قرآن و احادیث کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اصل کامیابی اخروی فوز و فلاح ہے۔ انسان مکمل شعور اور احساس کے ساتھ ایسے اعمالِ صالحہ انجام دے جس سے رضائے الٰہی نصیب ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کامل مطیع و متبع ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نمونۂ اخلاق کی جھلک اپنے اندر پیدا کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام نے کئی ذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ خود احتسابی، حسنِ عمل اور تذکیرِ آخرت جیسے اوصاف پیدا کرنے کا ایک آزمودہ اور مؤثر ذریعہ موت اور آخرت کے احوال و آثار کا ذہنی استحضار بھی ہے۔
آخرت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یادِ آخرت کا اہم ذریعہ زیارتِ قبور ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ موت کتنی بڑی حقیقت ہے جس کا مزہ ہر شخص چکھے گا۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ جلیل القدر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے اور باری باری موت کا مزہ چکھتے رہے۔ اسی طرح بزعمِ خویش خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی آئے، دارا و سکندر جیسے بادشاہ بھی گزرے لیکن موت کی آ ہنی گرفت سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ اگر اتنے نامور لوگوں کو بھی موت نے نہ چھوڑا تو ہم اور تم اس کے تصرف سے کیسے چھوٹ سکتے ہیں۔
زہد و ورع اور تذکیرِ آخرت کے لیے زیارتِ قبور ایک بہترین عمل ہے۔ بعض لوگ عام مسلمانوں کو زیارتِ قبور سے منع کرتے اور وہاں فاتحہ کے لیے جانے والوں پر بھی شرک اور قبر پرستی کا الزام لگا کر انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مؤقف ہے۔ قرآن و حدیث میں اس شدت پسندی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود قبورِ شہداء پر تشریف لے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا۔ لہٰذا یہ عمل قطعاً منافیٔ توحید اور شرک نہیں ۔ زیرِ نظر باب میں زیارتِ قبور کے حوالے سے ہی مختلف پہلوؤں پر بحث کی جائے گی۔
ابتدائے اسلام میں جب لوگ تازہ تازہ کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کر اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے تو چونکہ بت پرستی اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا زمانہ قریب تھا اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں کچھ عرصہ کے لیے مسلمانوں کو قبروں پر جانے سے منع فرمایا، لیکن جب اسلام مستحکم اور مسلمانوں کے دلوں میں خوب راسخ اور پختہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تشریعی اختیارات کی بناء پر حکمِ ممانعت کو منسوخ قرار دیا اور افرادِ امت کو زیارتِ قبور کا حکم دیا اور مختلف پہلوؤں سے اس کی ترغیب دلائی۔ ذیل میں اسی حوالے سے چند احادیثِ مبارکہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَزُوْرُوا القُبُوْرَ فَإِنَّھَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ.
’’پس اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّھَا تُذَکِّرُکُمُ الْمَوْتَ.
حاکم، المستدرک، 1: 531، رقم: 1388
’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم اُن کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
1۔ حضرت بریدہ بن حُصَیْب اَسْلَمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قَدْ کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِیَارَۃِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّھَا تُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ.
قَالَ: وَ فِي الْبَاب عن أبي سعید، وابن مسعود، وأنس، وأبي هریرۃ، وأم سلمۃ.
قال أبو عیسی: حدیث بریدۃ، حدیثٌ حسنٌ صَحِیْحٌ، والعمل علی ہذا عند أھل العلم، لا یرون بزیارۃ القبور بأسا، وھو قول ابن المبارک، والشافعي، وأحمد، وإسحاق.
’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا، بلاشبہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
’’امام ترمذی مزید فرماتے ہیں: زیارتِ قبور کے باب میں حضرت ابو سعید، حضرت ابومسعود، حضرت انس، حضرت ابوہریرہ اور ام المؤمینن حضرت امِ سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی اسی نوعیت کی احادیثِ مبارکہ مروی ہیں، حدیثِ بریدہ حسن صحیح ہے۔ علماء کا اس پر عمل ہے اور وہ زیارتِ قبور میں کچھ حرج نہیں سمجھتے، امام ابن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور امام اسحق رحمہم اللہ بھی اسی بات کے قائل ہیں۔‘‘
علامہ عینی نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:
(وفی التوضیح:) حدیث بریدۃ صریح في نسخ نھي زیارۃ القبور، والظاھر أن الشعبي والنخعي لم یبلغھما أحادیث الإباحۃ. وکان الشارع یأتي قبور الشھداء عند رأس الحول فیقول: السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار. وکان أبوبکر، وعمر، وعثمانث یفعلون ذلک. وزار الشارع قبر أمہ یوم الفتح في ألف مقنع، ذکرہ ابن أبي الدنیا.
عینی، عمدۃ القاری، 8: 70
’’توضیح میں لکھا ہے کہ حدیثِ بریدہ رضی اللہ عنہ زیارتِ قبور کی ممانعت کے حکم کے منسوخ ہونے پر واضح دلیل ہے۔ امام شعبی اور نخعی تک زیارتِ قبور پر جواز والی احادیث نہ پہنچی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہداء کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے پھر ان الفاظ کے ساتھ سلام کہتے ’’تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے بدلے پس تمہارے لئے بہترین عاقبت ہے۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ شارع علیہ السلام نے فتح مکہ کے دن ایک ہزار مسلح افراد کے ساتھ اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت کی۔ اس حدیث کو ابنِ ابی دنیا نے ذکر کیا ہے۔ ‘‘
2۔ سنن أبی داؤد میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نَھَیْتُکُمْ عَنْ ثَـلَاثٍ وَأَنَا اٰمُرُکُمْ بِھِنَّ. نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّ فِی زِیَارَتِھَا تَذْکِرَۃً، وَنَھَیْتُکُمْ عَنِ الأَشْرِبَۃِ أَنْ تَشْرَبُوْا إِلَّا فِی ظُرُوْفِ الأَدَمِ فَاشْرَبُوْا فِی کُلِّ وِعَائٍ غَیْرَ اَنْ لَّا تَشْرَبُوْا مُسْکِرًا، وَنَھَیتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الأَضَاحِیِّ اَنْ تَأْکُلُوْھَا بَعْدَ ثَـلَاثٍ فَکُلُوْا وَاسْتَمْتِعُوْا بِھَا فِیْ أَسْفَارِکُمْ.
’’میں نے تمہیں تین کاموں سے منع کیا تھا لیکن اب ان کے کرنے کا تمہیں حکم دیتا ہوں۔ میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا لیکن اب ان کی زیارت کر لیا کرو کیونکہ اس میں نصیحت ہے (اور یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے)۔ میں نے تمہیں چمڑے کے سوا دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب ہر برتن میں پی لیا کرو، ہاں! نشہ لانے والی چیز نہ پیا کرو، اور میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کیا تھا لیکن اب کھا لیا کرو اور اپنے سفر میں اس سے فائدہ اٹھایا کرو۔‘‘
جن جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے زیارتِ قبور کی روایات بیان کی ہیں ان سے یہ بھی مروی ہے کہ زیارتِ قبور سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو عمل نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہو وہ یقینًا عملِ صالح اور شرعًا مستحب و مستحسن ہے۔
1۔ حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّیْ کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ ثَـلَاثٍ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا وَلْتَزِدْکُمْ زِیَارَتُھَا خَیْرًا … الحدیث.
’’میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیاتھا۔ اِن میں سے ایک قبروں کی زیارت تھی، اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو، ان کی زیارت سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہوگا۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّی کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ القُبُوْرِ فَمَنْ شَائَ أَنْ یَزُوْرَ قَبْرًا فَلْیَزُرْهُ فَإِنَّهُ یَرِقُ الْقَلْبَ وَیُدمِعُ الْعَیْنَ ویُذَکِّرَ الْآخِرَۃَ.
حاکم، المستدرک، 1: 532، رقم: 1394
’’یقینا میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب جو بھی قبر کی زیارت کرنا چاہے اسے زیارت کرنے کی اجازت ہے کیونکہ قبر کی زیارت دل کو نرم کرتی، آنکھوں سے (خشیتِ الٰہی میں) آنسو بہاتی اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّ فِیْھَا عِبْرَۃً.
’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ اس میں نصیحت اور عبرت ہے۔‘‘
2۔ ام المؤمنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّ لَکُمْ فِیْھَا عِبْرَۃً.
طبرانی، المعجم الکبیر، 23: 278، رقم: 602
’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا پس اب تم زیارت کیا کرو بے شک اس میں تمہارے لئے نصیحت ہے۔‘‘
3۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
زُوْرُوْا إِخْوَانَکُمْ وَسَلِّمُوْا عَلَیْهِمْ، وَصَلُّوا عَلَیْهِمْ، فَإِنَّ لَکُمْ فِیْھِمْ عِبْرَۃً.
دیلمی، مسند الفردوس، 2: 294، رقم: 3341
’’اپنے (فوت شدہ) بھائیوں کی زیارت کیا کرو انہیں سلام کہا کرو اور ان پر رحمت بھیجا کرو بے شک ان کی زیارت میں تمہارے لئے عبرت ہے۔‘‘
دنیا سے بے رغبتی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ بندہ دو عالم سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کا ہوگیا ہے۔ دنیا میں دل لگانے سے فکرِ آخرت کمزورہوتی ہے اور بعض اوقات دنیاکی محبت انسان کے ایمان کی دشمن بھی بن جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن اعمال کو اس سلسلے میں انسان کے لئے مفید پایا ان میں ایک زیارتِ قبور ہے اسی لئے درج ذیل فرمودات میں اس کا حکم دیا اور ترغیب دی۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْھَا فَإِنَّھَا تُزَھِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الاٰخِرَۃَ.
’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ دنیا سے بے رغبت کرتی اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
2۔ سنن دارقطنی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ حدیث مروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَ لَا إِنِّي کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا تُذَکِّرُکُمْ آخِرَتَکُمْ.
دار قطنی، السنن، 4: 259، رقم: 69
’’آگاہ رہو! بے شک میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ تمہیں تمہاری آخرت یاد دلائے گی۔‘‘
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ. ثُمَّ قَالَ: إِنِّي کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ، فَزُوْرُوْھَا تُذَکِّرُکُمُ الاٰخِرَۃ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے زیارتِ قبور سے منع فرمایا، پھر بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول مبارک تھا کہ آپ بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، اہلِ قبور کو سلام کہتے، ان کے لئے مغفرت کی دعا فرما تے اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کریں۔
1۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم (کُلَّمَا کَانَ لَیْلَتُهَا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم) یَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ إِلَی الْبَقِیْعِ، فَیَقُوْلُ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ، وَأَتَاکُمْ مَا تُوعَدُونَ، غَداً مُؤَجَّلُونَ، وَإنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ. اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِیْعِ الغَرْقَدِ.
’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (اہلِ قبرستان سے خطاب کرکے) فرماتے: اے مومن گھر والوں! تم پر سلام ہو، جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ تمہارے پاس آگئی تم بہت جلد اسے حاصل کروگے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیعِ غرقد والوں کی مغفرت فرما۔‘‘
2۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں سکھایا کرتے تھے کہ جب وہ قبور کی زیارت کے لئے جائیں تو کہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ. وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ، بِکُمْ لَـلَاحِقُوْنَ. أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ.
’’اے اہل دیارِ مومنین و مسلمین! تم پر سلامتی ہو اور اِن شاء اللہ ہم بھی ضرور بالضرور تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہتعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت کے طلب گار ہیں۔‘‘
3۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں زیارتِ قبور کے وقت اہلِ قبور سے کس طرح مخاطب ہوا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قُولِي: اَلسَّلَامُ عَلَی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ المُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، وَیَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِکُمْ لَـلَاحِقُوْنَ.
’’تم کہا کرو، اے اِس دیار (قبرستان) کے مومنین و مسلمین! تم پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہمارے اگلے اور پچھلے لوگوں پر رحم فرمائے اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی تمہیں ضرور ملنے والے ہیں۔‘‘
4۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے قبرستان سے گزرے تو قبور کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالأَثَرِ.
ترمذی، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم، باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر، 2:357، رقم: 1053
’’اے اہلِ قبور! تم پر سلام ہو، اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے تم ہم سے پہلے پہنچے ہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘
حضرت بریدہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے بھی اسی مضمون کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔
مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے حضور علیہ السلام کی تین اہم سنن ثابت ہوئیں:
شرعًا قبور کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ ائمهِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ مذاہبِ اربعہ کے ائمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔
ائمهِ احناف میں سے علامہ بدر الدین عینی( شارح صحیح بخاری ) کے زیارت ِ قبور کے حوالے سے چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
وقال ابن حبیب لا بأس بزیارۃ القبور، والجلوس إلیھا، والسلام علیھا عند المرور بھا. وقد فعل ذلک رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم. وسئل مالک عن زیارۃ القبور؟ فقال: قد کان نھی عنہ ثم أذن فیہ. فلو فعل ذلک إنسان و لم یقل إلا خیرًا لم أر بذلک بأسًا.
عینی، عمدۃ القاری، 8: 70
’’ابنِ حبیب نے کہا ہے کہ زیارتِ قبور کرنے، ان کے پاس بیٹھنے اور قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا ہے۔ امام مالک سے زیارتِ قبور کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یقینا اس عمل سے پہلے منع کیا گیا تھا پھر اس کی اجازت دیدی گئی اگر کوئی انسان یہ عمل کرے اور خیر کے سوا کچھ نہ کہے تو میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔‘‘
وفي التوضیح أیضاً: والأمۃ مجمعۃ علی زیارۃ قبر نبیّنا صلی الله علیه وآله وسلم، وأبي بکر، وعمر رضی الله عنهما. وکان ابن عمر إذا قدم من سفر أتی قبره المکرم، فقال: السّلام علیک یا رسول اللہ! السّلام علیک یا أبا بکر! السّلام علیک یا أبتاه.
عینی، عمدۃ القاری، 8: 70
’’توضیح میں یہ بھی ہے کہ تمام امت کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی قبور انور کی زیارت کرنے پراتفاق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب وہ سفر سے واپس لوٹتے تو سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہوتے اور کہتے: یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو، اے ابو بکر! آپ پر سلام ہو، اے ابا جان! ( یعنی حضرت عمر) آپ پر سلام ہو۔‘‘
ومعنی النھي عن زیارۃ القبور إنما کان في أوّل الإسلام عند قربھم بعبادۃ الأوثان، واتّخاذ القبور مساجد، فلما استحکم الإسلام، وقوي في قلوب الناس، وأمنت عبادۃ القبور، والصّلاۃ إلیھا، نسخ النھي عن زیارتھا لأنھا تذکرّ الآخرۃ وتزھّد في الدّنیا.
عینی، عمدۃ القاری، 8: 70
’’زیارت قبور سے منع کرنے کا معنی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کا بتوں کی عبادت اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کے زمانہ سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ ممانعت تھی، لیکن جب اسلام مستحکم ہوا اور لوگوں کے دلوں میں راسخ اور مضبوط ہوگیا اور قبروں کی عبادت اور ان کے لئے نماز کا خوف ختم ہوگیا تو پھر زیارتِ قبور کی ممانعت منسوخ ہوگئی کیونکہ دراصل زیارتِ قبور آخرت کی یاد دلاتی اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے۔‘‘
وعن طاؤوس: کانوا یستحبون أن لایتفرقوا عن المیت سبعۃ أیام، لأنھم یفتنون ویحاسبون في قبورھم سبعۃ أیام.
عینی، عمدۃ القاری، 8: 70
’’حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک مردوں کی قبر میں آزمائش ہوتی اور ان کا حساب ہوتا ہے۔‘‘
متأخرین میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒکے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدّث دہلویؒ نے فتاوی عزیزی میں نہ صرف یہ کہ زیارت قبور کو جائز قرار دیا ہے بلکہ زیارتِ قبور کے آداب اور اہلِ قبور سے استمداد کا طریقہ کار بھی بتایا ہے۔ اس حوالے سے ان کی عبارت ملاحظہ کریں:
سوال: ترکیب زیارت قبور؟
جواب: ہرگاہ کہ برائے زیارتِ قبرے از عوام مومنین برود اوّل پشت بقبلہ، رو بسینۂ میت نما ید و سورۂ فاتحہ یکبار و اخلاص سہ بار و در وقت در آمدن بمقبرہ این الفاظ بگوید السلام علیکم أہل الدیار من المؤمنین والمسلمین یغفر اللہ لنا ولکم وإنا إن شاء اللہ بکم للاحقون۔ واگر قبر بزرگے ازاولیاء وصلحا باشد روے بسوی سینہ آن بزرگ کردہ بنشیند وبست و یکبار بچہار ضرب سُبُّوحٌ قُدوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ گوید و سورہ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ سہ باربخواند و دل را از خطرات خلاص کردہ مقابل سینۂ آن بزرگ آرد، برکات روح دردل این زیارت کنندہ خواہند رسید.
شاہ عبدالعزیز، فتاوی عزیزی، 1: 176
سوال: زیارتِ قبور کا طریقہ (کیا ہے)؟
جواب: جو شخص بھی کسی عام مومن کی قبرپر چلا جائے تو قبلہ کی طرف پشت کر کے چہرہ میت کے سینے کی طرف کرے۔ ایک بار سورۂ فاتحہ اور تین بار سورۂ اخلاص پڑھے اور جب قبرستان میں داخل ہو تو یہ الفاظ کہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ یَغْفِرُ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللهُ بِکُمْ لَـلَاحِقُوْنَ۔ (اے مؤمنین و مسلمین گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ اللہتعالیٰ ہماری اور تمہاری بخشش و مغفرت فرمائے۔ ہم بھی اِن شاء اللہ تم سے ضرور ملنے والے ہیں۔) اگر وہ قبر اولیاء و صلحاء میں سے کسی بزرگ کی ہو تو اپنا چہرہ اس بزرگ کے سینہ کی طرف کرے اور بیٹھ جائے اور 21 مرتبہ چار ضربوں کے ساتھ ان اسماء مبارکہ کا ورد کرے سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوْحِ اور سورہ القدر تین بار پڑھے۔ اس بزرگ ہستی کے سامنے اپنے قلب کو وساوس وخطرات سے پاک کرے تو اس زیارت کرنے والے کے دل میں اس بزرگ ہستی کی روحانی برکات پہنچ جائیں گی۔‘‘
اس سے متصل ایک اور سوال ان سے دریافت کیا گیا کہ صاحبِ مزار کا کامل ہونے کا پتہ کس طرح معلوم ہوگا اور اگر صاحبِ مزار کامل ہو تو اس سے استمداد کا طریقہ بتائیں، تو انہوں نے وہ بھی بتایا۔ ذیل میں سوال جواب ملاحظہ کریں۔
سوال: برائے دریافت اینکہ اہلِ قبر کامل ست یا نہ ودر صورتیکہ اہلِ قبر کامل باشد از واستمداد بچہ صورت باید کرد ؟
جواب: بعضے از أہل قبور مشہو بکمال اند و کمال ایشان متواتر شدہ طریق استمداد از ایشان آنست کہ جانب سر قبرِ او سورہ بقر انگشت بر قبر نہادہ تا مُفْلِحُوْنَ بخواند باز بطرف پائیں قبر بیاید و آمَنَ الرَّسُوْلُ تا اخر سورہ بخواند و بزبان گوید اے حضرت من برائے فلان کار در جناب الہٰی التجا و دعا میکنیم شما نیز بدعا وشفاعت امداد من نمائید باز رو بقبلہ آرد و مطلوب خود را ز جناب باری خواہد وکسانیکہ کمال اینان معلوم نیست ومشہور ومتواتر نشدہ دریا فت کمال آنہا بہمان طریق است کہ بعد از فاتحہ و درود وذکر سُبُّوْحٌ دل خود را مقابلہ سنیہ مقبور بدارد و اگر راحت و تسکین ونورے دریافت کند بداند کہ این قبر اہل صلاح وکمال ست لاکن استمداد از مشہورین باید کرد.
شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیز، 1: 177
سوال: یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا صاحبِ مزار کامل ہے یا نہیں اور اگر وہ کامل ہو تو اس صورت میں اس سے استمداد کس طرح کرنا چاہیے؟
جواب: بعض صاحبانِ مزار کا کامل ہونا مشہور ہوتا ہے او ان کا باکمال ہونا تسلسل کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے با کمال صاحب مزار ہستیوں سے استمداد کا طریقہ یہ ہے کہ قبر کے سرہانے انگلی رکھ کر سورہ بقرہ کی تلاوت آغاز سے مفلحون تک کرے۔ پھر قبر یا پائنتی کی طرف آئے اور سورۂ بقرہ میں سے آمن الرسول سے لے کر آخر تک مکمل پڑھے، اور اپنی زبان سے یوں کہے: ’’حضرت میں اپنی فلاں حاجت کے لئے اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا ہوں آپ بھی بارگهِ الٰہی میں اپنی دعا اور شفاعت سے میری امداد فرمائیں۔‘‘ پھر اپنا رخ بطرفِ قبلہ کرے اور اپنا مطلوب خود بارگهِ الٰہی سے طلب کرے۔ اور وہ صاحبِ مزار جن کے بارے میں کامل ہونا معلوم نہ ہو اور عوام میں ان کا کامل ہونا بھی معروف اور تواتر کے ساتھ نہ ہو تو ایسے لوگوں کا مقام و مرتبہ اس طریقہ کے ساتھ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ سورہ فاتحہ اور درود شریف پڑھ کر ’’سبوحٌ‘‘ کا ذکر کرے، ا پنا دل اس صاحب مزار شخص کے سینہ کے سامنے کرے، اگر راحت و سکون پائے تو جان لے کہ یہ صاحبِ مزار کامل شخصیّت کا مالک ہے۔ لیکن (بہتر یہ ہے کہ) استمداد معروف صاحب کمال بزرگوں سے ہی کیا جائے۔‘‘
علامہ محمد شربینی خطیب شافعی لکھتے ہیں:
ویندب زیارۃ القبور التي فیھا المسلمون للرجال بالإجماع۔ وکانت زیارتھا منھیاً عنھا ثم نسخت بقولہ صلی الله علیه وآله وسلم: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا. یکرہ زیارتھا للنساء لأنھا مظنۃ للطلب ببکائھن ورفع أصواتھن، نعم یندب لھن زیارۃ قبر رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم فإنھا من أعظم القربات وینبغي أن یلحق بذلک بقیۃ الأنبیاء والصّالحین والشّھداء.
شربینی، الاقناع، 1: 208
’’جس قبرستان میں مسلمان مدفون ہوں اس کی زیارت کرنا مرد حضرات کے لئے بالاجماع مستحب ہے۔ پہلے زیارتِ قبور کی ممانعت تھی بعد ازاں یہ ممانعت اس حدیث مبارکہ سے منسوخ ہو گئی جس میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘ عورتوں کے لیے زیارتِ قبور مکروہ ہے کیونکہ وہاں اُن سے رونا دھونا اور آوازوں کو بلند کرنا متوقع ہوتا ہے البتہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کرنا ان کے لئے مندوب ہے کیونکہ یہ سب سے بڑی قربت(عبادت) ہے، یہ بھی جائز ہے کہ اس حکمِ زیارت میں دیگر انبیاء علیہم السلام اور صالحین اور شہداء عظام کی زیارات کو بھی شامل کر لیا جائے۔‘‘
امام نووی شافعی لکھتے ہیں:
یستحب للرجال زیارۃ القبور. وھل یکرہ للنساء؟ وجھان أحدھما، وبہ قطع الأکثرون یکرہ۔ والثاني وھو الأصح عند الرویاني لا یکرہ إذا أمنت من الفتنۃ.
نووی، روضۃ الطالبین، 2: 139
’’مردوں کے لئے قبروں کی زیارت مستحب عمل ہے اور عورتوں کے لئے مکروہ ہے۔ اس میں دو مؤقف ہیں: ایک مؤقف جس میں جمہور علماء ہیں کہ عورتوں کیلئے مکروہ ہے اور دوسرا مؤقف جو رویانی کے نزدیک صحیح ترین ہے وہ یہ کہ جب فتنہ سے تحفظ ہو تو مکروہ نہیں۔‘‘
مالکیہ بھی مطلق زیارت کو مندوب و مستحسن گردانتے ہیں ۔
علامہ دردیر شرح الکبیر میں لکھتے ہیں:
و جاز زیارۃ القبور بل ھي مندوبۃ بلا حد بیوم أو وقت أو في مقدار ما یمکث عندھا.
دردیر، الشرح الکبیر، 1: 422
’’زیارتِ قبور جائز بلکہ مندوب ہے وقت کا تعین کیے بغیر کہ کب اور کس وقت زیارت کے لیے جایا جائے اور قبروں کے پاس کتنی دیر ٹھہرا جائے۔‘‘
فقہ حنبلی کے مشہور امام ابنِ قدامہ مقدسی نے زیارتِ قبور پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، الکافی میں وہ لکھتے ہیں:
و یستحبّ للرّجال زیارۃ القبور لأن النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم قال کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فإنھا تذکّرکم الموت.
ابن قدامۃ، الکافی فی فقہ أحمد بن حنبل، 1: 274
’’مردوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا مستحب ہے کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا پس اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
کتاب المغنی میں وہ لکھتے ہیں:
لا نعلم بین أھل العلم خلافاً في إباحۃ زیارۃ الرجل القبور۔ وقال علي بن سعید: سألت أحمد عن زیارۃ القبور ترکھا أفضل عندک أو زیارتھا؟ قال: زیارتھا. وقد صحّ عن النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم أنہ قال: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فإنھا تذکّرکم الموت۔ رواہ مسلم والترمذي بلفظ: فإنھا تذکّر الآخرۃ.
ابن قدامۃ، المغني، 2: 223
’’ہم نہیں جانتے کہ اہلِ علم کا مردوں کی زیارت قبور میں کوئی اختلاف ہو۔ علی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے زیارتِ قبور کا مسئلہ پوچھا کہ آپ کے نزدیک زیارت کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا؟ انہوں نے فرمایا: قبروں کی زیارت کرنا بہتر ہے اور یہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘ اسے امام مسلم نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فإنھا تذکر الآخرۃ کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔‘‘
عورتوں کے مسئلہ زیارتِ قبور کو انہوں نے یوں بیان کیا ہے:
اختلف الروایۃ عن أحمد في زیارۃ النساء القبور: فروي عنہ کراھتھا لما روت أم عطیۃ قالت نھینا عن زیارۃ القبور ولم یعزم علینا. رواہ مسلم.
ابن قدامۃ، المغنی، 2:226
’’امام احمد بن حنبلؒ سے عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کے حوالے سے دو مختلف روایتیں مروی ہیں ان میں سے ایک کراہت کے بارے میں ہے: حضرت امِ عطیہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں قبروں کی زیارت سے منع فرمایا لیکن ہم پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
والروایۃ الثانیۃ: لا یکرہ، لعموم قولہ علیہ السّلام: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور، فزوروھا۔ وھذا یدلّ علی سبق النھي ونسخہ، فیدخل في عمومہ الرّجال والنّساء.
ابن قدامۃ، المغنی، 2:226
’’دوسری روایت یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں کیونکہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی عمومیہے: ’’میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا اب ان کی زیارت کیا کرو‘‘ یہ ارشاد سابقہ ممانعت اور اس کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتا ہے پس اس عموم میں مرد و زَن دونوں شامل ہوگئے۔‘‘
گزشتہ صفحات میں ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کو بیان کیا، جمہور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ زیارتِ قبور ایک مستحسن اور مندوب عمل ہے۔ ائمہ متقدمین و متأخرین کا زیارتِ قبور کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔
مشروعیت کے ان دلائل کے ساتھ ساتھ مزاراتِ اولیاء اور زیاراتِ قبور سے متعلق چند قباحتوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔ ان قباحتوں اور غیر شرعی امور کی کسی قدر تفصیل ہماری کتاب ’’عقائد میں احتیاط کے تقاضے‘‘ میں آچکی ہے۔ تاہم یہاں اس کا خلاصہ زیر بحث موضوع کے لئے ضروری ہے۔
(1) قبور کی زیارت کا پہلا مقصد تو عبرت، خشیت، تذکیرِ آخرت اور استحضارِ موت ہے۔ اسکے ساتھ صاحبِ مزار اگر نیک متقی اور فیض رساں شخصیت ہے تو زائر کو فیوض و برکاتِ باطنی بھی ملتی ہیں جیسا کہ اوپر بزرگانِ دین کے معمولات کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ فی زمانہ زائرین کی اکثریت مقصد اولیٰ یعنی خشیت کو پسِ پشت ڈال چکی ہے۔ قبر کو دیکھ کر فکرِ آخرت پیدا نہ ہو، موت کی تیاری میں مدد نہ ملے اور سیرت و کردار پر مثبت اثرات مرتب نہ ہوں تو نہ فیض حاصل ہوا اور نہ خشیت کا مقصد پورا ہوا۔ روحانی فیض ایک باطنی کیفیت ہے جس کے واضح اثرات شخصیت پر نظر آتے ہیں۔ یہ اثرات نظر نہ آئیں، دل میں تقویٰ اور اپنی بے بضاعتی کا احساس جنم نہ لے تو زیارتِ قبور محض ایک مشقت بھری رسم رہ جاتی ہے۔
(2) اسی طرح زائرین اگر فرائض کو ترک کرکے مستحبات پر زور دیں اور نوافل کو فرائض پر فوقیت دیں تو اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صاحبِ مزار کوئی بھی خوش نہیں ہوں گے۔ ایسے زائرین حصول فیض کی بجائے معصیت کیشی کے مجرم ہوں گے۔ مثلا مزار پر فرض نماز کی جماعت ہو رہی ہو اور لوگ فاتحہ خوانی میں مصروف ہوں۔ نماز کا وقت نکل رہا ہو اور زائرین مزار پر پھول چڑھا رہے ہوں۔
(3) علاوہ ازیں بعض مزارات پر عام دنوں میں بالعموم اور اعراس کے مواقع پر بالخصوص ناچ گانے بھنگڑے دھمال اور دیگر خرافات کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے۔ اس قسم کی تقاریب اگرچہ علاقائی ثقافت کی علامات بھی بن چکی ہیں لیکن بزرگانِ دین کے ساتھ ان خرافات کو منسوب کرنا بذاتِ خود اپنی ثقافت کے برعکس ہے۔ ان اعمالِ غیر شرعیہ کا ارتکاب قطعاً ناجائز اور نامناسب ہے۔ تعلیمات تصوف و طریقت کی کھلی مخالفت کا موجب ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بھی۔ اس لئے جہاں تک ہاتھ پہنچے ایسے امور سے اجتناب کرنا چاہیے اور اگر حکومت اور انتظامیہ سے ہو سکے تو بزورِ طاقت و قانون ان حرکات کی ممانعت ہونی چاہیے۔
(4) مزاراتِ مقدسہ پر بعض دیگر قباحتیں بھی ایک عرصے سے جڑ پکڑ چکی ہیں جن سے اگر شرک نہیں تو اشتبهِ شرک ضرور ہوتا ہے۔ دیکھنے والوں کو بدگمانی کا موقع ملتا ہے اس سے کفر اور شرک کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان ثواب کماتے کماتے عذاب کا مستحق ٹھہر جاتا ہے۔ ان غیر شرعی امور میں نوراتیں ماننا، منتیں مان کر کپڑوں وغیرہ میں گرہیں لگانا، مزار کا طواف کرنا اور وہاں سجدہ کا ارتکاب کرنا بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔
(5) ان سب سے بڑھ کر بعض مزارات اور قبر ستانوں میں مجاور براجمان ہوتے ہیں وہ چونکہ خود غلیظ ہوتے ہیں اس لئے اہلِ ایمان کی قبروں کی حرمت کے تقاضوں سے بھی بے بہرہ ہوتے ہیں۔ ان شیطان صفت لوگوں میں کئی پیشہ ور مجرم بھی ہوتے ہیں جو روپ بدل کر ایسے مقامات کو ناجائز کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ مزارات کے ماحول میں گندگی پھیلاتے، خود نشہ کرتے، چرس افیون اور سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ کئی تو زائرین کو بھی دعوتِ گناہ دیتے ہیں اور بعض بھولے مانس اسے ’’خصوصی فیض‘‘ سمجھ کر ان کی دعوت کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ یہاں سے برائی کی رغبت اور تبلیغِ شر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہی لوگ عام طور پر بردہ فروشی، عصمت فروشی اور اغوا برائے تاوان جیسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ اس لئے حتی المقدور ایسے عناصر سے بھی مزارات کے ماحول کو پاک صاف رکھنا اہلِ ایمان کا اولین فریضہ ہے۔
(6) کئی چھوٹے بڑے مزارات کے احاطے جہاں عوام الناس کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہاں آئے روز جرائم بھی ہوتے اور اخبارات کے خصوصی فیچرز کی زینت بنتے ہیں۔ ان خبروں کو پڑھنے سننے والے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ مراکز (معاذ اللہ) شاید انہی برائیوں کا مرکز ہیں حالانکہ اس طرح کے چند بدقماش اور بد اندیش لوگ اپنی رذالتِ طبع کا مظاہرہ کرتے ہیں ورنہ بہت سے زائرین حسنِ مقصد لے کر آتے ہیں اور بامراد واپس جاتے ہیں۔
(7) اسی طرح ان مزارات پر بعض بے سہارا عورتیں حالات و زمانہ کی تنگی کا شکار ہو کر پناہ لینے آتی ہیں مگر یہاں پر موجود کچھ چالاک اور بدکردار خواتین انہیں اپنے دام فریب میں پھنسا لیتی ہیں جس کے بعد وہ مجبور و بے بس عورتیں خود برائی اور معصیت کا نشان بن جاتی ہیں۔ ایسے حساس معاملات پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو توجہ دینی چاہیے۔ کڑی نگرانی ہو اور ایسے نوسر بازوں کو احاطۂ دربار میں آنے سے روک دیا جائے تو اس طرح کے جرائم کبھی بھی پیدا نہیں ہوسکتے۔
(8) اختلاطِ مرد و زن بھی ایک بڑی قباحت ہے اوریہ عام طور پر وہاں دیکھنے میں آتا ہے جہاں ماحول حکومتی اوقاف کے زیرِ اہتمام ہوتا ہے، اسی اختلاط میں مضمر برائیوں کی وجہ سے بعض فقہاء نے عورتوں کا مزارات پر جانا مطلقاً ناجائز قرار دے دیا ہے۔ الغرض ایسی تمام بے احتیاطیاں جو بعد ازاں برائیوں کا پیش خیمہ بن جائیں ان کا سختی سے قلع قمع ہونا چاہیے تاکہ لوگ جواز سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر گناہ کے مرتکب نہ ہوتے پھریں۔ خواتین کی زیارتِ مزار سے متعلق چند تفصیلات ذیل میں الگ آ رہی ہے۔
جس طرح مردوں کو تذکیرِ آخرت کے لئے زیارتِ قبور کا حکم ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی بعض شرائط کے ساتھ زیارتِ قبور جائز ہے۔ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کا جواز احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابیات رضی اللہ عنہن کے احوال سے بھی ثابت ہے۔ تاہم بعض ائمہ دین نے عورتوں کو مزارات پر جانے سے منع فرمایا ہے ہم ان دونوں پہلوؤں پر باری باری تفصیلات پیش کرتے ہیں۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
مَرَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِاِمْرَأۃٍ تَبْکِيْ عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ: اتَّقِي اللهَ وَاصْبِرِي۔ قَالَتْ: إِلَیْکَ عَنِّي، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیْبَتِي، وَ لَمْ تَعْرِفْهُ، فَقِیْلَ لَھَا: إِنّهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیه وآله وسلم، فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِیْنَ، فَقَالَتْ: لَمْ أَعْرِفْکَ، فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس زار و قطار رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کر۔ اس عورت نے (شدتِ غم اور عدمِ تعارف کی وجہ سے) کہا: آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ آپ کو مجھ جیسی مصیبت نہیں پہنچی۔ وہ خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی۔ کسی نے اسے بتایا کہ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ عورت (اپنی اس بات کی معذرت کرنے کیلئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اَقدس پر حاضر ہوئی۔ اس نے خدمت میں حاضری کی اجازت لینے کیلئے دربان نہیں پایا (تو باہر سے کھڑے ہوکر) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس کی اس معذرت طلبی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدمے کے موقع پر ہی صبر ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ سے عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کو قبر پر آنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ رونے سے منع فرمایا۔ اگر عورتوں کو مطلقًا زیارتِ قبور کی ممانعت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عورت کو قبور پر آنے سے منع فرما دیتے۔
مذکورہ حدیث کی شرح میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی (متوفی852ھ) نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے:
واختلف في النّساء، فقیل: دخلن في عموم الإذن، وھو قول الأکثر، و محلہ ما إذا أمنت الفتنۃ. ویؤیّد الجواز حدیث الباب، وموضع الدلالۃ منہ أنہ صلی الله علیه وآله وسلم لم ینکر علی المرأۃ قعودھا عند القبر وتقریرہ حجۃ.
عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 3: 148
’’خواتین کے زیارتِ قبور کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ عورتیں بھی عمومِ اجازت میں شامل ہیں، یہ جمہور ائمہ کا قول ہے لیکن اس کا اطلاق تب ہے جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کی تائید امام بخاریؒ کے قائم کردہ باب کے عنوان (باب زیارۃ القبور) سے ہورہی ہے۔ اور استدلال اس طرح ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خاتون کو قبر کے پاس بیٹھنے سے منع نہ فرمایا، یہ شرعی اُصول ہے کہ کسی عمل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاموشی بھی جواز کی دلیل ہے۔‘‘
2۔ حضرت عبد اللہ بن أبی ملیکہ بیان کرتے ہیں:
أن عائشۃ أقبلت ذات یوم من المقابر، فقلت لھا: یا أم المؤمنین من أین أقبلت؟ قالت، من قبر أخی عبد الرحمن بن أبی بکر، فقلت لھا: ألیس کان رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم نھی عن زیارۃ القبور؟ قالت: نعم، کان نھی ثم أمر بزیارتھا.
’’ایک دن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لا رہی تھیں میں نے اُن سے عرض کیا: ام المؤمنین! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمایا: اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر کی قبر سے، میں نے عرض کیا: کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! پہلے منع فرمایا تھا لیکن بعد میں اجازت دے دی تھی۔‘‘
3۔ امام جعفر صادق اپنے والد گرامی امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:
کانت فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ.
عبد الرزاق، المصنف، 3: 572، رقم: 6713
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتی تھیں۔‘‘
بعض ائمہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل فرمان مبارک سے عورتوں کی زیارتِ قبور پر مطلقاً عدمِ جواز ثابت کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
أَنّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم لَعَنَ زَوَّارَتِ الْقُبُوْرِ۔ قَالَ وَفِي الباب: عن ابن عباس، وحسان بن ثابت۔ قال أبو عیسی: ھذا حدیثٌ حسنٌ صحیح۔ وقد رأی بعض أھل العلم، أن ھذا کان قبل أن یرّخص النّبيّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في زیارۃ القبور، فلما رخّص دخل في رخصتہ الرّجال والنّسائ، وقال بعضھم: إنما کرہ زیارۃ القبور للنّسائ، لقلۃ صبرھن وکثرۃ جزعھن.
ترمذي، السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في کراھیۃ زیارۃ القبور النسائ، 3: 371، رقم: 1056
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کثرت سے) قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ اس باب میں حضرت ابنِ عباس اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنھما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ حکم اس وقت تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور کی اجازت نہیں دی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرما دی تو یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں: عورتوں کی زیارتِ قبور کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ان میں صبر کم اور رونا دھونا زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
شارحِ بخاری حافظ ابنِ حجر عسقلانی (م852ھ) نے شرح صحیح بخاری میں حدیثِ ترمذی کا ذکر کرکے لکھا ہے:
قال القرطبي: ھذا اللّعن إنما ھو للمکثرات من الزیارۃ لما تقتضیہ الصفۃ من المبالغۃ، ولعل السبب ما یفضي إلیہ ذلک من تضییع حق الزوج، والتبرج، وما ینشأ منھن من الصّیاح ونحو ذلک۔ فقد یقال: إذا أمن جمیع ذلک فلا مانع من الإذن، لأن تذکر الموت یحتاج إلیہ الرّجال والنّساء.
ابن حجر عسقلاني، فتح الباری، 3: 149
’’قرطبی نے کہا: یہ لعنت کثرت سے زیارت کرنے والیوں کے لئے ہے جیسا کہ صفت مبالغہ کا تقاضا ہے (یعنی زَوَّارات مبالغہ کا صیغہ ہے جس میں کثرت سے زیارت کرنے کا معنی پایا جاتا ہے) اور شاید اس کی وجہ سے یہ ہو کہ (بار بار) اس طرح کرنے سے شوہر کے حق کا ضیاع، زینت کا اظہار اور بوقتِ زیارت چیخ و پکار اور اس طرح دیگر ناپسندیدہ اُمور کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔ پس اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جب اس تمام ناپسندیدہ اُمور سے اجتناب ہوجائے تو پھر رخصت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مرد اور عورتیں دونوں موت کی یاد کی محتاج ہیں۔‘‘
اسی بات کو شارحِ ترمذی علامہ عبدالرحمان مبارکپوری (م 1353ھ) نے’’ تحفۃ الأخوذی (4: 136)‘‘ میں نقل کیا ہے۔
تمام شارحینِ حدیث اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ حصولِ عبرت اور تذکیرِ آخرت کے لئے زیارتِ قبور میں عموم ہے یعنی جس طرح ممانعت عام تھی اسی طرح جب رخصت ملی تو وہ بھی عام ہے۔ عورتیں چونکہ بے صبر ہوتی ہیں اگر اپنے کسی قریبی عزیز کی قبر پر جاکر اس طرح نوحہ کریں جس سے شریعت نے منع کیا ہے یا قبرستان میں ان کا جانا باعثِ فتنہ اور بے پردگی و بے حیائی کا باعث ہو، محرم ساتھ نہ ہو یا ایسا اجتماع ہو جہاں اختلاطِ مرد و زن ہو تو اس صورت میں عورتوں کا زیارتِ قبور کے لئے جانا بلا شبہ ممنوع ہے، اور اگر محرم کے ساتھ باپردہ قبرستان جائے وہاں جاکر دعا کرے، تذکیرِ آخرت سامنے ہو تو پھر رخصت ہے۔ جمہور احناف کے نزدیک رخصتِ زیارت مرد و زن دونوں کے لئے ہے۔
1۔ علامہ ابنِ نجیم حنفی (926۔970ھ) لکھتے ہیں:
وقیل تحرم علی النساء، والأصح أن الرخصۃ ثابتہ لھما.
ابن نجیم، البحر الرائق، 2: 210
’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیارتِ قبر عورتوں کے لئے حرام ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ زیارتِ قبور کی اجازت مرد و زن دونوں کے لئے یکساں ہے۔‘‘
2۔ علامہ ابنِ عابدین شامی حنفی نے لکھا ہے:
أمّا علی الاصحّ من مذھبنا وھو قول الکرخي وغیرہ، من أن الرخصۃ فی زیارۃ القبور ثابتۃ للرّجال والنّساء جمیعًا، فلا إشکال.
ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، 2: 626
’’احناف کے نزدیک صحیح قول امام کرخی وغیرہ کا ہے وہ یہ کہ زیارتِ قبور کی اجازت مردو و زن دونوں کے لئے ثابت ہے جس میں کوئی اشکال نہیں۔‘‘
3۔ علامہ شرنبلالی (م 1069ھ) لکھتے ہیں:
نُدِبَ زِیَارَتُھَا لِلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ عَلَی الْأصَح.
شرنبلالی، نور الإیضاح، فصل فی زیارۃ القبور
’’صحیح روایت کے مطابق زیارتِ قبور مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں طور پرمندوب ہے۔‘‘
4۔ علامہ طحطاوی (م 1231ھ) مراقی الفلاح کی شرح میں لکھتے ہیں:
وفي السراج: وأمّا النّساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن، والبکائ، والندب کما جرت بہ عادتھن فلا تجوز لھن الزیارۃ، وعلیہ یحمل الحدیث الصحیح ’’لعن اللہ زائرات القبور‘‘۔ وإن کان للاعتبار، والتّرحّم، والتّبرّک بزیارۃ قبور الصّالحین من غیر ما یخالف الشّرع فلا بأس بہ، إذا کنّ عجائز۔ وکرہ ذلک للشّابات، کحضورھن في المساجد للجماعات۔ وحاصلہ أن محل الرخص لھن إذا کانت الزیارۃ علی وجہ لیس فیہ فتنۃ۔ والأصحّ أن الرّخصۃ ثابتۃ للرّجال والنّساء لأن السّیدۃ فاطمۃ رضی اللہ عنہا کانت تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ وکانت عائشۃ رضی اللہ عنہا تزور قبر أخیھا عبد الرحمن بمکۃ، کذا ذکرہ البدر العیني في شرح البخاري.
طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح: 340۔341
’’سراج میں لکھا ہے: عورتیں جب زیارتِ قبور کا ارادہ کریں اور اس سے ان کا مقصد اگر آہ و بکا کرنا ہو جیسا کہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے تو اس صورت میں ان کے لئے زیارت کے لئے جانا جائز نہیں، ایسی صورت پر اس صحیح حدیث مبارکہ کہ ’’ اللہتعالیٰ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرماتا ہے‘‘، کا اطلاق ہو گا۔ لیکن اگر زیارت سے خواتین کا مقصد عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور قبورِ صالحین سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طلب اور حصولِ برکت ہو جس سے شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو تو اس صورت میں زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ خواتین بوڑھی ہوں، نوجوان عورتوں کا (بے پردہ) زیارت کے لئے جانا مکروہ ہے جیسا کہ ان کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کے لئے آنا مکروہ ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کی رخصت تب ہے جب اس طریقہ سے زیارتِ قبور کو جائیں کہ جس میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ اور صحیح بات یہی ہے کہ زیارتِ قبور کی رخصت مرد و زن دونوں کے لئے ثابت ہے کیونکہ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی) سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہر جمعہ کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی مکہ میں زیارت کرتی تھیں۔ یہی بات علامہ بدر الدین عینیؒ نے شرح صحیح بخاری (عمدۃ القاری) میں لکھی ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ عورتوں کا زیارتِ قبور کے لیے جانا اگر آخرت کی یاد دہانی، حصولِ عبرت، نصیحت اور زہد کے لیے ہو تو جائز ہے لیکن اگر ان کا جانا فتنہ اور بے حیائی کا باعث ہو اور شرعی حدود و قیود کا ارتفاع ہو تو پھر ممنوع ہے۔ ان وجوہات ہی کے باعث ہمارے بہت سے اکابر جن میں امام الھند اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ بھی شامل ہیں، نے عورتوں کے لئے زیارتِ قبور کو جانا حرام قرار دیا ہے۔
ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شارحینِ حدیث و ائمهِ فقہ کی آراء کی روشنی میں جمہور کا مؤقف یہی ہے کہ عورتوں کا زیارتِ قبور کے لئے جانا بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے مثلاً:
- درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری مرد و زن سب کے لیے باعثِ اجر ہے۔ اس پر جمہور ائمہ کا اتفاق ہے۔
- اسی طرح دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین کی قبور کی زیارت بھی مندوب ہے۔
زیارتِ قبور کی مکمل بحث کو درج ذیل امور کے تحت سمیٹا جا سکتا ہے:
قرآن و سنت پر مشتمل درجِ بالا تمام تحقیقی بحث کو مدّنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ انور، اولیاء وصالحین کی زندگی میں اور بعد از وصال ان کے مزارات پر جائز طریقوں کے ساتھ حاضری دینا قطعاً شرک نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا، خوشنودی اور قرب کا باعث ہے۔ لہٰذا ہمیں ان شرعی اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے جن کے تحت جائز ناجائز اور حلال حرام میں حدِ فاصل رکھی گئی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved