ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا۔ آپ رضی اﷲ عنھا صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو اس کی زیارت کرواتی تھیں۔
حضرت بردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أخرجت إلينا عائشة رضي اﷲ عنها کساء ملبدا و قالت : في هذا نزع روح النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2941
عسقلاني، تغليق التعليق، 3 :
468
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھانے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال اس مبارک کمبل میں ہوا تھا۔‘‘
یہ روایت حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے :
دخلت علی عائشة فأخرجت إلينا إزارا غليظا مما يصنع باليمن، و کساء من التي يسمونها الملبدة، قال : فأقسمت باﷲ، إن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قبض في هذين الثوبين.
مسلم، الصحيح، 3 : 1649، کتاب اللباس والزينه، رقم : 2080
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2941
ابوداؤد، السنن، 4 : 45، کتاب اللباس : رقم : 4036
ابن ماجه، السنن، 2 : 1176، کتاب اللباس، رقم : 3551
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 131، رقم : 25041
ابن حبان، الصحيح، 14 : 593، رقم : 6623 - 6624
ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 174، رقم : 24905
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 78، رقم : 34323
ابو يعلي، المسند، 7 : 407، رقم : 4432
ابو يعلي، المسند، 8 : 357، رقم : 4943
ابن راهويه، المسند، 3 : 750 - 751
ابو عوانه، المسند، 5 : 239، رقم : 8547 - 8548
ابن جعد، المسند، 1 : 452، رقم : 3084
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 170، رقم :
1460
’’میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس گیا انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور ایک چادر نکالی جس کو مُلَبَّدہ (پیوند لگی ہوئی) کہا جاتا ہے۔ پھر انہوں نے اﷲ کی قسم کھا کر کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی دو کپڑوں میں وصال فرمایا تھا۔‘‘
صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جنکی بناء پر امراء اور سلاطینِ وقت ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سر راہ اللہ کے ایک نیک بندے سے آپ کی ملاقات ہو گئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ اس کا آپ نے نفی میں جواب دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہتے اور اسی دوران کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضے میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لا دوا کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے۔ اگلے دن صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔
أمن تذکر جيران بذی سلم
مزجت دمعا جری من مقلة بدم
’’کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟‘‘
آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ جس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زد خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
خرپوتی، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3
تهانوی، نشر الطيب فی ذکر النبی الحبيب، 299 -
300
قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی تھی اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوئے لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
برکاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی جاری و ساری ہیں اور جس نے اس قصیدہ کو درمان طلبی کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا اللہ رب العزت نے اسے بامراد کیا۔ اس کی برکت سے بہت سوں کو فالج سے صحت یابی اور آشوب چشم کی شدت سے نجات ملی اس طرح بہت سے دیگر پریشان حال لوگوں کے دنیوی و دنیاوی امور آسان ہوئے۔
1۔ مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 :
256
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033،
3032
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ کپڑوں کو کفن بنایا
3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 :
454
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘
یعنی اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔
4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم :
4715
5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘
ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48
6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو
دفنه النبی صلی الله عليه وآله وسلم في قميصه.
عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 4 : 29، رقم : 4575
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘
ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی کہ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لباس زیب تن فرمایا، نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہ بھی عام کپڑا تھا مگر جسد اطہر کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے وہ مشرف و متبرک ہوگیا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کفن کے لئے کوئی ایسا کپڑا میسر آئے جس کی جسد اطہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہو۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ایسے با برکت کپڑے عنایت فرما کر خود اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ تبرکات صالحین سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نعلین پاک استعمال فرمائے وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان نعلین پاک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ ان بابرکت نعلین پاک کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اور ایک پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی نوش فرماتے تھے۔ نعلین پاک کے حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
أخرج إلينا أنس نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البُناني بعد عن أنس : أنهما نعلا النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2940
بخاري، الصحيح، 5 : 2200، کتاب اللباس، رقم : 5520
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 177، رقم : 6269 - 6270
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 312، رقم : 5520
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 83، باب في نعل رسول الله، رقم :
78
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک ہیں۔‘‘
2۔ ایک دفعہ حضرت عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے پوچھا کہ ’’میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فإنی رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يلبس النعل التي ليس فيها شعر و يتوضأ فيها فأنا أحب أن ألبسها.
بخاري، الصحيح، 1 : 73، کتاب الوضوء، رقم : 164
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 84، باب فی نعل رسول اﷲ، رقم : 79
بخاري، الصحيح، 5 : 2199، کتاب اللباس، رقم : 5513
مسلم، الصحيح، 2 : 844، کتاب الحج، رقم : 1187
ابوداؤد، السنن، 2 : 150، کتاب المناسک، رقم : 1772
ابن حبان، الصحيح، 9 : 79 : رقم : 3763
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 287، رقم : 1272
بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 37، رقم : 8762
شافعی، السنن المأثوره، 1 : 373، رقم : 503
مالک، المؤطا، 1 : 333، رقم : 733
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 66، 110، رقم : 5338، 5894
ابن عبدالبر، التمهيد، 21 : 74
زرقانی، شرح المؤطا، 2 : 331
مزی، تهذيب الکمال، 19 : 194، رقم :
3709
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں وضو فرماتے تھے لہٰذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
3۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔119)‘ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلین اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی بابت ابوبکر احمد بن امام ابو محمد عبداللہ بن حسین قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
و نعلٍ خضَعْنا هيبةً لِبَهائِها
و إنَّا متی نَخضَع لها أبدًا نعلو
فَضَعْها علي أعلَی المَفارِق إنها
حقيقَتُهَا تاجٌ و صورتُها نعلٌ
(ایسے جوتے کہ جن کی بلند و بالا عظمت کو ہم تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس عظمت کو تسلیم کر کے ہی ہم بلند ہوسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بلند ترین جگہ پر رکھو کیونکہ درحقیقت یہ (سَر کا) تاج ہیں اگرچہ دیکھنے میں جوتے ہیں۔)
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 470
جب امام فخانی نے پہلی مرتبہ نعلین پاک دیکھے تو بے ساختہ پکار اٹھے :
وَ لو قيل للمجنونِ لَيلیٰ و وَصْلُها
تُريدُ أمِ الدنيا و ما فی زوايها
لقال غُبارُ من ترابِ نِعالها
أحبُّ إلی نفسی و الشفاء لِی بَلائها
(اور اگر لیلیٰ کے مجنوں سے پوچھا جاتا کہ تو لیلیٰ سے ملاقات اور دنیا کے مال و زر میں سے کس چیز کو ترجیح دے گا؟ تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا : ’’اس کی جوتیوں سے اٹھنے والی خاک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اس کی مصیبتیں رفع کرنے کے لئے سب سے بہترین علاج ہے۔‘‘)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء متقدمین و متاخرین نے نعلینِ پاک کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں مثلاً :
’’نعل شریف کے برکات و فضائل مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ ’زاد السعید‘ کے آخر میں مفصل مذکور ہیں جس کو تفصیل جاننا مقصود ہو، اس میں دیکھ لے۔ مختصر یہ کہ اس کے خواص بے انتہا ہیں، علماء نے بارہا تجربے کئے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے، ظالموں سے نجات اور لوگوں میں ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے، غرض اس کے توسل سے ہر مقصد میں کامیابی ہوتی ہے، طریقِ توسل بھی اسی میں مذکور ہے۔‘‘
نقشِ نعلین پاک کی آزمائی ہوئی فوائد و برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو حصولِ برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیاطین کے شر اورہر حاسد کی نظرِ بد سے حفاظت میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدت دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقش پاک کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نظرِ بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے۔
نقشِ نعلین پاک کے حوالے سے امام ابن فہد مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا، جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
مصر کے ایک فاضل ادیب علامہ شرف الدین طنوبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقش نعلین پاک کے فوائد و برکات کا تذکرہ بڑے ہی محبت بھرے اندازکے ساتھ اپنے ان اشعار میں کیا ہے۔
يا عاشقاً نعل الحبيب وما رأی
تمثالها هنيت بالتمثال
’’اے عاشقِ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے نعل حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کا نقشِ پاک مبارک ہو۔‘‘
ضعه علی خديک ثم علی الحشا
و عليه و إلی الثمک المتول
’’(اے عاشق) اسے اپنے رخسار پر رکھ پھر اسے اپنے پہلو پر رکھ اور اسے اپنے چہرے اور (آنکھوں پر) لگا کر (اظہارِ محبت و عقیدت کر)‘‘
واعکف عليه عسی تفوز بيُمنه
فالسر قد يسری إلی الأشکال
’’نقشِ نعل پاک کے ساتھ تعلق کو پختہ کر یقینا اس کی برکت سے تجھے کامیابی حاصل ہو گی اور خوش ہو جا کہ اس کے ذریعہ تیری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔‘‘
واجعل جبينک فوقه متبرکا
تحوی الفخار و غاية الأمال
’’اپنی جبیں نیاز کو حصول برکت کے لئے نقش نعلین پاک پر جھکا دو، یہی تیرے لئے باعث افتخار ہے اور تمام امیدوں کا بر آنا اس میں پنہاں ہے۔‘‘
واذکر حبيبک إذ بدت آثاره
وکأنه بذل العلی بوصال
’’اپنے محبوب (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو یاد کر جب تو اُن کے آثار کو پائے گویا ان آثار کو پانا ہی بلند مرتبہ اور وصالِ (حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘
إن غاب عنک ولو تعاين شکلها
فاعطف علی تمثالها المتعال
’’اگر تیرے پاس نعلینِ پاک نہ ہو تو اس کے نقش کا تصور کر سکے تو (یہ تمہارے لئے بہتر ہے، لہٰذا) تو اس کے عظیم نقش سے محبت کا اظہار کر۔‘‘
أکرم بتمثال تزايد يُمنه
روت الثقات له جميل فعال
’’نعلین پاک کے نقش کے ساتھ اظہارِ محبت کر اس سے برکات میں اضافہ ہو گا اور مستند علماء نے بیان کیا ہے کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔‘‘
إن أمسکته حامل بيمينها
رأت الخلاص به و حسن خصال
’’اگر نعلین پاک کا نقش کوئی حاملہ عورت اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اس سے اس کی تکلیف دور ہوجائے گی اور نیک خصلت والا بچہ پیدا ہو گا۔‘‘
أو من به داء لأصبح ناقها
من ضر أوجاع ومن أوجال
’’اسی طرح اگر کوئی خاتون کسی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کے صدقے سے اس کا درد اور بے چینی دور ہو جائے گی۔‘‘
أو کان فی جيش لأصبح ظاهرا
أو منزل لنجا من الإشعال
’’اور اس طرح اگر وہ نقش کسی لشکر کے پاس ہو تو وہ (دشمن پر) غالب آ جائے گا اور اگر یہی نقش کسی گھر میں ہو تو وہ گھر آگ لگنے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
وبه الأمان من العدو بنظرة
والسحر والشيطان ذی الإضلال
’’اور یہی نقش دشمن، نظرِبد، جادو اور گمراہ کرنے والے شیطان سے محفوظ رہنے کا ذریعہ بنتا ہے۔‘‘
والأمن من غرق ومن باغ ومن
کيد الحسود و سارق ختال
’’اور اسی کی برکت سے انسان ڈوبنے سے، ظالم کے ظلم سے، حاسد کے حسد اور چور کے فریب سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘
فيه تمسک بالحبيب المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم
فعسی به تنجو من الأهوال
’’ اس نقش کے ذریعے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق حبی مضبوط ہوتا ہے اور یقیناً اسی کے ذریعے خطرات سے نجات ملتی ہے۔‘‘
لا يستوی قلب المعذب فی الهوی
لواعج الأدواء و قلب الخال
’’محبت میں گرفتار دل جس کا علاج عشق کی دوا سے کیا جاتا ہے اور محبت سے خالی دل کبھی برابر نہیں ہوتے۔‘‘
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 404، 405
برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بعض واقعات و مشاہدات جن کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں بیان کیا ہے، درج ذیل ہیں :
ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ بہت بڑے عالم با عمل اور متقی و پرہیزگار شخص تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک طالب علم کو نعلین پاک کا نقش بنوا دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے گذشتہ رات اس نقش کی ایک حیران کن برکت کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کونسی ایسی عجیب برکت دیکھی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری اہلیہ کو اچانک اتنا شدید درد ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھی پس میں نے نعلین پاک کا یہ نقش اس کے درد والی جگہ پر رکھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی :
’’اللّٰهُمَّ أرِنَا بَرکَة صاحب هٰذا النَعلِ‘‘
’’اے اللہ! آج ہم پر صاحبِ نعل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی برکت و کرامت ظاہر فرمادے۔‘‘
اس طالب علم نے بیان کیا کہ پس اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کو فوراً شفا عطا فرمائی۔
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 466، 467
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 469
شہر فاس کے مفتی شیخ محمد قصار کے بچپن کا واقعہ ہے جس کو ثقہ اہل علم نے بیان کیا ہے : وہ یہ کہ بچپن میں مفتی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اپنے بعض رشتہ داروں کے ساتھ اپنے گھر کے نچلی منزل میں بیٹھے تھے۔ یہ بھی شہر فاس کی دیگر عام عمارتوں کی طرح ایک بڑی عمارت تھی جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اونچے کمرے تھے۔ ان لوگوں کے سروں کے عین اوپر دیوار پر نقشِ نعلین پاک اس قدر بلندی پرلگا ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص کھڑا ہو تو وہ سر کے برابر ہو۔ اللہ کی شان اوپر والی منزل نچلی منزل پر گر گئی اور پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ لوگوں نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کی موت کا یقین کر لیا اور ایک دن سے زائد وہ ملبے تلے دے رہے۔ ایک دن کے بعد لوگ کفن دفن کی غرض سے ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ان تک پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نیچے دبے ہوئے جملہ افراد نقشِ نعلینِ پاک کی برکت سے زندہ و سلامت ہیں اور انہیں کوئی گزند تک نہیں پہنچی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ تھا کہ وہ اس جان لیوا حادثہ میں بال بال بچ گئے، ہوا یوں کہ جب اوپر والی دیوار گرگئی تو وہ ان پر مانند خیمہ ٹھہر گئی۔ دیوار کا اوپر والا حصہ اس جگہ سے جا لگا جس کے نیچے نعلین پاک تھا اور نچلا حصہ زمین میں کھڑا ہو گیا جس کے بعد مٹی پتھر وغیرہ پہاڑ کی طرح اوپر سے نیچے گرتے رہے، یہ لوگ اس کے نیچے محفوظ رہے۔ یوں اللہ سبحانہ و تعالی نے نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کو ہر قسم کی تکلیف اور نقصان سے اپنی حفاظت میں رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال، 470، 471
1۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال نصف رمضان کو مجھے ایک پھوڑا نکل آیا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے اس کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف لاحق ہوئی۔ میں اس مرض کے ماہر اطباء اور جراح کے پاس گیا مگر کوئی بھی اس تکلیف کو سمجھ سکا اور نہ کوئی اس کا علاج تجویز کر سکا۔ مجھے شدت تکلیف نے بے چین کیا ہوا تھا۔ پھر جب اچانک مجھے اس نقشِ نعلِ پاک کے فضائل و برکات یاد آئے تو میں نے اس نقش کو جائے تکلیف پر رکھا اور دعا کی :
اللّٰهُمَّ إنِّی أسئلُکَ بِحَقّ نَبِيّکَ مُحَّمَد صلی الله عليه وآله وسلم مَن مشی بالنعل أن تُعَافِينی مِن هٰذا المرض يا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
’’اے اللہ! تجھ سے تیرے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں جو کہ اس نعل مبارک میں چلتے رہے ہیں جس کا یہ نقش ہے۔ اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے پروردگار! مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما۔‘‘
وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے ایک دن کے اندر ایسا افاقہ ہوا گویا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
2۔ اسی طرح ان کی ایک بچی تھی جس کی آنکھیں ایسی خراب ہوئیں کہ اطباء اسکے علاج سے عاجز آگئے ایک دن اس بچی نے ان سے کہا : میں نے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعل پاک کے نقش کے بہت زیادہ فوائد و برکات ہیں مجھے بھی لاکر دیں، پس انہوں نے اس کو نقش مبارک دیا، اس بچی نے نقش کو اپنے آنکھوں پر رکھا تو نقش نعلین پاک کی برکت سے اس کی آنکھوں کی بیماری ختم ہوگئی۔
1۔ صاحب فتح المتعال امام مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس نقشِ پاک کی فوائد و برکات کا میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ہوا یوں کہ میں ذیقعدہ شریف 1027ھجری کو غرب جزائر میں ایک بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ دریا خوب طغیانی پر تھا۔ سیلاب کے ایک تیز ریلے کے ساتھ جہاز کے کئی تختے ٹوٹ گئے، ہم سب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے اور تمام لوگ اپنی نجات سے مایوس ہوگئے اور موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے کہ میں نے جہاز کے کپتان کے پاس نقش نعلین بھیجا کہ اس کی برکت سے خیر کی امید رکھے چنانچہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر کرم فرمایا اور ہمیں صحیح و سلامت پار لگا دیا اور اسے سمندری سفر کے ماہرین نے بڑی کرامت کی نشانی شمار کیا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 472
2۔ اسی سفر کے دوران راستے میں ایک مقام پر ڈاکوؤں کا قبضہ تھا جو لوگوں کو لوٹتے تھے ان کے پاس بہت سارا اسلحہ اور کثیر لوگ تھے۔ اللہ نے ہمیں اس نقشِ پاک کی برکت سے ان کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور ہم مدینہ منورہ میں صحیح سالم پہنچ گئے۔
3۔ اسی طرح ایک دن ہم دریا میں سفر پر تھے کہ سامنے ایک بہت بڑا پتھر ظاہر ہوا کہ اگر ہماری کشتی اس سے ٹکرا جاتی تو پاش پاش ہو جاتی۔ ہماری کشتی اس پہاڑی نما غار میں گھس گئی۔ اس پتھر نے ہمیں آگے پیچھے دائیں بائیں سے اس طرح گھیر لیا کہ اس پتھر اورہماری کشتی کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت دریا کی موجیں پورے جوبن پر تھیں۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اب تو ہماری کشتی ضرور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تباہ ہو جائے گی۔ پس ہم نے نقش نعلین کے ساتھ توسل کیا تو اللہ نے ہمیں اس مشکل سے رہائی عطا فرمائی۔
4۔ اسی طرح مجھ سے ایک ثقہ شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ اسے ایک شدید مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ نقشِ نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرو، اس نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا اور وہ اس کی برکت سے شفایاب ہوگیا۔
5۔ اسی طرح یہ بھی مجھے بعض قابلِ اعتماد احباب نے بتایا کہ انہوں نے کئی دفعہ ایسے ممالک کا سفر کیا جن کے راستوں پر چوروں، رہزنوں کا ہر وقت خوف رہتا تھا اور عام طور پر ان کی لوٹ مار سے کوئی بھی مسافر نہیں بچتا تھا مگر چونکہ ان کے پاس نقشِ نعلینِ پاک تھا کئی مرتبہ ان کاسامنا چوروں کے ساتھ ہوا لیکن اس نقش کی برکت سے اللہ نے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا۔
مقری، فتح المتعال فی مدح النعال : 474 - 475
اس بحث سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور (ص)
تو پھر کہیں گے کہ ہاں، تاجدار ہم بھی ہیں
حضرت ابو موسیٰ صروایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا : اے محمد ! آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھ سے بہت دفعہ کہا ہے : ’’خوش ہوجاؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے (خوشخبری) قبول کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ انور دھوئے اور اس میں کلی کی، پھرفرمایا :
إشربا منه، و أفرغا علیٰ وجوهکما و نحورکما، و أبشرا. فأخذا القدح ففعلا ما أمرهما به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، فنادتهما أم سلمة رضي اﷲ عنها من وراء الستر : أفضِلا لأمکما مما فی إنائکما، فأفضلا لها منه طائفة.
مسلم، الصحيح، 4 : 1943، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2497
بخاري، الصحيح، 4 : 1573، کتاب المغازی، رقم : 4073
هندی، کنز العمال، 13 : 608، 609، رقم : 37556
عسقلانی، تغليق التعليق، 2 : 128
فاکهی، أخبار مکه، 5 : 64، رقم : 2845
ابويعلی، المسند، 13، 301، رقم : 7314
ابن حبان، الصحيح، 2 : 318، رقم : 558
ذهبی، سير أعلام النبلاء، 2 : 385
شوکانی، نیل الاوطار، 1 :
24
’’تم دونوں اس کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی : اس برتن میں جو بچا ہوا پانی ہے وہ اپنی ماں کے لئے بھی لاؤ پھر وہ اس میں سے کچھ پانی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے لئے بھی لے گئے۔‘‘
لبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پینے پلانے کے ایسے برتنوں کا استعمال باعث برکت و سعادت گردانتے تھے۔
1۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ایسے برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی کہ جس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اس مبارک برتن کو اپنے پاس محفوظ کر لیا اور فرمایا :
ألا أسقيک فی قدح شرب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فيه؟
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الأشربة، رقم : 5314
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 :
32
’’کیا میں آپ کو اس پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہے؟‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے الفاظ اس طرح مروی ہیں کہ میں مدینہ پاک حاضر ہوا تو مجھے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور اس نے کہا :
انطلق إلی المنزل فأسقيک فی قدح شرب فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 6 : 2673، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم : 6910
بيهقي، السنن الکبری، 5 : 349، رقم : 10708
عسقلانی، فتح الباری، 7 : 131، رقم : 3603
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 :
32
’’میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔‘‘
2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
فأقبل النبی صلی الله عليه وآله وسلم يومئذ حتي جلس في سقيفة بني ساعدة هو و أصحابه ثم قال : اسقنا، يا سهل : فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه. (قال أبو حازم : ) فأخرج لنا سهل ذلک القدح فشربنا منه. قال : ثم استوهبه عمر بن عبدالعزيز بعد ذلک، فوهبه له.
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الاشربة، رقم : 5314
مسلم، الصحيح، 3 : 1591، کتاب الأشربة، رقم : 2007
ابوعوانه، المسند، 5 : 136، رقم : 8125
بيهقي، السنن الکبري، 1 : 31، رقم : 123
روياني، المسند، 2 : 201، رقم : 1036
ابن جعد، المسند، 1 : 431، رقم : 2935
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 145، رقم : 5792
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 99، رقم :
5314
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ (ابو حازم نے کہا :) سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ پانی اپنے سروں اور چہروں پر انڈیلا
3۔ حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کنا عند أنس بن مالک، فدعا بإناء و فيه ثلاث ضباب حديد و حلقة من حديد، فأخرج من غلاف أسود و هو دون الربع و فوق نصف الربع، فأمر أنس بن مالک فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا علی رؤوسنا و وجوهنا و صلينا علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 187، رقم : 12971
ابن کثير، البديه والنهيه، 6 : 7
مقدسي، الآحاديث المختارة، 5 : 216، رقم :
1845
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘
جب وہ مبارک پیالہ ٹوٹ گیا (جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی پیا تھا) جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھا تو اس کی مرمت کا انہوں نے جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کو کس قدر حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
أن قدح النبی صلی الله عليه وآله وسلم انکسر فاتخذ مکان الشعب سلسلةً من فضة. قال عاصم : رأيتُ القدح و شربتُ فيه.
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2942
طبرانی، المعجم الاوسط، 8 : 87، رقم : 8050
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 29، رقم : 113 - 111
عسقلانی، تلخيص الجبير، 1 : 52
ملقن، خلاصة البدر المنير، 1 : 25
احمد بن علي، الفصل للوصل المدرج، 1 : 249
صنعاني، سبل السلام، 1 : 34
ابن قدامه، المغني، 1 : 59
شوکاني، نيل الاوطار، 1 :
84
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) نے اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں : خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔‘‘
1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصول خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم دخل عليها، و عندها قِربة معلقة فشرب منها و هو قائم، فقطعت فم القِربة تبتغي برکةَ موضع في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
ابن ماجه، السنن، 2 : 1132، کتاب الأشربه، رقم : 3423
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 306، ابواب الأشربه، رقم : 1892
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 174، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم ، رقم : 212
ابن حبان، الصحيح، 12 : 138، رقم : 5318
حميدي، المسند، 1 : 172، رقم : 354
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 15، رقم : 8
شيباني، الآحاد والمثاني، 6 : 138، رقم : 3365
بغوي، شرح السنه، 11 : 379، رقم :
3042
ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، پس میں نے مشکیزے کا منہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم دخل علي أم سليم، و في البيت قِربة معلقة، فشرب من فيها و هو قائم، قال : فقطعت أم سليم فم القربة فهو عندنا.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 119، رقم : 12209
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 431، رقم : 27468
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 177، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم ، رقم : 215
طيالسي، المسند، 1 : 229، رقم : 1650
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 127، رقم : 307
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 204، رقم : 654
مقدسي، الآحاديث المختاره، 7 : 295، رقم : 2750
ابن جعد، المسند، 1 : 329، رقم : 2255
هيثمي، موارد الظمان، 1 : 333، رقم : 1372
ابن جارود، المنتقیٰ، 1 : 220، رقم :
868
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے ہوئے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں۔
ان دونوں صحابیات کا مشکیزے کے ٹکڑوں کو محفوظ کر لینا فقط حصولِ برکت کے لیے اس وجہ سے تھا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھاجس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے، فقط اس لئے کہ دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث سمجھے جانے لگے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول سفیان بن خالد الھذلی کا کام تمام کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن ھذلی) کو قتل کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس رکھ، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ لوگوں نے (مجھے) کہا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا تم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس تو نہیں کرو گے؟ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
آية بيني و بينک يوم القيامة، أن أقل الناس المنحصرون يومئذ يوم القيامة. فقرنها عبداﷲ بسيفه فلم تزل معه حتي إذا مات، أمر بها فصبت معه في کفنه ثم دفنا جميعاً.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 496
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 51
مقدسي، الآحاديث المختارة، 9 : 30، رقم : 13
ابويعلي، المسند، 2 : 202، رقم : 905
بيهقي، السنن الکبری، 3 : 256، رقم : 5820
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 203
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 208
ابن هشام، السيرة النبوية، 6 : 31
ابن حبان، الصحيح، 16 : 115، رقم : 7160
هيثمي، موارد الظمان، 1 : 156، رقم :
591
’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداﷲ بن انیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے اور پھر ان کے ساتھ ان کے ساتھ یکجا دفن کر دیا جائے۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے :
أنه کانت عنده عصية لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فمات فدفنت معه بين جنبه و بين قميصه.
ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 6
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 :
45
’’کہ ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ (چھڑی) ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔‘‘
قاضی عیاض رضی اللہ عنہ ’الشفا (2 : 621)‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن جَهْجَها الغِفَاری أخَذَ قضيبَ النبیِّ صلي الله عليه وآله وسلم من يد عثمان ص، و تناوله لِيکسِره علي رُکبته، فصاح به الناسُ، فأخذته الأکِلَة في رُکبته فقطعها، و مات قبل الْحَولِ.
قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفي، 2 : 621
بخاري، التاريخ الصغير، 1 : 79، رقم : 311
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1 :
519
’’جھجاھا غفاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش کی لیکن لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ اُسی وجہ سے سال سے کم عرصہ میں مر گیا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا، وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
و رُئی ابن عمر واضعا يدَه علي مَقْعَدِ النبیِ صلي الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علي وَجْهه.
قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620
تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254
ابن قدامه، المغني، 3 :
299
’’اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کسی بھی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینار بطور معاوضہ کسی صحابی کو دیئے تو انہوں نے انہیں بھی باعث خیر و برکت سمجھ کر سنبھال کر رکھے اور آگے خرچ نہیں کئے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چھڑی کے متعلق فرمایا تو میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا ہے اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔۔۔ ۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا بلال، اقضِه و زِدهُ.
’’اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں زیادتی کرو۔‘‘
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیر اط سونا زیادہ دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لا تُفارِقنُی زيادةُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. فلم يکنِ القيراط يُفارق جراب جابر بن عبداﷲ.
بخاري، الصحيح، 2 : 810، کتاب الوکالة، رقم : 2185
مسلم، الصحيح، 3 : 1222، کتاب المساقاة، رقم : 1600
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 314، رقم : 14416
ابن حبان، الصحيح، 11 : 279، رقم : 4911
ابوعوانه، المسند، 3 : 253، رقم : 4849
ابو يعلی، المسند، 3 : 413، رقم :
1898
’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا (ایک قیراط) سونا مجھ سے کبھی جد ا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں برابر رہتا، کبھی جدا نہ ہوا۔‘‘
اوپر بیان کردہ تمام روایات جو احادیثِ پاک کی معتبر کتب سے ماخوذ اور صحیح ہیں، اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ انبیاء و صالحین سے منسوب آثار و تبرکات فیض رساں اور پُرتاثیر ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو تبرکاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے اس سے ان کا مقصد انہیں برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ انہیں دافع آفات و بلیات سمجھتے تھے اور ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے۔ ان روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے ان آثار و تبرکات سے فیوض و برکات حاصل کئے اور مقاصدِ جلیلہ پورے کئے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved