معروف معانی میں توبہ گناہوں کی آلودگی سے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت و فرمانبردای کی طرف ظاہری اور باطنی طور پر رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّه يَتُوْبُ اِلَی اللهِ مَتَابًاo
(الفرقان، 25: 71)
’’اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا۔‘‘
توبہ کا ایک معنی نادم و پشیمان ہونا بھی ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارکہ میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
اَلنَّدَمُ تَوْبَةٌ
(ابن ماجة، السنن، کتاب الزهد، باب ذکر التوبة)
’’(گناہ پر) پشیمان ہونا توبہ ہے۔‘‘
توبہ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔‘‘
(عبد القادر جیلانی، فتوح الغیب: 15)
حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا:
’’توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔‘‘
(غزالی، احیاء العلوم الدین، 4: 4)
مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اسے چھوڑ کر ہدایت کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے، پچھلے تمام گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگ لے کہ وہ بقیہ زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق بسر کرے گا اور گناہوں کی زندگی سے کنارہ کش ہو کر اللہ کی رحمت و مغفرت کی طرف متوجہ ہو جائے گا اس عہد کرنے کا نام توبہ ہے۔
ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا ’’استغفار‘‘ ہے۔ ’’توبہ‘‘ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ ’’استغفار‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَيْهِ ط اِنَّ رَبِّيْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌo
(هود، 11: 61)
’’سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔‘‘
گویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا ’’توبہ‘‘ ہے جبکہ اللہ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔
ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَO
(الحجر، 15: 39)
’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔‘‘
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں شیطان مردود کی اس قسم کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ: وَ عِزَّتِکَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أغْوِي عِبَادَکَ مَادَامت اَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ. قَالَ الرَّبُّ: وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أَزَالُ أَغْفِرُلَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِي
(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 29، رقم: 11257)
’’شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا: (اے اللہ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص مجلس میں بیٹھا اور اس میں اس نے بہت سی لغو باتیں کیں تو وہ اٹھنے سے پہلے سُبْحَانَکَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، أشْهَدُ أن لَا إِلٰهَ إِلَّا أنْتَ أَستغفرُکَ وَ أتُوْبُ إلَيْک (اے اللہ میں تعریف کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں) کہے تو ان لغو باتوں سے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔‘‘
( ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الدعوات، باب ما يقول إذا قام من مجلسه، 5: 431، 432، رقم: 3433)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان اور رحم فرمانے والا ہے اس کا اندازہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور درج ذیل واقعہ سے ہوتا ہے۔
حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
’’جہینہ قبیلہ کی ایک عورت حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس حال میں کہ وہ زنا سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں حد کے جرم کی مرتکب ہوچکی ہوں پس آپ ﷺ مجھ پر (حد) قائم کریں تو اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے ولی کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ اسے اچھی طرح رکھنا۔ جب بچہ پیدا ہو جائے تو اسے میرے پاس لے آنا۔ پس اس نے ایسا ہی کیا۔ آپ ﷺ نے اس عورت کے بارے میں حکم دیا کہ اسے سنگسار کر دیا جائے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: یارسول اللہ! آپ ﷺ اس کا جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے زنا کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک! اس نے ایسی توبہ کی ہے، اگر مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کی جائے تو انہیں کافی ہو جائے اور کیا تم نے اس سے افضل توبہ پائی ہے؟ کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے پیش کر دیا۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الحدود، باب: من اعترف علی نفسہ بالزنا، 3: 1324، رقم: 1696)
توبہ و استغفار کی فضیلت اس بات سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تائب کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھولنے کا حکم فرماتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کلمہ شہادت پڑھا اور یہ دعا مانگی
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِيْنَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهَّرِيْنَ.
’’اے اللہ! مجھے خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک ہونے والوں میں سے بنا دے۔
تو اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔‘‘
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الطهارة، باب ما يقال قيال بعد الوضوء، 1: 99، رقم: 55)
توبہ و استغفار کرنے والوں پر اللہ رب العزت کی رحمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًاO يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًاO وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًاO
(نوح، 71: 10 - 12)
’’پھر میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر بڑی زوردار بارش بھیجے گا۔ اور تمہاری مدد اَموال اور اولاد کے ذریعے فرمائے گا اور تمہارے لئے باغات اُگائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔‘‘
توبہ کرنے سے نہ صرف انسان کی برائیاں مٹ جاتی ہیں بلکہ تائب کے نامہ اعمال میں اللہ رب العزت اتنی ہی نیکیوں کا اضافہ فرما دیتا ہے۔
سورۃ الفرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO
(الفرقان، 25: 70)
’’مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
جو لوگ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت کا سوال نہیں کرتے اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے توبہ نہیں کرتے ان کے لئے قرآن و سنت میں سخت وعید آئی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
(الحجرات، 49: 11)
’’اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
توبہ کی دو اقسام ہیں:
ظاہری توبہ یہ ہے کہ انسان قولاً و فعلاً اپنے تمام اعضائے ظاہری ( آنکھ، ناک، کان، ہاتھ اورپاؤں وغیرہ) کو گناہوں اور برائیوں سے ہٹا کر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگا دے اور خود کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا رہے۔ نیز شریعتِ مصطفیٰ ﷺ کے مخالف افعال سے تائب ہوکر شرعی احکامات کے مطابق عمل پیرا ہو۔
باطنی توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دل کو گناہوں کی غلاظتوں اور آلائشوں سے پاک کرکے شریعت کے موافق اعمالِ صالحہ کی پابندی کرے۔ جب انسان کا ظاہر حکمِ الٰہی کے موافق ہوجائے اور قلب و باطن بھی اللہ رب العزت کی اطاعت میں ڈھل جائے اور برائی نیکی سے بدل جائے تب تصوف کی ’’ت‘‘ مکمل ہوگی اور اس کو کامل توبہ نصیب ہوگی۔
علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بڑے بڑے اولیاء اللہ اور اکابرین علیہ الرحمۃ کے بھی یہ معمولات تھے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہتے تھے۔ ان میں سے چند جلیل القدر ہستیوں کے معمولات درج ذیل ہیں:
امامِ اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی گریہ و زاری اور معافی مانگنے کا بھی عجب معمول تھا۔ تبع تابعین کے دور کے ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ کی جامع مسجد میں اس ارادے سے رات بسر کرنے آیا کہ دیکھوں امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی شب بیداری کیسی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نمازِ عشاء پڑھنے کے بعد امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ گھر گئے۔ دن کو جو عالمانہ لباس پہنا ہوا تھا تبدیل کرکے اللہ کے حضور پیش ہونے کے لئے غلامانہ لباس پہن آئے اور مسجد کے کونے میں کھڑے ہوگئے، ساری رات اپنی داڑھی کھینچتے رہے اور عرض کرتے رہے مولا! ابو حنیفہ تیرا مجرم ہے۔ اسے معاف کردے، حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ وہ رو رو کر بے ہوش ہو جاتے جب ہوش آتا تو عرض کرتے مولا! اگر قیامت کے دن ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ بخشا گیا تو بڑے تعجب کی بات ہوگی۔
حضرت امام عبد اللہ بن مبارک علیہ الرحمۃ کی سفید داڑھی تھی وہ اس کو پکڑ کر اللہ کے حضور روتے تھے اور عرض کرتے تھے ’’اے مولا! عبد اللہ بن مبارک کے بڑھاپے پر رحم فرما‘‘ وہ ہر وقت معافی مانگتے رہتے تھے۔ ایک روایت منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصری علیہ الرحمۃ اور بڑے بڑے اکابر اولیاء اللہ جب درج ذیل آیت کریمہ پڑھتے:
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍO وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍO
(الانفطار، 82: 13، 14)
’’بیشک نیکوکار جنتِ نعمت میں ہوں گے اور بیشک بدکار دوزخِ (سوزاں) میں ہوں گے۔‘‘
تو حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ رو رو کر بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش میں آئے تو کہا معلوم نہیں کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوگا؟
یہ اللہ کے ان مقبول بندوں کی حالت ہے جن کی ساری زندگیاں بندگی اور اطاعت میں گزریں لیکن ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ نہ بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ خوف کا احساس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت ظالم، غافل اور گنہگار ہیں، ہماری زندگیوں کے شب و روز بغاوت، سرکشی، لالچ اور طلبِ دنیا جیسے شیطانی پھندوں میں الجھے ہوئے ہیں، ہم اپنے نفس کے اسیر ہیں، ان لوگوں کی بندگی اور خوفِ الٰہی کی یہی کیفیت انہیں حیات جاوداں عطا کر گئی۔
اہل اللہ کے ان واقعات سے سبق سیکھ کر ہمیں بھی ہر وقت اللہ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے کیونکہ اسی سے نفس اور قلب کی اصلاح ہوتی ہے، اسی سے ظاہر اور باطن کے احوال درست ہوتے ہیں اور توبہ میں استقامت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے اور ہمیں ہر لحظہ اپنے حضور معافی مانگتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے!
اللہ رب العزت نے اس کائنات میں جنتی مخلوقات کو وجود بخشا ہے سب سے افضل واکمل اور مکرم انسان کو بنایا ہے۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO
(التين، 95: 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا کیا اور کہیں ارشاد فرمایا۔‘‘
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ.
(الاسراء، 17: 70)
’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔‘‘
ان آیات مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے نفس انسانی کو عزت و تکریم سے نوازا ہے۔
دین اسلام ہمیں انسانیت کی تکریم کا جو درس دیتا ہے وہ رنگ ونسل اور مذہب سے بھی بلند ہے۔ انسان کا احترام اس کے رنگ اس کی نسل، خاندان یا مذہب کے باعث نہیں ہے بلکہ انسانیت کا احترام اس کے انسان ہونے کے باعث ہے۔ حضور نبی ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانیت کو جو عزت اور وقار عطا کیا ہے وہ دنیا کا کوئی دستور نہیں دے سکتا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا اَيهَاالنَّاسُ. . . . . . فَاِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هٰذَا فِی بَلَدِکُمْ هٰذَا، فِی شَهْرِکُمْ هٰذَا
(ابن هشام السيرة النبويه)
’’اے بنی نوع انسان تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس ماہ (ذوالحجۃ) اس شہر (مکہ) میں تمہارے لئے اس دن (یوم عرفہ) کی عزت ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانیت کی عزت جان اور مال کو ایک دوسرے پر حرام قرار دے دیا ہے۔ گویا عزت جان ومال کے سلسلہ میں ساری انسانیت برابر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا کردار تکریم انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے سے جنازہ گزرا۔ آپ ﷺ کھڑے ہو گئے صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ یہ یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا میں نفس انسانی کے احترام میں کھڑا ہوا ہوں۔
جو دین پوری انسانیت کے احترام کا درس دے، اپنے ملک میں غیر مسلموں کو عزت، جان، مال، مذہب، معیشت، روزگار وغیرہ کے تمام حقوق نہ صرف دے بلکہ اس کی حفاظت کا بھی ذمہ لے۔ اس معاشرے میں ایک مسلمان کی عزت، جان، مال محفوظ نہ رہے۔ ہر طرف قتل وغارت اور لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہو، جس معاشرے میں عزتیں پامال ہوں، لوگوں کی تذلیل کو شغل بنالیا جائے، دوسرے کے مال واسباب کو بے دریغ لوٹا جائے اور معمولی معمولی مفاد کی خاطر انسانی جان تلف کر دی جائے ایسا معاشرہ اسلامی معاشرہ تو درکنار انسانی معاشرہ کہلانے کے قابل نہیں۔
تکریم انسانیت کی بلندترین سطح یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی دل آزاری نہ کرے، اس کا مذاق نہ اڑائے، اسے اس کے عیبوں کا طعنہ نہ دے، اسے برے ناموں یا لقبوں سے نہ پکارے، اسے اپنے سے کمتریا گھٹیا محسوس نہ کرے، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تکریم انسانیت کا یہی درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ.
(الحجرات، 49: 11)
’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ ان (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہ عورتیں ان (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر ہم اپنے کردار کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج کا معاشرہ تکریم انسانیت کے اس تصور سے کلیتاً عاری ہے۔ دوسروں کا مذاق اڑانا، ان کے عیبوں کو تلاش کرنا اور پھر ان کی تشہیر کرنا ہمارا معمول ہے۔ ہر خاندان محلے اور علاقے کے اندر ایک مرد اور عورت ایسی ہوتی ہے، جس کا کام ہر لمحہ دوسروں کے کردار کی خامیاں بیان کرنا ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کی تذلیل صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ سر اٹھا کر نہ چل سکیں۔ ایسے شخص کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک وہ شخص جس کی اس نے تذلیل کی ہے اسے معاف نہ کر دے۔
ہم اللہ کے حضور معتکف ہوں اور اس کے بندوں سے نفرت بھی کریں، زبانیں ذکر مصطفیٰ ﷺ بھی کرتی رہیں اور ان پر طعنے اور گالیاں بھی رہیں رب کو راضی کریں اور اس کے بندوں کو ستائیں، دکھ دیں لوگ ہماری عزت ہماری گندی زبان کی وجہ سے کریں ایسے کردار کے حامل لوگوں سے متعلق حضور کا فرمان ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک آدمی عرض گزار ہوا۔
يَا رَسُولَ اللّٰهِ اِنَّ فُلَانَةً تُکْثِرُ مِنْ صَلَاتِهَا، وَصَدَقَتِهَا وَصَيَامِهَا غَيْرَ اَنَّهَا تُؤذِی جِيْرَانِهَا بِلِسَانِهَا قَالَ: هِيَ فِی النَّارِ (بخاری)
یا رسول اللہ فلان عورت کا بہت نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور خیرات کرنے کا چرچا ہے مگر وہ اپنی زبان سے اپنے ہمسائے کو تکلیف دیتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشادہے۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم . . . يَحْسَبُ اَمْرِی مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَّحْقِرَ اَخَاهُ الْمُسْلِمُ
(مسلم الصحيح، 4: 1986 رقم 2564)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔
آج ہم لوگوں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں، جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے انہیں معاشرے میں ذلت ورسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ ہم بھی سر اٹھانے کے قابل نہ ہوں گے۔ اصل ذلت اور رسوائی تو میدان حشر میں ہو گی جب ساری کائنات کے سامنے اعمال کھلیں گے۔ اس وقت بندہ چاہے گا کہ کوئی راستہ نکلے اور آج رسوائی نہ ہو۔ نامہ اعمال کھلنے نہ پائے وہاں کسی کی مجال نہ چلے گی، زبانیں بند ہوں گی، اعضاء گواہی دیں گے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے محشر کے اسی منظر سے پناہ مانگی تھی۔
تُو غَنِی اَز ہَر دوعَالَم مَن فَقیر روزِ مَحشر عُذر ہَائے
مَن پَذیر
گَر تُو مِی بِینِی حِسَابَم نَاگُزِیر اَزْ نِگَاہِ مصطفیٰ پِنہاں بَگِیر
مولا تو دوعالم کا بادشاہ اور تیری ذات مستغنی ہے۔ میں ایک ادنی سا فقیر ہوں، میدانِ حشر میں گناہوں پر میرے عذر، معذرتیں قبول کر لینا اور اگر ایسا ہو کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا حساب لیا جانا ضروری ہو جائے، تیری مرضی ہو کہ اس کی کتاب کھولی جائے اور یہ رسوا ہو، مولا اس لمحے تجھے روکنے والا تو کوئی نہیں ہے لیکن ایک دعا قبول کرنا، میرا حساب میرے مصطفیٰ ﷺ کے سامنے نہ لینا مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرنا۔ منہاج القرآن کے مرکز پر اجتماعی اعتکاف میں اللہ کے در پر آنے والے سوالیو! ہم سب کی تمنا یہی ہے کہ میدان حشر میں ہمیں رسوا نہ کیا جائے ہمارے اعمال نہ کھولے جائیں، ہم بغیر حساب کے جنت روانہ ہوں۔ اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں بندے تیری یہ آرزو پوری ہو سکتی ہے تو زمین پر میرے بندوں کو رسوا نہ کر، مولا تجھے رسوا نہیں کرے گا۔
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم . . . مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَرَّهَ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
(بخاری الصحيح، 2: 862، رقم 2310)
جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ آئیں اپنی کتاب بند رکھوانے کے لئے دوسروں کی کتاب ہم بند رکھیں سر حشر آقا کے سامنے رسوائی اور ذلت سے بچنے کے لئے لوگوں کو رسوا کرنا چھوڑ دیں۔ بغیر حساب کے جانے کی تمنا ہے تو بندوں کا حساب لینا چھوڑ دے۔
وگرنہ اللہ نے اعلان کر رکھا ہے۔
مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ
(بخاری الصحيح، 5: 2235، رقم: 5651)
’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا۔‘‘
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَه لَا شَرِيْکَ لَه وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه.
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکْبَرُط وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِيْمِO
’’اللہ تعالی کی ذات پاک ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق بلند رتبہ اور بزرگی والے رب ہی کی طرف سے ہے۔‘‘
اِن احادیثِ مقدسہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے مذہب میں فتنوں کے داخل ہونے کا تفصیلی ذکر فرمایا اور یہ وضاحت فرمائی کہ دورِ فتن میں دین اور اِسلام کا نام لینے والی اور قرآن، نمازاور روزہ کی پابند ایسی جماعتیں بھی ہوں گی، جن کے ظاہری اَعمال تم سے زیادہ اور بہتر ہوں گے مگر اُن کے بغض و عداوت اور فتنہ و فساد کے باعث سینے اِیمان کے نور سے خالی ہوں گے۔ لہٰذا تم صرف تلاوتِ قرآن یا نماز روزہ کا پیغام سمجھ کر ان میں شامل ہو کر اپنا ایمان ضائع نہ کر بیٹھنا۔ اس واضح تنبیہ کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ دورِ فتن میں محض نماز روزہ کی کثرت کرنے والی جماعتیں بھی فتنہ و شر سے محفوظ نہیں ہوں گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے دور میں انسان پناہ کے لیے کہاں جائے، اُسے کہاں سے امان میسر آئے گی؟ ایسے دور فتن میں پناہ کے حصول کے لئے قرآن و حدیث سے ہمیں مکمل رہنمائی میسر آتی ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ کہف میں اَصحابِ کہف کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے فتنہ و فساد کے دور میں اپنا اِیمان بچانے کے لئے غار میں پناہ لیتے ہوئے اللہ کے حضور عرض کی تھی:
رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًاo
(الکهف، 18: 10)
’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo‘‘
اِسی طرح سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھی عزیزِ مصر کے محل میں برائی اور بدکاری کی دعوت دینے والے پُر فتن ماحول سے نجات پانے کے لئے دعا کرتے ہوئے عرض کی:
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِی اِلَيْهِ.
(يوسف، 12: 33)
’’یوسف علیہ السلام نے (سب کی باتیں سن کر) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اُس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔‘‘
فتنے کے ماحول سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا مفہوم حضور کے ارشاد گرامی میں بھی ملتا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمان شخص کا سب سے بہترین مال ایک بکری ہوگی جس کے ساتھ وہ پہاڑ کی چوٹی اور بارش کے نازل ہونے کی جگہ پر جائے گا اور اپنے دین کو بچانے کے لیے فتنوں کے شر سے بھاگے گا۔‘‘
گویا دورِ فتن میں پناہ کی تلاش اہلِ ایمان، اللہ کے مقرب بندوں اور انبیاء علیہ السلام کی سنتِ مبارکہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا آیات و احادیث میں غار، قید خانے اور پہاڑوں کا ذکر آیا ہے، اُن سے کیا مراد ہے؟ کیا آج فتنہ و فساد کے اِس ماحول میں ہم بھی پہاڑوں پر پناہ لیں، غاروں یا گھروں میں اپنے آپ کو قید کر لیں؟ ہرگز نہیں۔ اِسلام رہبانیت کی اِجازت نہیں دیتا اور نہ ایسا ہر شخص کے لئے ممکن ہے۔ لہٰذا ہمیں ان آیات و احادیث میں غار اور پناہ کے مفہوم کو سمجھنا ہو گا۔ یہاں غار اور قید خانے سے مراد ایک ایسا ماحول ہے جو ایمان کو کفر و شرک اور فتنہ و فساد سے بچائے اور وہ ماحول باری تعالیٰ کے فضل و رحمت اور مدد و نصرت سے ہی میسر آ سکتا ہے۔
غار، قید خانہ یا معاشرہ، اِنسان خواہ کہیں بھی زندگی گزار رہا ہو، جب وہ اَصحابِ کہف یا سیدنا یوسف علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مدد طلب کرتا ہے تو اُسے ہر جگہ پناہ میسر آتی ہے۔
اللہ د کی مدد و نصرت اور رحمت کا حصول ہی ولایتِ رحمٰن ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے متعدد احادیثِ مقدسہ میں کسی صالح اور صحیح العقیدہ جماعت میں شمولیت کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ولایت کے حصول کے مترادف قرار دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
لَا يَجْمَعُ اللهُ هَذِهِ الْاُمَّةَ عَلَی الضَّلَالَةِ اَبَدًا. يَدُ اللهِ عَليَ الْجَمَاعَةِ فَاتَّبِعُوْا السَّوَادَ الاَعْظَمَ فَاِنَّهُ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ.
(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1: 99 - 201، رقم: 391 - 397)
’’اللہ تعالیٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر اِکٹھا نہیں فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اِتباع کرو اور جو اُس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘
اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے دورِ فتن میں ایمان کے تحفظ کے لیے جماعت میں شمولیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ گویا کسی صالح اور صحیح العقیدہ جماعت کے ساتھ وابستگی ایسے ہی ہے جیسے غار میں پناہ لینا اور اپنے ایمان کو فتنوں سے محفوظ کرنا۔
جماعت سے وابستگی کی ضرورت کی وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور اِجتماعیت کا دور ہے۔ کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ دور اجتماعیت کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں بن چکی ہے۔ یہاں ہر انفرادی جدوجہد بھی کسی نظام کے تحت اجتماعی جدوجہد کا حصہ ہوتی ہے۔ اس دورِ فتن میں زندگی کے ہر شعبے کی طرح شیطان اور شیطانی قوتیں حق کے خلاف اجتماعی اور منظم انداز میں برسرپیکار ہیں۔ باطل کبھی کلچر کے نام پر، کبھی جدت اور روشن خیالی کے عنوان سے، کبھی جمہوریت اور اظہارِ رائے کی آزادی کے موضوع سے، کبھی حقوقِ نسواں کا جھنڈا بلندکرکے اور کبھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا لیبل لگا کر سینکڑوں اِجتماعی کوششوں کے ذریعے حق اور اہل حق کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ آج اہلِ حق علمی، فکری، نظریاتی اور اعتقادی بے شمار حملوں کی زد میں ہیں۔
ایسے دور میں محض اِنفرادی جدوجہد سے ایمان بچانا ناممکن ہے۔ اس اِجتماعی پرفتن دور میں تقویٰ کی آرزو ایک حسین فریب ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ جیسے کفر اور شیطانی طاقتیں متحد ہو کر اِسلام کے خلاف جس جس سطح پر حملہ آور ہیں، اہلِ حق بھی اُن کے مقابلے میں ہر اُس سطح پر اِجتماعی جدوجہد کریں۔ اگر آج ہم اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے اِیمان کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں کفر کے خلاف متحد ہو کر اِجتماعی جدوجہد کرنا ہوگی اور اِجتماعی جدوجہد ایک منظم تحریک یا جماعت ہی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے بھی خیر اور بھلائی کے کام کو مل کر انجام دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى.
(المائده، 5: 2)
’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دُوسرے کی مدد کیا کرو۔‘‘
جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اپنے اِرد گرد موجود جماعتوں اور تنظیموں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کئی جماعتیں نیکی اور خیر کی دعوت دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی نمازیں، قرآن حکیم کی تلاوت اور دیگر اعمال بھی پرکشش ہوتے ہیں لیکن مقاصد میں فتنہ و فساد اور نفرت و کدورت پیدا کرنا شامل ہو تا ہے۔ ایسے میں سادہ لوح مسلمان کس تحریک، جماعت یا ادارے میں شمولیت اختیارکریں۔ ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سی شرائط ہیں جنہیں پورا کرنے والی جماعت، تحریک یا ادارے میں شمولیت نورِ ایمان بچا سکتی ہے۔ ذیل میں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویہ ذکر کی جا رہی ہیں جن سے بہترین جماعت کی شرائط اخذ کی جا سکتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ.
(آل عمران، 3: 104)
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اللہ عزوجل يَبْعَثُ لِهذِهِ الْاُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.
(ابو داؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب ما ذکر فی قرن المائده، 4: 901، رقم: 4201)
’’اللہ تعالی اِس اُمت کے لیے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اَشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (اُمت) کے لیے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
فسادِ اُمت کے دور میں حضور ﷺ کے اُسوہ یعنی کردار و عمل سے مضبوط تعلق رکھنے والی جماعت اور لوگوں کے اَجر کا ذکر کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِي فَلَهُ اَجْرُ مِائَةِ شَهِيْدٍ.
(بيهقی کتاب الزهد الکبير، 2: 118، رقم: 207)
’’جس نے اُس وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھاما جب میری اُمت فساد میں مبتلا ہو چکی ہوگی تو اُس کے لیے سو شہیدوں کے برابر ثواب ہے۔‘‘
اِن آیات و احادیث کی روشنی میں درجِ ذیل شرائط میسر آتی ہیں جن پر پوری اترنے والی جماعت، تحریک یا اِدارہ لوگوں کو ایمان کے تحفظ کی ضمانت دے سکتاہے۔ اگرچہ قرآن و حدیث میں دیگر کئی شرائط کا بھی ذکر ہے مگر یہ تین بنیادی شرائط ہیں:
مادیت اور نفسانیت کا طوفان دین اور دینی اَقدار کے خلاف اَزل سے برسرپیکار ہے۔ گردشِ زمانہ کے ساتھ برائی غلبہ پاتی چلی جارہی ہے اور نیکی دبتی جارہی ہے۔ اخلاص و محبت میں کمی، حرص و ہوس میں اضافہ، دین کے محافظ طبقے کی بے عملی اور جہالت کے باعث معاشرے میں اَخلاقی اور رُوحانی اَقدار اپنا اثر کھو بیٹھتی ہیں۔ جب اَفرادِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ دینی قوتیں بھی نتیجہ خیزی کے یقین سے عاری ہو جائیں تو معاشرہ کلی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے دور میں وِلایتِ رحمٰن کی حامل تحریک یا جماعت وہی ہوگی جو ایک طرف نیکی اور خیر کی تبلیغ (اَمر بالمعروف) کا فریضہ سرانجام دے گی اور دوسری طرف اپنے عمل اور کردار کے ذریعے برائی کے خلاف جہاد (نہی عن المنکر) بھی جاری رکھے گی۔
ایک تجدیدی تحریک کتاب وسنت سے اپنا تعلق مضبوط رکھتی ہے۔ اس کی تبلیغ سے لوگوں میں پیار، محبت اور اخوت کو فروغ ملتا ہے، نفرتیں اور کدورتیں ختم ہو تیں ہیں۔ اَفرادِ معاشرہ کو مایوسیوں کے ان اندھیروں سے نکالنا، مٹی ہوئی جملہ اَقدار کو ہر ہر جہت سے بحال کرنا، عقیدے و ایمان کے تحفظ سے لے کر معاشرے میں نیکی اور خیر کو غالب کرنے تک ہر ہر سطح پر باطل طاغوتی طاقتوں سے مسلسل جہاد کرنا ایک تجدیدی تحریک و جماعت کا ہی کردار ہوسکتا ہے۔
شیطانی طاقتوں کا حملہ صرف مذہبی، اَخلاقی اور روحانی اَقدار پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مادی علوم وفنون میں تیز رفتار ترقی اسلام کے علمی و فکری دفاع کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس کے اَفکار و نظریات اور تحقیق کو قدیم اور متروک سمجھا جانے لگتا ہے۔ یوں جدید عصری و سائنسی علوم اور اسلامی علوم میں ایک خلیج حائل ہو جاتی ہے جو دینی علوم کے ذخیرے کو کتب کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ عالم کفر اِسلام کے وجود اور اس کے ہر گوشے کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسے ناقابلِ عمل دین ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
علمی و فکری پسماندگی کے ایسے دور میں ایک مجدد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ علمی فیض و حکمت کے ذریعے اسلامی علم و تحقیق کو اَز سرِنو زندہ کرتا ہے۔ وہ اسلامی علوم و فنون کو عصری علوم کے نہ صرف برابر لاکھڑا کرتاہے بلکہ اسلامی علوم کی فکری و نظریاتی برتری ثابت کرتا ہے۔ وہ قرآن وحدیث، تفسیر اور فقہ کے ساتھ ساتھ جدید عصری و سائنسی علوم پر بیک وقت مہارت رکھتے ہوئے اجتہاد کے دروازے کھولتا ہے اور دینی تعلیمات کو دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق قابلِ عمل بناتا ہے۔
مجددانہ جدوجہد کا طرۂ اِمتیاز نسبتِ مصطفیٰ ﷺ ہوتی ہے۔ جو تحریک یا جماعت حضور ﷺ کی نسبت کو دیگر سارے پہلوؤں پر غالب رکھ کر اسی سے اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دیتی ہے اور اسی سے اَخلاقی و روحانی اَقدار کا نمونہ اَخذ کر کے کردار و عمل کا معیار متعین کرتی ہے وہی تجدیدی تحریک ہے۔ الغرض مجددانہ تحریک کے فکر و نظریہ اور کردار و عمل کا مرکز و محور ذاتِ مصطفیٰ ﷺ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی جماعت یا تحریک خواہ اس کے افکار و نظریات کتنے ہی اچھوتے اور دل لبھانے والے کیوں نہ ہوں اگر اُس تحریک یا جماعت کی ترجیحات میں تعلق بالرسالت نہیں اور اُس کے اَفکار و نظریات عشق و محبتِ رسول ﷺ سے عاری ہیں تو اُس جماعت یا گروہ کا اِیمان مکمل نہیں۔ محبتِ رسول ﷺ اصلِ ایمان ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاO
(النساء، 4: 61)
’’اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف آؤ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِينَ.
(بخاری، کتاب الايمان، باب حب الرسول من الايمان، 1: 14 رقم، 15)
’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
کس جماعت کی تجدیدی کاوِشیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں مقبول ہیں اور کون سی کوششیں اور محنتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں مردود ہیں اس کے تعین کے لیے سب سے بڑی نشانی محبت و عشقِ رسول ﷺ ہے۔ قرآن و حدیث کی متعین کردہ یہ وہ شرائط یا تقاضے ہیں جن کی روشنی میں ہم کسی بھی تحریک یا جماعت کو مجددانہ تحریک سمجھ سکتے ہیں اور اس میں شمولیت کے ذریعے دین و ایمان کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ اب ہم اس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ دورِ حاضر میں جاری تحریکوں اور جماعتوں میں کون سی تحریک یا جماعت اس مجددانہ کردار کی حامل ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved