Nadrat-un-Noor fi Fasl al-Tuhur

نجاست دور کرنے کا بیان

بَابٌ فِي إِزَالَةِ النَّجَاسَةِ

{نجاست دور کرنے کا بیان}

الْقُرْآن

(1) اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَo

(البقرة، 2: 222)

بے شک الله بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

(2) یٰٓااَیُّهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْo

(المدثر، 74: 1-4)

اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔

الْحَدِیْث

40: 1. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنها قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیَدْعُو لَهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِهٖ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهٗ إِیَّاهُ وَلَمْ یَغْسِلْهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَزَادَ مُسْلِمٌ: کَانَ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیُبَرِّکُ عَلَیْهِمْ وَیُحَنِّکُهُمْ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبیان بالبرکۃ ومسح رؤوسہم، 5: 2338، الرقم: 5994، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیۃ غسلہ، 1: 237، الرقم: 286، وأحمد بن حنبل في المسند، 6: 212، الرقم: 25812، وابن حبان في الصحیح، 4: 208، الرقم: 1372، وأبو یعلٰی في المسند، 8: 88، الرقم: 4623، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 414، الرقم: 3956

وَفِي رِوَایَۃٍ لَهٗ عَنْھَا رضی اللہ عنها قَالَتْ: أُتِيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِصَبِيٍّ یَرْضَعُ فَبَالَ فِي حَجْرِهٖ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَصَبَّهٗ عَلَیْهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیۃ غسلہ، 1: 237، الرقم: 286.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں بچوں کو لایا جاتا تھا۔ آپ ﷺ ان کے لیے دعا فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بچے کو لایا گیا جس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اس پر بہا دیا اور اسے دھویا نہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: آپ ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ ﷺ انہیں برکت کی دعا دیتے اور انہیں گھٹی دیتے۔

مسلم کی ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے، آپ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شیر خوار بچہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، اس نے آپ ﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوا کر اس جگہ پر بہا دیا۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

41: 2. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْھَا رضی اللہ عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ فَیَدْعُوْ لَهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ مَرَّۃً فَبَالَ عَلَیْهِ، فَقَالَ صُبُّوْا عَلَیْهِ الْمَاءَ صَبًّا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّحَاوِيُّ وَإِسْنَادُهٗ صَحِیْحٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 46، الرقم: 24238، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 93

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی طحاوی کی روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ کی خدمت اقدس میں بچوں کو لایا جاتا تھا، آپ ﷺ ان کے حق میں دعائے برکت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شیر خوار بچہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لایا گیا۔ اس نے آپ ﷺ کی آغوش مبارک میں پیشاب کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس جگہ پر اچھی طرح پانی بہا دو۔

اِسے امام احمد اور طحاوی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

42: 3. وَفِي رِوَایَةِ أُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ رضی اللہ عنها: أَنَّهَا أَتَتْ بِابْنٍ لَهَا صَغِیرٍ - لَمْ یَأْکُلِ الطَّعَامَ - إِلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَجْلَسَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي حَجْرِهٖ، فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِهٖ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَهٗ وَلَمْ یَغْسِلْهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب بول الصبیان، 1: 90، الرقم: 221، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیۃ غسلہ، 1: 238، الرقم: 287، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب بول الصبي یصیب الثوب، 1: 102، الرقم: 374، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب بول الصبي الذی لم یَأکُل الطعام، 1: 157، الرقم: 302، ومالک في الموطأ، 1: 64، الرقم: 141، والدارمي في السنن، 1: 206، الرقم: 741، والبیھقي في السنن الکبری، 2: 414، الرقم: 3954، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 120، الرقم: 570

حضرت اُم قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بچے کو - جس نے ٹھوس غذا کھانی شروع نہیں کی تھی - لے کر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی آغوش مبارک میں بٹھا لیا تو اس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

43: 4. وَفِي رِوَایَةِ أَبِي لَیْلٰی رضی الله عنه: أَنَّهٗ کَانَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَعَلٰی بَطْنِهِ الْحَسَنُ - أَوِ الْحُسَیْنُ، شَکَّ زُهَیْرٌ - قَالَ: فَبَالَ حَتّٰی رَأَیْتُ بَوْلَهٗ عَلٰی بَطْنِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَسَارِیْعَ قاَلَ: فَوَثَبْنَا إِلَیْهِ قَالَ: فَقَالَ ﷺ: دَعُوْا ابْنِي أَوْ لَا تُفْزِعُوْا ابْنِي. قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَصَبَّهٗ عَلَیْهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 348، الرقم: 19080، والطبراني في المعجم الکبیر، 7: 77، الرقم: 6423، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 94

حضرت ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ ﷺ کے بطن مبارک پر امام حسن رضی اللہ عنہ - یا امام حسین رضی اللہ عنہ ، راوی زہیر کو شک ہے - لیٹے ہوئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے پیشاب کر دیا یہاں تک کہ میں نے رسول الله ﷺ کے بطن مبارک پر تیزی سے پیشاب بہتے ہوئے دیکھا، ہم انہیں پکڑنے کے لیے لپکے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔ یا فرمایا: میرے بیٹے کو مت ڈراؤ۔ پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔

اِسے امام احمد، طبرانی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

44: 5. عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهٖ: أَنَّهَا أَبْصَرَتْ أُمَّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنها تَصُبُّ الْمَاءَ عَلٰی بَوْلِ الْغُـلَامِ مَا لَمْ یَطْعَمْ، فَإِذَا طَعِمَ غَسَلَتْهُ، وَکَانَتْ تَغْسِلُ بَوْلَ الْجَارِیَةِ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَیْهَقِيُّ، وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: سَنَدُهٗ صَحِیْحٌ

أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب بول الصبي یصیب الثوب، 1: 103، الرقم: 379، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 416، الرقم: 3965، وابن المنذر في الأوسط، 2: 143، الرقم: 700، وذکرہ العسقلاني في تلخیص الحبیر، 1: 38

حضرت حسن (بصری) اپنی والدہ (حضرت خیرہ) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے فرمایا: میں نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ لڑکے کے پیشاب پر پانی چھڑکا کرتی تھیں جب تک وہ کھانا نہ کھاتا اور جب کھانا کھانے لگتا تو اُسے دھویا کرتی تھیں اور آپ لڑکی کے پیشاب کو (شروع سے ہی) دھوتی تھیں۔

اِسے امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

45: 6. عَنِ ابْنِ أَبِي لَیْلٰی، عَنْ أَخِیْهِ عِیْسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ جَدِّهٖ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنه یَخْبُوْ حَتّٰی صَعِدَ عَلٰی صَدْرِهٖ، فَبَالَ عَلَیْهِ. قَالَ: فَابْتَدَرْنَاهُ لِنَأْخُذَهٗ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ابْنِي ابْنِي، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَصَبَّهٗ عَلَیْهِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 347، الرقم: 19079، والطبراني في المعجم الکبیر، 7: 78، الرقم: 6424

حضرت ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ امام حسن بن علی علیہما السلام گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے آئے اور آپ ﷺ کے سینہ مبارک پر چڑھ گئے اور آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا، ہم ان کو پکڑنے کے لیے فوراً لپکے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بیٹے کو چھوڑ دو، میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔ پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔

اِسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

46: 7. عَنْ لُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَتْ: بَالَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حِجْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي ثَوْبَکَ وَالْبَسْ ثَوْبًا غَیْرَهٗ، فَقَالَ: إِنَّمَا یُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّکَرِ وَیُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْأُنْثٰی.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ، باب في بول الصبي الذي لم یطعم، 1: 174، الرقم: 522، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 1: 113، الرقم: 1288، والطبراني في المعجم الکبیر، 25: 26، الرقم: 40

حضرت لبابہ بنت الحارث نے بیان کیا کہ حسین بن علی علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی آغوش مبارک میں پیشاب کر دیا، میں نے عرض کیا: یا رسول الله! اپنا کپڑا مجھے دے دیجئے اور دوسرا کپڑا پہن لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لڑکے کے پیشاب پر پانی بہایا جاتا ہے اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے۔

اِسے ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

إِخْتِلَافُ الْأَئِمَّةِ فِي غَسْلِ بَوْلِ الرَّضِیْعِ

{شیر خوار بچے کا پیشاب دھونے کے حوالے سے اِختلافِ ائمہ}

قَالَ بَدْرُ الدِّیْنِ الْعَیْنِيُّ: إِنَّ الشَّافِعِیَّةَ احْتَجُّوْا بِهٰذَا عَلٰی أَنَّ بَوْلَ الصَّبِيِّ یُکْتَفٰی فِیْهِ بِاتِّبَاعِ الْمَاءِ إِیَّاهُ وَلَا یُحْتَاجُ إِلَی الْغَسْلِ لِظَاهِرِ رِوَایَةِ مُسْلِمٍ ’’وَلَمْ یَغْسِلْهُ‘‘ وَعَنْ هٰذَا قَالَ بَعْضُهُمْ بِطَهَارَةِ بَوْلِهٖ وَقَالَ النَّوَوِيُّ: الْخِلَافُ فِي کَیْفِیَّةِ تَطْهِیْرِ الشَّیْئِ الَّذِي بَالَ عَلَیْهِ الصَّبِيُّ وَلَا خِلَافَ فِي نَجَاسَتِهٖ. وَقَدْ نَقَلَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا إِجْمَاعَ الْعُلَمَاءِ عَلٰی نَجَاسَةِ بَوْلِ الصَّبِيِّ وَأَنَّهٗ لَمْ یُخَالِفْ فِیْهِ إِلَّا دَاوُدُ وَأَمَّا مَا حَکَاهُ أَبُوْ الْحَسَنِ بْنُ بَطَّالٍ ثُمَّ الْقَاضِي عِیَاضٌ عَنِ الشَّافِعِيِّ وَغَیْرِهٖ أَنَّهُمْ قَالُوْا: بَوْلُ الصَّبِيِّ طَاهِرٌ وَیُنْضَحُ فَحِکَایَتُهٗ بَاطِلَۃٌ قَطْعًا. قُلْتُ: هٰذَا إِنْکَارٌ مِنْ غَیْرِ بُرْهَانٍ وَلَمْ یُنْقَلْ هٰذَا عَنِ الشَّافِعِيِّ وَحْدَهٗ بَلْ نُقِلَ عَنْ مَالِکٍ أَیْضًا أَنَّ بَوْلَ الصَّغِیْرِ الَّذِي لَا یَطْعَمُ طَاهِرٌ وَکَذَا نُقِلَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَدَاوُدَ الظَّاهِرِيِّ ثُمَّ قَالَ النَّوَوِيُّ: وَکَیْفَیَّۃُ طَهَارَةِ بَوْلِ الصَّبِيِّ وَالْجَارِیَةِ عَلٰی ثَلاثَةِ مَذَاهِبَ وَفِیْهَا ثَلاثَۃُ أوْجُہٍ لِأَصْحَابِنَا الصَّحِیْحُ الْمَشْهُوْرُ الْمُخْتَارُ أَنَّهٗ یَکْفِي النَّضْحُ فِي بَوْلِ الصَّبِيِّ وَلَا یَکْفِي فِي بَوْلِ الْجَارِیَةِ بَلْ لَا بُدَّ مِنْ غَسْلِهٖ کَغَیْرِهٖ مِنَ النَّجَاسَاتِ. وَالثَّانِي: أَنَّهٗ یَکْفِي النَّضْحُ فِیْهِمَا. وَالثَّالِثُ: لَا یَکْفِي النَّضْحُ فِیْهِمَا. وَهُمَا شَاذَّانِ ضَعِیْفَانِ وَمِمَّنْ قَالَ بِالْفَرْقِ عَليُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رِبَاحٍ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَیْهِ وَابْنُ وَهْبٍ مِنْ أَصْحَابِ مَالِکٍ l أَجْمَعِیْنَ، وَرُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِیْفَةَ قُلْتُ: عُلِمَ مِنْ ذٰلِکَ أَنَّ الصَّحِیْحَ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ هُوَ التَّفْرِیْقُ بَیْنَ حُکْمِ بَوْلِ الصَّبِيِّ وَبَوْلِ الصَّبِیَّةِ قَبْل أَنْ یَّأْکُلَ الطَّعَامَ.

العیني في عمدۃ القاري، کتاب الوضوء، باب بول الصبیان، 3: 129-130

علامہ بد رالدین عینی لکھتے ہیں: شوافع اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ بچے کے پیشاب پر فقط پانی بہا دینا ہی کافی ہے اور اسے دھونے کی ضرورت نہیں جس طرح کہ مسلم کی روایت سے ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے اسے دھویا نہیں اور اس سے بعض ائمہ نے بچے کے پیشاب کی طہارت کا قول کیا ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ جس شے پر بچے نے پیشاب کیا ہو اس کے پاک کرنے کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے، پیشاب کی نجاست کے بارے میں اختلاف نہیں۔ ہمارے بعض احناف نے بچے کے پیشاب کے نجس ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے اور اس کی داؤد کے علاوہ کسی نے مخالفت نہیں کی اور جو ابو الحسن بن بطال نے روایت کیا ہے اور قاضی عیاض نے امام شافعی وغیرہ سے بیان کیا ہے کہ بچے کا پیشاب پاک ہے اور اس پر فقط پانی چھڑکا جائے گا، ان کا یہ بیان قطعی طور پر باطل ہے۔ میرے خیال میں یہ انکار بغیر کسی واضح دلیل کے ہے کیونکہ یہ فقط امام شافعی ہی سے منقول نہیں بلکہ امام مالک سے بھی منقول ہے کہ وہ چھوٹا بچہ جو ابھی تک کھانا نہیں کھاتا اس کا پیشاب پاک ہے اور اسی طرح امام اوزاعی اور داود ظاہری سے بھی منقول ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ بچے اور بچی کے پیشاب کی طہارت کے حوالے سے تین مذاہب ہیں اور ان میں تین وجوہ ہیں زیادہ صحیح اور مشہور و مختار وجہ یہ ہے کہ بچے کے پیشاب پر چھڑکاؤ کرنا ہی کافی ہے اوربچی کے پیشاب میں یہ کافی نہیں بلکہ اسے دوسری نجاستوں کی طرح لازمی طور پر دھویا جائے گا۔اور دوسرا موقف یہ ہے کہ دونوں کے پیشاب پر پانی بہانا کافی ہے اور تیسرا موقف یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں پانی چھڑک دینا کافی نہیں اور یہ دونوں موقف شاذ اور ضعیف ہیں اور جن لوگوں نے فرق کیا ہے ان میں حضرت علی کرم الله وجہہ، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور مالکیہ میں سے ابن وہب شامل ہیںاوریہ امام ابو حنیفہ سے مروی ہے۔ میرے خیال میں اس سے معلوم ہوا کہ شافعی مذہب میں صحیح یہ ہے کہ بچے اوربچی کے پیشاب کے حکم میں فرق اس سے قبل کیا جاتا ہے کہ وہ کھانا کھاتا ہو۔

قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ مُوَضِّحًا مَوْقِفَهٗ: قَالَ أَبُو عُمَرَ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی أَنَّ بَوْلَ کُلِّ آدَمِيٍّ یَأْکُلُ الطَّعَامَ نَجِسٌ وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي بَوْلِ الصَّبِيِّ وَالصَّبِیَّةِ إِذَا کَانَا مُرْضَعَیْنِ لَا یَأْکُلَانِ الطَّعَامَ فَقَالَ مَالِکٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُهُمَا: بَوْلُ الصَّبِيِّ وَالصَّبِیَّةِ کَبَوْلِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالْحَسَنِ بْنِ حَيٍّ، وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: لَا بَأْسَ بِبَوْلِ الصَّبِيِّ مَا دَامَ یَشْرَبُ اللَّبَنَ وَلَا یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ صَاحِبِ مَالِکٍ وَقَالَ الشَّافِعِیُّ بَوْلُ الصَّبِيِّ لَیْسَ بِنَجِسٍ حَتّٰی یَأْکُلَ الطَّعَامَ وَلَا یُبَیَّنُ فَرْقُ مَا بَیْنَهٗ وَبَیْنَ الصَّبِیَّةِ وَلَوْ غُسِلَ کَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ. وَقَالَ الطَّبَرِيُّ: بَوْلُ الصَّبِيِّ یُتْبَعُ مَائً وَبَوْلُ الصَّبِیَّةِ یُغْسَلُ غَسْلًا وَهُوَ قَوْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ: الرَّشُّ بِالرَّشِّ وَالصَّبُّ بِالصَّبِّ مِنَ الْأَبْوَالِ کُلِّهَا. قَالَ أَبُو عُمَرَ احْتَجَّ مَنْ ذَهَبَ مَذْهَبَ الْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ بِهٰذَا الْحَدِیثِ وَلَا حُجَّةَ فِیهِ لِأَنَّ النَّضْحَ یُحْتَمَلُ أَنْ یَکُونَ أَرَادَ بِهِ صَبَّ الْمَاءِ وَلَمْ یُرِدْ بِهِ الرَّشَّ وَهُوَ الظَّاهِرُ مِنْ مَعْنَی الْحَدِیثِ لِأَنَّ الرَّشَّ لَا یَزِیدُ النَّجَاسَةَ إِلَّا شَرًّا وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلٰی أَنَّ النَّضْحَ قَدْ یَکُونُ صَبَّ الْمَاءِ وَالْغَسْلَ مِنْ غَیْرِ عَرْکٍ کَقَوْلِ الْعَرَبِ: غَسَلَتْنِي السَّمَاءُ.

ابن عبد البر في التمھید، 9: 109

امام ابن عبد البر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ابو عمر کہتے ہیں: مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ہر کھانا کھانے والے آدمی کا پیشاب ناپاک ہے اور شیرخوار کھانا نہ کھانے والے بچے اور بچی کے حکم میں اختلا ف ہے۔ امام مالک،امام ابو حنیفہ اور ان کے صاحبین فرماتے ہیں کہ بچے کا پیشاب آدمی کے پیشاب کی مانند ہے۔ یہ امام ثوری اور حسن بن یحیٰ کا بھی قول ہے۔امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ بچہ جب تک دودھ پیتا ہے اور کھانا نہیں کھاتا اس وقت تک اس کا پیشاب ناپاک نہیں۔ یہ عبدالله بن وھب صاحبِ امام مالک کا قول ہے۔اور امام شافعی فرماتے ہیںبچے کا پیشاب اس وقت تک ناپاک نہیں جب تک وہ کھانا نہیں کھاتا اور وہ بچے اور بچی کے فرق کو بیان نہیں کرتے اور اگر دھو لیا جائے تو میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اور امام طبری فرماتے ہیں: بچے کے پیشاب پرپانی بہایا جائے گا اور بچی کے پیشاب کو اچھی طرح دھویا جائے گا اور امام حسن بصری کا بھی یہی قول ہے اور حضرت سعیدبن مسیب فرماتے ہیں کہ ہر قسم کے پیشاب کے چھینٹوں کو پانی کے چھینٹوں سے اور پیشاب کے بہنے کو پانی کے بہنے سے پاک کیا جائے گا۔ ابو عمر کہتے ہیں: امام اوزاعی اور امام شافعی کا موقف اختیار کرنے والے اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں، حالانکہ اس میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ پانی چھڑکنے میں یہ احتمال ہوتاہے کہ اس سے ارادہ پانی ڈالنے کا اور دھونے کا ہو اور اس سے چھڑکنا مراد نہ ہو۔ یہ حدیث کے معنٰی سے ظاہر ہے کیونکہ چھڑکنا نجاست کو مزید پھیلا دیتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ چھڑکنے سے مراد کبھی دھونا لیا جاتا ہے۔ اور دھونا بغیر نچوڑنے کے ہے جس طرح عربوں کا مقولہ ہے کہ مجھے آسمان نے دھو دیا۔

47: 8. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُکُمْ مِنْ نَوْمِهٖ فَـلَا یَغْمِسْ یَدَهٗ فِي الإِنَاءِ حَتّٰی یَغْسِلَهَا ثَـلَاثًا، فَإِنَّهٗ لَا یَدْرِي أَیْنَ بَاتَتْ یَدُهٗ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب الإستجمار وترا، 1: 72، الرقم: 160، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب کراہۃ غمس المتوضي وغیرہ یدہ المشکوک في نجاستہا في الإناء قبل غسلہا ثلاثا، 1: 233، الرقم: 278، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 241، الرقم: 7280، ومالک فيالموطأ، کتاب الطہارۃ، باب وضوء النائم إذا قام إلی الصلاۃ، 1: 21، الرقم: 37، وأبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب في الرجل یدخل یدہ في الإناء قبل أن یغسلہا، 1: 25، الرقم: 103-105، والترمذي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء إذا استیقظ أحدکم من منامہ فلا یغمس یدہ في الإناء حتی یغسلہا، 1: 36، الرقم: 24، وقال: وہذا حدیث حسن صحیح، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب تأویل قولہ عز وجل: اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ، 1: 6، 7، الرقم: 1، وأیضا في باب الوضوء من النوم، 1: 99، الرقم: 161، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الرجل یستیقظ من منامہ ہل یدخل یدہ في الإناء قبل أن یغسلہا، 1: 138، الرقم: 393.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اس وقت تک برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک اپنے ہاتھ کو تین بار دھو نہ لے کیونکہ اس کو نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ: إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُکُمْ مِنْ نَوْمِهٖ فَلَا یَغْمِسْ یَدَهٗ فِي الْإِنَائِ حَتّٰی یَغْسِلَهَا ثَـلَاثًا، فَإِنَّهٗ لَا یَدْرِي أَیْنَ بَاتَتْ یَدُهٗ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب کراہۃ غمس المتوضي وغیرہ یدہ المشکوک في نجاستہا في الإناء قبل غسلہا ثلاثا، 1: 233 (87)، الرقم: 278، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب تأویل قولہ عز وجل: اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ، 1: 6، الرقم: 1، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 241، الرقم: 7280، والبیہقي في السنن الکبری، 1: 45، الرقم: 203.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اس وقت تک برتن میں ہاتھ نہ ڈالے جب تک اپنے ہاتھ کو تین بار دھو نہ لے کیونکہ اس کو نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

48: 9. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِذَا اسْتَیْقَظَ أَحَدُکُمْ مِنْ مَنَامِهٖ فَلْیَسْتَنْثِرْ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَبِیتُ عَلٰی خَیَاشِیمِهٖ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب الایتار في الاستنثار والاستجمار، 1: 212، الرقم: 238.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو تین بار ناک میں پانی ڈالے کیونکہ شیطانی رطوبت اس کے نتھنوں میں رات گزارتی ہے۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

49: 10. وَعَنْهُ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِذَا وَطِیئَ أَحَدُکُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذٰی فَإِنَّ التُّرَابَ لَهٗ طَهُورٌ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ صَحِیْحٍ وَرَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَیْمَةَ، وَرَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الطہارۃ، باب في الأَذی یصیب النعل، 1: 105، الرقم: 385، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1: 64، الرقم: 279، وابن حبان في الصحیح 4: 249، الرقم: 1403، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1: 148، الرقم: 292، والحاکم في المستدرک، 1: 272، الرقم: 591، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 430، الرقم: 4045.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کسی کے جوتے سے گندگی لگ جائے تو مٹی اُسے پاک کرنے والی ہے (یعنی مٹی پر رگڑنے سے وہ پاک ہو جاتا ہے)۔

اِسے امام ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور اسے امام طحاوی، ابن حبان اور ابن خزیمہ نے بھی روایت کیا ہے، جب کہ امام حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ قَالَ: إِذَا وَطِئَ الْأَذٰی بِخُفَّیْهِ فَطَهُوْرُهُمَا التُّرَابُ.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الطہارہ، باب في الأذی یصیب النعل، 1: 105، الرقم 386، وابن حبان في الصحیح، 4: 250، الرقم: 1404، والبیہقي في معرفۃ السنن والآثار، 2: 252، الرقم: 1280.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضورنبی اکرم ﷺ سے معناًروایت کیا ہے کہ جب موزوں کو گندگی لگ جائے تو مٹی انہیں پاک کر دینے والی ہے (یعنی موزوں کو پاک مٹی پر رگڑ لیا جائے تو حکماً وہ پاک شمار ہوں گے)۔

اِسے امام ابو داود، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

50: 11. عَنْ یَحْیَی بْنِ وَثَّابٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ علیہما السلام عَنْ رَجُلٍ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ فَوَطِیَٔ عَلٰی عَذِرَۃٍ. قَالَ: إِنْ کَانَتْ رَطْبَۃً غَسَلَ مَا أَصَابَهٗ وَإِنْ کَانَتْ یَابِسَۃً لَمْ تَضُرَّهٗ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃ وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ.

أخرجہ ابن أبي شیبہ في المصنف، 1: 58، الرقم: 608.

یحییٰ بن وثاب سے روایت ہے کہ حضرت (عبد الله) بن عباس علیہما السلام سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز کے لیے نکلے اور اس کا پاؤں گندگی پر پڑ جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو وہ گندگی تر ہے تو وہ آدمی متاثرہ مقام کو دھو کر پاک کرے گا اور اگر خشک ہے تو اس سے اس شخص کی طہارت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔

اسے امام ابن اَبی شیبہ نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام رجال حدیث صحیح کے ہیں۔

51: 12. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . إِذْ جَائَ أَعْرَابِيٌّ فَقَامَ یَبُوْلُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ: مَهْ مَهْ. قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تُزْرِمُوْهُ دَعُوْهُ. فَتَرَکُوْهُ حَتّٰی بَالَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ دَعَاهُ، فَقَالَ لَهٗ: إِنَّ هٰذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيئٍ مِنْ هٰذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ؛ إِنَّمَا هِيَ لِذِکْرِ اللهِ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَائَةِ الْقُرْآنِ. أَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ . قَالَ: فَأَمَرَ رَجُـلًا مِنَ الْقَوْمِ، فَجَائَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ فَشَنَّهٗ عَلَیْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الرفق في الأمر کلّہ، 5: 2242، الرقم: 5679، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات، 1: 236، الرقم: 285، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 191، الرقم: 13007، والنسائي في السنن، کتاب المیاہ، باب التوقیت في الماء، 1: 175، الرقم: 329، وأیضا في السنن الکبری، 1: 74، الرقم: 51، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الأرض یصیبہا البول کیف یغسل، 1: 176، الرقم: 528.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول الله ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک اعرابی آیا اور اس نے کھڑے ہو کر مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ نے (اسے) کہا: ٹھہرو، ٹھہرو! راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے مت روکو، اسے پیشاب کرنے دو۔ لہٰذا صحابہ کرام نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا۔ پھر رسول الله ﷺ نے اسے بلایا اور اس سے فرمایا: مساجد کو پیشاب اور دیگر نجاستوں سے آلودہ کرنا جائز نہیں۔ یہ تو ذِکرِ الٰہی اور نماز اور قرآن پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یا جو بھی الفاظ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمائے۔ راوی نے بیان کیا: پھر آپ ﷺ نے صحابہ میں سے ایک آدمی کو پانی کا ڈول لانے کا حکم دیا، وہ شخص پانی کے ڈول بھر لایا اور اس نے اس (پیشاب) پر پانی بہا دیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے، جبکہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، قَالَ: جَائَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي طَائِفَةِ الْمَسْجِدِ، فَزَجَرَهُ النَّاسُ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ ﷺ، فَلَمَّا قَضٰی بَوْلَهٗ أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِذَنُوْبٍ مِنْ مَاءٍ فَأُهْرِیْقَ عَلَیْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب یہریق الماء علی البول، 1: 89، الرقم: 219، وأیضا في باب ترک النبي ﷺ والناس الأعرابي حتی فرغ من بولہ في المسجد، 1: 89، الرقم: 216، ومسلم في الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات، 1: 236، الرقم: 284، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 167، الرقم: 12732، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ترک التوقیت في الماء، 1: 47، الرقم: 53-54.

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی شخص آکر مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا تو لوگوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جب وہ (شخص) پیشاب سے فارغ ہو گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک ڈول پانی (لانے) کا حکم فرمایا جو اس (پیشاب) پر بہا دیا گیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

52: 13. وَفِي رِوَایَةِ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه ، قَالَ: قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَهُ النَّاسُ، فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ: دَعُوْهُ وَهَرِیْقُوْا عَلٰی بَوْلِهٖ سَجْـلًا مِنْ مَاءٍ، أَوْ ذَنُوْبًا مِنْ مَاءٍ، فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ، وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول في المسجد، 1: 89، الرقم: 217، وأیضا في کتاب الأدب، باب قول النبي ﷺ: یسروا ولا تعسروا وکان یحب التخفیف والیسر علی الناس، 5: 2270، الرقم: 5777، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 282، الرقم: 7786، وأبو داود مطولا في السنن، کتاب الطہارۃ، باب الأرض یصیبہا البول، 1: 103، الرقم: 380، والترمذي مطولا في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء في البول یصیب الأرض، 1: 275، الرقم: 147، والنسائي في السنن، کتاب الطہارۃ، باب ترک التوقیت في الماء، 1: 48، الرقم: 56، وابن خزیمۃ في الصحیح، 1: 150، الرقم: 297، وابن حبان في الصحیح، 4: 244-245، الرقم: 1399، 1400، وعبد الرزاق في المصنف، 1: 423، الرقم: 1658، وأبو یعلی في المسند، 10: 278، الرقم: 5876.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: ایک اعرابی (دیہاتی شخص) نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا، لوگ اسے پکڑنے لگے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: جانے دو اور اس کے پیشاب پر ایک (دو) ڈول پانی بہا دو۔ بے شک تمہیں (لوگوں کے لیے) آسانی مہیا کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ (اُن کے لیے) تنگی کرنے والا۔

اسے امام بخاری، احمد، ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

53: 14. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه: قَالَ: دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ، وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَالِسٌ، فَقَالَ: اللّٰھُمَّ، اغْفِرْ لِي وَلِمُحَمَّدٍ وَلَا تَغْفِرْ لِأَحَدٍ مَعَنَا، فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَقَالَ: لَقَدْ احْتَظَرْتَ وَاسِعًا ثُمَّ وَلّٰی، حَتّٰی إِذَا کَانَ فِي نَاحِیَةِ الْمَسْجِدِ، فَشَجَ یَبُوْلُ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدَ أَنْ فَقِهَ: فَقَامَ إِلَيَّ بِأَبِي وَأُمِّي، فَلَمْ یُؤَنِّبْ، وَلَمْ یَسُبَّ، فَقَالَ: إِنَّ هٰذَا الْمَسْجِدَ لَا یُبَالُ فِیْهِ، وَإِنَّمَا بُنِيَ لِذِکْرِ اللهِ وَلِلصَّلَاةِ، ثُمَّ أَمَرَ بِسَجْلٍ مِنْ مَاءٍ، فَأُفْرِغَ عَلٰی بَوْلِهٖ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ حِبَّانَ. وَزَادَ أَحْمَدُ: وَلَمْ یَضْرِبْ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 503، الرقم: 10540، وابن ماجہ في السنن، کتاب الطہارۃ وسننہا، باب الأرض یصیبہا البول کیف یغسل، 1: 176، الرقم: 529، ونحوہ، 530، وابن حبان في الصحیح، 3: 265، الرقم: 985،وأیضا، 4: 248، الرقم: 1402، وذکرہ العسقلاني في فتح الباري، 1: 325، وأیضا في الإصابۃ، 2: 411، الرقم: 2453.

ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان فرمایا: ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہوا جب کہ رسول الله ﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ! میری مغفرت فرما اور محمد (ﷺ) کی مغفرت فرما اور ہمارے ساتھ کسی دوسرے کی مغفرت نہ کر۔ تو رسول الله ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا: تو نے ایک کشادہ شے کو محدود کر دیا ہے۔ پھر وہ واپس چلا اور مسجد کے ایک گوشہ میں اپنی ٹانگیں چوڑی کرکے پیشاب کرنے لگا۔ بعد ازاں جب اس اعرابی کو اپنی غلطی کا ادراک ہوگیا تو کہنے لگا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا نہ برا بلا کہا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ مسجد ہے۔ اِس میں پیشاب کرنا جائز نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی جاتی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پانی کا ایک ڈول لانے کا حکم دیا جو اس کے پیشاب پر بہا دیا گیا۔

اِسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

امام احمد نے روایت میں اضافہ کیا ہے: آپ ﷺ نے اسے مارا نہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved