اللہ رب العزت نے اِنسان کی تخلیق کے بعد انسانیت کے عروج و ارتقا کے لیے بِعثتِ انبیاء اور وحیِ الٰہی کا سلسلہ جاری فرمایا، بعثتِ محمدی ﷺ اور نزولِ قرآن کے ذریعے انسانیت کو اَوجِ ثریا تک پہنچایا اور قرآنِ حکیم کو قیامت تک انسانیت کا دستورِ حیات اور قانونِ فطرت قرار دیا ہے۔ قرآن مجیدمیں بیان کردہ علوم و معارِف اور قوانینِ فطرت میں اللہ رب العزت نے ہر دور کے اِنسان کے لیے رہنمائی مہیا فرما دی ہے۔ یہ رہنمائی قیامت تک بنی نوع انسان کے جملہ اِنفرادی، خاندانی، اِجتماعی، اَخلاقی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی اُمور کے لیے کامل جامعیت کے ساتھ فراہم کر دی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآن فہمی اور تمسّک بالقرآن میں ہی اِنسانیت کی معراج اور قرآن گریزی میں زوال مضمر ہے۔ تعلیماتِ قرآن کی اِسی جامعیت، ہمہ گیریت اور آفاقیت نے تاریخِ عالم پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اعتقاداً نہ ماننے والے بھی اس میں بیان کردہ بیش بہا علوم و معارف اور قوانینِ فطرت کی صداقت کے معترف نظر آتے ہیں۔
قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے جسے فصاحت و بلاغت، قواعد و معانی اور علوم و معارف کی زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ میں کئی کئی معانی پنہاں ہیں۔ فہمِ قرآن کے لیےاس زبان کے قواعدکی معرفت کے علاو ہ دیگر ناگزیر علوم مثلاً : شانِ نزول، ناسخ و منسوخ، حدیث، علومِ حدیث، اقوالِ صحابہ، تاریخ و ثقافتِ عہدِ نبوی اور لغتِ عرب کے ساتھ ساتھ محاورۂ عرب کی معرفت اَز حد ضروری ہے۔ ان کے بغیر قرآن مجید کے معنی و مراد، نظم و اُسلوب اور اس کے مفہوم و مدلول کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ قرآن مجید کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ خلّاقِ عالم کا کلام ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجازِ علمی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس عدیم النظیر اور فقیدالمثال کلام کے متعلق خود اللہ رب العزت نے منکرین کو چیلنج دیا اور ارشادِ فرمایا ہے:
﴿قُل لَّئِنِ ٱجۡتَمَعَتِ ٱلۡإِنسُ وَٱلۡجِنُّ عَلَىٰٓ أَن يَأۡتُواْ بِمِثۡلِ هَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانِ لَا يَأۡتُونَ بِمِثۡلِهِۦ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٖ ظَهِيرٗا﴾ [الإسراء، 17/ 88].
’’فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔‘‘
آیاتِ قرآنی کا یہ اعجاز ہے کہ ان میں بار بار تدبّر کرنے سے ہر بار نیا مفہوم سامنے آتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کا دامنِ علم و ہدایت ہر زمانے کی پیش آمدہ ضرورتوں کا کفیل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ وَهُدٗى وَرَحۡمَةٗ وَبُشۡرَىٰ لِلۡمُسۡلِمِينَ﴾ [النحل، 16/ 89].
’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکو تمام علمی محاسن اور عملی فضائل کا مجموعہ اور جملہ علوم و معارفِ الٰہیہ کا خزانہ بنایا ہے۔ اس صحیفۂ ہدایت کے نزول کا اصل مقصدانسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا اور انسان کو بطور اشرف المخلوقات اُس مقام و مرتبہ پر فائز کرنا ہے جس کے لیے اس کی تخلیق عمل میں لائی گئی تھی۔ اس اَعلیٰ و اَرفع مقصد کے حصول کا راستہ آیاتِ قرآنیہ پر گہرے غور و خوض، تدبر وتفکر اور اس پر عمل درآمد سے ہی نکلتا ہے۔ اسی لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَ أَمۡ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقۡفَالُهَآ﴾ [محمد، 47/ 24].
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔‘‘
آج مادی سوچ اور دنیوی حرص و ہوس نے لوگوں کو قرآن مجید پر غور و فکر کی رغبت اور خیال سے محروم کر دیا ہے۔ عمومی فکر و نظر میں اس حدتک تغیّر رُونما ہو چکا ہے کہ وہ صحیفۂ ہدایت جو ہماری سوچ اور احوالِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آیا تھا، ہم نے اُسے محض کتابِِ ثواب بنا رکھا ہے۔ نتیجتاً ہم نے خود کو قرآن مجیدکے بجائے دیگر ضوابط، مراسم اور نفسانی خواہشات کے تابع کر دیا ہے۔
ان حالات میں اِس بات کی اشد ضرورت ہےکہ عوام الناس کو بالعموم اور پڑھے لکھے طبقے کو بالخصوص قرآن فہمی کی طرف راغب کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آیاتِ قرآنیہ میں موجود مضامین و مطالب کو جدید اور آسان پیرائے میں اس طرح نظم دیا جائے کہ غیر عربی دان طبقہ بھی ان تک آسانی سے رسائی حاصل کر سکے اور امورِ حیات میں ان سے بھرپور رہنمائی لے سکے۔ نیزنوجوان نسل جو عربی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے قرآنی تعلیمات سے دور ہوتی جا رہی ہے، انہیں قرآن مجیدکے حیات آفرین پیغام سے جوڑا جا سکے۔
اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ سے برکت اور اس کی تلاوت سے باطنی حلاوت نصیب ہوتی ہے، مگر ہدایت و رہنمائی اور دنیوی و اُخروی فلاح اس کی آیات پر تفکر و تدبر کرنے اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی میسر آتی ہے۔ اس کے ہر پارہ، سورت، آیت، لفظ، حرف حتیٰ کہ سورتوں کے ناموں، آیات والفاظ اورحروف کے نظم و ترتیب میں بھی لاتعداد اسرار و معانی مضمر ہیں۔ ہر زمانے کے مسائل، احوال، ظروف اور ضروریات کے مطابق اللہ رب العزت کسی نہ کسی ہستی کو یہ توفیق مرحمت فرماتا ہے کہ وہ اس بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہو کرمعانی و معارف کے موتی چُنے اور اَفرادِ اُمت کے دامن کو ان کی ضرورتوں کے مطابق بھر دے۔
اِسی مقصد کے لیے اِس زمانے میں اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کو منتخب فرمایا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ نے اِحیائے اسلام اور تجدیدِ دین کی جد و جہد کے آغاز میں ہی جو اَہداف و مقاصد مقرر فرمائے تھے ان میں سے ایک بنیادی مقصد ’’رجوع الی القرآن ‘‘بھی ہے۔ اس لیے آپ نے اپنی جدو جہد کا عنوان بھی ’’منہاج القرآن‘‘ رکھا، جس کا مطلب ’’قرآن کا راستہ‘‘ ہے۔ اس عالم گیر دینی، فکری، علمی، اصلاحی اور تجدیدی تحریک کو اِسم بامسمّٰی بنانے کے لیے شیخ الاسلام نے اُمت کا قرآن فہمی سے ٹوٹا ہوا تعلق ایک بار پھر بحال کیا اور تقریر و تحریر میں مصادرِ اَصلیہ بالخصوص آیاتِ قرآنیہ سے اِستنباطِ اَحکام و اِستدلال اور قدیم و جدید علوم و فنون کے امتزاج سے ایک نئے علمی، تحقیقی، سنجیدہ، ثقہ، عصری اور scientific اُسلوب و منہج کی بنیاد رکھی، اُسے اہلِ علم و فکر میں متعارف و مقبول کرایا اور ثابت کیا کہ قرآن مجید ہی وہ خزانۂ علم و ہدایت ہے جو بھولی بھٹکی انسانیت کو صراطِ مستقیم پر لانے اور منتشر اُمت کو وحدت کی لڑی میں پرونے کا ذریعہ ہے۔ آپ کی (2018ء تک) دستیاب ساڑھے پانچ سو (550) مطبوعہ کتب اِس دعوے کا عملی ثبوت ہیں کہ آپ نے اِن تمام تصانیف میں ہر مسئلے کے اثبات اور ہر موضوع کی تفہیم کے لیے استنباط و استشہاد میں صرف قرآن و سنت کو اوّلیت دی ہے اور بعد میں دیگر علوم و معارف اور مآخذ و مصادر کو قرآن و سنت سے ثابت ہو جانے والے قضیہ کی تشریح و توضیح میں استعمال کیا ہے۔ آپ کا منصبِ علمی اس بات کا متقاضی تھا کہ جہاں آپ نے خدمتِ علمِ حدیث کے باب میں پانچ لاکھ سے زائد احادیثِ نبوی کا اسانید اور متون سمیت مطالعہ و تحقیق کر کے، ہزارہا احادیث کو مختلف موضوعات پر نئے تراجمِ اَبواب، عنوانات، ضروری توضیحات، تشریحات اور تعلیقات کے ساتھ جمع فرما کر سیکڑوں کتبِ حدیث کی صورت میں اُمت کو عظیم تحفہ عطا کیا ہے، سیکڑوں ضروری احکام و مسائل کو براہِ راست سنتِ رسول ﷺ اور احادیث ِنبوی سے ثابت اور واضح کیا ہے اور اس باب میں صدیوں پرانا قرض چکا دیا ہے؛ وہاں قرآن فہمی کے لیے تصنیف کی گئی دوسری کتب کے ساتھ ساتھ قرآنی اِنسائیکلوپیڈیا کی شکل میں علمِ قرآن کی بھی ایسی نادر کلید تیار کر دی جائے جو طالبانِ علمِ قرآن کے لیے تمام قرآنی علوم و معارف اور مطالب و مضامین کے دروازے کھول دے۔
الحمد للہ! آج آپ نے یہ چابی بھی اُمتِ مسلمہ کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام مدّظلہ العالی نے اس چابی کے ذریعے نہ صرف علماء و فضلا بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقات اور طلبہ و طالبات کے لیے قرآن مجید کے ہزاروں مضامین تک براہِ راست رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘مضامینِ قرآن کا ایک ایسا جامع مجموعہ ہے جو عصری تقاضوں کو مطالعۂ قرآن کی روشنی میں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اِن شاء اللہ آنے والی نسلوں کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حوالے سے بھی رہنمائی کرتا رہے گا۔
کسی بھی کتاب کی قدر و قیمت، افادیت اور رفعت و منزلت کا اندازہ ایک طرف اس کتاب کے موضوع اور اس میں بیان کردہ مضامین، مطالب اور مشمولات سے ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کے مؤلف و مرتب کا علمی مقام و مرتبہ، علم و فن پر ملکہ و مہارت اور تعمّق و تبحّر اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ امر نہایت ہی خوش آئند ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں موجود اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو مرتب کرنے والی وہ بین الاقوامی شخصیت ہے جو نہ صرف جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ہے بلکہ اقوامِ مشرق و مغرب کے فکری بُعد اور زمانہ ہائے قدیم و جدید کے علمی، فنی اور ذہنی فاصلوں میں ایک مسلّمہ سنگم بھی ہے۔ مزید یہ کہ وہ عرب و عجم میں مسلّمہ علمی سند اور اتھارٹی بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی شخصیت اُمت کو صدیوں بعد نصیب ہوتی ہے۔ ورنہ صدیاں اور زمانے ایسی ہستی کی آمد کے لیے منتظر اور ترستے رہتے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اسی زمانے میں رہ رہے ہیں جو حضرت شیخ الاسلام مدّظلہ العالی کا زمانہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام مدّظلہ العالی کی تصنیفات و تالیفات انسانی زندگی سے متعلق ہر موضوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے دینِ اسلام کی حقیقی، معتدل اور امن و سلامتی پر مبنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کے لیے نہ صرف پوری دنیا کا سفر کیا ہے بلکہ دنیا کے ایک سو ممالک میں علمی و تربیتی مراکز قائم کر کے نوجوان نسل کو لادینیت، دہریت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نظریات سے بچانے میں وہ تاریخی کردار ادا فرمایا ہے جو اقوامِ عالم، حکومتی ادارے، دنیا کی جامعات اور مشرق و مغرب کے علمی مراکز بھی ادا نہیں کر سکے تھے۔ عرب و عجم اور مشرق و مغرب میں بسنے والی پوری دنیا کو اسلام کا پُراَمن، متوازن اور معتدل چہرہ متعارف کروانا آپ ہی کا عالمی طرّۂ امتیاز ہے۔ یہ انسائیکلوپیڈیا حضرت شیخ الاسلام کے نصف صدی سے زائد مطالعۂ قرآن کا نچوڑ ہے۔ جدید عصری، سائنسی اور فکری موضوعات اس انسائیکلوپیڈیا کا خاصہ ہیں۔
قرآنی انسائیکلو پیڈیا 8 جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں تقریباً 5 ہزار موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے جوکہ 8 ضخیم جلدوں کے مشمولات کا خلاصہ ہے۔ اِس کے مطالعہ سے ذہن میں پورے انسائیکلو پیڈیا کا اجمالی خاکہ نقش ہو جاتا ہے اور ابواب کی تفصیل تک رسائی میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ قاری کی سہولت کے لیے قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں شامل عنوانات کو عصری تقاضوں اور ضروریات کے مطابق عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور الفاظ کے مطالب و مفاہیم کے لئے اِس کی آخری تین جلدیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر لفظ کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے تاکہ عربی زبان سے واقف اور نا واقف یکساں استفادہ کر سکیں۔
اگرچہ قرآن مجید میں مذکور جملہ مضامین اور موضوعات کا احاطہ ناممکن ہے، تاہم ذیل میں قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی چند ایک نمایاں خصوصیات اور چیدہ چیدہ موضوعات کا تعارفی خاکہ پیش کیا جاتا ہے:
جلد اول کے ابتدائی 400 صفحات، موضوعات کی فہرست پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ اِس میں وجودِ باری تعالیٰ، تصورِ توحید، ایمان باللہ، ذات و صفاتِ الٰہیہ کا شرح و بسط کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے۔ کائنات کے عدم سے وجود میں لائے جانے، اُس کے مقصدِ تخلیق، نظامِ شمسی، گردشِ لیل و نہار، انسان کی تخلیق اور اس کے ارتقاء و نشو و نما کے مراحل، زمین و آسمان کی لا محدود وسعتوں، پہاڑوں اور سمندروں کی حقیقت وافادیت، زندگی اور موت کا فلسفہ، عالمِ اَرواح اور جنت و دوزخ جیسے موضوعات سے وجودِ باری تعالیٰ پر استدلال کیا گیا ہے۔
توحید کیا ہے؟ اَسماء ذاتِ اِلٰہیہ کی عظمت کیا ہے؟ صفات اور اَفعالِ باری تعالیٰ کیا ہیں؟ ایمان کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟ اسی طرح ایمانیات کے ذیل میں متعلقہ دیگر اہم موضوعات جلد اول میں شامل ہیں۔
جلد دوم میں اِیمانیات کے تسلسل میں اِسی موضوع کے مزید مضامین کا اِحاطہ کرتے ہوئے آیات کو جمع کیا گیا ہے۔ توحید کی تمام تفصیلات ذکر کرنے کے بعد شرک کی حقیقت، مشرکین کی نفسیات، شرک کے عوامل و مضمرات اور اس سے متعلقہ جملہ عقائد و احکام پر 50 سے زائد موضوعات قائم کیے گئے ہیں، جن میں سیکڑوں قرآنی آیات سے استدل کیا گیا ہے اور اس موضوع کی تفصیلات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسی جلد میں اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کی نوعیت، حقِ ربوبیت اور حقِ عبدیت کے ذیل میں محبتِ الٰہی، عبادتِ الٰہی، توکل علی اللہ، اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن، تعلق باللہ میں صدق و اخلاص، ذکرِ الٰہی کی اہمیت، مجالسِ ذکر کی فضیلت، انسان کی ایمانی زندگی کو درپیش خطرات، نیز نفاق اور اس پر وارِد ہونے والی کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد اِس جلد میں ایمان بالرسالت کے حوالے سے کثیر موضوعات قائم کیے گئے ہیں جن میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہے۔ اس کے ذیل میں نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ پر ایمان اور اس کی معرفت کا بیان ہی نہیں بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص و کمالات کا تفصیلی ذکر بھی ہے، نیز محبت و اتباعِ رسول ﷺ اور تعظیم و توقیرِ رسول ﷺ کے خصوصی قرآنی احکام کا تفصیلی بیان ہے، تحفظِ عظمتِ رسالت کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺ پر منکرین و مشرکین اور اہلِ کتاب کے اعتراضات کے قرآنی جوابات بیان کیے گئے ہیں۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے خلاف یہودِ مدینہ، منافقین اور قریشِ مکہ کی سازشیں اور شر انگیز منصوبہ بندی کا بھی بالتفصیل ذکر کیا گیا ہے۔ روزِ قیامت شفاعت کا بیان، تحویلِ قبلہ اور اخلاق و سیرتِ نبوی ﷺ سے متعلق بہت سے مضامین اِس جلد میں بیان کیے گئے ہیں۔
ایمان بالکتب کے باب میں نزولِ قرآن، قرآن حکیم کے فضائل و خصائص، تورات، زبور، انجیل، نیز جملہ اِلہامی کتب اور صحائف پر موضوعات قائم کیے گئے ہیں، قرآن مجید کی حفاظت، صداقت اور حقانیت کے باب میں دلائل درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کے ہر قسم کے کذب و بہتان سے محفوظ و مامون اور شک و شبہ سے بالا ہونے کے دلائل بھی یکجا کر دیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت اور نصیحت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس الہامی، آفاقی اور ہمہ جہتی پیغام کو بطورِ خاص نمایاں کیا گیا ہے۔ جلد دوم میں قرآن مجید کے احترام واکرام، اثرات و برکات اور اس سے تمسّک کے ثمرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مزید برآں انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے مانگی جانے والی تمام دعاؤں کو بھی یکجا کر دیا گیا ہے۔
اس جلد میں ایمان بالملائکہ پر ایک باب بطور خاص شامل ہے۔ فرشتوں کے وجود، ان کے اعمال و افعال، جبریل امین، میکائیل، اسرافیل، ہاروت وماروت، کراماً کاتبین، ملک الموت کے بارے میں تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ جنّات کی حقیقت، اُن کا وجود، اُن کے اعمال و افعال، بالخصوص شیطان کی اصلیت اور اس کی بندگانِ خدا کے ساتھ دشمنی کے بارے میں بھی ایک باب قائم کیا گیا ہے، جس کے مطالعے سے سادہ لوح مسلمانوں کو اعمالِ صالحہ کی رغبت اور خرافات سے اجتناب میں مدد ملے گی۔
تقدیر کیا ہے؟ اچھی بری تقدیر سے کیا مراد ہے، کفار و مشرکین کا تصورِ تقدیر کیا ہے، روز مرہ کی گفت گو میں شامل اس اہم ترین موضوع کو آیات ِ قرآنیہ کی روشنی میں بیسیوں مضامین کی صورت میں درج کیا گیا ہے۔
ایمان بالآخرت، بعث بعد الموت (یعنی مرنے کے بعد جی اٹھنا)، موت اور آخرت کا بیان، اعمال سے متعلق باز پرس اور اللہ کے حضور جملہ مخلوقات کی پیشی سے متعلق مضامین اِس جلد میں ذکر کیے گئے ہیں۔
یوم آخرت کے اَحوال کی خبرگیری کے لیے یہ بات انتہائی اَہم اور چشم کشا ہے کہ سادہ لوح مسلمان یومِ آخرت، اُس کی سختی اور جزا و سزا کے بارے میں حکایات اور روایات کی سماعت تک محدود رہتے ہیں، تاہم قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے ذریعے ہر سطح کی علمی اِستعداد رکھنے والے اس جلد کے توسط سے اَحکاماتِ ربّانی سے براہِ راست رشد و ہدایت حاصل کرسکیں گے۔
قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد میں قیامت کے اَحوال، یوم حشر، اس کے مراحل، جنت اور جنتیوں کے اَحوال، درجات و انعامات اور جہنم کے اَحوال اور عذاب کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح نماز کی فرضیت، شرائط، اَہمیت اور حکمت و برکت کا ذکر تفصیل سے ہے۔ روزہ اور اس کے اَحکام، زکوٰۃ و صدقات، اِنفاق فی سبیل اللہ اور حج و عمرہ کے مسائل و اَحکام پر مفصل موضوعات شامل کیے گئے ہیں۔
اِس جلد میں عائلی اَحکام (نکاح، طلاق اور پردہ) جیسے موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ مرد اور عورت کے مساوی حقوق، حقِ خلع اور اُس کے متعلقات، مطلّقہ عورت کے حقوق، بیوہ کے حقوق اور عدّت کے قوانین کا تفصیلی ذکر ہے۔ برتھ کنٹرول (birth control) سے متعلق آیات قرآنی سے استدلال کیا گیا ہے۔
حقوق و فرائض کے باب میں والدین کے حقوق، عورتوں کے حقوق، رشتہ داروں، یتیموں، فقراء و مساکین، ہمسایوں، مہمانوں اور بالخصوص ملازمین اور قیدیوں کے حقوق سے متعلق کثیر آیات ذکر کی گئی ہیں، جن کا مطالعہ عام آدمی کے ساتھ ساتھ وکلاء اور سماجی شخصیات کے لئے بھی بہت مفید ہے۔
اس جلد کے آخر میں علم کی ضرورت و اہمیت اور سائنسی حقائق پر خصوصی مضامین قائم کیے گئےہیں۔ انسانی جسم کا کیمیائی اِرتقاء، حیاتیاتی اِرتقاء، رحمِ مادر میں بچے کی تخلیق اور پرورش، اس کے تخلیقی اور تدریجی مراحل، رحمِ مادر میں جنس کا تعین، حواسِ خمسہ، انگلیوں کے نشانات (finger prints) کی تخلیق کی حکمت، کائنات کی تخلیق کے سائنسی پہلو، زمین و آسمان کی تخلیق کے سائنسی پہلو، علم الطبیعیات، علمِ فلکیات، موسمیات، نباتات، علم الحیوانات اور ماحولیات جیسے متنوع موضوعات اس جلد کی زینت ہیں۔ یہ موضوعات عام قاری کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں، انجینئرز اور ڈاکٹرز کے لئے اہم ہیں۔
اِس جلد میں اَمن و محبت، اِصلاحِ معاشرہ، انسانی زندگی کا تحفظ، فرقہ واریت کی مذمت، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کی ضرورت و اہمیت، غیر مسلموں سے حسنِ سلوک، اُن کے جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ، مذاہب ِ عالم اور اُن کے عقائد جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
قصص الانبیاء اور سابقہ اُمتوں کے عبرت انگیز واقعات کا تذکرہ اس جلد کا خاصہ ہے، جس سے قاری کی توجہ عبرت انگیز نصائح کی طرف ملتفت ہوتی ہے۔ اس جلد میں اُن تمام علاقہ جات اور شہروں کا تذکرہ بھی ملے گا جنہیں قرآن حکیم میں بیان کیا گیا ہے۔
صحابۂ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء و صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب و احترام پر وارد ہونےوالی آیات اور اخلاقِ حسنہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ اخلاقِ سیئہ کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے؛ مثلاً: جھوٹ، بہتان، فتنہ انگیزی، بے حیائی، تہمت، غیبت، کینہ، حسد، ریاکاری، خیانت اور فحاشی جیسے اخلاقِ سیئہ کی مذمت پر مشتمل موضوعات کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے، جن کا مطالعہ ایک اچھا مسلمان اور مفید شہری بننے میں ممدّ اور معاون ہوگا۔ اس باب میں سوسائٹی میں بگاڑ اور فساد کا سبب بننے والے عناصر مثلاً مفسدین، باغی اور فتنہ پرور دہشت گردوں کے بارے میں قرآن مجید میں جو احکامات اور وعیدیں آئی ہیں، انہیں تفصیل کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
اس جلد میں زیر بحث آنے والے قرآنی موضوعات میں خاص طور پر انسانی زندگی کے تحفظ اور انسانی جان کی حرمت پر احکامات سے متعلق مضامین درج کئے گئے ہیں۔ چوتھی جلد کی اہمیت اس اعتبار سے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ اس میں بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی آزادیوں سے متعلق جملہ اَحکامات کا تفصیلی ذکر ہے۔
اِس جلد میں زندگی کے معاشرتی آداب کا ذکر شامل ہے۔ نیز حکومت اور سیاست کے ذیل میں اِسلامی اور دیگر طرز ہائے حکومت، ریاست کی ذمہ داریاں، نظامِ عدل اور اُس کے تقاضے جیسے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اقتصادی و مالی معاملات میں اصولِ تجارت و صنعت، سُود کی حرمت و مذمت، اِسلامی معیشت میں محصولات (taxes) کا تصور، علم الاعداد و الحساب (گنتی کے اعداد) جیسے کئی مضامین ماہرینِ معاشیات کی توجہ کا مرکز ہیں۔
انسانی فطرت، اس کےاحوال و کیفیات، اقوامِ عالم اور اُن کے احوال، قلبِ انسانی کے مختلف اَحوال و کیفیات، دنیوی زندگی کی بے ثباتی، سیر و سیاحت اور دعوت و تبلیغ کے اصول و ضوابط سے متعلق موضوعات، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و محرکات، جہاد و دفاع کے احکامات، امن و صلح کے احکام، غزوات اور اُن کی مصلحتوں سے متعلق خصوصی موضوعات اس جلد میں درج کئے گئے ہیں۔
اس جلد کے آخر میں موضوعات کا ابجدی اشاریہ اس انسائیکلو پیڈیا سے قارئین کے استفادہ کو مزید سہل و آسان بنا دیتا ہے۔ یہ اشاریہ در اصل بیان ہونے والے ہر موضوع کی یک لفظی فہرست ہے جسے حروفِ تہجی کی ترتیب سے تشکیل دیا گیا ہے۔ قاری صرف ایک لفظ کو دیکھ کر اپنے متعلقہ موضوع تک رسائی کر سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص تخلیق ِکائنات کو اس انسائیکلو پیڈیا میں تلاش کرنا چاہتا ہے تو وہ حرفِ تؔ کے تحت تخلیق کا لفظ دیکھ سکے گا۔ اور یوں متعلقہ مضامین تک پہنچ جائے گا۔
قرآنی انسائیکلو پیڈیا كى چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جلد الفاظِ قرآن کے جامع اشاریہ پر مشتمل ہے۔ یہ اشاریہ قارى كی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے تا کہ الفاظِ قرآن کے معانی کے بحر ِ زخار سے ہر خاص و عام آشنا ہو سکے اور حسب ِاستطاعت قرآن فہمی میں درک پیدا كر سكے۔ اگرچہ الفاظِ قرآن کی معاجم پہلے بھی موجود ہیں تا ہم یہ اپنی نوعیت کی الگ معجم ہے، جس سے استفادہ ہر خاص و عام کے لیے نسبتًا آسان ہے۔ الفاظِ قرآن کی دیگر معاجم سے استفادہ کے لیے مطلوبہ لفظ کے مادۂ اشتقاق (root word) كا معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے، جو عربی زبان جاننے والے کے لیے بھی بسا اوقات مشکل ہوتا ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا کی معجم کو استعمال کرنے کے لیے قاری کو کسی لفظ کے مادۂ اشتقاق (root word) کو جاننے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ وہ جس بھی قرآنی لفظ کا معنی دیکھنا چاہتا ہے، اس کے صرف پہلے حرف کے ذریعے مطلوبہ لفظ تک پہنچ سکتا ہے۔ مثلاًاگر لفظ ﴿يَعۡلَمُونَ﴾ کا معنی دیکھنا ہو، تو اس لفظ کا اصل مادہ تلاش کرنے کے بجائے براہِ راست حرف ’’یؔ‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ میں جا کر اس کا معنی بھی دیکھا جا سکتا ہے اور یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں کل کتنی بار اور کن کن آیات میں آیا ہے۔
یہ اشاریہ دیگر معاجم اور اشاریہ جات کی طرح حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے، پھر ہر حرف کے ساتھ تمام حروفِ تہجی سے بننے والے الفاظ کو ترتیب وار بیان کر دیا ہے۔ مثلاً حرف جیمؔ سے شروع ہونے والے الفاظ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے جیمؔ اور الفؔ، پھر جیمؔ اور باؔ، پھر جیمؔ اور تاؔ، یہاں تک کہ جیمؔ سے یا ؔ تک بننے والے تمام الفاظ کو ترتیب سے بیان کر دیا گیا ہے۔
قرآنى الفاظ پر مشتمل اِس اشاریہ کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ایک لفظ جتنی آیات میں وارد ہوا ہوتا ہے اُن آیات كے مطلوبہ حصے کو مع حوالہ اُس لفظ کے ذیل میں بیان کر دیا گیا ہے۔
الفاظ کے معانی بیان کرنے میں بہت زیادہ تفصیلات کے بجائے معروف لغوی معنی پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مگر کچھ الفاظ کی ناگزیریت کی بنا پر اُن کے دو تین معانی بھی بیان کئے گئے ہیں۔ مثلًا ﴿أَنزَلۡنَا﴾ کا سادہ لغوی معنی ہے: ہم نے اتارا/ ہم نے نازل کیا۔ یہ معانی بیان کرنے کے بعد وہ چالیس آیات بطور حوالہ ذکر کر دی گئی ہیں جن میں یہ لفظ وارد ہوا ہے۔
قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی آخری تین جلدیں ’’الفاظِ قرآن کا جامع اشاریہ‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ اُن الفاظ پر مشتمل آیات کی یکجا تجميع سے نئے موضوعات کا فائدہ بھی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو ایسی آیات درکار ہیں جن میں علم، کتاب، قلم، لباس، پانی، آگ، دریا، انسان، جن، جانور، جنت، جہنم، محبت، غضب، گھوڑا، کتا، کشتی، ہوا، سورج، چاند، ستارہ، آسمان، زمین، فضا، بادل، بارش، گرج، چمک، کڑک، بجلی، روشنی، اندھیرا، صبح، شام، زندگی، موت، ہنسنا، رونا، خوف، سکون، سونا، جاگنا وغیرہ جیسے ہزاروں الفاظ کا استعمال ہوا ہے، تو اسے ایسی ساری آیات اس اشاریے میں یکجا مل جائیں گی۔
تین جلدوں پر مشتمل الفاظِ قرآن کے اس اشاریہ کی دیگر خصوصیات اور اس کا طریقۂ استعمال چھٹی جلد کے شروع میں بیان کیا گیا ہے۔
آخر میں اِس اَمر کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ اِس اِنسائیکلوپیڈیا میں عربی طرز کے خط عثمانی میں لکھا ہوا متنِ قرآن مجید اِستعمال کیا گیا ہے، نہ کہ برصغیر پاک و ہند کا طرزِ تحریر۔ لہٰذا رُموزِ اَوقاف اور اُسلوبِ اِعراب اور دیگر علامات بھی اُسی عربی طرز کے مطابق ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ نہ صرف اُمتِ مسلمہ اور پوری انسانیت کے لیے اِس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو رُشد و ہدایت کا ذریعہ بنائے بلکہ یہ مخلوقِ خدا کے لیے رضائے الٰہی اور رضائے رسول ﷺ کے حصول اور حسنِ آخرت کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہو۔[آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ]
(محمد فاروق رانا)
ڈائریکٹر، فرید ملّتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi)
یکم ربیع الاوّل 1440ھ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved