ان انتخابات میں کلیتاً ہر سطح پر جھوٹ اور جعل سازی کا رواج عام رہا۔ جھوٹی سکروٹنی، جعلی ڈگریاں، جھوٹے گوشوارے، جھوٹے اثاثہ جات۔ ۔ ۔ سوال پھر قوم سے کہ کیا اس جھوٹ پر تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کے اراکین کبھی قوم سے سچ بول سکیں گے۔ ۔ ۔ ؟ کیا ان کے اندر اخلاقی و سیاسی جرات ہوگی۔ ۔ ۔ ؟
قوم سے جھوٹ کا آغاز انتخابی اخراجات کے گوشواروں کے داخل کرانے سے ہوچکا۔ ہر قومی اسمبلی کا ممبر یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ اخراجات 15 لاکھ ہی کئے جبکہ صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی 10 لاکھ اخراجات ہی کا دعویٰ کررہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پوری قوم نے انتخابی اخراجات کی مد میں جو اخراجات دیکھے ان کے سامنے تو 10، 15 لاکھ روپے کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخراجات کی Limit پر کسی نے عمل نہیں کیا بلکہ ہر کوئی جھوٹے بیانات جمع کروارہا ہے جبکہ اس مد میں اربوں روپے کے اخراجات کئے گئے۔ اگر صرف اخبارات اور TV چینلز پر چلنے والے اشتہارات اور انتخابی مہم کا خرچ ہی دیکھ لیا جائے تو یہ 20 ارب روپے سے تجاوز کرجاتا ہے۔
یہ اخراجات کہاں سے ہوئے۔ ۔ ۔ ؟ کیا سیاسی جماعتوں کے پاس اتنی رقم موجود تھی۔ ۔ ۔ ؟ موجود تھی تو کیا اسے پارٹی گوشواروں میں انتخابات سے قبل ظاہر کیا گیا۔ ۔ ۔ ؟ اگر گوشواروں میں رقم موجود نہ تھی تو کہاں سے آئی۔ ۔ ۔ ؟ اگر امیدوار نے یہ رقم دی تو کیا اس نے اپنے گوشوارے میں اس کو ظاہر کیا تھا۔ ۔ ۔ ؟ اگر امیدوار نے یہ رقم خرچ کی ہے تو کیا اب اسے انتخابی اخراجات کے گوشواروں میں شامل کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ؟
ان تمام سوالات کے صحیح جوابات اس کرپٹ، ظالمانہ مہنگے ترین نظام انتخابات اور اس میں حصہ لینے والے سرمایہ دار و جاگیردار اور ملک و قوم پر 65 سالوں سے مسلط طبقات کا اصل چہرہ ہیں۔ ذیل میں قارئین کی دلچسپی کے لئے الیکشن کمیشن میں انتخابات سے قبل جمع کروائے گئے سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے:
کیاان جماعتوں کی طرف سے کئے گئے جملہ انتخابی اخراجات ان جماعتوں کے ظاہر کئے گئے اثاثہ جات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں؟ بالفرض ان جماعتوں کو عطیات کی مد میں بڑی رقوم موصول ہوئیں تو کیا ان پر ٹیکس ادا کیا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، نگران حکومت اور برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کے باہمی "مک مکا" کو ظاہر کررہے ہیں۔
"تبدیلی" کے خواہشمند اور مذہبی جماعتوں کا منطقی انجام
اس ظالمانہ نظام انتخاب میں تبدیلی کی خواہش لے کر حصہ لینے والوں نے نتائج دیکھ لئے۔ ان کی انتھک کاوشیں اور اربوں روپے کے اخراجات بھی اس ظالم انتخابی نظام کی نذر ہوگئے اور یہ نظام ان کی منزل کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ شیخ الاسلام نے انہیں لانگ مارچ میں شرکت کی خصوصی دعوت دی کہ آئیں تاکہ حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے مگر اپنے بڑے بڑے اجتماعات، مال و دولت کی کثرت اور روایتی سیاسی جماعتوں سے سرمایہ دار و جاگیرداروں کے ساتھ شامل ہونے کے زعم میں مبتلا "تبدیلی" کی خواہشمند قیادت خود بھی مایوس ہوئی اور اپنے ساتھ شامل افراد اور قوم کو بھی مایوسی سے دوچار کیا۔ اب دھاندلی کا شور مچانے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کیونکہ چڑیاں کھیت کو چُگ چکی ہیں۔ یہ نظام روایتی سیاستدانوں، جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے علاوہ کسی اور کو آگے لانے کا ہرگز کوئی موقع فراہم نہ کرے گا۔ حقیقی تبدیلی کے خواہش مند کو اس نظام کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی جو پاکستان کا حقیقی دشمن ہے اور تبدیلی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس نظام انتخابات نے جہاں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو مایوس کیا وہاں روایتی مذہبی جماعتوں کو بھی رسوائی و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک منہاج القرآن کے لانگ مارچ کے دوران جو مذہبی جماعتیں آئین کی پاسداری پر مشتمل شیخ الاسلام کی جدوجہد کے خلاف رائے ونڈ میں اکٹھی ہوئیں، ان انتخابات کے نتائج نے اُن کو بھی آئینہ دکھادیا اور ان کا کوئی بھی مرکزی قائد پارلیمنٹ پہنچنے سے محروم رہا۔ پورے ملک سے صرف چند ہزار ووٹ ان کی 65 سال سے زائد کی محنت کے "ثمر" کے طور پر سامنے آیا۔ ۔ ۔ مثلاً جماعت اسلامی، صرف خیبر پختونخواہ سے قومی کی 3 اور صوبائی کی 7 نشستوں پر کامیاب رہی۔ کراچی میں انہوں نے دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ لاہور سے محترم حافظ سلمان بٹ صرف 952 ووٹ لے سکے۔ ۔ ۔ محترم فرید پراچہ کے حصے صرف 2ہزار 994 ووٹ آئے۔ ۔ ۔ جبکہ محترم لیاقت بلوچ 3 ہزار 226 ووٹ لے کر مرکزی قائدین میں "سر فہرست" رہے۔ ۔ ۔ یہی صورتحال جمعیت علمائے اسلام کی رہی۔ صرف خیبر پختونخواہ سے 10 نشستیں "اسلام" اور "کتاب" کے نام پر حاصل کیں بقیہ پورے ملک میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی ان کے بیلٹ بکس سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ ۔ ۔ ملک کے نامور سائنسدان جو شیخ الاسلام کی بحالی آئین کی جدوجہد پر بڑا معترض تھے وہ بھی اپنی "سائنسی خدمات" کا قوم کو واسطہ دیتے رہے مگر ان کے تمام امیدوار ملک بھر سے اپنی ضمانتیں ہی ضبط کروابیٹھے۔
اگر جماعتی بنیادوں پر جائزہ لیں تو ملک بھر میں ان جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹ کچھ اسطرح سے ہیں۔
تحریک تحفظ پاکستان (ڈاکٹر عبدالقدیر خان) 76,358 سنی اتحاد کونسل 37,732 پاکستان سنی تحریک 25,485۔ جبکہ دوسری طرف اس ملک میں کرپٹ نظام کے تحت جعلی ڈگری والے ایک ایک امید وار نے 1,25,000 سے بھی زیادہ ووٹ لیے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سنا کہ دنیا کے کسی ملک میں ابھی پولنگ جاری ہو اور انتخابات کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں۔ ۔ ۔ ؟ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہو اور کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ملک بھر سے کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت بنانے کے لئے بقیہ جماعتوں کو دعوت بھی دے دے اور عالمی رہنماؤں سے مبارکبادیں بھی وصول کرے۔ ۔ ۔ ؟
محترم قارئین! یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے جس میں حالیہ انتخابات میں یہ سب ہوگیا جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں ابھی تک نہیں ہوا۔ ایک طرف پولنگ سٹیشن کے نتائج کا اعلان جاری ہوگیا اور دوسری طرف پورے ملک میں پولنگ کے وقت میں 1 گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا۔ یہ تمام کام ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ ابھی ووٹوںکی گنتی جاری تھی کہ حالیہ انتخابات کے نتائج کی صورت میں اکثریت "لینے والی" جماعت کے قائدین کامیابی کا اعلان بھی کرگئے۔
ان انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ویڈیو فوٹیج تک سامنے آگئیں۔ کسی جگہ پریزائیڈنگ آفیسرز۔ ۔ ۔ کسی جگہ پولنگ سٹیشن پر تعینات عملہ۔ ۔ ۔ کسی جگہ امیدوار اور کسی جگہ امیدواروں کے سپورٹرز۔ ۔ ۔ ٹھپے اور انگوٹھے لگاتے نظر آئے۔ لاکھوں کے حساب سے جعلی بیلٹ پیپر تک سامنے آگئے۔ الیکشن کمیشن کی بے حسی اور نااہلیت کے قصے زبان زد عام ہیں۔ درجنوں پولنگ سٹیشن پرنہ عملہ موجود اور نہ ہی پولنگ سے متعلقہ اشیاء۔ الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل اسی دن اور اسی مقصد ہی کے لئے تو عمل میں لائی گئی تھی۔ جب ان کی توجہ دھاندلی کی طرف ثبوتوں کے ذریعے کروائی گئی تو کہا گیا کہ کوئی شکایت آئی تو ضروری اقدام کریں گے۔ غیر آئینی تشکیل شدہ الیکشن کمیشن اپنی 84 سالہ ضعیف قیادت کے زیر سایہ سب کچھ جاننے کے باوجود آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا۔ سپریم کورٹ کے جج بھی اپنے "محسنوں" کو ان کے احسان کا بدلہ دینے کے لئے خاموشی اختیار کئے بیٹھے رہے اور کوئی بھی سوموٹو ایکشن دیکھنے یاسننے میں نہ آیا۔
کئی حلقوں میں ووٹروں کی تعداد سے بھی زائد ووٹ بیلٹ بکسز سے اس نظام انتخابات کو منہ چڑاتے ہوئے برآمد ہوئے۔ ۔ ۔ کسی جگہ قومی اسمبلی اور اس کے ماتحت صوبائی حلقوں کے کل ووٹوں کے واضح فرق نے دھن، دھونس اور دھاندلی کا منہ بولتا ثبوت فراہم کیا۔ ۔ ۔ اگر Forensic Test کے ذریعے نادرا کے ریکارڈ میں موجود انگوٹھوں کے نشانات کو شناخت کیا جائے تو اس دھاندلی کو کرنے والے، اس کے منصوبے ساز تمام منظر عام پر آسکتے ہیں مگر یہ نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔ ۔ ۔ کئی عدالت، امانت اور صداقت شعاری میں مشہور بے نقاب ہوں گے۔ ۔ ۔ لہذا اس دھاندلی کے الزامات کی گرد کو بھی کسی نہ کسی بہانے اور کوئی نیا "کٹا" کھول کر بٹھا دیا جائے گا۔ شیخ الاسلام کی پیشین گوئی کے عین مطابق "تبدیلی" والے "سٹیٹس کو" والوں کے ساتھ اتحاد و اتفاق کرچکے۔ خیبر پختونخواہ کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے اس شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا جو پیپلز پارٹی، شیر پاؤ گروپ اور ANP میں رہا اور آخری وقت میں PTi کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ سب اسی ظالمانہ، کرپٹ اور فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام ہی کے شاخسانے ہیں۔
ان انتخابات میں پھر وہی افراد اور گھرانے ایک مرتبہ پھر اسمبلیوں میں پہنچے جن کو اقتدار، جاگیریں اور سرمایہ وراثت میں ملا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 146 اُن افراد کو الیکشن لڑایا جو دوسری پارٹیاں چھوڑ کر ان سے ملے۔ اس جماعت کے 123 میں سے 55 امیدوار دوبارہ انہی حلقوں سے کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے جن سے وہ 2008ء میں کامیاب ہوئے تھے۔
انتخابات ہو گئے کون جیتا کون ہارا، کس نے کتنے ووٹ لیے؟ یہ سب عارضی باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا انتخابات سے جمہوریت کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ ۔ ۔ ؟ کوئی ایسی راہ نکلے گی کہ ان انتخابات میں نہ سہی آنے والے وقتوں میں لوگوں کو اپنی مرضی سے نمائندے چننے کا اختیار مل جائے گا۔ ۔ ۔ ؟ کیا لوگوں کے دکھوں کا کوئی درمان ہوگا۔ ۔ ۔ ؟ پاکستان جس معاشی اور سیاسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا اس میں سے نکل سکے گا۔ ۔ ۔ ؟
محترم قارئین! جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ انتخابات جمہوریت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہیں۔ افسوس ہم نے راستے کے لئے ہی اپنی تمام کاوشیں صرف کردیں اور ان ہی کو اصل منزل سمجھ لیا۔ نیز راستہ بھی وہ چنا جو ہمارے معاشرے کے لئے متقاضی جمہوریت کے لئے موزوں نہیں۔ لہذا حقیقی جمہوریت کی منزل کو پانے کے لئے نظام انتخابات میں تبدیلی کے ذریعے درست راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے اور قوم کو لہو کے بیل کی مانند سفر تو کرے گی مگر منزل تک نہ پہنچ پائے گی۔
پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن سے قبل متعدد بار قوم کو آگاہ کیا تھا کہ موجودہ نظام انتخاب کے تحت کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے اس لئے آزادانہ، شفاف اورغیر جانبدارانہ الیکشن نہیں کراسکے گا اور الیکشن کے فوراً بعد جماعتیں دھاندلی کا واویلا کریں گی۔ آج حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے ہر جماعت الیکشن کمیشن کی نااہلی، بے حسی اور جانبداری کا رونا روتے اور ان کے خلاف دھرنے دیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ موجودہ نظام عوام کے حقیقی نمائندوں کو نہیں بلکہ Electables (جیتنے والے گھوڑوں) کو ہی جیتنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس میں دھن، دھونس اور دھاندلی کرنے والے ہی جیتتے ہیں۔ منشور، اہلیت اور کردار کا اس نظام انتخاب میں کوئی حصہ نہیں۔ اس الیکشن میں دھن سب نے لگایا، دھونس کی بھی کمی نہیں رہی۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے اب تک قوم کو کچھ نہیں دیا اور آئندہ بھی عوام کے مسائل حل نہ ہوسکیں گے۔ یہ نظام ملک و قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ ہمیشہ Electable کو ہی جتاتا رہے گا۔ جو پارٹیاں تبدیل کرکے کبھی ادھر کبھی ادھر جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی پارٹی لیڈر اس قوم کا دشمن نہیں بلکہ یہ ظالمانہ نظام انتخاب اس قوم کا دشمن ہے۔ شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک کی جدوجہد کسی فرد، پارٹی یا خاندان کے خلاف نہیں ہے بلکہ کرپٹ نظام انتخاب کے خلاف ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved