اُمتِ مسلمہ میں باہمی مذہبی اور اعتقادی اختلاف، بے اعتدالی کے باعث پیدا ہوا۔ ایک طرف بندگانِ خدا اور مقبولانِ بارگاہ کی محبت و عقیدت میں بربنائے جہالت غلو اس حد تک بڑھا کہ بات افراط تک جا پہنچی اور دوسری طرف ردِ عمل میں تخفیف و تنقیص کے باعث معاملہ تفریط تک پہنچ گیا۔ افراط نے جہاں خرافات و بدعات کا دروازہ کھولا وہاں تفریط گستاخی و اہانت کا رنگ اختیار کر گئی۔ پس محبتوںاور عقیدتوں کی حدود اور ان کے مراتب و مدارج کا تعین کرنا لازمی و لابدی امر ہے۔ اہلِ حق ہمیشہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے لے کر اولیائے عظام تک فرقِ مراتب کو ملحوظ رکھتے چلے آئے ہیں لہٰذا افرادِ ملت کے درمیان توازن و اعتدال قائم رکھنا ہی صراطِ مستقیم ہے۔
اسی اعتدال و توازن کی بناء پر امتِ مسلمہ کو ’’امتِ وسط‘‘ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا.
البقرۃ، 2: 143
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔‘‘
امتِ مسلمہ کو امتِ وسط کے خطاب سے اس لئے نوازا گیا کہ وہ حدِ افراط کو نہیں پھلانگتی اور یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین کی طرح ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کو نہیں پوجتی، انبیاء کو خدا نہیں مانتی اور نہ ہی ان کی طرح انتہائی تفریط کا شکار ہوتے ہوئے انبیاء اور اولیاء کو قتل کرتی اور ہتک آمیز سلوک کرتی ہے۔ یہی بنیادی فلسفہ ’’امتِ وسط‘‘ کے عنوان میں کارفرما ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اعتدال و توازن کی روش پر قائم رہنا زندگی کے دائرہ کار میں صرف ایک دو شعبوں تک موقوف نہیں بلکہ اس کا تعلق ہر شعبۂ حیات اور زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلقاً ارشاد فرمایا:
خَیْرُ الْأَعْمَالِ أَوْسَطُهَا.
’’اعمال میں میانہ روی اختیار کرنا سب سے بہترین عمل ہے۔‘‘
لہٰذا عقائد میں بھی اسی اعتدال و توازن کی کیفیت برقرار رکھنا ضروری ہے اور یہ ہمیشہ سے اہلِ حق کا امتیاز رہا ہے۔ ہر زمانے میں اہلِ حق انبیائے کرام، اولیائے عظام اور خصوصاً امتِ مسلمہ میں مجددین و مصلحین عقائد میں بے اعتدالی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت کرتے رہیں گے۔ زیرِنظر باب میں عقیدۂ توحید کے افراط و تفریط پر مبنی مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے انہیں اعتدال و توازن میں لانے کی سعی کی جائے گی۔
عدمِ توازن اور بے اعتدالی سے جہاں بہت سی الجھنیں اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں وہاں طبقاتی تقسیم اور اعتقادی تفریق بھی ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ تین گروہ موجود رہے ہیں:
یہ وہ گروہ ہے جس نے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی عقیدت و احترام میں غلو اور افراط کی روش اپنا لی اور حد سے بڑھ گئے۔ اس گروہ کے افراد کا یہ شیوہ رہا کہ فرقِ مراتب کو ملحوظ رکھے بغیر اپنی خواہش سے خود ہی درجات و مراتب مقرر کر لئے اور جہالت کی بنا پر کسی کو مقام اُلوہیت پر فائز کر دیا اور بعض اولیاء اللہ کو مقامِ نبوت تک لے گئے اور انہیں معصوم عن الخطاء کے زمرے میں شریک کر دیا۔ یہود و نصاریٰ کی تاریخ اِس سلسلے میں ہمارے سامنے ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللهُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلٰـکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَo
(1) آل عمران، 3: 79
’’کسی بشر کو یہ حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا) تم اللہ والے بن جاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس وجہ سے کہ تم خود اسے پڑھتے بھی ہو۔‘‘
اہلِ کتاب نے اپنے احبار و رُھبان کو وہ حقوق دئیے جو صرف اللہ و رسول کے لئے خاص تھے اِن کی یہ گمراہی اِس طرح ظاہر کی گئی ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج وَ مَا اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰـھًا وَّاحِدًا ج لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ط سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَo
التوبۃ، 9: 31
’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (ں) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
تحلیل و تحریم اللہ کا وہ حق ہے جو انبیاء و رُسل کو بھی اُس کی اجازت سے ملتا ہے انبیاء و رسلِ عظام جس شے کو بھی حلال یا حرام قرار دیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے مظہر اور نمائندے ہونے کے ناطے اسی کی منشاء کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ کسی غیر نبی کو یہ حق دینے کے معنی یہی ہوئے کہ اُسے اللہ و رسول کے حق میں شریک کر لیا گیا۔ نصاریٰ اس غلو کی علامت بن کر راہِ حق سے بھٹک گئے تھے۔ تمام اہلِ حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرفِ عصمت صرف انبیائے کرام علیہم السلام کو حاصل ہے۔ انبیائے کرام کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے لہٰذا فقہاء و محدثین کے اقوال اور اولیاء و صلحاء کے ملفوظات اور افعال کو خطا سے پاک اور مبرا تصور کرنا قطعاً درست نہیں۔ ان کی ہر بات کو قطعی اور حجت ماننا اوران کے اقوال کے ہوتے ہوئے قرآن و سنت سے استنباط و استدلال کو ممنوع قرار دینا ایسا طرزِ عمل ہے جس کے ڈانڈے یہود و نصاریٰ کے عالموں کے ساتھ جا ملتے ہیں۔
احبار و رُھبان جس چیز کو حلال قرار دیتے ان کے پیروکار اُسے حلال سمجھتے اور جس چیز کو وہ حرام قرار دیتے اُسے حرام سمجھتے تھے۔ اِس لئے اِس طرزِ عمل کی اصلاح کی جانی چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کسی انسان کو معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرنا اُسے رب بنانے کے مترادف ہے اسی طرح کسی انسان کے قول و عمل کو قرآن و سنت کی طرح قابلِ حجت سمجھ کر اس پر حلال و حرام کے احکام لاگو کرنا بھی اسے رب بنانے کے مترادف ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔
یہ وہ گروہ ہے جو عدمِ توازن اور انتہا پسندی کے دوسرے کنارے پر رہتا ہے۔ یہ طبقہ نہ تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عظمت کا حق بجا لاتا ہے اور نہ بندگانِ خدا کے احترام و عقیدت کا پاس و لحاظ کرتا ہے۔ تقصیر و تفریط اِس طبقہ کا شعار ہے۔ یہودی اِس تقصیر میں سب سے آگے بڑھ گئے۔ یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی شان میں یَدُاللهِ مَغْلُوْلَۃٌ جیسے گستاخانہ جملے کہے اور انبیاء و رُسل عظام علیہم السلام کی شان میں گستاخیاں کیں۔
اُمتِ مسلمہ میں جس طرح افراط اور غلو کی بیماری روافض میں پائی جاتی ہے اِسی طرح تفریط و تنقیص کی بیماری میں خوارج و نواصب بھی مبتلا ہیں۔ بعد میں افراط و تفریط کی شاخیں نکلنے سے تنقیص و تقصیر کی مختلف شکلیں سامنے آتی گئیں۔ موجودہ دور میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منصبِ نبوت و رسالت سے نیچے اُتار کر محض ایک مصلح اور قومی رہنما کی سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیںجو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معجزانہ شان و کمالات اور عظیم خصائص و مقامات کا انکار اور مثلیت پر اصرار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام انسان کی طرح دیکھتے ہیں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور قدر و منزلت اور محبت و مودّت کے آداب اور مظاہر کو شخصیت پرستی سے تعبیر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صالحین کے توسل و شفاعت کو ناجائز تصور کرتے ہیں۔ یہ گروہ اسلام کے روحانی آثار و روایات اور سلف صالحین کے اطوار و تعلیمات کو خرافات قرار دیتا ہے۔
یہ خود راہ گم کردہ لوگ صوفیاء عظام اور ائمہ و فقہائِ امت کو العیاذ باللہ بدعتی یا سازشی گروہ قرار دیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو تفریط اور تقصیر کے انتہائی خطرناک کنارے پر پہنچ کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اکثریت سخت گیر، غیر لچک دار اور منہ زور رویوں کی حامل ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر شرک و بدعت کے فتووں کی بوچھاڑ ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اسلام کی تعلیماتِ محبت و حکمت کے برعکس وہ جہاد کے لبادے میں دنیا بھر میں قتل و غارت گری کو اپنا شعار بنائے بیٹھے ہیں اور (اِلَّا مَا شَاءَ اللہ ) فی زمانہ ان کی اکثریت کے اسی مجموعی تاثر کی وجہ سے دشمنانِ اسلام پوری اسلامی دنیا کو ’’دہشت گرد‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ صاحبانِ فہم و بصیرت جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسلام کو اس بے بنیاد الزام تراشی نے جتنا نقصان دیا ہے ماضی میں کوئی بڑی سے بڑی جنگی شکست بھی نہیں دے سکی۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام جو کہ دینِ دعوت تھا، اس کے مغربی دنیا میں فروغ و نفوذ کے امکانات مسدود ہو گئے ہیں مغرب جو عقل و دانش پر منحصر بات کو سنتا ہے اس پراپیگنڈے سے مرعوب ہو کر اسلام کی دعوت کا پیغام سننے کے لئے تیار نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسی انتہا پسندی کی وجہ سے ہو رہا ہے جو روحِ دین کے خلاف ہے۔ اس طبقہ کے انتہا پسندانہ رویوں کی وجہ سے آج کفر کو بالواسطہ اسلام کے خلاف صف آرائی کرنے کا بہانہ مل رہا ہے۔
معتدلین کا طبقہ وہ ہے جو توازن اور اعتدال کی راہ پر گامزن ہو کر افراط و تفریط کے درمیان توسط کی روش اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ طبقہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کو لاشریک مانتا ہے، یہ لوگ معرفتِ خداوندی اور رضائے الٰہی کے حصول کو زندگی کا مقصود اور معراج سمجھتے ہیں۔ قرآن و سنت اور شریعت نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کو نہ توڑتے ہیں اور نہ پھلانگ جانے کی جسارت کرتے ہیں۔ وہ انبیائے کرام ں کی شان میں حکمتِ مثلیت کا اقرار تو کرتے ہیں مگر شانِ امتیاز و فضیلت پر اصرار کرتے ہیں جبکہ مقصرین انبیاء کی شانِ فضیلت کا محض اقرار کرتے ہیںاور مثلیت پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ طبقہ صحابہ کرام، ائمہ اہل بیتِ أطہار، فقہاء و محدثین اور اہلِ و لایت و طریقت کو وہی حیثیت دیتا ہے جو نقلاً اور عقلاً مبنی بر صداقت ہے۔ یہ طبقہ نہ تو ائمہ و فقہاء کو انبیاء و رُسل علیہم السلام کی طرح معصوم سمجھتا ہے اور نہ ان کی شان میں تنقیص و تخفیف کی جسارت و گستاخی کرتا ہے۔ یہ طبقہ نہ تو اِن کو یہ حیثیت دیتا ہے کہ ان کے ہر قول و فعل، ان کے اجتہادی تفردات اور ان کے مخصوص اعمال و مشاغل کو بلا دلیل شرعی حجتِ قاطع کی حیثیت سے تسلیم کرے اور راہِ قرآن و سنت کی بجائے انہیں مدارِ اِستدلال بنائے اور نہ ہی یہ اس حد تک جاتا ہے کہ ان کی بعض اجتہادی خطاؤں کو مخصوص ذوقی و روحانی مشاغل کی بناء پر سرے سے رد کر دے۔ اعتدال کی یہ روش فی زمانہ ناپید ہوتی چلی جا رہی ہے۔
راقم بھی اکابرینِ امت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اِسی طریق اور منہج کی تجدید کے لئے ہمہ تن مصروف و مشغول ہے۔ یہی مسلکِ صحابہ کرام، تابعینِ عظام اور قرونِ اولیٰ کے ائمہ واسلاف اور اولیاء و صالحین کا ہے۔ یہی حقیقت میں سوادِ اعظم کی راہ ہے اور اسی کو اکابر نے مسلکِ اہل السنۃ والجماعۃ سے تعبیر کیا ہے۔
روشِ اعتدال پر قائم رہنا آسان کام نہیں بلکہ ایک بڑا چیلنج اور امتحان ہے۔ اِس روش کا انسان چکی کے دو کھردرے پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔ اِس سے نہ تو پہلا گروہ خوش ہوتا ہے اور نہ دوسرا۔ افراط اور تفریط میں مبتلا لوگ ہر دو سمت سے ایسے لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور عوام ان کے شور و غوغہ سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
راقم کا ذاتی رُجحان اور طبعی میلان بربنائے تحقیق توسط، اعتدال اور توازن کو پسند کرتا ہے۔
ہم نہ تو کسی مباح و مستحب کو بدعت قرار دینا پسند کرتے ہیں، نہ کسی مکروہ اور خلاف اولیٰ کو حرام کہنا گوارا کرتے ہیں۔ نہ عام درجہ کے امرِ ممنوع کو کفر اور نہ مطلقاً ناجائز کو شرک کا درجہ دیتے ہیں۔ اسی طرح نہ کسی جائز و مستحب کو سنّت مؤکدہ یا واجب کا درجہ اور نہ محض سنّت کو فرض کا، نہ اولیٰ و خلافِ اولیٰ اور مستحسن وغیر مستحسن کے فرق کو فرض اور حرام کے فرق میں بدلتے ہیں۔ نہ امورِ خیر و برکت اور معمولاتِ سلف صالحین کے ترک کرنے کے حق میں ہیں اور نہ انہیں عملاً واجباتِ دین میں شامل کرتے ہیں۔
الغرض معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنانا ہمارا معمول نہیں۔ راقم سوئِ ظن سے ہر ممکن اجتناب اور فتویٰ زنی سے حتی الوسعیٰ گریز کرتا ہے مگر محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محروم کو بدبخت اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتکب کو قطعی کافر سمجھتا ہے۔
بعض لوگ جوشِ توحید میں صیغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغیر کہہ کر شرک قرار دیتے ہیں اوراسے ناجائز سمجھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہیں کیا بلکہ پکارنے کے آداب سکھائے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًا ط قَدْ یَعْلَمُ اللهُ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًا ج فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
النور، 24: 63
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔‘‘
اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ائمہ تفسیر نے حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام ث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’یا محمد اور یا ابا القاسم‘‘ کہا کرتے تھے۔
1۔ امام محمود آلوسیؒ لکھتے ہیں:
فنھاھم اللہ تعالی عن ذالک بقولہٖ سبحانہ: لا تجعلوا…الآیۃ إعظاما لنبیہ صلی الله علیه وآله وسلم، فقالوا: یا نبی الله یا رسول اللہ.
آلوسی، روح المعانی، 18: 204
’’پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اس فرمان ’’لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر منع فرمایا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء یا نبی اللہ ، یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر دیا۔‘‘
2۔ علامہ ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:
اجمع الأربعۃ علی أن المصلی یقول: أیُّھَا النَّبِیُّ. وأن ھذا من خصوصیاتہ علیہ السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غیرہٗ و یقول السلام علیک بطلت صلا تہ.
ملا علی قاری، شرح الشفاء، 3: 468
’’ائمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازی تشہد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ‘‘ کہے اور یہ اندازِ سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔ اگر کوئی نمازی آپ کے علاوہ کسی ایک کو بھی خطاب کرے اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ‘‘ کہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔‘‘
3۔ امام جلال الدین سیوطیؒ نے الخصائص الکبریٰ میں ایک مکمل باب قائم کیا ہے اور اس خصوصیت کو درج ذیل عنوان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بأن المصلی یخاطبہ بقولہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ‘‘ ولا یخاطب سائر الناس.
سیوطی، الخصائص الکبری، 2: 253
’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہیں کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صیغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہیں ہو سکتا۔‘‘
4۔ امام قسطلانیؒ المواہب اللدنیہ میں اور امام زرقانی شرح المواہب میں اسی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومنھا أن المصلی یخاطبہ بقولہ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ کما فی حدیث التشھد والصلوٰۃ صحیحۃ. ولا یخاطب غیرہٗ من الخلق ملکا أو شیطانا أو جمادًا أو میتاً.
زرقانی، شرح المواهب اللدنیہ، 5: 308
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ تشہد میں ہے اور اس خطاب کے باوجود اس کی نماز صحیح رہتی ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی فرشتے یا شیطان اور جماد یا میت کو خطاب نہیں کر سکتا۔‘‘
5۔ امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے فرماتے ہیں:
واحضر فی قلبک النبي صلی الله علیه وآله وسلم وشخصہ الکریم، وقُلْ: سَلَامٌ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ. ولیصدق أملک فی أنہ یبلغہ و یرد علیک ما ھو أوفٰی منہ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 151
’’(اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔ تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں۔‘‘
اس عبارت سے یہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہری معنی و مفہوم میں نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پیش کرنے کی تلقین نہ کی جاتی۔
6۔ نماز میں صیغۂ خطاب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کی حکمت امام طیبی نے بھی بیان کی ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا ہے:
إن المصلین لما استفتحوا باب الملکوت بالتحیات أذن لھم بالدخول فی حریم الحي الذي لا یموت، فَقَرَّت أعینھم بالمناجاۃ۔ فنبھوا أن ذلک بواسطۃ نبي الرحمۃ وبرکۃ متابعتہ. فالتفتوا فإذا الحبیب فی حرم الحبیب حاضر فأقبلوا علیہ قائلین: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ.
عسقلانی، فتح الباری، 2: 314
’’بے شک نمازی جب التحیات سے ملکوتی دروازہ کھولتے ہیں تو انہیں ذاتِ باری تعالیٰ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ کے حریمِ قدس میں داخل ہونے کی اجازت نصیب ہوتی ہے، پس مناجاتِ ربانی کے سبب ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتی ہے۔ پھر انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت اور آپ کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور التفات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کریم رب کے حضور میں موجود ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یوں سلام پیش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔‘‘
7۔ شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ صیغہ خطاب کی وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقۃ محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد و ازین شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنور و فائز گردد.
عبد الحق الدهلوی، اشعۃ اللمعات، 1: 401
’’بعض عرفاء نے کہا ہے کہ اس خطاب کی جہت حقیقتِ محمدیہ کی طرف ہے جو کہ تمام موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں حاضر و موجود ہیں لہٰذا نمازی کو چاہئے وہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہویہاں تک کہ انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفید ہوجائے۔‘‘
8۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ذکر کن او را و درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالتِ حیات، و می بینی تو او را امتادب با جلال و تعظیم و ہیبت وحیاء. بد آنکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می بیند ترا و می شنید کلام ترا زیرا کہ وے متصف است بصفات اللہ تعالیٰ. ویکے از صفات الٰہی آنست کہ أنا جلیس من ذکرنی و پیغمبر را نصیب وافر است ازیں صفت.
عبد الحق الدهلوی، اشعۃ اللمعات، 2: 621
’’(اے مخاطب!) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھیج اور حالتِ ذکر میں اس طرح سمجھ کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ظاہری میں تیرے سامنے موجود ہیں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور ہیبت و حیاء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہے۔ یقین جان کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلام سنتے ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہیں۔ ان صفاتِ ربانی میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ (میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفتِ الہٰیہ سے وافر حصہ حاصل ہے۔‘‘
بعض لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوی اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ کی بجائے اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ کہتے تھے لہٰذا اب سلام بصیغہ خطاب کہنا جائز نہیں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَ بَرَکَاتُہٗ کے اندازِ نداء و خطاب میں ہی سلام پیش کرنے کا طریقہ سکھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ میری ظاہری حیات میں تو مجھ پر سلام نداء و خطاب کے ساتھ پیش کریں اور بعد از وصال بدل دیں۔ اگر بعد از وصال نداء و خطاب کے انداز میں سلام پیش کرنا جائز نہیں تھا تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشہد کے بارے میں تعلیم ادھوری اور ناقص رہ گئی؟ (معاذ اللہ ) کیا کوئی عام مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں منبر پر بیٹھ کر نداء و خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کی تعلیم دی اور اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ تلقین فرمائی اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر اکابر صحابہ نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ کے صیغہ خطاب کے ساتھ سلام پیش کیا ہے۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنا واجب نہیں ہے لیکن وجوب کی نفی سے جواز بلکہ استحباب کی نفی بھی لازم نہیں آتی کیونکہ خلفائے راشدین اور اہلِ مدینہ کا اجماع اور جمہور امت کا اسی پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور دلیلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علی قاریؒ کا اس پر قول بطور دلیل ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں کہ جمہور امت کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پیش کرنا بالکل جائز ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ اور بعد از وصال صحابہ کرامث سلف صالحین نے قریب اور بعید کی مسافت کے فرق کے بغیر بصیغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احادیث اور سیر میں درجنوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ اکابر اور سلف صالحین کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ خطاب پکارنے میں کسی قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدہ صحیحہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا ہے۔
دین و شریعت کے دو بنیادی جزو ہیں:
تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفوس اور حدیث کی اصطلاح میںاحسان کہتے ہیں۔ تصوف کے اجزائے ترکیبی عہدِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں عملاً موجود تھے کیونکہ یہ سب قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ تصوف اِسلام کی روحانی اور باطنی کیفیات اور روحانی اقدار و اطوار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ دینِ اِسلام کی علمی، فکری، عملی، معاشرتی اور تہذیبی و عمرانی و غیرہم تمام جہتوں میں اخلاص و احسان کا رنگ دیکھناچاہتا ہے۔ یہ اِنسان کے جسم و رُوح اور اِس کے وجود کی تمام پرتوں پر جاری و ساری ہے۔ تصوف کی تمام تر اصطلاحات قرآن و حدیث سے مأخوذ و مستنبط ہیں۔ اِس حوالے سے ہماری کتاب ’’ حقیقتِ تصوف‘‘ کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔ یہاں صرف اختصار سے چند نکات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ایں راہ کسے باید کہ کتاب بر دست راست گرفتہ باشد و سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بردستِ چپ، و در روشنائی ایں دو شمع مے رود، تانہ در مغاک شبہت اُفتد نہ در ظلمت بدعت.
فرید الدین عطار، تذکرۃ الأولیاء: 9
’’یہ راہ یعنی تصوف صرف وہی پا سکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآنِ حکیم اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو اور وہ اِن دو چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے تاکہ نہ شک و شبہ کے گڑھوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔‘‘
سلسلہ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہیں:
مشربِ پیر … حجت نمی شود. دلیل از کتاب و حدیث مے باید.
عبد الحق، اخبار الاخیار: 81
’’شیخ طریقت کا مسلک حجت نہیں ہے دلیل قرآن و حدیث سے ہونی چاہئے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دینِ اسلام میں اصل شریعت ہے اور اِس کی فرع طریقت ہے۔ شریعت سرچشمہ و منبع ہے اور طریقت اِس سے نکلا ہوا دریا ہے۔ طریقت کو شریعت سے جدا تصور کرنا غلط ہے۔ شریعت پر طریقت کا دار و مدار ہے۔ شریعت ہی معیار ہے۔ طریقت میں جو فیض ہے اور جو کچھ منکشف و مکشوف ہوتا ہے وہ شریعت ہی کے اِتباع کا صدقہ ہے۔ پس جو شخص طریقت، معرفت، حقیقت، سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شریعت مطہرہ کو جھٹلائے، مخالفت کرے اور رد کرے وہ بے دین ہے۔ اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طریقت میں شریعت کا پاس و لحاظ نہ ہو وہ بے دینی ہے اور جس شریعت کے ساتھ طریقت و معرفت نہ ہو وہ بھی ناقص اور ادھوری ہے۔ ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا حسین امتزاج ہی ہمارا نکتۂ امتیاز ہے۔
اہل اللہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اِسی پر اکتفا کر لینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں۔ اصلاحِ باطن کے لئے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل دین کی بنیادی ضرورت ہے۔ بیعت کے لئے ضروری نہیں کہ رسماً کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیا جائے بلکہ بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے کا عہد ہے۔ شیخِ کامل کی معاونت اور رہنمائی سے نفس و شیطان کے خطرناک حملوں کا مؤثر دفاع اور عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ یہ مقاصد اگر کسی اجتماعی نظم میں آکر حاصل ہو جائیں تو باطن کی اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا درست ہے۔ اس سے مقصود اصلاحِ نفس اور تزکیہ باطن ہے جس کا حصول اُستاد سے حاصل ہو، باپ سے، شیخ سے یا کسی اجتماعی نظم سے جملہ ذرائع درست ہیں، لیکن بیعت کو رسم و رواج یا عادت بنا لینا مقصودِ طریقت نہیں۔ کسی بھی سلسلۂ طریقت کو اختیار کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوں ورنہ تصوف و طریقت کے نام پر آج کل بے شمار کاروباری قسم کے لوگ اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ بے عملی، بے ادبی اور حرصِ جاہ و مال سے بچ کر ہی اصلاحِ نفس ممکن ہے۔
دینِ اِسلام کی ترویج و اشاعت کا کارنامہ بیشتر ممالک میں صوفیائے کرام ہی کی تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہی کی مساعی جمیلہ سے ہر سُو اِسلام پھیلتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اولیاء اللہ اور اربابِ طریقت کی والہانہ عقیدت و محبت اور اکرام و احترام کا جذبہ بغائت درجہ موج زن ہے۔ خانقاہی نظام ایک ایسا ادارہ ہے جہاں اِنسان کو مخلص، متقی، خدا ترس اور مخلوقِ خدا کا حقیقی اور سچا خیر خواہ بنانے کی تربیت دی جاتی تھی اِس نے برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی ، سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ خانقاہی نظام ایک عرصہ تک اپنی انہی معیاری بنیادوں پر اُستوار رہا جن پر اِسے قائم کیا گیا تھا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظام رُو بہ تنزل ہوتا چلا گیا۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو بتمام و کمال عروج پر قائم نہیں رہ سکتا۔ زمانہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی حال خانقاہی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔ شریعت اور طریقت کے مابین تفریق، شطحیات و انحرافات، ترکِ دنیا، مجاز پرستی کے ذریعے کئی خرافات اور سنت کے خلاف کئی اُمور ’’روحانیت‘‘ کے نام پر اِس میں در آئے جس کے باعث اس میں پہلے جیسا اخلاص، تقویٰ، اطاعت، خوفِ خدا اور بندگیٔ الٰہی کی روایت برقرار نہ رہی۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ خود خانقاہوں کے اکابر شیوخِ طریقت نے اِن تمام اُمور کا سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور اِس کی اصلاح و تجدید کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہ مساعی جمیلہ جارحانہ کی بجائے خیر خواہانہ تھیں۔ تنقیح و تصریح اور تجدید و احیاء کی مؤثر آواز بلند ہوتی رہنی چاہیے تاکہ اِس نظام کو مثبت انداز کی تعمیری تنقید کے ذریعے خرافات سے پاک کیا جاتا رہے۔ لیکن چند ایک خرابیوں اور خلافِ سنت اُمور کو آڑ بنا کر پورے نظام کو فاسد اور باطل بنا دینا کہاں کی دانشمندی اور دین پروری ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ اِن خلافِ شرع اُمور کو کبھی بھی مسلمہ اربابِ طریقت کی تائید اور تحسین حاصل نہیں ہوئی۔ ہم بھی نظامِ خانقاہی کے احیاء کے بھرپور حامی ہونے کے ساتھ اس کی اصلاح کے داعی اور منکرات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دُعا سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے۔ قاضی الحاجات، فریاد رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اِس سلسلہ میں حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
واز جملہ آدابِ زیارت است کہ روئے بجانب قبر و پشت بجانب قبلہ مقابل روئے میت بایستد و سلام دہد و مسح نکند قبر را بدست و بوسہ ندہد آنرا و منحنی نشود و روئے بخاک نمالد کہ ایں عادتِ نصاریٰ است. وقرأت نزد قبر مکروہ است نزدِ ابی حنیفہ و نزدِ محمد مکروہ نیست. و صدر الشہید کہ یکے از مشائخ حنفیہ است بقولِ محمد اخز کرد و فتویٰ ہم بریں است. و شیخ امام محمد بن الفضل گفتہ کہ مکروہ قرأتِ قرآن بہ جہر است واما مخافت لا بأس بہٖ است اگرچہ ختم کند.
شاہ عبدالحق، اشعۃ اللمعات، باب زیارۃ القبور: 763
’’قبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمدؒ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمدؒ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ اِس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
پس اقربِ صواب می نماید کہ کسے از ثقات و مقتدایاں تقبیلِ مزارات ہم ننماید، تاکہ عوام کالانعام در ورطۂ ضلال نیفتند. چہ بہ سبب جہل فرق میانِ سجود و تقبیل کردن نمی توانند.
پیر مہر علی شاہ، تحقیق الحق: 105
’’بہتر یہی ہے کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر سکتے۔‘‘
تعظیماً بوسہ دینا فی نفسہٖ منع اور ناجائز نہیں ہے۔ اکابر علماء و مشائخ نے صرف احتیاط کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواص کا عمل عامۃ الناس کے لئے دلیل و حجت ہوتا ہے اِس لئے خواص کو بطورِ خاص احتیاط کا دامن تھامنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ خواص تو بوسہ اور سجدہ کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام یہ فرق نہیں سمجھتے اِس لئے عوام کی خاطر انہیں بھی منع کیا گیا ہے۔
سلف صالحین نے قبورِ اولیاء پر حاضری دینے والے زائرین اور دُعا کرنے والوں کے لئے دو طریقے بیان کئے ہیں:
- اِن نازک اعتقادی اُمور کو بڑی احتیاط کے ساتھ عامۃ المسلمین کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ بعض حضرات مزارات پر حاضری دیتے وقت ایسے اعمال و افعال کرتے ہیں جو جمہور امت کے شعار کے خلاف ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاندین و مخالفین کو اعتراض کا موقع مل جاتا ہے۔ اس میں قصور درحقیقت ہمارے ان بعض ائمہ و خطبا کا ہوتا ہے جو ایسے نازک عقائد میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے اور بے جا تاویلات اور اُلٹے سیدھے دلائل عوام کی تائید کی خاطر بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ناقص لوگوں کے ذہن اُلجھائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔
- ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کسی مرید کا اپنے شیخ و مرشد کی زندگی میں ان سے دُعا کرانے کی صورت میں بھی حاجت مانگنا اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی تو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتا ہے۔ کوئی ولی اللہ یا شیخِ طریقت یہ نہیں کہتا کہ ’’ اے حاجت مند! یہ سب کچھ میں تجھے دے رہا ہوں، ‘‘ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ تم بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو اور ہم بھی اُسی سے تمہارے لئے دعا کرتے ہیں۔ بعض اوقات کئی جہلا ’’پیر صاحب‘‘ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: ’’یا صاحبِ مزار مجھے اولاد دے دیں، صحت دے دیں یا فلاں مسئلہ حل کر دیں۔‘‘ ایسے موقعوں پر دین سے محبت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بروقت ایسے لوگوں کی اصلاح کر دی جائے۔
باقی رہے خواص تو اپنی خداداد بصیرت اور رُوحانی طاقت سے عالمِ کشف میں وہ صاحبانِ قبر سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں اور صاحبِ مزار سے رابطہ بھی رکھتے ہیں۔ جہاں صالحین کے مزار کی زیارت سے زائرین کو روحانی فیض و برکت حاصل ہوتی ہے وہاں بعض اوقات صاحبِ ولایت و مقام زائرین سے صاحبانِ قبر کی رُوح بھی روحانی برکت و فیض حاصل کرتی ہے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ذاتی یا مستقل طور پر متصرف ہیں یا اِس طرح تصرف و اختیار میں شریک سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی شرکت کے بغیر کائنات کا نظام نہیں چلا سکتا، کفر ہے۔ اس طرح کی ہر غلطی کی اصلاح کرکے اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ بزرگوں سے عقیدت اپنی جگہ لیکن کسی بھی مسئلہ میں غلو جائز نہیں۔
کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی مقام یا قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے۔ فقہائے کرام نے قبرستان میں خیرات اور شیرینی تقسیم کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ تقسیم کے وقت بچے اور عورتیں شور و غل کرتے ہیں۔ قبرستان کا ادب و احترام قائم نہیں رہتا لہٰذا ایسا کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ مساکین اور زائرین کے لئے مزارات پر الگ اہتمام ہونا چاہیے۔ مقبولانِ بارگاہِ خداوندی کے اعراس میں جو ناجائز افعال و اعمال کئے جاتے ہیں اِن سے صاحبِ مزار کو تکلیف و اذیت پہنچتی ہے۔ اِس طرح صاحبِ مزار کا فیض اور برکت زائر کو نصیب نہیں ہوتی۔ خیرات کی چیزیں اُوپر سے پھینکنا اور لوگوں کا اُن کو بطور تبرک حاصل کرنے کے لئے شور و غل کرنا، ایسے تمام اُمور غلط ہیں اور سلف صالحین نے اِن کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس طرزِ عمل سے ایک تو رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے، دوسرا مزار کا ماحول اور اُس کا تقدس پامال ہوتا ہے اور تیسرا اِس میںریاکاری کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا ایسے تمام اُمور سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مزاراتِ اولیاء پر نذر و نیاز دینے اور وہاں ’’لنگر‘‘ پکانے یا کھانے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ ایک نیک عمل ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ یہ صدقہ جاریہ کی ایک مستحسن صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو نواز رکھا ہے۔ ’’اطعام الطعام‘‘ تعلیمات قرآن و سنت کی معروف اصطلاح اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مخلص بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن میں ضرورت مندوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا بنیادی خصوصیت قرار دیا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo
الدھر، 76: 8۔10
’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کیلئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کر دینے والا ہے۔‘‘
یہ کام اہل اللہ کے نزدیک نفلی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مخلوقِ خدا کی خدمت دراصل اللہ تعالیٰ کو خوش رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمایاں وصف ہے اور اسوۂ حسنہ کے اتباع میں تمام صوفیاء کا معمول رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کا سہارا اور ملجا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی متعدد احادیث میں ’’اطعام الطعام‘‘ کی ترغیب اور حکم موجود ہے۔ بلکہ بعض صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تعریف اور بنیادی خصوصیات میں کھانا کھلانے اور دوسرے کی خیر خواہی چاہنے کو شامل فرمایا۔ ملاحظہ ہو فرمان نبوی:
1۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا:
أَیُّ الْاِسْلَامِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَ مَنْ لَمْ تَعْرِفْ.
’’بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو کھانا کھلائے اور سلام کرے اس شخص کوجس کو تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔‘‘
2۔ اسی طرح مشہور صحابی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجاآوری سے میں جنت کا حق دار ٹھہر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أطْعِمِ الطَّعَامَ، وَ أفْشِ السَّلَامَ، وَصِلِ الْأرْحَامَ، وَصَلِّ بِالَّیْلِ وَالنَّاسُ نَیَامٌ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ.
’’ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ، سلام (سلامتی اور خیر خواہی) کو عام کرو، صلہ رحمی کرو اور دوسرے لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھا کرو (ان اعمال کے باعث تم) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
3۔ حضرت عبداللہ بن سلامص سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اول کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَیُّھَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ.
’’لوگو! سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سو رہے ہوں، نماز پڑھو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اس سے مماثل روایت ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطعام الطعام کو اللہ کی عبادت کا ہم پلہ عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا:
اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ أَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ.
’’تم رحمن کی عبادت کرو اور کھانا کھلائو اور سلام عام کرو ان تین امور کی انجام دہی کے ثمر کے طور پر تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔‘‘
آپ نے قرآن و سنت کے واضح احکام کو ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھلانے کا کس قدر اہتمام اور تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے متقی، پرہیزگار، مخلصین اور محبین، اللہ تعالیٰ سے قربت اور اخلاص کا دعویٰ کریں اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کا دم بھی بھریں لیکن ان کے ہاں مخلوقِ خدا کو خیر خواہی نہ ملے، بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب اور عملی مظاہرہ نہ ہو چنانچہ مقربینِ بارگاہِ ایزدی جب حیات ہوتے ہیں خود بھی مخلوق کے لیے سراپا خیر ہوتے ہیں، ان کے دوست دشمن، امیر غریب جاننے والے اور غیر سب کے لیے ان کا دست عطا کھلا رہتا ہے اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے اس عمل خیر میں انقطاع نہیں ہوتا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں ایسے مزارات ہیں وہاں قائم لنگرخانوں میں نادار، غریب اور مفلوک الحال لوگ پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ انہیں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے تو یہ خود ایک بہت بڑی انسانی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ان کے اخلاصِ عمل کو برکت سے نواز کر ان کے وصال کے بعد بھی ایصالِ ثواب کی یہ سبیل جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ دراصل زمین پر مائدۃ الرحمن (الوہی دسترخوان) ہے جس کی سعادت سے یہی عظیم المرتبت لوگ نوازے جاتے ہیں۔ انسانی استطاعت و طاقت سے یہ ممکن نہیں ہوتا بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت سے ہی اس قدر وسیع اسباب و وسائل میسر آتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں ایسے مزارات بکثرت موجود ہیں مثلاً سیدنا علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا صاحبؒ، حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ پاک پتن شریف، خواجہ ھند حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ، حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی ؒ، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح کے سینکڑوں مراکز اور مقامات ہیں جہاں آج بھی ہزاروں اور لاکھوں ایسے لوگ کھانا کھاتے ہیں جو بے روزگار اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ غریب اور یتیم بچے، عورتیں، بوڑھے اور بیمار، سب بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب ان آستانوں پر آزادانہ کھاتے پیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا صاحب کے احاطۂ مزار میں ہر روز 20 سے 30 ہزار لوگ مختلف شکلوں میں ’’لنگر‘‘ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھوکوں، بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا کوئی معمولی بات نہیں۔
یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطاء سے ہی ممکن ہے ورنہ دنیا کا کوئی بادشاہ، دولت مند شخص یا تنظیم ایسا کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتی۔ پھر یہ سلسلہ دو چار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ ایسے نیک اور خدمتِ خلق پر مبنی عمل کو بلاسوچے سمجھے شرک و بدعت اور حرام کہنا بجائے خود بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’اطعام الطعام‘‘ کے فرمانِ الٰہی پر عمل درآمد کی ایک بہترین شکل ہے۔ جائز مشروع اور مخلوقِ خدا کیلئے مفید عمل کو بلادلیل ناجائز عمل کہنا دراصل دین میں تجاوز ہے۔ یہ ایک طرف کی سوچ اور نقطۂ نظر ہے۔
دوسری طرف اس سے بھی زیادہ قباحتیں موجود ہیں۔ انہی قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کئی لوگوں نے اس لنگر یا نذر و نیاز کے کھانے سے متعلق بہت سی خود ساختہ باتیں گھڑ رکھی ہیں۔ کہیں اس کی شفا کے مبالغہ آمیز تذکرے کیے جاتے ہیں، کہیں اس کے عدمِ استعمال پر انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے اور کسی جگہ کا لنگر ہر گناہ اور معصیت سے چھٹکارے کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ بزرگانِ دین کے مزارات اور ان کی قربت بلاشبہ باعثِ خیر و برکت ہے اور ان کے آستانوں پر توسلاً اللہ پاک بیماروں کو شفا بھی دیتا ہے مگر یہ سب فوائد اضافی ہیں بنیادی غرض و غایت تو ضرورت مندوں کی بھوک کا ازالہ ہے۔
علاہ ازیں بعض مقامات اور مزارات پر اس نیک عمل کو بے جا پابندیوں اور اضافی شرطوں سے خاص کردیا جاتا ہے مثلاً شیرینی کے ساتھ مختلف تحریریں لکھ دی جاتی ہیں جن کے ذریعے زائرین پر نفسیاتی طور پر ترغیب و ترھیب سے اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ’’یہ کھانے سے اتنے پھیرے اور اسی طرح کی نیاز کی مزید تقسیم ضروری ہے۔‘‘ وغیرہ۔
یہ سب رسوم و رواج جہالت اور مزارات کے غلط استعمال کی مختلف شکلیں ہیں ایسی قباحتوں سے صاحبِ مزار کو یقینا تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ایسے امور سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عرس کی شیرینی کھانے کے فضائل بیان کرنے اور نہ کھانے والے کو محروم سمجھے جانے کی کوئی اصل نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت محدث بریلویؒ سے پوچھا گیا کہ عرس کی شیرینی کے متعلق یہ کہنا کہ جوکوئی اِس کو کھائے گا اُس کا جنت مقام و دوزخ حرام ہے یہ کہنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
انہوں نے جواب دیا: ’’یہ کہنا جزاف اور یاوہ گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا جنت مقام اور کس پر دوزخ حرام ہے۔ عرس کی شیرینی کھانے پر اللہ و رسول کا کوئی وعدہ ایسا نہیں ثابت جس کے بھروسہ پر یہ حکم لگا سکیں۔ یہ تقول علی اللہ کے مترادف ہے اور وہ ناجائز ہے۔
قال اللہ تعالی: اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا (مریم، 19: 78)، قال اللہ تعالی: أَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْن (البقرۃ، 2: 80).
احمد رضا خان، فتاویٰ رضویہ، 4: 219
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وہ غیب پر مطلع ہے یا اس نے (خدائے) رحمن سے (کوئی) عہد لے رکھاہے؟ (اسی طرح) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘
اگر کوئی جاہل یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ کے بغیر دُعا قابلِ سماعت ہی نہیں یا وسیلہ کا معنی یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ پر العیاذ باللہ کوئی بوجھ یادبائو پڑتا ہے، تو ایسا عقیدہ باطل ہے جس کا سلف صالحین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلویؒ سے مزارات پر فاتحہ کے طریقہ کے متعلق پوچھا گیا کہ ’’بزرگوں کے مزارپر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’مزاراتِ شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز میں مودِبانہ سلام کرے۔ ختم وغیرہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی اس قرأت پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اِتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اِسے میری طرف سے اِس بندہ ٔ مقبول کو نذر پہنچا۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دُعا کرے اور صاحبِ مزار کی رُوح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے۔ پھر اُسی طرح سلام کر کے واپس آئے۔ مزار کو ہاتھ نہ لگائے، نہ بوسہ دے۔ طواف بالاتفاق ناجائز ہے جبکہ سجدہ حرام ہے۔‘‘
احمد رضا خان، فتاویٰ رضویہ، 4: 212
سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں۔ غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کھلا کفر ہے اور سجدۂ تعظیمی حرام ہے بلکہ ایسا عمل بھی ممنوع ہے جو سجدہ کی سی مشابہت رکھتا ہو وہ بھی مزارات پر نہیں کرنا چاہیے۔
حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ وَ لَا تَجْلِسُوْا عَلَیْھَا.
’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ اُن پر بیٹھو۔‘‘
عامۃ الناس میں سے بعض لوگ مزارات کو بوسہ دیتے اور چوکھٹ چومتے ہیں یہ ناپسندیدہ فعل، مکروہ کے زمرے میں داخل ہے مگر شرک کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین بوسی حقیقتاً سجدہ نہیں کیونکہ سجدہ میں سات اعضاء کا بیک وقت زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں زمین بوسی اِس وجہ سے ممنوع ہے کہ مشابہتًا بت پرستی اور صورۃً قریبِ سجدہ ہے۔ حقیقتاً سجدہ نہ سہی پھر بھی منع ہے۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی مولانا احمد رضا خانؒ نے اِس مسئلہ پر باقاعدہ الگ کتاب ’’الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ‘‘ لکھی ہے جس میں انہوں نے ٹھوس دلائل سے سجدۂ تعظیمی اور خلافِ شرع اُمور کی تردید فرمائی ہے۔
متعلقاتِ اعراس کے بارے میں مخالفین کا طرزِ عمل تو واضح ہے کہ وہ ہر جائز اور مباح کو شرک و بدعت گردانتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے نصوص کے برعکس ہے لیکن ان مبارک امور کو ماننے والے بھی بعض اوقات ان کی انجام دہی میں بڑی بے احتیاطی کرتے ہیں لہٰذا انہیں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ اِن نازک اُمور کے بارے میں لکھتے ہیں:
این طعن مبنی است بر جہل بہ احوالِ مطعون علیہ زیرا کہ غیر از فرائض شرعیہ مقررہ را ہیچ کس فرض نمی داند۔ آرے زیارت و تبرک بہ قبورِ صالحین و امدادِ ایشاں باہداء ثواب و تلاوتِ قرآن و دعائے خیر و تقسیم طعام و شیرینی امر مستحسن و خوب موجبِ فلاح و نجات است۔ و خلف را لازم است کہ سلف خود را بدیں نوع برّو احسان نماید، چنانچہ در احادیث ثابت است کہ ولد صالح یدعو لہ۔ تلاوتِ قرآن و اہدائے ثواب را عبادت قرار دادن، مبنی برکمالِ بلادت و افراطِ جہل است۔ آرے اگر کسے سجدہ و طواف بہ نحوِ یا فلاں افعل کذا آرد مشابہت بہ عبدۃُ الاوثان کردہ باشد وچوں چنیں نیست پس در محل طعن نباشد.
مہر علی شاہ، اعلاء کلمۃ اللہ : 66
’’یہ طعن اور اعتراض حقیقتِ حال سے عدم واقفیت کے باعث کیا گیا ہے اِس لئے کہ شریعت کے مقرر کردہ فرائض کے سوا کوئی آدمی کسی شے کو اپنی طرف سے فرض نہیں سمجھتا۔ ہاں البتہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنا اور اُن سے فیض و برکت حاصل کرنا اور قرآنِ حکیم کی تلاوت کے بعد اُن کی ارواحِ طیبہ کو ثواب کا ہدیہ پیش کر کے اُن کی مدد کرنا، وہاں اچھی دُعائیں کرنا، مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا ایک اچھا عمل ہے اور فلاح و نجات کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ بعد میں آنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اسلاف پر اس طرح کا احسان کریں چنانچہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ نیک اولاد ماں باپ کے لئے دُعا مانگے۔ قرآن حکیم کی تلاوت اور اِس کے ایصالِ ثواب کو عبادت کے زُمرے میں داخل کرنا بے وقوفی اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی قبر کے سامنے سجدہ کرے یا اُس کا طواف کرے یا اِن الفاظ میں دُعا کرے کہ اے صاحبِ مزار! میرا فلاں کام یوں کر دے ، ایسا کرنا بتوں کے پجاریوں سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ چونکہ اولیاء اللہ کی قبروں پر آنے والے اِس طرح کا کوئی عمل نہیں کرتے اِس لئے اُن پر اِس قسم کا طعن درست نہیں ہے۔‘‘
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مزار پر جا کر براہِ راست اُنہیں حاجت روا سمجھ کر ایسے الفاظ کہنا جائز نہیں۔ اِس سلسلہ میں ہمیں لوگوں کو صحیح اور متوازن طریقہ بتاتے رہنا چاہیے۔ مشکل کشا، داتا گنج بخش، غریب نواز، دستگیر وغیرہ جیسے القابات جو بزرگوں کے ساتھ اِستعمال کیے جاتے ہیں، مجازاً کئے جاتے ہیں۔ اِن الفاظ کو حقیقتاً اور مستقلاً کسی کے ساتھ بھی اِستعمال کرنا جائز نہیں۔
دینِ اسلام کے احکام اور اوامر و نواہی کا منبع اور سرچشمہ قرآن اور سنت و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اچھے اور صالح اسلامی معاشرے میں لوگ اطاعت الٰہی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی معیار عمل سمجھتے ہیں۔ تاہم دین سے دوری اور بے عملی کی وجہ سے ہر دور میں کچھ طبقات معاملاتِ حیات میں ڈگمگا جاتے ہیں۔ ایسے میں علمائے حق اور داعیان دین کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ سادہ لوح لوگوں کی ہدایت و رہنمائی فرمائیں۔ جائز اور ناجائز میں، حلال و حرام میں، توحید اور شرک میں فرق سمجھائیں۔ احکامِ دین کی تبلیغ میں ذاتی مفادات کو آڑے نہ آنے دیں ورنہ دین کھیل بن جائے گا۔ ذیل میں اسی طرح کے کچھ امور کا ذکر ہو رہا ہے جن میں احتیاط اور پرہیز ضروری ہے مثلاً
بعض مزارات کے قریب بیری وغیرہ کے درخت ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ چادریں بچھا کر بیٹھتے ہیں۔ اگر بیر گرے تو اُس کا احترام بجا لاتے ہیں اور اُس سے روزہ افطار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ بیری کے پھل سے بیٹے کی فال نکالتے ہیں اور اگر پتے گریں تو بیٹیوں کی فال نکالتے ہیں۔ کوئی شخص خود بیر توڑ لے تو اُسے بھی سخت برا گردانتے ہیں۔ یہ تمام اُمور توہم پرستی کو فروغ دینے والے ہیں اور ایسے تمام اُمور بے بنیاد ہیں اور شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں لہٰذا علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔
اسی طرح قبر بلامقبور کی زیارت کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ بعض جہلاء فرضی مزارات بنا کر اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرتے ہیں جس کی فقہائے کرام نے اجازت نہیں دی۔ جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒکے نام سے مزارات وغیرہ بنائے ہوئے ہیں جن پر عرس کرتے ہیں۔ محدث بریلویؒ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ ’’پیرانِ پیرؒ کے نام سے بعض جگہ مزار بنا لیا گیا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اِن کے مزار کی اینٹ دفن ہے۔ اِس مزار میں ایسی جگہ جا کر عرس کرنا، چادر چڑھانا کیسا ہے وہ قابلِ تعظیم ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’جھوٹا مزار بنانا اور اُس کی تعظیم جائز نہیں۔‘‘
فتاویٰ رضویہ، 4: 116
اِسی طرح بعض اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہوتا ہے کہ اِن کے کاٹنے سے صاحبانِ مزار ناراض ہو جاتے ہیں لہٰذا اِنہیں کاٹنا مقاماتِ حرم کی طرح حرام ہے۔ یہ سراسر جہالت ہے اور یہ بھی شرک فی التحریم ہے۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ درست اور غلط عقیدے میں امتیاز پیدا کریں اور ایسے شرکیہ عقائد سے عوام و خواص کو منع کریں۔
مردوں کا سر پر کسی بھی بزرگ کے نام پر چوٹی رکھنا اور پھر کٹوانے کی نذر و منت ماننا شرعاً جائز نہیں۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلویؒ نے نہایت عمدہ لکھا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر چوٹی رکھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ حرام ہے، حدیث میں آیا ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَعَنَ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں، لعنت کی ہے۔‘‘
بچوں کے سر پر اولیاء کے نام کی چوٹی رکھنے کے متعلق حضرت فاضل بریلویؒ مزید لکھتے ہیں: ’’بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اِس کی کچھ میعاد مقرر کرتی ہیں۔ اِس میعاد تک کتنی ہی بار بچے کا سر منڈے وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں، پھر میعاد گذار کر مزار پر لے جا کر وہ بال اُتارتی ہیں تو یہ محض بے اصل و بدعت ہے۔‘‘
فتاویٰ افریقہ: 68
کئی دیہاتوں میں بعض جہلاء درختوں کے ساتھ عجیب و غریب داستانیں وضع کئے ہوئے ہیں اور فرضی قصے کہانیاں سنا کر مجاور لوگ لنگر کے لئے تحائف و ہدایا اکٹھے کرتے ہیں۔ اِن سے متعلق محدث بریلویؒ سے مسئلہ پوچھا گیا: ’’کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اِس صورت میں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد ہیں اور فلاں طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اُس درخت اور اُس طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو فاتحہ، شیرینی اور چاول وغیرہ دلاتے ہیں، ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ایسا دستور اِس شہر میں بہت جگہ واقع ہے، کیا شہید مردان درختوں اور طاقوں میں رہتے ہیں اور یہ اشخاص حق پر ہیں یا باطل؟‘‘ محدث بریلوی ؒنے اس سے منع کرتے ہوئے جواب دیا: ’’یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطالات ہیں اِن کا ازالہ لازم ہے۔ ما أنزل اللہ بھا من سلطان ولاحول ولا قوۃ إلا ب اللہ العلی العظیم. ‘‘
احمد رضا خان، احکام شریعت، 1: 32
شرعی حلف اللہ تعالیٰ کے نام کا ہوتا ہے تاہم فقہائے اُمت کے نزدیک کلام اللہ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بھی حلف منعقد ہوجاتا ہے اور مستقبل میں کسی اَمر کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھانا اور پھر توڑ دینے کی صورت میں کفّارہ لازم ہو جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی اور کے نام کا حلف اُٹھائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اِس کی حرمت اور حیثیت اُسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی یا کلام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلف کی، تو یہ عقیدہ اصلاح طلب ہے کیونکہ اعتقاداً کسی اور کے نام پر قسم کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کی قسم کی مثل جاننا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص بوجہ جہالت یا سہواً کسی اور کی قسم اُٹھائے تو وہ شرعی حلف نہیں ہوگا اِس لئے اِس پر کفّارہ لازم نہیں۔
نذر و نیاز برائے ایصالِ ثواب اور گیارہویں شریف وغیرہ جیسے مباح مستحب اور مستحسن اُمور کے بارے میں بعض علاقوں میں بہت سی چیزیں بوجہ جہالت رواج پا گئی ہیں جو ازروئے شرع جائز نہیں مثلاً کوئی یہ کہے کہ اگر اُس نے گیارہویں کا دودھ نہ دیا تو اِس کی وجہ سے بھینس یا گائے مر جائے گی، وہ بیمار ہو جائے گی یا رزق کم ہو جائے گا، اولاد کی موت واقع ہو جائے گی، گھر میں نقصان ہو جائے گا۔ اِسی طرح کاروبار اور کھیتی میں بزرگوں کا حصہ یعنی زکوٰۃ اور عشر شرعی وغیرہ سے الگ بزرگوں کی سالانہ شیرینی جو عوام میں مروج ہے یہ شرعاً دینا تو جائز ہے لیکن نہ دینے پر توہم پرستی کو فروغ دینا جائز نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں بوجہ جہالت فروغ پا جاتی ہیں اور پھر لوگ اِن کے ساتھ نفع و نقصان کا عقیدہ وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ شرک فی العبادت ہے لہٰذا اِن اُمور سے بچنا ضروری ہے۔
ائمہ اہلِ بیت اطہار کے لئے نیاز برائے ایصالِ ثواب مسلمانوں کا معمول ہے۔ اس عمل میں بھی بعض حالتوں میں افراط و تفریط کا عنصر موجود ہے۔ اس مستحب عمل کو بجا لانے والے اگر نذر کی طرح فرض اور واجب سمجھ کر اسے ادا کریں تو یہ بھی احکامِ شریعت سے انحراف ہے۔ اسی طرح اس کے رد عمل میں بعض لوگ اس مستحب عمل کو قطعی حرام اور شرک کے زمرے میں شامل کرکے ختمِ نیاز وغیرہ کا اہتمام کرنے والوں کو مشرک ٹھہراتے ہیں حالانکہ یہ عمل مستحب ہے اس میں حرمت اور شرک کی کوئی علت موجود نہیں ہوتی۔ ایسی نذر و نیاز کے ساتھ بعض لوگ اپنی طرف سے طرح طرح کی شرائط و حدود اور پابندیاں عائد کرتے ہیں مثلاً فلاں شخص کھا سکتا ہے، فلاں عورت نہیں کھا سکتی، گھر سے باہر لے جانا منع ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح اولیاء اللہ کے نام جانوروں کو منسوب کر کے اُن کا احترام بجا لانا، اُن سے کوئی کام لینا شرعاً حرام سمجھنا اور اُن کی بے حرمتی کو بھی حرام سمجھنا ایسا عقیدہ شرک فی التحریم میں شمار ہوتا ہے لہٰذا عوام پر ایسی باریکیاں واضح کر دینی چاہئیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved