کسی بھی کتاب کی اَہمیت و اِفادیت اور قدر و منزلت کا اندازہ اس کے مشمولات اور صاحبِ قلم کے علمی و فکری مقام و مرتبہ سے ہوتا ہے۔ بحمد اللہ! یہ اَمر نہایت خوش آئند ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں موجود ”انسائیکلوپیڈیا آف حدیث سٹڈیز“ کے مصنف بین الاقوامی شہرت کی حامل وہ شخصیت ہیں جو نہ صرف قدیم علوم اسلامیہ پردسترس رکھتے ہیں بلکہ انہیں جدید علوم عصریہ پر بھی دستگاہ حاصل ہے۔ قدیم و جدید کے اس حسین امتزاج کے باعث آپ مشرق و مغرب کے مابین علمی و فکری بُعد اور فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔آپ اپنے علمی و فکری اور تجدیدی و اجتہادی کام کی ثقاہت و ثروت کی بدولت عالم عرب و عجم میں اسلامی فکر و فلسفہ کے حوالے سے مستند اور معتبر جانے جاتے ہیں۔ صاحب کتاب شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسی نابغۂ روزگار شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور عصر حاضر میں ان کا وجود مسعود نعمتِ غیر مترقبہ اور عطیۂ الٰہی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیفات و تالیفات انسانی زندگی سےمتعلق بیشتر موضوعات کا اِحاطہ کیے ہوئے ہیں۔ آپ کی اردو، عربی اور انگریزی زبان میں ’’630‘‘ سے زائد تصانیف طبع ہو چکی ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں ان کتب کے تراجم بھی ہو رہے ہیں۔ آپ کی ہر کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے انفرادیت کی حامل ہے۔ رجوع الی القرآن اور تمسک بالقرآن کے حوالے سے آپ نے عصری تقاضوں کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ ”عرفان القرآن“ کرنے کی سعادت حاصل کی اور ہزارہا مضامین قرآن پر مشتمل 8 جلدوں میں ”الموسوعة القرآنية الموضوعية“ ترتیب دیا۔ اِسی طرح آپ نے علم الحدیث کی خدمت کے باب میں گزشتہ ربع صدی میں لاکھوں احادیث کے مطالعہ کے بعد ہزارہا احادیث منتخب فرما کر ان کو نئے تراجمِ اَبواب، عنوانات، ضروری توضیحات و تعلیقات کے ساتھ جمع کیا اور اُمتِ مسلمہ کو سیکڑوں کتب حدیث کے عطر و عرقِ مشک بار کا تحفہ عطا کیا۔
علوم الحدیث کے باب میں تشنگی تھی جو حضرت شیخ الاِسلام نے ”الموسوعة القادرية“ تالیف کر کے دور فرما دی ہے۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل یہ موسوعہ درج ذیل امتیازی خصوصیات کا حامل ہے:
1۔ ”الموسوعة القادرية“ شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علوم الحدیث کے باب میں ربع صدی پر محیط علمی و تحقیقی جہد و سعی کا نتیجہ ہے۔
2۔ ”الموسوعة القادرية“ کسی ایک شخصیت کے قلم سے تحریر ہونے والا ایسا نادر مجموعۂ علوم الحدیث ہے جس کی گذشتہ چار صدیوں میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔
3۔ ”الموسوعة القادرية“ میں علوم الحدیث کی اہم ترین ابحاث پر مدلل ومحقق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
4۔ یہ موسوعہ علوم الحدیث پر گذشتہ سات آٹھ سو سال کے ائمہ محدثین کی تصانیف کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ جسے نئے اِستشہادات اور نئے شواہد کے اضافہ جات سے مزین کرکے پیش کیا گیا ہے۔
الموسوعة القادرية کی اصل قدر و قیمت اور علمی و تحقیقی وسعت و وقعت اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ تو اس کے مطالعہ کے بعد ہی ہوگا۔ تاہم اس کی ہر جلد کے چیدہ چیدہ موضوعات و مشتملات کا تعارفی خاکہ اجمالاً درج ذیل ہے:
الموسوعة القادرية کی پہلی جلد شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف ”الْأَنْوَارُ الْبَهِيَّة فِي حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ“ پر مشتمل ہے۔ حجیتِ حدیث و سنت کا موضوع تشریع اسلامی کا مصدر ثانی ہونے کے پیش نظر غایت درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ سنت نبویہ قرآنی احکام کو وضاحت اور شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
علماء و ائمہ کرام نے سنت نبویہ کی روایت و درایت کے اعتبار سے صدیوں تک اپنی اعلیٰ اور بہترین صلاحیتیوں کے ساتھ خدمت کی ہے۔ وہ سنت کی نقل و روایت، اس کی توثیق اور شرح و استنباط کے حوالے سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود سنت نبویہ پر بہت سے اَدوار میں تشکیک و اِبہام کے حملے جاری رہے جن کا مقصد اس کی حجیت پر انگشتِ اعتراض بلند کرنا تھا۔ یہ حملے انتہائی مختلف نوعیت کے تھے۔ بعض نے نعوذ باللہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت اور عصمت پر طعن کرنے کی کوشش کی، بعض نے حدیث کی اولین جماعت یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی، بعض نے اس کی ثقاہت اور کتابت پر حرفِ اعتراض اٹھایا، بعض نے اِس کےثبوت کی نسبت تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی اور بعض نے اس کے مصادر کو ہدفِ تنقید بنایا۔
حدیث و سنت نبویہ ﷺ کی مذکورہ جہات پر تنقید کے پیچھے اصل مقصد حجیتِ حديث و سنت کا انکار تھا۔ لہٰذا ہر دور میں کسی ایسے فرد کی ضرورت پیش آتی رہی جو سنت نبویہ کی حجیت کا انکار کرنے والوں، احادیثِ مبارکہ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ طعن کرنے والوں اور تشکیک کے بیج بونے والوں کے شبہات کا ازالہ کر سکے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس جلد میں قرآنی آیات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واجب ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آپ ﷺ کی مخالفت دراصل اللہ تعالیٰ کی مخالفت ہے۔
اسی طرح اِس جلد میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت کو بیان کرنے کے لیے سو سے زائد آیات کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کو اپنے حبیب مکرم ﷺ کے نام کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے۔اِس اُلوہی اقتران سے آپ ﷺ کی شان رسالت و محبوبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
شیخ الاِسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں حجیت سنت پر متعدد قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ سے استدلال کرتے ہوئے منکرینِ حدیث و سنت کے اشکالات و شبہات کا رد کیا ہے۔ آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہےکہ قرآن و سنت اَحکامِ شرعیہ کے اثبات ميں حجیت کے اعتبار سے مساوی ہیں۔
آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین، اتباع التابعین، سلف صالحین، ائمۂ اربعہ اور کبار صوفیا کرام کے سنت کی حجیت اور اس سےتمسک پر منقول روایات اور اَقوال درج کیے ہیں۔ یوں آپ نے حجیتِ حدیث و سنت کے موضوع پر انتہائی جامع، مستند اور مدلل بحث کرتے ہوئے انکارِ حدیث کے فتنہ کا قلع قمع کیا ہے۔
اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم الحدیث کے حصول کے لیے سفر کرنے، اسے حفظ کرنے اور پھر اِسے پوری امانت و دیانت اور ضبط کے ساتھ حرف بہ حرف اپنے بعد آنے والے لوگوں کو منتقل کرنے کی مساعیِ جمیلہ کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے اس کتاب میں علم اور حدیث کے حصول کے لیے سفر کی فضیلت پر وارد احادیث نبویہ ذکر کی ہیں، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین اور محدثین کے احادیث اور علم الحدیث کے حصول کے لیے اَسفار اور دورانِ سفر پیش آمدہ جانکاہ مشقتوں اور جگر گداز صعوبتوں کا ذکر کیا ہے۔
شیخ الاِ سلام الموسوعة کے اس جزء میں کتابتِ حدیث، تدوینِ حدیث اور کتابت و تدوینِ حدیث سے منع کا مسئلہ بھی زیرِ بحث لائے ہیں۔ آپ نے ابتداءً حضور ﷺ کے کتابتِ حدیث سے منع فرمانے کی حکمت اور وجوہ بیان کی ہیں۔ بعد ازاں کتابتِ حدیث کا حکم اور کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کتابتِ حدیث پر متعدد نظائر بیان کیے ہیں۔
آپ نے اِس سلسلۂ عالیہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ اور ابن شہاب الزھری کی مساعیِ جمیلہ اور خدمات جلیلہ کا اِختصار سے ذکر کیا ہے، جو اُنہوں نے سنتِ نبویہ کی تدوین کے کام کو مزید وسعت دینے کے لیے سر انجام دیں۔ بلاشبہ یہ کتاب اس مضمون پر موجود مواد کا جامع احاطہ کرتی ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اس عنوان کے تحت روایتِ حدیث، حفظِ حدیث اور اِسناد کی اہمیت و ضرورت جیسے اہم موضوعات زیر بحث لائے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے اس دور میں جہاں علوم الحدیث کا احیاء فرمایا ہے، وہیں آپ نے بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں علم الإسناد کا بھی احیاء فرمایا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سند حاصل کرنے کی اہمیت عملا اہل علم کی زندگیوں سے ناپید ہوگئی ہے۔ یہ اُس زوال کا تسلسل ہے جس کا آغاز حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ اسحاق دہلوی کے ادوار کے بعد شروع ہوا۔ ایسے میں حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے عرب و عجم کے سفر کرکے عالم اسلام کے اَجل علماء و شیوخ سے اجازات لیں۔ آپ پانچ سو (500) سے زائد اسانید رکھتے ہیں۔ سند کی اَہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ نے یہ کتاب تالیف فرمائی ہے۔
آپ نے اس کتاب میں سنت نبویہ کی تبلیغ کے مسئلہ کو لیا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی سنت مطہرہ لوگوں تک پہنچانے کی ترغیب میں وارد ہونے والی روایات کو بیان کیا ہے، تاکہ بعدمیں آنے والوں تک علم الحدیث متصل سند کے ساتھ پہنچ جائے اور تاقیامت باقی رہے۔
اس کتاب ميں حدیث کے سماع، شیوخ سے اخذِ حدیث، روایت و درایتِ حدیث اور حفاظتِ سنت جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ نیز اس کتاب میں رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کرنے، احادیث وضع کرنے اور انہیں آگے پھیلانے کی مذمت میں وارد ہونے والی احادیث کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ تاکہ احادیث وضع کرنے کے فتنہ کا سدباب ہو سکے۔
اِس کتاب کے دوسرے حصہ ميں اِسناد کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ روایت حدیث میں سند کی اہمیت مسلمہ ہے، اِس لیے اِسناد کو دین کا جزء قرار دیا گیا ہے۔ اِسناد مومن کا ہتھیار اور عالم کی سیڑھی ہے۔ احادیث مبارکہ کی حفاظت کے لیے فنِ سند کا اجراء اور اس بنا پر ہزارہا راویانِ حدیث کے حالاتِ زندگی کو جمع کر دینا اُمت محمدیہ کے خصائص میں سے ہے۔
شیخ الاِسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اِسناد کی اسی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اسے موضوعِ بحث بنایا ہے۔ سند، اِسناد اور متن کے معانی بیان کیے ہیں، رواۃ الحدیث کی عدالت، ضبط اور حفظ کی صفات اور اہمیت بیان کی ہے، نیز اِسنادِ عالی کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ یہاں تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ اِس وقت بخاری و مسلم کی دنیا میں سب سے عالی سند حضور شیخ الاسلام کے پاس موجود ہے۔
شیخ الاِسلام نے ان مباحث میں وہ عمدہ فوائد اور اعلیٰ اقوال درج کیے ہیں جو بہ یک وقت ایک عالم اور طالب علم کو یکساں نفع دیں گے اور علم الحدیث کا طالب تو ان کی افادیت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کے آغاز میں ایک وقیع اور نادر مقدمہ زیبِ قرطاس کیا ہے۔ اِس مقدمہ میں نصوصِ قرآنیہ سے استشہاد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے احادیث و سنت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور وہ کونسی بنیادیں ہیں جن پر ان کی حفاظت کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہاں تک کہ سنت و احادیث مبارکہ کو تمام اَدوار میں بقا و دوام حاصل ہو گیا۔ اس مقدمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا وجوب، آپ ﷺ کی توقیر اورحقوق کی معرفت کا وجوب اور آپ ﷺ کی بارگاہ کے آداب کا ذکر ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو دینِ اسلام کی دعوت دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ پھر آپ کی اُمت کے سب لوگوں کو آپ ﷺ کا پیغام سیکھنے اور آگے پہنچانے کی تحریص و تشویق اور تعلیم فرمائی ہے۔ مزید یہ کہ جو کوئی رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو چھپائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اس پر وعیدِ جہنم سنائی ہے، تاکہ دینِ اسلام کا پیغام اپنی اصلی حالت میں لوگوں تک پہنچے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ وہ بنیادیں ہیں جو احادیث اور سنت کی حفاظت کے لیے قرآن حکیم میں نازل ہوئیں۔ اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو مسلمانوں پر احادیث اور سنت کی اہمیت واضح نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی تمام ذمہ داری تمام زمانوں کے لیے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔
آپ نے اِس کتاب کے آغاز میں علم الحدیث کے آغاز و اِرتقا اور احادیث و سنت کی حفاظت کے ذیل میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس کی بنیادیں حضور نبی اکرم ﷺ نے خود رکھی تھیں۔ حضور ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنت کی روایت اور اِشاعت کی ترغیب دی۔ اسی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمارے لیے سنت نبویہ کو محفوظ کیا اور اسے تابعین تک پہنچایا۔
سنتِ نبوی کی دعوت و تبلیغ، نشر و اشاعت اور ترویج وفروغ کے باب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جذبہ و شوق ایک عالی قدر نمونہ ہے۔ اُنہوں نے اس ورثہ کو وہم، تحریف اور التباس سے بچانے میں ذرّہ بھر کوتاہی نہیں کی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کے اُن اصولوں اور معیارات پر مضبوطی سے عمل پیرا رہتے ہوئے سنت کی حفاظت کی، جو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں حفاظتِ سنت کی غرض سے قائم کیے تھے۔
یہی اصول و ضوابط تھے، جن کی بنیاد پر بعد میں اُصولِ حدیث کا فن تشکیل پایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک نقل اور روایت کرتے ہوئے اِن قواعد کو ملحوظ رکھتے، جو قرآنی منہج پر مبنی اِن اصولوں سے مطابقت رکھتے تھے:
اِس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الحدیث کےقواعد عہدِ رسالت مآب میں خود حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اور سنت مبارکہ سے وضع ہوئے۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور اتباع التابعین کے اَدوار میں، پھر ائمہ اربعہ اور اُن کے بعد ائمہ صحاح ستہ کے دور میں بتدریج وضع ہوتے رہے۔ ائمہ صحاح ستہ کے بعد کے زمانے تو اس حوالے سےمعروف ہیں۔
ان پہلی دو صدیوں میں، جن کے بارے میں منکرینِ حدیث بر بنائے خبثِ باطن تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان میں تدوین الحدیث اور اُصول الحدیث پر کام نہیں ہوا، شیخ الاسلام نے ان کا محاکمہ کرتے ہوئے نہ صرف قرنِ اَوّل میں احادیث نبویہ کی جمع وتدوین کو دلائل سے ثابت کیا ہے، بلکہ خود علم الحدیث کے بھی بطور علم اور سائنس پہلی صدی ہجری میں وجود میں آ جانے کو ثابت کیا ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے معرفت علم الرجال، علم العلل اور ان علوم پر لکھی گئی مشہور ترین تصانیف کا تذکرہ کیا ہے اور علم الطبقات میں سے بعض کا تعارف پیش کیا ہے۔ آپ نے اس کتاب کے اختتام پر طبقات الصحابہ، طبقات التابعین واتباع التابعین اور طبقات المحدثین پر اہم تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ تذکرہ بجائے خود ایک خاصے کی چیز ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس کتاب میں بہترین نظم کے ساتھ علوم الحدیث کی تدوین کی پوری تاریخ بیان فرما دی ہے۔ آپ نے امام بخاری و مسلم سے قبل علم الحدیث کے ارتقاء کے بیان سے ثابت کیا ہے کہ عہدِ رسالت مآب ﷺ سے امام بخاری اورمسلم تک ناصرف احادیثِ نبویہ کی جمع وتدوین ہو چکی تھی بلکہ ائمہ صحاح سے بھی پہلے ائمہ اربعہ کے ہاں بھی روایت و درایتِ حدیث کے اُصول، قبول اور ردّ کے قواعد، علم الحدیث اور علم مصطلحات الحدیث اپنی ابتدائی صورت میں معرضِ وجود میں آ چکے تھے۔
آپ نے اِس کتاب کے ذریعے اپنی تحقیق کو اہلِ علم وفن اور عامۃ الناس تک پہنچا کر منکرینِ حدیث کے خود ساختہ شبہات اور ذہنی اختراعات کا بہ خوبی ازالہ کیا ہے۔
اس کتاب میں حضور شیخ الاسلام نے علم الحدیث میں مستعمل اصطلاحات کی تعریف جیسے سنت اور اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اقسام، حدیث کا معنی اور دیگر مصطلحاتِ حدیث بیان کی ہیں۔ اہل الحدیث کے مراتب ذکر کیے ہیں اور وضاحت کی ہے کہ حفاظِ حدیث کے لیے حفظ حدیث کی جو مقدار روایت کی گئی ہے وہ لازمی نہیں، اس کا اعتبار عرف پر ہوتا ہے۔
آپ نے اس کتاب میں اَقسامِ خبر اور اس سے متعلقہ مباحث، حدیث متواتر، اس کی اقسام اور اس کےمواضع کو بیان کیا ہے۔
خبر واحد اور اس سے متعلقہ مباحث کا ذکر کرتے ہوئے خبر واحد کی 63 اقسام بیان کی ہیں۔
اس گراں قدر کتاب میں شیخ الاِسلام دامت برکاتہم العالیہ نے حدیث صحیح کی تعریف، اقسام، تصحیحِ حدیث پر فقہاء و محدثین کا اختلاف، بخاری و مسلم کی شروطِ صحتِ حدیث اورصحیح بخاری اورصحیح مسلم کے درمیان مسئلہ ترجیح اور ان دونوں میں سے ہر ایک کی دوسرے پر ترجیح میں علماء کے اقوال بیان کیے ہیں۔
آپ نے امام بخاری و مسلم کے حدیث صحیح کے عدم استیعاب اور اس کے عدم التزام کا ذکر کیا ہے اور اس مسئلہ پر بلند پایہ علمائے فنِ حدیث کےتفصیلی اقوال پیش کیے ہیں، تاکہ وہ ان لوگوں کا رد کر سکیں جوسمجھتے ہیں کہ صحیح احادیث محض وہی ہیں جوصحیحین میں وارد ہوئی ہیں، اور جو ان میں موجود نہیں وہ ضعیف ہیں۔
اس کے بعد شیخ الاِسلام نے حديث کو صحیح قرار دینے کے حوالے سے ترتیب سبعی (کتب کے سات درجات) کا ذکر کیا ہے۔ جس نے سب سے پہلے یہ تقسیم بیان کی تھی اور اس پر علماء کی تنقید بیان کی ہے تاکہ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اختیار کیا جائے اورثابت کیا جائے کہ حدیث صحیح کا مدار سند کی صحت پر ہے اور اصحیت میں ترتیب سبعی کا التزام زور زبردستی کا حکم ہے۔
پھر آپ نے الصحیح الزائد علی الصحیحین اورصحيح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ حدیث صحیح کے مواضع اور ان کتب کا ذکر کیا ہے جو امام ابو حنیفہ نے حدیث میں مدون کیں اور پھر امام مالک بن انس کی کتاب الموطأ، کتب مسانید کی تصنیف اورصحیحین کے علاوہ حدیث صحیح میں مصنفات کا ذکر کیا ہے۔
آپ نے اس کتاب میں خاص طور پر یہ بحث شامل کی ہےکہ صحت حدیث کی نفی ہو جانا اس حدیث کے ضعیف یا موضوع ہونے کو لازم نہیں کرتا۔ کتب حدیث کے طبقات اور شہرت و صحت کے اعتبار سے ان کی اقسام اور حدیث کو تصنیف اور جمع کرنے کے حوالے سے علماء کے مناہج کا ذکر بھی کیا ہے۔
شیخِ الاسلام مدظلہ العالی نے یہ کتاب لکھ کر ایک اور فتنہ کی جڑ کاٹی ہے۔ یہ فتنہ حدیث صحیح کو صحیح بخاری و صحیح مسلم تک محصور و محدود کر دینے کا فتنہ ہے۔ انکارِ حدیث کے بعدصحیح بخاری و مسلم سے باہرکسی حدیث کو صحیح نہ ماننے کا رجحان دوسرا انتہا درجے کا فتنہ ہے۔عرب و عجم میں یہ مسئلہ عام ہے۔ عام علماء، خطباء کی طرف سے مسجدوں میں اس کا پرچار عام ہے۔ جہاں چلے جائیں ایک خاص مکتب فکر اور ایک خاص ذہن ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر حدیث بخاری و مسلم میں ہے تو اسےصحیح مانتے ہیں اگر ان دونوں میں سےکسی ایک میں بھی نہیں تو اسے صحیح نہیں مانتے۔ اس فتنہ نے کم علمی کی وجہ سےعلم کا روپ دھار لیا ہے۔
معدودے چند لوگوں کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ احادیثِ صحیح صرف وہی نہیں جو صحیحین میں ہیں۔صحیحین کے باہر بھی حدیث صحیح کا وجود پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ فتنہ آہستہ آہستہ عامتہ الناس کے ذہنوں تک پہنچ چکا تھا۔ حدیث صحیح کی نسبت اس غلط تصور ميں ذہنوں کو اُلجھا کر درحقیقت اُمت مسلمہ کے ربط و تعلق کو حدیث پاک کے عظیم الشان ذخیرے سے منقطع کرنے کی سعی و کوششِ نا تمام جاری ہے اور اس ضمن میں اپنی مرضی کی ایک فکر پر اکتفاء ہی کو حرفِ آخر، قولِ فیصل اور کافی و شافی سمجھ لیا گیا ہے۔ لا علمی اور جہالت کی کوکھ سے جنم لینے والے اس فتنہ کا ہدف ہزار ہا اَحادیث نبویہ سے اکتسابِ فیض کا راستہ بند کرنا ہے۔
حدیث صحیح سے متعلق جملہ مباحث متفرق کتابوں میں بکھری ہوئی تھیں۔ اُمہات الکتب میں بالعموم ان مباحث کو اختصار سے ذکر کیا گیا ہے۔ حضور شیخ الاسلام نے درجنوں شروحات کی عرق ریزی کے بعد ان مباحث کو یکجا فرما دیا ہے، اور بہتر نظم و مکمل حوالہ جات کے ساتھ ان بکھرے موتیوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح سمیٹ دیا ہے۔ یوں یہ تصنیف معاصر ذہن میں حدیث صحیح پر اُٹھنے والے تمام سوالات کی مکمل تشفی کرتی ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم الحدیث کے باب میں عصری ضرورت کے پیش نظر حدیثِ صحیح پر مستقل کتاب تصنیف فرما کراس فتنۂ جہالت کا جامع و مانع انسداد فرمایا ہے۔ آپ نے یہ کتاب لکھ کر حدیث صحیح سے متعلق ایسی جملہ قیمتی مباحث کو اُمت مسلمہ تک پہنچایا ہے جو پردہ ہاے اِخفاء میں تھیں اور بہت کم لوگ اس سے آشنا تھے۔ آپ نے صحيحين کے علاوہ حدیثِ صحيح کے درجنوں مصادر کا ذکر کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ حدیث صحیح صرف وہی نہیں جو صحیحین میں موجود ہے ان کتب سے باہربھی حدیث صحیح ہو سکتی ہے۔
شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے اس بیش قیمت کتاب میں حدیثِ حسن کی تعریف اور امام ترمذی سے قبل اس کے موجود ہونے کے شواہد ذکر کیے ہیں۔ عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حدیث حسن کی اصطلاح کی ابتداء امام ترمذی نے کی اور اُن سے قبل یہ اصطلاح موجود نہ تھی۔ نیز حدیث حسن کے مراتب، اس کا حکم اور تقسیم بیان کی ہے اور واضح کیا ہے کہ امام ترمذی، امام ابن الصلاح، حافظ ابن حجر العسقلانی کے نزدیک حدیث حسن کی تعریف اور اس کا حکم کیا ہے؟ پھر ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جو صحیح اور حسن کا احاطہ کرتی ہیں اور یہ کہ صحیح اور حسن کا حکم سند پر ہے۔ نیز حدیث حسن کے اہم مصادر کے ذکر کو اس کتاب کا اختتامیہ بنا دیا ہے۔
یہ کتاب غرض و غایت اور اِفادیت و اَہمیت کے اِعتبار سے اَہم اور نادر کتب میں سے ایک ہے، خاص طور پر اس دور میں جس میں بہت سے گروہ حدیثِ ضعیف کی اہمیت کو کم کرنے اور اس پر مطلقاً عمل نہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
حدیث ضعیف کے حوالے سے شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے عظیم خدمت سر انجام دی ہے۔ آپ نے حدیث ضعیف کو قبول نہ کرنے کے فتنہ کی بھی سرکوبی کی ہے۔ یہ سرکوبی اِقتضائے وقت اور فرمانِ اِمروز ہے۔ علم الحدیث سے نابلد لوگ حدیث کو ضعیف کہہ کر نکل جاتے ہیں اور قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیتے ہیں۔ وہ حدیث ضعیف اور موضوع کے درمیان لطیف فرق اور امتیاز کا فہم و ادراک ہی نہیں رکھتے۔ یہ اسی طرح کا فتنہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہیں تو ہم اسے سرے سے قبول نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ضعیف حدیث سرے سے حدیث ہی نہیں۔ یہ بھی ایک جہالت ہے جو عام ہے۔
حدیث ضعیف کے حکم، حدیث ضعیف اور موضوع کے درمیان فرق اور حدیث ضعیف اور مضعّف کے درمیان فرق کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس چیز کا علم بھی علم الحدیث پر دسترس رکھنے والے چند لوگوں کو ہی ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ایک ہے۔ یہ فرق اُنہی لوگوں کو معلوم ہے جو علم الحدیث میں تبحر رکھتے ہیں، جن کا شغف اور اوڑھنا بچھونا علم الحدیث ہے، جو اِس کا مطالعہ رکھتے ہیں۔ عام علماء، واعظین، مدرّسین، مبلغین اور طلباء کو بھی اِس چیز کی خبر نہیں چہ جائیکہ عامۃ الناس اور عام اہلِ علم کو کچھ معلوم ہو۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے درجنوں کتب کی عرق ریزی کے بعد حدیث ضعیف پر معاصر ذہن میں اٹھنے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے جملہ مباحث کو جمع فرما دیا ہے۔ یہ مباحث ایسی نایاب ہیں جو معروف و متداول کتابوں میں یکجا میسر نہیں ہیں۔ ہماری نظر میں بالخصوص حدیث ضعیف پر مشتمل جامع کتاب برصغیر کی تاریخ میں اس سے پہلے رقم نہیں ہوئی۔
آپ نے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، اصحابِ سنن اربعہ اور دیگر متعدد ائمہ امت کا حدیث ضعیف کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ثابت کیا ہے اور حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے حدیث ضعیف سے کس کس باب میں اور کس کس حوالے سے استدلال کیا ہے، اُسے قبول کیا ہے اور اُس سے مسائل اخذ کیے ہیں۔ مستزاد یہ کہ تاریخ میں جن ائمہ کی طرف سے بالعموم حدیث ضعیف کے ردّ کا قول نقل کیا جاتا ہے حضور شیخ الاسلام نے ان ائمہ کی اپنی تحریروں سے ایسے شواہد جمع فرما دیے ہیں جو یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ خود حدیث ضعیف پر عمل کے قائل تھے۔
یقیناً علوم الحدیث کی تاریخ کا ایک منفرد اور عدیم النظیر کام ہے۔ آپ نے یہ کتاب لکھ کر حدیث ضعیف سے متعلق عدم قبول کے فتنے کو دبا دیا ہے۔ اس فتنہ کی وجہ سے ہزار ہا احادیث سے اکتساب فیض اور اکتساب علم کا جو دروازہ بند کر دیا گیا تھا وہ کھو ل دیا گیا ہے۔
اِس موضوع پر شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے 21 اکتوبر 2012ء کو جامعۃ الأزہر میں مبسوط خطا ب فرمایا جس میں الازہر اور قاہرہ کے بڑے بڑے محدثین، جامعۃ الازہر کے اساتذہ اور حدیث کے شعبہ کے سربراہ، سب شریک تھے۔ جن میں پروفیسر ڈاکٹر محی الدین عفیفی (شعبہ اسلامیات الازھر یونیورسٹی و سابق سیکرٹری جنرل اسلامک ریسرچ اکیڈمی)، ڈاکٹر محمد عبد الفضیل القوسی (مرحوم) پروفیسر آف تھیالوجی اینڈ فلاسفی جامعہ الازھر و سابق وائس چانسلر الازھر یونیورسٹی، ڈاکٹر ابراہیم محمد عبد اللہ الخولی (Prof of Linguistics, Literature & Criticism at Azhar University)، میجر جنرل اسامہ یاسین (نائب صدر ورلڈایسوسی ایشن فار الازھر گریجوایٹس) ممتاز تھے۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کا یہ خطاب سن کر سب شیوخ، طلبہ اور اساتذہ دنگ رہ گئے اور عش عش کر اٹھے، کیونکہ وہ موضوع کی نزاکت اور اہمیت سے آگاہ تھے اور جانتے اورسمجھتے تھے کہ شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس موضوع کا کس علمی مہارتِ تامہ سے احاطہ کیا ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس قیمتی کتاب میں حدیث کی روایت، تحمل اور اداء کی شرائط بیان کی ہیں۔ آپ نے اس کتاب کا آغاز روایت حدیث کے مفہوم اور اس کی شروط سے کیا ہے پھر اخذ حدیث اورتعلیم حدیث کے آداب کا ذکر کیا ہے۔ آپ نے روایت حدیث کے کل تیرہ (13) آداب بیان کیے ہیں، جن میں اِخلاصِ نیت اور پاکیزہ اَخلاق سے خود کو آراستہ کرنا شامل ہیں۔ اس بحث کے آخر پر اسلوب تدریج پر حفظ حدیث کا ذکر کیا ہے اور اس بحث کا اختتام آدابِ روایت میں اہم تصانیف پر کیا ہے۔
اِس کے بعد تحمل الحدیث کی تعریف بیان کی ہے، کس عمر میں حدیث کی روایت درست تسلیم کی جائے گی،تحمل اور اداء کے طریقے ائمہ کی کتب سے اخذ کرتے ہوئے بیان کیے ہیں اور ہر طریقے کے ذیل میں اس کی صورت، حکم، رتبہ، اس کی شروطِ صحت اور روایت لینے والے کے لیے اداء کے الفاظ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا اختتام تحمل اور اداء کے آٹھ طریقوں پر ہوتا ہے۔
اس جلد میں شامل اگلی کتاب کا عنوان: شِفَاءُ الْعَلِيْلِ فِي قَوَاعِدِ التَّصْحِيْحِ وَالتَّضْعِيْفِ وَالْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْل ہے۔
اس انمول کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے تصحیح و تضعیف اور جرح و تعدیل کے ’72‘ قواعد (articles) بیان کیے ہیں جو آپ نے علوم الحدیث پر سال ہا سال پر محیط مطالعہ کے دوران منتخب فرمائے ہیں۔ گویا آپ نے ذخیرۂ علوم الحدیث کی عمیق اور وسیع و عریض کان سے یہ بیش قیمت موتی انتہائی عرق ریزی سے چن کر اس کتاب کے تاج میں جڑ دیے ہیں۔ یہ کتاب قیمتی موتیوں کا ایک خزانۂ عامرہ ہے۔ ان میں سے ہر موتی گوہر شبِ چراغ ہے۔
یہ کتاب تین اجزاء پر مشتمل ہے: پہلے جزء میں شیخ الاسلام نے ائمہ حدیث کے نزدیک تصحیح اور تحسین کے اہم قواعد ذکر کیے ہیں۔آپ نے اس میں انیس (19) قواعد بیان کیے ہیں۔ دوسرا جزء تضعیف کے قواعد کے لیے مختص ہے، جب کہ تیسرا جزء جرح وتعدیل کے قواعد کے لیے خاص ہے۔
ماہرین اُصول الحدیث نے حدیث کو صحیح، ضعیف اور حسن قرار دینے اور جرح و تعدیل کے قواعد اپنے اپنے محل اور مقام پر اپنی کتب میں بیان کیے ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے ان سیکڑوں کتب سے خوشہ چینی کرتے ہوئے ان قواعد کو 72 آرٹیکلز کی شکل دے کر یکجا کردیا ہے۔
آپ نے ان قواعد حدیث کو ایک نیا نظم دیا ہے، ان سے نیا استنباط پیدا کیا اور نئے معانی اور احکام اخذ کیے۔ گویا آپ نے حکمِ حدیث اور جرح و تعدیل کے قواعد کا ایک دستور اور آئین وضع کردیا ہے۔اگر کوئی صرف اِن 72 آرٹیکلز کو پڑھ لے تو اس میں علم الحدیث کے حوالے سے اتنا درک اور اُس کے فہم ومعرفت میں اتنا اضافہ ہو جائے گا جو ناقابل بیان ہے۔
حکمِ حدیث اور جرح و تعدیل کے قواعد کو اس طرح دستور کی شکل دے کر شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے علوم الحدیث کے طلباء پر عظیم احسان کیا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے ایک ایک حوالہ اور مثالیں دے کر عام اہل علم اور عامۃ الناس کو علمی مغالطوں سے بچایا ہے اور انہیں دوران مطالعہ پیدا ہونے والی گمراہیوں سےمحفوظ کیا ہے۔
علم الحدیث میں مہارت اور دسترس نہ رکھنے کی وجہ سے ایک قاری کے ذہن میں جو ابہام اورشکوک وشبہات پیدا ہو سکتے ہیں، ان کا ازالہ کردیا ہے۔ اصطلاحات کا فہم آسان کردیا ہے اور لوگوں کےعلمی تصورات کے جہاں کو نئے تخلیقی و تحقیقی پہلوؤں سے متعارف کرایا ہے۔
الغرض! ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب نہایت عمدہ ہے اور حصول غایت کے لیے اہم ہے۔ علوم الحدیث کاکوئی طالب عالم اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ قواعد اس علم میں ایک صحیح ترازو کا کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ کتاب علوم الحدیث میں غایت درجہ اَہمیت کےحامل مسئلہ ’’اَہلِ بدعت سے حدیث لینے اور اُسے آگے روایت کرنے‘‘ سے بحث کرتی ہے۔
شیخ الاِسلام نے اس کتاب کے آغاز میں بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے، اس کی مختلف اقسام وضع کی ہیں اور ان اقسام ميں سے ہرایک کا الگ الگ حکم بیان کیا ہے۔
اس کتاب میں شیخ الاِسلام حفظہ اللہ نے بدعتی سے روایت کرنے کا حکم اور اَہلِ بدعت سے تخریجِ حدیث کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کا منہج بیان کیا ہے۔ آپ نے ائمہ حدیث کی کتب سے نظائر پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ائمہ حدیث کی اکثریت شرائطِ عدل پورا کرنے پر اَہلِ بدعت سے روایت لینے کو نہ صرف جائز سمجھتی تھی، بلکہ اُنہوں نے ان سے روایات لی ہیں اور اُنہیں اپنی کتب میں درج بھی کیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالم عرب کے بعض حلقوں میں بالعموم عقیدے کے باب میں فروعی اِختلافات کی بناء پرکفر و شرک اور بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کا رُجحان عام ہو چکا ہے۔ علماء و واعظین اور مبلغین اپنے فکری و نظری اِختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر و مشرک، گستاخ، بدعتی اور ضالّ ومضلّ کہہ کر دائرۂ اسلام سے یا کم از کم اَہلِ سنت یا سوادِ اَعظم سے خارج قرار دینے میں ذرا برابر تأمل نہیں کرتے۔
اِس قبیل کے مذہبی نمائندگان کے تنگ نظری پر مبنی رُجحانات نے اُمتِ مسلمہ کو لخت لخت کردیا ہے۔ شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اُصول الحدیث پر بحث کے دوران امام بخاری، امام مسلم اور اکابر ائمۂ حدیث کا طرزِ عمل اس انداز سے بیان کیا ہے کہ فتنہ تکفیریت کے شجرِ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ آپ نے علم الحدیث کی روشنی میں معتمد ائمہ اُمت کے علمی طرزِ عمل سے اِس فتنہ کا سد باب کیا ہے۔
عصرِ حاضر میں اتحادِ اُمت میں رخنہ ڈالنے والا ایک مسئلہ بدعت کا فتویٰ ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ اِلّا ما شاء اللہ اُمت کے ہر فرد کی زبان پر ہے۔ بدعت کی اصطلاح کا فاسد اطلاق کر کے دوسروں کو بدعتی، گمراہ، خارج اَز اِسلام قرار دینا اور ان کا جہنم میں داخلہ واجب ہونے کا فتویٰ داغ دینا علماء و واعظین اور خطباء کا عمومی طرزِ عمل بن چکا ہے۔ جب کہ سلف صالحین اور متقدمین کا طرزِ عمل ہرگز ایسا نہیں تھا۔
شیخ الاسلام نے واضح کیا ہے کہ اگر فروعی مسائل ميں اختلافات کی وجہ سے کوئی کسی شخص کو کافر، گمراہ اور ضال و مضل قرار دے دیتا تو ائمہ احادیث -جن کے توسط سے پورا دین اُمت تک منتقل ہوا اور جن کے اوپر پوری امت کا اعتماد ہے- نے اپنی صحیح کتب حدیث میں ان راویوں پر شرائط عدالت پورے ہونے کی صورت میں اعتماد کرتے ہوئے اور ان کے بدعتی اعتقاد و عمل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان سے اَحادیث کیوں روایت کی ہیں؟ جب حدیث رسول ﷺ کی روایت کے لیے اعتماد کر لیا تو اس سے بڑھ کون سی فکرِ اسلام ہے جس کی نسبت ان پر اعتماد نہ کیا جا سکے؟
روایت مبتدعہ پر جمہور مذہب بیان فرما کر شیخ الاسلام نے اِس مسئلے پر علمی اور فکری طور پر اتنی وسعت پیدا کر دی ہے کہ اب محض بدعتی قرار دے کر کوئی کسی کو خارج اَز اسلام قرار نہیں دے سکتا۔
یہ کتاب حضور شیخ الاسلام کا تفرد ہے جو آپ کی قوتِ اجتہاد اور قوتِ استنباط کو ظاہر کرتی ہے۔ علم الحدیث کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں فروعِ عقیدہ کو اس نہج پر بیان کیا گیا ہے کہ اسی کے ذیل میں مصطلحات الحدیث کو بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ مستزاد یہ کہ مصطلحات پر براہِ راست قرآنی آیات سے اِستشہاد کیا گیا ہے۔
اس عنوان کے تحت شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کیا ہے کہ حدیث نبوی ﷺ بھی وحی کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کہ رسو ل اللہ ﷺ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے۔ آپ ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
«أَلَا إِنِّي أُوتِيْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ».
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/130، الرقم/17213، وأبو داود في السنن، كتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4/200، الرقم/4604.
خبردار! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص و اِمتیازات اور کمالات کا تذکرہ کیا ہے اور واضح کیا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہرگز کسی دوسرے کے قول کی مانند نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا فعل کسی دوسرے کے فعل کی مانند نہیں اور آپ ﷺ کا راستہ، آپ ﷺ کی عطا، آپ ﷺ کی رضا، آپ ﷺ کا فضل، آپ ﷺ کا غناء اور آپ ﷺ کی بارگاہ کا ادب اور آپ ﷺ کے دیگر خصائص و کمالات اور عطایا جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمایا ہے، محض آپ ﷺ ہی کی ذاتِ صفات کے ساتھ خاص ہیں۔ شیخ الاِسلام نے ان میں سے ہر ایک پر قرآن مجید سے دلائل پیش کیے ہیں۔
اس کتاب کی ایک لطیف اور عمدہ جہت یہ ہے کہ اس میں شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے علوم الحدیث میں استعمال ہونے والی کئی اصطلاحات کا قرآنی آیات سے استنباط کیا ہے، جیسے اقسام حدیث میں سے مشہور، عزیز، غریب، صحیح، حسن، ضعیف اور روایت کے لیےتحمل و اداء کی صورتیں وغیرہ، مثلاً:
آپ سماعِ حدیث کا استنباط درج ذیل قرآنی آیات سے کرتے ہیں:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَقُولُواْ رَٰعِنَا وَقُولُواْ ٱنظُرۡنَا وَٱسۡمَعُواْ﴾
[البقرة، 2: 104]
اے ایمان والو! (نبی اکرم ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو۔
﴿رَّبَّنَآ إِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِيٗا يُنَادِي لِلۡإِيمَٰنِ أَنۡ ءَامِنُواْ بِرَبِّكُمۡ فََٔامَنَّا﴾
[آل عمران، 3: 193]
اے ہمارے رب! (ہم تجھے بھولے ہوئے تھے) سو ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی ندا دے رہا تھا کہ (لوگو!) اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔
﴿ٱلَّذِينَ يَسۡتَمِعُونَ ٱلۡقَوۡلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحۡسَنَهُۥٓ﴾
[الزمر،39: 18]
جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں۔
اجازتِ حدیث کا استنباط آپ نے درج ذیل اِرشاداتِ باری تعالیٰ سے کیا ہے:
﴿أَنزَلۡنَٰهُ إِلَيۡكَ لِتُخۡرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذۡنِ رَبِّهِمۡ﴾
[إبراهيم، 14: 1]
جسے ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان کے) نور کی جانب لے آئیں (مزید یہ کہ) ان کے رب کے حکم سے۔
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِنَّآ أَرۡسَلۡنَٰكَ شَٰهِدٗا وَمُبَشِّرٗا وَنَذِيرٗا45 وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجٗا مُّنِيرٗا﴾
[الأحزاب، 33: 45-46]
اے نبیِ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔
حدیث ضعیف، حسن اور صحیح کا استنباط سورۃ فاطر کی درج ذیل آیت کریمہ سے کیا ہے:
﴿ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ﴾
[فاطر، 35: 32]
پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی اُمّتِ محمدیہ کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں۔ یہی (اس کتاب یعنی قرآن کا وارث ہونا) بڑا فضل ہے۔
اس آیت کریمہ میں ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ کا اشارہ حدیث ضعیف کی طرف، وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ کا اشارہ حدیث حسن کی طرف ہے اور وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ کا اشارہ حدیث صحیح کی طرف ہے۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اِ س آیت کریمہ سے دوسرا استنباط یہ کیا ہے کہ اگر ارتقاء کی شرائط پوری کی جائیں تو تینوں درجوں میں سے آخری درجہ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ بھی مردود نہیں۔ آیت کریمہ کے مطابق تینوں درجات وارثینِ کتاب کے ہیں اور چنیدہ بندوں میں داخل ہیں اور ان کے لیے نعمتِ قبولیت کا اعلان ہے۔
حدیث ضعیف دیگر طرق، توابع اور شواہد کے ملنے سے ضعیف کے درجہ سے حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نےمتعدد آیات کریمہ اور احادیث نبویہ سےاِس اُصول کا استنباط کیا ہے کہ کس طرح حدیثِ ضعیف کا حدیث حسن کے درجہ تک ارتقاء ہو تا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
[غافر، 40: 8]
اے ہمارے رب! اور انہیں (ہمیشہ رہنے کے لیے) جنّاتِ عدن میں داخل فرما، جن کا تُو نے اُن سے وعدہ فرما رکھا ہے اور اُن کے آباء و اجداد سے اور اُن کی بیویوں سے اور اُن کی اولاد و ذرّیت سے جو نیک ہوں (انہیں بھی اُن کے ساتھ داخل فرما)، بے شک تو ہی غالب، بڑی حکمت والا ہے۔
اِسی طرح فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ﴾
[الطور، 52: 21]
اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگا۔
اگر اولاد میں اِسلام اور ایمان کی مبادیات موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں کمزور اعمال کے باوجود ایمان اور اتباع میں اُن کے صالح آباء کے ساتھ ملا دے گا۔ اسی طرح حدیث ضعیف کو اگر توابع اور شواہد مل جائیں تو یہ درجۂ حسن تک ترقی پا جائے گی۔
اس کا اشارہ درج ذیل حدیث مبارک میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
مَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ فِي الْحَقِّ، يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا بِأَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ. قَالَ: يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَحُجُّونَ مَعَنَا، فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب التوحيد، (باب قول الله تعالى ) ﴿وُجُوهٞ يَوۡمَئِذٖ نَّاضِرَةٌ٢٢ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٞ﴾، 6/2707، الرقم/7001، والنسائي في السنن، كتاب الإيمان و شرائعه،8/112، الرقم/5010.
تم دنیا میں اپنے حق کی خاطر اتنا نہیں جھگڑتے جتنا جھگڑا مومن اپنے رب تعالیٰ سے اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں داخل کیے جائیں گے۔ وہ (مومن) کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے وہ مسلمان بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے اور حج کرتے تھے۔ تو نے ان کو آگ میں ڈال دیا ہے؟ اللہ تعالی فرمائے گا: جاؤ جنہیں تم پہچانتے ہو، انہیں نکال لاؤ۔
مذکورہ بالا قرآنی آیات اور حدیث نبویہ میں صراحت سے بیان ہوا ہے کہ جس طرح ایمان و ایقان میں رسوخ اور پختگی نصیب ہوتی ہے، اسی طرح ہدایت و معرفت میں بھی برکت و فضیلت کے اُمور کے باعث اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے حدیثِ حسن خیرات و برکات کے باعث احادیث ضعیفہ کی مؤید و مددگار بنتی ہے۔ بشرطیکہ ان میں ضعف شدید نہ ہو اور توابع و شواہد بھی مل جائیں تو ان کا ارتقاء درجۂ حسن تک ہو جاتا ہے۔
شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اِس طرح کے بے شمار اُصول و قواعد کا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے براہ راست استنباط کیا ہے۔
حدیث موضوع کا استنباط درج ذیل آیت کریمہ سے فرمایا:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا﴾
[النساء، 4: 145]
بے شک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے۔
اِس آیت میں منافقین کےدرجہ ﴿الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ﴾ کا ذکر ہے جو جہنم کا سب سے آخری درجہ ہے اور مردود ہے۔ شیخ الاِسلام مد ظلہ العالی نے اس سے حدیث موضوع کا تصور لیا ہے کیونکہ وہ بھی مردود ہے۔ اِس آیت کریمہ سے آپ نے ثابت کیا ہے کہ موضوع حدیث ﴿الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ﴾ کی مانند ہے۔ اُس کے لیے کوئی نصیر اور مدرگار نہیں ملے گا۔ اگر توابع وغیرہ اس کے مضمون کے ساتھ ملتے بھی ہوں تو اُس کی موضوعیت کو مردود کے درجہ سے نکال کر درجہ ضعیف، حسن یا قبول کی میزان پر نہیں تول سکتے۔
عیاں را چہ بیاں کہ علم الحدیث کے بے شمار قواعدہیں جن کا استنباط شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے بہ نگاہِ تعمق قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے کیا ہے۔ یہ ایسا نادر و نایاب اُسلوب ہے جسے شاید گذشتہ بارہ سوسال کی تاریخ میں کسی نے نہیں اپنایا۔ علمی وحدت کے اِس منہج پر اس سے قبل بعض اکابر علماء و محدثین نے چند صفحات پرمشتمل انتہائی مختصر رسالے لکھے یا کسی بحث کے دوران ایک دو پیرا گراف لکھ دیے، مگر اِس موضوع پر اتنی وسعت اور جامعیت کے ساتھ پورا رسالہ کسی نے بھی تصنیف نہیں کیا۔ جن مصنفین نے یہ کام کیا انہوں نے اپنے خطبات میں فقط مصطلحات استعمال کی ہیں، لیکن آیات قرآنیہ سے مختلف علوم و فنون کا استنباط کر کے ان کی لفظی و معنوی مناسبت کو بیان نہیں کیا۔ ایسا کوئی رسالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔
شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اس کتاب میں وحی کی اقسام، شبِ اِسراء و معراج حضور نبی اکرم ﷺ کے رؤیت باری تعالیٰ کو بیان کیا ہے۔ بعد ازاں لطیف مباحث میں شیخ الاِ سلام مدظلہ العالی نے حدیث کی مستعمل اصطلاحات کو حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل کریمہ کے ساتھ ملاکر ان کی لفظی و معنوی مناسبت بیان کی ہے، تدریجاً اَسانیدکے درجات اور انسان کے مختلف احوال کا تذکرہ کیا ہے، پھر علم الحدیث کے بعض فضائل بھی بیان کیے ہیں۔
شیخ الاِسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس جلد میں تدوینِ حدیث نبوی ﷺ کے اہم مسئلہ پر مدلل اور مسکت بحث کی ہے۔ تدوین حدیث کے مابعد ادوار میں سنت نبویہ کے منکرین نے یہ خود تراشیدہ دعویٰ کیا کہ سنت نبویہ کی تدوین ہجرت نبوی سے دو صدیاں گزر جانے کے بعد ہوئی۔ ان کا یہ انکار سنت نبویہ المشرفہ پر طعن تک جا پہنچا۔ حضور شیخ الاسلام نے پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر فرمایا جن کے پاس کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی عدد میں احادیث نبویہ کتابت شدہ موجود تھیں۔ پھر ان میں سے کئی کے مستقل صحائف تھے اور کئی کئی کتب تھیں۔ مستزاد یہ کہ آپ نے اس کتاب میں اول تا آخر تابعین کے اوائل زمانے سے لے کر امام بخاری سے کم و بیش دس برس پہلے تک کے کل ایک سو سے زائد شخصیات کا تذکرہ فرمایا ہے، جن کے پاس احادیث لکھی موجود تھیں۔ نیز ان میں کم و بیش تیس ایسی شخصیات تھیں جن کے بارے میں تصریح ہے کہ ان کے پاس بہت سے صحائف موجود تھے۔
اِس کتاب میں شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اس شبہ کا تجزیہ وتحلیل کرتے ہوئے اس کا ردّ اور ابطال کیا ہے اور ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ تدوین سنت و حدیث کی ابتدا دور نبوی ﷺ میں ہی ہو چکی تھی۔
انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان عالی شان سے استشہاد کیا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تھا:
اُكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ.
أخرجه أبو داود في السّنن، كتاب العلم: باب في كتاب العلم، 3/318، الرّقم/3646، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/162، الرقم/6510، 2/192، الرقم/6802، والدّارمى في السنن، 1/136، الرقم/484، والحاكم في المستدرك، 1/187، الرقم/359، وابن أبى شيبة في المصنف، 5/313، الرقم/26428.
لکھو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس دہنِ پاک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض کے پاس صحائف تھے جن میں وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہوئی احادیث لکھ لیا کرتے تھے، یہ روایات اور واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ تدوین حدیث کاعمل فی نفسہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دورِ اقدس میں شروع ہو چکا تھا۔
اِس کتاب میں عہدِ صحابہ و تابعین اوراتباع التابعین کے ادوار میں تدوین حدیث کے مراحل پر مرحلہ وار اور تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب سے انکار حدیث کا فتنہ شروع ہوا ہےمنکرین حدیث سیدھا حجیت حدیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ شکو ک وشبہات کے ذریعے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ یہ تو ظاہر و باہر ہے کہ اگر وہ براہِ راست انکارکرتے تو لا محالہ بہت کم ذہن ان کی فکر کو قبول کرتے۔ سمجھا جاتا کہ وہ براہِ راست حدیث و سنت اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت و اتباع کے وجوب کا انکار کر رہے ہیں۔ اس طرح اُن کی خود ساختہ دلیل بے وزن اور ان کا مقدمہ کمزور ہو جاتا۔ لہٰذا وہ اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کےلیے تشکیک کا راستہ اختیار کرتے ہیں کہ ذخیرہ أحادیث کے قابلِ اعتبار ہونے کے تصور میں شک و شبہ پیدا کیا جائے۔ اگر وہ اِس میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا انکار حدیث کا مقصد خود بخود پورا ہو جاتا ہے۔ وہ شک کا بیج بو دیتے ہیں، پھر اس سے آگے اِنکارِ حدیث کے مزید راستے کھل جاتے ہیں۔
منکرینِ حدیث حجیتِ سنت کا انکار کرنے کے لیے اس بات کو سندِ جواز بناتے ہیں کہ اُس کی تدوین رسول مکرم ﷺ کے پردہ فرما جانے کے دو صدیاں بعد ہوئی۔ وہ ایک جھوٹا مفروضہ گھڑ کے اِس کے ذریعے حجیت حدیث کے عقیدے پر تشکیک کے ہتھیار سے حملہ کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید تو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں اوّل تا آخر پڑھا جاتا تھا اور کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کے حفاظ بھی تھے، قرآن تو حضور ﷺ نے خود اوّل تا آخر بیان کیا اور آپ ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے لکھ لیا۔ اِس پر تو کوئی انکار ہی نہیں اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
[الحجر، 15: 9]
بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
مگر حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کے بارے میں اِس طرح کا ثبوت میسر نہیں کہ دور نبوی میں ہی انہیں لکھ کرمحفوظ کر لیا گیا تھا۔ ان کی کتابت کا سلسلہ دو اڑھائی سو سال بعد شروع ہوا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلا ذخیرہ صحاح ستہ کی شکل میں مرتب ہوا، یا چند دیگر معروف کتابوں کا ذکر کر دیتے ہیں جیسے مسند احمد بن حنبل، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق اور موطا امام مالک وغیرہ۔
وہ عامۃ الناس کو ورغلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دو صدیوں تک جب احادیث کے ذخائر لکھےہوئے موجود ہی نہ تھے تو بعد میں یہ روایات کہاں سے آئیں، یہ سینہ بہ سینہ چلیں۔ لہٰذا جو روایات سینہ بہ سینہ چلیں ان پر کیوں کر اعتبار کیا جائے؟ حدیث کا جو ذخیرہ دو سو سال بعد مرتب ہوا اسے قرآن مجیدکی طرح کس طرح حجت مان لیا جائے؟ یہ اُن کا طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ ذہنوں کو مسموم کرتے ہیں۔ وہ حجیتِ سنت سے انکار کے مقصدتک پہنچنے کے لیے پہلی دو صدیوں میں تدوین حدیث نہ ہونے کی خود ساختہ داستان اور خانہ ساز لغو مفروضے کا سہارا لیتے ہیں، اس کے ذریعے قلوب و اذہان کی دھرتی میں شکوک و شبہات کی تخم ریزی کرتے ہیں۔نتیجتاً علمی طور پر کمزور اَذہان اَز خود تشویش میں مبتلا ہو کر اس فتنے کا شکار ہو جاتے ہیں، حالاں کہ یہ سارا بے بنیاد مفروضہ مبنی بر جہالت و کم علمی ہے۔
ان کا طریقِ واردات یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سادہ اور کم علم لوگوں کو تشویش کے خلجان میں مبتلا کیا جائے، پھر دوسرے مرحلے میں انہیں تشکیک کے جال میں پھانس کر حجیت حدیث سے انکار کی دلدل کی نذر کر دیا جائے۔ یہ ہے ان کا وہ حربہ جس کے ذریعے وہ حجیت حدیث پر حملہ آور ہوتے ہیں، تشکیک کے شعلے بھڑکا کر فتنۂ انکار حدیث کا الاؤ روشن کرتے اور اس کے اردگرد بھیانک عزائم کی طاغوتی چوپال سجاتے ہیں۔
شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے یہ کتاب لکھ کر تدوین حدیث پر اعتراض کی آڑ میں فتنہ انکارِ حدیث کا کلی استیصال کر دیا ہے، یہ ایک فقید المثال تاریخی و تحقیقی کارنامہ ہے۔ آپ نے صحیح بخاری کی تدوین سے قبل دو صدیوں میں 600 کے قریب چھوٹے بڑے تحریری ذخائرِ أحادیث ثابت کیے ہیں، جن کا ذکر کتب میں آیا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اِن کے ثبوت فراہم کر کے فتنۂ تشکیک کے جھاڑ جھنکاڑ کی بیخ کنی کر دی ہے۔ منکرین حدیث نے فتنہ قائم کیا کہ ہم صرف اَہل القرآن ہیں جس کا مطلب نفیِ حجیتِ حدیث تھا۔ شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے دلائل سے تشکیک کا راستہ بند کر دیا اور اس فتنہ کی جڑ کاٹ دی۔ یہ علم الحدیث کی خدمت کے حوالے سے ایک عظیم الشان تاریخی کام ہے جو صدیوں تک اُمت کےکام آئے گا۔
اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة کی آخری تین جلدیں معرفتِ حدیث اور نقدِ رجال کے فن میں شہرت اور مہارتِ تامہ رکھنے والی ایک ہزار شخصیات کے تذکرہ پرمشتمل ہیں۔ رجال پر یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ ان تین جلدوں کو حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے درج ذیل عنوان دیا ہے:
‹‹الْإِجْمَالُ فِيْ ذِكْرِ مَنِ اشْتَهَرَ بِمَعْرِفَةِ الْحَدِيْثِ وَنَقْدِ الرِّجَالِ››
شیخ الاِسلام نے کتب التراجم والرجال سے ان یگانہ روزگار شخصیات کا انتخاب کیا ہے۔ یہ انتخاب اپنی جگہ تحقیق و تدقیق کا ایک شاہ کار ہے۔ یہ منتخب شخصیات حدیث نبوی ﷺ کے میدان میں ثقاہت، مہارت اور علم الحدیث میں رسوخ کے اعتبار سے دائمی شہرت رکھتی ہیں۔
آپ نے قاری کی سہولت کی خاطر شخصیات کو جمع کرنے اور ان کی نسبت معلومات پیش کرنے کے لیے خاص اُسلوب اختیار کیا ہے۔آپ نے ہر شخصیت کے حوالے سے معلومات کو چند عنوانات کے نیچے تقسیم کیا ہے۔ آپ نے نام، نسبت، کنیت، شیوخ، تلامیذ اور علمی مقام و مرتبہ کے عنوانات کے تحت اہم معلومات درج کی ہیں۔
شیخ الاسلام نے ان منتخب رجال (شخصیات) کے طبقات ان کی وفیات کے حساب سے تقسیم کیے ہیں۔ آپ نے اس میں تلمذ اور رؤیتِ شیخ، علاقے، لقاء وغیرہ ذکر کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔
آپ نے ہر طبقہ کے تحت ان شخصیات کے نام منتخب کیے ہیں جو نقد میں معروف ہیں، علم الحدیث میں رسوخ رکھنے میں مشہور ہیں، ائمہ علم الحدیث کے نزدیک مقبول ہیں اور اپنی کتب میں احادیث کی تخریج کرنے والے ہیں۔
یہ تینوں جلدیں اپنے پڑھنے والے کو مشہور اَئمہ، وارثینِ حدیث اور نقد رجال کے میدان میں ممتاز مقام کے حامل افراد کے بلند علمی مقام و مرتبہ اور ان کے زُہد و ورع سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔
اِس مختصر تعارف میں ہم نے علوم الحدیث کے اس ضخیم موسوعہ کے چند امتیازات اور اس کے موضوعات کا خلاصہ پیش کرنے کی سعی نا تمام کی ہے، جسے شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ”اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة“ سے موسوم کیا ہے۔
اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس کا ایک ایک صفحہ علم کے موتیوں کا بحرِ ذخار ہے۔ علوم الحدیث کا یہ گراں قدر انسائیکلو پیڈیا اہل علم و فن کے لیے ایک نادر و نایاب ارمغاں اور بے نظیر و بے مثال تحفہ ہے۔ اس موسوعہ کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ اس کے مطالعہ کے بعد اہل علم و فن ہی کر سکیں گے۔
یہ چند سطور اس موسوعہ کی افادیت، جامعیت اور ناگزیریت کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ نیز اس حوالے سے ہمیں اپنی علمی کم مائیگی کا بھی احساس ہے کہ ہم کماحقہ اس موسوعہ کے فنی محاسن بیان نہیں کر سکتے۔ یقیناً اہل علم اور علم الحدیث کے شیوخ، اساتذہ اور فنِ اُصول الحدیث کے ماہرین جب اس کا مطالعہ کريں گے تو اس کی مزید نادر خصوصیات عامۃ الناس کے سامنے لائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیخ الاِسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی اس کاوشِ علمی سے کما حقہ مستفید ومستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سنت رسول ﷺ اور حدیث نبوی ﷺ کا کامل فہم عطا کرے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved