انتخابات سے قبل کی صورت حال کے پس منظر اور انتخابات کے دوران ہونے والی تاریخی دھاندلی کے پیش نظر پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شہری ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ دھماکوں، جھگڑوں اور سرِ عام دھاندلیوں کے شرمناک اور افسوسناک مناظر کے درمیان منعقد ہونے والے انتخابات مشکوک ہی نہیں بلکہ ان انتخابات کی Creditability ہی کھوچکے ہیں۔ پورے ملک میں دھماکے، جھگڑے اور دھاندلیاں عام رہیں۔ بعض نام نہاد دانشور اور سیاسی جماعتوں کے کرائے پر حاصل کئے گئے تجزیہ نگار اور طفیلئے موجودہ انتخابات کے نتائج ہی کو تبدیلی سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کرائے کے مسخروں کے نزدیک اگر یہ تبدیلی ہے، تو یہ "تبدیلی" پھر ان ہی کو مبارک ہو۔ کیا موجودہ انتخابات میں کسی ایک پارٹی نے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کرلی ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رْخ درست کرسکے۔ ۔ ۔ ؟ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلاسکے۔ ۔ ۔ ؟ روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، صحت، تعلیم سے پاکستانیوں کو بہرہ مند کرسکے۔ ۔ ۔ ؟ یا پاکستان کو حکومت سازی، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں آزاد کرسکے؟ دراصل ایسا کچھ نہیں ہوا اور اس سسٹم میں رہتے ہوئے نہ ہوگا۔ انتخابات کے نتیجے میں اْبھر کر آنے والی تین بڑی جماعتوں کے پروگراموں، پالیسیوں اور حکمت عملی میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جس سے حکمران طبقوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے یا طاقتور اداروں کے اختیارات میں کوئی کمی آئے۔
انتخابات کے نام پر جو کچھ پنجاب میں ہوا کیا وہ کسی سے پوشیدہ ہے۔ ۔ ۔ جو سندھ اور کراچی میں ہوا کیا اس کو تبدیلی کہیں گے۔ ۔ ۔ ؟ سوال یہ ہے کہ اگر ہر جماعت کو یہ شکوہ ہے کہ صاف اور آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے تو پھر گڑبڑ کہاں سے ہوئی۔ ۔ ۔ ؟ کس نے کی۔ ۔ ۔ ؟ دراصل ان آزادانہ انتخابات کے معنی یہ تھے کہ جس کے بازو میں جتنا دم ہو وہ اتنی نشستیں لے لے۔
کوئی بھی ایک جماعت ایسی نہیں جو دھاندلی کے الزامات نہ لگارہی ہو۔ 1977ء کے بعد ہونے والے انتخابات میں سے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دھاندلی کے ثبوتوں کے ساتھ چیخ و پکار کررہی ہیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوبارہ انتخابات تک کے مطالبات کئے گئے اور ان مطالبات کو منوانے کے لئے دھرنے بھی دیئے گئے۔ سندھ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) شور مچارہی ہیں۔ ۔ ۔ خیبر پختونخواہ میں مذہبی جماعتیں نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ۔ ۔ جبکہ بلوچستان میں علاقائی جماعتیں انتخابات کے نتائج کو اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ قرار دے رہی ہیں۔ گویا ہر طرف چیخ و پکار کا عالم ہے۔
آعندلیب مل بیٹھ کر کریں آہ و زاریاں میں پکاروں ہائے دل تو پکارے ہائے گل
ان انتخابات کے نتیجہ میں یاد رکھ لیں! دودھ کے دریا ہرگز نہیں بہیں گے بلکہ کشت و خون کا ایک بازار گرم رہے گا۔ حسب سابق سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور اراکین اسمبلی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ اس فرسودہ سیاسی نظام کی ستم ظریفیوں کی بناء پر بالآخر مملکت پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوگی، معاشرتی و معاشی انحطاط جاری رہے گا۔ اس لئے کہ کوئی ایک بھی جماعت قومی جماعت کی حیثیت سے سامنے نہیں آئی جسے چاروں صوبوں کی نمائندہ جماعت کا ٹائیٹل دیا جاسکے جبکہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ پورے پاکستان کی عوام کے اعتماد کی حامل جماعت برسر اقتدار آئے جو اس گھمبیر صورتحال سے ملک و قوم کو نجات دلائے مگر اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طرح کے انتخابات ممکن ہوسکتے ہیں جس کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں۔
اس مرتبہ بھی حسب سابق ملک میں کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی بلکہ ہر جماعت مرکز اور چاروں صوبوں میں سے کسی نہ کسی جگہ برسراقتدار ہوگی۔ یہی وہ سازش تھی جس کی طرف شیخ الاسلام نے 23 دسمبر اور اس کے بعد متعدد مرتبہ توجہ دلوائی کہ اس نظام کے ذریعے انتخابات میں مرکز سے لے کر صوبوں تک ہر کوئی "مک مکا" کرکے آئے گا۔ ۔ ۔ حکومت بھی "مک مکا" کا نتیجہ ہوگی۔ ۔ ۔ نام نہاد اپوزیشن بھی مک مکا کے نتیجے میں ایک طرف اپوزیشن اور دوسری طرف حکومت کا حصہ ہوگی اور کسی جگہ پر بھی حقیقی اپوزیشن دیکھنے کو نہ ملے گی۔
ان انتخابات کے نتائج کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو بالآخر NRO کا پھل 14 سال بعد وفاق و پنجاب میں اکثریت کی صورت میں ملا۔ ۔ ۔ پیپلز پارٹی کا سندھ پر غلبہ۔ ۔ ۔ MQM کی کراچی پر گرفت۔ ۔ تحریک انصاف کو پنجاب کے پہلوان کی "طاقت"، "اثرو رسوخ" اور "تجربہ" کی وجہ سے پنجاب کے بجائے خیبر پختونخواہ دیا گیا۔ ۔ ۔ بلوچستان علاقائی، لسانی اور مذہبی قوتوں کے درمیان لٹکادیا گیا۔ الغرض کوئی پارٹی ملک گیر پارٹی نہیں رہی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved