کتبِ احادیث و سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کروانے کے علاوہ اور بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برکت حاصل کرتے تھے، مثلاً وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کا اپنے اوپر مسح کرواتے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو تبرکا ً مس کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست اقدس دھوتے اس دھوون سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک اور لعابِ دہن مبارک سے تبرک حاصل کرتے، وہ موئے مبارک جو حجامت کے وقت اترتے، نیچے نہ گرنے دیتے تھے، مزید برآں ناخن مبارک سے، لباس مبارکِ سے، عصاء مبارک سے، انگوٹھی مبارک سے، بستر مبارک سے، چارپائی مبارک سے، چٹائی مبارک سے، الغرض ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے کچھ نہ کچھ نسبت ہوتی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین عظام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک سے بھی تبرک حاصل کیا بلکہ جن مکانوں اور رہائش گاہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں اور جن راستوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے ان کی گرد و غبار تک کو انہوں نے موجبِ برکت جانا۔ یہاں تک کہ صحابہ و تابعین کے ادوار کے بعد نسلاً بعد نسلاً ہر زمانے میں اکابر ائمہ و مشائخ اور علماء و محدثین کے علاوہ خلفاء و سلاطین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھتے چلے آئے ہیں اور خاص مواقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان تبرکات کی زیارت کروائی جاتی تھی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِاستعمال متعدد چیزیں بطور تبرک موجود تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ان چیزوں سے حصولِ برکت کے لئے جس جذبۂ عقیدت و محبت کا اظہار اپنی زندگیوں میں کیا اس حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :
حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم يمسح الورم فيذهب.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 72
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
ميں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں :
قال لی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : ادن منی، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات.
احمد بن حنبل، المسند، 5 :
77
عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم :
5763
مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم :
4326
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمر پائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور ں کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
فدعا بها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإناءِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتیّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها.
حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 :
56
شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم :
3485
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 230
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
طبري، الرياض النضره، 1 :
471
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی۔
غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آکر شمشیرِ آبدار بن گئی۔
فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّي العون.
ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 :
308
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 :
188
نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم :
418
’’جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔
فرجع فی يد عبداﷲ سيفاً.
سيوطی، الخصائص الکبریٰ، 1 :
359
أزدی، الجامع، 11 :
279
ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم :
4586
’’جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔‘‘
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا :
إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان.
قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفیٰ، 1 :
219
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم :
1660
طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
مناوي، فيض القدير، 5 :
73
’’اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی۔
بیہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
أدع عشرة، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰی شبعوا ثم کذالک حتٰی أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 :
117
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
احمد بن حنبل، المسند، 2 :
352
ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم :
6532
اسحاق بن راھويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
بيهقي، الخصاص الکبریٰ، 2 : 85
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 :
631
’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔‘‘
یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِرسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں :
فبسطتُ رجلی، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط.
بخاری، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 80
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 :
294
’’میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔‘‘
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين.
ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 337
احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 :
122
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده.
بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
ابو يعلٰی، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 329
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 :
174
’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إذا صلي الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتي بإناء إلا غمس يده فيها، فربما جاؤه في الغداة الباردة فيغمس يده فيها.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2324
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1274
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
نووي، شرح علي صحيح مسلم، 15 : 82
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 171
مناوي، فيض القدير، 5 :
146
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح یہ واقعہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ان میں ڈبو دیتے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکروں میں سے ایک لشکر میں تھے، لوگ کفار کے مقابلے سے بھاگ نکلے اور ان بھاگنے والوں میں، میں بھی شامل تھا پھر جب پشیمان ہوئے تو سب نے واپس مدینہ جانے کا مشورہ کیا اور عزمِ مصمم کرلیا کہ اگلے جہاد میں ضرور شریک ہوں گے۔ وہاں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی تمنا کی کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کردیں۔ اگر ہماری توبہ قبول ہوگئی تو مدینہ میں ٹھہرجائیں گے ورنہ کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر ہم نے بارگاہِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںآکر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم بھاگنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
لا، بل أنتم العَکَّارون. قال : فدنونا فقبلنا يده، فقال : أنا فِئَة المسلمين.
ابوداؤد، السنن، 3 : 46، کتاب الجهاد، رقم : 2647
ابوداؤد، السنن، 4 : 356، کتاب الأدب، رقم : 5223
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 215، ابواب الجهاد، رقم : 1716
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 70، رقم : 5384
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، رقم : 972
قرطبي، الجامع لإحکام القرآن، 7 : 383
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 295
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 541، رقم : 33686
ابن موسي حنفي، معتصر المختصر، 1 : 213
حسيني، البيان والتعريف، 1 : 295، رقم : 786
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 7 : 437
شوکاني، نيل الاوطار، 8 : 80
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 :
145
’’نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (یہ سن کر ہم خوش ہوگئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں(یعنی ان کا ملجا و ماویٰ ہوں، وہ میرے سوا اور کہاں جائیں گے)۔‘‘
2۔ امِّ ابان بنت وازع بن زارع اپنے دادا زارع بن عامر جو وفدِ عبدالقیس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے، سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا :
لما قَدِمنا المدينة فجعلنا نتبادرُ من رواحلِنا، فَنُقَبِّلُ يدَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و رِجلَه.
ابوداؤد، السنن، 4 : 357، کتاب الأدب، رقم : 5225
بخاري، التاريخ الکبير، 4 : 447، رقم : 1493
طبراني، المعجم الکبير، 5 : 275، رقم : 5313
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 102، رقم : 13365
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 477، رقم : 8966
عسقلاني، فتح الباري، 8 : 85
عسقلاني، فتح الباري، 11 : 57
مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 7 : 437
عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 93، رقم : 1830
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 133، رقم : 418
مزي، تهذيب الکمال، 9 : 266، رقم : 1946
زيلعي، نصب الراية، 4 : 258
عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 232، رقم : 691
شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 304، رقم :
1684
’’جب ہم مدینہ منورہ گئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔‘‘
جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنا قدمِ مبارک رکھ کر تعمیر کعبہ کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر گداز ہوا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ ربُ العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنّ النبی صلی الله عليه وآله وسلم کان إذا مشي علي الصخر غاصت قدماه فيه و أثرت.
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم :
9
’’ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ عرفہ سے تین میل دور مقام ذی المجاز میں تھے کہ اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا :
عطشتُ و ليس عندي ماءٌ، فنزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ضرب بقدمه الأرض، فخرج الماء، فقال : اشرب.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 152، 153
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 76
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 170
خفاجي، نسيم الرياض، 3 :
507
’’مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اے چچا جان!) پی لیں۔‘‘
جب اُنہوں نے پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا قدمِ مبارک اُسی جگہ رکھا تو وہ جگہ باہم مل گئی اور پانی کا اِخراج بند ہو گیا۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
فضربنی برجله، و قال : ’’اللهم اشفه، اللهم عافه‘‘ فما اشتکيت وجعي ذالک بعد.
نسائي، السنن الکبریٰ، 6 : 261، رقم : 10897
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 560، ابواب الدعوات، رقم : 3564
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 83، 107
طيالسي، المسند، 1 : 21، رقم : 143
ابويعلي، المسند، 1 : 328، رقم : 409
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 7 :
357
’’پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی : اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہو گئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔‘‘
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والذی نفسی بيده لقد رأيتها تسبق القائد.
ابو عوانه، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 235، رقم : 14132
حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم :
2729
قسم اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘
5۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اُونٹ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہو گیا تھا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
فضربه برجله و دعا له، فسار سيراً لم يسرمثله.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
نسائی، السنن، 7 : 297، کتاب البيوع، رقم : 4637
ابن حبان، 14 : 450، رقم : 6519
بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 337، رقم :
10617
’’تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اُن سے دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بخير قد أصابته برکتک.
بخاري، الصحيح، 3 : 1083، کتاب الجهاد والسير، رقم : 2805
مسلم، الصحيح، 3 : 1221، کتاب المساقاة، رقم : 715
ابو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم :
4843
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ منیٰ میں حصرت عبداﷲ بن زید کو اپنے موئے مبارک اور ناخن کٹوا کر عطا فرمائے جن کو انہوں نے بطور تبرک سنبھال کر رکھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
فحلق رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم رأسه في ثوبه فأعطاه فقسم منه علي رجال و قلم أظفاره فأعطاه صاحبه.
احمد بن حنبل، المسند، 4 : 42
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 300، رقم : 2931
حاکم، المستدرک، 1 : 648، رقم : 1744
بيهقي، السنن الکبری، 1 : 25، رقم : 91
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 202، رقم : 1535
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 19
(اس کے تمام راوي صحيح ہيں)
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ 3 : 536
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مقدسي، الأحاديث المختارة، 9 : 384، رقم :
353
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔ اور اس کے رجال مشہور و ثقہ ہیں۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں اپنا سر اقدس منڈوایا اور بال انہیں عطا کر دیئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کر دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناخن مبارک کٹوائے اور وہ انہیں اور ان کے ساتھی کو عطا کر دیئے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو :
ناول الحالق شِقَّه الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأيسر، فقال : احلق. فحلقه، فأعطاه أبا طلحة، فقال : اقسمه بين الناس.
مسلم، الصحيح، 2 : 948، کتاب الحج، رقم : 1305
ابن حبان، الصحيح، 9 : 191، رقم : 3879
حاکم، المستدرک، 1 : 647، رقم : 1743
ترمذي، الجامع الصحيح، 3 : 255، ابواب الحج، رقم : 912
نسائي، السنن الکبری، 2 : 449، رقم : 4116
ابوداؤد، السنن، 2 : 203، کتاب المناسک، رقم : 1981
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 111، 214
حميدي، المسند، 2 : 512، رقم : 1220
بيهقي، السنن الکبري، 5 : 134، رقم : 9363
ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 299، رقم : 2928
بغوي، شرح السنة، 7 : 206، رقم :
1962
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : مونڈ دو، اس نے ادھر کے بال بھی مونڈ دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔‘‘
2۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لما حلق رأسه، کان أبو طلحة أولَ من أخذَ من شعره.
بخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 169
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک لیے۔‘‘
3۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں :
قلت لعبيدة : عندنا من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، أصبناه من قِبَل أنس، أو من قِبَل أهل أنس، فقال : لان تکون عندي شعرة منه أحب إليّ من الدنيا وما فيها.
ُبخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 168
بيهقي، السنن الکبری، 7 : 67، رقم : 13188
بيهقي، شعب الايمان، 2 :
201
’’میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے۔‘‘
عسقلانی، فتح الباری، 1 : 274
ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لأن يکون عندي منه شعرة أحب إلي من کل صفراء و بيضاء اصبحت علي وجه الأرض.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710
بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 42
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 506
ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 :
95
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
5۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أرسلَنی أهلی إلی أم سلمة بقدح من ماء، و قبض إسرائيل ثلاث أصابع من فضة فيه شعر من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و کان إذا أصاب الإنسانَ عين أو شئ بعث إليها مِخْضَبَة. فاطلعت في الجُلْجُل فرأيتُ شعراتٍ حمرًا.
بخاري، الصحيح، 5 : 2210، کتاب اللباس، رقم : 5557
ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 5 :
510
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس پانی کا (ایک چاندی کا) پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کچھ ہو جاتا تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
6۔ علامہ بدر الدین عینیرحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنی بیوی کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس برتن دیکر بھیجتے جس میں پانی ہوتا اور وہ اس پانی میں سے بال مبارک گزار دیتیں اور بیمار وہ پانی پی کر شفایاب ہوجاتا اور اس کے بعد موئے مبارک اس برتن میں رکھ دیا جاتا۔
عينی، عمدةالقاری، 22 : 49
7۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، و فيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارا ایک سونے کا برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘
8۔ حضرت عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :
عندی من شعر رسول اﷲ مخضوب مصبوغ فی سکة.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437
’’ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبودار ہیں۔‘‘
9۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
لقد رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، والحَلّاق يَحلِقه وأطاف به أصحابه، فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل.
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2325
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 430
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 181
بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 68، رقم : 13189
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 189
عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1273
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 :
188
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پسِ مرگ بھی موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصولِ برکت کے خواہاں تھے۔
10۔ ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
هذه شعرة من شعر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فضعها تحت لساني. قال : فوضعتها تحت لسانه، فدفن و هي تحت لسانه.
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 127
’’یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘
موئے مبارک کے کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میںملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ میں اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیز کی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کردیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’کيف حالک يا بنی؟
بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اور اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا کہ یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازئ عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھا ہے یہ وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔
ان موئے مبارک کے خواص میں سے تین کا ذکر کیا جاتاہے۔
1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔
2۔ ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کرلیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے۔
3۔ ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہرچند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنبی ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کرلی۔
پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔
شاه ولی الله، انفاس العارفين : 40، 41
حضرت صفیہ بنت نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تواس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے، اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلی الله عليه وآله وسلم لئلا أسْلَب برکتها وتقع فی أيدی المشرکين.
قاضی عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 619
’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘
تاریخ واقدی اور دیگر کتب سیر میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز مسلمانوں کے قلیل لشکر کا دُشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اُنہوں نے رومیوں کے بڑے افسر کو مار دیا، اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب فوج کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کی حالت نہایت نازک تھی اور رافع ابن عمر طائی نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا ’’آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : سچ کہتے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ ٹوپی بھول آیا ہوں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فوج کے سپہ سالار تھے خواب میں زجر وتوبیخ فرمائی کہ تم اس وقت خواب غفلت میں پڑے ہو اٹھو اور فوراً خالد بن ولید کی مدد کو پہنچو کہ کفارنے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤ گے۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت لشکر کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جائے چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے اس طرح کہ کوئی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شایدکوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جا رہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں، جب قریب پہنچے تو پکار کر اس جوان کو توقف کرنے کے لئے کہا یہ سنتے ہی وہ جسے ہم جوان سمجھ رہے تھے رکا تو ہم نے دیکھا کہ وہ تو خالد بن ولید کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں : کہ اے امیر! جب رات کے وقت میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن ولید کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، مگر اتفاقاً ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جو وہ گھر بھول آئے تھے اور جس میں موئے مبارک تھے۔ بعجلتِ تمام میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کوان تک پہنچا دوں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئیں۔ حضرت رافع بن عمر جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو تجسس ہوا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ اچانک ان کی رومی سواروں پر نظر پڑی جو بدحواس ہو کر بھاگے چلے آ رہے تھے اور ایک سوار ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑا کر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد تو کون ہے؟ آواز آئی کہ میں تمہاری اہلیہ ام تمیم ہوں اور تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے تم دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔
راوئ حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب خالد رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
محمد انوار اﷲ فاروقی، مقاصد الاسلام، 9 : 273 - 275
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو موئے مبارک میں جو برکت دکھائی دیتی تھی وہ اہل عقول کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ وہ کیا چیز ہے حسی یا معنوی جو بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر وہ چاہے کتنی ہی موشگافیاں کریں ان کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور امداد غیبی کا مل جانا اس برکت کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے فتح موئے مبارک کی برکت سے حاصل ہوتی تھی۔
عبدالحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر سے غائب تھی جب تک وہ نہیں ملی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے اور ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایا کہ :
فما وجهت فی وجه الا فتح لی.
ابو يعلی، المسند، 13 : 138، رقم : 7183
عسقلانی، الا صابه فی تمییز الصحابه، 1 : 414
واقدی، المغازی، 2 :
884
’’میں نے جدھر بھی رخ کیا اس موئے مبارک کی برکت سے فتح حاصل کی۔‘‘
اسی طرح تاریخ واقدی میں یہ واقعہ درج ہے کہ جنگ یرموک کے ایک معرکے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ایک نسطور نامی پہلوان سے ہوا۔ یہ مقابلہ دیر تک رہا، اچانک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور آپ کی ٹوپی زمین پر گرگئی۔ آپ ٹوپی اٹھانے میں لگ گئے اور اتنے میں وہ پہلوان آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ آپ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ میری ٹوپی مجھے واپس دلادو۔ ٹوپی آپ کو دی گئی جسے پہن کر آپ رضی اللہ عنہ نسطور پر غالب آگئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ بعد میں لوگوں نے کہا آپ نے یہ کیا حرکت کی اور ایک ٹوپی کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیا۔ آپ نے بتایا کہ وہ ٹوپی معمولی ٹوپی نہ تھی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سلے ہوئے تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصیٰ إلي أن يُجْعل فی حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل فی حنوطه.
بخاری، الصحيح، 5 : 2316، کتاب الاستئذان، رقم : 5925
شوکانی، نيل الاوطار، 1 :
69
(٭) حنوط : وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(٭) میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘
2۔ حضرت حمید سے روایت ہے کہ :
توفی أنس بن مالک فجعل فی حنوطه سکة أو سک و مسکة فيها من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم۔
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500
هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 21 (امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام
راوی ثقہ ہیں)
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
3۔ اسی طرح دوسری روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آیا اور میری والدہ ایک شیشی لیکر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا أم سليم! ما هذا الذي تصنعين؟ قالت : هذا عرقک نجعله في طِيبِنا و هو مِن أطيب الطيب.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، 287، رقم : 12419، 14091
نسائي، السنن، 8 : 218، کتاب الزينة، رقم : 5371
نسائي، السنن الکبری، 5 : 506، رقم : 9806
يوسف بن موسیٰ، معتصر المختصر، 1 : 17
ابو يعلي، المسند، 6 : 409، رقم : 3769
ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 308
عبد بن حميد، المسند، 1 : 378، رقم : 1268
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 119، رقم : 289
اصبهاني، دلائل النبوة، 1 : 59، رقم : 40
ابو نعيم، حلية الاولياء، 2 : 61
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1429
عسقلاني، فتح الباري، 11 :
72
’’اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔‘‘
4۔ ایک اور روایت میں حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا نے پسینہ مبارک جمع کرنے کی وجہ برکت کا حصول بتایا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا :
ما تصنعين يا ام سليم؟ فقالت : يا رسول اﷲ! نرجو برکته لصبياننا. قال : أصبت.
مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331
احمد بن حنبل، المسند : 3 : 226، رقم : 13390
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 254، رقم : 1130
عسقلاني، فتح الباري، 11 :
72
’’اے ام سلیم! تم کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! ہم اس میں اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری امید درست ہے۔‘‘
مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔
1۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :
بِسم اﷲ، تُربةُ أرضِنا، بريقة بعضنا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذنِ رَبِّنا.
بخاری، الصحيح، 5 : 2168، کتاب الطب، رقم : 5413
مسلم، الصحيح، 4 : 1724، کتاب السلام، رقم : 2194
ابوداؤد، السنن، 4 : 12، کتاب الطب، رقم : 3895
ابن ماجه، السنن، 2 : 1163، کتاب الطب، رقم : 3521
نسائی، عمل اليوم والليلة، 1 : 559، رقم : 1023
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
حاکم، المستدرک، 4 : 457، رقم : 8266
ابن حبان، الصحيح، 7 : 238، رقم : 2973
ابویعلی، المسند، 8 : 22، رقم : 4527
بغوی، شرح السنة، 5 : 224، رقم :
1414
’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ’’ہم میں سے کسی کے لعاب دہن سے‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دم فرماتے وقت مبارک لعابِ دہن لگایا کرتے تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث کا مطلب ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت پر لے کر زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے اسے تکلیف یا زخم کی جگہ پر ملتے اور ملتے ہوئے حدیث میں مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرماتے۔‘‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے ہر بیماری میں دم کرنے کا جواز ثابت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے درمیان یہ امر عام اور معروف تھا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی انگلی مبارک زمین پر رکھنا اور اس پر مٹی ڈالنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دورانِ دم ایسا عمل کرنا درست اور جائز ہے۔۔ ۔ ۔ اور بیشک اس سے اسماءِ الٰہی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہے، پھر دم اور اسماء مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘
عسقلانی، فتح الباری، 10 : 208
مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ملتی ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ دوجہانوں کے والی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔
2۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :
أنها حَملتْ بعبد اﷲ بن الزبير، قالتْ : فخرجتُ و أنا مُتِمٌّ، فأتيتُ المدينةَ فنزلتُ بقُبَاء، فولدتهُ بقُباء، ثم أتيتُ به النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضَعتُه فی حِجرِه، ثم دعا بتمرة، فَمَضَغَهَا، ثم تَفَل فی فيه، فکان أوّلَ شئ دخل جوفَه ريقُ رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ثم حَنَّکَه بتمرة، ثم دعاله و بَرَّکَ عليه.
بخاری، الصحيح، 3 : 1422، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 3697
بخاری، الصحيح، 5 : 2081، کتاب العقيقة، رقم : 5152
مسلم، الصحيح، 3 : 1691، کتاب الآداب، رقم : 2146
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983
حاکم، المستدرک، 3 : 632، رقم : 6330
بیهقی، السنن الکبری، 6 : 204، رقم : 11927
ابن ابی شيبه، المصنف، 5 : 37، رقم : 23483
ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 346، رقم : 36622
شیبانی، الآحاد والمثانی، 1 : 413، 412، رقم : 573 - 574 - 575
بخاری، التاريخ الکبير، 5 : 6، رقم : 9
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 1 : 764
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 906، رقم : 1535
ابن حبان، الثقات، 3 : 212، رقم : 707
ابونعيم، حلية الأولياء : 1 : 333
(ہشام بن عروہ اور فاطمہ بنت منذر سے روایت
ہے)
ابن حبان، مشاهير علماء الأمصار، 1 : 30، رقم : 154
’’کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاملہ تھیں انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں اتری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے پھر میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچہ کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
ذهبتُ بِعبدِ اﷲ بن أبی طلحة الأنصاری إلی رسولِ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم حين وُلِدَ، و رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في عَبَاءَ ةٍ يَهْنأُ بَعيرًا له فقال : هل معکَ تمرٌ؟ فقلتُ : نعم، فناولتهُ تَمَراتٍ، فألقاهُنَّ في فيه فَلاکَهُنَّ، ثم فَغَرَفا الصَّبِیَّ فمَجَّه في فيه، فجعل الصبي يَتَلَمَّظُهُ، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الأنصارِ التمر. و سماه عبدَ اﷲِ.
مسلم، الصحيح، 3 : 1689، کتاب الأداب : رقم : 2144
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097
بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 305
ابن حبان، الصحيح، 10 : 393، رقم : 4531
ابويعلي، المسند، 6 : 37، رقم : 3283
ابوداؤد، السنن، 4 : 288، کتاب الأدب، رقم : 4951
ابن سعد، الطبقات الکبری، 8 : 433
عبد بن حميد، المسند، 1 : 393، رقم : 1321
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 429، رقم : 1254
ابوعوانه، المسند، 5 : 240، رقم :
8550
’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کا منہ کھول کر اسے بچہ کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘
عالئ مرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرات شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُنہیں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونا نصیب ہو، تاکہ عالم برزخ میں بھی قرب و وصالِ محبوب کے لمحات سے ان کی روحوں کو تسکین ملے۔ یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس نیک خواہش کے بارے مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدنی عند رأسه و قال لی : يا علي! إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده. قال : فاغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت : يا رسول اﷲ! هذا أبوبکر مستأذن، فرأيت الباب قد يفتح، و سمعت قائلا يقول : ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.
حلبي، السيرة الحلبية، 3 : 493
سيوطي، الخصائص الکبریٰ، 2 : 492
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 :
436
’’جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقائے کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوسیدہ عائشہ رضی اﷲ عہنا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا اگرچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا خود یہ خواہش رکھتی تھیں اور انہوں نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنی تدفین کے لئے پسند کرتی ہیں مگر وہ فرمانے لگیں کہ اب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ما کان شئ أهم إليّ من ذالک المضجع فإذا قبضت فاحملونی ثم سلموا، ثم قل : يستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لي فادفنوني، و إلا فردوني إلي مقابر المسلمين.
بخاري، الصحيح، 1 : 469، کتاب الجنائز، رقم : 1328
ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
بيهقي، السنن الکبریٰ، 4 : 58
ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
نووي، تہذيب الاسماء، 2 : 332
شوکاني، نيل الاوطار، 6 :
159
یہ روایت حاکم نے’ المستدرک( 3 : 99، رقم : 4519 )‘ میں ابن ابی شیبہ نے’ المصنف (7 : 440، رقم : 37074)‘میں اور ابن سعدنے ’الطبقات الکبریٰ ( 3 : 363) میں رواۃ اور الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کی ہے۔
’’میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کرجاؤں تو مجھے اٹھا کر (اس جگہ پر) لے جانا، سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ (سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) اجازت دے دیں تو دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس خواہش کی توجیہ صرف یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن ہونا باعث برکت سمجھتے تھے۔
حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اﷲ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اﷲ عنہا فرمانے لگیں :
هذه کانت عند عائشة حتی قُبضتْ، فلما قُبضتْ قبضتها وکان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يلبسها، فنحن نغسلها للمرضي يستشفي بها.
مسلم، الصحيح، 3 : 1641، کتاب اللباس، رقم : 2069
ابوداؤد، السنن، 4 : 49، کتاب اللباس، رقم : 4054
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26987
ابوعوانه، المسند، 5 : 231، رقم : 8513
بيهقي، السنن الکبري، 2 : 423، رقم : 4010
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 270، رقم : 5879
اسحاق بن راهويه، المسند، 1 : 134، رقم : 30
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 98، رقم : 264
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 141، رقم : 6108
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 :
454
’’یہ مبارک جبہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبہ ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے۔ پس ہم اس کے وسیلہ سے بیماروں کے لئے شفاء طلب کرتے ہوئے ا سے دھوتے ہیں۔‘‘
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
و فی هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين و ثيابهم.
نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44
’’اس حدیث میں صالحین کے آثار اور ان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کے مستحب وپسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved