(حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معاملے میں ائمہِ فقہ کی تصریحات)
1. قَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْغِيْنَانِيُّ فِي ‹‹الْهِدَايَةِ››: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَائِرِ كَمَا يَجُوْزُ مِنَ الْعَادِلِ، لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ، وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ علیہ السلام فِي نَوْبَتِهِ. وَالتَّابِعِيْنَ تَقَلَّدُوْهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَكَانَ جَائِرًا.
امام ابو الحسن المرغینانی اپنی کتاب ’’ الهدایة‘‘ میں لکھتے ہیں: (قاضی کے لیے) غیر عادل حکمران سے عہدہ و منصب لینا اُسی طرح جائز ہے جس طرح عادل حکمران سے یہ عہدہ لینا جائز ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ ذمہ داری قبول کی تھی؛ حالاں کہ ان کی خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اسی طرح تابعین نے بھی حجاج کے دورِ حکومت میں قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالیں، حالاں کہ وہ ایک ظالم حکمران تھا۔ (غیر عادل حکمران سے قضاء وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلینے کا مقصد صرف مخلوقِ خدا کی خدمت اور انہیں اِنصاف کی فراہمی کے عمل کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔)
المرغيناني في الهداية شرح بداية المبتدي، 3/102
2. قَالَ ابْنُ الشَّيْخِ جَمَالُ الدِّيْن الرُّوْمِيُّ الْبَابَرْتِيُّ فِي الْعِنَايَةِ شَرْحِ الْهِدَايَةِ تَحْتَ عِبَارَةِ الْمَرْغِيْنَانِيِّ: (قَوْلُهُ: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ) تَفْرِيْعٌ عَلَى مَسْأَلَةِ الْقُدُوْرِيِّ يَتَـبَيَّنُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ فِي جَوَازِ التَّقَلُّدِ لِأَهْلِهِ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمُوَلِّي عَادِلًا أَوْ جَائِرًا، فَكَمَا جَازَ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ جَازَ مِنَ الْجَائِرِ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہما فِي نَوْبَتِهِ، دَلَّ عَلَى ذَلِكَ حَدِيثُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ (1)،۔۔۔۔۔۔ وَعُلَمَاءُ السَّلَفِ وَالتَّابِعِينَ تَقَلَّدُوهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَجَوْرُهُ مَشْهُورٌ فِي الْآفَاقِ( 2)
ابن الشیخ جمال الدین الرومی البابرتی ’’العناية شرح الهداية‘‘ میں امام مرغینانی کی عبارت کے تحت لکھتے ہیں: امام مرغینانی کا یہ کہنا کہ [عہدہ لینا جائز ہے] امام قدوری کے بیان کردہ مسئلہ پر تفریع ہے جو اس بات کو خوب واضح کرتی ہے کہ اَہل، مستحق اور قابل اَفراد کے عہدہ و منصب لینے کے جائز ہونے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تقرری کرنے والا حکمران عادل ہے یا غیر عادل۔ لہٰذا جس طرح کسی نیک اور خود عادل حکمران سے ذمہ دار ی لینا درست ہے، اُسی طرح غیر عادل حکمران سے بھی کسی عہدے کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے۔
یہ اِس لیے بھی روا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے (ان کے دورِ ملوکیت میں مفادِ عامہ کی غرض سے) قضاء کی ذمہ داریاں قبول کی تھیں، حالاں کہ خلافت کے اَصل حق دار اس وقت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم تھے۔ اس (خلافت کی حقانیت) پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث صراحتاً دلالت کرتی ہے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِقتداء میں ) علماء سلف صالحین اور تابعین نے بھی حجاج کے زمانہ میں اس سے ذمہ داریاں اور عہدے لیے، حالاں کہ اس کا ظلم کل عالم میں مشہور تھا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصلاة، أبواب المساجد، 1/172، الرقم/436، وأيضًا في كتاب الجهاد والسير، باب مسح الغبار عن الناس في السبيل، 3/1035، الرقم/2657، ومسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل، 4/2235-2236، الرقم/2915- 2916
ابن الشيخ جمال الدين الرومي البابرتي في العناية شرح الهداية (على حاشية شرح فتح القدير)، 7/246
3. قَالَ كَمَالُ الدِّيْنِ بْنُ الْهُمَامِ الْحَنَفِيُّ فِي شَرْحِ فَتْحِ الْقَدِيْرِ: (قَوْلُهُ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ) هَذَا تَصْرِيحٌ بِجَوْرِ مُعَاوِيَةَ، وَالْمُرَادُ فِي خُرُوْجِهِ لَا فِي أَقْضِيَتِهِ،۔ ۔۔۔۔۔ وَاسْتَقْضَى مُعَاوِيَةُ أَبَا الدَّرْدَاءِ بِالشَّامِ وَبِهَا مَاتَ.... وَإِنَّمَا كَانَ الْحَقُّ مَعَهُ فِي تِلْكَ النَّوْبَةِ لِصِحَّةِ بَيْعَتِهِ وَانْعِقَادِهَا فَكَانَ عَلَى الْحَقِّ فِي قِتَالِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّينَ. وَقَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لِعَمَّارٍ: سَتَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَدْ قَتَلَهُ أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ يُصَرِّحُ بِأَنَّهُمْ بُغَاةٌ.
امام کمال الدین بن الہمام الحنفی اپنی کتاب ’’شرح فتح القدیر‘‘ میں لکھتے ہیں: صاحبِِ ھدایہ کا یہ کہنا کہ [حق خلافت کے معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا] یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر عادل حکمران ہونے پر تصریح ہے۔ یہاں جور سے مراد ان کا خلیفہ راشد (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے خلاف خروج کرنا ہے نہ کہ ان کا تمام فیصلوں میں راہِ عدل سے منحرف ہونا۔۔ ۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے شام کا منصبِ قضاء (یعنی چیف جسٹس) کا عہدہ سنبھالنے کی درخواست کی تھی۔ (وہ ایک عادل قاضی تھے، ساری عمر منصبِ قضا پر فائز رہے) اور ان کا وصال ملک شام میں ہی ہوا۔۔ ۔۔ سیدنا علی علیہ السلام کا حق پر ہونے کا معنی یہ ہے کہ خلافت کی (چوتھی) مدت میں سیدنا علی علیہ السلام کی بیعت درست ہونے کے اعتبار سے اِستحقاقِ خلافت سیدنا علی علیہ السلام ہی کا تھا۔ لہٰذا حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں صفین کے معرکہ میں حق پر تھے۔ نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو فرمانا - ’اے عمار! تمہیں باغی گروہ شہید کرے گا‘ - اس معرکے میں حق و باطل کے تعین میں واضح دلیل ہے۔ کیوں کہ انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے ہی شہید کیا تھا۔ یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ وہ لوگ باغی تھے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصلاة، أبواب المساجد، 1/172، الرقم/436، وأيضًا في كتاب الجهاد والسير، باب مسح الغبار عن الناس في السبيل، 3/1035، الرقم/2657، ومسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل، 4/2235-2236، الرقم/2915- 2916
وَقَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ فِي كِتَابِهِ فِي بَابِ الِاسْتِسْقَاءِ: طَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَوْفٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الَّذِي يُقَالُ لَهُ طَلْحَةُ النَّدَى ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ تَقَلَّدَ الْقَضَاءَ مِنْ يَزِيْدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْمَدِينَةِ، وَهُوَ تَابِعِيٌّ.
ابن قطان اپنی کتاب میں اِستسقاء کے باب کے تحت فرماتے ہیں: حضرت ابو محمد طلحہ بن عبد اللہ بن عوف، حضرت عبد الرحمن بن عوف کے بھتیجے تھے۔ انہیں طلحۃ الندیٰ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے یزید بن معاویہ سے (اُس کے دورِ ملوکیت میں ) مدینہ کے قاضی کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور وہ تابعی تھے۔ (اس طریقے کو سلف صالحین اس لیے جاری رکھتے تھے کہ عوام الناس کے معاملات میں داد رسی اور انصاف کی فراہمی کا عمل رکنے نہ پائے، اور معاشرتی زندگی میں لوگوں کے لیے انفرادی سطح پر مشکلات میں اضافہ نہ ہو۔)
ابن الهمام في شرح فتح القدير، 7/245-246
4. قَالَ بَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ فِي الْبِنَايَةِ شَرْحِ الْهِدَايَةِ: (قَوْلُهُ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ): أَي فِي خِلَافَتِهِ؛ لِأَنَّ الْخِلَافَةَ كَانَتْ لَهُ بَعْدَ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ بِالنَّصِّ.... وَعِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ مُعَاوِيَةُ رضی اللہ عنہ كَانَ بَاغِيًا فِي نَوْبَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ.... (وَالتَّابِعِيْنَ): لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم (تَقَلَّدُوْهُ) أَي الْقَضَاء (مِنَ الْحَجَّاجِ) ابْنِ يُوْسُفَ الثَّقَفِيِّ عَامِلِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ عَلَى الْعِرَاقِ وَخُرَاسَانَ، وَمَاتَ فِي رَمَضَانَ أَوْ شَوَّالٍ سَنَةَ خَمْسَةٍ وَتِسْعِيْنَ، وَعُمْرُهُ ثَلَاثٌ أَو أَربَعٌ وَخَمْسُوْنَ سَنَةً. وَلَمَّا سَمِعَ الْحَسَنُ الْبَصَرِيُّ بِمَوْتِهِ سَجَدَ، يَعْنِي شُكْرًا ِلِلَّهِ تَعَالَى، وَقَالَ: لَوْ جَاءَتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِخَبِيْثِهَا، وَجِئْنَا بِهِ (حَجَّاجِ بْنِ يُوْسُف) لَغَلَبْنَاهُمْ، وَظُلْمُهُ مَشْهُوْرٌ.
امام بدر الدین عینی ’’البناية شرح الهداية‘‘ میں لکھتے ہیں: اُن کا یہ کہنا کہ [ان کی باری میں حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا] یعنی ان کی خلافت کے مسئلے میں اِستحقاق حضرت علی علیہ السلام ہی کا تھا کیوں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت نص سے ثابت ہے۔۔ ۔۔ اور اَہلِ سنت کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو قبول نہ کرنے اور ان کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بغاوت کرنے والے تھے۔۔ ۔۔ [اور اِسی طرح تابعین نے] بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہوئے حجاج بن یوسف ثقفی سے قضاء کی ذمہ داریاں قبول کیں۔ حجاج عراق اور خراسان پر عبد الملک بن مروان کا مقرر کردہ گورنر تھا اور اُس نے 95 ہجری کے ماہِ رمضان یا شوال میں ترپن (53) یا چوّن (54) سال کی عمر میں وفات پائی۔ جب امام حسن بصری نے حجاج بن یوسف کی موت کی خبر سنی تو سجدہ شکر بجا لائے اور فرمایا: اگر ہر اُمت اپنے اپنے خبیث (شریر النفس) لوگوں کو لے آئے اور ہم ان کے مقابلے میں صرف ایک حجاج کو ہی پیش کر دیں تو ہم ان سب پر فوقیت لے جائیں گے۔ اس کا ظلم زبان زدِ خاص و عام ہے۔
بدر الدين العيني في البناية شرح الهداية، 9/14
5. قَالَ الْإِمَامُ ابْنُ نُجَيْمٍ الْحَنَفِيُّ فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ شَرْحِ كَنْزِ الدَّقَائِقِ: (قَوْلُهُ: وَيَجُوزُ تَقَلُّدُ الْقَضَاءِ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ وَالْجَائِرِ وَمِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ)؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ، وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي نَوْبَتِهِ وَالتَّابِعِينَ تَقَلَّدُوهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَكَانَ جَائِرًا أَفْسَقَ أَهْلِ زَمَانِهِ. هَكَذَا قَالَ أَصْحَابُنَا. وَفِي فَتْحِ الْقَدِيرِ، وَهَذَا تَصْرِيحٌ بِجَوْرِ مُعَاوِيَةَ، وَالْمُرَادُ فِي خُرُوجِهِ لَا فِي أَقْضِيَتِهِ.
امام ابن نجیم الحنفی ’’ البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘میں لکھتے ہیں: ان کا یہ کہنا کہ (اَہل لوگوں کے لیے عادل و غیر عادل یا باغی حکمرانوں سے منصبِ قضاء کی ذمہ داری قبول کر لینا یکساں طور پر جائز ہے)، یہ اس بنیاد پر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ ملوکیت میں ان سے منصب کی ذمہ داریاں لیں، حالاں کہ خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اسی طرح تابعین نے بھی حجاج بن یوسف کے دور میں منصبِ قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالیں، حالاں کہ وہ ایک جابر اور سفاک حکمران تھا بلکہ وہ اپنے دور کا سب سے بڑھ کر فاسق و فاجر شخص تھا۔ ہمارے اَصحابِ اَحناف نے اِسی قول کو اختیار کیا ہے۔ 'فتح القدیر' میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ یہ قول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے غیر عادل حکمران ہونے پر تصریح ہے۔ (یہاں ) ان کی مراد خلیفہ راشد کے خلاف خروج (یعنی بغاوت کرنے) میں ہے، نہ یہ کہ وہ تمام فیصلوں میں ہی (معاذ اﷲ) غیر عادل تھے۔
ابن نجيم الحنفي في البحر الرائق شرح كنز الدقائق، 6/460
6. قَالَ شِهَابُ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الشَّلْبِيُّ فِي حَاشِيَةِ عَلَى تَبْيِيْنِ الْحَقَائِقِ شَرْحِ كَنْزِ الدَّقَائِقِ: (قَوْلُهُ فِي الْمَتْنِ: وَيَجُوزُ تَقَلُّدُ الْقَضَاءِ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ وَالْجَائِرِ.) قَالَ الْأَتْقَانِيُّ: وَإِنْ كَانَ قَاضِي الْخَوَارِجِ مِنْ أَهْلِ الْجَمَاعَةِ وَالْعَدْلِ فَقَضَى، ثُمَّ رَفَعَ إِلَى قَاضِي الْعَدْلِ أَمْضَاهُ وَيَجُوزُ قَضَاؤُهُ بَيْنَ النَّاسِ؛ لِأَنَّ شُرَيْحًا كَانَ يَتَوَلَّى الْقَضَاءَ مِنْ جِهَةِ مُعَاوِيَةَ وَمَنْ بَعْدَهُ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ، وَكَانُوا خَارِجِينَ عَلَى إِمَامِ الْحَقِّ، وَلَمْ يُرْوَ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَقِّ أَنَّهُ فَسَخَ قَضَاءَهُ.
وَكَذَلِكَ غَيْرُ شُرَيْحٍ تَوَلَّوْا لَهُمْ وَلَمْ يُرْوَ عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ نَقْضُ قَضَائِهِمْ، فَدَلَّ عَلَى أَنَّ الْقَاضِيَ إذَا كَانَ عَادِلًا فِي نَفْسِهِ لَا يُعْتَبَرُ فِسْقُ مَنْ وَلَّاهُ. (قَوْلُهُ: وَإِنْ كَانَ الْحَقُّ بِيَدِ عَلِيٍّ.) قَالَ فِي الْهِدَايَةِ: وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ فِي نَوْبَتِهِ.
امام شہاب الدین احمد الشلبی ’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: متن میں ان کے قول: [اور منصبِ قضاء کی ذمہ داری قبول کرنا عادل اور غیر عادل حکمران سے جائز ہے] کے بارے میں علامہ اتقانی فرماتے ہیں: اگر خوارج کا مقرر کردہ کوئی قاضی عادل تھا اور اس نے کسی مسئلہ پر فیصلہ کیا، پھر وہ فیصلہ کسی عادل خلیفہ کے مقرر کردہ قاضی تک پہنچا تو وہ بھی اسی فیصلہ کو جاری رکھے گا (اور محض اس بنیاد پر منسوخ نہیں کرے گا کہ اس قاضی کو مقرر کرنے والا خوارج میں سے تھا)۔ ایسے عادل قاضی کی طرف سے لوگوں کے مابین جاری کردہ فیصلے جو مبنی بر عدل و انصاف ہوں جائز ہیں۔ کیوں کہ قاضی شریح، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور بنو اُمیہ کے بعد میں آنے والے حکمرانوں کی طرف سے منصبِ قضاء پر فائز رہے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ لوگ امامِ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافتِ حقہ کے خلاف خروج کرنے والے تھے۔ اَہلِ حق میں سے کسی سے یہ مروی نہیں کہ اس نے (غیر عادل سلطان کے مقرر کردہ عادل) قاضی شریح کے کیے گئے فیصلوں کو فسخ کیا ہو۔
اِسی طرح قاضی شریح کے علاوہ بھی کئی لوگ خارجیوں کے دورِ حکومت میں ان کی طرف سے مناصب کی ذمہ داریاں قبول کرتے رہے ہیں اور ائمہ میں سے کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے (محض اس سبب سے کہ وہ باغیوں اور خارجیوں کے مقرر کردہ قاضی ہیں ) ان کے کیے گئے مبنی بر عدل فیصلوں کو رد کر دیا ہو۔ یہ سب باتیں اس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ اگر قاضی بذاتِ خود عادل ہو تو اس کو مقرر کرنے والے کے فسق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور ان کا یہ کہنا کہ [حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے] صاحب 'الہدایۃ' نے کہا ہے: (اس سے مراد یہ ہے کہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملے میں اپنی باری میں حق پر تھے۔
شهاب الدين أحمد الشلبي في حاشية على تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، 4/177
7. قَالَ مُلَّا خُسْرُو اَلْحَنَفِيُّ فِي دُرَرِ الْحُكَّامِ شَرْحِ غُرَرِ الأَحْكَامِ: وَيَجُوزُ تَقَلُّدُهُ مِنَ الْجَائِرِ كَمَا يَجُوزُ مِنَ الْعَادِلِ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہما تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ أَنْ أَظْهَرَ الْخِلَافَ لِعَلِيٍّ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهُ مَعَ أَنَّ الْحَقَّ كَانَ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَتَقَلَّدُوا مِنْ يَزِيدَ مَعَ فِسْقِهِ وَجَوْرِهِ. وَالتَّابِعُونَ تَقَلَّدُوا مِنَ الْحَجَّاجِ مَعَ كَوْنِهِ أَظْلَمَ زَمَانِهِ (وَ) مِنْ (أَهْلِ الْبَغْيِ).
ملا خسرو الحنفی ’’درر الحكام شرح غرر الأحكام‘‘ میں لکھتے ہیں: جس طرح عادل حکمران سے منصبِ قضاء کی ذمہ داری لینا جائز ہے، اُسی طرح غیر عادل حکمران سے بھی (یہ ذمہ داری قبول کرلینا) جائز ہے، کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے منصبِ قضاء کی ذمہ داریاں قبول کیں، باوجود اس کے کہ انہوں نے مسئلہ خلافت پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے اپنا اختلاف ظاہر کر دیا تھا، جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔ اِسی طرح یزید لعین کے فسق اور ظلم کے باوجود اس سے بھی قضاء کا عہدہ قبول کیا گیا۔ تابعین کرام نے بھی (مصلحتِ عامہ کے لیے) حجاج بن یوسف سے مسند قضاء کی ذمہ داریاں قبول کیں، حالاں کہ وہ اپنے دور کا سب سے بڑا ظالم اور باغی تھا (اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ عامۃ الناس میں انصاف کی فراہمی کا عمل جاری رہ سکے، اور حکومتی معاملات کی خرابی کے باعث عام شہری کی زندگی روز مرّہ اُمور میں داد رسی سے محروم نہ رہے)۔
ملا خسرو الحنفي في درر الحكام شرح غرر الأحكام، 2/405
8. قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌ الْقَارِي فِي مِرْقَاةِ الْمَفَاتِيْحِ شَرْحِ مِشْكَاةِ الْمَصَابِيْحِ: (تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ) أَيِ: الْجَمَاعَةُ الْخَارِجَةُ عَلَى إِمَامِ الْوَقْتِ وَخَلِيفَةِ الزَّمَانِ. قَالَ الطِّيبِيُّ: تَرَحَّمَ عَلَيْهِ بِسَبَبِ الشِّدَّةِ الَّتِي يَقَعُ فِيْهَا عَمَّارٌ مِنْ قِبَلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ يُرِيدُ بِهِ مُعَاوِيَةَ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ قُتِلَ يَوْمَ صِفِّينَ.
وَقَالَ ابْنُ الْمَلَكِ: اعْلَمْ أَنَّ عَمَّارًا قَتَلَهُ مُعَاوِيَةُ وَفِئَتُهُ، فَكَانُوا طَاغِينَ بَاغِينَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، لِأَنَّ عَمَّارًا كَانَ فِي عَسْكَرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، وَهُوَ الْمُسْتَحِقُّ لِلْإِمَامَةِ، فَامْتَنَعُوا عَنْ بَيْعَتِهِ.
ملا علی القاری ’’مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح‘‘ میں لکھتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس - 'تجھے باغی گروہ شہید کرے گا' - سے مراد ہے کہ ایسا گروہ جو امامِ وقت اور خلیفہ زمان کے خلاف بغاوت کرنے والا ہوگا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے لیے رحم کی دعا کی، اُس مشکل اور اذیت کے سبب جس کا انہیں باغی گروہ کی جانب سے سامنا کرنا تھا۔ یہاں باغی گروہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ہیں کیوں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ صفین کے روز شہید کیے گئے۔
ابن مالک کہتے ہیں: یہ بات جان لینی چاہیے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ نے شہید کیا ہے۔ لہٰذا اس حدیث مبارک کے تحت وہ لوگ سرکش اور باغی قرار پائے ہیں کیوں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے جو حقیقت میں خلافت کے صحیح حقدار تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت لینے سے انکار کر دیا تھا (یوں حدیث مبارک کی روشنی میں خلافتِ علی کا انکار کرنے والا گروہ باغی قرار پایا)۔
ملا على القاري فى مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 11/17
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved