مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما یذکر من ذم الرأي وتکلف القياس، 6/ 2665، الرقم/ 6877، ومسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4/ 2058، الرقم/ 2673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 203، الرقم/ 6896.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعاليٰ تمہیں علم عطا کرنے کے بعد اسے (سینوں سے) اُٹھا نہیں لے گا، بلکہ یوں اٹھائے گا کہ علماء کو ان کے علم سمیت اٹھالے گا۔ پھر باقی جاہل لوگ رہ جائیں گے جن سے فتويٰ طلب کیا جائے گا تو وہ اپنی رائے سے فتويٰ دیں گے۔ چنانچہ وہ (لوگوں کو) گمراہ کریں گے اور (خود بھی) گمراہ ہوں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللہَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤوْسًا جُهَالًا. فَسُءِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب کيف يقبض العلم، 1/ 50، الرقم/ 100، ومسلم في الصحيح، کتب العلم، باب رفع العلم وقبضه وظهور الجهل والفتن في آخر الزمان، 4/ 2058، الرقم/ 2673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 162، الرقم/ 6511، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في ذهاب العلم، 5/ 31، الرقم/ 2652، والدارمي في السنن، 1/ 89، الرقم/ 239.
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے سینوں) سے کھینچ لے بلکہ علماء کو اٹھا لینے سے علم کو اٹھا لے گا،یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا امیر بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتويٰ دیں گے(نتیجتاً) خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: خُذُوْا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ فَإِنَّ قَبْضَ الْعِلْمِ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطّّبْرَانِيُّ والْقَزْوِيْنِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه الدرامي في السنن، 1/ 89، الرقم/ 240، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 232، الرقم/ 7906، والبيهقي عن أبي درداء في شعب الإيمان، 2/ 73، الرقم/ 1196، والقزويني في الإرشاد، 2/ 651، الرقم/ 184، وابن أبي عاصم عن أبي درداء في الزھد، 1/ 144.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم حاصل کرو قبل اس کے کہ اسے اٹھا لیا جائے۔ بے شک علم کے اُٹھا لیے جانے سے مراد (حقیقی) علماء (یعنی علماء ربانیین) کا ناپید ہوجانا ہے۔
اس حدیث کو امام دارمی، طبرانی اور قزوینی نے روایت کیا ہے۔ اور مذکورہ الفاظ قزوینی کے ہیں۔
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1/ 83، الرقم/ 228، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 220، الرقم/ 7875، والقضاعي في مسند الشهاب عن أبي الدرداء رضی الله عنه، 1/ 188، الرقم/ 279، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 16، الرقم/ 4022، وأيضاً في 3/ 73، الرقم/ 4205، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 56، الرقم/ 127، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 122، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 31، الرقم/ 84.
ایک اور روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر یہ (دین کا) علم (حاصل کرنا) لازم ہے اس سے پہلے کہ اسے اٹھا لیا جائے اور اس کا قبض ہونا(علماء کی موت کے سبب) اس کا اٹھا لیا جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کو ملا کر فرمایا: عالم اور متعلم اجر میں برابر کے شریک ہیں اور (ان کے علاوہ) باقی لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved