بَابٌ فِيْمَا يَتَعَلَّقُ بِإِسْلَامِه رضي اﷲ عنه
1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759.
2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأبِيْ جَهْلِ بْنِ هَشَّامٍ أوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : فَأصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأسْلَمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 61، .
3. عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ
وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428.
4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 4 : أخرجه ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182.
5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ : قَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ
وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثُ صَحِيْحُ
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تواہل آسمان نے ان کے اسلام لانے پر خوشیاں منائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 5 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في فيض القدير، 5 / 299.
6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عمر رضي الله عنه قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : ألْيَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا، رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعَجَمِ الکبير.
وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 6 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.
7. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ضَرَبَ صَدْرَ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ بَيْدِهِ حِيْنَ أسْلَمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَ هُوَ يَقُوْلُ : أللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِه مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْهُ إِيْمَانًا يَقُوْلُ ذٰلِکَ ثَلاَثاً رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير وَ الأوْسَطِ.
وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مُسْتَقِيْمُ الْإِسْنَادِ
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الکبير اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
الحديث رقم 7 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65.
8. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير.
’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘
الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.
9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ.
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved