میثاق مدینہ نہ صرف دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفس مضمون اور مافیہ کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری و آئینی خصوصیات کا مرقع ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاق مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں، میثاق مدینہ میں موجود نظر آتی ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ
(Sovereignty of Almighty Allah)
2۔ رسول اللہ کی حاکمیت
(State Authority of the Holy Prophet)
3۔ تحریری دستور
(Written Constitution)
4۔ مستقل آئینی اساس
(Permanent Constitutional Foundation)
5۔ تقسیم اختیارات کا تصور
(Devolution of Powers)
6۔ متوازن دستور
(Balanced Constitution)
7۔ مملکت کی اخلاقی اساس
(Moral Foundation of State)
8۔ آئینی طبقات کا تصور
(Concept of Constitutional Communities)
9۔ سیاسی وحدت کا تصور (تصور مملکت)
(Concept of Political Unity)
10۔ امت مسلمہ کا تصور
(Concept of Muslim Ummah)
11۔ قانون کی حکمرانی اور نظام کی بالا دستی
(Rule of Law)
12۔ مقامی رسوم و قوانین کا احترام
(Respect of Local Customs & Law)
13۔ معاشی کفالت کا تصور
(Concept of Economic Support)
14۔ دفاعی معاہدہ
(Defence Pact)
15۔ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت
(Guarantee of Fundamental Human Rights)
16۔ مذہبی آزادی کا تحفظ
(Protection of Religious Freedom)
17۔ اقلیتوں کا تحفظ
(Protection of Minorities)
18۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ
(Protection of Women's Rights)
19۔ مخالفین کی سازشوں کا تدارک
(Eradication of Opponents' Conspiracies)
20۔ مدینہ کا دارالامن قرار دیا جانا۔
(Madina was Declared Sanctuary)
ریاست مدینہ کا پہلا دستور اس لحاظ سے تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ باوجودیکہ اس ریاست میں مختلف مذہبی اور نسلی قومیتیں آباد تھیں جن کے وجود کو آئینی طور پر اس دستور میں تسلیم بھی کیا گیا، یہ امر اصولی طور پرطے کر دیا گیا کہ ریاستی معاملات اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کے تحت ہی چلائے جائیں گے۔ حاکمیت اعلی کو کسی دنیاوی شخصیت یا ادارے کی بجائے اللہ تعالی سے متعلق کر دینا ہی وہ بنیادی خشت اول تھی جس نے اسلامی ریاست کو ایک غیر اسلامی ریاست سے ممتاز کر دیا۔ میثاق مدینہ میں یہ قرار دیا گیا کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی ہی کے لئے ہے اور ہر انفرادی اور اجتماعی و ریاستی معاملے میں اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
و انکم مما اختلفتم فيه من شيء فان مرده الي الله و الي محمد
(آرٹيکل : 28)
اوریہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہوتو اسے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)
و انه ما کان بين اهل هذه الصحيفة من حدث او اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله و الي محمد رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم و ان الله علي اتقي ما في هذه الصحيفة و ابره
(آرٹیکل : 52)
اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو بھی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ڈر ہو اس میں خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
جبکہ مغربی تصور ریاست میں حاکمیت اعلی کا تعلق ریاست کے نمائندہ مقتدر ادارے کے ساتھ ہے مثلاً برطانیہ کے قانون کے مطابق :
"The law assumes that Parliament is omnipotent and paramount. It can make or unmake laws on any matter what-so-ever."
(Finer, S.E., Five Constitutions)
اسی طرح ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دستور کی آرٹیکل I میں قرار دیا گیا :
"All legislative powers herein granted shall be vested in a Congress of the United States, which shall consist of a Senate and House of Representatives."
یعنی حاکمیت اعلی کے تعین نے اسلامی اور غیر اسلامی ریاست کے مزاج، تشکیل اور اس کے نظام کار کی ہیت میں واضح امتیاز پیدا کر دیا کیونکہ حاکمیت اعلی رب ذوالجلال کے لئے ہی قرار دینے میں انسانیت کی فلاح کا راز مضمر ہے اور حاکمیت اعلی کا مقصود اسی طور حاصل ہو سکتا ہے :
"Sovereignty is not an end itself; it is a means to government just as government is not an end but a means to the good life."
(Levontin, The Myth of International Security)
یعنی ایک مثالی فلاحی معاشرے کا قیام تب ہی ممکن ہے جب اس کی اساس الوہی قانون ہو جو نہ صرف اپنی جامعیت کے حوالے سے جملہ شعبہ ھائے حیات کو محیط ہو گا بلکہ اس کی اطاعت بھی دنیاوی قوانین کے مقابلے میں بتمام و کمال کی جائے گی، حاکمیت اعلی اس تصور کو دستور میں شامل کر کے درج ذیل مقاصد کے حصول کو ممکن بنا دیا گیا :
اس طرح کا معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا تھا جب تمام افراد معاشرہ اپنے ہر نوعیت کے رشتہ و قرابت (Near & Dear) کو خاطر میں لائے بغیر دستور و قانون کی پابندی کرتے اور یہ پابندی اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس لئے اس حاکمیت اعلی کو تسلیم کرنے کے عملی اظہار کے لئے دستور میں یہ شق رکھی گئی :
و ان المومنين المتقين ايديهم علي کل من بغي منهم او ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا او فسادا بين المومنين و ان ايديهم عليه جميعا ولو کان ولد احدهم
(آرٹیکل : 16)
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چا ہے اور ان کے ساتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالی کے حاکمیت اعلی کے تصور کو معناً و عملاً دستور کا جزو لاینفک بنانے کے لئے دستور کے آخر میں آرٹیکل : 60 میں اس حقیقت کو بیان کر دیا گیا کہ اس دستور کو اللہ تعالی کی منظوری (Approval) اور حمایت (Favour) حاصل ہے :
و ان الله علی اصدق ما فی هذه الصحيفة و ابره
اور جو کچھ اس دستور میں شامل ہے اسے اللہ تعالی کی منظوری اور حمایت حاصل ہے۔
اس آرٹیکل کی رو سے :
چونکہ میثاق مدینہ میں یہ امر اصولی طور پر طے کر دیا گیا کہ ریاستی معاملات اللہ کی حاکمیت کے تحت ہی چلائے جائیں گے۔ لہذا اس آئینی اصول کو عملی شکل دینے کیلئے تمام ریاستی اختیارات (State Authority) کا مرکز و محور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس دور تک ریاستی اداروں (State Organs) کی باقاعدہ تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی، بایں ہمہ تمام شعبہ ہائے ریاست کے امور کی انجام دہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور رہنمائی کا پابند ٹھہرایا گیا اور یہ اصول بیان کردیا گیا کہ جہاں کہیں بھی کوئی اختلاف، تضاد یا الجھاو پیدا ہوگا تو اس کے حل کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی رجوع کیا جائے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اس عالم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے نمائندہ اور اس کے احکامات بندوں تک پہنچانے والے ہیں۔ دستور کے آرٹیکل 28 میں قرار دیا گیا ہے کہ : ۔
وانکم مما اختلفتهم فيه من شئ فان مرده الی الله والی محمد
اور یہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو تو اسے طے کرنے کے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔ ( کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)
اسی طرح آرٹیکل 52 میں کہا گیا : ۔
وانه ما کان بين اهل هذه الصحيفة من حدث او اشتجار يخاف فساده فان مدده الي الله والي محمد رسول الله و ان الله علياتقي ما في هذه الصحيفة و ابره.
اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو کوئی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ڈر ہو تو اس میں اللہ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔ اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے گا۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں کفر اور شرک کا دور دورہ ہو اللہ کی حاکمیت کو دستوری طور پر رائج کردینا اور اس معاشرے میں موجود مختلف طبقات سے اسے تسلیم کروا لینا بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدیم المثال سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے۔ جملہ ریاستی معاملات میں اللہ کی طرف رجوع کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا ہے یعنی اللہ کی حاکمیت کا کوئی بھی تصور رسول اللہ کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے اس بنیادی آئینی اور دستوری اصول کو میثاق مدینہ کے پہلے آرٹیکل میں طے کر دیا گیا : ۔
هذا کتاب من محمد النبی (رسول الله) صلی الله عليه وآله وسلم
یہ اللہ کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری تحریر ہے۔
دستور کا منبع ذات نبوت کو قرار دے کر اس امر کو بھی طے کردیا گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں ذات نبوت کی دستوری حیثیت کیا ہوگی۔ گویا اسلامی ریاست کے پہلے دستور میں : ۔
دنیا کی سیاسی اور آئینی و دستور ی تاریخ میں یہ امتیاز صرف میثاق مدینہ کو حاصل ہے کہ ریاست مدینہ کا دستور ہونے کے ناطے یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے۔ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں سیاسی قواعد و ضوابط اور حکمرانی کے اصولوں کے حوالے سے کئی افکار و قوانین کو تحریری شکل میں لکھا گیا۔ مثلا منوسمرتی (500 ق م) جو راجہ کے فرائض پر مشتمل ہے کوتلیا کی آرتھ شاستر (300 ق م) اور اس کے ہم عصر ارسطو (384۔ 322 ق م) کی تحریروں کو سیاسیات پر مشتمل تصانیف گردانا جاتا ہے اسی طرح گزشتہ صدی میں شہر اینتھنز کا دریافت ہونے والا دستور ہے مگر ان تمام تحریروں کی حیثیت حکمرانی کے لئے نصیحتی و مشاورتی یا درسی نوعیت کی ہے اور ان میں سے کوئی بھی تحریر ایسی نہیں ہے جسے کسی باقاعدہ اور منظم ریاست کا قابل نفاذ دستور کہا جاسکے۔
میثاق مدینہ کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ تحریری دستور کا تصور دیا بلکہ وہ مذہب جس کی تبلیغ آپ مکہ میں فرما رہے تھے۔ مدینہ آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی سیاسی حیثیت کو اس نئے شہر کے مختلف المذاہب باسیوں سے منوا لیا۔ اس دستور کے ذریعے سے : ۔
دستور مدینہ کو تحریری طور پر تشکیل دینے کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی بصیرت اس بات سے ہویدا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نینہ صرف اس دستور کو خود تحریر کروایا بلکہ اسے ’’ھذا کتاب من محمد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،، قرار دیا۔ کتاب جہاں ایک طرف لکھے ہوئے مسودہ کی طرف اشارہ ہے وہاں اس امر کی وضاحت بھی ہے کہ یہ ایک مقتدر اعلی شخصیت کی طرف سے نافذ العمل قانون ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں آپ نے اپنے ذاتی اقوال و فرامین لکھنے سے کم از کم نو عمر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع فرمایا ہوا تھا۔
میثاق مدینہ صرف ریاست مدینہ ہی کا آئین نہیں ہے بلکہ یہ دستاویز اسلامی ریاست کیلئے بنیادی اور مستقل آئینی اساس کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ وہ تمام بنیادی اصول جو اس دستاویز میں طے کئے گئے وہ اسلام کی تعلیمات کے ارتقاء کے باوجود موجود رہے اور مزید ترقی پذیر روایت کی شکل اختیار کرتے رہے مثلاً اللہ تعالی کی حاکمیت کو اس دستور کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا جسے قرآن حکیم نے قانونی شکل میں یوں بیان کیا :
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الکفرون
(5 : 44)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کفر کرنے والے ہیں۔
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الظلمون
(5 : 45)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الفسقون
(5 : 47)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ فاسق (گنہگار) ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دستور میں مقتدر اعلی اور مطاع مشہود قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام کو قرآن حکیم نے ایک مستقل اور ابدی قانون کی شکل میں یوں بیان کیا :
وما اتاکم الرسول فخذوه وما نهکم عنه فانتهوا
(59 : 7)
اور جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔
من يطع الرسول فقد اطاع الله
(4 : 80)
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔
يايها الذين امنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منکم فان تنازعتم في شيء فردوه الي الله و الرسول ان کنتم تومنون بالله واليوم الاخر ذلک خير و احسن تاويلا
(4 : 59)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہل حق) صاحبان امر کی۔ پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہمی اختلاف کا شکار ہو جاؤ تو اسے (حتمی فیصلہ کیلئے) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔ اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔
اسی طرح بنیادی انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، اقلیتوں کے تحفظ، خواتین کے حقوق کا تحفظ، معاشی کفالت کا تصور اور دیگر بنیادی اصول جو میثاق مدینہ میں طے کئے گئے آنے والے نظام قانون و سیاست میں ایک اساس کے طور پر قائم رہے جو مسلم امہ کی قابل فخر دستوری و آئینی روایت (Constitutional Tradition) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میثاق مدینہ کے تحت وجود میں آنے والی ریاست مدینہ میں مہاجرین، انصار اور مدینہ کے غیر مسلموں اور ان کے متبعین پر مشتمل کئی ریاستی اکائیاں شامل تھیں ان کے باہمی اشتراک سے وجود میں آنے والی ریاست میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت جہاں مختلف مملکتی طبقات کو آئینی طور پر Define کیا گیا، ان کے باہمی حقوق و فرائض اور آئینی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا وہاں اس امر کا لحاظ بھی رکھا گیا کہ آئینی قواعد و ضوابط کی پابندی ہر سطح پر یقینی ہو اور ہر سطح پر معاملات کو آئینی طور پر چلایا جا سکے اس کے لئے میثاق مدینہ میں تقسیم اختیارات کا تصور رکھا گیا تاکہ مقامی سطح پر نظم و ضبط کے قیام کے لئے انتظامی اختیارات تفویض کئے جائیں :
المهاجرون من قريش علی ربعتهم يتعاقلون علي ربعتهم يتعاقلون بينهم معاقلهم الاولي وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المومنين
(آرٹیکل : 4)
قریش میں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
اس آرٹیکل میں مقامی سطح پر ذمہ داری اور اختیارات کی تفویض کی حکمت بھی بیان کر دی گئی کہ اس کا مقصود ہر سطح پر پابندی قانون اور انصاف کا قیام ہے۔ اسی طرح آرٹیکل : 5 سے آرٹیکل : 12 تک میں بنو عوف، بنو حارث، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو، بنو نبیت اور بنو اوس کے لئے بھی ان کے قبائلی قوانین دیات کی توثیق کو بیان کیا گیا۔
ریاست مدینہ کے دفاع کے لئے بھی مختلف طبقات ریاست کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ :
علی کل اناس حصتهم من جانبهم الذی قبلهم
(آرٹیکل : 57 )
ہر گروہ کے حصے میں اسی رخ کی مدافعت آئے گی جو اس کے مقابل ہو۔
مقامی سطح پر تقسیم اختیارات کے ان آئینی اہتمامات (Constitutional Provisions) کے باوجود اس تقسیم اختیارات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاستی حکمرانی (State Authority) کے ماتحت رکھا گیا :
و انکم مما اختلفتم فيه من شیء فان مرده الی الله و الی محمد
(آرٹیکل : 28)
اوریہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہوتو اسے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)
اسلام ایک فطری اور وسعت پذیر دین ہے جو اپنی عالمگیر یت کے سبب ہر صاحب عقل سلیم کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دستور کوتحریر کرواتے وقت اسلام کی انہی خصوصیات کو میثاق مدینہ کی بنیاد بنایا۔ اور آنے والے دور کے نئے امکانات کو نظر انداز نہ کیا۔ حد سے زیادہ جامد یا غیر لچکدار کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے متوازن رکھا اور اسے وسعت پذیری کی خصوصیات سے مملو کرتے ہوئے مزید طبقات کی شمولیت کی گنجائش اور امکان کو دستور میں شامل کیا گیا، آرٹیکل نمبر 2 میں لکھا گیا: ۔
بين المومنين والمسلمين من قريش و (اهل) يثرب ومن تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم.
یہ معاہدہ قریش میں سے مسلمانوں اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
اس آرٹیکل کے مطابق اس امر کو طے کردیا گیا کہ اگرچہ اساسی طور پر تو میثاق مدینہ قریش اور مدنی مسلمانوں کے درمیان طے پا رہا ہے مگر اس کے مطابق مستقبل میں کسی بھی دوسرے طبقے کی دستور ہذا کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اس معاہدے میں شمولیت پر کوئی پابندی نہیں۔ بلکہ ہر وہ طبقہ جو مستقبل میں ان مذکورہ لوگوں کی اتباع اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لینا قبول کرلیں وہ بھی اس دستور کے تحت طے پانے والے معاہدہ عمرانی کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اس طرح دستور ہذا کے آرٹیکل نمبر 20 میں درج کیا گیا: ۔
و انه من تبعنا من يهود فان له النصر والاسوة و غير مظلومين ولامتناصر عليهم
اور یہ کہ یہودیوں میں سے جو ہماری اتباع کرے گا تو اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مدد دی جائے گی۔
چونکہ یہودی مدینہ میں آباد ایک موثر سیاسی گروہ تھے۔ لہذا ان سے مستقبل میں کسی بھی طرح کے سیاسی تعلق کار کو خارج از امکان نہیں قرا ر دیا گیا اور اس کے لئے دستوری گنجائش (Constitutional Provision) رکھی گئی کہ اگر مستقبل میں یہودی میثاق مدینہ میں طے کئے گئے دستوری لائحہ عمل کی پابندی اور اہل ایمان کی اتباع کی راہ اختیار کریں تو انہیں بھی مدد، مساوات حاصل ہوگی اور ظلم و تعدی سے تحفظ دیا جائے گا میثاق مدینہ کے اسی Constitutional Provision کی وجہ سے آنے والے زمانے میں یہودی بھی مسلمانوں کے ساتھ اس دستور میں شریک ہوگئے اور غزوہ بدر کے بعد جب مسلمانوں کا اقتدار مزید مستحکم ہوتا نظر آیا تو یہودی اس امر پر مجبور ہوگئے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میثاق مدینہ کے اندر رہتے ہوئے ماتحتانہ تعاون کریں کیونکہ اس سے ان کی مذہبی آزادی بھی محفوظ ہوسکتی تھی۔ اگر دستور کا مزاج غیر لچکدار (Rigid) رکھا گیا ہوتا اور دیگر طبقات کی اس وفاقی وحدت (Federal Unity) میں شمولیت کی گنجائش نہ رکھی گئی ہوتی تو شاید یہود غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں سے اشتراک عمل کی بجائے اپنی مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئے کسی دوسری راہ کا انتخاب کرتے۔ غزوہ بدر کے بعد یہود کی میثاق مدینہ میں شمولیت کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ابو داود نے اپنی کتاب سنن میں (سنن ابی داود کتاب الخراج باب کیف کان اخراج الیھود من المدینہ رقم : 3000) دستور ہذا کے حصہ دوم کو جنگ بدر کے بعد کا واقعہ قرار دیا ہے۔
میثاق مدینہ میں مختلف طبقات ریاست کے حقوق و فرائض، ریاست کے مختلف اداروں کے وظائف اور آئینی و دستوری نظم کے قیام کے لئے قواعد و قوانین ہی نہیں بیان کئے گئے بلکہ ان قواعد و قوانین پر عمل درآمد کے لئے اخلاقی و روحانی اساس بھی مہیا کی گئی۔ کیونکہ ایک مضبوط اخلاقی و روحانی اساس کے بغیر محض قوانین پر عمل درآمد کا تقاضا کما حقہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا بقول روسو:
’’ریاست کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہر شہری کا ایسامذہب ہو جس کی وجہ سے اسے ادائیگی فرض میں خوشی حاصل ہو مگر اس کے مذہبی عقائد نہ ریاست سے کوئی تعلق رکھتے ہوں نہ جماعت سے، سوائے اس کے کہ ان کا اثر اخلاق اور ان کے فرائض پر پڑے جو ’’حقوق العباد،، سے متعلق ہیں،،۔
(معاهده عمرانی از ژان ژاک روسو)
یعنی مغربی مفکرین نے بھی مذہب کے بارے میں جزوی نکتہ نظر کا حامل ہونے کے باوجود ایک مثالی ریاست کے لئے اس کی اخلاقی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
میثاق مدینہ میں ایک صالح، آئین و قانون کے پابند معاشرے کے قیام کے لئے اخلاقی و روحانی اساس فراہم کی گئی :
و ان البر دون الاثم لا يکسب کاسب الاعلی نفسه
(آرٹیکل : 59)
(ریاست مدینہ کے شہریوں سے) نیکی کی توقع کی جاتی ہے نہ کہ گناہ اور عہد شکنی کی اور یہ کہ جو کوئی جس طرح کا عمل کرے گا (نیکی یا برائی) اس کے اثرات اس کی ذات پر مرتب ہوں گے۔
و ان الله جار لمن بر و اتقی و محمد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم
(آرٹیکل : 63 )
اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نگہبان ہیں جو نیکی اور تقوی (اعلی کردار) کا حامل ہو۔
میثاق مدینہ میں ریاست کے آئینی طبقات کا تصور دیا گیا جو اس آئین و دستور کی اطاعت کے پابند ہوں گے۔ آرٹیکل نمبر 2 میں لکھا گیا : ۔
بين المومنين والمسلمين من قريش و (اهل) يثرب و من تبعهم فلحق بهم و جاهد معهم
یہ معاہدہ قریش میں سے مسلمانوں اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
اس طرح اس آرٹیکل کے تحت ریاست مدینہ کے درج ذیل آئینی طبقات قرار پائے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئینی طبقات کی تخصیص و تشکیل کرتے وقت دستور میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو عام طبقات سے بالاتر رکھا گیا۔ اگر دستور کی آرٹیکل نمبر 1 اور 2 کو تقابلی انداز سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس نو تشکیل شدہ دستور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئینی حیثیت مطاع (Super-Ordinate) اور دیگر طبقات کی آئینی حیثیت مطیع (Sub-Ordinate) کی ہے۔ آئینی حیثیت کے تعین کایہی فرق امت مسلمہ کو آئین و دستور سازی کے حوالے سے رہنما اصول بھی عطا کرتا ہے۔
میثاق مدینہ میں دینی، مذہبی اور اعتقادی وحدت سے ماسوا سیاسی اور معاہداتی وحدت کا تصور بھی دیاگیا۔ یہ تصور سیاسی مفہوم کی ایک ایسی نئی توسیع تھا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مملکت کے اندر دینی اور مذہبی وحدت کے علاوہ موجود دیگر اکائیوں کو ایک جاندار ریاستی کردار عطا کرنے کیلئے ضروری تھا کہ انہیں بھی ایک ایسا باوقار سیاسی، ریاستی مقام دیا جاتا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ریاست کا ایک عضو فعال تصور کرتے ہوئے ایک ذمہ دار کردار ادا کرتے۔ اس لئے وہ تمام فریق جن کے درمیان میثاق مدینہ طے پایا اور ان کی اتباع میں مستقبل میں اس میثاق میں شریک ہونے والے فریقوں کو میثاق مدینہ کے آرٹیکل نمبر 3 کے تحت وحدت قرار دیا گیا۔
انهم امت واحدة ومن دون الناس
تمام دنیا کے لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی۔
اسی طرح میثاق مدینہ کی آرٹیکل نمبر30 میں قرار دیا گیا کہ
و ان يهود بني عوف امت مع المومنين لليهود دينم وللمسلمين دينهم مواليهم وانفسهم الا من ظلم و اثم فانه لا يوتغ الا نفسه و اهله بيته
اور نبی عوف کے یہودی مومنین کے ساتھ سیاسی وحدت تسلیم کیے جاتے ہیں یہودیوں کو ان کا دین اور مسلمانوں کو ان کا دین موالی ہوں یا اصل ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
میثاق مدینہ میں جہاں ایک طرف ریاست کی سیاسی وحدت کا تصور دیا گیا وہاں امت مسلمہ کا الگ سے تشخص اجاگر کر کے مستقبل میں پیدا ہونے والے اس مغالطے کا ازالہ بھی کردیا گیا کہ ریاست کے تمام فریقوں کے ایک سیاسی وحدت ہونے کے ناطے مسلم اور غیر مسلم ایک ہی آئینی مرتبے (Constitutional Status) کے حامل ہیں بلکہ میثاق مدینہ کی متعدد دفعات میں امت مسلمہ کا فائق اور ریاست کے دیگر آئینی طبقات سے ممتاز مقام واضح کیا گیا۔ امت مسلمہ کے الگ وحدت کے تصور کو دفعہ نمبر 19 میں یوں بیان کیا گیا۔
و ان المومنين بعضهم موالي بعض دون الناس
اور ایمان والے باہم بھائی بھائی ہیں ساری دنیا کے لوگوں کے مقابل
ریاستی معاملات میں امت مسلمہ کے کردار کا تعین آرٹیکل نمبر21 میں یوں کیا گیا : ۔
و ان سلم المومنين واحدة لا يسالم مومن دون مومن في قتال في سبيل الله الا علي سواء وعدل بينهم
اور ایمان والوں کی صلح ایک ہی ہوگی اللہ کی راہ میں لڑائی ہوگی تو کوئی ایمان والا دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جبکہ یہ صلح ان کیلئے برابر و یکساں نہ ہو۔
آرٹیکل نمبر 23میں بیان کیا گیا :
و ان المومنين يبيئ بعضهم عن بعض بمانال دماؤهم في سبيل الله
اور ایمان والے باہم اس چیز کا انتقام لیں گے جو خدائی راہ میں ان کو پہنچے۔
اس طرح ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ کے تحت آئینی و دستوری پابندی کو امت مسلمہ کا خاصہ قرار دیا گیا۔
آرٹیکل نمبر 24 کے مطابق
و ان المومنين المتقين علی احسن هدی واقوامه
اور بے شک متقی ایمان والے سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پر ہیں۔
آرٹیکل نمبر 27 میں قرا ر دیا گیا : ۔
و انه لا يحل مومن اقربما في هذه الصحيفة وامن بالله واليوم الاخر ان ينصر محدثا او يوويه و ان من نصره او آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيمة ولا يوخذ منه صرف ولا عدل
اور کسی ایسے ایمان والے کے لئے جو اس دستور العمل کے مندرجات کی تعمیل کا اظہار کرچکا اور خداو یوم آخرت پر ایمان لاچکا ہو یہ بات جائز نہ ہوگی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے اور جو اسے مدد یا پناہ دے اس پر قیامت میں خدا کی لعنت اور غضب نازل ہونگے اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہ ہوگا۔
اسی طرح خون مسلم کی حرمت کے تصور کو اس دستور میں اجاگر کیا گیا آرٹیکل نمبر 26 میں قرار دیا گیا۔
و انه من اعتبط مومنا قتلا عن بينة فانه قود به الا ان يرضي ولي المقتول بالعقل و ان المومنين عليه کافة ولا يحل لهم الاقيام عليه
اور جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کرے اور ثبوت پیش ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ بجز اس کے کہ مقتول کا ولی خون بہا پر راضی ہوجائے اور تمام ایمان والے اس کی تعمیل کیلئے اٹھیں اور اس کی تعمیل کے سوا انہیں کوئی چیز جائز نہ ہوگی۔
اس دستور کے تحت قانون کی حکمرانی کو لازمی قرا ردیا گیا اور کئی دفعات کے تحت ایسے اقدامات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ نو تشکیل شدہ ریاست مدینہ کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاسکے جہاں کوئی بھی ریاستی فریق قانون کی حکمرانی سے بغاوت نہ کرسکے۔
آرٹیکلنمبر 17 کے مطابق :
ولا يقتل مومن مومنا فی کافر ولا ينصر کافرا علی مومن
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کر ے گا۔
اسی طرح اہل ایمان کے درمیان بھی مختلف معاملات اور امور کے ضمن میں قانون، اصول اور ضابطے کی پاسداری کو لازمی قرار دیا گیا۔ آرٹیکل نمبر 15 کے مطابق :
و ان لا يحالف مومن مولی مومن دونه
اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولی (معاہداتی بھائی) سے خود معاہدہ برداری پیدا نہیں کرے گا
اسی طرح اس دستور میں قانون پر عمل درآمد میں حائل تمام تر ممانعات کا تدارک کیا گیا تاکہ ریاست کے اندر ہر شخص کو جان مال اور آبرو کا تحفظ میسر آسکے آرٹیکل نمبر 42 کے مطابق : ۔
وانه لا ينحجز علی ثار جرح
اور کسی مار، زخم کا بدلا لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی
آرٹیکل نمبر 43 کے مطابق : ۔
و انه من فتک بنفسه فتک و اهل بيته الامن ظلم و ان الله علي ابرهذا
جو خون ریزی کرے تو اس کی ذات اور اس کا گھرانہ ذمہ دار ہوگا ورنہ ظلم ہوگا۔ اور خدا اس کے ساتھ ہے جو اس دستور العمل کی زیادہ سے زیادہ وفا شعارانہ تعمیل کرے۔
میثاق مدینہ کی شکل میں اگرچہ ریاست مدینہ کو قومی زندگی کا ایک نیا ضابطہ دیا گیا تاکہ قومی سطح پر نظم و نسق پیدا کیا جاسکے مگر آئین و قانون کی تشکیل نو کے اس مرحلے پر اس حکمت کو نظر انداز نہیں کیا گیا کہ صدیوں سے رائج رسوم و رواج سے عوام الناس کو یک لخت علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا ایک نیا دستور متعارف کراتے ہوئے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کے مختلف فریقوں کے پہلے سے مروجہ مقامی قوانین کو نظر انداز نہیں فرمایا بلکہ حتی الامکان حد تک انہیں ریاستی دستور کے اندر Accommodate کیا گیا۔
دستور کے آرٹیکل 4 سے 12 تک جب مختلف آئینی طبقات کے لئے قانون دیت کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ قرار دیا گیا کہ مہاجرین، قریش، بنی عوف، بنی حارث، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو، بنو نبیت اور بنو اوس خون بہا کی ادائیگی کے لئے اپنے اپنے قبائلی قوانین کی پابندی کریں گے۔
اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے جس کے شہریوں کو نہ صرف جان و مال کا تحفظ حاصل ہوتا ہے بلکہ افراد معاشرہ کو بنیادی لوازمات حیات کی فراہمی کیلئے بھی ریاست ممکنہ اقدامات بروئے کار لاتی ہے۔ معاشی کفالت کے اس تصور کو میثاق مدینہ کا جزو بھی بنایا گیا۔ آرٹیکل نمبر 14 میں یہ قرار دیا گیا کہ
’’اور ایمان والے کسی قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے کو مدد کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے جن کے ذمہ زر فدیہ یا دیت ہے،،
آرٹیکل نمبر 13 میں ہر ریاستی طبقہ کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنے گروہ کے قیدیوں کا زر فدیہ ادا کرے۔
وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المومنين
ہر گروہ اپنے قیدیوں کا زر فدیہ ادا کر کے (اسے رہائی دلائے گا) اور اس ضمن میں مسلمانوں کے درمیان قانون انصاف کے بلا امتیاز اطلاق کو یقینی بنائے گا،،
میثاق مدینہ نہ صرف ایک سیاسی دستور کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ ریاست مدینہ کے شہریوں کیلئے ایک دفاعی معاہدہ بھی تھا۔ جس کے اندر نہ صرف ریاست مدینہ کے دفاع کیلئے ضروری امور کو طے کرلیا گیا بلکہ اس بنیادی ضابطے کو بھی طے کر دیا گیا کہ جس طرح دستوری، قانونی، انتظامی اور عدالتی اختیارات کا منبع اور سرچشمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے اسی طرح ریاست کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت (Commander in Chief) بھی آپ ہی کی ذات ہوگی۔ آرٹیکل نمبر41 کے مطابق : ۔
وانه لا يخرج منهم احد الا باذن محمد
اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر فوجی کارروائی کیلئے نہیں نکلے گا،،
ریاست کی اعلی ترین فوجی قیادت کے تعین کے بعد ان امور کو میثاق مدینہ میں بیان کیا گیا : ۔
1۔ جنگی اتحادیوں کیلئے امداد باہمی پر مبنی قانون متعارف کروایا گیا۔
و ان کل غازيه غزت معنا يعقب بعضها بعضا
(آرٹیکل 22)
اور ان تمام اتحادیوں کو جو ہمارے ہمراہ جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت چھٹی دلائی جائے گی۔
2۔ یہودی مسلمانوں کے جنگی اتحادی ہونے کے ناطے مسلمانوں کے ساتھ جنگی اخراجات بھی برداشت کریں گے۔
و ان اليهود ينفقون مع المومنين ما داموا محاربين
(آرٹیکل 29)
اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہیں گے۔
3۔ جہاں ضرور ی ہو وہاں یہود اور مسلمان اپنے اپنے جنگ کے اخراجات جداگانہ برداشت کریں گے۔
و ان علی اليهود نفقتهم و علی المسلمين نفقتهم
(آرٹیکل44)
اور یہودیوں پر ان کے خرچ کا بار ہوگا اور مسلمان پر ان کے خرچ کا
4۔ اس دستور میں شریک تمام فریقین پر باہم ایک دوسرے کا دفاع لازم ہوگا۔
و ان بينهم النصر علی من حارب اهل هذه الصحيفه
(آرٹیکل 45)
اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے تو ان (یہودی اور مسلمانوں) میں باہم امداد عمل میں آئے گی
5۔ بیرونی حملہ کی صورت میں ریاست مدینہ کا دفاع سب کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی
و ان بينهم النصر علی من دهم يثرب
(آرٹیکل54)
کسی بیرونی حملہ کی صورت میں ریاست مدینہ کا دفاع یہودی و مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
6۔ ہر فریق ریاست کی طرف سے طے پانے والے معاہدہ امن کی لازمی پابندی کرے گا۔
واذا دعوا الی صلح يصالحونه ويلبسونه فانهم يصالحونه ويلبسونه و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المومنين
(آرٹیکل 55)
اور اگر ان کو کسی صلح میں مدعو کیا جائے تو وہ بھی صلح کریں گے اور اس میں شریک رہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے ہی امر کی طرف بلائیں تو مومنین کا بھی فریضہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔
7۔ میثاق مدینہ دفاعی معاہدہ ہونے کے ناطے ایک سیاسی اور ریاستی دفاعی معاہدہ ہوگا نہ کہ دینی و مذہبی دفاعی معاہدہ یعنی ریاست مدینہ یا اس کے کسی بھی فریق کا طے کردہ کوئی بھی دفاعی معاہدہ امت مسلمہ کی حفاظت دین کی ذمہ داری کو معطل نہیں کرسکتا۔
(فانه لهم علی المومنين) الا من حارب فی الدين
(آرٹیکل 56)
اسی طرح مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر انہیں کسی امن معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اس کی پابندی کریں گے بجز اس کے کہ کوئی دینی جنگ کرے۔
میثاق مدینہ میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ اس امر کا لحاظ رکھا گیا کہ ریاست کے شہریوں کا حق زندگی، حق ملکیت اور جمہوری آزادی کسی طور پر بھی متاثر نہیں ہو گی یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جدید مہذب دنیا نے اس حوالے سے بہت بعد میں ارتقائی منازل طے کیں۔ 26 جون 1945ء کو اقوام متحدہ کا چارٹر منظور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے آرٹیکل 1 (3) میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا تذکرہ کیا گیا :
"Article 1 :
The Purposes of the United Nations are :
3. To achieve international co-operation in solving international problems of an economic, social, cultural, or humanitarian charachter, and in promoting and encouraging respect for human rights and for fundamental freedoms for all without distinction as to race, sex, language, or religion; ........"
(Phyllis Bennis, Calling the Shots)
’’اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد یہ ہیں کہ :
3۔ عالمی سطح پر اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانی (حقوق ) کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کا حصول تاکہ انسانی حقوق کا فروغ و حوصلہ افزائی اور بغیر نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تمیز کے بنیادی آزادیوں کی فراہمی ممکن ہوسکے،،
اسی طرح اس چارٹر کے آرٹیکل 55میں بنیادی حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا :
"Article 55 :
With a view to the creation of conditions of stability and well-being which are necessary for peaceful and friendly relations among nations based on respect for the principle of equal rights and self-determination of peoples, the United Nations shall promote :
a. higher standars of living full employment, and conditions of economic and social progress and development;
b. solutions of international economic, social, health, and related problems; and international cultural and educational co-operation; and
c. universal respect for, and observance of, human rights and fundamental freedoms for all without distinction as to race, sex, language, or religion."
(Phyllis Bennis, Calling the Shots)
’’عالمی سطح پر اقوام عالم کے مابین برابر حقوق اور عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر امن اور دوستانہ تعلقات کے قیام کے لئے اولین ضرورت یعنی استحکام اور بہبود کے حصول کے لئے اقوام متحدہ بایں طور کوشاں رہے گی کہ :
اقوام متحدہ کا ’’عالمی منشور حقوق انسانی،، 10 دسمبر 1948ء کو منظور کیا گیا اگرچہ یہ ایک اعلان تھا نہ کہ معاہدہ جس کی پابندی تمام اقوام عالم پر ضروری ہوتی پھر بھی اکثر ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اگر مغربی معاشرے میں بنیادی حقوق کی صورت حال اتنی حوصلہ افزاء نہیں۔ مغرب میں مدتوں عورت کو قانونی بنیادوں پر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا :
"That all law has been discriminatory against women is beyond dispute. One need only to recall that women were specifically denied the right to vote prior to the passage of the Nineteenth Amendment. Less well known, but very important, was the 1824 Mississippi Supreme Court decision upholding the right of husbands to beat their wives (the United States Supreme Court finally prohibited this practice in 1891). In another case....... the Supreme Court ruled that the "equal protection" clause of the Fourtheenth Amendment did not apply to women."
(D. Stanley Fitzen, In Conflict and Disorder)
’’یہ حقیقت کہ (مغرب میں) خواتین کے قوانین امتیازی رہے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ حتی کہ یہاں (امریکہ میں) انیسویں ترمیم کے منظور ہونے سے قبل عورتوں کو حق رائے دہی بھی حاصل نہ تھا۔ اگرچہ یہ بات اتنے زیادہ لوگوں کو معلوم نہیں مگر (اس روایت کی وضاحت کے لئے) اہم ضرور ہے کہ 1824 میں سپریم کورٹ نے مردوں کا یہ حق قرار دیا تھا کہ وہ عورتوں کو زد و کوب کرتے رہیں۔ اگرچہ اسے امریکی عدالت عالیہ نے 1891ء میں غیر قانونی قرار دے دیا۔ عورتوں کے لئے امتیاز ی سلوک کی ایک اور مثال مقدمے میں امریکی عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ ہے کہ چودھویں آئینی ترمیم کے ’’مساوی حقوق،، کے حصے کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا یعنی انہیں معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق نہیں دیے جاسکتے۔،،
مغرب میں بنیادی حقوق کے حوالے سے عورتوں سے یہ سلوک آج بھی جاری ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکی دستور ساز ایوان میں جون 1982ء میں مسترد ہونے والی وہ ترمیم ہے جس کا تعلق عورتوں کو برابر حقوق دینے سے تھا۔ اس کے متن میں درج تھا کہ
"Equality of rights under the law shall not be denied or abridged by the United States or by any State on account of Sex."
(D. Stanley Fitzen, In Conflict and Disorder)
’’یعنی قانون کے تحت ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا اس کی کوئی بھی ریاست جنس کی بنیاد پر مساوی حقوق کی ضمانت کی نفی نہیں کرے گی۔،،
مگر ریاست مدینہ کے آئین میں رنگ و نسل اور جنس کے امتیاز کے بغیر بنیادی انسانی حقوق کی واضح اور یقینی طور پر ضمانت دی گئی۔
و ان المومنين المتقين ايديهم علي کل من بغي منهم او ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا او فسادا بين المومنين و ان ايديهم عليه جميعا ولو کان ولد احدهم
(آرٹیکل : 16)
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے اور ان کے ساتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح جان و مال اور آبرو کے تحفظ میں بھی ریاستی شہریوں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔
و ان الجار کالنفس غير مضار ولا اثم
(آرٹیکل : 50)
پناہ گزین سے وہی برتاؤ ہو گا جو اصل (پناہ دہندہ) کے ساتھ نہ اس کو ضرر پہنچایا جائے گا اور نہ خود وہ عہد شکنی کرے گا۔
میثاق مدینہ میں نہ صرف ریاست مدینہ کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اور اس کے لئے باقاعدہ قانون و آئینی اقدامات وضع کئے گئے بلکہ ریاست مدینہ میں آباد اقلیتوں کے لئے بھی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا۔ تاہم بطور ایک ذمہ دار شہری کے ریاست مدینہ میں آباد اقلیتوں سے اس پابندی کا اقرار لیا گیا کہ وہ آئین کی پابندی کریں گے اور کسی طور بھی آئین اور دستور کی خلاف ورزی یا معاشرہ میں فتنہ پروری و ظلم آفرینی کا باعث نہیں بنیں گے۔
و ان يهود بني عوف امة مع المومنين لليهود دينهم وللمسلمين دينهم مواليهم و انفسهم الامن ظلم و اثم فانه لا يوتغ الا نفسه و اهل بيته
اور بنی عوف کے یہودی، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لئے ان کا دین اور مسلمانوں کے لئے ان کا دین موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا عہدشکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
(آرٹیکل : 30)
مزید طے پایا کہ مذہبی آزادی کے اس تحفظ کو کسی ایک طبقہ کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ
میثاق مدینہ کے تحت آئینی طبقات کو بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ کے علاوہ ریاست کے دوسرے فریقوں کو نہ صرف ایک باوقار دستوری مرتبہ دیا گیا بلکہ اس سے بڑھ کر ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جانے کے ساتھ ساتھ مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت بھی دی گئی۔ آرٹیکل نمبر 30 میں قرار دیا گیا۔
’’اور بنی عوف کے یہودی مسلمانوںکے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لئے ان کا دین اور مسلمانوں کے لئے ان کا دین۔ موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔،،
اسی طرح آرٹیکل نمبر 31 سے آرٹیکل نمبر 40 تک یہ بیان کیا گیا کہ میثاق مدینہ میں شامل تمام یہودیوں بشمول بنی نجار، بنی حارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی اوس، بنی ثعلبہ، جفنہ، بنی شطیبہ اور ان کی موالی یہودیوں کو بھی وہ تمام حقوق حاصل ہونگے جو بنی عوف کو حاصل ہونگے تاہم اقلیتوں کو اتنی زیادہ واضح مذہبی آزادی فراہم کیے جانے پر ایک بنیادی شرط کا پابند بھی کیا گیا اور وہ شرط تھی دستور کی پابندی اور یہی شرط مسلمانوں کے لئے بھی یکساں تھی۔ آرٹیکل نمبر 38 میں قرار دیا گیا۔
و ان البر دون اثم
یہود سے وفا شعاری نہ کہ عہد شکنی کی توقع کی جاتی ہے
میثاق مدینہ میں جہاں مختلف طبقات ریاست کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی وہاں تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ خواتین کی عزت، حرمت اور سماجی مرتبے کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اور ا س امر کو طے کیا گیا کہ ریاست مدینہ کے اندر خواتین کے معاملات کے حوالے سے کسی بھی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی جو معروف معنوں میں خواتین کی عزت، حرمت اور وقار کے منافی ہو۔
و انه لا تجار حرمة الا باذن اهلها.
(آرٹیکل51)
اور کسی عورت کو اس کے خاندان (اہل خانہ) کی رضامندی سے ہی پناہ دی جائے گی۔
میثاق مدینہ کے تحت جہاں مسلمانان مدینہ کو ایک جامع دفاعی معاہدے کے تحت استحکام اور تمکن حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا وہاں اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ مسلمانوں کے وہ ازلی دشمن جن کی وجہ سے وہ ترک وطن پر مجبور ہوئے ان کی بیخ کنی کا موثر اہتمام کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی طور پر مسلمانوں کو اس خطرے کی شدت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ا۔ یہ طے پایا کہ نہ ہی تو قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ ہی قریش کے معاونین کے ساتھ کسی نوعیت کا کوئی معاملہ روا رکھا جائے گا۔ تاکہ اس سماجی مقاطعہ کے نتیجے میں قریش کی قوت فروغ پذیر نہ ہوسکے۔
و انه لا تجار قریش ولا من نصرها.
(آرٹیکل53)
اور قریش کو پناہ نہیں دی جائے گی اور نہ اس کو جو انہیں مدد دے۔
ب۔ یہ امر قرار پایا کہ مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اہل ایمان کسی معاملے میں اہل ایمان کے مقابل اہل کفر کے معاون ہونگے۔
ولا يقتل مومن مومنا فی کافر ولا ينصر کافرا علی مومن
(آرٹیکل17)
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔
میثاق مدینہ میں طے پانے والے دیگر امور کے علاوہ سیاسی اور دینی و مذہبی نقطہ نظر سے نمایاں ترین امر مدینہ میں رہنے والے مختلف النوع طبقات سے مدینہ کو دارالامن اور حرم تسلیم کروا لینا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب ہم اس دور میں مکہ مکرمہ کے حرم ہونے کے مقام و مرتبہ کو مستحضر رکھیں۔ بلا شبہ اہل مدینہ سے ریاست مدینہ کے قیام کے بعد مدینہ کو حرم تسلیم کروا لینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال سیاسی بصیرت اور معاملات پر کلی گرفت کا آئینہ دار ہے : ۔
و ان يثرب حرام جوفهالاهل هذه الصحيفه
(آرٹیکل49)
اور یثرب کا جوف (یعنی میدان جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے) اس دستور والوں کیلئے حرم (دار الامن ) ہوگا (یعنی یہاں آپس میں جنگ کرنا منع ہوگا)۔
مدینہ کو حرم قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اپنی حاکمیت مدینہ کے مختلف النوع طبقات سے منوالی بلکہ مدینہ میں آئے روز کی بے مقصد جنگ و جدال کے قلع قمع کا موثر اور مستقل اہتمام بھی کر دیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved