قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمهِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمهِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے:
وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 64
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاهِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے۔ حافظ ابنِ کثیرؒ اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:
یُرشد تعالی العصاة والمُذنبین إذا وقع منهم الخطأ والعصیان أن یأتوا إلی الرسول صلی الله علیه وآله وسلم، فیستغفروا اللہ عنده، ویسألوه أن یغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب اللہ علیهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال: {لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا} وقد ذکر جماعة منهم الشیخ أبومنصور الصبّاغ فی کتابه الشامل ’الحکایة المشهورة، عن العتبی، قال: کنتُ جالساً عند قبر النبي صلی الله علیه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال: السلام علیک یارسول اللہ ! سمعتُ اللہ یقول: {وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا} وقد جئتُکَ مستغفرًا لذنبي مستشفعًا بکَ إلی ربي۔ ثم أنشأ یقول:
یا خیر من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طیبهن القاع والأکم
نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فیه العفاف وفیه الجود والکرم
ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عیني، فرأیت النبي صلی الله علیه وآله وسلم فی النوم، فقال: یا عتبی! الحق الأعرابيّ، فبشره أن اللہ قد غفر له.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 519۔ 520
اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیںاور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اِسی لئے فرمایا گیا: لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے)۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے: عُتبی کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی نے وہاں آکر کہا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ میں آپ صلی اللہ علیک وسلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے:
(اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی اللہ علیک وسلم رونق افروز ہیں، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے۔)
پھر اعرابی واپس لوٹ گیا تو مجھے نیند آگئی، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے: عُتبی! اعرابی، حق کہہ رہا ہے، پس تو جاکر اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔‘‘
اِمام قرطبی نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن (5: 265۔ 266)‘‘ میں عتبیکی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے:
روی أبو صادق عن علي قال: قدِم علینا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم بثلاثۃ أیام، فرمی بنفسہ علی قبر رسول اللہ صلی الله علیه وآله وسلم، وحَثَا علی رأسہ من ترابہ، فقال: قلتَ یا رسول اللہ ! فسمعنا قولک، و وَعَیْتَ عن اللہ فوعینا عنک، وکان فیما أنزل اللہ علیک: {وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَهُمْ} الآیۃ، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي۔ فنودی من القبر أنہ قد غفر لک.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 5: 265
’’ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اور عرض کیا: یارسول اللہ! آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک وسلم کا قول مبارک سنا ہے، آپ صلی اللہ علیک وسلم نے اللہ سے احکامات لئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیک وسلم سے احکام لئے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ’’وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَهُمْ … (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے …)۔‘‘ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے، آپ صلی اللہ علیک وسلم میرے لیے اِستغفار فرمادیں۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی: ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے۔‘‘
قرطبی کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الإیضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص: 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبیر (3: 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی حنبلی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5: 30)‘‘ میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ جن میں امام ابنِ کثیر، امام نووی، امام قرطبی، امام ابنِ قدامہ، امام سبکی، امام سیوطی، امام زرقانی سمیت کئی أئمہ شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے؟ یا (معاذ اللہ ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا؟
لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُهَاجِرًا إِلَی اللهِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہٗ عَلَی اللهِ.
النساء، 4: 100
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۔‘‘
آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاںخانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت إلی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اَز رَهِ شان و فضیلت کہیں اپنے روضۂ اَقدس، کہیں اپنے مسکن مبارک اور کہیں اپنے منبرِ اَقدس کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔ اس شان و فضیلت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اُمت میں اِن مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا شوق اور رغبت پیدا ہو۔ ذیل میں قبرِ انور کی فضیلت بزبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ، وَمِنْبَرِي عَلَی حَوْضِي.
’’میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، اور( روزِقیامت ) میرا منبر میرے حوضِ(کوثر ) پر ہو گا۔‘‘
2۔ ابو صالح ذکوان سمان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے:
مِنْبَرِي هَذَا عَلَی تُرْعَۃٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّۃِ، وَمَا بَیْنَ حُجْرَتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 534
’’میرا یہ منبر جنت کی نہروں میں سے ایک نہر(کوثر کے کنارے ) پر (نصب) ہو گا اور میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
3۔ محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو روضۂ اَطہر کے پاس روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے: یہی وہ جگہ ہے جہاں (محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں) آنسو بہائے جاتے ہیں۔ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ.
بیهقی، شعب الإیمان، 3: 491، رقم: 4163
’’میری قبر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
4۔ اُم المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبُ فِی الْجَنَّۃِ.
’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں پیوست ہیں۔‘‘
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِمام بخاری اور اِمام مسلم جیسے اَجل اَئمهِ حدیث نے اپنی کتب میں روضۂ اَطہر اور منبر مبارک کی درمیانی جگہ کی فضیلت سے متعلق اَحادیث بیان کرتے ہوئے اُس کا عنوان اِس طرح قائم کیا ہے:
اِن اَحادیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قبرِ انور کی نشاندہی کرتے ہوئے خود فرما دیا کہ میری قبرِ اَنور میری اَزواجِ مطہرات کے گھروں میں ہے، لہٰذا مَا بَیْنَ بَیْتِي کے الفاظ میں معناً قبرِ اَنور مراد ہے، جبکہ قبرِ اَنور کا ذکر لفظاً (مَا بَیْنَ قَبْرِي) بھی آیا ہے، اور اُن کی زیارت کے لئے جانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص جنت میں جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک زیارتِ قبر انور کی نیت سے سفر کرنا اُمتِ مسلمہ کا پسندیدہ اور محبوب عمل رہا ہے۔ ایسا محبوب عمل جس کی ادائیگی تو کجا اس کی محض یاد بھی موجبِ برکت و سعادت ہے۔
خود سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ گرامی میں روضۂ اقدس کی زیارت کی ترغیب دی اور زائر کے لئے شفاعت کا وعدہ فرمایا:
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے روضۂ اَطہر کی زیارت کے حوالے سے اِرشاد فرمایا، جسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے:
مَنْ زَارَ قَبْرِي، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي.
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ’حلّت لہ شفاعتي‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ امام نبہانی ؒ ’’شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق (ص: 77)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اَئمهِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
امام سبکیؒ اس حدیث کی چند اِسناد بیان کرنے کے بعد تعدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مذکورہ حدیث حَسن کا درجہ رکھتی ہے۔ جن احادیث میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے، اِن احادیث سے مذکورہ حدیث کو تقویت ملتی ہے اور اِسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتاہے۔‘‘
سبکی، شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام: 3، 11
عبد الحق اِشبیلی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام سیوطی نے ’’مناہل الصفا فی تخریج أحادیث الشفا (ص: 71)‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔ شیخ محمود سعید ممدوح ’’رفع المنارۃ (ص: 318)‘‘ میں اس حدیث پر بڑی مفصل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور قواعدِ حدیث بھی اِسی رائے پردلالت کرتے ہیں۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے زائر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت متحقق اور لازم ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ سے زائر کی معافی و درگزر کی سفارش کرنا لازم ہو گیا۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ زَارَنِي بِالْمَدِیْنَۃِ مُحْتَسِبًا کُنْتُ لَهُ شَهِیْدًا وَشَفِیْعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
عسقلانی نے ’’تلخیص الحبیر (2: 267)‘‘ میں اسے مرفوع کہا ہے۔
’’جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہوکر میری زیارت کا شرف حاصل کیا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
3۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ جَائَ نِی زَائِرًا لَا یَعْمَلُهُ حَاجَۃً إِلَّا زِیَارَتِی، کَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَکُوْنَ لَهُ شَفِیْعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’جو شخص بغیر کسی حاجت کے صرف میری زیارت کے لیے آیا اُس کا مجھ پر حق ہے کہ میں روزِ قیامت اُس کی شفاعت کروں۔‘‘
ابن السکن نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’السنن الصحاح مأثورۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے خطبہ میں اس کتاب میں نقل کردہ روایات کو بالاجماع ائمہ حدیث کے نزدیک صحیح قرار دیا ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کو اُنہوں نے ’’کتاب الحج‘‘ میں باب ثواب من زار قبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نقل کیا ہے۔
4۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ زَارَ قَبْرِي، أَوْ قَالَ: مَنْ زَارَنِي کُنْتُ لَهُ شَفِیْعًا أَوْشَهِیْدًا، وَ مَنْ مَاتَ فِی أَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بَعَثَهُ اللهُ مِنَ الآمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃ.
’’جس نے میری قبر یا (راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ) میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اور جو کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا، اللہ تعالیٰ اُسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا۔‘‘
5۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے:
مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعَدَ وَفَاتِي، فَکَأَنَّمَا زَارَنِي فِیْ حَیَاتِي.
’’جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘
جو لوگ اپنے باطل عقیدے کی بناء پر حدیث ’’لا تشدّ الرّحال‘‘ سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ اقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کے ساتھ ساتھ انبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت سے منع کرتے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) سفر معصیت و گناہ اور شرک قرار دیتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں۔ صحیح عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہوا۔ صحابہ کرام ث کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی حاضری بلند درجہ باعثِ ثواب اعمال میں سے ہے۔ نیز قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ اسلام کا یہ معمول ہے کہ وہ ذوق و شوق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضری کے لئے جاتے ہیں اور اسے دنیاو ما فیہا سے بڑھ کر عظیم سعادت و خوش بختی سمجھتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے:
مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَ لَمْ یَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي.
’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری (قبرِ اَنور کی) زیارت نہ کی تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بڑا واضح ہے۔ اِس میں اُمتِ مسلمہ کے لئے کڑی تنبیہ بھی ہے کہ جس مسلمان نے حج کی سعادت حاصل کی مگر حضور ں کی بارگاہ میں حاضری نہ دی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جفا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم سے محروم ہوا جبکہ زائرِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا منفرد اعزاز نصیب ہوگا۔ اس حوالے سے اِمام سبکی ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیرالأنام (ص: 11)‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’روضۂ اقدس کی زیارت کرنے والے عشاق کو وہ شفاعت نصیب ہوگی جو دوسروں کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زائرینِ قبرِ اَنور ایک خاص شفاعت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے اور اُنہیں بالخصوص یہ منفرد اِعزاز حاصل ہو گا۔ اس سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کی برکت کے باعث شفاعت کے حقدار ٹھہرنے والے عمومی افراد میں زائر کا شامل ہونا واجب ہوجاتا ہے۔ بشارت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زائر حالتِ اِیمان پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگا۔ یہاں اس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ فرشتے اور اللہگ کے مقرب بندے بھی شفاعت کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہونے والوں کا اعزاز یہ ہے کہ خود آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی شفاعت فرمائیں گے۔‘‘
آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اقدس کائناتِ ہست و بود کا سب سے بلند درجہ متبرک مقام ہے۔ کیوں نہ ہو کہ وہ اللہ رب العزت کے محبوب ترین مطہر و مقدّس نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے مدفن ہے۔ گنبدِ خضراء وہ مبہطِ انوارِ الٰہیہ ہے جہاں قدسیانِ فلک صبح و شام 70، 70 ہزار کی تعداد میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ایک مومن صادق کے دل میں ہر وقت یہ تمنا مچلتی ہے کہ کاش! مجھے اس بارگاهِ بے کس پناہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے۔ خاکِ طیبہ کو آنکھوں کا سرمہ بنانے اور وہاں کی پاکیزہ فضائوں میں سانس لینے کی آرزو قرونِ اولیٰ سے لے کر آج کے دن تک ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امتی کے دل میں رہی ہے۔ جمہور ائمهِ فقہاء کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت محبوب، مستحسن اور موجبِ رحمت و سعادت عمل ہے، اس پر اتفاق ہے۔
1۔ علامہ ابنِ ہمامؒ (م 681ھ) لکھتے ہیں:
قال مشائخنا رحمھم الله تعالیٰ: من أفضل المندوبات، وفي مناسک الفارسي و شرح المختار أنھا قریبۃ من الوجوب لمن لہ سعۃ.
ابن همام، فتح القدیر، 3: 179
’’ہمارے مشائخ کرام نے کہا: زیارتِ روضۂِ اطہر علی صاحبھا الصّلاۃ والسلام بلند درجہ مستحب عمل ہے۔ مناسک الفارسی، اور شرح المختار میں لکھا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کے لیے (زیارتِ روضۂِ اقدس کا درجہ) وجوب کے قریب ہے۔‘‘
2۔ علامہ ابنِ ہمام ہی نے لکھا ہے:
والأولی فیما یقع عند العبد الضعیف تجرید النّیّۃ لزیارۃ قبر النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم.
ابن ھمام، شرح فتح القدیر، 2: 180
’’بندۂ ضعیف (ابن ھمام) کے نزدیک محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کی نیت کرنا بھی اولیٰ ہے۔‘‘
3۔ علامہ ابنِ قدامہ حنبلی (م 620ھ) نے فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’’الکافی‘‘ اور ’’المغنی‘‘ میں لکھا ہے:
ویستحبّ زیارۃ قبر النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم وصاحبیہ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں صحابہ (حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما) کی مبارک قبروں کی زیارت مستحب ہے۔‘‘
علامہ ابنِ قدامہ نے اپنے مذکورہ قول کے ثبوت میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب میں احادیثِ مبارکہ کا ذکر کیا ہے۔ زیارتِ قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سفر ان کے نزدیک امرِ مباح اور جائز ہے۔
ابن قدامہ، المغنی، 2: 52
4۔ عارفِ کامل حضرت ملا جامیؒ کے بارے میں منقول کیا ہے کہ انہوں نے حج کے بعد محض زیارتِ قبر انور کے لیے الگ سفر اختیار کیا تاکہ اس سفر کا مقصد زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کچھ نہ ہو۔
ابن قدامہ، المغنی، 2: 52
ائمۂ احناف کے نزدیک روضۂ انور کی نیت سے سفر کرنا افضل عمل ہے۔
5۔ علامہ طحطاوی نے لکھا ہے:
الأولی فی الزیارۃ تجرید النّیّۃ لزیارۃ قبرہ صلی الله علیه وآله وسلم.
طحطاوی، حاشیۃ علی مراقی الفلاح، 1: 486
’’زیارتِ قبر انور کے لیے بہتر یہ ہے کہ فقط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کی نیت کی جائے۔‘‘
6۔ علامہ ابنِ عابدین شامی نے لکھا ہے:
قال في شرح اللباب وقد روی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ إذا کان الحجّ فرضًا فالأحسن للحاج أن یبدأ بالحج ثم یثني بالزیارۃ وإن بدا بالزیارۃ جاز.
ابن عابدین، حاشیۃ ابن عابدین، 2: 627
’’شرح اللباب میں ہے حضرت حسن نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ زائرِ حرمین شریفین اگر فرض حج کی ادائیگی کر رہا ہو تو حج سے ابتداء کرے اس لیے کہ فرض درجہ کے لحاظ سے غیر فرض پر مقدم ہوتا ہے۔ بعد ازاں زیارتِ روضۂ اقدس کی الگ نیت کرے اور اگر اس نے زیارتِ قبرِ انور سے ابتداء کی ہے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔‘‘
وہ اس بات کی وجہ یہ لکھتے ہیں:
إذ یجوز تقدیم النّفل علی الفرض إذا لم یخش الفوت بالإجماع.
ابن عابدین، حاشیۃ ابن عابدین، 2: 627
’’نفل کا فرض پر مقدم کرنا جبکہ فرض کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو بالاجماع جائز ہے۔‘‘
مذکورہ بالا اختیار اس صورت میں ہے جب زائر کا گذر مدینہ منورہ سے نہ ہو۔ اگر اس کا گذر مدینہ طیبہ اور روضۂ انور کے قرب سے ہو تو پھر زیارتِ روضۂِ انور ناگزیر ہے۔ علامہ ابنِ عابدین شامی نے لکھا ہے:
فإن مرّ بالمدینۃ کأھل الشام بدأ بالزّیارۃ لا محالۃ لأن ترکھا مع قربھا یعدّ من القساوۃ والشّقاوۃ وتکون الزیارۃ حینئذ بمنزلۃ الوسیلۃ وفي مرتبۃ السنۃ القبلیۃ للصّلاۃ.
ابن عابدین، حاشیۃ ابن عابدین، 2: 627
’’اور اگر زائرِ حرمین کا گزر ہی قرب مدینہ منورہ سے ہو جیسے ملک شام کے لوگوں کے لئے تو اسے بہرصورت زیارت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ابتدا کرنی ہو گی، کیونکہ زائر کا اس کے قرب سے گزرنے کے باوجود اس کی زیارت کو ترک کرنا بد بختی اور قساوتِ قلبی کی دلیل ہے۔ اس صورت میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بنے گی اور اس کا یہ عمل درجۂ ادائیگی میں ایسا ہے جیسے فرض نماز سے پہلے سنت نماز کی ادائیگی۔‘‘
قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت، قرآن و سنت، فعلِ صحابہ، اجماع، عرفِ عام اور قیاس سے ثابت شدہ باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔ شمع ٔرسالت کے پروانوں کا رقصِ مستانہ آج بھی جاری ہے، جاں نثاروں کے والہانہ عشق و محبت کاجذبہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے بلکہ عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جذبۂ جاں نثاری کو ایک تحریک بنا دیا ہے۔ بعد اَز وِصال بھی صحابۂ کرامثسے لے کر لمحۂ موجود تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اَطہر مرجعِ خلائق بنا ہوا ہے، درِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر لمحہ صلِ علیٰ کے سرمدی پھولوں کی بہار دِلوں کے غنچے کھلاتی رہتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا در آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کُھلا رہے گا۔ اگر آج کا انسان امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں ہے اور اُفقِ عالم پر دائمی امن کی بشارتیں تحریر کرنے کا داعی ہے تو اُسے دہلیزِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجھک جانا ہو گا، اس لئے کہ گنبدِ خضرا کو اپنی سوچوں کا مرکز و محور بنائے بغیر باغِ طیبہ کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کو اپنے ویران آنگن کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا، امن کی خیرات اسی در سے ملے گی، اس لئے کہ ذہنوں کی تہذیب و تطہیر کا شعور اُسی دَرِ پاک کی عطائے دلنواز ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved