نہ تو قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیطۂ تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات محاسنِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے۔ کائناتِ ارض و سماوات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان کرتے ہیں :
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ (ص) است
(دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں ہے۔)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ لامحدود کا اِحاطہ ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی مثال تو بحر بیکراں کی سی ہے جس میں کوئی ایک آدھ موج اچھل کر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور دور دور تک پھیلے سمندر کی گہرائیوں میں اترنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ بعینہ حقیقت حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی کسی فرد بشر کی بات نہیں کہ محدود نظر اس کا کما حقہ اِدراک کر ہی نہیں سکتی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ شمائل اور حلیہ مبارک کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہر امتی کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے عشق و محبت کا تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے اور اس کے شوقِ زیارت کو جِلا ملتی رہے۔ ذیل میں حلیۂ مبارک کا ذکرِ جمیل ہم اس امید پر کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے لئے توشۂ آخرت بن جائے اور ہماری یہ ادنیٰ سی کاوش بارگہ ایزدی میں شرف قبولیت پا کر ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا موجب بنے۔
کتبِ اَحادیث و سیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان کردہ روایات کے مطالعہ سے جو کچھ ہم جان سکے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس نہ تو مائل بہ فربہی تھا اور نہ ہی نحیف و ناتواں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی ساخت سرتاپا حسنِ اِعتدال کا مرقع تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ اعضائے مبارکہ میں ایسا حسین تناسب پایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا یہ گمان بھی نہ کر سکتا تھا کہ فلاں عضو دُوسرے کے مقابلے میں فربہ یا نحیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی ساخت اِتنی متناسب اور کمالِ موزونیت کی مظہر تھی کہ اُس پر فربہی یا کمزوری کا حکم نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ فربہی اور دُبلاپن کی دونوں کیفیتیں شخصی وجاہت اور جسمانی حسن و وقار کے منافی سمجھی جاتی ہیں، چنانچہ اﷲ ربّ العزت کو یہ بات کیونکر گوارا ہو سکتی تھی کہ کوئی اُس کے کارخانۂ قدرت کے شاہکارِ عظیم کی طرف کسی خلافِ حسن و وقار اَمر کا گمان بھی کر سکے۔
خدائے عزوجل نے بالیقین اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل اور تمام عیوب و نقائص سے مبّرا تخلیق کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، کمال درجہ حسین و متناسب اور دِلکشی و رعنائی کا حامل اور حسن و خوبی کا خزینہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَعضائے مبارکہ کی ساخت اِس قدر مثالی اور حسنِ مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اُسے دیکھ کر ایک حسنِ مجسم پیکرِ اِنسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین سراپا کی مدح میں ہر وقت رطبُ الّلساں رہتے تھے۔ اُن کی بیان کردہ روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ حسنِ ساخت کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس اور شکم مبارک دونوں ہموار تھے، تاہم سینہ نہایت حسنِ اِعتدال کے ساتھ بطنِ مبارک کی نسبت ذرا آگے کی طرف اُبھرا ہوا تھا۔ طب و صحت کے مسلمہ اُصولوں کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل و اَکمل طور پر متناسبُ الاعضاء اور وجیہُ الصورت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات میں حسنِ تام اپنی تمام تر دلآویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں متشکل نظر آتا تھا کہ بقولِ شاعر :
زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر تا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ اطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن کو دیکھ کر بیخود اور مبہوت ہو کر رہ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماورا تھا اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوُجود بھی اُسے کماحقہ بیان کرنے سے عاجز تھے :
دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار!
گلچینِ بہارِ تو زداماں گلہ دارد!
(نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حسن کے پھول کثیر ہیں، تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے۔)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے جمیل اور صورتِ زیبا کے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے تھے۔اپنے من کی تشنگی کا مداوا کرتے کشتِ دیدہ و دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے گلاب بوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اُنہیں سکون و طمانیت اور فرحت و راحت کی دولت نصیب ہوتی، اِیمان کو حلاوَت اور قلب و جاں کو تقوِیت ملتی۔
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا اِمام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فخما مفخما، يتلألآ وجهه تلآلؤ القمر ليلة البدر، أطوَل من المربوع و أقصر من المشذب، عظيم الهامة، رجل الشعر، إن انفرقت عقيقته فرقها، و إلا فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه، إذا هو وفره، أزهر اللون، واسع الجبين، أزج الحواجب سوابغ في غير قرن، بينهما عرق يدره الغضب، أقني العرنين، له نور يعلوه يحسبه من لم يتأمله أشم، کث اللحية، سهل الخدين، ضليع الفم، مفلج الأسنان، دقيق المسربة، کآن عنقه جيد دمية في صفاء الفضة، معتدل الخلق، بادن متماسک، سواء البطن و الصدر، عريض الصدر، بعيد ما بين المنکبين، ضخم الکراديس، أنور المتجرد، موصول ما بين اللبة و السرة بشعر يجري کالخط، عاري الثديين والبطن مما سوي ذالک، أشعر الذراعين والمنکبين و أعالي الصدر، طويل الزندين، رحب الراحة، شثن الکفين و القدمين، سائل الأطراف . . . آو قال : شائل الأطراف . . . خمصان الأخمصين، مسيح القدمين، ينبو عنهما الماء، إذا زال زال قلعا، يخطو تکفيا، و يمشي هونا، ذريع المشية إذا مشي کأنما ينحط من صبب، و إذا التفت التفت جميعا، خافض الطرف، نظره إلي الأرض أکثر من نظره إلي السماء، جل نظره الملاحظة، يسوق آصحابه و يبدأ من لقي بالسلام.
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35 - 38، رقم : 8
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
7. ابن کثير، شمائل الرسول : 50، 51
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 286، 287
9. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 191
10. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
11. مقريزي، اِمتاع الآسماع، 2 : 177
12. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 155
13. ابن حبان، الثقات، 2 : 145
14. ابن حبان، اخلاق النبيا، 4 : 282
15. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 7 : 258، رقم : 9743
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم المرتبت اور بارعب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، قد مبارک متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے نسبتاً پست تھا۔ سرِ اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے بل کھائے ہوئے تھے، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے متجاوز ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک چمکدار، پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے، ابرو مبارک جدا جدا تھے، ایک دُوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان ایک مبارک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔ بینی مبارک مائل بہ بلندی تھی اور اُس پر ایک چمک اور نور تھا، جو شخص غور سے نہ دیکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی تھی، رخسار مبارک ہموار (اور ہلکے) تھے، دہن مبارک اِعتدال کے ساتھ فراخ تھا، سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اتنی خوبصورت اور باریک تھی (جیسے کسی گوہرِ آبدار کو تراشا گیا ہو اور) وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارک پُرگوشت اور معتدل تھے اور ایک دُوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھے (لیکن) سینۂ اقدس فراخ (اور قدرے اُبھرا ہوا) تھا، دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی تھیں، بدن مبارک کا جو حصہ کپڑوں سے باہر ہوتا روشن نظر آتا۔ ناف اور سینہ کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک دھاری تھی (اور اس لکیر کے علاوہ) سینۂ اقدس اور بطن مبارک بالوں سے خالی تھے، البتہ بازوؤں، کندھوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ پر کچھ بال تھے، کلائیاں دراز تھیں اور ہتھیلیاں فراخ، نیز ہتھیلیاں اور دونوں قدم پُرگوشت تھے، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوے قدرے گہرے اور قدم ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان سے فوراً ڈھلک جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے مگر تواضع کے ساتھ چلتے، زمین پر قدم آہستہ پڑتا نہ کہ زور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبک رفتار تھے اور قدم ذرا کشادہ رکھتے، (چھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھاتے تھے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو مکمل متوجہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی، گوشۂ چشم سے دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی (یعنی غایتِ حیا کی وجہ سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے)، چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو آگے کر دیتے اور جس سے ملتے سلام کہنے میں خود ابتدا فرماتے۔‘‘
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ دلنشیں کو اللہ رب العزت نے ایسا حسین بنایا کہ ہر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی حلاوتوں میں گم ہو کر رہ جاتا۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن بے مثال کا تذکرہ حسن بلاغت کا شاہکار ہے۔ انہوں نے کمال جامعیت کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رعنائیوں کا ذکر کیا ہے۔
2۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے سے بھرپور ایک روایت ملتی ہے جس میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک، جسمانی تناسب، اعضائے مبارکہ کے حسنِ اِعتدال اور اوصافِ حمیدہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
ليس بالطويل الممغّط و لا بالقصير المتردد، و کان ربعة من القوم، و لم يکن بالجعد القطط، و لا بالسبط، کان جعداً رجلاً، و لم يکن بالمطهم و لا بالمکلثم، و کان في الوجه تدويرٌ، آبيض مشرب، آدعج العينين، آهدب الآشفار، جليل المشاش و الکتد، آجرد ذومسربة، شثن الکفين و القدمين، إذا مشي تقلع، کآنما يمشي في صبب، و إذا التفت التفت معاً، بين کتفيه خاتم النبوة و هو خاتم النبيين، آجود الناس صدراً، و آصدق الناس لهجة، و آلينهم عريکة، و آکرمهم عشرة، مَن رآه بديهة هابه، و من خالطه معرفة آحبه، يقول ناعته : لم آر قبله ولا بعده مثله صلي الله عليه وآله وسلم .
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 599، رقم : 3638
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 32، رقم : 7
3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 416
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
5. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 29
6. ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 247
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 269
9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124
10. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 153
11. مبارکپوري، تحفة الآحوذي، 10 : 82
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد مبارک میں نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ پست قد بلکہ میانہ قد کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔ جسمِ اطہر میں فربہ پن نہ تھا۔ چہرہ مبارک (بالکل گول نہ تھا بلکہ اُس) میں تھوڑی سی گولائی تھی، رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں۔ کندھوں کے سرے اور درمیان کی جگہ پُر گوشت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اقدس پر زیادہ بال نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک پُرگوشت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو قدموں کو قوت سے اُٹھاتے گویا نیچے اُتر رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے پورے بدن کو پھیر کر توجہ فرماتے۔ دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، سب سے زیادہ سخی دل والے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے اور خاندان کے لحاظ سے سب سے زیادہ افضل تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک دیکھتا پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا، جوں جوں قریب آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانوس ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے لگتا۔ (الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) حلیہ بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا پہلے دیکھا نہ بعد میں۔‘‘
3۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلنشیں تذکرہ ایک اور مقام پر حضرت ام معبد رضی اﷲ عنہا سے بھی مروی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پڑاؤ کیا جہاں ایک پختہ عمر عورت کا خیمہ تھا۔ وہ اکثر مسافروں کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیا کرتی تھی۔ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا، اس کا شوہر ریوڑ چرانے کے لئے باہر گیا ہوا تھا، گھر میں صرف ایک لاغر بکری تھی جو ریوڑ کے ساتھ جانے سے قاصر تھی۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معجزتاً اس بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کے لمس سے اُس بکری کے خشک تھنوں میں اِتنا دودھ بھر آیا کہ وہاں موجود تمام لوگ سیر ہو گئے مگر دودھ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اُمِ معبد کا شوہر بکریاں چرانے کے بعد واپس آیا تو گھر میں دودھ سے لبالب برتن دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس موقع پر اُم معبد نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا :
رآيتُ رجلاً ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه، حسن الخلق، لم تعبه ثجلة و لم تزر به صعلة، وسيم قسيم، في عينيه دعجٌ، و في آشفاره وطفٌ، و في صوته صحلٌ، آحور، آکحل، آزج، آقرن، شديد سواد الشعر، في عُنقه سطعٌ، و في لحيته کثافة، إذا صمت فعليه الوقار، و إذا تکلم سما و علاه البهاء، کان منطقه خرزات نظم يتحدرن، حلو المنطق، فصل، لا نزر و لا هذر، آجهر الناس و آجمله من بعيد، و آحلاه و آحسنه من قريب، ربعة، لا تشنؤه من طول و لا تقتحمه عين من قصر، غصن بين غصنين فهو آنضر الثلاثة منظراً، و آحسنهم قدراً، له رفقاء يحفون به، إذا قال استمعوا لقوله، و إذا آمر تبادروا إلي آمره، محفود محشود، لا عابث و لا مفند.
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230، 231
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : ، 49، 7 : 105
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
5. حسان بن ثابت، ديوان : 57 58
6. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 310
7. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 253
8. ابن حبان، الثقات، 1 : 125
9. ابن عبد البر، الاستيعاب، 4 : 1959
10. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 139
11. صالحي، سبل الهدي و الرشاد، 3 : 348
’’میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کا حسن نمایاں اور چہرہ نہایت ہشاش بشاش (اور خوبصورت) تھا اور اَخلاق اچھے تھے۔ نہ رنگ کی زیادہ سفیدی اُنہیں معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اُن میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بہت خوبرو اور حسین تھے۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں اور پلکیں لمبی تھیں۔ اُن کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم و سرمگین، دونوں ابرو باریک اور ملے ہوئے تھے۔ بالوں کی سیاہی خوب تیز تھی۔ گردن چمکدار اور ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی، جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ گفتگو واضح ہوتی، نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ۔ دُور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے دیکھیں تو سب سے زیادہ خوبرو، (شیریں گفتار اور) حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا، نہ اِتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں معیوب جانیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ تھے جو خوب سرسبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ساتھی ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرماتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو کر غور سے سنتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے تو وہ فوراً اسے بجا لاتے۔ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ترش رو تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی جاتی۔‘‘
حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمہ وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل کرتا۔ اُمِ معبد بے ساختہ اپنی زبان میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی کر چکی تو اس کے شوہر نے مسحورکن انداز میں انتہائی عقیدت اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً یہی وہ شخص ہے قریش جس کی زندگی کے درپے ہیں۔ اگر میں انہیں پا لیتا تو ضرور ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرتا، اگر ممکن ہوا تو میں اب بھی انہیں ضرور پاؤں گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی نظر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے اقدس کی وجاہت اور بے پناہ حسن و جمال سے مبہوت ہو کر رہ جاتا لیکن جوں جوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش اور جاذبِ نظر شخصیت سے مسحور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہو جاتا۔ جسے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب کی نعمت میسر آتی وہ ہمیشہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گرویدہ ہو جاتا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی اِنتہائی شاق گزرتی۔
ان روایات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک اور سراپائے مبارک کو خالقِ کائنات نے ہر قسم کے عیب اور نقص و سقم سے یکسر مبرّا و منزّہ تخلیق کیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کے دوران کسی حاسد کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انگشت نمائی کا حوصلہ نہ ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن و جمال کو بیان کرنے کے لئے اہلِ قلب و نظر نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔ شاعروں نے خامہ فرسائی کی حد کر دی لیکن کوئی بھی اس مہبطِ حسن اِلٰہی کی رعنائیوں کا اِحاطہ نہ کر سکا اور بالآخر سب کو اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرنا پڑا۔ کسی نے یوں کہا :
مصحفے را ورق ورق دیدم
ہیچ سورت نہ مثل صورت اوست
اور کسی کو یوں کہنا پڑا :
حسنِ یوسف، دم عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
غالب جیسے قادرالکلام شاعر نے اپنی عجز بیانی کا اظہار یوں کیا :
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد (ص) است
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپائے اَقدس تناسبِ آعضاء کا بہترین شاہکار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسی و ظاہری پہلو حد درجہ دلکش اور جاذبِ نظر تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں مرکزِ نگاہ ہوتے تھے اور دیکھنے والی ہر آنکھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے انور کے حسن و جمال کی رعنائیوں میں کھوئی رہتی اور بیان کرنے والا جہاں بھی ہوتا اُسی حسن کے چرچے کرتا۔ آئندہ صفحات میں ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عمل کی اِتباع میں تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین اور متناسب اعضائے مبارکہ کا ذکر کریں گے۔
حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلیء قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.
’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 144
ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :
وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO
’قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ زیبا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO‘‘
القرآن، الضحٰی، 93 : 1 - 3
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
والانسب بهذا المقام في تحقيق المرام أن يقال أن في الضحي إيماء إلي وجهه صلي الله عليه وآله وسلم کما أن في الليل أشعارا إلي شعره عليه الصلوة والسلام.
’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
ملا علي قاري، شرح الشفا، 1 : 82
امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
الضُّحٰی : بوجهها، و الليل : شعره.
’’ضحی سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔‘‘
زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 8 : 444
امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے سوال اُٹھاتے ہیں : کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ اور پھر خود ہی جواب مرحمت فرماتے ہیں :
نعم، و لا إستبعاد فيه و منهم من زاد عليه، فقال : و الضُّحيٰ : ذکور أهل بيته، و الليل : أناثهم.
’’ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔‘‘
رازي، التفسير الکبير، 31 : 209
دیگر تفاسیر مثلاً ’تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘، ’تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ اور ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چہرۂ انور کو کھلے ہوئے اوراقِ قرآن سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایامِ وصال میں یارِ باوفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا :
کَاَنَّ وجهه ورقةُ مصحفٍ.
’’گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 648
2. مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 1624
4. نسائی، السنن الکبريٰ، 4 : 261، رقم : 7107
5. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 110، 163، 196
6. ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 6875
7. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم : 9754
8. ابويعلي، المسند، 6 : 250، رقم : 3548
9. حميدي، المسند، 2 : 501، رقم : 1188
10. ابوعوانه، المسند، 1 : 445، رقم : 1647
11. بيهقی، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4875
12. ابونعيم، المسند المستخرج، 2 : 43، رقم : 936
13. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 216
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسی شعورِ جمال کو محدثِ کبیر امام عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
و وجه التشبيه حسن الوجه وصفا البشرة وسطوع الجمال لما افيض عليه من مشاهدة جمال الذات.
’’چہرۂ انور کے حسن و جمال، ظاہری نظافت و پاکیزگی اور چمک دمک کا (قرآنِ مجید کے ورق سے) تشبیہ دینا اس وجہ سے ہے کہ یہی وہ روئے مقدس ہے جو جمالِ خُداوندی کے مشاہدہ سے فیض یاب ہوا۔‘‘
مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 2 : 255
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور اپنی صورت پذیری میں قرآنِ حکیم کے اوراق جیسی چمک دمک کا مظہرِاتم تھا کیونکہ یہی وہ روئے منور ہے جس نے اللہ رب العزت کے حسن و جمال کے مشاہدے سے فیض پایا۔
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے تاباں کو قرآن مجید کے ورق سے تشبیہ دینے کے حوالے سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
عبارة عن الجمال البارع وحسن البشرة وصفاء الوجه واستنارته.
(جس طرح ورقِ مصحف کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے حسی اور معنوی نور پر مشتمل ہو کر دیگر تمام کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اسی طرح) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بھی اپنے) حسن و جمال، چہرہ انور کی نظافت و پاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 179
آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمال الہٰیہ کے عکس کا پرتو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس سراپا مظہریتِ حق کی شان کا حامل تھا اس لیے اس چہرۂ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :
من رآني فقد رأي الحق، فإن الشيطٰن لا يتکونني.
1. بخاري، الصحيح، 6 : 2568، کتاب التعبير، رقم : 6596
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 55
3. بيهقي، دلائل النبوه، 7 : 45
’’جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن الشيطان لا يستطيع أن يتشبه بي، فمن رآني في النوم فقد رآني.
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 361، 362
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 322، رقم : 393
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272
’’بیشک شیطان میری صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔‘‘
امام نبہانی، امام احمد بن ادریس رحمۃ اﷲ علیہ کے حوالے سے حدیث مذکورہ کی تشریح درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :
من رآني فقد رآي الحق تعالٰي.
نبهاني، جواهرالبحار، 3 : 63
’’جس نے مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق تعالیٰ کو دیکھا۔‘‘
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا، اس لئے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا۔
حاجي امداد الله، شمائم امداديه، 49 : 50
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو جمالِ خُداوندی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
اما وجہِ شریفِ ویا مراٰتِ جمالِ الٰہی است، و مظہرِ انوارِ نامتناہی وے بود.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور ربِ ذُوالجلال کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔‘‘
محدث دهلوي، مدارج النبوه، 1 : 5
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ تاباں کی ضوفشانی اللہ رب العزت کے انوار و تجلیات سے مستعار و مستنیر ہے جو آفتاب جہاں تاب کے مانند ہر سو جلوہ فگن ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے فیض یاب ہوتے تو ان کی آنکھوں میں نور اور سینوں میں ٹھنڈک بھر جاتی، ان کے دل اس حسن جہاں آراء کے جلوؤں سے کبھی بھی سیر نہ ہوتے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ پیکرِ حسن ہمیشہ ان کی آنکھوں کے سامنے جلوہ آرا رہے اور وہ اس حسنِ سرمدی کے حیات آفریں چشمے سے زندگی کی خیرات حاصل کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی درخشانی و تابانی ہنگامی اور عارضی نہ تھی بلکہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے انوار کی رِم جھم جاری رہتی تھی۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں اس قدر دل آویزی اور کشش و جاذبیت رکھی تھی کہ ہر طالبِ دیدار ہمہ وقت تمنائی رہتا کہ روئے مقدس کو دیکھتا ہی چلا جائے اور وہ جلوہ گاہِ حسن کبھی اس کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو۔
1۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجهاً و أحسنهم خلقاً.
’’حضور پُرنورا چہرۂ انور اور اپنے اخلاقِ حسنہ کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1330، کتاب المناقب، رقم : 3356
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2337
3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 160
2۔ سفرِ ہجرت جاری تھا، کاروانِ ہجرت اُمِ معبد کے پڑاؤ پر رُکا تو اُمِ معبد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئی اور تصویرِ حیرت بن گئی۔ وہ بے ساختہ پُکار اُٹھی :
رأيت رجلا ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه.
’’میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی صفائی و پاکیزگی بہت صاف اور کھلی ہوئی ہے، چہرہ نہایت ہشاش بشاش ہے۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظاہری حُسن و جمال جو باوجود اس کے کہ کئی پردوں میں مستور تھا، دیکھ کر انسانی آنکھ حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتی اور کائنات کی جملہ رعنائیاں قدومِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار ہو ہو جاتیں۔
3۔ جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حسن و جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
مَا رَآيتُ شَيآ أحسن من رسول اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کأنّ الشمس تجري في وجهه.
’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر حسین و جمیل کسی اور کو نہیں پایا (یعنی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے روئے منور کی زیارت کرکے یوں محسوس ہوتا) گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور میں آفتابِ روشن محوِ خرام ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 380، رقم : 8930
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 350، رقم : 8588
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 215، رقم : 6309
4. ابن مبارک، کتاب الزهد، 1 : 288، رقم : 838
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 415
6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 209
7. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 151
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573
4۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ربیع بنت معوذ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل پوچھے تو اُنہوں نے کہا :
يا بني! لو رأيته رأيت الشمس طالعة.
’’اے میرے بیٹے! اگر تو ان کی زیارت کرتا تو (گویا حسن و جمال میں) طلوع ہوتے سورج کی زیارت کرتا۔‘‘
1. دارمي، السنن، 1 : 44، رقم : 61
2. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 116، رقم : 3335
3. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 274، رقم : 696
4. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 151، رقم : 1420
5. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 200
6. هيثمي، مجمع الزوائد : 8 : 280
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1838، رقم : 3336
5۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا :
آکَان وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم مثل السيف؟
’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور تلوار کی مانند تھا؟‘‘
اُنہوں نے جواباً کہا :
لا، بل مثل القمر.
’’نہیں (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس تلوار کے مانند نہیں) بلکہ چاند کی طرح (چمکدار اور روشن) تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3359
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب المناقب، رقم : 3636
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 281
4. دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 64
5. ابن حبان، الصحيح، 14 : 198، رقم : 6287
6. روياني، المسند، 1 : 224، 225، رقم : 310
7. ابن جعد، المسند، 1 : 375، رقم : 2572
8. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 10
9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 416، 417
10. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 163
11. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 152
6۔ یہی سوال حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
لا، بل کان مثل الشمس و القمر وکان مستديرا.
’’نہیں، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سورج اور چاند کی طرح (روشن) تھا اور گولائی لئے ہوئے تھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 1823، کتاب الفضائل، رقم : 2344
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 104، رقم : 21037
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 235
4. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 147
5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 224، رقم : 1926
7۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
کان في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تدوير.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور گول تھا (جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے)۔‘‘
1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 39
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے چہرۂ انور کو گول کہا توان کا مقصود چہرۂ انور کو محض چاند سے تشبیہ دینا تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ روئے منور بالکل گول نہ تھا اور نہ لمبا بلکہ اعتدال و توازن کا ایک شاہکار تھا۔
شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ رقمطراز ہیں :
مثل القمر المستدير هو أنور من السيف لکنه لم يکن مستديراً جداً، بل کان بين الإستدارة و الإستطالة.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منورگولائی میں چاند کی طرح اور چمک دمک میں تلوار سے بڑھ کر تھا۔ لیکن چہرۂ اقدس نہ بالکل گول تھا اور نہ لمبا ہی تھا، بلکہ ان کے درمیان تھا (یعنی چہرۂ انور توازن و اعتدال کا عمدہ ترین نمونہ تھا)۔‘‘
بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 25
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانی و ضوفشانی دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بے ساختہ اسے چاند سے تشبیہ دینے لگتے۔ جب وہ تاروں بھرے آسمان میں پورے چاند کو دیکھتے تو اس کے حسنِ شب تاب سے ان کی خوش نصیب نگاہیں بے اختیار چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اٹھ جاتیں، جس کے حسن عالم تاب نے تمام جہاں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔
1۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وَکَانَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذا سُرّ استنار وجهه، حتي کأنه قطعة قَمَر، وکنا نعرف ذلک منه.
’’جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور سے نُور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں، یوں لگتا جیسے چہرۂ اقدس چاند کا ٹکڑا ہو اور اس سے ہم جان لیتے (کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کے عالم میں ہیں)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1305، کتاب المناقب، رقم : 3363
2. بخاري، الصحيح، 4 : 1718، کتاب التفسير، رقم : 4400
3. مسلم، الصحيح، 4 : 2127، کتاب التوبه، رقم : 2769
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 6 : 360، رقم : 11232
5. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 458، رقم : 27220
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 424، رقم : 37007
7. حاکم، المستدرک، 2 : 661، رقم : 4193
8. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 55، 69، رقم : 95، 134
9. ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 220
10. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 197
11. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 163، رقم : 251
2۔ یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے زانوؤں پر سر رکھ کر استراحت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرہ انور کی قریب سے زیارت کا اعزاز حاصل کیا۔ آپ فرماتے ہیں :
کان وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کدارة القمر.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور (چودھویں کے) چاند کے (حلقہ اور) دائرہ کی مانند (دکھائی دیتا) تھا۔‘‘
1. ابن جوزي، الوفا : 412
2. هندي، کنزالعمال، 7 : 162، رقم : 18526
3۔ حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سُرخ چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت کرتا بالآخر دل بے اختیار ہو کر پُکار اُٹھا :
فلهو عندي أحسن من القمر.
’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نزدیک چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 39، رقم : 10
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 1 : 224
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 196
ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :
فنور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم ذاتي، لا ينفک عنه ساعة في الليالي و الأيام، و نور القمر مکتسب مستعار ينقص تارة ويخسف أخرٰي.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا نُور دن رات میں کبھی جدا نہیں ہوتا کیونکہ چاند کے برعکس یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذاتی وصف ہے، چاند کا نور تو سُورج سے مستعار ہے، اس لئے اس میں کمی بھی آجاتی ہے حتیٰ کہ کبھی تو بالکل بے نُور ہو جاتا ہے۔‘‘
ملا علي قاري، جمع الوسائل علي الشمائل المحمديه، 1 : 56
4۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روئے منور کے حوالے سے فرماتے ہیں :
يتلألؤ وجهه تلألؤالقمر ليلة البدر.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور چودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتا تھا۔‘‘
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35، رقم : 8
5۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں :
و کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن الناس وجها و أنورهم لونا، لم يصفه واصف قط الا شبه وجهه بالقمر ليلة البدر، وکان عرقه في وجهه مثل اللؤلو.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑھ کر حسین و جمیل اور خوش منظر تھے۔ جس شخص نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف و ثناء کی اُس نے چہرۂ انور کو چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح (چمکتے) تھے۔‘‘
1. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 312
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 300
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور کو چاند سے تشبیہ دینے کے حوالے سے ابن دحیہ کہتے ہیں :
لآن القمر يؤنس کل من شاهده و يجْمَعُ النور من غير أذي حَرّ، و يتمکن من النظر إليه بخلاف الشمس التي تُعشي البصر فتمنع من الرؤية.
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 41
’’چونکہ چاند اپنے دیکھنے والے کو مانوس کرتا ہے، چاند سے روشنی کا حصول گرمی کے بغیر ہوتا ہے اور اُس پر نظر جمانا بھی ممکن ہوتا ہے، بخلاف سورج کے کہ اس کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور (کسی چیز کو) دیکھنے سے عاجز آ جاتی ہیں۔‘‘
شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
إنما آثر القمر بالذکردون الشمس لأنه صلي الله عليه وآله وسلم محا ظلمات الکفر کما أن القمر محا ظلمات الليل.
’’ (چہرۂ انور کو) سورج سے تشبیہ نہ دے کر چاندسے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفر کی تاریکیوں کو اسی طرح دور کر دیا جس طرح چاند اندھیری رات کی تاریکیوں کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
ابراهيم بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 19
6۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :
ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دخل عليها مسروراً، تبرق أسارير وجهه.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاداں و فرحاں تھے، چہرۂ اقدس کے تمام خدو خال نُور کی طرح چمک رہے تھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، باب صفة الانبياء، رقم : 3362
2. مسلم، الصحيح، 2 : 1081، کتاب الرضاع، رقم : 1459
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 440، کتاب الولاء والهبة، رقم : 2129
4. ابو داؤد، السنن، 2 : 280، کتاب الطلاق، رقم : 2267
5. نسائي، السنن، 6 : 184، کتاب الطلاق، رقم : 3493
6. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 82، رقم : 24570
7. دارقطني، السنن، 4 : 240، رقم : 131
8. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 447، رقم : 13833
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 265، رقم : 21061
10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 63
امام ابن اثیر رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
فی صفته عليه الصلوة والسلام : إذا سُر فکأنّ وجهه المرآة، وکأن الجدر تلاحک وجهه، أي يري شخص الجدر في وجهه صلي الله عليه وآله وسلم .
’’یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں سے تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو روئے منور آئینے کی طرح (شفاف اور مجلا) ہو جاتا گویا کہ دیواروں کا عکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس میں صاف نظرآتا۔‘‘
ابن اثير، النهايه، 4 : 238، 239
7۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں حفصہ بنت رواحہ سے سوئی عاریتاً لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک وہ میرے ہاتھ سے گر گئی اور تلاش بسیار کے بعد بھی نہ ملی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے :
فتبينت الابرة من شعاع نور وجهه صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس سے نکلنے والے نُور کی وجہ سے مجھے اپنی گم شدہ سوئی مل گئی۔‘‘
1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 325
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 107
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو اسلام لانے سے قبل یہود کے بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں کہ اسلام کے دامنِ رحمت میں آنے سے پہلے جب میں نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بارے میں سنا تو نبوت کی دعویدار اس ہستی کو دیکھنے کے لئے آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف فرما تھے۔
فلما استبنت وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عرفت أنّ وجهه ليس بوجه کذابٍ.
’’پس جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاچہرۂ اقدس دیکھا تو میرا دل پُکار اُٹھا کہ یہ (نورانی) چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 652، ابواب صفة القيامه، رقم
: 2485
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 423، کتاب اقامةالصلوة والسنه فيها، رقم : 1334
3. حاکم، المستدرک، 3 : 14، رقم : 4283
4. حاکم، المستدرک، 4 : 176، رقم : 7277
5. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 451
6. دارمي، السنن، 1 : 405، رقم : 1460
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 502، رقم : 4422
8. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 216، رقم : 3361
9. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 248، رقم : 25740
10. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 235
11. ابن عبدالبر، الدريه، 1 : 85
12. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 4 : 118
13. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 314
حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أتيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو بمني أو بعرفات، وقد أطاف به الناس، قال : فتجئ الآعراب فإذا رأوا وجهه، قالوا : هذا وجهٌ مبارک.
’’میں منٰی یا عرفات کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ (بیکس پناہ) میں حاضر ہوا اور (دیکھا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے لوگ جوق درجوق آ رہے ہیں پس میں نے مشاہدہ کیا کہ دیہاتی آتے اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 2 : 144، کتاب الحج، رقم : 1742
2. بخاري، الادب المفرد، 1 : 392، رقم : 1148
3. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 261، رقم : 3351
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 28، رقم : 8701
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 269
طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمارے قافلے نے مضافاتِ مدینہ میں پڑاؤ ڈالا، ہمارے قافلے میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ اُس وقت تک ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے آشنا نہیں تھے، آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارا سُرخ اُونٹ پسند آگیا، اُونٹ کے مالک سے سودا طے ہوا، لیکن اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رقم نہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے شدہ رقم بھجوانے کا وعدہ کیا اور سُرخ اُونٹ لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اہلِ قافلہ اپنے خدشات کا اظہار کرنے لگے کہ ہم نے تو سُرخ اُونٹ کے خریدار کا نام تک دریافت نہیں کیا اور محض وعدے پر اُونٹ ایک اجنبی کے حوالے کر دیا ہے، اگر اُونٹ کے خریدار نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو کیا ہو گا؟ لوگوں کی قیاس آرائیاں سننے کے بعد سالارِ قافلہ کی بیوی قافلے والوں کو مخاطب کرکے یوں گویا ہوئی :
لاتلاوموا، فإني رأيت وجه رجل لم يکن ليحقرکم، ما رأيت شيئا أشبه بالقمر ليلة البدر من وجهه.
’’تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو، بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے (اور میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ) وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا۔ میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہہ نہیں دیکھا۔‘‘
1. ابن حبان، الصحيح، 14 : 518، رقم : 6562
2. حاکم، المستدرک، 2 : 668، رقم : 4219
3. ابن اسحاق، السيرة، 4 : 216
4. قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 200
5. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 649
جب شام ہوئی تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ’’میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد ہوں، یہ کھجوریں لو پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کر لو۔‘‘ تو ہم نے خوب سیر ہو کر کھجوریں کھائیں اور (اونٹ کی) قیمت بھی پوری کر لی۔
سردارِ دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور مناسب حد تک بڑا اور حسنِ اِعتدال کے ساتھ وقار و تمکنت کا مظہرِ اتم دکھائی دیتا تھا۔ اس سے دیکھنے والے کے دل و دماغ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سردارِ قوم ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی وجاہت و عظمت کا دائمی تاثر قائم ہوتا۔
1۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ضخم الرآس.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ اقدس موزونیت کے ساتھ بڑا تھا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 2 : 204، کتاب المناقب، رقم : 3637
2. احمدبن حنبل، المسند، 1 : 89، 96، 101، 127
3. بخاري، الادب المفرد : 445، باب الجفاء، رقم : 1315
4. بخاري، التاريخ الکبير، 1 : 8
5. حاکم، المستدرک، 2 : 662، رقم : 4194
6. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 93، رقم : 152
7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 149، رقم : 1414
8. بزار، المسند، 2 : 118، 253، 256
9. طيالسي، المسند، 1 : 24، رقم : 171
10. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 350، 368، رقم : 731، 751
11. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
12. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 221
2۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عظيم الهامة.
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرِ انور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35، رقم : 8
2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 217، رقم : 6311
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31807
4. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 116
5. ابو يعلٰي، المسند، 1 : 187، 303، رقم : 217
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
7. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
9. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
سر کا غیر معمولی طور پر بڑا یا چھوٹا ہونا انسانی شخصیت کے ظاہری حسن کو عیب دار بنا دیتا ہے۔ جبکہ اعتدال و موزونیت کے ساتھ سر کا بڑا ہونا وقار و رعنائی، عقل و دانش اور فہم و بصیرت کی دلیل ہے۔ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
عظم الرأس دليلٌ علي کمال القوٰي الدماغية، و هو آية النجابة.
’’سرِ (اقدس) کا بڑا ہونا دماغی قویٰ کے کامل ہونے کے ساتھ ساتھ سردارِ قوم ہونے کی بھی دلیل ہے۔‘‘
بيجوري، المواهب اللدنيه علي الشمائل المحمديه : 13
اعتدال کے ساتھ سر کا بڑا ہونا قابلِ ستائش ہے جیسا کہ عبدالرؤف مناوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
و عظم الرآس ممدوٌح لآنه آعون علي الإدراکات و الکمالات.
’’سر کا بڑا ہونا قابلِ ستائش ہوتا ہے، کیونکہ یہ اَمر (حقائق کی) معرفت اور کمالات کے لئے معین و مددگار ہوتا ہے۔‘‘
مناوي، حاشيه برجمع الوسائل، 1 : 42
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور پر مبارک بال نہایت حسین اور جاذب نظر تھے، جیسے ریشم کے سیاہ گچھے، نہ بالکل سیدھے اور نہ پوری طرح گھنگھریالے بلکہ نیم خمدار جیسے ہلالِ عید، اور ان میں بھی اِعتدال، توازُن اور تناسب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاہ زلفوں کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا :
وَ اللَّيْلِ اِذَا سَجٰیO
’’ (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔‘‘
القرآن، الضحٰی، 93 : 2
یہاں تشبیہ کے پیرائے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کا ذکر قسم کھا کر کیا گیا جو دراصل محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی قسم ہے۔ روایات میں مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور علیہ السلام سے اس قدر والہانہ محبت تھی کہ ان کی نگاہیں ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا طواف کرتی رہتیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خمدار زلفوں کے اسیر تھے اور اکثر اپنی محفلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبریں کا تذکرہ والہانہ انداز سے کیا کرتے تھے۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان شعرالنبي صلي الله عليه وآله وسلم رجلا، لا جعْدَ و لا سبط.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں نہ تو مکمل طور پر خمدار تھیں اور نہ بالکل سیدھی اکڑی ہوئی بلکہ درمیانی نوعیت کی تھیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5566
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 220
2۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں کی مختلف کیفیتوں کو اُن کی لمبائی کے پیمائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز سے بیان کیا ہے۔ اگر زلفانِ مقدس چھوٹی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لوؤں کو چھونے لگتیں تو وہ پیار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی لمۃ (چھوٹی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے، جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما رأيت من ذي لمة آحسن في حلة حمراء من رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ، شعره يضرب منکبه.
’’میں نے کانوں کی لو سے نیچے لٹکتی زلفوں والا سرخ جبہ پہنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 1818، کتاب الفضائل، رقم : 2337
2. بخاري، الصحيح، 5 : 2211، کتاب اللباس، رقم : 5561
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 219، ابواب اللباس، رقم : 1724
4. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 598، ابواب الفضائل، رقم : 3635
5. ابوداؤد، السنن، 4 : 81، کتاب الترجل، رقم : 4183
6. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 31، رقم : 4
7. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 300
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 223
9. ابن حبان اصبهاني، اخلاق النبيا، 4 : 277، رقم : 4
3۔ کتبِ حدیث میں درج ہے کہ ایک دفعہ ابو رمثہ تمیمی رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، بعد میں اُنہوں نے اپنے ہم نشینوں سے ان حسین لمحات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ عنبرین کا تذکرہ یوں کیا :
وله لمة بهما ردع من حناء.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں کی لو سے نیچے تھیں جن کو مہندی سے رنگا گیا تھا۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 163
2. ابن حبان، الصحيح، 13 : 337، رقم : 5995
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 412، رقم : 9328
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 279، رقم : 716
5. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 438
4۔ صحیح بخاری کی روایت میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ سیاہ کے حسن و جمال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
له شعر يبلغ شحمة اليسري، رأيته في حلة حمرآء لم آر شيئًا قط أحسن منه.
’’آپ صلي اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں کی لو تک نیچے لٹکتی رہتیں، میں نے سرخ جبہ میں حضور اسے بڑھ کر کوئی حسین نہیں دیکھا۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1303، کتاب المناقب، رقم : 3358
5۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے :
و کان له شعر فوق الجُمّة و دون الوفرة.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کانوں اور شانوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 233، ابواب اللباس، رقم : 1755
2. ابوداؤد، السنن، 4 : 82، کتاب الترجل، رقم : 4187
ابوداؤد کی عبارت میں فوق الوفرۃ و دون الجمۃ کے الفاظ ہیں۔
6۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معنبر زلفیں قدرے بڑھ جاتیں اور کانوں کی لوؤں سے تجاوز کرنے لگتیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی وفرۃ (لٹکتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہنے لگتے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کا حسین تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی زلفِ مشکبار کا تذکرہ یوں کیا :
کان نبي اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذو وفرة.
’’حضور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لٹکتی ہوئی زلفوں والے تھے۔‘‘
ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 149
7۔ اگر شبانہ روز مصروفیات کے باعث بال مبارک نہ ترشوانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں بڑھ کر مبارک شانوں کو چھونے لگتیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فرطِ محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ذی جمۃ (کاندھوں سے چھوتی ہوئی زلفوں والا)‘‘ کہہ کر پکارتے۔
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مربوعاً بعيد ما بين المنکبين، وکانت جمته تضرب شحمة آذنيه.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ قد تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کانوں کی لو کو چھوتی تھیں۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 48، رقم : 26
2. ابن قيم، زاد المعاد، 1 : 177
3. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 572
8۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :
ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يضرب شعره منکبيه.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفیں کاندھوں کو چوم رہی ہوتی تھیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2338
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3358
3. ابو داؤد، السنن، 4 : 19، کتاب اللباس، رقم : 4072
4. نسائي، السنن، 8 : 134، کتاب الزينه، رقم : 5233
9۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے مبارک کا ذکر محبت بھرے انداز میں کمالِ وارفتگی کے ساتھ کرتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنبر بار زلفوں کا ذکر کرتے ہوئے مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حسن الشعر.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک نہایت حسین و جمیل تھے۔‘‘
1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 317
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 217
10۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
رجل الشعر إن انفرقت عقيقته‘ فرقها و إلا فلا يجاوز شعرة شحمة آذنيه إذا هو و فره.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک خمیدہ تھے، اگر سر اقدس کے بالوں کی مانگ بسہولت نکل آتی تو نکال لیتے تھے ورنہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کے بال مبارک جب لمبے ہوتے تھے تو کانوں کی لو سے ذرا نیچے ہوتے تھے۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. جلي، السيرة الحلبيه، 3 : 435
3. ابن حبان بستي، الثقات، 2 : 145
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 15، رقم : 414
11۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم شديد سواد الرأس واللحية.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک اور سرِ انور کے بال گہرے سیاہ رنگ کے تھے۔‘‘
1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 17
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 418
12۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرائشِ گیسو کے مبارک معمول کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يسدل ناصيته سدل آهل الکتاب، ثم فرق بعد ذلک فرق العرب.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشانی آقدس کے اوپر سامنے والے بال بغیر مانگ نکالے پیچھے ہٹا دیتے تھے جیسا کہ اہلِ کتاب کرتے ہیں، لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح مانگ نکالتے جیسے اہلِ عرب نکالا کرتے۔‘‘
1. ابن حبان بستي، الثقات، 7 : 34، رقم : 8879
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 437، رقم : 4545
تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی فراخ، کشادہ، روشن اور چمکدار تھی جس پر ہر وقت خوشی و اطمینان اور سرور و مسرت کی کیفیت آشکار رہتی۔ جو کوئی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر نظر ڈالتا تو اُس پر موجود خاص چمک دمک اور تابانی دیکھ کر مسرور ہو جاتا، اُس کا دل یک گونہ سکون اوراطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشادہ اور پر نور پیشانی مبارک ہر قسم کی ظاہری و باطنی آلائشوں اور کثافتوں سے پاک تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی انور پر کبھی بھی اُکتاہٹ اور بیزاری کی کیفیت نہیں دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پھولوں کی طرح تر و تازہ اور ماہِ تاباں کی طرح روشن و آبدار تھی، جس پر کبھی شکن نظر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے لئے آنے والوں سے اِس قدر خندہ پیشانی سے پیش آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے نقوش مخاطبین کے دلوں پر نقش ہو جاتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے موانست، چاہت اور اپنائیت کا اِحساس لے کر لوٹتے۔
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم واسع الجبين.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کشادہ پیشانی والے تھے۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
5. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، 155، رقم : 1430
6. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
2۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوصافِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے تو کہتے :
کان مفاض الجبين.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کشادہ تھی۔‘‘
1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
3۔ کتب سیر و تاریخ میں ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کی خبر دی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے خصوصاً سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا :
الصلت الجبين.
’’ (وہ نبي) کشادہ پیشانی والے ہیں۔‘‘
1. ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 345
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 378
3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 78
4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 62
4۔ حافظ ابن ابی خیثمہ بیان کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أجلي الجبين، إذا طلع جبينه من بين الشعر أو طلع من فلق الشعر أو عند الليل أو طلع بوجهه علي الناس، تراء ي جبينه کأنه السراج المتوقد يتلألآ، کانوا يقولون هو صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی روشن تھی۔ جب موئے مبارک سے پیشانی ظاہر ہوتی، یا دن کے وقت ظاہر ہوتی، یا رات کے وقت دکھائی دیتی یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے سامنے تشریف لاتے تو اُس وقت جبینِ انور یوں نظر آتی جیسے روشن چراغ ہو جو چمک رہا ہو۔ یہ حسین اور دلکش منظر دیکھ کر لوگ بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
1. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
2. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 202
5۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا ایک دن چرخہ کات رہی تھیں اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پاپوش مبارک کو پیوند لگا رہے تھے۔ اس حسین منظر کے حوالے سے آپ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں :
فجعل جبينه‘ يعرق، و جعل عرقه يتولد نوراً، فبهت، فنظر إليّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : ما لک يا عائشة بهت؟ قلت : جعل جبين يعرق، وجعل عرقک يتولد نوراً، و لو رآ ک آبو کبير الهذلي لعلم آنک آحق بشعر.
’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیشانی پر پسینہ آیا، اُس پسینہ کے قطروں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی تھی، میں اُس حسین منظر کو دیکھ کر مبہوت ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا : عائشہ ! تجھے کیا ہوگیا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے ہیں جن سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر ابوکبیر ھذلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس کیفیت کا مشاہدہ کرلیتا تو وہ جان لیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں۔‘‘
ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی گفتگو سنی تو از رہِ استفسار فرمایا کہ ابوکبیر ھذلی نے کونسا شعر کہا ہے؟ اس پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا نے یہ شعر پڑھا :
فإذا نظرتُ إلي أسرة وجهه
برقت کبرق العارض المتهلل
(جب میں نے اُس کے رخِ روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی یوں چمکی جیسے برستے بادل میں بجلی کوند جائے۔)
ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 174
شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن پیشانی کا لفظی مرقع اپنے ایک شعر میں یوں پیش کیا ہے :
متی يبد في الداجي البهيم جبينه
يلح مثل مصباح الدجي المتوقد
(رات کی تاریکی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔)
1. حسان بن ثابت، ديوان : 67
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 422، رقم : 15204
3. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 149
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک گہرے سیاہ، گنجان اور کمان کی طرح خمیدہ و باریک تھے۔ دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ چھپی رہتی لیکن جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ اور جلال کی کیفیت میں ہوتے تو وہ رگ اُبھر کر نمایاں ہو جاتی جسے دیکھ کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جان لیتے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہیں۔
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أزج الحواجب سوابغ في غير قرن، بينهما عرق يدره الغضب.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک (کمان کی طرح) خمدار، باریک اورگنجان تھے۔ ابرو مبارک جدا جدا تھے اور دونوں ابروؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 2، رقم : 8
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
4. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35 : 24
5. ابن جوزي، الوفا : 392
2۔ باریک ابروؤں کے بارے میں ایک اور روایت یوں ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دقيق الحاجبين.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَبرو مبارک نہایت باریک تھے۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 74
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 21
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ابروؤں کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا، اس کا اندازہ روئے منور کو بغور دیکھنے سے ہی ہوتا تھا ورنہ عام حالت میں یوں لگتا تھا کہ اُن کے درمیان سرے سے کوئی فاصلہ ہی نہیں۔ جیساکہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم مقرون الحاجبين.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابرو مقدس آپس میں متصل تھے۔‘‘
1. ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 245
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
3. حاکم، المستدرک، 3 : 391، رقم : 5484
4. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 22
بادی النظر میں مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں تعارض محسوس ہوتا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ ابرو مبارک ملے ہوئے نہ تھے جبکہ دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ ابرو مبارک ملے ہوئے تھے۔ ائمہ نے ان دونوں روایات کے درمیان تطبیق یوں کی ہے :
الفرجة التي کانت بين حاجبيه يسيرة، لا تبين إلا لمن دقق النظر.
’’دونوں ابروؤں کے درمیان اتنا کم فاصلہ تھا جو صرف بغور دیکھنے سے محسوس ہوتا تھا۔‘‘
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 323
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی وجیہ، خوبصورت اورروشن چہرۂ اقدس عطا فرمایا تھا۔ اس چہرۂ انور کی رعنائی و زیبائی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت اور فراخ آنکھیں چار چاند لگا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں پُرکشش جاذبِ نظر اورحسن و زیبائی کا بے مثال مرقع تھیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں خوب سیاہ، کشادہ، خوب صورت اور پُرکشش تھیں۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان أدعج العينين.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں کشادہ اور سیاہ تھیں۔‘‘
1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 213
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 410
3. بيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 272
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں گہری سیاہ، دراز اور گھنی تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان أهدب أشفار العينين.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پلکیں نہایت دراز تھیں۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 414
2. مناوي، فيض القدير، 5 : 74
3۔ قافلۂ ہجرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پڑاؤ پر پہنچا تو وہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر تصویرِ حیرت بن گئیں، حسنِ مصطفی کی منظر کشی کرتے ہوئے وہ فرماتی ہیں :
فی أشفاره وطف.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز ہیں۔‘‘
1. حسان بن ثابت، ديوان : 58
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 279
5. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 179
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
7. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 23
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کے اندر پتلی مبارک نہایت سیاہ تھی، اُن میں کسی اور رنگ کی جھلک نہ تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
وکان أسود الحدقة.
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 412
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 16
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 32
4. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 125
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی پتلی نہایت ہی سیاہ تھی۔‘‘
5۔ پتلی کے علاوہ آنکھوں کا بقیہ حصہ سفید تھا مگر اُس میں سرخی ہم آمیز یعنی گھلی ہوئی نظر آتی تھی، یوں لگتا تھا کہ اس میں ہلکا سا سرخ رنگ کسی نے گھول کر ملا دیا ہے اور دیکھنے والے کو وہ سرخ ڈورے دکھائی دیتے تھے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أشکل العينين.
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3647
2. مسلم، الصحيح، 2 : 258، کتاب الفضائل، رقم : 2339
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 199، رقم : 6288
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کے سفید حصے میں سرخ رنگ کے ڈورے دکھائی دیتے تھے۔‘‘
6۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں قدرتی طور پرسرمگیں تھیں اور جو ان چشمانِ مقدسہ کو دیکھتا وہ یہ سمجھتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی ابھی سرمے کی سلائی ڈال کر آئے ہیں۔
حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کنتُ إذا نظرتُ إليه، قلتُ : أکحل العينين وليس بأکحل.
’’میں جب بھی آقا اکی چشمانِ مقدسہ کا نظارہ کرتا تو اُن میں سرمہ لگا ہونے کا گمان ہوتا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت سرمہ نہ لگایا ہوتا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 603، ابواب المناقب، رقم : 3645
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 186
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 97
4. ابن جوزي، الوفا : 393
7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن میں بھی جب نیند سے بیدار ہوتے تو سر کے بال اُلجھے ہوئے ہوتے نہ آنکھیں بوجھل ہوتیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندہ بہ لب اور شگفتہ گلاب کی طرح تروتازہ ہوتے اور قدرتی طور پر آنکھیں سرمگیں ہوتیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہماسے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب نے فرمایا :
کان الصبيان يصبحون رُمصاً شعثا، و يصبح رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، دهيناً کحيلاً.
’’عام طور پر بچے جب نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں بوجھل اور سر کے بال الجھے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 120
2. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 2 : 283
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 141
4. حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 189
5. ملا علی قاری، جمع الوسائل، 1 : 31
8۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت آنکھیں بڑی حیادار تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کی طرف آنکھ بھر کر تکتے ہوئے نہ دیکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھیں غایت درجہ شرم و حیاء کی وجہ سے زمین کی طرف جھکی رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکثر گوشۂ چشم سے دیکھنے کی عادت تھی، جب کبھی کسی طرف دیکھتے تو تھوڑی اوپر آنکھ اٹھاتے اور اسی سے دیکھ لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ادائے محبوبانہ کا ذکر روایات میں یوں مذکور ہے :
خافض الطرف، نظره إلي الآرض آکثر من نظره إلي السماء.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 38، رقم : 8
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
3. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 32
4. سيوطی، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
گوشۂ چشم سے دیکھنا کمال شفقت و الفت کا انداز لئے ہوئے تھا جبکہ جھکی ہوئی نظریں بغایت درجہ شرم و حیاء پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون عفت مآب اور حیا دار ہوسکتا تھا مگر جب کبھی اللہ رب العزت کا پیغام آتا اور نزولِ وحی کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نظریں آسمان کی طرف اُٹھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پلٹ پلٹ کر آسمان کی طرف نگاہ کرتے جیسے تبدیلیء قبلہ کا حکم نازل ہوا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرۂ انور کو بار بار اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کیفیت کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا :
قَدْ نَريٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَآءِ.
القرآن، البقره، 2 : 144
’’ (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اللہ رب العزت نے انسان کو کائناتِ خارجی کے مشاہدے کے لئے بصارت اور کائناتِ داخلی کے مشاہدے کے لئے بصیرت عطا فرمائی۔ مؤخر الذکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی بصیرت کہہ کر نورِ خدا قرار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
إتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور اﷲ.
’’مردِ مومن کی فراست (اور بصیرت) سے ڈرا کرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 298، ابواب التفسير، رقم : 3127
2. بخاري، التاريخ الکبير، 7 : 354، رقم : 1529
3. قضاعي، مسند الشهاب، 1 : 387، رقم : 663
4. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 312، رقم : 3254
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 268
6. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 14 : 46
7. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 10 : 43
8. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 326
9. ابونعيم، حلية الأولياء، 6 : 118
10. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 233
جب ایک مردِ مومن کی بصیرت کا یہ عالم ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ رب العزت کے محبوب و مقرب بندے اور رسول ہیں ان کی بصیرت کی ہمہ گیر وسعتوں اور رفعتوں کا عالم کیا ہو گا اس کا اندازہ کرنا کسی بھی فردِ بشر کے بس کی بات نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باطنی بصیرت اور ظاہری بصارت دونوں خوبیاں بڑی فیاضی اور فراخدلی سے عطا کی گئیں۔ عام انسانوں کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیچھے بھی دیکھنے پر قدرت رکھتے تھے اور رات کی تاریکی میں دیکھنا بھی آپ کے لئے ممکن تھا۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
هل ترون قبلتي هاهنا؟ فو اﷲ! ما يخفي عليّ خشو عکم و لا رکوعکم، إني لأرا کم من وراء ظهري.
’’تم میرا چہرہ قبلہ کی طرف دیکھتے ہو؟ خدا کی قسم! تمہارے خشوع (وخضوع) اور رکوع مجھ سے پوشیدہ نہیں، میں تم کو اپنے پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 161، کتاب المساجد، رقم : 408
2. مسلم، الصحيح، 1 : 319، کتاب الصلوة، رقم : 424
3. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 73
4. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 386
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
6. ابن جوزي، الوفاء : 349، رقم : 508
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أيها الناس! إني إمامکم فلا تسبقوني بالرکوع و لا بالسجود، ولا بالقيام ولا بالا نصراف فإني أراکم أمامي و من خلفي.
’’اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں، تم رکوع، سجود، قیام اور نماز ختم کرنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کرو، میں تمہیں اپنے سا منے اور پچھلی طرف (یکساں) دیکھتا ہوں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 1 : 180، کتاب الصلوة، رقم : 426
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 125
3. ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 107، رقم : 1716
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يري باليل في الظلمة کما يري بالنهار من الضوء.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں بھی اسی طرح دیکھتے تھے جیسے دن کی روشنی میں۔‘‘
1. بيهقي، دلائل النبوه، 6 : 75
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 272
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 104
4. حلبي، انسان العيون، 3 : 386
5. ابن جوزي، الوفا : 349، رقم : 510
4۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أني أرَي ما لا ترون.
’’میں وہ سب کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 556، ابواب الزهد، رقم : 2312
2. حاکم، المستدرک، 2 : 510
3. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 173
4. بزار، المسند، 9 : 358
5. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 58
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 52، رقم : 13115
7. شعب الايمان، 1 : 484، رقم : 783
8. ابن کثير، البدايه والنهايه 9، 1 : 42
9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 113
5۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إن اﷲ زوي لِيَ الأرض، فرأيتُ مشارقها و مغاربها.
’’بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے شرق و غرب کو دیکھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 2215، کتاب الفتن و اشراط الساعة، رقم
: 2889
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 472، ابواب الفتن، رقم : 2176
3. ابوداؤد، السنن، 4 : 97، کتاب الفتن والملاحم، رقم : 4252
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 278، رقم : 22448
5. ابن حبان، الصحيح، 16 : 221، رقم : 7238
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 11 : 458، رقم : 11740
6۔ حضرت عمر صسے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن اﷲ قد رفع لي الدنيا، فأنا أنظر إليها و إلي ما هو کائن فيها إلي يوم القيامة، کأنما آنظر إلي کفي هذه.
’’بیشک اللہ نے میرے لئے دنیا اٹھا کر میرے سامنے کردی۔ پس میں دنیا میں جو واقع ہو رہا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اُسے یوں دیکھ رہا ہوں جیسے میں اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 287
2. نعيم بن حماد، السنن، 1 : 27
3. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 185
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 7 : 204
7۔ حضرت عقبہ بن عامر صسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إن موعدکم الحوض، و إني لأنظر إليه من مقامي هذا.
’’بیشک (میرے ساتھ) تمہاری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اُسے یہاں اِس مقام سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 4 : 1486، کتاب المغازي، رقم : 3816
2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 154
3. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 679
8۔ حضرت اسماء رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا :
ما من شئي کنت لم آره إلا قد رأيته في مقامي هذا، حتي الجنة والنار.
’’کوئی ایسی شے نہیں جو میں نے نہیں دیکھی مگر اس مقام پر دیکھ لی یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کو بھی)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 79، کتاب الوضوء، رقم : 182
2. مسلم، الصحيح، 2 : 624، کتاب الکسوف، رقم : 905
3. ابن حبان، الصحيح، 7 : 383، رقم : 3114
4. ابوعوانه، المسند، 1 : 151
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 338، رقم : 6153
9۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مقدسہ کی بصارت کی گہرائی اور گیرائی کا یہ عالم تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو عرشِ معلٰی سے تحت الثریٰ تک ساری کائنات بے حجاب ہو کر نظر کے سامنے آجاتی۔ قرآن اس بات پر شاہد عادل ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کے لئے عرض کی کہ ’’رَبِّ آرِنِی (اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا)‘‘ تو باری تعالیٰ نے اپنی صفاتی تجلی کوہِ طور پر پھینکی جس کے نتیجے میں کوہِ طور جل کر خاکستر ہوگیا اور آپ علیہ السلام غش کھا کر گرگئے۔ یہ بے ہوشی کا عالم سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر 40 دن تک طاری رہا اور جب چالیس دن کی بیہوشی سے افاقہ ہوا تو اُس صفاتی تجلی کے انعکاس کی وجہ سے اُن کی بصارت کی دور بینی کا عالم یہ تھا کہ آپ تیس تیس میل کے فاصلے پر سے کالے رنگ کے پتھر میں سیاہ رات کے اندر چیونٹی کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔
قاضي عياض، الشفاء، 1 : 43
جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو اللہ تعالی کی صفاتی تجلی کے اِنعکاس سے اتنی بصارت مل سکتی ہے تو وہ ہستی جس نے تجلیاتِ الٰہیہ کا براہِ راست مشاہدہ کیا اُن کی چشمانِ مقدس کی بصارت کا کیا عالم ہوگا! شبِ معراج چشمانِ مصطفوی اللہ کی تجلیات کو نہ صرف دیکھتی رہیں بلکہ انہیں اپنے اندر جذب بھی کرتی رہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغيٰO
نہ نگاہ جھپکی نہ حد سے بڑھیo
القرآن، النجم، 53 : 17
حضور علیہ السلام نے خود فرمایا :
رأيتُ ربي في آحسن صورة . . . فوضع يده بين کتفي فوجدتُ بردها بين يدي، فتجلّي لي کل شيء، و عَرَفْتُ.
’’میں نے اللہ رب العزت کو (اس کی شان کے مطابق) خوبصورت شکل میں دیکھا، اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے (اللہ کے دستِ قدرت کا فیض) ٹھنڈک (کی صورت میں) اپنے سینے کے اندر محسوس کیا جس کے بعد ہر شے میرے سامنے عیاں ہو گئی۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 367، ابواب التفسير، رقم : 3234
10۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :
فعلمت مَا في السمٰوٰت والارضِ.
’’پس میں نے آسمانوں اور زمین کی ہر شے کو جان لیا۔‘‘
1. جامع الترمذي، 5 : 366، رقم : 3233
2. دارمي، السنن، 2 : 51، رقم : 2155
3. ابويعلي، المسند، 4 : 475، رقم : 2608
4. ابن عبدالبر، التمهيد، 24 : 323، رقم : 918
5. خطيب بغدادي، مشکوة المصابيح، 69 - 70
تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک کمال درجہ قوتِ شامہ کی حامل اور نکہتوں کی امین تھی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بینی مبارک زیادہ بلند نہ تھی لیکن دیکھنے والوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ قدرے اُونچی دکھائی دیتی تھی۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مائل بہ بلندی تھی۔ وہ درمیان میں قدرے بلند اور باریک تھی، موٹی اور بھدی نہ تھی، طوالت میں اِعتدال پسندی کی مثال تھی، موزونیت اور تناسب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی صناعِ ازل کا شاہکار دکھائی دیتی تھی۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم دقيق العرنين.
1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بینی مبارک حسن اور تناسب کے ساتھ باریک تھی۔‘‘
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی چمک دمک اور آب و تاب سے نوازا تھا کہ اُس سے ہر وقت نور پھوٹتا تھا۔ اُسی چمک کا نتیجہ تھا کہ ناک مبارک بلند دکھائی دیتی تھی لیکن جو شخص غور سے دیکھتا تو وہ کہتا کہ مائل بہ بلندی ہے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أقني العرنين، له نورٌ يعلوه، يحسبه من لم يتأمله أشم.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناک مبارک اونچی تھی جس سے نور کی شعاعیں پھوٹتی رہتی تھیں، جو شخص بینی مبارک کو غور سے نہ دیکھتا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا (حالانکہ ایسا نہیں تھا)۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
3. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
4. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17، 31
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخسار نہ زیادہ اُبھرے ہوئے تھے اور نہ اندر کی طرف دھنسے ہوئے، بلکہ اِعتدال و توازن کا دلکش نمونہ تھے۔ سرخی مائل سفید کہ گلاب کے پھولوں کو بھی دیکھ کر پسینہ آ جائے، چمک ایسی کہ چاند بھی شرما جائے، گداز ایسا کہ شبنم بھی پانی بھرتی دکھائی دے، نرماہٹ ایسی کہ کلیوں کو بھی حجاب آئے۔ رخسار مبارک دیکھنے والے کو ہموار نظر آتے تھے مگر غیر موزوں اِرتفاع کا کہیں نشان تک نہ تھا۔
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم سهل الخدين.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک ہموار تھے۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 36، رقم : 8
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 90
3. طبري، الکامل في التاريخ، 2 : 221
4. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 214، 215
5. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 17
6. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 128
7. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 436
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ’الخد الآسیل‘ (2) کے الفاظ آئے ہیں، ’سہل‘ اور’ آسیل‘ کے فرق کے حوالے سے شیخ محمد بن یوسف صالحی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
1. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 19
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 127
ليس في خديه نتوء و إرتفاع، و قيل : أراد أن خديه صلي الله عليه وآله وسلم أسيلان قليل اللحم رقيق الجلد.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک میں غیر موزوں ارتفاع نہ تھا، اور کہا جاتا ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخسار مبارک ’اسیلان‘ تھے یعنی اُن پر گوشت کم اور اُن کی جلد نرم تھی۔
1. صالحي، سبل الهديٰ و الرشاد، 2 : 29
2. ابن کثير، شمائل الرسول : 42
2۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ أبيض الخد.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک نہایت ہی چمکدار تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبيض الخدين.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سفید رنگ کے تھے۔‘‘
صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 29
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک سرخی مائل تھے، لطافت و نزاکت اور رعنائی و دلکشی میں اپنی مثال آپ تھے۔
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب کی لطافت و شگفتگی کے حوالے سے روایت ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحسن عباد اﷲ شفتين وألطفهم ختم فم.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس لب اللہ کے تمام بندوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے اور بوقتِ سکوت نہایت ہی شگفتہ و لطیف محسوس ہوتے۔‘‘
1. نبهاني، الانوار المحمديه : 200
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 303
3. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 203
2۔ لب مبارک وا ہوتے تو دہن پھول برساتا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کان في کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ترتيل أو ترسيل.
’’آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی گفتگو میں ایک نظم اور ٹھہراؤ ہوتا۔‘‘
1. ابوداؤ، السنن، 4 : 281، کتاب الادب، رقم : 4838
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 300، رقم : 26294
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 207، رقم : 5550
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 375
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 375
3۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے، کلام بڑا واضح ہوتا جس میں کوئی اِبہام اور اُلجھاؤ نہ ہوتا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
آن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحدث حديثا، لوعدّه العاد لأحصاه.
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس قدر ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے کہ اگر کوئی شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1307، کتاب المناقب، رقم : 3374
2. مسلم، الصحيح، 4 : 2298، رقم : 2493
3. حميدي، المسند، 1 : 120، رقم : 247
4. ابن جوزي، الوفا، 2 : 454
حضرت اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے :
(کلامه) فصلٌ لا نزر و لا هذر.
’’گفتگو نہایت فصیح و بلیغ ہوتی، اس میں کمی بیشی نہ ہوتی۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 231
2. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 49، رقم : 3605
3. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4674
4. ابن کثير، شمائل الرسول : 46
5. صيبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 779
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved