(1) يُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِی الْخَيْرٰتِ ط وَاُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَo
(آل عمران، 3/ 114)
وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔
(2) اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَ الْاُمِّيَ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهُ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِيْلِ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ ط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهِ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهُ لا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
(الأعراف، 7/ 157)
(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساق ط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔
(3) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْابِهِٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَئِيْسٍم بِمَاکَانُوْا يَفْسُقُوْنَo
(الاعراف، 7/ 165)
پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑلیا۔ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔
(4) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَo
(الأعراف، 7/ 199)
(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔
(5) وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍم يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ ط اُولٰٓئِکَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ ط اِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo
(التوبه، 9/ 71)
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
(6) اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللهِ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَo
(التوبة، 9/ 112)
(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوںسے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قرب الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجیے۔
(7) وَاِلٰی مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ط قَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهُ ط وَلَا تَنْقُصُوا الْمِکْيَالَ وَالْمِيْزَانَ اِنِّيْٓ اَرَاکُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّيْٓ اَخَافُ عَلَيْکُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍo
(هود، 11/ 84)
اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا) انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بے شک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے۔
(8) وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِيْo اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْکَ بِاٰ یٰـتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِکْرِيْ o اِذْهَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهُ طَغٰیo فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰیo
(طه، 20/ 41-44)
اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لیے چن لیا ہے۔ تم اور تمہارا بھائی (ہارون) میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے۔ سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔
(9) وَجَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً يَهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَآءَ الزَّکٰوةِ ج وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَo
(الأنبياء، 21/ 73)
اور ہم نے انہیں (یعنی انبیاء کو انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔
(10) اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ ِللهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo
(الحج، 22/ 41)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
(11) يٰـبُنَيَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ ط اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo
(لقمان، 31/ 17)
اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
(12) يٰٓااَيُهَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo وَ ثِيَابَکَ فَطَهِرْo
(المدثر، 74/ 1-4)
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔
(13) وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo
(العصر، 103/ 2-3)
زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی تاکید کرتے رہے۔
11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِيَاکُمْ وَالْجُلُوْسَ بِالطُّرُقَاتِ. فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيْهَا. فَقَالَ: إِذْ أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيْقَ حَقَّهُ. قَالُوْا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيْقِ، يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ، وَکَفُّ الْأَذٰی، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الاستئذان، باب قول اللہ تعالی: يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوتا غير بيوتکم حتی تستأنسوا وتسلموا علی أهلها، 5/ 2300، الرقم/ 5875، ومسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب النهي عن الجلوس في الطرقات وإعطاء الطريق حقه، 4/ 1704، الرقم/ 2121، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 47، الرقم/ 11454، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الجلوس بالطرقات، 4/ 256، الرقم/ 4815.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچتے رہنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں ایسی جگہوں پر بیٹھنے کے سوا چارہ کار نہیں کیونکہ ہم بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر تمہارا راستوں میں بیٹھنا ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کر دیا کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ فرمایا: نظریں نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کا (راستہ سے) ہٹا دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے منع کرنا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
12. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي هْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ، تُکَفِّرُهَا الصَّـلَةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بَالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/ 1314، الرقم/ 3393، وأيضًا في کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6/ 2599، الرقم/ 6683، ومسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في الفتنة التي تموج کموج البحر، 4/ 2218، الرقم/ 144، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 401، الرقم/ 23460، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4/ 524، الرقم/ 2258، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ما يکون من الفتن، 2/ 1305، الرقم/ 3955.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کی آزمائش اس کے اہل و عیال، اس کے مال اور اس کے پڑوس (کے معاملات) میں ہے جس کا ازالہ نماز، خیرات و صدقات، (دوسروں کو) اچھی بات کا حکم دینے اور بری بات سے روکنے میں مضمر ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
13. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يُجَاءُ بِرَجُلٍ فَيُطْرَحُ فِي النَّارِ، فَيَطْحَنُ فِيْهَا کَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاهُ. فَيُطِيْفُ بِهِ هْلُ النَّارِ فَيَقُوْلُوْنَ: أَي فُـلَانُ، أَلَسْتَ کُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهٰی عَنِ الْمُنْکَرِ؟ فَيَقُوْلُ: إِنِّي کُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا أَفْعَلُهُ وَأَنْهٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَفْعَلُهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6/ 2600، الرقم/ 6685، ومسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب عقوبة من يأمر بالمعروف ولا يفعله وينهی عن المنکر ويفعله، 4/ 2290، الرقم/ 2989، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 209، الرقم/ 21868، وابن أبي شيبة في المسند، 1/ 118، الرقم/ 152، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 94، الرقم/ 19996.
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بروزِ قیامت) ایک شخص کو لایا جائے گا پھر اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ اس کے اندر اس طرح گھومے گا جیسے چکّی چلانے والا گدھا گھومتا ہے۔ جہنمی اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پوچھیں گے: اے فلاں! کیا تو وہی نہیں ہے جو دوسروں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا اور بری باتوں سے منع کیا کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا: ہاں میں اچھی باتوں کا حکم تو دیتا تھا لیکن خود اس پر (کما حقہ) عمل نہیں کرتا تھا اوربرے کاموں سے منع کرتا تھا لیکن خود اس سے باز نہیں رہتا تھا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
14. عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ رضي الله عنهما قاَلَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُوْدِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيْهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوْا سَفِيْنَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْـلَاهَا. فَکَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّوْنَ بِالْمَاءِ عَلَی الَّذِيْنَ فِي أَعْـلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ. فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِيْنَةِ. فَأَتَوْهُ فَقَالُوْا: مَا لَکَ؟ قَالَ: تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلَا بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ. فَإِنْ أَخَذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَکُوْهُ هْلَکُوْهُ وَهْلَکُوْا أَنْفُسَهُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشهادات، باب القرعة في المشکلات، 2/ 882، 954، الرقم/ 2361، 2540، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 270، الرقم/ 18403، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب 12، 4/ 470، الرقم/ 2173، والبزار في المسند، 8/ 238، الرقم/ 3298، وابن حبان في الصحيح، 1/ 533، الرقم/ 298، والبیهقي فيالسنن الکبری، 10/ 91، الرقم/ 19975.
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں (سفر کرنے کے سلسلے میں) قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والی منزل آئی اور بعض کے حصے میں اوپر والی۔ پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا تو اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ (چنانچہ اس خیال سے کہ اوپر کے لوگوں کو ان کے آنے جانے سے تکلیف ہوتی ہے) نیچے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا۔ اُوپر والے اس کے پاس آئے اور کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اُس نے کہا: تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ پس اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بھی بچا لیا اور وہ خود بھی بچ گئے، لیکن اگر انہوں نے اسے (سوراخ کرنے کیلئے اس کی مرضی پر) چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کر دیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کرڈالا۔
اِس حدیث کو امام بخاری، احمد، ترمذی اور بزار نے روایت کیا ہے۔۔
15. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ. فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ. وَذَالِکَ أَضْعَفُ الْإِيْمَانِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
15: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1/ 69، الرقم/ 49، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 20، الرقم/ 11166، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 123، الرقم/ 4340، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تفسير المنکر باليد أو باللسان أو بالقلب، 4/ 469، الرقم/ 2172، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب تفاضل أهل الإيمان، 8/ 111، الرقم/ 5008، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة العيدين، 1/ 406، الرقم/ 1275.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اپنے ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلاَّ کَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُوْنَ وَأَصْحَابٌ. يَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِهِ. ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوْفٌ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ وَيَفْعَلُوْنَ مَا لاَ يُؤْمَرُوْنَ. فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ. وَلَيْسَ وَرَائَ ذَالِکَ مِنَ الإِْيْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
16: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1/ 69، الرقم/ 50، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 458، الرقم/ 4379، وابن حبان في الصحيح، 14/ 71، الرقم/ 6193، وأبو عوانة في المسند، 1/ 36، والطبراني في المعجم الکبير، 10/ 13، الرقم/ 9784، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 90، الرقم/ 19965، وأيضًا في شعب الإيمان، 6/ 86، الرقم/ 7560.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریقہ پر کار بند ہوتے اور ان کے حکم کی پیروی کرتے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف (نالائق) لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ سے (اُن کی اصلاح کیلئے) ان سے جہاد کیا وہ مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے ان کے لیے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کیلئے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالُوْا لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا رَسُوْلَ اللهِ، ذَهَبَ هْلُ الدُّثُوْرِ بِالْأُجُوْرِ. يُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّي، وَيَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ، وَيَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ أَمْوَالِهِمْ. قَالَ: أَوْ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللهُ لَکُمْ مَا تَصَّدَّقُوْنَ؟ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِيْحَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَکْبِيْرَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَحْمِيْدَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَهْلِيْلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَيَأْتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَکُوْنُ لَهُ فِيْهَا أَجْرٌ؟ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَکَانَ عَلَيْهِ فِيْهَا وِزْرٌ؟ فَکَذَالِکَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ کَانَ لَهُ أَجْرًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع علی کل نوع من المعروف، 2/ 697، الرقم/ 1006، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 168، الرقم/ 21520، والبزار في المسند، 9/ 352، الرقم/ 3917، وابن حبان في الصحيح، 9/ 475، الرقم/ 4167، والبخاري فی الأدب المفرد/ 89، الرقم/ 227.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ کرامlنے آپ سے عرض کیا: یارسول اللہ! مال والے تو ثواب لُوٹ کر لے گئے۔ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں، اور اپنے زائد مال سے صدقہ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے صدقہ کا سبب نہیں بنایا؟ ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے، ہر بار الْحَمْدُ ِللهِ کہنا صدقہ ہے، ہر بار لَا إِلٰهَ إلّا الله کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، تمہارا عملِ تزویج کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت پوری کرنے کی غرض سے عملِ تزویج کرتا ہے تو اس کے لئے اس عمل میں اجر بھی ہوتا ہے۔ (یہ کیسے ہے)؟ فرمایا: بھلا بتلاؤ اگر کوئی حرام طریقہ سے اپنی شہوت کو پوری کرے تو کیا اسے گناہ ہوگا؟ (یقینا ہوگا) تو! اِسی طرح جب وہ حلال طریقہ سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اُس کو اَجر بھی ملے گا۔
اس حدیث کو امام مسلم، احمد، بزار، ابنِ حبان اور بخاری نے ’الأدب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْيُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيئِ الْبَصَرِ لََکَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيْقِ لَکَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في صنائع المعروف، 4/ 339، الرقم/ 1956، والبزار في المسند، 9/ 457، الرقم/ 4070، وابن حبان في الصحيح، 2/ 286، الرقم/ 529، والبخاري في الأدب المفرد، 1/ 307، الرقم/ 891، والطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 183، الرقم/ 8342، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 235.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر پیش آنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے لئے صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو سیدھا راستہ بتانا تمہارے لئے صدقہ ہے۔کسی اندھے کو راستہ دکھانا صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا تمہارے لئے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا (بھی) تمہارے لئے صدقہ ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی، بزار، ابنِ حبان اور بخاری نے ’الأدب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
18. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلٰی سِتِّيْنَ وَثَـلَاثِ مِائَةِ مَفْصِلٍ. فَمَنْ کَبَّرَ اللهَ، وَحَمِدَ اللهَ، وَهَلَّلَ اللهَ، وَسَبَّحَ اللهَ، وَاسْتَغْفَرَ اللهَ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيْقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْکَةً أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِيْقِ النَّاسِ، وَأَمَرَ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ نَهٰی عَنْ مُنْکَرٍ، عَدَدَ تِلْکَ السِّتِّيْنَ وَالثَّـلَاثِمِائَةِ السُّلَامَی. فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
18: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع علی کل نوع من المعروف، 2/ 698، الرقم/ 1007، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 209، الرقم/ 10673، وابن حبان في الصحيح، 8/ 173، الرقم/ 3380، والطبراني في مسند الشاميين، 4/ 106، الرقم/ 2864، والبيهقي في السنن الکبری، 4/ 188، الرقم/ 7611، وأيضًا في شعب الإيمان، 7/ 511، الرقم/ 11161.
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر انسان کی تخلیق تین سو ساٹھ جوڑوں کے ساتھ ہوئی ہے۔ تو جو شخص ایک دن میں اپنے جسم کے ان تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر اَللهُ أَکْبَر، اَلْحَمْدُ ِللهِ، لَا إلٰهَ إِلَّا اللهُ، سُبْحَانَ اللهِ اور أَسْتَغْفِرُ اللهَ کہتا ہے، لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی کو ہٹا دیتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے یا برائی سے روکتا ہے، تو اُس دن وہ اس طرح چل رہا ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے بچالیا۔
اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
19. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَيْسَ مِنْ نَفْسِ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ فِي کُلِّ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيْهِ الشَّمْسُ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمِنْ أَيْنَ لَنَا صَدَقَةٌ نَتَصَدَّقُ بِهَا؟ فَقَالَ: إِنَّ أَبْوَابَ الْخَيْرِ لَکَثِيْرَةٌ: التَّسْبِيْحُ وَالتَّحْمِيْدُ وَالتَّکْبِيْرُ وَالتَّهْلِيْلُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَتُمِيْطُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِيْقِ، وَتُسْمِعُ الْأَصَمَّ، وَتَهْدِي الْأَعْمٰی، وَتَدُلُّ الْمُسْتَدِلَّ عَلٰی حَاجَتِهِ، وَتَسْعٰی بِشِدَّةِ سَاقَيْکَ مَعَ اللَّهْفَانِ الْمُسْتَغِيْثِ، وَتَحْمِلُ بِشِدِّةِ ذِرَاعَيْکَ مَعَ الضَّعِيْفِ. فَهٰذَا کُلُّهُ صَدَقَةٌ مِنْکَ عَلٰی نَفْسِکَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
19: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 168، الرقم/ 21522، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 325، الرقم/ 9027، وابن حبان في الصحيح، 8/ 171، الرقم/ 3377، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 106، الرقم/ 7618، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3/ 377، الرقم/ 4503، والهيثمي فی الموارد الظمآن، 1/ 219، الرقم/ 862.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر روز، جس میں سورج طلوع ہے، ہر انسان پر صدقہ لازم ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہم میں ہر ایک کے پاس صدقہ کے لیے سامان کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے دروازے بہت ہیں۔ سُبْحَانَ اللهِ، الْحَمْدُ ِللهِ، اللهُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کہنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا، بہرے کو بات سنوانا، نابینا کو راستہ بتانا، راہنمائی چاہنے والے کی راہنمائی دینا، اپنی ٹانگوں کی ساری توانائی استعمال کرتے ہوئے مظلوم فریادی کی مدد کو جانا اور اپنی پوری قوتِ بازو سے ضعیف کی امداد کرنا۔ یہ سب تمہاری طرف سے تمہاری جان کے لیے صدقہ ہیں۔
اِس حدیث کو امام احمد، نسائی اور ابنِ حبان نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
20. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَرَفْتُ فِي وَجْهِهِ أَنْ قَدْ حَفَزَهُ شَيْئٌ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ خَرَجَ فَلَمْ يُکَلِّمْ أَحَدًا. فَدَنَوْتُ مِنَ الْحُجُرَاتِ فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: يَا أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ عزوجل يَقُوْلُ: مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْعُوْنِي فَـلَا أُجِيْبُکُمْ، وَتَسْأَلُوْنِي فَـلَا أُعْطِيْکُمْ، وَتَسْتَنْصِرُوْنِي فَـلَا أَنْصُرُکُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
20: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/ 159، الرقم/ 25294، وابن حبان في الصحيح، 1/ 526، الرقم/ 290، والطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 377، الرقم/ 6665، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 93، الرقم/ 19987، وابن راهويه في المسند، 2/ 338، الرقم/ 864، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 46/ 298.
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ کے چہرۂِ اقدس سے جان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرمانا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا پھر کسی سے کلام کیے بغیر باہر تشریف لے گئے۔ میں حجروں (کی طرف سے مسجد) کے قریب ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! بے شک اللہ ل فرماتا ہے: نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو قبل اس کے کہ (وہ وقت آ جائے جب) تم مجھ سے دعا مانگو اور میں تمہاری دعا قبول نہ کروں، تم مجھ سے سوال کرو اور میں تم کو عطا نہ کروں اور تم مجھ سے میری مدد طلب کرو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔
اِس حدیث کو امام احمد، ابنِ حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ عَنْهَا رضي الله عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ، قَبْلَ أَنْ تَدْعُوْا فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2/ 1327، الرقم/ 4004، والطبراني عن عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهما في المعجم الأوسط، 2/ 95، الرقم/ 1367، والديلمي فی مسند الفردوس، 4/ 169، الرقم/ 6525، وذکره الهندي في کنز العمال، 3/ 31، الرقم/ 5521.
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو قبل اس کے کہ (ایسا وقت آجائے جب) تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو (مگر) تمہاری دعا کو قبول نہ کیا جائے۔
اِس حدیث کو امام ابنِ ماجہ، طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ: أَيُهَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ تَقْرَئُوْنَ هٰذِهِ الآيَةَ: {يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة، 5/ 105]. وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
21: أخرجه أحمد بن حنبل فيالمسند، 1/ 2، الرقم/ 1، وأبو داود فی السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 122، الرقم/ 4338، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في نزول العذاب إذا لم يغير المنکر، 4/ 467، الرقم/ 2168، وأيضًا في کتاب التفسير، 5/ 256، الرقم/ 3057، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2/ 1327، الرقم/ 4005، والبزار فی المسند، 1/ 139، الرقم/ 69.
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: ’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔ تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے (ظلم سے) نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔
اِس حدیث کو امام احمد، ابو داود، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں، امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
22. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اللهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
22: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 388، الرقم/ 23349، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 4/ 468، الرقم/ 2169، والبيهقي في السن الکبری، 10/ 93، الرقم/ 19986، وأيضًا في شعب الإيمان، 6/ 84، الرقم/ 7558.
ایک روایت میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تمہیں بہر صورت نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار مستجاب نہیں ہوگی۔
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔
23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفَ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللهُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
23: أخرجه أحمد بن حنبل عن حذيفة في المسند، 5/ 390، الرقم/ 23360، والبزار في المسند، 1/ 292، الرقم/ 188، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 99، الرقم/ 1379، وابن أبي شيبه في المصنف، 7/ 460، الرقم/ 37221، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 266، والهندي في کنز العمال، 3/ 31، الرقم/ 5520.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں ضرور نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسل ط کر دے گا۔ پھر تم میں سے جو اچھے لوگ ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔
اس حدیث کو امام احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام طبرانی کے ہیں۔
24. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَمَّا وَقَعَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ فيِ الْمَعَاصِي نَهَتْهُمْ عُلَمَاؤُهُمْ فَلَمْ يَنْتَهُوْا. فَجَالَسُوْهُمْ فِي مَجَالِسِهِمْ وَوَاکَلُوْهُمْ وَشَارَبُوْهُمْ فَضَرَبَ اللهُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَهُمْ {عَلٰی لِسَانِ دَاؤدَ وَعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا يَعْتَدُوْنَo} [المائدة، 5/ 78]. قَالَ: فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ: لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتّٰی تَأْطُرُوْهُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
24: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 391، الرقم/ 3713، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 121، الرقم/ 4336، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5/ 252، الرقم/ 3047، والطبراني في المعجم الکبير، 10/ 145، الرقم/ 10264.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے انہیں روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ پھر ان کے علماء ان کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ مل کر کھاتے پیتے رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم دگر الجھا دیا {اُنہیں حضرت داؤد اور حضرت عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام ) کی زبان پر (سے) لعنت کی جاچکی (ہے)۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے}۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (یہ فرماتے ہوئے) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جب تک تم اُن کو اچھی طرح حق کی طرف پھیر نہ دو (تم اپنے فرض سے سبک دوش نہیں ہو سکتے)۔
اِس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام ترمذی کے ہیں۔
25. عَنْ جَرِيْرٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلٰی أَنْ يُغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَـلَا يَغَيِّرُوْا إِلاَّ أَصَابَهُمُ اللهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوْتُوا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاؤدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ.
25: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 364، الرقم/ 19250، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 122، الرقم/ 4339، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2/ 1329، الرقم/ 4009، وابن حبان في الصحيح، 1/ 536، الرقم/ 300، والطبراني في المعجم الکبير، 2/ 332، الرقم/ 2382.
حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ عَدِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ اللهَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّی يَرَوُا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی أَنْ يُنْکِرُوْهُ فَـلَا يُنْکِرُوْهُ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اللهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَمَالِکٌ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
26: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 192، الرقم/ 17756، ومالک في الموطأ، کتاب الکلام، باب ما جاء في عذاب العامة بعمل الخاصه، 2/ 991، الرقم/ 1799، وابن أبي شيبة في المسند، 2/ 86، الرقم/ 586، والحميدي في المسند، 1/ 131، الرقم/ 269، والطبراني في المعجم الکبير، 17/ 138، الرقم/ 343، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 99، الرقم/ 7602، وابن مبارک في الزهد، 1/ 476، الرقم/ 1352.
حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا جب تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور اُس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ لہٰذا جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ خاص و عام سب لوگوں کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اِس حدیث کو امام احمد، مالک، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
27. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَحْقِرْ أَحَدُکُمْ نَفْسَهُ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ يَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ: يَرَی أَمْرًا ِللهِ عَلَيْهِ فِيْهِ مَقَالٌ ثُمَّ لَا يَقُوْلُ فِيْهِ. فَيَقُوْلُ اللهُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: مَا مَنَعَکَ أَنْ تَقُوْلَ فِي کَذَا وَکَذَا؟ فَيَقُوْلُ: خَشْيَةُ النَّاسِ. فَيَقُوْلُ: فَإِيَايَ کُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَی.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ.
27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 47، الرقم/ 11458، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2/ 1328، الرقم/ 4008، والطيالسي في المسند، 1/ 293، الرقم/ 2206، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 300، الرقم/ 971، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 137، الرقم/ 4887، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 90، الرقم/ 19971، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4/ 384.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی کیسے اپنے آپ کو حقیر جان سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہ تم میں سے کوئی شخص کوئی معاملہ دیکھے اور اسے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی معلوم ہو مگر وہ پھر بھی بیان نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن فرمائے گا : تجھے فلاں فلاں معاملہ میں (حق بات) کہنے سے کس نے منع کیا تھا؟ وہ جواب دے گا: لوگوں کے خوف نے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہیں تو (ان سب سے بڑھ کر) مجھ سے ہی ڈرنا چاہیے تھا۔
اس حدیث کو امام احمد اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام ابنِ ماجہ کے ہیں۔
28. عَنْ هُشَيْمٍ رضي الله عنه : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلٰی أَنْ يُغَيِّرُوْا ثُمَّ لاَ يُغَيِّرُوا إِلاَّ يُوْشِکُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاؤدَ وَابْنُ حَبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ.
28: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4/ 122، الرقم/ 4338، وابن حبان في الصحيح، 1/ 536، 537، الرقم/ 300، 302، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 91، وأيضًا في شعب الإيمان، 6/ 82، الرقم/ 7550، وسعيد بن منصور في السنن، 4/ 1650، الرقم/ 841، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 321.
حضرت ھُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس قوم میں برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے (اور اس کے ذمہ دار لوگ) اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے کسی عذاب میں مبتلا کر دے۔
اس حدیث کو امام ابوداؤد، ابنِ حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمَّا وَقَعَ فِيْهِمُ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ يَرَی أَخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ. فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأٰی مِنْهُ أَنْ يَکُوْنَ أَکِيْلَهُ وَشَرِيْبَهُ وَخَلِيْطَهُ. فَضَرَبَ اللهُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيْهِمُ الْقُرْآنُ فَقَالَ: {لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیٓ اِسْرَآئِيْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاؤدَ وَعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا يَعْتَدُنَo} [المائدة، 5/ 78]. فَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ: {وَلَوْ کَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ باللهِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِيَآءَ وَلٰـکِنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَo} [المائدة، 5/ 81]. قَالَ: وَکَانَ نَبِيُّ اللهِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: لَا حَتّٰی تَأْخُذُوْا عَلٰی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطُرُوْهُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
29: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5/ 252، الرقم/ 3048، وابن ماجه في السن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2/ 1327، الرقم/ 4006، وأبو يعلی في المسند، 8/ 448، الرقم/ 3035، والطبراني في المعجم الکبير، 10/ 146، الرقم/ 10268.
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل میں خرابی پیدا ہوگئی تو اس وقت ان میں سے ایک شخص اپنے دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھتا تو اُسے اس گناہ سے منع کرتا۔ مگر جب دوسرا دن ہوتا تو اس خیال سے اُسے اس کام سے نہ روکتا کہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور اُٹھنا بیٹھنا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم خلط ملط کر دیا اور قرآن مجید میں ان کے بارے میں (یہ حکم) نازل فرمایا: {بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفرکیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم ( علیہما السلام ) کی زبان پر (سے) لعنت کی جاچکی (ہے)۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔}۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت آخر تک پڑھی: {اور اگر وہ اللہ پر اور نبی (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر اور اس (کتاب) پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لے آتے تو ان (دشمنانِ اسلام) کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں}۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: تم بھی عذابِ الٰہی سے اُس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راهِ راست پر نہ لے آؤ۔
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أُمِّ حَبِيْبَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: کُلُّ کَـلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ نَهْیٌ عَنْ منْکَرٍ أَوْ ذِکْرُ اللهِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب 62، 4/ 608، الرقم/ 2412، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب کف اللسان في الفتنة، 2/ 1315، الرقم/ 3974، وأبو يعلي في المسند، 13/ 56، الرقم/ 7132، والحاکم في المستدرک، 2/ 557، الرقم/ 3892، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 448، الرقم/ 1554، والطبراني في المعجم الکبير، 23/ 243، الرقم/ 484.
ایک روایت میں اُم المومنین حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابنِ آدم کا ہر کلام اس کے لئے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہوگا سوائے نیکی کا حکم دینے، برائی سے منع کرنے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے۔
اِس حدیث کو امام ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔۔
30. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه قاَلَ: قاَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَوْحَی اللهُ إِلٰی جِبْرِيْلَ أَنْ أَقْلِبْ مَدِيْنَةَ کَذَا وَکَذَا بِهْلِهَا. قَالَ: فَقَالَ: يَا رَبِّ، إِنَّ فِيْهِمْ عَبْدَکَ فُـلَانًا لَمْ يَعْصِکَ طَرْفَةَ عَيْنٍ. قَالَ: فَقَالَ: أَقْلِبْهَا عَلَيْهِمْ، فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
30: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7/ 336، الرقم/ 7661، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 97، الرقم/ 7595، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 145، الرقم/ 520، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 270، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3/ 1426، الرقم/ 5152.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باشندگان سمیت اُلٹا دو (زیر و زبر کر دو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! ان میںتیرا وہ بندہ بھی ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ نے فرمایا: اس شہر کو ان(سب) پر اُلٹا دوکیونکہ اس شخص کا چہرہ (برائی دیکھ کر) کبھی بھی ایک گھڑی کے لئے میری خاطر متغیر نہیں ہوا۔۔
اِس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
31. عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ قَالَ: کَانَ يُقَالُ: إِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتعَالٰی لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ. وَلٰـکِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْکَرُ جِهَارًا اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ کُلُّهُمْ.
رَوَاهُ مَالِکٌ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
31: أخرجه مالک في الموطأ، 2/ 991، الرقم/ 1799، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 99، الرقم/ 7602، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4/ 387، وأيضًا في الزهد، 1/ 294، وابن المبارک في الزهد، 1/ 476، الرقم/ 1351، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 298، وابن عبد البر في التمهيد، 24/ 311، وأيضًا في الاستذکار، 5/ 95.
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: یہ معروف تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا لیکن جب برائی سر عام ہونے لگے تو سب (خاص و عام) بلا امتیاز عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔
اِس حدیث کو امام مالک، بیہقی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : عَلٰی کُلٍّ مِنَ الْإِنْسَانِ صَـلَاةٌ کُلَّ يَوْمٍ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: هٰذَا مِنْ أَشَدِّ مَا أَتَيْتَنَا بِهِ. قَالَ: أَمْرُکَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْيُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَـلَاةٌ، وَحَمْلُکَ عَلَی الضَّعِيْفِ صَـلَاةٌ، وَإِنْحَاؤُکَ الْقَذَرَ عَنِ الطَّرِيْقِ صَـلَاةٌ، وَکُلُّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا إِلَی الصَّلَاةِ صَـلَاةٌ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
32: أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 2/ 376، الرقم/ 1497، وأبو يعلی في المسند، 4/ 324، الرقم/ 2434، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 296، الرقم/ 11791، وابن السري في الزہد، 2/ 525، الرقم/ 1084، وذکرہ المنذري في الترغيب والترہيب، 1/ 129، الرقم/ 461.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کے ہر عضو پر ہر روز ایک نماز ہے۔ لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یہ توہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین مبین میں سخت ترین حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی نماز ہے۔کمزور کی مدد کرنا، راستے سے کانٹے وغیرہ ہٹانا اور نماز کے لیے جاتے وقت اُٹھنے والا ہر قدم بھی نماز ہے۔
اس حدیث کو امام لی نے، مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ابنِ خزیمہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: الْإِسْـلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ لَا تُشْرِکْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيْمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ، وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَتَسْلِيْمُکَ عَلٰی هْلِکَ. فَمَنِ انْتَقَصَ شَيْئًا مِنْهُنَّ فَهُوَ سَهْمٌ مِنْ الْإِسْلاَمِ يَدَعُهُ. وَمَنْ تَرَکَهُنَّ کُلَّهُنَّ فَقدْ وَلَّّی الإِسْـلَامَ ظَهْرَهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
33: أخرجه الحاکم في المستدرک، 1/ 70، الرقم/ 53، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 241، الرقم/ 429، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 447، الرقم/ 8844، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 218، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3/ 163، الرقم/ 3503، والهندي في کنز العمال، 1/ 32، الرقم/ 42.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اللہ تعالی کے گھر کا حج کرو، نیکی کا حکم دو، برائی سے منع کرو اور اپنے اہلِ خانہ کو (گھر میں داخل ہوتے وقت) سلام کرو۔ جس نے ان اعمال میں سے کسی ایک عمل کی کمی کی، تو اس نے (گویا) اسلام کے ایک حصہ کو چھوڑ دیا۔ جس نے ان چیزوں کو (مکمل طور پر) ترک کردیا اس نے اسلام کی طرف اپنی پشت ہی پھیر لی۔
اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ حُذْيَفَةَ رضي الله عنه قَالَ: الإِسْلَامُ ثَمَانِيَةُ أَسْهُمٍ: اَلصَّلَةُ سَهْمٌ، وَالزَّکَةُ سَهْمٌ، وَالْجِهَادُ سَهْمٌ، وَالْحَجُّ سَهْمٌ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ سَهْمٌ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ سَهْمٌ، وَالنَّهْيُّ عَنِ الْمُنْکَرِ سَهْمٌ. وَقَدْ خَابَ مَنْ لَا سَهْمَ لَهُ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالطَّيَالِسِيُّ.
34: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 4/ 230، الرقم/ 19561، وأيضًا، 6/ 158، الرقم/ 30313، ولي في المسند، 1/ 400، الرقم/ 523، والبزار في المسند، 7/ 330، الرقم/ 2927، والطيالسي في المسند، 1/ 55، الرقم/ 413، والبيهقي في شعب الإيمان، 6/ 94، الرقم/ 7585، وابن عبد البر في التمهيد، 16/ 161، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 115، الرقم/ 392.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے آٹھ حصے ہیں: ایک حصہ نماز ہے، ایک زکوٰۃ ہے، ایک حصہ جہاد ہے، ایک حصہ حجِ بیت اللہ ہے، ایک حصہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنا ہے، ایک حصہ نیکی کا حکم دینا ہے اور ایک حصہ برائی سے منع کرنا ہے۔ جس شخص کے لیے (ان حصوں میں سے) کوئی حصہ بھی نہیں وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔
اِس حدیث کو امام بزار، لی، ابنِ ابی شیبہ اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔مذکورہ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں
35. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَا نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ حَتّٰی نَعْمَلَ بِهِ، وَلاَ نَنْهٰی عَنِ الْمُنْکَرِ حَتّٰی نَجْتَنِبَهُ کُلَّهُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَلْ مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوْا بِهِ کُلِّهِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَإِنْ لَم تَجْتَنِبُوْهُ کُلَّهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
35: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 365، الرقم/ 6628، وأيضًا في المعجم الصغير، 2/ 175، الرقم/ 981، والبيهقي عن أبي هريرة رضي الله عنه في شعب الإيمان، 6/ 89، الرقم/ 7570، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 36/ 432، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 277، والحسيني في البيان والتعريف، 2/ 202، الرقم، 1499، والمناوي في فيض القدير، 5/ 522.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اُس وقت تک نیکی کا حکم نہیں دیں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس پر عمل نہیں کر لیتے اور نہ اُس وقت تک برائی سے منع کریں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس سے اجتناب نہیں کر لیتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) بلکہ نیکی کا حکم دو اگرچہ تم مکمل طور پر اس پر عمل نہ کر سکو اور برائی سے منع کرو اگرچہ مکمل طور پر اس سے اجتناب نہ کر سکو (یعنی اگر کسی حد تک عمل کرتے ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ ادا کرو)۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved