(المائدة، 5/ 67)
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتا۔
(ابراهيم، 14/ 52)
یہ (قرآن) لوگوں کے لیے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبود یکتا ہے اور یہ کہ دانشمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرَمِذِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3/ 1275، الرقم/ 3274، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 159، الرقم/ 6486، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحديث عن بني إسرائيل، 5/ 40، الرقم/ 2669.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے (ہر بات) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایات بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
اسے امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ کَمَا سَمِعَ۔ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهُ وَأَبُوْ حَنِيْفَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2657، وابن ماجه عن أبي بکرة رضی الله عنه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علمًا، 1/ 85، الرقم/ 233، وأبو حنيفة عن أنس بن مالک رضی الله عنه في المسند، 1/ 252، والدارمي عن أبي الدرداء رضی الله عنه في السنن، 1/ 87، الرقم/ 230، والبزار في المسند، 5/ 382، الرقم/ 2014، وابن حبان في الصحيح، 1/ 268، الرقم/ 66، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 274، الرقم/ 1738.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعاليٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا۔ بعض لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے اور زیادہ سمجھنے والے ہوتے ہیں۔
اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور ابو حنیفہ نے روایت کیا۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی الله عنه قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًی فَقَالَ: نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاهَا ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَی مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، الرقم/ 16784، والحاکم في المستدرک، 1/ 162، الرقم/ 294، والدارمي في السنن، 1/ 86، الرقم/ 228، وأبو يعلی في المسند، 13/ 408، الرقم/ 7413، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 127، الرقم/ 1544، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 307، الرقم/ 1421، وابن عبد البر في التمهيد، 22/ 184، والفاکهي في أخبار مکة، 4/ 270، الرقم/ 2604، الرقم/ 20974.
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منٰی کی مسجد خیف میں کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری بات کو سن کر اسے یاد رکھا، پھر اسے اس شخص تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا تھا۔ پس بہت سے فقہ کے حامل درحقیقت گہرا فکر و تدبر نہیں رکھتے اور بہت سے سمجھ بوجھ کے حامل (میری بات کو) اس شخص تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فہم و بصیرت رکھتا ہے۔
اسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: تَسْمَعُوْنَ وَيُسْمَعُ مِنْکُمْ، وَيُسْمَعُ مِمَّنْ يَسْمَعُ مِنْکُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 321، الرقم/ 2947، وأبو داود في السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3/ 321، الرقم/ 3659، والطبراني في المعجم الأوسط برواية ثابت بن قيس بن شماس، 6/ 19، الرقم/ 5668، والحاکم في المستدرک، 1/ 174، 328، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 250، الرقم/ 20974.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم (مجھ سے حدیث) سنتے ہو (بعدازاں) تم سے بھی سنی جائے گی، پھر جس شخص نے تم سے سنا اس سے بھی سماع کیا جائے گا۔
اسے امام احمد بن حنبل اور ابوداود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اللَّهُمَ ارْحَمْ خُلَفَاءَ نَا. قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللہِ، وَمَا خُلَفَاؤکُمْ؟ قَالَ: اَلَّذِيْنَ يَأْتُوْنَ مِنْ بَعْدِي. يَرْوُوْنَ أَحَادِيْثِي وَسُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 77، الرقم/ 5846، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 62، الرقم/ 154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، والسيوطي في تدريب الراوی، 2/ 126، والزيلعي في نصب الراية، 1/ 348، والطبري في الرياض النضرة، 1/ 261، الرقم/ 106.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (دعا کرتے ہوئے) سنا: اے اللہ! ہمارے خلفاء پر رحم فرما۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے۔ وہ میری احادیث اور سنت بیان کریں گے اور لوگوں کو ان کی تعلیم دیں گے۔
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
أخرجه الدارمي في السنن، 1/ 112، الرقم/ 354، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 51/ 61، وابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 46، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 53، الرقم/ 110، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 123.
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی کو موت اس حال میں آئے کہ وہ علم حاصل کر رہا تھا تاکہ اس علم کے ذریعے اسلام کو زندہ کرے گا تو اس کے اور انبیاء کرام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔
اِس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاس رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: مَنْ جَاءَهُ أَجَلُهُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لَقِيَ اللہَ وَلَمْ يَکُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِیِّيْنَ إِلَّا دَرَجَةُ النُّبُوَّةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9/ 174، الرقم/ 9454، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 53، الرقم/ 110، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 123.
ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو علم حاصل کرتے ہوئے موت آگئی، وہ اللہ تعاليٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور انبیاء کرام کے درمیان صرف درجہ نبوت کا فرق ہو گا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ إِبْرَاهِيْمَ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّهُ إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ تُوْضَعُ حَسَنَاتُ الرَّجُلِ فِي کَفَّةٍ وَسَیِّءَاتُهُ فِي الْکَفَّةِ الْأُخْرٰی فَتَشِيْلُ حَسَنَاتُهُ. فَإِذَا أَيِسَ وَظَنَّ أَنَّهَا النَّارُ، جَاءَ شَيئٌ مِثْلَ السَّحَابِ حَتّٰی يَقَعَ فِي حَسَنَاتِهِ فَتَشِيْلُ سَيِّئَاتُهُ. قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتَعْرِفُ هٰذَا مِنْ عَمَلِکَ؟ فَيَقُوْلُ: لَا. فَيُقَالُ: هٰذَا مَا عَلَّمْتَ النَّاسَ مِنَ الْخَيْرِ، فَعُمِلَ بِهِ مِنْ بَعْدِکَ.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ البَرِّ.
أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1/ 46، وعبد اللہ بن مبارک في الزهد، 1/ 487، الرقم/ 1384.
ایک اور روایت میں امام ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک شخص کی نیکیاں (ترازو کے) ایک پلڑے میں رکھی جائیں گی اور اس کے گناہ دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں گے۔ اس کی نیکیوں کا پلڑا (وزن میں ہلکا ہونے کی وجہ سے) بلند ہو جائے گا۔ اس صورتحال سے وہ مایوس ہو کر گمان کرے گا کہ یہ (نیکیوں کا کم ہونا اس کے لئے باعثِ) نار ہے۔ پھر ایک بادل کی مانند کوئی چیز آکر اس کی نیکیوں میں شامل ہو جائے گی جس سے اس کی برائیوں والا پلڑا بلند ہو جائے گا (اور نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا)۔ پس اس سے پوچھا جائے گا: کیا تو اپنے اس عمل کو پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں۔ اس کو بتایا جائے گا: یہ وہی عمل خیر ہے جس کی تو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی۔ پس تیرے بعد اس پر عمل ہوتا رہا (جس کا تجھے یہ صلہ دیاگیا ہے)۔
اسے امام ابنِ عبد البر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved