89: 1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ أُمَّتِي یُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوْءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیْلَ غُرَّتَهٗ، فَلْیَفْعَلْ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب فضل الوضوء، 1: 63، الرقم: 136، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب استحباب إطالۃ الغرۃ والتحجیل في الوضوء، 1: 216، الرقم: 246، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 400، الرقم: 9184، وأبو عوانۃ في المسند، 1: 190، الرقم: 603
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک روزِ قیامت میری اُمت (کے اَفراد) کو وضو کے نشانات کی بدولت پنج کلیان (سفید و روشن چہرے اور چمک دار ہاتھ پاؤں والے) کہہ کر بلایا جائے گا۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھاسکتا ہے وہ ایسا ضرور کرے (یعنی کثرت کے ساتھ وضو کا اہتمام کیا کرے)۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
90: 2. وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَتَی الْمَقْبُرَةَ، فَقَالَ: اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَاللهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. وَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَیْنَا إِخْوَانَنَا. قَالُوْا: أَوَلَسْنَا إِخْوَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانُنَا الَّذِیْنَ لَمْ یَأْتُوْا بَعْدُ. فَقَالُوْا: کَیْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ یَأْتِ بَعْدُ مِنْ أُمَّتِکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ رَجُـلًا لَهٗ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ بَیْنَ ظَهْرَيْ خَیْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ، أَ لَا یَعْرِفُ خَیْلَهٗ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: فَإِنَّهُمْ یَأْتُوْنَ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَی الْحَوْضِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وابْنُ مَاجَہ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب استحباب إطالۃ الغرۃ والتحجیل في الوضوء، 1: 218، الرقم: 249، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 408، الرقم: 9281، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزہد، باب ذکر الحوض، 2: 1439، الرقم: 4306، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1: 6، الرقم: 6، وأبو یعلی في المسند، 11: 387، الرقم: 6502
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ قبرستان تشریف لائے اور فرمایا: السّلام علیکم! اے مومنو! ہم بھی اِن شاء اللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے (یعنی بعد کے زمانوں میں آئیں گے)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اپنی امت کے اِن لوگوں کو جو ابھی تک نہیں آئے کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر کسی شخص کے پنج کلیان (سفید چہرے اور سفید ٹانگوں والے) گھوڑے، کالے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں توکیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے شناخت نہیں کر سکے گا؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علہم اجمعین نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: جب میری اُمت کے یہ لوگ جب آئیں گے تو ان کے چہرے اور ہاتھ پائوں وضو کی بدولت سفید اور چمک دار ہوں گے اور میں ان کے استقبال کے لیے پہلے سے حوض پر موجود ہوں گا۔
اِسے امام مسلم، احمد، ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
91: 3. عَنْ نُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ: أَنَّهٗ رَآی أَبَا هُرَیْرَةَ یَتَوَضَّأُ، فَغَسَلَ وَجْهَهٗ وَیَدَیْهِ حَتّٰی کَادَ یَبْلُغُ الْمَنْکِبَیْنِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْهِ حَتّٰی رَفَعَ إِلَی السَّاقَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ أُمَّتِي یَأْتُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَهٗ، فَلْیَفْعَلْ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب استحباب إطالۃ الغرۃ والتحجیل في الوضوء، 1: 216، الرقم: 246 (35)، وابن حبان فيالصحیح، 3: 324، الرقم: 1049
نعیم بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا اور لگتا تھا کہ وہ اپنے کندھوں تک دھو ڈالیں گے، پھر انہوں نے اپنے پاؤں کو دھویا حتیٰ کہ پنڈلیوں کو بھی دھو ڈالا، پھر کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: روزِ قیامت میری امت کے لوگ اس طرح آئیں گے کہ وضو کے نشانات کی بدولت ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں سفید و چمکدار ہوں گے، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس چمک کو بڑھاسکتا ہے ضرور بڑھائے۔
اِسے امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
92: 4. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ یُؤْذَنُ لَهٗ بِالسُّجُوْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یُّؤْذَنُ لَهٗ أَن یَّرْفَعَ رَأْسَهٗ، فَأَنْظُرَ إِلٰی بَیْنَ یَدَيَّ، فَأَعْرِفَ أُمَّتِي مِنْ بَیْنِ الْأُمَمِ، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلُ ذٰلِکَ وَعَنْ یَمِیْنِي مِثْلُ ذٰلِکَ، وَعَنْ شِمَالِي مِثْلُ ذٰلِکَ. فَقَالَ لَهٗ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، کَیْفَ تَعْرِفُ أُمَّتَکَ مِنْ بَیْنِ الْأُمَمِ فِیْمَا بَیْنَ نُوْحٍ إِلٰی أُمَّتِکَ؟ قَالَ: هُمْ غُرٌّ مُحَجَّلُوْنَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوْءِ لَیْسَ أَحَدٌ کَذٰلِکَ غَیْرَهُمْ، وَأَعْرِفُهُمْ أَنَّهُمْ یُؤْتُوْنَ کُتُبَهُمْ بِأَیْمَانِهِمْ، وَأَعْرِفُهُمْ یَسْعٰی بَیْنَ أَیْدِیْهِمْ ذُرِیَّتُهُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 199، الرقم: 21785، والحاکم في المستدرک، 2: 520، الرقم: 3784
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: روز قیامت سب سے پہلے سجدے کی اجازت مجھے ملے گی اور سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت بھی مجھے دی جائے گی۔ میں اپنے سامنے دیکھوں گا اور تمام اُمتوں میں سے اپنی اُمت کو پہچان لوں گا اور اسی طرح اپنے پیچھے، دائیں اور بائیں بھی اسے پہچان لوں گا۔ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: یا رسول الله، آپ نوح علیہ السلام کی اُمت سے لے کر اپنی اُمت تک کے لوگوں میں اپنی اُمت کو کیسے پہچانیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے اعضاء وضو کے نشانات کی بدولت کہ ایسے چمک رہے ہوں گے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس طرح نہیں ہوگا اور میں انہیں اس لیے بھی پہچان لوں گا کہ ان کے اَعمال نامے انہیں دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے،اس لیے بھی کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے دوڑ رہی ہوں گی۔
اِسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔
قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي التَّمْهِیْدِ: وَأَمَّا قَوْلُهٗ: فَإِنَّهُمْ یَأْتُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوُضُوْءِ، فَفِیْهِ دَلِیْلٌ عَلٰی أَنَّ الْأُمَمَ أَتْبَاعُ الْأَنْبِیَآءِ لَا یَتَوَضَّؤُوْنَ مِثْلَ وُضُوْئِنَا عَلَی الْوَجْهِ فَالْیَدَیْنِ فَالرِّجْلَیْنِ، لِأَنَّ الْغُرَّةَ فِي الْوَجْهِ، وَالتَّحْجِیْلَ فِي الْیَدَیْنِ وَالرِّجْلَیْنِ، هٰذَا مَا لاَ مَدْفَعَ فِیْهِ عَلٰی هٰذَا الْحَدِیْثِ، إِلَّا أَنْ یَّتَأَوَّلَ مُتَأَوِّلُ هٰذَا الْحَدِیثِ أَنَّ وُضُوْءَ سَائِرِ الْأُمَمِ لاَ یَکْسِبُهَا غُرَّۃً وَّلَا تَحْجِیْلاً، وَأَنَّ هٰذِهِ الْأُمَّةَ بُوْرِکَ لَهَا فِي وُضُوْئِهَا، بِمَا أُعْطِیَتْ مِنْ ذٰلِکَ شَرَفًا دَائِمًا، وَلِنَبِیِّهَا ﷺ کَسَائِرِ فَضَائِلِهَا عَلٰی سَائِرِ الْأُمَمِ،کَمَا فُضِّلَ نَبِیُّهَا بِالْمَقَامِ الْمَحْمُوْدِ وَغَیْرِہٖ عَلٰی سَائِرِ الْأَنْبِیَاءِ، وَاللهُ أَعْلَمُ. وَقَدْ یَجُوْزُ أَنْ یَّکُوْنَ الْأَنبِیَاءُ یَتَوَضَّؤُوْنَ، فَیَکْسِبُوْنَ بِذٰلِکَ الْغُرَّةَ وَالتَّحْجِیْلَ، وَلَا یَتَوَضَّأُ أَتْبَاعُهُمْ ذٰلِکَ الْوُضُوْءَ، کَمَا خُصَّ نَبِیُّنَا ﷺ بِأَشْیَاءَ دُوْنَ أُمَّتِہٖ، مِنْهَا نِکَاحُ مَا فَوْقَ الْأَرْبَعِ، وَالْوِصَالُ وَغَیْرُ ذٰلِکَ. فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ مِنْ فَضَائِلِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ أَنْ تُشْبِهَ کُلُّهَا الْأَنْبِیَاءَ، کَمَا جَاءَ عَنْ مُوْسٰی علیه السلام أَنَّهٗ قَالَ: أَجِدُ أُمَّتَهٗ کُلَّهُمْ کَالْأَنْبِیَاءِ، فَاجْعَلْهَا أُمَّتِيْ. قَالَ: تِلْکَ أُمَّۃُ أَحْمَدَ.
ابن عبد البر في التمہید، 20: 258
امام ابن عبد البر ’التمہید‘میں فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کا (اپنی امت کے بارے میں) یہ فرمان: وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گے کہ وضو کے سبب ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں سفید اور چمکدار ہوں گے۔ یہ فرمان اس بات پر دلیل ہے کہ انبیاء سابقین کی پیرو کار امتیں ہماری طرح چہرے، ہاتھوںاور پاؤں کا وضو نہیں کرتی تھیں کیونکہ پیشانی کی سفیدی بھی چہرے میں شامل ہے اور سفیدی دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اس حدیث کے وہ معنٰی ہیں جن کی کوئی دوسر ی تاویل نہیں سوائے اس کے کہ ساری امتوں کا وضو ان کی پیشانی اور ہاتھ پاؤں کو سفید وچمکدار کرنے کا سبب نہیں بنے گا۔ یہ دائمی فضیلت، برکت اور شرف صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی امت ﷺ کو اور خود آپ ﷺ کو عطا کیا گیا ہے۔ ان دیگر خصائص کی طرح جو اس امت کو دیگر ا متوںکے مقابلے میں عطا ہوئے ہیں جیسا کہ اس امت کے نبی (حضرت محمد مصطفی ﷺ)کو تمام انبیاء علیہم السلام پرمقامِ محمود کی فضیلت اور اس کے علاوہ دیگر بے شمار فضیلتیں عطا ہوئیں۔ البتہ خود انبیاء علیہم السلام کے لیے یہ کہنا درست ہے کہ وہ اس طرح کا وضو کرتے ہوں کہ جس کی بدولت ان کی پیشانیاںاور ہاتھ پاؤں سفید و چمکدار ہوںگے مگر ان کے پیرو کار اس طرح کا وضو نہ کرتے ہوں ( یعنی یہ ان انبیاء علیہم السلام کے خصائص میں سے ہو) جیسا کہ ہمارے نبی مکرم ﷺ کو امت کے مقابلے کچھ خصائص عطا کیے گئے ہیں، جیسے چار سے زائد شادیاں کرنا اور صیامِ وصال اور اس طرح کے دیگر خصائص۔ یہ اس امت کی فضیلت ہے کہ اسے انبیاء سے تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام نے عرض کیا: کہ میں کسی نبی کی امت کو انبیاء کی مثل دیکھتا ہوں۔ (مولا!) اسے میری امت بنا دے تو انہیں جواب دیا گیا: یہ احمدِ (مجتبیٰ) ﷺ کی امت ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved