گزشتہ فصل میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاداتِ گرامی کی روشنی میں ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی حاضری نہ صرف جائز بلکہ ایمانی جلا حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعینِ عظام کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض وبرکات میں سے کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اولیاء اور صالحین کو بھی میسر آیا۔ اس لئے ضروری تھا کہ اِن کی زیارت کے لئے بھی اُن کے مساکن اور مزارات پر حاضری دی جائے۔ زیرِ نظر عنوان کے تحت اولیاء و صالحین کی زیارت کی مشروعیت کابیان احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے احوال واقوال کی روشنی میں ہوگا۔
اولیاء اللہ اور صالحین کی قبور پر جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت سے ثابت ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شہداء اور صالحین کی قبور پر تشریف لے جا کر دعا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہ معمول رہا۔ ائمهِ حدیث و تفسیر مثلاً امام عبدالرزاق، امام طبری، امام ابنِ کثیر اور امام سیوطی و دیگر ائمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے تھے۔ امام عبدالرزاق (م 211ھ) نے بیان کیا ہے:
عن محمد بن إبراھیم قَالَ کَانَ النَّبِي صلی الله علیه وآله وسلم یَأْتِي قُبُوْرَ الشُّھَدَاءِ عِنْدَ رَأسِ الْحَوْلِ فَیَقُوْلُ: السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ. قَالَ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ یَفْعَلُوْنَ ذَلِکَ.
’’حضرت محمد بن ابراہیم التیمی سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے: تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ روای نے کہا: حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
امام طبری (م 310ھ) نے اسی روایت کو اپنی تفسیر ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (13: 142)‘‘ میں، امام ابنِ کثیر (م 774ھ) نے ’’تفسیر القرآن العظیم (2: 512)‘‘ میں اور امام سیوطی (م 911ھ) نے اپنی تفسیر (الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور (4: 641)‘‘ میں بیان کیا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم لِعُمَرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَی أُمِّ أَیْمَنَ نَزُوْرُھَا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَزُوْرُھَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلو حضرت اُم ایمن کی زیارت کرکے آئیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔‘‘
مذکورہ حدیث کی شرح میں امام نووی (م 676ھ) لکھتے ہیں:
فیہ زیارۃ الصّالحین وفضلھا وزیارۃ الصّالح لمن ھو دونہ، وزیارۃ الإنسان لمن کان صدیقہ یزورہ، ولأھل ود صدیقہ، وزیارۃ جماعۃ من الرّجال للمرأۃ الصّالحۃ وسماع کلامھا، واستصحاب العالم والکبیر صاحباً لہ في الزّیارۃ والعیادۃ ونحوھما، والبکاء حزناً علی فراق الصّالحین والأصحاب وإن کانوا قد انتقلوا إلی أفضل مما کانوا علیہ، واللہ أعلم.
نووی، شرح صحیح مسلم، 16: 9، 10
’’اس حدیثِ مبارکہ میں صالحین کی زیارت اور اس کی فضیلت کا بیان ہے۔ اسی طرح کسی صالح شخص کا(مقام و مرتبہ کے لحاظ سے) اپنے سے کم درجہ شخص کی ملاقات کے لیے جانا، کسی انسان کا اپنے دوست احباب کی زیارت کرنا، مردوں کا باجماعت کسی نیک اور صالح خاتون کی ملاقات اور اس کی گفتگو سننا، اسی طرح کسی عالم اور بزرگ کا اپنے دوست کو زیارت و ملاقات اور عیادت وغیرہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانا، صالحین اور دوست و احباب کی مفارقت پر غمگین ہونا اور رونا اگرچہ وہ اونچے درجے کی طرف منتقل ہوگئے ہوں (بھی اس حدیثِ مبارکہ سے) ثابت ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ عالیہ میں اولیاء، صالحین اور کامل مومنین کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ جن میں سے چند فرامینِ مبارکہ درج کئے جاتے ہیں۔
امام بخاری اور دیگر ائمهِ حدیث و تفسیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیلں سے فرمایا:
مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَزُوْرَنَا أَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا فَنَزَلَتْ (وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأمْرِ رَبِّکَ لَہٗ مَا بَیْنَ أَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا).
’’جتنی بار تم ہماری زیارت کو آتے ہو، اس سے زیادہ تم ہماری زیارت کو کیوں نہیں آتے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اور جبرئیل میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہو کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر (زمین پر) نہیں اتر سکتے اور جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (سب) اسی کا ہے۔‘‘ (مریم،19: 64)
اس محبت کے جذبات سے لبریز حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنی زیارت کے لئے بار بار آنے کی خواہش کی تاکہ محبوبِ حقیقی کے پیغام کو دیکھ دیکھ کر دیدۂ و دل کو قرار حاصل ہوتا رہے۔ اس سے ائمہ نے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ کسی صالح شخص کا اپنے نیک صالح دوستوں کو اپنی ملاقات و زیارت کے لئے بلانا بھی جائز و ثابت ہے۔
امام نووی نے اپنی کتاب المجموع میں مذکورہ حدیث سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے:
ویستحبّ أن یطلب من صاحبہ الصالح أن یزورہ وأن یزورہ أکثر من زیارتہ لحدیث ابن عباس.
نووی، المجموع، 4: 518
’’یہ بات مستحب ہے کہ کوئی شخص اپنے صالح دوست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ جتنی بار اس کی زیارت و ملاقات کے لئے آتا ہے اس سے زیادہ مرتبہ آئے اور یہ بات حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ثابت ہے۔‘‘
1۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّینَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِینَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِینَ فِيَّ.
اس حدیث کو امام مالک نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
’’میری محبت واجب ہو گئی: میری خاطر آپس میں محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے۔‘‘
2۔ حضرت ادریس خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں جامع مسجد دمشق میں داخل ہوا تو اچانک میں نے ایک خوبصورت چمکتے دانتوں والے نوجوان دیکھا جس کے ساتھ کچھ لوگ تھے (ایک روایت میں ہے: اس نوجوان کے ساتھ بیس صحابہ اور ایک روایت میں تیس صحابہ تھے) جب وہ کسی چیز میںاختلاف کرتے تو اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اس کے اقوال سے مدد لیتے۔ میں نے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا:
هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ هَجَّرْتُ، فَوَجَدْتُہُ قَدْ سَبَقَنِي بِالتَّهْجِیرِ، وَوَجَدْتُہُ یُصَلِّي، قَالَ: فَانْتَظَرْتُہُ حَتَّی قَضَی صَلَاتَہُ، ثُمَّ جِئْتُہُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ، ثُمَّ قُلْتُ: وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّکَ ِللّٰهِ، فَقَالَ: أَاللهِ؟ فَقُلْتُ: أَاللهِ، فَقَالَ: أَاللهِ؟ فَقُلْتُ: أَاللهِ، فَقَالَ أَاللهِ؟ فَقُلْتُ: أَاللهِ، فَأَخَذَ بَحَبْوِ رِدَائِي۔ (وفي روایۃ: بِحَبْوَتَي رِدَائِي) فَجَذَبَنِي إِلَیْهِ، وَقَالَ: أَبْشِرْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: قَالَ اللہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِینَ فِيَّ.
’’یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں، جب اگلا دن ہوا تو میں جلدی سے مسجد پہنچا تو وہاں میں نے اس نوجوان کو خود سے پہلے پہنچا ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ آپ کہتے ہیں: میں نے ان کا انتظار کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے۔ پھر میں نے سامنے سے ان کے پاس حاضر ہوکر انہیں سلام کیا، اور عرض کیا: خدا کی قسم! میں آپ سے اللہ تعالیٰ کے واسطے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا: ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے پھر پوچھا: اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا: ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑا (اور ایک روایت میں ہے میری چادر کے دونوں کنارے پکڑے) اور مجھے اپنی طرف کھینچ کرفرمایا: تمہیں خوشخبری ہو، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر آپس میں بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے، میری محبت واجب ہے۔‘‘
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّۃِ غُرُفًا تُرَی ظَوَاھِرُھَا مِنْ بَوَاطِنِھَا، وَبَوَاطِنُھَا مِنْ ظَوَاھِرِھَا أَعَدَّھَا اللہُ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیْهِ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیْهِ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیْهِ.
’’جنت کے اندر کئی قیام گاہیں ایسی ہیں جن کی بیرونی زیب و زینت اندر سے اور اندرونی خوبصورتی باہر سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار فرمائے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں، اُسی کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَنَّ رَجُلاً زَارَ أَخًا لَہُ فِي قَرْیَۃٍ أُخْرٰی، فَأَرْصَدَ اللہُ لَہُ عَلَی مَدْرَجَتِهِ مَلَکاً، فَلَمَّا أَتَی عَلَیْهِ قَالَ: أَیْنَ تَرِیْدُ؟ قَالَ: أُرِیْد أَخًا لِي فِي هَذِهِ الْقَرْیَۃِ، قَالَ: ھَلْ لَکَ عَلَیْهِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ: لَا، غَیْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُہُ فِي اللهِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہُ فِیْهِ.
’’ایک شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملنے کسی دوسرے گاؤں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ اس کے انتظار میں بٹھا دیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو فرشتہ نے پوچھا، تیرا ارادہ کہاں جانے کا ہے؟ اس نے جواب دیا: اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتہ نے پوچھا، کیا تم نے اس پر کوئی احسان کیا تھا جس کا بدلہ حاصل کرنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ مجھے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے محبت ہے۔ تب اس فرشتہ نے کہا: میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
امام نووی (م 676ھ) لکھتے ہیں:
وفیہ فضیلۃ زیارۃ الصّالحین والأصحاب.
نووی، شرح النووی علی صحیح مسلم، 16: 124
’’اس حدیثِ مبارکہ میں زیارتِ صالحین اور دوست احباب کی ملاقات کی فضیلت کا بیان ہے۔‘‘
1۔ ائمهِ احناف میں سے علامہ عبدالرحمن عمادی حنفی نے زیارتِ صالحین کو مقبولِ بارگاہ عمل قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
إن زیارۃ الصالحین من أقرب القربات وھي لاستمطار سحائب البرکات ومن الأمور المجرّبات، وقد أمرنا بالتّعرّض للنفحات ولا شک أن مواطنھم من أکبر مظنات إجابۃ الدعوات.
عمادی، الروضۃ الریا فیمن دفن بداریا، 1: 55
یاد رہے کہ علامہ عمادی نے مذکورہ کتاب دمشق کی ایک بستی ’’داریا‘‘ میں مدفون صالحین کے بارے میں لکھی ہے اور بیان کیا ہے کہ کن کن مقبولِ بارگاہ ہستیوں کے یہاں مزارات ہیں۔ اسی بستی ’’داریا‘‘ کی نسبت سے علماء اپنے ناموں کے ساتھ دارانی لکھتے ہیں۔
’’بے شک صالحین کی زیارت بلند درجہ باعثِ ثواب عمل ہے اور یہ ان آزمودہ اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ برکات کی بارش ہوتی ہے۔ ہمیں (ان کی برکات کے)عطیات کو حاصل کرنے کا حکم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی قیام گاہیں قبولیتِ دُعا کے لئے مجرب جگہیں تصور کی جاتی ہیں۔‘‘
2۔ علامہ ابن الحاج الفاسی المالکی (م 737ھ) نے اپنی مشہور تصنیف ’’المدخل‘‘ میں زیارتِ قبور کے احکام حُسنِ ترتیب کے ساتھ تفصیل سے لکھے ہیں۔ زیارتِ اولیاء و صالحین کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے:
وینبغي له أن لا یخلی نفسه من زیارۃ الأولیاء والصّالحین الذین برؤیتھم تحي القلوب المیتۃ کما تحي الأرض بوابل المطر، فتنشرح بهم الصدور الصلبۃ، و تھون برؤیتھم الأمور الصعبۃ، إذ ھم وقوف علی باب الکریم المنّان، فلا یردّ قاصدھم ولا یخیب مجالسھم ولا معارفھم ولا محبھم۔ إذ ھم باب الله المفتوح لعباده، ومن کان کذالک فتعین المبادرۃ إلی رؤیتھم، واغتنام برکتھم ولأنه برؤیۃ بعض ھؤلاء یحصل له من الفهم والحفظ وغیرھما ما قد یعجز الواصف عن وصفه، ولأجل ھذا المعنی تری کثیرًا ممن اتصف بما ذکر له البرکۃ العظیمۃ فی علمه و فی حاله، فلا یخلی نفسه من ھذا الخیر العظیم لکن بشرط أن یکون محافظاً علی اتّباع السّنّۃ فی ذلک کله.
ابن الحاج، المدخل، 2: 139
’’متعلم کے لئے ضروری ہے کہ ان اولیاء و صالحین کی زیارت سے اپنے آپ کو علیحدہ نہ کرے جن کی زیارت سے مُردہ دل اس طرح زندہ ہوتے ہیں جس طرح زمین موسلادھار بارش سے زندہ ہوتی ہے۔ ان کی زیارت سے پتھر دل نرم و کشادہ ہوتے ہیں۔ ان کی زیارت کی برکت سے مشکل اُمور آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ جو کریم اور منان ہے، کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں۔ وہ ان کے ارادوں کو رد نہیں فرماتا اور ان کے ہم مجلس، ان کی پہچان رکھنے والوں اور ان سے محبت کرنے والوں کو ناکام و نامراد نہیںکرتا۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بابِ رحمت ہیں جو اس کے بندوں کے لئے کھلا رہتا ہے۔ پس جو بندۂ خدا ایسی صفات سے متصف ہو اس کی زیارت اور اس کی برکت سے مستفیض ہونے کے لئے جلدی کرنی چاہیے کیونکہ ان میں بعض ہستیوں کی زیارت کرنے والے کو ایسا فہم، برکت اور حافظہ نصیب ہوتا ہے کہ بیان کرنے سے باہر ہے۔ اسی معنی کی بدولت آپ بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کہ ان کو علم و حال میں کثیر برکت ملی۔ اس نعمت کی قدر کرنے والا خود کو اس عظیم خیرو برکت سے علیحدہ نہیں کرتا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تمام اُمور میں سنت کا محافظ اور تابعِ شریعت ہو۔‘‘
3۔ علامہ ابن الحاج نے امام ابو عبداللہ بن نعمان کی کتاب’’سفینۃ النجاء لأھل الالتجاء‘‘ جس میں انہوں نے شیخ ابی النجار کی کرامات کا بیان کیا ہے، کے حوالے سے لکھا ہے:
أن زیارۃ قبور الصّالحین محبوبۃ لأجل التّبرّک مع الاعتبار فإن برکۃ الصّالحین جاریۃ بعد مماتهم کما کانت فی حیاتهم والدّعاء عند قبور الصّالحین والتشفع بهم معمول به عند علمائنا المحققین من أئمۃ الدین، انتهی.
ابن الحاج، المدخل، 2: 255
’’حصولِ برکت کے لیے قبورِ صالحین کی زیارت مستحب عمل ہے کیونکہ صالحین کی برکات جس طرح ان کی زندگی میں فیض رساں ہوتی ہے اسی طرح ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے اور صالحین کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان سے شفاعت طلب کرنا ائمۂِ دین اور علمائِ محققین کا معمول رہا ہے۔‘‘
4۔ اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن الحاج نے لکھا ہے:
من کانت له حاجۃ فلیذھب إلیهم ولیتوسّل بهم بقوله علیه الصلاۃ والسلام (لا یشد الرحال إلا لثلاثۃ مساجد المسجد الحرام ومسجدي والمسجد الأقصی) انتهی۔ وقد قال الإمام الجلیل أبو حامد الغزالی فی کتاب آداب السفر من کتاب الإحیاء له ماھذا نصه. القسم الثاني: وھو أن یسافر لأجل العبادۃ، إما لجھاد أو حج إلی أن قال: ویدخل فی جملته زیارۃ قبور الأنبیاء وقبور الصّحابۃ والتّابعین وسائر العلماء والأولیاء وکل من یتبرّک بمشاھدته فی حیاته یتبرّک بزیارته بعد وفاته. ویجوز شدّ الرحال لھذا الغرض ولا یمنع من ھذا، قوله صلی الله علیه وآله وسلم : (لاتشدّ الرِحال إلا لثلاثۃ مساجد المسجد الحرام ومسجدي والمسجد الأقصی) لأن ذلک فی المساجد لأنها متماثلۃ بعد ھذه المساجد وإلا فلا فرق بین زیارۃ الأنبیاء، والأولیاء، والعلماء فی أصل الفضل، وإن کان یتفاوت فی الدرجات تفاوتًا عظیماً بحسب اختلاف درجاتهم عند الله. الله تعالٰی أعلم.
ابن الحاج، المدخل، 2: 255، 256
’’جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو اسے چاہے کہ وہ صالحین کی قبروں اور ان کے مقابر پر جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرے۔ یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تین مسجدوں کے سوا کسی طرف جانے کے لئے سامانِ سفر نہ باندھا جائے، مسجدِ حرام، میری مسجد اور مسجدِ اقصیٰ۔‘‘ جلیل القدر امام ابو حامد غزالی نے احیاء العلوم کے آدابِ سفر میں بیان کیا ہے: قسمِ ثانی: عبادت کے لیے سفر کیا جائے مثلاً جہاد اور حج کے لیے، اس کے بعد فرمایا: اسی میں انبیاء علیھم السلام، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور تمام علماء اور اولیاء اللہ کی زیارت کرنا بھی شامل ہے، ہر وہ شخص جس کی زندگی میں اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جاتی ہے اس کی موت کے بعد بھی اس کی کی زیارت سے برکت حاصل کی جاتی ہے اور اس غرض کے لئے سفر کرنا بھی جائز ہے، حدیث مبارکہ کہ ’’ان تین مساجد کے سوا کسی اور مسجد کی زیارت کے لیے سامانِ سفرنہ باندھا جائے‘‘ میں اس سفر کی ممانعت نہیں، کیونکہ یہ حکم زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ان ہی مساجد کی طرف سفر کرنے سے متعلق ہے ان تینوں مساجد کے علاوہ دیگر تمام مسجدیں ثواب میں برابر ہیں۔ اگر ہر سفر کو ناجائز قرار دیا جائے تو انبیاء علیھم السلام، اولیاء اللہ اور علماء کی زیارت میں اصلاً کوئی فضلیت باقی نہیں رہے گی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے مقام و مرتبہ میں ان کے درجات کے مطابق بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
علامہ ابن الحاج ہی نے انبیاء علیھم السلام کی قبورِ مقدّسہ کی زیارت کا بھی طریقہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وأما عظیم جناب الأنبیاء والرّسل صلوات الله وسلامه علیھم أجمعین، فیأتي إلیهم الزائر ویتعین علیه قصدھم من الأماکن البعیدۃ، فإذا جاء إلیھم فلیتصف بالذل، والانکسار، والمسکنۃ، والفقر، والفاقۃ، والحاجۃ، والاضطرار، والخضوع، ویحضر قلبه، وخاطره إلیهم، وإلی مشاهدتهم بعین قلبه، لا بعین بصره، لأنهم لا یبلون ولا یتغیرون، ثم یثني علی الله تعالٰی بما ھو أھله، ثم یصلي علیھم ویترضی عن أصحابهم، ثم یترحم علی التّابعین لھم بإحسان إلی یوم الدین، ثم یتوسّل إلی الله تعالٰی بهم فی قضاء مآربه، ومغفرۃ ذنوبه، ویسغیث بهم، ویطلب حوائجه منهم، ویجزم بالإجابۃ ببرکتهم، ویقوي حسن ظنّه فی ذلک فإنهم باب الله المفتوح. وجرت سنته سبحانه وتعالٰی في قضاء الحوائج علی أیدیهم، وبسببهم، ومن عجز عن الوصول إلیهم فلیرسل بالسّلام علیهم ویذکر ما یحتاج إلیه من حوائجه ومغفرۃ ذنوبه، وستر عیوبه إلی غیر ذلک، فإنهم السادۃ الکرام، والکرام لا یردّون من سألھم، ولا من توسّل بهم، ولا من قصدھم، ولا من لجأ إلیهم.
ابن الحاج، المدخل، 2: 258
’’جہاں تک انبیاء و رسل کرام علیہم السلام کی عظیم بارگاہوں میں حاضری کا تعلق ہے تو ان عظیم مقاماتِ مقدّسہ کے آداب یہ ہیں کہ زائر مسافتِ بعیدہ سے ان کی زیارت کا ارادہ کرکے چلے۔ جب وہ ان کے مزار پر پہنچے تو انتہائی عاجزی وانکساری، فقر و فاقہ اور نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ آئے۔ حضورِ قلب کے ساتھ حاضر ہو، ان کا سر کی آنکھ سے مشاہدہ نہ کرے بلکہ دل کی آنکھ سے انہیں دیکھے کیونکہ ان کے مبارک اجسام بوسیدہ ہوتے ہیں نہ متغیر۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ایسی ثناء کرے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر اُن (انبیاء علیہم السلام) پر صلوات بھیجے اور ان کے اصحاب سے راضی ہو، پھر قیامت تک ان کے تمام تابعین کے لیے رحمت کی دعا کرے، پھر اپنی حاجات کی تکمیل اور اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرے، اُن سے شفاعت طلب کرے، اپنی حاجات ان پر پیش کرے اور ان کی برکت سے دعا کی قبولیت پر یقین رکھے۔ اس باب میں اپنا حسنِ ظن قوی رکھے کیونکہ انبیاء علیھم السلام (رحمتِ) باری تعالیٰ کا کھلا ہوا دروازہ ہیں اور یہ ہمیشہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ وہ اپنے نبیوں کے ہاتھوں سے اور ان کے واسطے اور سبب سے اپنے بندوں کی حاجات کو پورا فرماتا ہے۔ جو شخص انبیاء علیھم السلام کے مزاراتِ مقدّسہ تک نہ پہنچ سکے وہ ان کی بارگاہ میں سلام بھیجے اور اپنی حاجات اور اپنے گناہوں کی مغفرت اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لیے ان سے شفاعت کی درخواست کرے کیونکہ وہ صاحبِ کرم بزرگ ہستیاں ہیں اور جو شخص کریموں سے سوال کرتا ہے یا ان کی پناہ میں آتا ہے یا ان کا ارادہ کرتا ہے یا ان کا وسیلہ پیش کرتا ہے وہ اس کی درخواست کو مسترد نہیں کرتے۔‘‘
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور امتِ مسلمہ کایہی معمول رہا ہے کہ وہ صالحین کی زیارت کو جاتے ہیں اور اگر وہ وصال فرما گئے ہوں تو پھر ان کے مزارات پر فیوضات کے حصول کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ آج تک کسی نے اس عملِ صالح کو ناجائز و حرام قرار نہیں دیا کیونکہ یہ عمل اصلاً مشروع ہے، نسبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے، اکابر ائمہ اور بزرگانِ دین کا معمول ہے۔ ائمهِ حدیث نے بھی اس کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔
قرآن وحدیث کے مطابق انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے مبارک مزارات اور بارگاہیں ایسے متبرک مقامات ہیں جہاں پر ہروقت اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے، لہٰذا یہاں دعا کی قبولیت بھی جلدی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاف اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر ایسے متبرک ومقدّس مقامات کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے۔ ائمهِٔ مؤرخین اور اہلِ سیر نے علماء کے پسندیدہ اور صالح معمولات کے بیان کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔ جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلاف، صالحین کی زیارت کو ہمیشہ سے ایک پسندیدہ اور مقبول بارگاہ عمل سمجھتے رہے۔ چند ایک معمولات درج ذیل ہیں۔
1۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت اور اس سے حصول ِبرکت ثابت ہے۔
شمس الدین سخاوی، التحفۃ اللطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشریفۃ، 1: 307
2۔ امام شافعیؒ کا امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت اور اس سے حصول ِبرکت ثابت ہے۔
3۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا محمد بن یوسف الفریابی کی زیارت کے لئے سفر کرکے ملک شام جانا ثابت ہے۔
ابنِ مفلح، المقصد الأرشد، 1: 193
4۔ مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) کا حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر اللہ تعالیٰ سے اپنیمشکل دور کرنے کی دعا کرنا ثابت ہے۔
ابن حبان، کتاب الثقات، 8: 457، رقم: 14411
5۔ امیر المؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری(256ھ) کی قبر مبارک پرسمرقندکے لوگوں کا حاضر ہوکران کی برکت سے بارش طلب کرنا ثابت ہے۔
ذھبی، سیر أعلام النبلاء، 12: 469
6۔ حضرت بشر حافیؒ کی زیارت کے لئے اکابر مشائخ کا حاضر ہونا ثابت ہے۔
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 12: 381
ہم نے بطور ِ ثبوت چند ایک واقعات کا ذکر کردیا، اگر کتبِ تواریخ اور اسماء الرجال کا عمیق نظر سے مطالعہ کیا جائے تو بیسیوں ایسے واقعات ہیں جن میں ائمۂ دین کا معمول بتایا گیا ہے کہ وہ اکابر صالحین کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔ اکابر ائمہ اور اسلاف نے کبھی بھی اس عمل کو خلافِ شریعت قرار نہیں دیا۔
شرط یہ ہے کہ جس ہستی کی زیارت کی جائے وہ صالح ہو اور اس زیارت سے زائر کا مقصد بھی حصولِ رضائے الٰہی ہو۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ محض رضائے الٰہی کی خاطر ملاقات و زیارت اور باہم محبت و الفت کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اُمت کے اس عمل کو ناجائز قرار دے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ خود قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved