محترم قارئین! شیخ الاسلام نے جس الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف آواز بلند کی پوری قوم نے الیکشن سے پہلے سے لے کر انتخابات کے نتائج تک ہر قدم پر ان کے مکروہ کردار کو دیکھ لیا۔ ذیل میں اس کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
٭ تقریباً 27 ہزار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی گئی لیکن ٹیکس چوری، قرض نادہندہ، اثاثوں کے غلط اعلان یا جھوٹ کا کوئی ایک واقعہ بھی پکڑا گیا نہ منظر عام پر آیا۔ یہ خود بخود نہیں ہوا بلکہ واضح طور پر اس کی منصوبہ بندی کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر آئینی تشکیل کا مقصد ہی یہ تھا کہ اہم جماعتوں کے سیاسی طور پر تقرر کردہ یہ افراد اپنے سرپرستوں کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ ضعیف العمر چیف الیکشن کمشنر، غیر آئینی الیکشن کمیشن اور "مک مکا" نگراں حکومت کے پاس وہ اختیارات یا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کو چیلنج کرسکے۔
٭ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر(FBR) کے غیر فعال کردار نے اسکروٹنی کے پورے عمل کی ساکھ تباہ کردی۔ کسی امیدوار کو بینک یا کسی یوٹیلٹی کمپنی کا ڈیفالٹر قرار نہیں دیا گیا۔
٭ الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی مناسب جانچ پڑتال کے لئے ایک ماہ کا وقت دینے کی تجویز کو مسترد کرنے کی حکمت عملی سے بالآخر مقصد حاصل ہوگیا۔ لنگڑی لولی سکروٹنی کی گئی جو کہ ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کی بنیاد پر کسی بڑے سیاستدان کو نکال باہر کرنے میں ناکام رہی۔ ریٹرنگ افسران نے ٹیکس چوروں سے ٹیکس چوری اور قرضہ خوروں سے قرضہ واپس نہ کرنے کے متعلق سوالات ہی نہ کئے اور نہ ہی ان کے اربوں روپے کے اثاثہ جات پر کوئی سوال اٹھایا۔
٭ عدلیہ کا کردار بھی غیر جانبدار نہ تھا۔ قرض نادہندگی کے بڑے کیسز جو سالوں سے اعلیٰ عدلیہ کے پاس زیر التوا تھے ان کی سماعت نہ کی گئی اور نہ ہی ایسے کیسز کو جلد نمٹانے کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا گیا۔
٭ سوال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کی تیار کردہ ڈیفالٹرز لسٹیں کدھر گئیں جو بکسوں میں بھر کر کمیشن میں پہنچائی گئی تھیں۔ ۔ ۔ ؟ نیب کا تیار کردہ چوروں کا ڈیٹا کدھر گیا۔ ۔ ۔ ؟ FBR نے ٹیکس چوروں کی لسٹ تیار کی تھی وہ کہاں گئی۔ ۔ ۔ ؟ گذشتہ 3 سال کی Tax گوشوارے جمع نہ کروانے والا الیکشن نہ لڑسکے گا یہ بات کہاں گئی۔ جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے یہ دعویٰ کہاں گیا۔ ۔ ۔ ؟ سب باتیں مٹی میں مل گئیں۔
٭ لوگ اربوں کھربوں ہڑپ کرگئے، ان کی اہلیت کو آئین کی شق 62 اور 63 کے مطابق جانچنے کے بجائے کلمے، دعائیں سنی گئیں، ، شادیوں کی تعداد اور بے مقصد سوالات پوچھے گئے اور اسی طرح شق 62 اور 63 کے غلط اطلاق سے آئین کا مذاق اڑایا گیا۔
٭ نگران حکومت کا انتظامیہ کے معاملے میں صوبوں میں بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا ڈرامہ بھی ہوا تاکہ انتظامیہ کو غیر جانبدار کیا جاسکے لیکن اہم ترین عہدوں پر سابقہ حکومتوں کے ہی من پسند افراد براجمان رہے۔
٭ صاف شفاف انتخابات کی ایک پرامن ماحول میں انتہائی باکردار اور غیر متنازع شخصیات کی زیر نگرانی منعقد ہونے کی توقعات انتخابات سے قبل تحلیل ہوچکی تھیں۔ متنازع الیکشن کمیشن ہر روز بوکھلاہٹ میں دکھائی دیتا تھا۔ کبھی حد بندیاں، کبھی حلقہ بندیاں، کبھی جعلی ڈگریوں پر کاروائی اور پھر پسپائی، کبھی سیاستدانوں کے خلاف نادہندہ ہونے کا الزام لگاکر خود ہی معافیاں مانگنا۔ ۔ ۔ پہلے بیلٹ پیپر پر خالی خانہ کی تجویز دی اور پھر سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آکر اس کا اطلاق بھی نہ کیا کیونکہ سیاسی رہنماؤں نے اسے اس کرپٹ نظام کے خلاف ریفرنڈم سمجھتے ہوئے۔ اس کی مخالفت کردی تھی۔ اس طرح الیکشن کمیشن سکروٹنی کے عمل کے دوران سیاسی دباؤ برداشت نہ کر پایا۔
الغرض شیخ الاسلام کی طرف سے آئین کی حقیقی معنوں میں پاسداری اور حقیقی جمہوریت کے قیام لئے جو مطالبات پیش کئے گئے الیکشن کمیشن نے ان پر عملدرآمد نہ کیا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کو شفاف بنانے اور حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لئے آئین پر عملدرآمد کے لئے کوئی ٹھوس فیصلہ صادر کیا۔ حکومت و اپوزیشن دونوں نے آئندہ آنے والے دنوں میں ایوان اقتدار پر اپنی ہی وراثت و ملکیت کا سکہ جمانے کے لئے ان مطالبات کو مسترد کرنے کے لئے ہر منفی ہتھکنڈہ استعمال کیا۔
انتخابات سے قبل شیخ الاسلام کے مطالبات کی عوام الناس میں مقبولیت اور اثر پذیری کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر جعلی ڈگری، قرض خور، ٹیکس چور کا راستہ روکنے اور 30 دن پر مبنی سکروٹنی کے اطلاق پر الیکشن کمیشن نے زبردست بیان بازی کی، جسے عوام میں بھرپور پذیرائی ملی مگر آخری دنوں میں ان تمام کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور کسی ایک بھی شخص کو آئین کے آرٹیکل 63، 62 کے مطابق نااہل قرار نہ دیا گیا۔ ان کی بیان بازی کا مقصد محض شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک کے مطالبات کی اثر پذیری اور مقبولیت کو عوام الناس میں ختم کرنا تھا کہ ہم تو "آزاد" ہیں ہم نے پہلے ہی سے ان اقدامات کے اطلاق کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حیلے بہانوں سے ان مطالبات کے حقیقی اطلاق سے پیچھے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ الیکشن سر پر آپہنچے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے مفادات کا محافظ اور ان جماعتوں کے ہی نمائندوں پر مشتمل تھا جو ہر صورت آئین و قوانین کے کماحقہ اطلاق کو روکنے کی قسم کھائے بیٹھا تھے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved