
جو شخص قرآن مجید کی اس مضمون کی آيات پر تفکر کرتا ہے وہ اس حوالے سے تمام تفصیل کو جان لیتا ہے۔
1. اطلبوا الرزق في خبايا الأرض.
1۔ أبو یعلی، المسند، 7 : 347، رقم : 4384
2۔ ہیثمي، مجمع الزوائد، 4 : 63، رقم : 6237
‘‘رزق کو زمین کی پہنائیوں میں تلاش کرو۔’’
2. عن أنس رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ما من مسلم يغرس غرسًا أو يزرع زرعًا فيأکل منه طير أو إنسان أو بهيمة إلا کان له به صدقة.
1۔ بخاري، الصحیح، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس إذا أکل منه، 2 : 817، رقم : 2195
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب فضل الغرس والزرع، 3 : 1189، رقم : 1553
‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا : جو مسلمان درخت لگاتا ہے يا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے جانور يا انسان يا چوپائے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں تو یہ عمل اس (مؤمن) کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔’’
3. ما من رجل يغرس غرسًا إلا کتب اﷲ عزوجل له من الأجر قدر ما يخرج من ثمر ذلک الغرس.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 415، رقم : 23567
2۔ ہیثمي، مجمع الزوائد، 4 : 67، رقم : 6266
‘‘جس شخص نے کوئی درخت لگايا تو اللہ رب العزت اس درخت سے حاصل ہونے والے پھل کی مقدار کے برابر اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔’’
اسلام نے اسی حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ حکومت مال کو احسن طریقہ سے خرچ کرے۔ جس سے جو حق لینا ہے وہ اس سے لے اور جس کو دينا ہے اسے وہ حق دے اور اس سلسلے میں عدل و انصاف کا مظاہرہ کرے۔ اس ضمن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمايا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے :
‘‘بے شک یہ مال اللہ کا ہے اور تم اسکے بندے ہو۔ اور اس مال میں سے دور دراز مقام والے چرواہے کا حصہ بھی اسے پہنچنا چاہیے در آنحالیکہ وہ اپنی بکرياں چرا رہا ہو۔ اور جس نے خيانت کی وہ آگ میں دھکیلا جائے گا۔’’
ذرائع معیشت کی تلاش اور بروئے کار لانے کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردہ اور غیر آباد زمینوں پر ان کے آباد کرنے والے کو حق ملکیت عطا فرمايا۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
من أحيا أرضاً ميتةً فهي له.
1۔ أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارۃ والفيئ، باب في أخذ الجزية، 3 : 178، رقم : 3073
2۔ مالک، الموطأ، 2 : 743، رقم : 1424
3۔ نسائي، السنن الکبری، 3 : 405، رقم : 5761
4۔ أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 338، رقم : 14677
‘‘جس نے کسی مردہ زمین کو آباد کيا، وہ اسی کی ملکیت ہوگی۔’’
اس سے مراد یہ ہے کہ دراصل اس زمین کے اندر خوابيدہ صلاحیت تو تھی ليکن اس نے ابھی تک حقیقی صورت اختيار نہ کی تھی۔ اب جس نے اسے زندہ کر کے قابل کاشت بنا ديا، یعنی اس کی مخفی صلاحیت کو حقیقی صورت دے کر فعال کر ديا وہی اس کا مالک متصور ہو گا۔ گويا نفع اٹھانا اور دوسروں کو نفع اٹھانے دينا ہی حق ملکیت کے جواز کی بنياد ہے اور اگر کوئی شخص خود تو اس سے نفع اٹھائے ليکن خلقِ خدا کو نفع حاصل نہ کرنے دے تو اس نے ملکیت کے مقصد کو فوت کر ديا اور اس نے اپنے حق ملکیت کی بنياد کی اپنے عمل سے نفی کر دی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved