یہ بات الگ ہے کہ جس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس نظام کے گھناونے چہرے سے نقاب اُٹھا رہے تھے اس وقت بہت سے لیڈروں اور دانشوروں کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر آج ٹی وی کے تمام اینکر پرسن اور تجزیہ نگار بھی یہ کہنے پہ مجبور ہیں کہ الیکشن سے قبل شیخ الاسلام جو کہتے تھے ٹھیک کہتے تھے۔
محترم عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے اپنے پہلے خطاب میں ہی مورخہ 19 جون 2013ء کو اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا کہ" ہمارا یقین تھا کہ آزاد عدلیہ کے نیچے پہلی بار الیکشن ہونے جارہاہے۔ ۔ ۔ اور ایک ایسے الیکشن کمیشن کے تحت جس پر ہمیں پورا اعتماد تھا، مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جس طرح کا الیکشن ہوا میں سمجھتا ہوں طاہرالقادری ٹھیک کہہ رہے تھے کہ جب تک نظام ِ انتخاب میں تبدیلیاں نہ کیں تو قوم کا اعتما داُٹھ جائے گاــ"
اس کے بعد مورخہ 27 جون 2013ء کو ایک ٹی وی انٹر ویو میں دوبارہ کہا کہ" ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ فخرو بھائی کے ہاتھ میں تو تھا ہی کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں ٹیموں نے اپنے ایمپائر (مک مکا) کھڑے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب طاہرالقادری نے لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی ہم پر بہت پریشر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار ڈاکٹر طاہرالقادری نے نشاندہی کی کہ فخرو بھائی تو ایک علامت ہیں اصل کام تو نیچے والوں نے کرنا ہے جو سیاسی بنیادوں پر لگائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر اعتماد تھا۔ طاہرالقادری کہتے تھے کہ الیکشن کے ذریعے تبدیلی نہیں آئیگی جبکہ ہم کہتے تھے کہ الیکشن کے ذریعے ہی تبدیلی آئیگی۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طاہرالقادری ٹھیک کہہ رہے تھے"
اس فرسودہ اور عوام کش نظام انتخابات اور ملک پاکستان میں رائج سیاست کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے ہے۔ اگر صرف حالیہ انتخابات اور اس میں آزمائے گئے "ہنر" ہی کو موضوع بحث بنایا جائے تو ایک ضخیم کتاب منظر عام پرآسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب قوم فیصلہ کرے کہ اس نے اس نظام انتخابات کو بدلنا ہے یا اس سے مزید دھوکے کھانے ہیں۔ اس ملک میں کوئی حقیقی اپوزیشن نہیں، اب حقیقی اپوزیشن کا کردار پاکستان عوامی تحریک پارلیمنٹ سے باہر رہ کر ادا کرے گی۔ اس نظام کے خلاف PAT کی پُرامن انقلابی جدوجہد جاری رہے گی۔ لہذا ہر درد مند پاکستانی اور باشعور شہری جو اس نظام سے بیزار ہے اسے اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی اور حقیقی تبدیلی کے لئے شیخ الاسلام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا تاکہ اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن مبارکباد کے مستحق ہیں جو اپنے قائد کے شانہ بشانہ جرات اور استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وقت نے شیخ الاسلام کی ایک ایک بات کو سچ ثابت کردکھایا۔ مخالفین زخم چاٹ رہے ہیں اور ہمارے ایجنڈے کو منفی انداز میں پیش کرنے والے، ہمارے قائد کی کردار کشی کرنے والے اور ان کی نیت پر شک کرنے والے اپنی بغلیں جھانک رہے ہیں۔
ان شاء اللہ العزیز کامیابی شیخ الاسلام، تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے موقف کا مقدر ہے۔ اس کرپٹ نظام کی تبدیلی تک ہماری پرامن عوامی جمہوری جدوجہد ہر سطح پر آئینی و قانونی حدود میں رہ کر جاری و ساری ہے۔ ہم اس کرپٹ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف بیداری شعور کے علم کو تھامے آگے بڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کی بقا کی واحد امید صرف اور صرف جمہوری نظام میں بڑی تیزی سے بنیادی تبدیلیاں لانے میں ہی ہے۔ جب تک انتخابی اصلاحات مکمل طور پر درست طریقے سے لاگو نہیں ہوں گی تب تک وہی بدعنوان لوگ دوبارہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنیں گے اور یہی لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ "لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں، آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب ہی سے کامیاب ہوجاتی ہے"۔ قوم کو قائد کے اس فرمان کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہمارے موجودہ سیاسی و انتخابی نظام و کلچر نے ایسے "قائدین" کو جنم دیا ہے جن سے کرپشن اور لوٹ مارکا کلچر وجود میں آیا۔ لہذا اس سسٹم کو بدلنا ہوگا تاکہ صحیح اور درست قیادت سامنے آسکے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی کرپٹ نظام کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے اس نظام میں حصہ نہیں لیا تھا اور اب قوم نے بھی حالیہ انتخابات کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ آیئے شیخ الاسلام کے سنگ اس کرپٹ نظام کے خاتمہ اور ملک پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved