(1) وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَo
(البقرة، 2/ 190)
اور اللہ کی راہ میں ان سے (دفاعاً) جنگ کرو جو تم پر جنگ مسل ط کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
(2) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللهِ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
(البقرة، 2/ 218)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کے لیے وطن چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
(3) يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
(المائدة، 5/ 35)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
(4) يٰٓاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِهِ فَسَوْفَ يَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهُٓ لا اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکٰفِرِيْنَ ز يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَشَآءُ ط وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo
(المائدة، 5/ 54)
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اللہ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (تعمیری کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے۔
(5) وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَکُوْنَ الدِّيْنُ کُلُّهُ ِللهِج فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo
(الأنفال، 8/ 39)
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (ظلم و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (قیامِ اَمن کے لیے) جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے۔ اور سب دین (یعنی نظام بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔
(6) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَo
(التوبه، 9/ 20)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے وہ اللہ کی بارگاہ میں درجہ کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں، اور وہی لوگ ہی مراد کو پہنچے ہوئے ہیں۔
(7) اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ط يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِکُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهِ ط وَذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo
(التوبه، 9/ 111)
بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لیے (وعدۂ) جنت کے عوض خرید لیے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں (قیامِ اَمن کے اعلیٰ تر مقصد کے لیے) جنگ کرتے ہیں، سو وہ (دورانِ جنگ) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کیے جاتے ہیں۔ (اللہ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اللہ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں منائو جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے۔
(8) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ ط اُولٰٓـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَo
(الحجرات، 49/ 15)
ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچیّ ہیں۔
(9) يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَo هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِيْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ وَتُجَهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo يَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَيُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَ نْهٰرُ وَمَسٰکِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُo وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَهَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَo
(الصف، 61/ 8-13)
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کواپنے منہ(کی پھونکوں) سے بجھادیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔ اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتادوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟۔ (وہ یہ ہے کہ) تم اللہ پر اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (کامل) ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں جنتوں میں داخل فرمائے گا جِن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور نہایت عمدہ رہائش گاہوں میں (ٹھہرائے گا) جو جناتِ عدن (یعنی ہمیشہ رہنے کی جنتوں) میں ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔ اور (اس اُخروی نعمت کے علاوہ) ایک دوسری (دنیوی نعمت بھی عطا فرمائے گا)۔ جسے تم بہت چاہتے ہو، (وہ) اللہ کی جانب سے مدد اور جلد ملنے والی فتح ہے، اور (اے نبیِ مکرّم!) آپ مومنوں کو خوشخبری سنادیں (یہ فتحِ مکّہ اور فَارس و روم کی فتوحات کی شکل میں ظاہر ہوئی)۔
39. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيْلِ اللهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَةً. فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ. قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ کَانَ قَائِمًا. فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيْلِ اللهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
39: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من سأل وهو قائم عالما جالسًا، 1/ 58، الرقم/ 123، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب من قاتل لتکون کلمة اللہ هي العلها فهو في سبهل اللہ، 3/ 1513، الرقم/ 1904، وأحمد بن حنبل فه المسند، 4/ 417، الرقم/ 19754، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فهمن هقاتل رهاء وللدنها، 4/ 179، الرقم/ 1646، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجہاد، باب النهة في القتال، 2/ 931، الرقم/ 2783.
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال سے کیا مراد ہے؟ ہم میں سے کوئی (اپنے) انتقام کی خاطر قتال کرتا ہے اور (کوئی اپنے خاندان و قبیلہ کی) غیرت و حمیت کی خاطر قتال کرتا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اُس کی طرف اُٹھایا- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اُس کی طرف اس لیے اوپر کیا کیونکہ وہ شخص کھڑا تھا- اور فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظامِ حیات کے فروغ کے لئے (مخالف قوتوں کے خلاف) لڑتا ہے وہی شخص اللہ ل کی راہ میں (لڑنے والا) ہوتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ: قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اَلرَّجُلُ يُقَاتِلُ حَمِيَةً، وَيُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً. فَأَيُّ ذَالِکَ فِي سَبِيْلِ اللهِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيْلِ اللهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید، باب قوله تعالی: ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین، 6/ 2714، الرقم/ 7020، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب من قاتل لتکون کلمة اللہ هي العلیا فهو في سبيل اللہ، 3/ 1512، الرقم/ 1904، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 397، الرقم/ 19561، والبزار في المسند، 8/ 30، الرقم/ 3010، وأبويعلی في المسند، 13/ 234، الرقم/ 7253.
ایک اور روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ کر عرض کیا: ایک شخص (اپنے خاندان و قبیلہ کی) غیرت و حمیت کی خاطر لڑتا ہے، اور (ایک شخص) شجاعت و بہادری کے جوہر دکھانے کی خاطر لڑتا ہے، اور (ایک شخص) ریاکاری کے لیے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد کرنے والا) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے لڑتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والا ہوتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ: قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْکَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَی مَکَانُهُ. مَنْ فِي سَبِيْلِ اللهِ؟ فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيْلِ اللهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب من قاتل للمغنم، هل ينقص من أجره؟، 3/ 1137، الرقم/ 2958، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب من قاتل لتکون کلمة اللہ هي العليا، 3/ 14، الرقم/ 2517، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب من قاتل لتکون کلمة اللہ هي العليا، 6/ 23، الرقم/ 3136، وسعيد بن منصور في السنن، 2/ 250، الرقم/ 2543، وأبو عوانة في المسند، 4/ 486، الرقم/ 7429.
ایک اور روایت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ایک شخص (صرف) مالِ غنیمت کے لیے قتال کرتا ہے، اور (دوسرا) شخص مشہور و معروف ہونے کے لیے لڑتا ہے، اور (تیسرا) شخص (بہادری و ناموری میں) اپنا مقام و مرتبہ (لوگوں کو) دکھانے کی خاطر لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوتا ہے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کلمۂ حق کو بلند کرنے کی خاطر لڑتا ہے (صرف) وہی شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوتا ہے۔
اس حدیث کو امام بخاری، ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
40. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مُؤْمِنٌ يُجَهِدُ فِي سَبِيْلِ اللهِ بَنَفْسِهِ وَمَالِهِ. قَالُوْا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَتَّقِي اللهَ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
40: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب أفضل الناس مؤمن مجاهد بنفسه وماله في سبيل اللہ، 3/ 1026، الرقم/ 2634، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب فضل الجهاد والرباط، 3/ 1503، الرقم/ 1888، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 37، الرقم/ 11340، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في ثواب الجهاد، 3/ 5، الرقم/ 2485، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء أي الناس أفضل، 4/ 186، الرقم/ 1660، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل من يجاهد في سبيل اللہ بنفسه وماله، 6/ 11، الرقم/ 3105.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا شخص سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے جان و مال کے ذریعے جہاد کرنے والا مومن۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دریافت کیا: پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو کسی گھاٹی میں رہ کر خشیتِ الٰہی اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے (انہیں) چھوڑ دیتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي عَبْسٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيْلِ اللهِ حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: حَرَّمَهُمَا اللهُ عَلَی النَّارِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: فَهُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: فَهُوَ حَرَامٌ عَلَی النَّارِ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب المشي إلی الجمعة، 1/ 308، الرقم/ 865، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 479، الرقم/ 15977، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل من اغبرت قدماه في سبيل اللہ، 4/ 170، الرقم/ 1632، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب ثواب من اغبرت قدماه في سبيل اللہ، 6/ 14، الرقم/ 3116، وابن حبان في الصحيح، 10/ 465، الرقم/ 4605.
ایک اور روایت میں حضرت ابو عبس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص کے قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے دوزخ کی آگ پر حرام فرما دیا۔
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان (دونوں قدموں) کو آگ پر حرام کر دیا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس وہ دونوں قدم آگ پر حرام ہیں۔
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس وہ دوزخ پر حرام ہے۔
اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ سَلْمَانَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ رَابَطَ فِي سَبِيْلِ اللهِ يَوْمًا وَلَيْلَةً، کَانَتْ لَهُ کَصِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ. فَإِنْ مَاتَ جَرَی عَلَيْهِ عَمَلُهُ الَّذِي کَانَ يَعْمَلُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ وَأُجْرِيَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب فضل الرباط في سبيل اللہ عزوجل، 3/ 1520، الرقم/ 1913، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 440، الرقم/ 23778، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل الرباط، 6/ 39، الرقم/ 3168، وأيضًا في السنن الکبری، 3/ 26، الرقم/ 4376، والبزار في المسند، 2/ 492، 493، الرقم/ 2528.
ایک روایت میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن اور ایک رات چوکس رہتا ہے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک ماہ روزے رکھے اور قیام کیا۔ اگر کوئی شخص اس دوران فوت ہو جائے تو اس کے نامۂ اعمال میں ان اعمال کا اندراج جاری رہتا ہے جنہیں وہ سر انجام دیا کرتا تھا اور وہ (منکر و نکیر کی) آزمائش سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے (اُخروی) رزق کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ نسائی کے ہیں۔
وَفِي رِوَايَةِ فُضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: کُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلٰی عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيْلِ اللهِ، فَإِنَّهُ يُنْمٰی لَهُ عَمَلُهُ إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلْمُجَهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
(1) أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 20، الرقم/ 23996- 23997، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل من مات مرابطًا، 4/ 165، الرقم/ 1621، والبزار في المسند، 2/ 156، الرقم/ 3753، والحاکم فی المستدرک، 2/ 156، الرقم/ 2637، وابن حبان في الصحيح، 10/ 484، الرقم/ 4624، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 256، الرقم/ 641، وأبو عوانة فی المسند، 4/ 496، الرقم/ 7463.
ایک روایت میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر مرنے والے کے عمل پر (اختتام اعمال کی) مہر لگا دی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں چوکس رہتے ہوئے مرنے والے کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے۔ نیز وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ ہی ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ: اَلْغَزْوُ غَزْوَانِ. فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَی وَجْهَ اللهِ، وَأَطَاعَ الإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْکَرِيْمَةَ، وَيَاسَرَ الشَّرِيْکَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ کُلُّهُ. وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَائً وَسُمْعَةً، وَعَصَی الإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْکَفَافِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبوْدَاؤدَ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 334، الرقم/ 22095، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في من يغزو ويلتمس الدنيا، 3/ 13، الرقم/ 2515، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب فضل الصدقة في سبيل اللہ عزوجل، 6/ 49، الرقم/ 3188، ومالک في الموطأ، 2/ 466، الرقم/ 997، والدرامي في السنن، 2/ 274، الرقم/ 2417، والحاکم في المستدرک، 2/ 94، الرقم/ 2435.
ایک روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غزوات دو طرح کے ہیں: جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کیا، امام کی اطاعت کی، نفیس مال (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) خرچ کیا، ساتھی سے نرمی برتی اور فساد سے بچا، بے شک اس (جہاد میں مجاہد) کا سونا اور جاگنا سب کا سب باعث ثواب ہے۔ (دوسرا وہ شخص) جو اظہارِ فخر، ریاکاری اور نام و نمود کی نیت سے جہاد کے لیے نکلے، امام کی نافرمانی کرے اور زمین میں فساد کرے تو وہ (جیسا گیا تھا) اُسی حالت میں لوٹے گا (یعنی اسے ثواب میں کچھ حصہ نہ ملے گا)۔
اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ رَجُلٍ يَغْبَرُّ وَجْهُهُ فِي سَبِيْلِ اللهِ إِلَّا أَمَّنَهُ اللهُ دُخَانَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَغْبَرُّ قَدَمَاهُ فِي سَبِيْلِ اللهِ إِلَّا أَمَّنَ اللهُ قَدَمَيْهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8/ 96، الرقم/ 7482، وابن أبي عاصم في کتاب الجهاد، 1/ 325، 338، الرقم/ 110، 118، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 175، الرقم/ 1996، والعيني في عمدة القاري، 6/ 205، الرقم/ 907، والهندي في کنز العمال، 15/ 329، الرقم/ 43074.
ایک روایت میں حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا بھی چہرہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کے دھوئیں سے (بھی) محفوظ فرمائے گا۔ اور جس شخص کے بھی پائوں اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے اللہ تعالیٰ اس کے قدموں کو قیامت کے دن آگ سے محفوظ فرمائے گا۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved