اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور کل عالمِ انسانیت کے لیے اَحسن و اَجمل منشورِ زندگی ہے۔ جب کہ قرآن و سنت شریعتِ اسلامی کی بنیاد ہے۔ یہ حقیقت مسلّم الثبوت ہے کہ قرآن حکیم سب سے آخری اِلہامی کتاب اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کے لیے قرآن مجید ہدایتِ ربانی کا اولین سرچشمہ ہے اور حضور ﷺ کی سیرتِ طیبہ بہترین اُسوہ اور نمونۂ عمل ہے۔ قرآن حکیم حضور ﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل ہوا جسے کاتبین وحی نے آپ ﷺ سے سنا اور لکھ کر محفوظ کیا۔ قرآن حکیم کا یہ ابدی اعجاز ہے کہ اس کا ایک ایک حرف روزِ اوّل کی طرح اصل حالت میں تر و تازہ اور محفوظ ہے۔ آج اسلام کی سب سے بڑی حقیقت کتابِ زندہ قرآن مجید ہے۔ قرآن حکیم کے بعد شریعت اسلامی کا اہم ترین ماخذ سنتِ رسول ﷺ ہے،حضور رحمت عالم ﷺ کی سنتِ مطہرہ اور سیرتِ طیبہ دین اسلام کی دوسری بڑی اساس ہے۔قرآن مجید کی طرح صاحبِ قرآن ﷺ کی سیرت طیبہ کا بھی ایک ایک گوشہ الفاظ اور اعمال میں محفوظ ہے اور کھلی کتاب کی طرح اربابِ فکر و نظر کے سامنے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اُمت کے لیے اُسوۂ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِي رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةٞ﴾
[الأحزاب، 33: 21]
فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ مکرم ﷺ کی حیات طیبہ کو قرآنِ حکیم میں اُمت کے لیے اسوۂ کامل قرار دے کر اس کی پیروی کو واجب الاتباع فرما دیا ہے۔ قرآن حکیم میں جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ پر ایمان لانے کا حکم ہے، اُسی طرح اَہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ﴾
[آل عمران، 3: 132]
اور اللہ کی اور رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے علاوہ اِتباعِ رسول ﷺ کو بھی ایمان بالرسالت کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی پیروی درحقیقت محبت الٰہی کے حصول کا واسطہ اور ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلۡ إِن كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِي يُحۡبِبۡكُمُ ٱللَّهُ وَيَغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٞ﴾
[آل عمران، 3: 31]
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کے واجب ہونے کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی کامل پیروی کی جائے اور آپ ﷺ کے ارشادات و فرمودات کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اُسی طرح عمل کیا جائے جس طرح قرآن مجید کے اَحکامات پر عمل کیا جاتا ہے۔ بلکہ قرآن مجید کو سنت رسول ﷺ اور احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں سمجھا جائے اور قرآنی آیات کی اس تفسیر اور تعبیر کو حتمی مانا جائے جو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی زبانِ صداقت سے بیان فرما دی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کا ابلاغ و بیان رسول اللہ ﷺ کے فرائضِ نبوت میں شامل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغۡ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ﴾
[المائدة، 5: 67]
اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجیے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم ﷺ کو قرآن حکیم کی توضیح و تشریح بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ﴾
[النحل، 16: 44]
اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں۔
اِس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حلت و حرمت یعنی کسی کام کے کرنے کا حکم دینے اور کسی کام سے منع کرنے کا اختیار بھی عطا فرمایا ہے:
﴿وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُواْ﴾
[الحشر، 59: 7]
اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔
ان آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ نبی آخر الزمان ﷺ پر ایمان لانا، آپ ﷺ کی اِطاعت و اِتباع بجا لانا اور آپ ﷺ کے اَحکاماتِ حلت و حرمت کو ماننا اُسی طرح لازم ہے جیسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور اُس کے احکاماتِ حلت و حرمت کو ماننا۔ گویا آپ ﷺ کی سنت و حدیث کو حجیت میں وہی درجہ حاصل ہے جو قرآن مجید کا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قرآن مجید وحی متلو ہے، جب کہ آپ ﷺ کی سنت اور حدیث وحی غیر متلو کا درجہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓo إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡيٞ يُوحَىٰ﴾
[النجم، 53: 3-4]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
حدیث و سنت کا قرآن کی طرح حجت ہونا فرامینِ رسول ﷺ سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
أَلَا، إِنِّى أُوْتِيْتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 130، الرّقم: 17213؛ وأبو داود في السّنن، كتاب السّنة، باب في لزوم السّنة، 4: 200، الرقم: 4604؛ والطّبراني في المعجم الكبير، 20: 283، الرقم: 669
خبردار! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز (یعنی سنت) بھی دی گئی ہے۔
کتاب و سنت دونوں لازم و ملزوم ہیں، آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ.
أخرجه مالك في الموطأ، كتاب القدر، باب النهي عن القول بالقدر، 2: 899، الرقم: 1594، والحاكم في المستدرك، 1: 172، الرقم: 319، وابن عبد البر في التمهيد، 24: 331، الرقم: 128، والواسطي في تاريخ واسط، 1: 50.
میں تم میں دو چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے(کبھی) گمراہ نہ ہو گے، (واضح رہے کہ) وہ (چیزیں) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہیں۔
قرآن و سنت کے دلائل و براہین سے اظہر من الشمس ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ اور سنت مطہرہ شریعت اسلامیہ کا بنیادی ماخذ و مصدر ہیں۔ یہ قرآن مجید کی تعلیمات کے اِتصال سے اسلامی قانون اور انسانی منشورِ زندگی مرتب کرتی ہیں۔ لہٰذا قرآن و سنت ایک دوسر ے کا جزو لاینفک ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ یہ دونوں یک جان دو قالب ہیں اس لیے ان دونوں کی اطاعت اختیار کرنے میں ہی عافیت و ہدایت اور خیر و فلاح ہے۔
مذکورہ بالا آیاتِ مقدسہ اور ارشادات نبویہ سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے سنت رسول ﷺ اور احادیث رسول ﷺ کا فہم ضروری ہے۔قرآن مجید میں اساسی تعلیمات اور احکام کا ذکر ہے۔ ان کی ہمہ جہتی تفصیل احادیث مبارکہ میں ملتی ہے اور عملی تشکیل سنت رسول ﷺ کی صورت میں موجود ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو جہاں قرآن حکیم کی تعلیم دی، وہاں حفظِ حدیث اور کتابتِ حدیث کی ترغیب کے ذریعے اپنی سنت وسیرت کو بھی محفوظ فرمایا۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاهَا، ثُمَّ أَدَّاهَا إِلَى مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 82، الرقم: 16800.
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سنے اور اسے (دوسروں تک) پہنچا دے۔ بعض لوگوں کے پاس فقہ کی بات ہوتی ہے اور وہ خود فقیہ نہیں ہوتے۔ جب کہ بعض لوگ فقہ کی بات اپنے سے زیادہ (بہتر انداز میں) فقیہ تک پہنچا دیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.
أخرجه التّرمذيّ في السّنن، كتاب العلم، باب ما جاء في الحثّ على تبليغ السّماع، 5: 34، الرقم: 2658، والطّبراني في المعجم الأوسط، 5: 233-234، الرقم: 5179.
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ (خوش و خرم اور شاداں و فرحاں) رکھے جو میری بات کو سنے اور (پوری) توجہ (و انہماک) سے سنے، اسے (اپنے حافظے اور یادداشت میں) محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے، کیوں کہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اُن سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
دین اسلام میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت اور حدیث کی حجیت اور اہم ترین مقام کے پیش نظر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو امانت و دیانت، صداقت و شجاعت اور ذکاوت و ذہانت کے علاوہ حفظ و ضبط کے اعلیٰ ترین اوصاف کے حامل تھے، حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو نہایت توجہ اور غور سے سنتے اور اِنہیں اپنی لوحِ دل پر محفوظ کر لیتے۔ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فنِ کتابت کے ماہر تھے وہ یاد (حفظ) کرنے کے علاوہ لکھنے کا بھی اہتما م کرتے۔ چونکہ یہ نزولِ قرآن کا دور تھا، اس لیے وحیِ اِلٰہی کی کتابت کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ بنا بریں حزم و اِحتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا اور کتابتِ حدیث کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی۔ تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں نزولِ وحی کے زمانے میں بھی کتابتِ حدیث کا سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر جاری رہا اور ابھی تدوینِ قرآن کا کام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا تھا کہ تدوینِ حدیث کے کام کا بھی باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا۔ یہ بات محققہ اور مسلمہ ہے کہ ائمہ صحاح ستہ سے بھی پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور اتباع التابعین کے پاس احادیث کے سیکڑوں صحائف اور کتب موجود تھیں جنہیں وہ آگے روایت کرتے تھے۔
غرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس عظیم الشان جماعت نے آپ ﷺ کے روز و شب کی تمام جزئیات و تفصیلات کو ان الفاظ کے ساتھ محفوظ کر لیا جو آپ ﷺ نے بیان فرمائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے آپ ﷺ کے اَفعال، اَقوال اور اَحوال و کیفیات کے بیان کو علم الحدیث سے موسوم کیا گیا۔ احادیث رسول ﷺ کو بیان کرنے والے راوی اور ان روایات پر کام کرنے والے محدّثین کہلائے۔
عصر حاضر میں کسی شخصیت کی زندگی کے حوالے سے معلومات جمع کرنا جدید ذرائع نے آسان بنا دیا ہے مگر اس کے باوجود کوئی شخص یا طائفہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہم نے فلاں شخصیت کی زندگی کا ایک ایک لمحہ من و عن محفوظ کر لیا ہے۔ یہ سیرۃ النبی ﷺ کا اعجاز ہے کہ آج سے 14 سو سال قبل جب ان ذرائع کا سرے سے وجود بھی نہ تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کی جلوت و خلوت، سفر و حضر اور نشست و برخاست کی تما م جزئیات اور تفصیلات کو بہ تمام و کمال محفوظ کیا۔ آج یہ ریکارڈ ہزارہا کتب خانوں میں لاکھوں صفحات میں موجود ہے۔ جن باکمال شخصیات نے اِن نقوش سیرت کو محفوظ کیا اللہ تعالیٰ نے اِس خدمت کی برکت سے اُن کی حیات و خدمات کو بقا اور دوام عطا فرما دیا۔ ان رُواۃِ حدیث کے حالات اور سیرت و کردار پر مشتمل منفرد و یگانہ صنفِ علم ”اسماء الرجال“ وجود میں آ گئی۔آج دنیا کا کوئی اور مذہب اس علم کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔
جس طرح ریاستی سربراہی میں جمع و تدوینِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی دور رس بصیرت اور آہنی قوتِ فیصلہ نے اساسی و کلیدی کردار ادا کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ کام تکمیل پذیر ہوا، اسی طرح تدوینِ حدیث کا باقاعدہ ریاستی سطح پر آغاز فاروق اعظم ثانی حضرت عمر بن عبد العزیز نے کیا۔ انہوں نے معتمد اور مستند ترین علماء کا بورڈ تشکیل دیا جس میں امام ابو بکر بن محمد بن عمر بن حزم، امام قاسم بن محمد بن ابی بکر اور امام ابو بکر محمد بن مسلم بن عبد اللہ بن شہاب الزہری قابل ذکر ہیں۔ امام ابن شہاب زہری (م 124ھ) نے اول الذکر دونوں حضرات کی مدد سے پہلا شاندار مجموعہ حد یث مرتب کیا۔ ابن شہاب زہری اکابر تابعین میں سے ہیں اور اپنے زمانے کے محدثین میں ممتاز مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ بلا کا حافظہ اور جنوں کی حد تک احادیث جمع کرنے کا شوق رکھتے تھے۔ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت انس بن مالک، حضرت سہل بن سعد جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حضرت سعید بن مسیب اور حضرت محمود بن ربیع جیسے تابعین سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ نامور محدثین امام اوزاعی، امام مالک اور امام سفیان بن عیینہ کا شمار ان کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ اگرچہ حدیث کی سند کا مطالبہ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں شروع ہو چکا تھا، تاہم تدوینِ حدیث میں حدیث کی سند بیان کرنے کا باضابطہ التزام ابن شہاب زہری نے کیا۔ اِسی لیے اُنہیں علم الاسانید کا واضع و مؤسس کہا گیا ہے۔ بایں معنیٰ کہ اُس دور میں متفرق جگہوں پر مسموع اور مکتوب احادیث کے ذخیرے کو یکجا کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ صحیفہ صادقہ، صحیفہ صحیحہ، حضرت سعد بن عبادہ، جابر بن عبد اللہ، انس بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین کے صحائف، حضرت عبد اللہ بن عباس L اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی جمع کردہ احادیث، الغرض پہلی صدی کے اختتام تک کئی حدیثی مجموعے منظر عام پر آچکے تھے ۔ لہٰذا ریاستی حکم کے تحت مکتوب اور مسموع احادیث کے ذخائر کو متصل اسناد کے ساتھ جمع کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔
اِسی دور میں دیگر بلادِ اسلامیہ میں بھی ائمہ و محدثین نے اس پر کام شروع کیا۔ امام عبد المالک بن جریج (م 150ھ) نے مکہ مکرمہ میں، امام اوزاعی(م 157ھ) نے شام میں، امام معمر بن راشد (م 153ھ) نے یمن میں، امام اعظم ابوحنیفہ (م 150ھ) اور امام سفیان ثوری (م 161ھ) نے کوفہ میں، امام ربیع بن صبیح (م 160ھ) اور امام حماد بن سلمہ (م 167ھ) نے بصرہ میں، امام عبد اللہ بن المبارک (م 181ھ) نے خراسان اور امام عبد اللہ بن وھب (م 197ھ) نے مصر میں جمع و تدوین حدیث کے مقدس کام کا آغاز کیا۔
کوفہ کو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دار الخلافہ بنایا تو مدینہ منورہ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر تعداد یہاں آ کر آباد ہو گئی۔ ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے اکابر صحابہ کرام کے نام نمایاں ہیں، اِن کی صحبت و مجلس میں پروان چڑھنے والوں میں حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اپنی سند سے جو احادیث روایت کیں ان کے شاگردوں امام محمد، امام ابو یوسف اور امام حسن بن زیاد نے ”الآثار“ میں مرتب کیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے یہ کتاب خود مرتب کروائی۔
امام زہری کے دور سے پہلے حضرت عبد العزیز بن مروان (م80ھ)، حضرت سلیمان بن قیس یشکری (م 80ھ)، حضرت ابو العالیہ (م 93ھ)، حضرت سعید بن جبیر (ح:95ھ)، امام ابن سیرین، حضرت مجاہد بن جبیر، امام حسن بصری، حضرت مکحول الشامی، امام محمد الباقر، حکم بن عتیبہ (م114ھ) وغیرہم کثیر ائمہ ہیں جن کے پاس احادیث کے صحائف لکھی ہوئی حالت میں موجود تھے۔
مدینہ منورہ میں امام زہری کے نامور شاگرد امام مالک نے فقہی ترتیب کے ساتھ ”موطأ“ کے نام سے پہلا مجموعۂ حدیث ترتیب دیا۔ دوسری صدی کے نصف آخر میں امام سفیان ثوری، عبد اللہ بن المبارک، امام اوزاعی اور ابن جریج کی ”جوامع“، امام شافعی کی ”کتاب الأم“ اور امام ابو یوسف کی ”کتاب الخراج“ مرتب ہوئی، مگر جو شہرت موطأ امام مالک کو حاصل ہوئی کسی دوسری کتاب کو نہ مل سکی۔
دوسری صدی کے نصف آخر سے چوتھی صدی کے خاتمے تک اڑھائی سو سال کا عرصہ تدوینِ حدیث کے باب میں سنہری دور کہلاتا ہے۔ اِس دور میں رُواۃ کی چھان بین کے بعد صحاح ستہ، مصنف عبد الرزاق، مسند احمد بن حنبل، مسند دارمی، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان جیسی معیاری کتبِ حدیث کی تدوین ہوئی۔ اس دور ميں احادیث کو فقہی ترتیب اور ترجمۃ الباب کے ساتھ اور اَقوال و آثار سے جدا کر کے ترتیب دیا گیا۔ مصطلحاتِ حدیث وضع ہوئیں، صحت و ضعف اور ردّ و قبول کے اُصول و ضوابط متعین ہوئے، علم غریب الحدیث کی بنیاد پڑی تاکہ مشکل الفاظ کے معانی کی وضاحت ہو سکے۔ الغرض! حفاظتِ حدیث، متن حدیث کی چھان بین اور حدیث مبارک کی تدوین اور تحقیق کے لیے درجنوں ذیلی علوم و فنون وجود میں آئے اور اِن پر سیکڑوں کتب لکھی گئیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔
اُس دور میں وجود میں آنے والے علوم الحدیث میں اَسماء الرجال، تاریخ الحدیث، علم الجرح والتعدیل، علم الأنساب، تخریج الحدیث، علم معرفۃ الأسماء والکنیٰ اور علم الطبقات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
علوم الحدیث پر اَئمۂ صحاح سے پہلے اَئمہ اربعہ کے ہاں تحمل و اداءِ حدیث و دیگر مصطلحات کے ابتدائی ضابطے ترتیب دیے جا چکے تھے۔ بعد ازاں امام مسلم نے علوم الحدیث پر اپنی ’’الصحیح‘‘ کا مقدمہ تحریر فرمایا، لیکن یہ حدیث مبارک پر اُن کی کتاب کا حصہ تھا۔ اسی طرح امام ترمذی نے بھی اپنی ’’السنن‘‘ سے منسلک ”کتاب العلل“ لکھی، لہٰذا اُنہیں علوم الحدیث پر الگ تصنیف شمار نہیں کیا جاتا۔ اس باب میں پہلی، الگ اور مستقل تصنیف جس میں سابقہ متفرق کتابوں میں موجود بہت سا علم سمیٹا گیا، امام الرامہرمزی نے تالیف کی، جس کی وجہ سے اُنہیں علوم الحدیث کےباب میں پہلا مصنف خیال کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی بیان کرتے ہیں: اس باب میں سب سے پہلے قاضی ابو محمد الرامہرمزی نے اپنی کتاب المحدث الفاصل تالیف کی، لیکن اس میں انہوں نے اس موضوع کا احاطہ نہیں کیا۔ اسی طرح امام حاکم نے معرفة علوم الحديث لکھی، مگر اِس میں ترتیب و تہذیب کے پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ ان کے بعد ابو نعیم اصبہانی نے استخراج کرتے ہوئے کتاب لکھی لیکن بہت سی چیزیں چھوڑ دیں۔ ان کے بعد خطیب البغدادی نے روایت کے اُصول و ضوابط پر الکفاية اور آدابِ روایت پر الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع تالیف کیں۔ ان کے بعد جس کسی نے بھی لکھا اس نے کتب سابقہ سے استفادہ کیا۔ جیسے قاضی عیاض نے ایک شاندار کتاب الإلماع، اور ابو حفص المیانجی نے ما لا يسع المحدث جهله کے نام سے جزء لکھا۔ اِنہی کی مثل دیگر بہت سی تالیفات ہیں جنہیں شہرت حاصل ہوئی، یہاں تک کہ الحافظ ابن الصلاح الشہرزوری نے علوم الحدیث کی تدریس کے دوران معرفة أنواع علوم الحدیث کے نام سے کتاب تالیف کی جسے ”مقدمہ ابن الصلاح“ کے نام سے شہرت ملی۔
الغرض! علوم الحدیث کے آغاز سے اس کی تکمیل و توثیق تک اس میدانِ علم میں عظیم الشان خدمات سر انجام دی گئی ہیں۔ امام قاضی ابو محمد حسن بن عبد الرحمٰن بن خلاد رامہرمزی (م 360ھ) سے امام ابو عمرو عثمان بن عبد الرحمٰن الشیرزوری المعروف بہ ابن الصلاح (643ھ) تک ہم دیکھتے ہیں کہ علوم الحدیث کے باب میں محدثین کی جانب سے بے شمار کتب تالیف ہوئیں، مگر جب علوم الحدیث اپنے ارتقائی مراحل سے گزر کر تکمیل اور رسوخ کے درجہ میں پہنچ گئے تو اَہلِ علم کی طرف سےنئی تالیفات کا سلسلہ پہلے سے موجود کتب کی شروحات، مختصرات، تعلیقات اور منتخبات تک محدود ہو کر رہ گیا اور مستقل تصنیفات بہت قلیل تعداد میں منظر عام پر آئیں۔
صرف مقدمہ ابن الصلاح کی ہی متعدد شروحات لکھی گئیں۔ اس کے مشہور شارحین میں امام بلقینی (م 805ھ)، حافظ العراقی (م 806ھ)، امام برہان الدین عمر البقاعی (م 885ھ)، امام قاسم بن قطلوبغا (م 879ھ)، امام سخاوی (م 902ھ) اور امام سیوطی (م 911ھ) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار عظیم ائمہ و محدثین نے مقدمہ ابن الصلاح کی شروحات تالیف کیں، یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ امام ابن حجر العسقلانی نے صراحتاً کہہ دیا کہ اس مقدمہ کے نظم، شروحات، مختصرات، مستدرکات، مقتصرات، معارضات اور منتصرات کے باب میں اتنا کچھ لکھا چکا ہے جس کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
امام سخاوی اور امام سیوطی کے بعد عصر حاضر تک حدیث اور علوم الحدیث کے باب میں جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں بالعموم کتبِ حدیث کی شروحات، تعلیقات، مختصرات یا حدیثی منتخبات ہی کا سلسلہ نظر آتا ہے جبکہ علوم الحدیث پر کسی ایک عالم کے قلم سے مستقل تصنیفات ایک یا دو سے زیادہ نظر نہیں آتیں۔ اسی طرح کسی ایک عالم کے قلم سے علوم الحدیث کے مختلف پہلوؤں کا جامع احاطہ کرنے والی تالیفات بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
امام سیوطی کے بعد کے ادوار سے تاحال اگر معروف مصنفین کا علوم حدیث پر کئے گئے کام کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ملا علی القاری (م 1014ھ) اور امام عبد الرؤوف المناوی (م 1021ھ) نے نزهة النظرکی شروحات لکھی۔ مختصرات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م 1052ھ) کی المقدمة في علوم الحدیث اور عمر بن محمد البیقونی (م 1080ھ) کی المنظومة البیقونية اور اس کی شروحات شامل ہیں۔ اسی طرح عصرِ حاضر کی تصنیفات میں جمال الدین القاسمی (م 1332ھ) کی قواعد التحدیث، طاہر بن صالح الجزائری (م 1338ھ) کی توجيه النظر، شیخ عبد الحی لکھنوی (م 1304ھ) کی الرفع والتكميل، ڈاکٹر صبحی صالح (م 1407ھ) کی علوم الحدیث ومصطلحه، نور الدین عتر کی منهج النقد في علوم الحدیث اور ڈاکٹر محمود الطحان کی تيسير مصطلح الحديث وغیرہ شامل ہیں۔
اِن کتب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کتب علوم الحدیث کے موضوعات کا اجمالی احاطہ کرتی ہیں۔ جب کہ فی زمانہ معروضی اَحوال متقاضی ہیں کہ علوم الحدیث کی جملہ اہم مباحث پر جامع، مدلّل اور مستند کتب تالیف کی جائیں، تاکہ موجودہ دور میں حدیث کو بعض فنی اَبحاث کے ذیل ميں ردّ کرنے اور اِس کے پردہ ميں انکارِ حدیث کے فتنہ کا قلع قمع کیا جا سکے۔
الحمد للہ! علوم الحدیث کے باب میں حجۃ المحدثین، مجددِ دین و ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کا تصنیف کردہ ”اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة“ 8 جلدوں میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ موسوعہ اُصول الحدیث کے اہم ترین موضوعات پر شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف کردہ 14 کتب پرمشتمل ہے۔ ان میں سے ہر کتاب اپنے مشتملات و محتویات کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ تصنیفات درج ذیل عنوانات سے معنون ہیں:
1. ‹‹الْأَنْوَارُ الْبَهِيَّة فِي حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ››
2. ‹‹عَوْنُ الْمُغِيْث فِي طَلَبِ وَحِفْظِ عِلْمِ الْحَدِيْث››
3. ‹‹تَرْغِيْبُ الْعِبَاد فِي فَضْلِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَمَكَانَةِ الْإِسْنَاد››
4. ‹‹الْاِكْتِمَال فِي نَشْأَةِ عِلْمِ الْحَدِيْثِ وَطَبَقَاتِ الرِّجَالِ››
5. ‹‹حُسْنُ النَّظَر فِي أَقْسَامِ الْخَبَر››
6. ‹‹الْبَيَانُ الصَّرِيْح فِي الْحَدِيْثِ الصَّحِيْح››
7. ‹‹اَلْقَوْلُ الْأَتْقَن فِي الْحَدِيْثِ الْحَسَن››
8. ‹‹الْقَوْلُ اللَّطِيْف فِي الْحَدِيْثِ الضَّعِيْف››
9. ‹‹الْاِجْتِبَاء مِنْ شُرُوْطِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَ التَّحَمُّلِ وَ الْأَدَاء››
10. ‹‹شِفَاءُ الْعَلِيْلِ فِي قَوَاعِدِ التَّصْحِيْحِ وَالتَّضْعِيْفِ وَالْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْل››
11. ‹‹حُكْمُ السَّمَاعِ عَنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالْأَهْوَاء››
12. ‹‹الْخُطْبَةُ السَّدِيْدَة فِي أُصُولِ الْحَدِيْثِ وَفُرُوْعِ الْعَقِيْدَة››
13. ‹‹إِعْلَامُ الْقَارِي عَنْ تَدْوِيْنِ الْحَدِيْثِ قَبْلَ الْبُخَارِي››.
14. ‹‹الْإِجْمَالُ فِيْ ذِكْرِ مَنِ اشْتَهَرَ بِمَعْرِفَةِ الْحَدِيْثِ وَنَقْدِ الرِّجَالِ››
یہ بات ہم پورے وثوق اور تیقن سے بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ علوم الحدیث کے باب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے قلم سے جو تصانیف شائع ہوئی ہیں ان میں نئے شواہد اور دلائل کے اضافے نے ان کی انفرادیت دو چند کر دی ہے۔ بطور خاص زیرِ نظر ”الموسوعة القادرية“ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسا نادرمجموعہ ہے کہ جس کی گذشتہ چار صدیوں میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالمِ عرب اور مغربی دنیا میں بالعموم کسی ایک شخصیت کے قلم سے اتنے موضوعات کے احاطے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ کام عصرِ حاضر میں شیخ الاِسلام کی تجدیدی و اجتہادی کاوش ہے، جس کے ذریعے اُنہوں نے اسلام کے علمی ورثہ کی حفاظت، ترویج وفروغ اور نشأۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved