ہر چیز کی حقیقت تک رسائی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی تہہ تک پہنچا جائے۔ اسی اصول کے پیشِ نظر اسلامی عقائد اور احکام تک رسائی کے لئے ان کا لغوی اور شرعی معنی جاننے کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث سے بنیادی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اسی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے آئندہ صفحات میں ’’تبرک‘‘ کا لغوی و شرعی مفہوم، اس کی انواع اور قرآن کی روشنی میں اس کی اہمیت وفضیلت پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔
عربی زبان کی خاصیت ہے کہ اس کے ہر کلمہ میں ایک حرف کا بھی اضافہ یا کمی کرنے سے معنیٰ میں بہت حد تک فرق آ جاتا ہے۔ یہی صورتِ حال ’’برکت‘‘ اور ’’تبرک‘‘ کے معنی میں درپیش ہے۔ علامہ ابنِ منظور نے مختلف علماء کے حوالے سے لفظِ برکت اور تبرک کے اقوال اپنی کتاب میں یکجا کئے ہیں، ہم ان کو خلاصتہً درج کر رہے ہیں۔
1۔ برکت کے لغوی معانی : ’’اضافہ، زیادتی و کثرت اور سعادت و خوش بختی کے ہیں۔‘‘
2۔ برکت کا ہی ایک معنی : ’’دائمی سعادت اور برکت کا حصول بھی ہے۔‘‘ جیسے حضورں پر برکت بھیجتے ہوئے کہا جاتا ہے : اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔ ’’اے اللہ! تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر بزرگی اور شرافت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثابت اور قائم فرما۔‘‘
’’برکت‘‘ بَرَکَ البعیر سے مشتق ہے یعنی ’’اُونٹ کسی جگہ جم کر اور ایک خاص ہیئت کے ساتھ بیٹھا۔‘‘ اس طرح وہ سکون و راحت اور آسودگی پاتا ہے۔
3۔ تبرک کا لغوی معنی ہے : ’’کسی سے برکت حاصل کرنا۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 10، 395، 396
2. ابن اثير، النهاية في غريب الحديث، 1 : 120
درج بالا تعریفات سے معلوم ہوا کہ چونکہ تبرکات کے اندر عزت، خیر و برکت اور نیک بختی کے حصول اور اِن میں اضافہ کی خواہش ہوتی ہے، اس لئے ان کو تبرک کہتے ہیں۔
جیسے دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
وَ بَارِکْ لِيْ فِيْمَا أَعْطَيْتَ.
’’اور جو نعمت تو نے مجھے دی ہے اس میں برکت عطا فرما۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الصلاة، باب : ما جاء فی القنوت
فی الوتر، 2 : 328، رقم : 464
2. ابن حبان، الصحيح، 3 : 225، رقم : 945
3. ابن خزیمة، الصحيح، 2 : 151، رقم : 1095
4۔ امام راغب اصفہانی نے ’’برکت‘‘ کا ایک معنی خیرِ الٰہی لکھا ہے :
وَالْبَرَکَةُ ثُبُوتُ الْخَيْرِ الإلٰهیِ فی الشَّيْئِ.
’’برکت کا معنی ہے کسی شے کے اندر خیرِ الٰہی کا پایا جانا۔‘‘
(3) راغب الأصبهانی، المفردات : 44
قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذوات، چیزوں اور مقامات کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی خیر و برکت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اشیاء سے برکت و رحمت اور سعادت چاہنا اور ان کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا تبرک کے مفہوم میں شامل ہے۔
تبرک و تیمّن کا واسطہ درحقیقت برکت اور فیض حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ جب ہم اپنے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے درمیان برکت حاصل کرنے کے لئے کوئی واسطہ قائم کر رہے ہوتے ہیں توچونکہ یہ واسطہ عبادت نہیں ہوتا اس لئے اس میں شرک کا کوئی احتمال نہیں۔ جیسے مناسکِ حج اداکرتے ہوئے حجرِ اسود، رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تیمن و تبرک کا واسطہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جب حجر اسود سے برکت کا حصول شرک نہیں تو کسی پیغمبر یا ولی اللہ سے واسطہ تیمن یا واسطہ تبرک شرک کیسے ہو گا؟ اگر ایک پتھر کو واسطہ بنا لینا جائز ہو اور انبیاء و اولیاء کو واسطہ بنانا ناجائز اور شرک تصور کیا جائے تو یہ حقیقی تصورِ دین کے خلاف ہے۔
قرآن و حدیث سے ثابت ہر متبرک چیز خواہ وہ کوئی نشانی ہو یا جگہ یا کوئی ذات، شرعاً ان کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ تاہم اس امر کے لئے درج ذیل شرائط ضروری ہیں :
1۔ تبرک اختیار کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ مؤثرِ حقیقی اﷲ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جس طرح تمام نعمتیں مثلاً رزق، صحت تندرستی، مدد و نصرت، رہائش اور لباس وغیرہ اس کی عطا سے ملتی ہیں اسی طرح متبرک اشیاء یا اشخاص میں خیر و برکت بھی اﷲ تعالیٰ نے ہی ودیعت فرمائی ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی ازخود خیر و برکت دینے یا شر و فساد دور کرنے سے عاجز ہے مگر اﷲ تعالیٰ کے اذن اور عطا سے ان میں یہ تاثیر و برکت پائی جاتی ہے۔
2۔ جن اشخاص یا آثار و اماکن اور اشیاء کو متبرک سمجھ کر ان سے برکت حاصل کی جاتی ہے، ضروری ہے کہ قرآن و سنت سے ان کا عنداﷲ متبرک و افضل ہونا بھی ثابت ہوتا ہو۔ انبیاء و صالحین کے جن آثار کے ذریعے تبرک یعنی خیر و برکت و سعادت حاصل کی جاتی ہے اس کے متعلق صحیح عقیدہ یہ ہے کہ یہ آثار اور نشانیاں اس ذات اور شخص کی شرافت و برزگی، نیکی و پارسائی اور عبادت و ریاضت کی وجہ سے مشرف و مکرم اور قابلِ تعظیم و تکریم اور عند اللہ محبوب و مقرب ہیں۔
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ شریعت میں تبرک کی وہی قسم معتبر اور قابلِ قبول ہے جو قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ سے ثابت ہو۔ اس اصول کے پیشِ نظر شریعت میں تبرک کی درج ذیل انواع و اقسام ثابت ہیں :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا شرعاً ثابت ہے۔
انبیاء کرام اور صالحینِ عظام کی حیات اور بعد از وصال اُن کی ذوات اور آثار سے بھی برکت حاصل کرنا شرعاً ثابت ہے.
نوٹ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، انبیاء کرام اور صالحینِ عظام علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام سے برکت حاصل کرنے کے دوران اِن کے درمیان حفظِ مراتب کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔ لہٰذا انتہائی احتیاط اور ادب کا مظاہرہ کیا جائے۔
امتِ مسلمہ کو ہر طرح کی رحمت اور فیض سے مالا مال کرنے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اِس امت کو احکام اور ترغیب کے ذریعہ ایسے افعال، اقوال اور معاملات وغیرہ بجا لانے کو کہا گیا ہے جن پر صرف عمل پیرا ہونے سے ہی اسے خیر و برکت سے نواز دیا جاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا، تلاوتِ قرآن کرنا، نعت پڑھنا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا، روزہ افطار کرانا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا، کسی نفس کی حاجت پوری کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا، تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا، سچ بولنا، ایفائے عہد کرنا الغرض بے شمار ایسے امور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان کو خالقِ کائنات کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔
مقدس مقامات سے برکت حاصل کرنا بھی شریعت سے ثابت ہے۔ ان بابرکت مقامات میں روئے زمین کی تمام مساجد، خصوصاً مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ قباء اور بعض مقدس شہر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام اور یمن شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دیگر انبیاء کرام اور اولیاءِ عظام کے مقاماتِ ولادت اور وصال سے بھی برکت حاصل کرنا از روئے شرع جائز ہے۔
شریعت کی طرف سے امتِ مسلمہ کو بعض متبرک اوقات اور لمحات بھی نصیب ہوئے ہیں۔ ان میں ماہِ رمضان المبارک، آخری عشرہ کی پانچ طاق راتیں، شبِ قدر، شبِ برات، شبِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، شبِ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہر رات کا آخری تہائی حصہ، یومِ جمعۃ المبارک، پیر کا دن، جمعرات کا دن، ذوالحجہ کے دس دن، عیدالفطر، عیدالاضحی کا دن، یومِ عاشورہ اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابرکت ایام اور مقدس راتیں شامل ہیں۔
بعض کھانے پینے کی اشیاء بھی ایسی ہیں جن کو اسلام میں دیگر اشیاء سے متبرک مقام حاصل ہے۔ مثلاً زیتون کا تیل، دودھ، شہد، کھجور، کلونجی، زمزم کا پانی، روزے کے لئے سحری اور افطاری کی اشیاء اسی نوع میں شامل ہیں۔
بعض افعال کا تعلق انسان کے قلب و روح سے ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے اُن پر عمل پیرا ہونے سے بھی مومن کو برکاتِ الٰہیہ سے نوازا جاتا ہے۔ ان باطنی اعمال میں محبتِ الٰہی، خشیتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی، رضائے الٰہی، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نصرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، توکل علی اللہ، صبر، شکر، رضا، ریاضت، عبادت، مجاہدہ اور زہد و ورع جیسے امور شامل ہیں۔
درج بالا تبرک کی تمام انواع و اقسام قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ و تابعین سے ثابت ہیں۔ ہر قسم اور نوع پر کافی دلائل موجود ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اللہ رب العزت کی برکت اور رحمت حاصل کرنے کے لئے اِن تمام امور کی طرف رجوع کرنا، انہیں اپنانا اور بجا لانا شریعتِ اسلامیہ کے تحت مسنون، مستحسن اور جائز ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار وہی شخص کرے گا جو قرآن و حدیث، صحابہ کرام، تابعینِ عظام اور ائمہ کے احوال و اقوال سے ناواقف ہو گا۔ حقیقت یہی ہے کہ درج بالا تمام اقسامِ تبرک من حیث المجموع امتِ مسلمہ کے عقائد کی عکاس ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دینِ اسلام کو اعتدال پسندی سے نوازا ہے جس کی بدولت اس کے ہر امر میں افراط و تفریط کو نظراندَاز کیا جائے گا اور ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ عقیدۂ تبرک میں بھی شریعت کے اِس اصول کو مدّنظر رکھا گیا ہے، لہٰذا اس میں درج ذیل پہلوؤں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئیے۔
1۔ تبرک کے ہر اس عمل کو ناپسندیدہ، مکروہ اور بدعتِ ضلالۃ قرار دیا جائے گا جو اصلاً قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔
2۔ جن اعمال پر شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے یا کراہت کا اظہار کیا گیا ہے، ان کو ہرگز بھی متبرک نہ سمجھا جائے مثلاً اولیاء و صالحین کے مزارات کا عبادت کی نیت سے طواف وغیرہ۔
3۔ آج کل معاشرے میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ شریعت سے نابلد بے عمل جاہل اور جعلی پیروں کو برکت کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ان سے بھی حتی الامکان دامن بچانا چاہئیے۔
4۔ عقیدۂ تبرک میں جہاں بعض لوگ جہالت کے باعث افراط کا شکار ہیں، وہیں بعض لوگ تعصب اور عناد کے باعث اولیاء و صالحین اور مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے حصولِ برکت کو شرک اور بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس نامناسب رویے پر بھی غور کرنا چاہیے۔
گذشتہ صفحات میں ہم نے تبرک کا لغوی و شرعی مفہوم اوراس کی انواع پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے تبرک کا حقیقی مفہوم نکھر کر سامنے آ جاتاہے۔ اب ہم قرآن کی روشنی میں تبرک کی شرعی حیثیت بیان کریں گے جس سے اس کی اہمیت و فضیلت اجاگر ہو گی۔
قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ برکت اور تبرک متعدد آیاتِ بیّنات سے ثابت شدہ امرِ شرعی ہے۔ تبرک سے متعلق قرآنی تعلیمات کوہم درج ذیل عنوانات میں تقسیم کرسکتے ہیں :
برکت اور تبرک کے صحیح تصور کو واضح کرنے کے لئے ذیل میں چند قرآنی اقسام کو بیان کیا جا رہا ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں لفظِ برکت اپنے مشتقات سمیت معین شخصیات، زمان اور مکان کے لئے استعمال ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام اور اُن کے اہل و عیال کا مبارک اور بابرکت ہونا بیان کیا ہے۔
1۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متبعین کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلاَمٍ مِّنَّا وَبَركَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ.
’’فرمایا گیا : اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ جو تم پر ہیں اور ان طبقات پر ہیں جو تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
هود، 11 : 48
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَقَ.
’’اور ہم نے اُن پر اور اسحاق (علیہ السلام) پر برکتیں نازل فرمائیں۔‘‘
الصافات، 37 : 113
3۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہلِ بیت کے لئے فرمایا :
رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌO
’’اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہےo‘‘
هود، 11 : 73
4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بابرکت فرمایا ہے :
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّاO
’’اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم فرمایا ہے۔‘‘
مريم، 19 : 31
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بے شمار صفات اور خوبیاں بیان فرمائی ہے۔ قرآن کی ایک صفت اس کا بابرکت ہونا بھی ہے۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ.
’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘
الأنعام، 6 : 92
2۔ سورۃ الانعام میں ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَO
’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘
الأنعام، 6 : 155
3۔ قرآن حکیم کو خوبیوں والی اور بابرکت کتاب کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِO
’’یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘
ص، 38 : 29
4۔ سورۃ الدخان میں ارشاد فرمایا :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO
’’بیشک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں‘‘
الدخان، 44 : 3
اس آیت کے تحت شیخ ابنِ عربی لکھتے ہیں :
البرکة : هی النماء و الزيادة و سماها مبارکة لما يعطي اﷲ فيها من المنازل و يغفر من الخطايا و يقسم من الحظوظ و يبث من الرحمة و ينيل من الخير و هي حقيقة ذلک وتفسيره.
’’برکت کا معنی کسی چیز میں بڑھوتری اور اِضافہ ہے۔ نزولِ قرآن کی رات کو اس لئے مبارک قرار دیا کہ اس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو بلند درجات عطا فرماتا ہے، گناہوں کی بخشش فرماتا ہے، سعادت و خوش قسمتی اور خیر و فضل تقسیم فرماتا ہے، اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور خیر و بھلائی عطا فرماتا ہے۔ یہی اس رات کے بابرکت ہونے کا حقیقی معنی اور اس کی تفسیر ہے۔‘‘
ابن عربی، أحکام القرآن، 4 : 117
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بعض خصوصی اماکن اور زمین کے قطعات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا ہے۔
1۔ اللہ رب العزت نے خانہ کعبہ کو برکت والا گھر قرار دیا، فرمایا :
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَO
’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہےo‘‘
ال عمران، 3 : 96
امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اس آیت کی تشریح میں برکت اور تبرک کے تصور کو یوں واضح کیا ہے :
وقوله مبارکًا يعني أنه ثابت الخير والبرکة، لأن البرکة هي ثبوت الخير ونموه وتزيده والبرک هو الثبوت يقال برک برکًا وبروکا إذا ثبت علي حاله.
’’اور اللہ عزوجل کا مبارکاً فرمانا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر خیر و برکت والا ہے، کیونکہ کسی چیز میں خیر و بھلائی کا پایا جانا اور اس کا نشوو نما اور اس میں اضافہ ہو جانے کا نام برکت ہے۔ برکت سے مراد جم کر بیٹھنا ہے برک، برکاً اور بروکا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اپنی جگہ جم کر بیٹھے۔‘‘
جصاص، أحکام القرآن، 2 : 303
2۔ مسجدِ اقصیٰ کے گرد و نواح کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔ ارشاد فرمایا گیا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 1
اﷲ تعالیٰ نے سفرِ معراج کے ضمن میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر فرمایا تو مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ اس کی وجہ فضیلت بھی بتائی کہ اس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ ائمہِ تفسیر نے بابرکت ماحول کی وجہ بیت المقدس کے اردگرد پھلدار درخت اور جاری نہروں کے علاوہ زمانہ موسوی سے اس مسجد کو مہبطِ وحی اور مسکن انبیاء علیہم السلام کے طور پر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بڑی و جہ انبیاء علیہم السلامکے مزارات ہیں جو فلسطین اور بالخصوص القدس شریف کی سرزمین میں موجود ہیں۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں :
قيل بالثّمار وبمجاري الأنهار وقيل بمن دُفن حوله من الأنبياء والصالحين.
’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ارد گرد کو پھلوں اور نہروں کی وجہ سے بابرکت بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے اردگرد انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین دفن ہیں اس وجہ سے یہ بابرکت ہے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 212
علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
بالثّمار والأنهار والأنبياء و الصالحين فقد بارک اﷲ سبحانه حول المسجد الأقصي ببرکات الدّنيا والآخرة.
’’یعنی پھلوں، نہروں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو دنیا و آخرت کی برکتوں سے مالا مال فرمایا۔‘‘
شوکاني، فتح القدير، 3 : 206
آیتِ کریمہ کی مذکورہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ ائمہ تفسیر نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر بابرکت قرار دیا ہے۔
علامہ قرطبی اور علامہ شوکانی کے قول کے مطابق بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزاراتِ انبیاء ہیں۔ یہی درست بات ہے کیونکہ لذیذ پھلوں اور خوش ذائقہ پانی کی نہروں کا وجود بھی انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کے باعث ہے۔
نصِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ انبیاء و صالحین کی وجہ سے کسی جگہ کا بابرکت ہونا اور لوگوں کا تبرکاً اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے جانا نہ صرف جائز بلکہ امرمستحسن ہے۔ پس حضور تاجدارِ کائنات سیدنا محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدفن ہونے کا اعزاز جس خطۂ زمین کو نصیب ہوا وہ پوری کائنات سے بڑھ کر بابرکت و باسعادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور اُمت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو دنیا و مافیھا سے بڑھ کر عزیز سمجھتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کی وجہ سے مسجدِ اقصیٰ کا اردگرد بابرکت ہونے کی مزید تائید حضرت مجاہد کے اس قول سے ہوتی ہے :
سماه مبارکًا لأنه مقر الأنبياء ومهبط الملائکة والوحي.
’’مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی قرار گاہ اور نزولِ ملائکہ و وحی کا مقام ہے۔‘‘
1. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 92
2. ثناء اﷲ، تفسير المظهري، 5 : 399
3. ابن جوزي، زاد المسير، 5 : 5
اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ نصِ قرآنی کے مطابق بیت المقدس کا گردونواح بابرکت ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ بابرکت کیوں ہے؟ اس بارے میں ائمہ تفسیر نے جو بھی وجہ بیان کی اس میں نمایاں چیز نسبتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اگر وہاں نزولِ ملائکہ ہے تو وہ بھی نبیوں کی وجہ سے ہے۔ اگر مزاراتِ انبیاء و صالحین ہیں تو ان کی نسبت بھی ان سے ہے حتی کہ اگر عبادت گاہ مبارک ہے تو وہ بھی نبیوں کی نسبت کی وجہ سے ہے۔
امام نسفی لکھتے ہیں :
يريد برکات الدين والدنيا لأنه متعبد الأنبياء عليهم السلام ومهبط الوحي.
’’اس سے مراد دین و دنیا کی برکتیں ہیں اس لئے مسجد اقصیٰ انبیاء علیہم السلام کی عبادت گاہ اور مقامِ نزولِ وحی الٰہی ہے۔‘‘
1. نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 2 : 278
2. آلوسي، روح المعاني، 15 : 11
3. زمخشري، الکشاف، 2 : 606
3۔ خطۂ شام کے بابرکت ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا.
’’اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سر زمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔‘‘
الأعراف، 7 : 137
4۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر خطۂ شام کو برکت سے نوازے جانے کے بارے فرمایا :
وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَO
’’اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘
الأنبياء، 21 : 71
خطۂ شام کو سرزمینِ انبیاء و صالحین کہا جاتا ہے۔ ائمہِ تفسیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جس خطہ زمین کو برکت سے نوازنے کا بیان ہے وہ شام ہے۔
1۔ اِمام فخر الدین رازی نے لکھا ہے :
وحقّت أن تکون کذلک فهي مبعث الأنبياء صلاة اﷲ عليهم ومهبط الوحي.
’’اور درست بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہے کیونکہ یہ سرزمین انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور نزول وحی کا خطہ ہے۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 24 : 157
2۔ اِمام زمخشری نے لکھا ہے :
وبرکاته الواصلة إلي العالمين أنّ أکثر الأنبياء عليهم السلام بعثوا فيه فانتشرت في العالمين شرائعهم و آثارهم الدينية و هي البرکات الحقيقيّة.
’’اس سرزمینِ شام کی برکتیں تمام جہاں کو پہنچی۔ اس طرح کہ اکثر انبیاء علیہم السلام یہیں مبعوث ہوئے اور پوری دنیا میں ان کی شریعت اور دینی آثار پھیل گئے۔ یہی حقیقی برکات ہیں۔‘‘
زمخشري، تفسير الکشاف، 3 : 127
3۔ اِمام نسفی نے لکھا ہے :
أي أرض الشام برکتها أن أکثر الأنبياء منها فانتشرت في العالمين آثارهم الدينية.
’’یعنی سرزمینِ شام کی طرف اور اس سرزمین کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کی بعثت یہاں ہوئی اور پھر ان کے دینی آثار دنیا میں پھیلے۔‘‘
نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 3 : 86
خطۂ شام کے مبارک ہونے کی ایک وجہ مفسرین نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ خطہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مرکز رہا ہے۔ لہٰذا ان کے مبارک قدموں کی وجہ سے یہ خطۂ زمین برکت والا ہوگیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ احادیث مبارک سے ثابت ہے کہ سرزمین شام اﷲ تعالیٰ کے منتخب بندوں انبیاء و صالحین کی سرزمین ہے اس لئے مبارک ہے۔
حضرت ابنِ حوالہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سَيَصِيْرُ الْأَمْرُ إِلَي أَنْ تَکُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَةً. جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيًمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ. قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ : خِرْ لِي يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ : عَلَيْکَ بِالشَّامِ فإِنَّهَا خيْرَةُ اﷲِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إلَيْهَا خِيْرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِذْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْکُمْ بِيَمَنِکُمْ وَاسْقُوْا مِنْ غُدُرِکُمْ فَإِنَّ اﷲَ تَوَکَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ.
’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یارسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲتعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲتعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ اﷲتعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘
أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483
فضیلتِ شام کے بارے میں کتبِ احادیث میں متعدد احادیثِ مبارکہ موجود ہیں۔ فضیلتِ شام کے حوالے سے متذکرہ بالا نصِ قرآنی حدیثِ مبارکہ اور ائمہِ تفسیر کی آراء سے یہ ثابت ہوا کہ اﷲ رب العزت نے خود ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مقامِ ہجرت ملکِ شام کو بابرکت بنایا اور پھر امت کو فتنوں کے دور میں اس مبارک سرزمین میں حسبِ استطاعت تبرکاً سکونت اختیار کرنے کی ترغیب بھی فرمائی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ زمین تو ساری اﷲتعالیٰ کی ہے، وہی پوری دنیا کا خالق و مالک حقیقی ہے، پھر اس قادر و قیوم ذاتِ وحدہ لا شریک نے زمین کے ایک ٹکڑے کو مبارک قراردیا۔ اس سے یہی بات مستنبط ہوتی ہے کہ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کوئی مقام یا ہستی مبارک ہو اور اگر ایک بندہ مؤمن خالق کائنات کی طرف سے عطا کردہ برکت کی وجہ سے اس سے تبرک اختیار کرے تو یہ صحیح اور درست امر ہے اسے خلاف شرع اور منافی توحید قرار نہیں دیا جاسکتا۔
5۔ یمن کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا :
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً.
’’اور ہم نے ان باشندوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی، (یمن سے شام تک) نمایاں (اور) متصل بستیاں آباد کر دی تھیں۔‘‘
سبا، 34 : 18
6۔ عام زمین کو خیر کے اعتبار سے کئی صورتوں میں متبرک بنایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ.
’’اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں ( اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا۔‘‘
حم السجدة، 41 : 10
قرآن مجید میں بعض زمانوں کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے، شبِ قدر کے بارے میں فرمایا :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO
’’بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیںo‘‘
الدخان، 44 : 3
قرآن مجید میں بعض اشیاء کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے زیتون کے درخت کو بابرکت قرار دیا ہے، ارشادِ ربانی ہے :
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ.
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَر تَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالمِ قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالمگیر ہے)۔‘‘
النور، 24 : 35
2۔ بارش کے پانی کو بھی مبارک قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا.
’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا۔‘‘
ق، 50 : 9
قرآن مجید میں ایک مقام پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ سیدہ مریم علیہا السلام کا ذکر ہارون کی بہن کہہ کر ہوا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أُخْتَ هَارُونَ.
’’اے ہارون کی بہن!‘‘
مريم، 19 : 28
ائمہِ تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور ان کے ایک بھائی کا نام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت سے ’’ہارون‘‘ تھا اس لئے ان کو ہارون کی بہن کہا گیا :
کان لها أخ من أبيها اسمه هارون لأن هذا الاسم کان کثيراً في بني إسرائيل تبرکاً باسم هارون أخي موسي.
’’حضرت مریم علیہا السلام کے علاتی بھائی کا نام ہارون تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ لوگ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے نام کی نسبت سے تبرکاً اسے رکھتے تھے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 11 : 100
قرآن مجید میں بیان کردہ مبارک یا متبرک انبیاء علیہم السلام، خود قرآن حکیم، اماکنِ مقدسہ، اشیاء اور زمان کی اِن اقسام سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں سے بعض کو خالقِ کائنات کی طرف سے بابرکت ہونے کا رتبہ ملا ہے۔ یہ مقام ملنے کی وجہ سے اُن کا مقام باقی تمام مخلوق سے جدا اور ممتاز ہو جاتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ خود آثارِ صالحین انبیاء و رسل کے مزارات اور مقدس مقامات کو بابرکت Declare کرتا ہے اور اس برکت سے تبرک حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
نصوصِ قرآن سے ثابت ہے کہ اﷲ رب العزت کے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام نے تبرک و تیمن کا واسطہ اختیار کیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عمل شرک اور خلافِ توحید نہیں۔ قرآنِ حکیم میں درج ذیل ارشادات اس کا بیّن ثبوت ہیں۔
سورۃ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کا طویل واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے دھوکہ سے انہیں کنوئیں میں ڈال دیا تو مصر کے چند تاجر انہیں اپنے ساتھ مصر لے گئے، جس کی وجہ سے باپ بیٹے کی جدائی میں کئی سال گزرے۔ لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کی جدائی نہ بھولے تھے اور آنسو بہا بہا کر نابینا ہوگئے۔ کئی سال بعد جب حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کے توسط سے باپ کی بینائی جانے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنا قمیص تبرک کے لئے اپنے والدِ محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس بھیجا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ بات سورۃ یوسف میں یوں درج ہے :
اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا.
’’ (حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا : ) میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اِسے میرے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہوجائیں گے۔‘‘
يوسف، 12 : 93
اس کے بعد کے واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا.
’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘
يوسف، 12 : 96
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان قمیص کا واسطہ قائم کیا جس کی برکت سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی کھوئی ہوئی بینائی لوٹ آئی لہٰذا ان کا یہ عمل شرک نہ ہوا۔ ان آیاتِ کریمہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :
1۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹانے والی ذاتِ حقیقی خالقِ کائنات کی تھی۔ پس اُن کی بینائی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے لوٹی لیکن اس کا سبب حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل بغیر کسی واسطہ تبرک کے اُن کو بینا کر سکتا تھا لیکن اس واقعہ سے اللہ رب العزت نے اپنے انبیاء سے مس شدہ چیز کی برکت کا اظہار فرمایا ہے۔
2۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے قمیص سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کے لوٹ آنے سے اللہ تعالیٰ نے تاقیامت آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس دنیا میں بعض ذوات، اشیاء اور اماکن وغیرہ اللہ عزوجل کے ہاں غیر معمولی قدر ومنزلت رکھتے ہیں جن کو برکت سے نوازا گیا ہے۔ ان کی وجہ سے بیمار شفایاب ہوتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں اور گناہوں کی بخشش ومغفرت ملتی ہے۔
3۔ جس چیز کو انبیاء کرام اور صلحاءِ عظام سے نسبت ہوجائے اس سے تبرک کرنا توحید کے منافی نہیں کیونکہ قمیض کو بھیجنے والے بھی اﷲ کے برگزیدہ نبیں اور اس وسیلہ سے فائدہ اٹھانے والے بھی اﷲ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام ہیں اور بیان کرنے والا ماحیء شرک یعنی قرآن ہے۔
4۔ جَآءَ الْبَشِيْرُ کے اعتبار سے یہ تبرک اگرچہ ظاہراً بغیر النبی ہے لیکن فی الحقیقت یہ تبرک بآثار النبی ہے۔
5۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر قمیض ڈالتے وقت بشارت دینے والے نے زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ صرف قمیض کی برکت سے بینائی لوٹ آئی جو تبرکِ نفسی کی طرف اشارہ ہے۔
6۔ غیرِ نبی سے بھی برکت حاصل کرنا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں یہ امر بطورِ خاص توجہ طلب ہے کہ ایک پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام تبرک کا حکم دے رہے ہیں اور دوسرے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام اس قمیض سے برکت حاصل کر رہے ہیں یعنی قمیض متبرَّک بہِ ہے۔ لہٰذا جب پیغمبر کی قمیض سے تبرک امرِ جائز ہے تو اس سے تبرک بآثار الانبیاء اور تبرک بالصالحین کا عقیدہ بھی از خود ثابت ہوجاتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے جب حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں بے موسم پھلوں کو دیکھا تو اسی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اﷲ تعالیٰ سے دعا کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِO
’’اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا : میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے‘‘
آل عمران، 3 : 38
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا واسطۂ تبرک و تیمن اور واسطۂ توسل اختیار کرنا شرک نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو اللہ رب العزت خصوصیت کے ساتھ قرآن میں اس کا ذکر نہ فرماتا کیونکہ الفاظ ربانی یوں ہیں هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ یعنی اسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی۔
ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مبارک قدم تعمیرِ کعبہ کے دوران جس پتھر پر لگے وہ بھی باعثِ خیر و برکت اور تکریم و تعظیم ہوا، لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِO
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کیلئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے پاک (صاف) کر دو‘‘
البقرة، 2 : 125
حدیثِ مبارکہ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نشانِ قدوم سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء اس متبرک و مقدس پتھر پر یہ نشان دیکھ کر قریشِ مکہ سے پوچھا کرتے کہ کیا یہ قدموں کے نشان محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں؟ اس بات کی تصدیق ہونے پر وہ اس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی اعلان نبوت نہیں فرمایا تھا لیکن یہودیوں کے بعض علماء نے مقامِ ابراہیم (علیہ السلام) پر کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں کہ وہ لوگ ان سے برکت حاصل کرنے کے لئے آنے لگے۔ ان کو کتب سماویہ سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ خاتم الانبیاء ہوں گے۔
محولہ بالا ارشاداتِ قرآنی میں انبیاء اور صالحین کے آثار و تبرکات سے بذاتِ خود انبیاء کا اور عوام الناس کے تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ ذیل میں ہم قرآن وحدیث سے چند وہ حوالے درج کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آثارِ انبیاء اور اولیاء سے برکت حاصل کرنا سابقہ امم کا طریقہ تھا جس کو آقا علیہ السلام نے برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اسی منہاج پر گامزن رہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر قرآن حکیم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پسِ منظر میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا اس کی سلطنت (کے مِنْ جانبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہو گا، اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہےo‘‘
البقرة، 2 : 248
یہ امر واضح رہے کہ ہم نے مندرجہ بالا آیت کے ترجمہ میں تبرکات کا لفظ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث رحمۃ اللہ علیہ دہلوی سے لیا ہے۔ اس کی تفصیل کم و بیش تفسیر کی ہر کتاب مثلاً تفسیر بغوی، قرطبی، جلالین، کبیر، بیضاوی، روح البیان، جمل، روح المعانی، خازن، مدارک، کشاف اور المظہری وغیرہ میں ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ائمہِ تفسیر نے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد تبرکات لیے ہیں۔ ذیل میں چند تفاسیر کے حوالہ جات دیئے جارہے ہیں۔
1۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قال أصحاب الأخبار : إن اﷲ تعالیٰ أنزل علي آدم عليه السلام تابوت فيه صور الأنبياء من أولاده فتوارثه أولاد آدم إلي أن وصل إلي يعقوب ثم بقي في أيدي بني إسرائيل فکانوا إذا اختلفوا في شيء تکلم وحکم بينهم وإذا حضروا القتال قدموه بين أيديهم يستفتحون به علي عدوهم. . . .
’’مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک تابوت نازل فرمایا جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے انبیاء علیہم السلام کی تصاویر تھیں۔ وہ تابوت اولادِ آدم میں وراثتاً منتقل ہوتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر یہ بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور جب ان کے درمیان کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو یہ تابوت کلام کرتا اور فیصلہ سناتا اور جب وہ کسی جنگ کے لئے جاتے تو اپنے آگے اس تابوت کو رکھتے جس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں پر فتح پاتے۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 6 : 149
2۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ معالم التنزیل میں آیت وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
(وَبَقِيَةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ) يعني موسيٰ وهارون نفسهما. کان فيه لوحان من التوراة ورضاض الألواح التي تکسرت وکان فيه عصا موسي ونعلاه وعمامة هارون وعصاه وقفيز من المن الذي کان ينزل علي بني اسرائيل.
(وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ) آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہا السلام کے تبرکات ہیں اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے کوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اورعصا اور (جنت کا کھانا) مَنْ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا اس کا ٹکڑا بھی اس میں شامل تھا۔‘‘
1. بغوي، معالم التنزيل، 1 : 229
2. سيوطي، تفسير الجلالين، 1؛ 54
3. أبو الليث سمرقندي، تفسير سمرقندي، 1 : 188
علاوہ ازیں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (1 : 5)میں، امام طبری نے جامع البیان فی تفسیر القرآن (2 : 3614) میں، علامہ زمخشری نے الکشاف (1 : 321) میں، علامہ ابنِ کثیرنے تفسیر القرآن العظیم (1 : 302) میں، امام سیوطی نے الدرالمنثور (1 : 2758)میں، امام آلوسی نے روح المعانی (2 : 169) میں، علامہ شوکانی نے فتح القدیر (1 : 267) میں، علامہ محمد العمادی نے تفسیر ابی سعود ( 1 : 241) میں اور قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے تفسیر المظہری (1 : 249) میں زیرِبحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لئے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین مبارک، حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا اور عمامہ، ان کا لباس، تورات کے بعض اجزاء اور مَنْ کے ٹکڑے جو بنی اسرائیل پر (آسمان سے) نازل ہوتا تھا، شامل تھے۔
3۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی تفسیر ماجدی میں سورۃ البقرۃ، 2 : 248 کی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’اَلتَّابُوْتُ۔ اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام تابوتِ سکینہ ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملی اور قومی ورثہ تھا۔ اس میں تورات کا اصل نسخہ مع تبرکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ بنی اسرائیلی اس کو انتہائی برکت و مقدس سمجھتے تھے۔ سفر و حضر، جنگ و امن ہر حال میں اسے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ کچھ ایسا بڑا نہ تھا۔ موجودہ علماءِ یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسبِ ذیل تھی :
طول۔ ۔ ۔ دو فٹ چھ انچ
عرض۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ
بلندی۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ
بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اسی سے وابستہ سمجھتے تھے، مدت ہوئی فلسطینی اسے ان سے چھین کر لے گئے تھے، اسرائیلی اسے اپنے حق میں انتہائی نحوست و بد طالعی سمجھ کر اس کی واپسی کے لیے نہایت درجہ بیتاب و مُضطرب تھے۔ ۔ ۔ ۔
طالوت کے وقت میں یہ تابوت واپس آجانے کے بعد تاریخ کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام (متوفی 933 ق، م) تک رہا، اور آپ نے بیت المقدس میں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اُسے بھی رکھ دیا تھا، اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا، یہود کاعام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکلِ سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے۔‘‘
عبدالماجد دريا آبادي، تفسير ماجدي، 1 : 459
4۔ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ (اور جب اُن لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کی من جانب اﷲ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہو جاوے اُس وقت) اُن سے اُن کے پیغمبر نے فرمایا کہ اُن کے (من جانب اﷲ) بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (بدوں تمہارے لائے ہوئے) آ جاوے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے (یعنی تورات اور تورات کا من جانب اﷲ ہونا ظاہر ہے) اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام چھوڑ گئے ہیں (یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ غرض) اُس صندوق کو فرشتے لے آویں گے۔ اس (طرح سے صندوق کے آ جانے) میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے۔ اگر تم یقین لانے والے ہو۔ اس صندوق میں تبرکات تھے۔‘‘
مزید حاشیے میں لکھتے ہیں : قولہ تعالیٰ :
’’يَأْتِيْکُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَکِيْنَةٌ ‘‘
’’اس میں اصل ہے آثارِ صالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘
اشرف علی تهانوی، بيان القرآن، 1 : 145
اس تفصیل کا مقصود یہ امر واضح کرنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو انپے انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے جس پر قرآن مجید خود شاہدہے تو کیا امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعے ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب نہیں ہوں گے؟ یقینا پہلی امتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر نصیب ہوں گے۔ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط ذہنی اور فکری تعلق استوار کیا ہے مگر قلبی اور باطنی تعلق کمزور کر لیا ہے۔ جو لوگ آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا قلبی و روحانی رشتہ قائم کر لیتے ہیں وہ اپنی زندگی میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الطافِ کریمانہ اور فیضان کے نظارے کرتے ہیں۔
اللہ رب العزت انبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے مقرب بندوں کو عطا کردہ چیزوں میں اتنی برکت اور تاثیر رکھ دیتے ہیں کہ اُن سے نسبت شدہ چیزوں کو بھی بابرکت بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں احادیث صحیحہ سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنوئیں کے بارے میں بھی ملتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی لہٰذا اس کے مبارک اور بابرکت ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ اونٹنی جس کنوئیں سے پانی پیتی تھی اس کو بھی نبی کی نسبت سے بابرکت بنا دیا گیا۔
واقعہ یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک کنویں سے پانی پیتی تھی۔ ایک پورا دن اس کے لئے خاص تھا قومِ صالح کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی طرف سے عذابِ الٰہی کی وعید کے باوجود اس اونٹنی کو ذبح کر ڈالا نتیجتاً اللہ رب العزت کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم ہلاک ہو گئی۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے جانثار صحابہ کے ہمراہ جب اس مقام پر سے گزر ہوا تو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزرنے کا حکم دیا اور تباہ شدہ قوم کے کنویں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور اس سے آٹا گوندھنے اور برتن دھونے سے بھی منع فرمایا بلکہ گوندھا ہوا آٹا اور جمع کیا ہوا پانی پھینکنے کا حکم دیا۔ اس کی بجائے انہیں اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوْا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْضَ ثَمُوْدَ الْحِجْرَ فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا وَاعْتَجْنُوْا بِهِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أنْ يُهَرِيقُو مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئرِهَا وَأَنْ يَعْلِفُوْا الإِبِلَ الْعَجِيْنَ وَأمَرَهُمْ أن يَسْتَقُوْا مِنَ البِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ.
’’لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اُترے۔ اس کے کنوؤں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا۔ انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی آتی تھی۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب : قول اﷲ تعالی : وَ إلٰی ثَمُوْدَ
أَخَاهُمْ صَالِحًا، 3 : 1237، رقم : 3199
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب : لا تدخلوا مساکن الذین ظلموا أنفسهم،
4 : 2286، رقم : 2980
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں سورۃ الحجر کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا اِرشاد سے تبرک بالآثار کا استنباط کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
أمره صلي الله عليه وآله وسلم أن يستقوا من بئر الناقة دليل علي التبرک بآثار الأنبياء والصالحين وإن تقادمت أعصارهم وخيفت آثارهم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو، انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک پر دلیل ہے اگرچہ زمانے گذر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہوں۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 47
اسی حدیث کی تشریح میں شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث پاک سے متعدد فوائد کاثبوت ہے۔
و منها مجانبة آبار الظالمين والتبرک بآبار الصالحين.
’’ان میں ظالموں کے منحوس کنووں سے اجتناب اور صالحین کے مبارک کنووں سے برکت حاصل کرنا مراد ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 18 : 112
امام نووی کی یہ تشریح دراصل سلف صالحین کے صحیح عقیدہ کی ترجمان ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف صالحین اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ لہٰذا صحیح سلفی عقیدہ یہ ہے کہ بعض مقامات بھی بابرکت ہوتے ہیں اور ان کا مبارک ہونا کسی نیک بندے یا کسی شعائر اﷲ کی نسبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب متذکرہ بالا آیتِ کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نیک بندگانِ خدا کی نسبت سے کوئی جگہ مبارک ہوسکتی ہے تو اس کے برعکس ظالم اور نافرمان قوم کی وجہ سے کوئی خطہ منحوس بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح مبارک مقامات سے تبرک حاصل کرنا درست ہے اسی طرح جس مقام پر عذابِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں غضبِ الٰہی سے پناہ مانگنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
کثیر احادیثِ مبارکہ سے بھی تبرکاتِ صالحین کی اصل ثابت ہے۔ اس پر تفصیلی بحث ہم اگلے ابواب میں کر رہے ہیں بطور نمونہ دو احادیث مع شرح ملاحظہ فرمائیں۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی فوت ہوگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جو جانثار صحابی رسول تھے، نے عرض کیا :
أَعْطِيْنِي قَمِيْصَکَ أُکَفِّنُهُ فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْلَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُ صلي الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ. . .
’’مجھے اپنی قیمص مبارک عطا فرمائیے تاکہ اُسے میں کفناؤں اور ان پر نماز پڑھیں اور دعائے مغفرت فرمائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی قمیص عطا فرما دی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الکفن في القميص، 1 : 427، رقم : 1210
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اس سچے صحابی کی دلجوئی کے لئے ان کے منافق باپ کو اپنی قیمص عطا فرمانا، تبرک کے ثبوت کے لئے اصل ہے، علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے یہی استنباط کیا ہے اور امام ابنِ حجر عسقلانی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے شرح بخاری میں اسے نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
واستنبط منه الإسماعيلی جواز طلب آثار أهل الخير منهم للتبرک بها وإن کان السائل غنياً.
’’علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے صالحین سے ان کے آثار کو برائے تبرک طلب کرنے کا جواز اخذ کیا ہے خواہ مانگنے والا مالدار کیوں نہ ہو۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 139
2۔ کتبِ صحاح میں سے سنن ابو داؤد اور دیگر کتبِ احادیث میں مسواک دھونے کے حوالے سے روایت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :
کَانَ نَبِيُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَسْتَاکُ فَيُعْطِيْنِي السِّوَاکَ لِاَغْسِلَهُ فَأَبْدَأُ بِهِ فَأَسْتَاکُ ثُمَّ أَغْسِلُهُ وَأَدْفَعُهُ إِلَيْهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک کیا کرتے تھے سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مسواک دھونے کے لئے عنایت فرماتے تو میں دھونے سے پہلے اسی سے تبرکاً مسواک کرتی پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتی۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب الطهارة، باب غسل السواک، 1 :
14، رقم : 52
2. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 39 : رقم : 168
اس روایت میں بھی تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ شارحینِ حدیث نے مذکورہ روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا یہ عمل حصولِ برکت کے لئے تھا۔
علامہ محمد شمس الحق عظیم آبادی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فَأَبْدَأُ بِهِ : أي باستعماله في فمي قبل الغسل ليصل برکة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلي والحديث فيه ثبوت التبرک بآثار الصالحين.
’’فأَبْدَأُ بهِ کا معنی یہ ہے کہ میں دھونے سے پہلے اسے استعمال کرتی تاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت مجھے حاصل ہو۔ اس حدیث میں آثارِ صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
عظيم آبادي، عون المعبود، 1 : 52
ایسی روایات ہیں کہ بعض لوگوں کو قصیدہ بردہ کے قلمی اوراق (جو مؤلفِ قصیدہ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں لکھے گئے تھے) آنکھوں پر لگانے سے آشوبِ چشم میں شفایابی ہوئی۔ اسی طرح بزرگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک کے نقشے کی بہت سی برکات بیان کی ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالے ’’نیل الشفاء‘‘ میں نقشہ نعلِ مبارک کے برکات اور خواص تفصیل سے درج کیے ہیں وہ خود اپنی تصنیف نشر الطيب میں لکھتے ہیں :
’’جب صرف ان الفاظ میں جو آپ کے معنٰی و مدح کی صورت و مثال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان الفاظ پر دال ہیں اور اس ملبوس میں جو آپ کی نعال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان نعال کی تمثال ہیں (میں اس قدر برکت ہے) سو خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مجمع الکمالات و اسماء جامع البرکات سے توسل حاصل کرنا اور اس کے وسیلے سے دعا کرنے سے کیا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
نامِ احمد (ص) چوں چنیں یاری کند
تاکہ نورش چوں مددگاری کند
نام احمد (ص) چوں حصارے شد حصین
تاچہ باشد ذاتِ آں رُوح الامینں
اشرف علي تهانوي، نشر الطيب فی ذکر النبي الحبيب : 300
انبیاء و صالحین کا واسطۂ تبرک اختیار کرنا نصوصِ قرآن اور کثیر احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ جب واسطہ تبرک قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو اسے ہر گز واسطہ شرکیہ نہیں گردانا جا سکتا۔
جمہور اُمت کا یہ عقیدہ ہے کہ آثار اور نشانیوں میں از خود کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ان مقدس اماکن و مقامات کی تعظیم و تکریم کرنا اور اس سے خیر و برکت حاصل کرنا اِس وجہ سے ہے کہ یہ بہت سی خیر اور نیکیوں کا باعث، ذریعہ اور وسیلہ ہوتے ہیں۔ مقربین بارگاہِ الٰہی ان اماکن و مقامات میں مراقب ہو کر عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کرتے رہے۔ ان عبادات کی وجہ سے ان میں رب رحمٰن کی رحمتوں اور عنایتوں کا نزول ہوتا رہا اور ملائکہ مقربین کی آمد ہوئی، پس اس لیے ربِ کا ئنات کی خصوصی رحمت نے ان اماکن اور آثار کو گھیرا ہوا ہے۔ اسی نسبت سے یہ برکت مقصود ہوتی ہے جس کو ان مقامات میں اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کیا جاتا ہے۔
مقدس مقامات ہوں یا مقرب اشخاص، ان سے برکت انہیں بالذات موثر مان کر حاصل نہیں کی جاتی بلکہ ان مقامات پر حاضر ہو کر اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہو کر دعا و استغفار کے ذریعہ مانگا جاتا ہے۔ ان مقامات میں جو عظیم واقعات پیش آتے ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے، مقرب ہستیوں کی ہمت و معرفت کا بیان ہوتا ہے جس سے قلب و باطن میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حوصلوں کو جلا ملتی ہے۔ محبوبان بارگاہ الٰہی کے ساتھ ظاہری و باطنی قربت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہی تبرک ہے اور اسی کو جمہور امت نے اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں ہاں اگر کوئی شخص ان اماکن و اشخاص سے بالذات تاثیر کا عقیدہ رکھے تو یہ جائز نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved