ایمان کا اساسی اور بنیادی تصور یہ ہے کہ توحید و رسالت ایک ہی نور کی دو شعاعیں ہیں۔ یہ دونوں انوار ایک ہی منبع و سرچشمہ سے پھوٹتے ہیں۔ توحیدِ باری تعالیٰ تک رسائی واسطهِٔ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے ممکن ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم قدرے تفصیل سے اس حقیقت پر روشنی ڈال چکے ہیں کہ درِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہنچے بغیر عقیدۂِ توحید کا دعویٰ خام، بے بنیاد اور غیر معتبر ہے۔ واسطۂ نبوت و رسالت کے بغیر نہ کسی کو اللہ تعالیٰ کے وجود کا علم ہے نہ اس کی اُلوہیت کا، نہ اس کی وحدانیت کا اور نہ ربوبیت کا۔ واسطۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر نہ تو خدا کی معرفت نصیب ہوتی ہے اور نہ دینِ حق کی ہدایت، الغرض واسطهِٔ نبوت کے بغیر معبودِ حقیقی کی پہچان اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش بھی محض ضلالت و گمراہی ہے۔ اگر دین سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا واسطہ الگ کر دیا جائے تو اہلِ اسلام کے پاس نہ وجودِ باری تعالیٰ کا اِیقان باقی رہ جاتا ہے اور نہ ہی توحیدِ اُلوہیت کی یقینی تصدیق۔ اس طرح نہ قرآن کے وحی ہونے کی کوئی حتمی سند باقی رہتی ہے اور نہ اسلام کی صحت و حقانیت کی قطعی دلیل۔
تفہیمِ وسائط کے ذیل میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ گ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بعض معاملات اور اُمور ایسے ہیں کہ ان کی نسبت بھی الگ نہیں اور شرعاً ان کا حکم بھی الگ نہیں۔ ان میں صرف لفظی ثنویت ہے معنوی نہیں، صرف لفظی غیریت ہے حکمی نہیں۔ یعنی ان کے درمیان اشتراک اتنا قوی اور اقرب ہے کہ وہ حکمِ وحدت کے ذیل میں آتے ہیں اور وہ اشتراک صفت مشترک نہیں بلکہ محض درمیان کے واسطے ہوتے ہیں۔ کبھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی لیا جاتا ہے اور نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف مقصود ہوتی ہے لہٰذا یہ طے شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اگر درمیان سے نکال دی جائے تو دینِ اسلام کی عمارت دھڑام سے نیچے گر جائے گی اور انسان محض ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں پھرتا رہے گا۔ جیسا کہ گزشتہ فصل میں واضح ہوگیا ہے کہ نبوت و رسالت خود بندے اور خدا کے درمیان واسطے کا نام ہے۔ انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت دراصل اللہ تعالیٰ کا اپنے اور بندے کے درمیان واسطہ مقرر کر دینا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂِ حسنہ خود احکامِ الٰہی کی پیروی کیلئے واسطہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلام کے رد و قبول کیلئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور حیاتِ طیبہ کو ہی حتمی معیار اور کامل دلیل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo
یونس، 10: 16
’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کر چکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ ‘‘
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے تعلقِ محبت و اطاعت اُستوار کرنے کیلئے واسطۂِ رسالت ناگزیر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اُستوار کرنے کیلئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق ہی واسطہ بنتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے تعلق ہے، یہ تساوی نہیں بلکہ توحید ہے، شرک نہیں بلکہ اشتراک ہے۔ یہ حکمی وحدت منافیٔ توحید نہیں بلکہ عینِ توحید ہے۔
قرآن و حدیث کی رو سے وسائط نہ صرف یہ کہ کلی و حتمی جواز رکھتے ہیں بلکہ شرعی احکام و فرامین کی تعمیل کے لئے انتہائی ضروری اور ناگزیر ہیں۔ ان میں سے بعض فرض، واجب، سنت مؤکدہ یا سنت غیر موکدہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائط کی چند معروف اقسام درج ذیل ہیں:
مندرجہ بالا اقسام میں سے صرف ایک آخری قسم واسطۂ تعبد واسطۂِ شرکیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت خواہ تقرب الٰہی کے لیے کیوں نہ ہو شرک ہے۔ باقی سارے واسطے مختلف جہتوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور کبھی اولیاء اللہ سے اُستوار ہوتے ہیں۔ جیسے واسطہ ولایت، واسطہ حرمت و تعظیم وغیرہ۔ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے جونہی واسطہ کا لفظ آتا ہے تو اسے شرک قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔ دراصل یہ مغالطہ حقوقِ توحید اور حقوقِ رسالت نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ مطلقاً واسطہ کا انکار کر دینا سراسر غلط اور نصِ صریح کا انکار ہے جو انکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کفر کی طرف لے جاتا ہے۔
ذیل میں ہم مندرجہ بالا وسائط کی مختصراً وضاحت پیش کرتے ہیں تاکہ ہر ایک کی اہمیّت سمجھ میں آ جائے۔
معرفت باری تعالیٰ اور اتباع و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایمان ایک بنیادی واسطہ ہے۔ یہ واسطہ ہمیں اللہ گ کے محبوب رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے نصیب ہوا ہے۔ صحیح عقیدۂ توحید تب متحقق ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، یوم آخرت پر، جنت اور جہنم پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کامل ایمان لایا جائے۔
ایمان سب سے بلند عملِ صالح اور عظیم ترین واسطہ اور وسیلہ ہے۔ اس سے کوئی عمل اونچا نہیں کیونکہ عمل خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، جب تک عمل کرنے والے کے اندر مضبوط ایمان نہ ہوگا اس کا عمل بے کار اور لغو و باطل ہو جائے گا یعنی نجاتِ اُخروی اور اعمال کے ہر اجرو ثواب کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لازمی اور مقبول ترین واسطہ ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللهِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا قز غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُo
البقرۃ، 2: 285
’’(وہ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں:) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہےo‘‘
2۔ پھر سورہ النساء میں ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا بِاللهِ وَ رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللهِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًاo
النساء، 4: 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا۔ ‘‘
3۔ سورۃ الفتح میں عدمِ ایمان کی صورت میں عذاب کی وعید سنائی، ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ م بِاللهِ وَ رَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًاo
الفتح، 48: 13
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان نہ لائے تو ہم نے کافروں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ واسطۂِ ایمان کے بغیر کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا اور نہ اِس کے بغیر قرآن، اِسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت ممکن ہے۔ ایمان جب دل میں سرایت کر جاتا ہے تو زبان اوراعضاء و جوارح سے اس کی برکتوں کا ظہور ہوتا ہے اور بندہ ایسے اعمال بجا لاتا ہے جس سے رضائے الٰہی نصیب ہوتی ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تکمیل ایمان کا ضروری تقاضا ہے۔ ازروئے قرآن سچا مؤمن وہ ہے جو اللہ رب العزت سے سب سے بڑھ کر محبت کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ ط وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ.
البقرہ، 2: 165
’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے غیروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’’اللہ سے محبت‘‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ‘‘
آیات ربانی اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت شرط ایمان ہے۔
2۔ ارشادِ ربانی ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُم تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمْ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
آل عمران، 3 : 31
’’(اے حبیب!) آپ فرمادیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں(اپنا) محبوب بنالے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ‘‘
ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت کے بغیر کوئی شخص کامل مومن ہو جائے، ایں خیال است و محال است و جنوں والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر اہلِ ایمان کے لئے سرمایہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کو اپنا شعارِ حیات بنائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو میں اسے اپنا محبوب بنا لوں گا۔
3۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے واسطۂ محبت کا تذکرہ یوں فرمایا:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآ ؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِاقْتَرَ فْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سِبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo
التوبہ، 9: 24
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگرتمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر)رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم(عذاب) لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ‘‘
اس آیتِ مبارکہ کے آخری حصہ میں تین محبتوں کا ذکر ہے:
ان تینوں محبتوں کو ایک تسلسل میں بیان کیا گیا ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آخر میں نصرت دین کے لئے جہاد سے محبت۔ یہ تینوں محبتیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق ایمان کے استحکام کے لئے واسطہ ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے محبت شرک ہوتی تو وہ عبادت کی طرح محبت کو بھی اپنا اختصاصی و امتیازی حق قرار دے دیتا لیکن اس نے کہیں ایسا نہیں فرمایا، بلکہ محبت کے باب میں صراحت کے ساتھ تینوں یعنی اللہ، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو محبت کا حقدار و سزاوار ٹھہرایا اور فرمایا ہے کہ اگر اہلِ ایمان میں کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا منتہائے مقصود بنا لے، اسے میری محبت حاصل ہو جائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ محبت کا حق، عبادت کی طرح صرف اللہ تعالیٰ کا اختصاصی حق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِ اللہ سب کے ساتھ محبت، چاہت اور اپنائیت کے تعلقات و روابط استوار کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس تعلق کی استواری کو خلقِ خدا کی ضرورت قرار دیا گیا ہے۔ ذیل میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُولُ یَومَ الْقِیَامَۃِ: أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي؟ اَلْیَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي.
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تاکہ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں کیونکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔ ‘‘
2۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ ِللهِ، وَأَبْغَضَ ِللهِ، وَأَعْطَی ِللهِ، وَ مَنَعَ ِللهِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِیْمَانَ.
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا پس اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔ ‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذَا أَحَبَّ اللهُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِیْلَ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُلانًا فَأَحْبِبْهُ۔ فَیُحِبُّهُ جِبْرِیْلُ، فَیُنَادِي جِبْرِیْلُ فِي أَھْلِ السَّمَاءِ: إِنَّ اللهَ یُحِبُّ فُلاَناً فَأَحِبُّوهُ، فَیُحِبُّهُ أَھْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ یُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الأَرْضِ.
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیلں کو بلا کر حکم فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تو بھی اس سے محبت کر پس حضرت جبرئیلں اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیلں آسمانی مخلوق میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں بھی اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو محبت کا حکم دیا۔ محبتِ صحابہث و اہلِ بیت، محبتِ ’’پنج تن پاک‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت سیدہ فاطمہ، حسنین کریمین اور حضرت علی ص) محبتِ اولیائ، محبتِ اہل اللہ اور محبتِ صالحین کے بارے متعدد احادیثِ مبارکہ مروی ہیں، ائمہ حدیث نے کتبِ احادیث میں الحب فی اللہ کے عنوان سے ابواب قائم کرکے اس موضوع کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ جبکہ حدیثِ قدسی میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میں ان لوگوں سے محبت کرتا ہوں جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی ایک دوسرے سے محبت، تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہوتی ہے اور ان میں قدر مشترک میری ذات سے محبت ہے۔
لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اہلِ بیت اطہار اور اولیاء و صلحاء کرام سے محبت شرک نہیں کیونکہ اس محبت کی اساس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ محبت پر استوار ہے جو محبت الٰہی کا واسطہ ہے۔
قرآن و سنت کی بے شمار نصوصِ قطعیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ انبیاء و رسل عظام کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل کے ساتھ ساتھ ان کی تعظیم و توقیربھی واجب ہے۔ بالخصوص اللہ تبارک و تعالیٰ نے مالک و مولا اور خالق کائنات ہونے کے باوجود بھی خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے آداب سکھائے، اونچا بولنے سے منع کیا اور لاپرواہی سے پکارنے کو حرام ٹھہرایا۔ خلاف ورزی پر تمام اعمال برباد کر دینے اور ساری محنت و کمائی پر پانی پھیر دینے کی وعید سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کے مرتبہ و مقام کو ملحوظ رکھنے اور انہیں ایذا پہنچانے سے اجتناب و احتراز کا حکم دیا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے کا ادب اور سلیقہ سکھلایا۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کیفیتِ خطاب و نداء سے آگاہ فرمایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے کی اہمیت اور فوری حاضری کے وجوب کو بیان کیا اور تغافل و لا پرواہی کے امکانات کا سدّ باب کیا۔
قرآن و سنت کی ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بلندئ مقام کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کما حقہ مستفیض ہوسکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر، اطاعت و اتباع اور معیت و محبت کو شرک کے زمرے میں شامل کر کے منافیٔ توحید نہ سمجھیں۔ پس انبیاء کرام اولیاء عظام صالحین اور شعائراللہ کی تعظیم شرعاً عملِ صالح ہے جواللہ تعالیٰ کے قرب اور رضا کا ذریعہ ہے۔
کو ئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعا لیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افعال جو بزرگوں کی تعظیم پر مبنی ہوں وہ اسلامی تعلیمات کی تعمیل ہے اور کسی طرح بھی توحید سے متعارض و متصادم نہیں اِس لئے یہ ہرگز شرک کے دائرے میں نہیں آتے۔ (توحید اور تعظیم پر تفصیلی بحث ہم باب اوّل میں کر چکے ہیں۔
اللہ رب العزت کی ذات ہی انتہائی تعظیم اور عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت شرک ہے لیکن انبیاء علیہم السلام ادب و احترام اور تعظیم و تکریم شرک نہیں بلکہ یہ فرائض دینی میں سے ہے۔ اور شرعاً واجب ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی نسبت کی حرمت بھی واجب اور ایمان کا حصہ ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں کا بھی دل و جان سے احترام و اکرام کیا جائے جو اللہ رب العزت کو محبوب ہیں۔ اللہ رب العزت کے برگزیدہ بندوں انبیاء علیہم السلام اور ان کی نسبت سے بعض مقدّس مقامات و اماکن اور آثار و تبرکات کا دل و جان سے ادب و احترام اور محبت و عقیدت قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ مثلاً
واسطۂ تعظیم و حرمت کا جواز متعدد قرآنی آیات سے ثابت ہے اس پر تفصیلی بحث ہم اسی کتاب کی جلد اوّل ’’باب توحید فی التحریمات‘‘ میں کر چکے ہیں۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الحج میں شعائر اللہ کی تعظیم اور حرمت کو تقویٰ کا واسطہ قرار دیا، ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِo
الحج، 22: 32
’’اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو۔ ‘‘
قرآن حکیم کی آیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اس حرمت، تحریم اور توقیر و تکریم میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں اور نہ یہ غیر اللہ کی عبادت ہے۔ ہم کئی چیزوں کی ازروئے شرع حرمت و تعظیم بجالاتے ہیں مثلاً حرمین شریفین شہر مکہ و مدینہ کا ادب و احترام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی حرمت و تعظیم، قرآن کے مقدس اوراق کا ادب، اسی طرح مسجدوں کے در و دیوار کی تعظیم، پتھروں کی تعظیم الغرض جس مقدس چیز سے جب بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہو گئی ان سب سے ادب و احترام کا تعلق واسطۂِ حرمت ہے جو شرعاً جائز اور ثابت ہے۔ اور یہی واسطہ حصولِ تقویٰ کا باعث بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان اطاعت کا تعلق ایک ایسا واسطہ ہے جس میں حکمی وحدت ہے۔ اس واسطہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی اطاعتیں ایک ہی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللهَ وَ رَسُوْلَـہٗ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo
الانفال، 8: 20
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی اطاعتوں کا ذکر ہے لیکن روگردانی کو ایک قرار دیا ہے فرمایا: وَلَا تَوَلَّوْ عَنْهُ ’’اس سے روگردانی مت کرو‘‘ اگر دونوں اطاعتیں الگ الگ ہوتیں تو ضمیر ’’عنھما‘‘ استعمال ہوتا لیکن عَنهُ سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ایک ہی ہے۔ اس لئے اس سے روگردانی اور نافرمانی کو بھی ’’عَنْهُ‘‘ کہہ کر ایک ہی روگردانی قرار دیا گیا اسے ’’حکمی وحدت‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی مزیدتائید اللہ رب العزت کی اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے، فرمایا:
مِنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاَعَ اللهَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظَاo
النساء، 4: 80
’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کاحکم مانا، بیشک اس نے اللہ (ہی)کا حکم مانا اورجس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ‘‘
قرآن مجید میں درجنوں مقامات پر اللہ تعالیٰ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا ذکر ’’وَ اَطِیْعُوا اللهَ وَ اَطِیْعُو الرَّسُوْل‘‘ اور وَمَنْ یُطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ یکجا ہوا ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ دونوں اطاعتیں ایک ہی ہیں۔ چونکہ آقائے دوجہاں حضور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی، حق اور باطل کے مابین معیارِ حق اور حدِ فاصل کا درجہ رکھتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطۃ الاطاعۃ بنایاگیا۔ احکامِ شریعت پر عمل درآمد اور عبادات کی قبولیت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور طرزِ عمل کو نمونہ قرار دیا گیا جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اور کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ (661ھ۔ 278ھ) نے اس موضوع پر بہت عمدہ لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:
وأن جهۃ حرمۃ الله تعالیٰ و رسوله جهۃ واحدۃ فمن آذی الرسول فقد آذی الله ومن أطاعه فقد أطاع الله تعالیٰأن الأمۃ لا یصلون ما بینهم و بین رَبّهم إلا بواسطۃِ الرّسول، لیس لأحدٍ منهم طریق غیره ولا سبب سواه.
ابن تیمیۃ، الصارم المسلول: 46
’’اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی جہت ایک ہی ہے۔ لہٰذا جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس لئے کہ امت کے تعلق باللہ کا رشتہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے استوار ہوسکتا ہے کسی کے پاس بھی اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ یا راستہ نہیں۔ ‘‘
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے فیض و برکت حاصل کرنے کا ذریعہ سوائے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کوئی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اُمت کے لئے ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرائض اور اس کی عنایات و نوازشات کے حصول کا ذریعہ واسطۂ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے لوگوں کو علم و حکمت و ہدایت، راہنمائی میسر آتی ہے اور یہی واسطۃ الاطاعۃ ہے۔
احکامِ شریعت کے بنیادی مآخذ دو ہیں:
قرآن وحی جلی پر مشتمل کلامِ الٰہی ہے جبکہ سنت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل پر مشتمل احکامات کا نام ہے جسے وحی خفی قرار دیا گیا ہے۔ دونوں کے احکامات پر عمل کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے مخلوق کے لئے احکام عطا کئے اسی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اُمت کے لئے چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیا۔ گویا اللہ رب العزت نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو اپنا حکم قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللهُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِهِمْ ط وَ مَنْ یَّعْصِ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِیْنًاo
الاحزاب، 33: 36
’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم ) فرمادیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا۔ ‘‘
مذکورہ بالا قرآنی آیت سے یہ امر مترشح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ہے۔ کیونکہ اختلافات میں حقیقی فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی فرمانے والا ہے لیکن اس نے اپنے نبیوں کو فیصلہ کا واسطہ اور ذریعہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ اس کا قائم مقام بن کر ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کے درمیان حکم یعنی فیصلہ صادر کرنے والا بنا کر بھیجا گیا۔ یہ واسطۂ حکم ہے جس کا استشہاد درج ذیل آیاتِ مقدسہ سے ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1۔ فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
النساء، 4: 65
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ ‘‘
2۔ وَاِذَا دُعُوْآ اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَo
النور، 24: 48
’’اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے سے) گریزاں ہوتا ہے۔ ‘‘
3۔ اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
النور، 24: 51
’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
ان آیات پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں تو ان لوگوں کو دربارِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بلایا گیا تھا اور فیصلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمانا تھا لیکن اللہ رب العزت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے اور حکم کی نسبت اپنی طرف فرمائی کہ درحقیقت حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حکمِ الٰہی ہے۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم، بارگاهِ الٰہی کے لئے واسطہ ہو گیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکمِ تحلیل و تحریم بھی ایک ہے۔ ارشاد فرمایا:
4۔ قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَo
التوبۃ، 9: 29
’’(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یوم آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیارکرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکم اسلام کے سامنے)تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ ‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ’حکمی وحدت‘ ہے اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی اور تحریم و تحلیل کا اختیار بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض فرما کر اپنے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک واسطہ اور تعلق قائم کردیا۔ پس اب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کا اقرار اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا انکار خارجی وطیرہ ہے۔ جب اللہ رب العزت نے اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان واسطۂ حکم قائم کیا تو کسی اور کو ان میں کسی قسم کی تفریق کی کوئی اجازت نہیں۔
اللہ رب العزت کی ذات ہر سمت جلوہ گر ہے۔ وہ تمام سمتوں کا خالق ہے۔ اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے وہ کسی خاص سمت کا محتاج نہیں۔ یہ اسی کا فرمان ہے:
وَ ِﷲِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ ط اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo
البقرۃ، 2: 115
’’اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گرہے) بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔ ‘‘
اس ارشاد گرامی کے باوجوداس نے اپنی عبادت کے لئے کعبہ کی سمت مقررکر دی۔ تمام مسلمانانِ عالم بوقتِ نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے نیت کرتے ہیں: ’’میں کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کرکے اللہ کے لئے نمازادا کرتا ہوں۔ ‘‘ یوں وہ نماز کے دوران توجہ الی الکعبۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کعبہ رخ ہو کر سجدہ کرنا کعبہ کے لئے نہیں بلکہ رب کعبہ کے لئے ہوتا ہے۔ کعبہ کی سمت منہ کر کے کھڑے ہونا محض واسطۃ التوجہ اور واسطۃ الاستقبال ہے۔ غالب کا شعر ہے:
حدِ ادراک سے پرے ہے اپنا مسجود
قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لئے شرط لگا دی کہ واسطۂ رسالت ہو گا تو میں عبادت قبول کروں گا اسی طرح اس نے اپنی عبادت، نماز کی ادائیگی کے لئے توجہ الی الکعبۃ کی شرط عائد کر دی کہ اگر عبادت گزار کا چہرہ کعبہ کی طرف ہو گا تو نماز قبول ہو گی ورنہ نہیں۔ کوئی شخص سورۃ البقرہ کی مذکورہ آیت نمبر 115 سے استدلال کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوسنگ و خشت سے بنے ہوئے گھر کی ضرورت نہیں اس کی ذات توہر سمت جلوہ گر ہے لہٰذا میں جس طرف چاہوں رخ کروں۔ وہ سمتوں کا محتاج نہیں۔ بے شک وہ کسی سمت کا محتاج نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔ تمام سمتوں کا خالق بھی وہی ہے اور تمام سمتیں اسی کے لئے ہیں۔ سمتوں کی محتاج تو مخلوق ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت میں ہوتا تو وہ ایسا اہتمام کرسکتا تھا کہ سمت کعبہ کی بجائے مسلمان جس طرف چاہیں رخ کر کے نماز پڑھیں مگر اس پر قادر مطلق ہونے کے باوجود اس کے واسطۂِ توجہ قائم کیا اور تمام مسلمانوں کو کعبہ کی سمت توجہ کرنے کا حکم دیا، ارشاد فرمایا:
وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ لا لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ ق اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ق فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ ق وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo
البقرۃ، 2: 150
’’اور تم جدھر سے بھی (سفرپر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پاجاؤ۔ ‘‘
اب اگر کوئی شخص کعبہ سے رخ ہٹا کر کسی اور سمت ساری زندگی نماز پڑھتا رہے تو ہرگز قبول نہ ہوگی۔
3۔ اسی طرح جب حجاج دورانِ طواف مقامِ ابراہیم کے پاس اس کی طرف توجہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا مقامِ ابراہیم کی طرف متوجہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ط
البقرۃ، 2: 125
’’اور(ہم نے حکم دیاکہ) ابراہیم (ں) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنالو۔ ‘‘
ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے لئے سمت کا تعین لازمی قرار دیا ہے، وہ اپنی عبادت بغیر واسطۂِ جہت کے قبول نہیں کرتا۔ فرائض، واجبات، سنن اور نوافل کی ادائیگی کے لئے کعبہ کی طرف اس کی عبادت کی خاطر متوجہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم اس کے بنائے ہوئے ضابطوں کی تعمیل اور تقاضوں کے مطابق ایک خاص سمت اپنا رخ کریں۔ تبھی وہ ہماری عبادت قبول کرے گا۔ اس نے اپنے گھر یعنی کعبہ کو ہمارے اور اپنے درمیان واسطۃ التوجہ بنا دیا ہے اب اس کی طرف رخ کئے بغیر ہماری کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی، لہٰذا یہ واسطہ ناگزیر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنا پیغام براهِ راست بغیر واسطہ کے بندوں تک نہیں پہنچایا بلکہ اس نے اپناپیغام بندوں کو پہنچانے کے لئے انبیاء و رسل علیہم السلام کو واسطہ بنایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے وہ رسولوں کا محتاج ہے؟ کیا وہ براهِ راست اپنا پیغام نہیں بھیج سکتا؟ اگر وہ بھیج سکتا ہے تو پھر اس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطۃ بین العبد و الرب، واسطۃ بین الخالق و المخلوق اور واسطہ بین العبد و المعبود کیوں بنایا؟ جبکہ وہ براهِ راست ہر ایک کو یہ شعور دینے پر بھی قادر تھا کہ یہ اس کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ خالق ہے، بدیع السمٰوٰت والارض ہے، وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہے اور کُنْ فَیَکُوْن کی شان کا مالک ہے:
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی علیہ السلام کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ اُمت کو نماز اور دیگر عبادات کا نمونہ بتا سکے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ نمونہ بھی ان کے ذہن میں القا کردیتا؟ نماز کے حکم کے ساتھ ہی بتا دیا جاتا کہ نماز کس طرح ادا کرنی ہے۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براهِ راست شعور دے دیا جاتا۔ وہ تو قادرِ مطلق ہے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا تو وہ ان کا محتاج نہیں تھا اور یہ بات بھی نہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی صورت ہی نہیں تھی اس لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجنا پڑا۔ وہ چاہتا تو شعور بھی اور نور فہم بھی دے دیتا۔ یہ اس کے لئے کوئی مشکل بات نہیں (فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْدَ) اور (عَلَی کُلِّ شَئْیِ قَدِیْر) بھی اسی کی شان ہے، وہ کسی سے بھی پیغام رسانی کا کام لے سکتا تھا لیکن قادر مطلق ہونے کے باوجود اس نے یہ دستور مقرر کیا کہ کبھی اپنا پیغام براهِ راست ہر کس و ناکس کو نہیں پہنچایا۔ اس نے اس کام کے لئے اپنے انبیاء و رسل کو واسطہ اور ذریعہ مقرر کیا جنہوں نے واسطہ وحی سے احکام الٰہی پا کر انہیں آگے لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیا۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖیْنَ رَسُوْلًا.
الجمعۃ، 62:2
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا۔ ‘‘
2۔ براہ راست اپنا پیغام لوگوںتک پہنچانے کی بجائے اس نے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقرر کیا ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ ط وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo
المائدۃ، 5: 67
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (رب) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ (مخالف لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتا۔ ‘‘
لہٰذا واسطہ مقرر کرنا خود اللہ تعالیٰ کا دستور اور سنت ہے۔ اس کا شرک سے کوئی تعلق نہیں۔
ذاتی، قدیم اور لامتناہی علم کا مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور وہی اس پر قادر ہے۔ وہ تنہا اور اکیلا ہی اس صفت کا مالک ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی فرد اپنی ذاتی استعداد سے اُمورِ غیبیہ پر مطلع نہیں ہو سکتا۔ رب ذوالجلال اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے غیب پر مطلع فرما دیتا ہے۔ یعنی انبیاء علیھم السلام کے لئے عطا و اطلاع ثابت و جائز ہے۔ انبیاء و رسلِ عظام علیھم السلام کے واسطۂِ علم کا انکارضلالت و گمراہی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ اگر انبیاء کرام علیھم السلام کو علمِ غیب عطا نہ ہو تو نبوت کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔ نبوت کا تو معنی ہی غیب پر مطلع ہونا ہے۔ نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع کرے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات سے ثابت ہے کہ الله تعالیٰ نے علمِ غیب انبیاء و رسل علیھم السلام کو عطا فرمایا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء علیھم السلام سے بڑھ کر علمِ غیب کے خزانے عطا فرمائے ہیں۔ اسی طرح متعدد احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ اس پر تفصیلی بحث اسی کتاب کی پہلی جلد ’’اقسام التوحید‘‘ کے ذیل میں توحید فی العلم میں گزر چکی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ ط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo
الانعام، 6: 59
’’ اور غیب کی کنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے)اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَo
النحل، 16: 89
’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔ ‘‘
اس طرح کی تمام آیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ علمِ نبوت کا منبع وحی الٰہی ہے۔ جب قرآن میں تمام علوم و معارف درج ہیں تواس کا مطلب یہ ہوا کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام علوم و معارف کے خزانے عطا فرمائے اب ہمارے لئے ان پر ایمان لانا واجب ہے۔ علوم ومعارف نبوت کا اقرار ہی حصولِ ہدایت کے لئے عظیم واسطہ ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور خوشنودی جزوِ ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا، رضائے الٰہی کا واسطہ ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بندئہ مومن اِنکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و رضا ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا اور الگ الگ تصور کیا جائے تو اس کا نتیجہ ایمان کی بربادی کی صورت میں نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِ ج فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰهَا.
البقرہ، 2: 144
’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔ ‘‘
سورۂ الضحی میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo
الضحی، 93: 5
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ ‘‘
یہ بات بھی نصِ صریح سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا، الله تعالیٰ کی رضا ہے یعنی ان دونوں میں بھی حکمی وحدت ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
یَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ ج وَاللهُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَo
التوبۃ، 9: 62
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قَسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا کیونکہ دونوں کی رضا ایک ہے)۔ ‘‘
آیتِ بالا کے الفاظ یُرْضُوْهُ میں ’’هُ‘‘ ضمیرِ واحد ہے، حالانکہ اس سے پہلے الله تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی رضا کا بیان ہے۔ عربی زبان میں دو کے لئے ضمیر کا صیغہ واحد نہیں بلکہ تثنیہ استعمال ہوتا ہے۔ قاعدہ کی رو سے یہاں ’’هُ‘‘ کی بجائے ’’ھُمَا‘‘ ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ مقصودِ بیان یہ باور کرانا ہے کہ الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوئی نہیں ان کی رضا ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راضی کرنا اُسے راضی کرنا ہے پس ’’هُ‘‘ ضمیرِ واحد لا کر وحدتِ رضا کا تصور دیا گیاتو ثابت ہوا کہ رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رضائے الٰہی ہے اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک سے بھی انحراف عقیدهِٔ توحید کے منافی ہے۔ رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رضائے الٰہی کے لئے واسطہ و وسیلہ ہے۔ اگر کوئی شخص رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نظر انداز کرکے رضائے الٰہی کے حصول کا طلب گار ہو تو شرعاً اس کا یہ عمل قابلِ قبول نہیں بلکہ ایسا شخص زمرۂ منافقین میں شمار ہوگا کیونکہ درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رُوگردانی بارگاهِ الٰہی سے رُو گردانی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کے حصول کے لئے حضور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو واسطہ قرار دیا ہے۔
عقیدۂ توسُّل نصِّ قطعی سے ثابت ہے۔ اس لیے اس کے شرعی جواز کے بارے میں مطلقاً انکار آیاتِ قرآنی سے انکار کے مترادف ہے۔ رضائے اِلٰہی اور عطائے اِلٰہی کے حصول کے لیے الله تعالیٰ کے حضور کسی کا توسل پیش کرنا ایک ایسا مشروع، مباح اور جائز طریقہ ہے جس کا مقصد الله تعالیٰ کے مقرّب و معزز بندوں کے واسطہ سے الله تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ کرنا ہے تا کہ دعاؤں کی جلدی قبولیت کو ممکن بنایا جا سکے۔ قرآنِ حکیم اور اَحادیثِ مبارکہ میں ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں جو نہ صرف وسیلہ کا جواز فراہم کرتے ہیں بلکہ اِس اَمر کو بھی واضح کرتے ہیں کہ حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، دیگر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء الله رحمہم الله کے توسّل سے دعا کرنا أقرب إلی الإجابت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ وہ اِس اَمر کا پابند نہیں کہ قبولیتِ دعا کے لیے کسی اور کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے۔ وہ بلا واسطہ اپنے بندوں کی دعائیں سننے، قبول کرنے اور لطف و کرم سے نوازنے پر قادر ہے۔ لیکن یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ بہت سے نفوسِ قدسیہ اور اُمورِ صالحہ جو اُسے پسند اور محبوب ہیں اِن کی نسبت سے نہ صرف یہ کہ عمل بابرکت ہو جاتا ہے بلکہ دُعا کی قبولیت کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
یہ مبارک عمل حضرت آدم ںاور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اور پھر عہد صحابہ و تابعین سے لے کر تاحال اُمت میں مقبول اور متداول چلا آرہا ہے۔ اب بعض لوگ دین کی صحیح معرفت نہ ہونے کے باعث اس پر اعتراض کرنے لگے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) توحید کے منافی سمجھنے لگے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بات بات پر کفر و شرک کے فتوے جاری کرنے کی بجائے احکام شریعت کی حقیقی روح کو سمجھا جائے۔
بعض حضرات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگنے میں بھی تامل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا‘ اللہ تعالیٰ سے براہ راست مانگنے کے منافی ہے۔ وہ قرآن مجید کی ان آیات کا جن میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرانے کا حکم ہے، صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی بنا پر خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا (معاذ اللہ) کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ تصور کتاب و سنت کی روح کو نہ سمجھنے کے باعث پیدا ہوا ہے، ہمیں اس خود ساختہ تصور کی اِصلاح کرنی چاہیے۔
اَنبیاء و رسل علیہم السلام میں سے کسی کو، یا اللہ تعالیٰ کے کسی مقرّب اور صالح بندے کو یا کسی بھی عملِ صالح کو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کی بارگاہ میں بطورِ وسیلہ پیش کرنا نہ تو کسی قسم کا شرک ہے اور نہ ہی براہ راست اللہ سے مانگنے کے منافی ہے۔ کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنے میں ہرگز ہرگز یہ عقیدہ کارفرما نہیں ہوتا کہ وہ مقبول و مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جا رہا ہے دعا قبول کرے گا یا وہ اللہ بزرگ و برتر کو (معاذ اللہ) اس اَمر پر مجبور کردے گا کہ فلاں کا کام ہونا چاہئے یا فلاں بندے کی بخشش و مغفرت لازمًا کردی جائے۔ (اس موضوع پر تفصیلی بحث اسی کتاب کے دوسرے باب میں ہو چکی ہے)
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اَنبیاء و صالحین علیہم السلام سے منسوب چیزیں بڑی با برکت اور فیض رساں ہوتی ہیں۔ نصوصِ شرعیہ کی بناء پر آثارِ صالحین سے حصولِ برکت کا جواز قوی دلائل سے ثابت ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ کسی چیز کے اندر خیر و برکت کا ہونا ہرگز منافیٔ توحید نہیں ہو سکتا۔ الله رب العزت کے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا تبرک و تیمن کا واسطہ اختیار کرنا نصوصِ قرآنی سے ثابت ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عمل شرک اور خلافِ توحید نہیں۔ مثلًا:
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کے درمیان قمیص کا واسطہ قائم کیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے محراب مریم علیہا السلام سے برکت اور تبرک کا واسطہ اختیار کیا جو شرک نہ ہوا۔ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیمں کے مبارک قدم تعمیر کعبہ کے دوران جس پتھر پر لگے وہ بھی باعث خیر و برکت اور تکریم و تعظیم ہوا۔ لوگ آج تک اس سے برکت حاصل کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر الله تبارک و تعالیٰ نے ’’سورۃالبقرۃ ( 2: 248)‘‘میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پس منظر میں فرمایا ہے۔
برکت اور تبرک قرآن و حدیث کے مستند دلائل سے ثابت شدہ امر شرعی ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض چیزوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے خیر و برکت رکھی ہے۔ ان بابرکت اشیاء سے برکت و رحمت اور سعادت چاہنا اوران کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنا تبرک کے مفہوم میں شامل ہے۔ مثلاً:
اللہ رب العزت نے خانہ کعبہ کو برکت والا گھر قرار دیا ، مسجد اقصیٰ کے گرد و نواح کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔ ائمہ تفسیر نے بابرکت ہونے کی ایک بڑی و جہ انبیاء علیہم السلام کے مزارات قرار دیاہے جو فلسطین اور بالخصوص القدس شریف کی سرزمین میں موجود ہیں۔ تبرک و تیمّن کا واسطہ درحقیقت برکت اور فیض حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ جب ہم بارگاہ اُلوہیت سے حصولِ برکت کیلئے کسی چیز کا واسطہ قائم کر رہے ہوتے ہیں توچونکہ یہ واسطہ اس متبرک چیز کی عبادت نہیں ہوتا اس لئے اس میں شرک کا کوئی احتمال نہیں۔ جیسے مناسکِ حج اداکرتے ہوئے حجر اسود، رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تیمن و تبرک کا واسطہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جب حجر اسود سے برکت کا حصول شرک نہیں تو کسی پیغمبر یا ولی اللہ سے واسطہ تیمن یا واسطہ تبرک شرک کیسے ہو گا؟ اگر ایک پتھر کو واسطہ بنا لینا جائز ہو اور انبیاء و اولیاء کو واسطہ بنانا ناجائز اور شرک تصور کیا جائے تو یہ حقیقی تصورِ دین کے خلاف ہے۔
کوئی بھی مؤمن جب کسی چیز سے برکت حاصل کرتا ہے تو صحیح عقیدہ کے مطابق وہ مؤثرِ حقیقی اس ذاتِ وحدہ لا شریک کو مانتا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں تمام سعادتیں اور برکتیں ہیں۔ اگر کوئی شخص ان اماکن و اشخاص سے بالذات تاثیر کا عقیدہ رکھے تو یہ جائز نہیں۔ ( باب پنجم میں ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں)
دنیوی، دینی اور روحانی اعتبار سے ایک دوسرے کی مدد کرنا اِسلامی معاشرتی آداب و اخلاق کا حصہ ہے۔ اِسلام نے اہل ایمان کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و اِعانت کریں۔ اللہ گ نے ایک دوسرے کی مدد و استعانت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
القرآن، المائدۃ، 5: 2
’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور الله سے ڈرتے رہو، بے شک الله (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘
کثرت کے ساتھ احادیث میں یہ بیان دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اس کے لئے الله کے ہاں بے شمار انعامات ہیں۔ اس مدد کرنے کے عمل ہی کو اصطلاحًا استغاثہ اور استعانت کہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَاللهُ فِی عَوْنِ العَبْدِ مَا کَانَ العَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیْهِ.
’’اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔ ‘‘
اس طرح مدد و استعانت وہ طریقہ اور طرز عمل ہے جو نہ صرف جائز بلکہ اسلامی ضابطۂ حیات کا لازمی تقاضا ہے۔ استعانت اور استغاثہ کے اس عمل کو شرک قرار دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ متعدد آیات میں باری تعالیٰ نے براهِ راست استعانت کا حکم نہیں دیا بلکہ بواسطہ صبر و صلوٰۃ دیا ہے۔ اگر یہ عملِ توسط شرک ہوتا تو اللہ گ ہرگز استعانت میں کسی واسطے کا ذکر نہ فرماتا۔
یہ امر واضح ہے کہ حقیقی استعانت و استغاثہ خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ بہر طور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ مستعانِ حقیقی، فاعلِ حقیقی اور مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ باقی انبیاء و اولیاء سب اللہ تعالیٰ کی مدد کے مظہر ہیں۔ اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے۔ اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنی پریشانیوں کا مداوا اور مسائلِ حیات کا اِزالہ کرتے تھے۔ اِس عمل میں اُن کا عقیدہ یہی تھا کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک واسطہ اور سبب ہیں جبکہ حقیقی فاعل تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
پس وہ اِستعانت واِستغاثہ جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشا اور حکم کے خلاف ہو، ممنوع اور شرک ہے۔ لیکن اگر توسل و شفاعت کیلئے اللہ کے اذن اور اَمر کے تابع ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی اَمر مانع نہیں۔
(باب چہارم میں اس موضوع پرتفصیلی بحث گذر چکی ہے)
اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں۔ وہ جسے چاہے اور جو چاہے عطا کردے کہ وہ ایسا کرنے پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اس کی ہر شان بالذّات ہے۔ اس کی عطا مخلوق کی عطا جیسی نہیں۔ مخلوق کی ہر عطا در حقیقت الله تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے۔ مثلاً حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شمار خزانوں کے مالک ہیں اور یہ تمام خزانے الله تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
وَ اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ یُعْطِی.
’’میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اللہ تعالی ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو عطائیں کی ان میں جنت بھی شامل ہے۔ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ عطائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے فرماتے ہیں:
کُنْتُ أَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَیْتُہٗ بِوَضُوْئِہٖ وَحَاجَتِہٖ، فَقَالَ لِي: سَلْ! فَقُلْتُ: أَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّۃِ۔ قَالَ: أوْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ قُلْتُ ھُوَ ذَاکَ.
’’میں رات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طہارت اور وضو کے لئے پانی لاتا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے عرض کیا: جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت مانگتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مزید کچھ اور مانگ، میں نے عرض کیا مجھے یہی کافی ہے۔ ‘‘
اِس حدیثِ مبارکہ سے اِستنباط کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے فرمایا:
اِنَّ اللهَ مَکَّنَهُ مِنْ إِعْطَاءِ کُلِّ مَا أَرَادَ مِنْ خَزَائِنِهِ تَعَالٰی.
(2) عبد الحق محدث دھلوی، لمعات التنقیح، 3: 172
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں سے جو چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کرنے (کے منصب) پر متمکن فرما دیا۔ ‘‘
نیز فرماتے ہیں:
و از اطلاق سوال کہ فرمود ’’سَلْ‘‘ بخواہ و تخصیص نہ کرد بمطلوبے خاص، معلوم مے شود کہ کار ہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ہر چہ خواہد ہر کرا خواہد باذن پرورد گار خود بدہد.
عبد الحق محدث دھلوی، أشعۃ اللمعات، 1: 396
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مطلقًا ’’سَلْ‘‘ فرمایا کہ ’’مانگو‘‘ اور اسے کسی خاص مطلوب کے ساتھ مقید نہ کیا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اُمور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ چاہتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنے پروردگار کے اِذن سے عطا فرماتے ہیں۔ ‘‘
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منفرد شان جود و سخا ہے کہ آپ اپنے غلاموں کو فیاضی سے عطا کرتے ہیں، الله رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شان کو نسبت بھی اپنی طرف کرکے ایک تعلق اور واسطہ قائم کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللهُ وَرَسُولُہٗ لا وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ سَیُؤْتِیْنَا اللهُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ لا اِنّآ اِلَی اللهِ رَاغِبُوْنَo
التوبۃ، 9: 59
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) (مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے اگریہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔ ‘‘
حقیقتاً عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله کے اذن سے عطا کا واسطہ اور وسیلہ ہیں۔ مال غنیمت کو تقسیم تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا مگر الله تعالیٰ نے اسے بھی اپنی عطا قرار دیا، فرمایا:
وَمَا نَقَمُوْآ اِلَّآ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللهُ وَ رَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ.
التوبۃ، 9: 74
اور وہ (اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل میں سے) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔ ‘‘
مالِ غنیمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا تھا مگر الله تعالیٰ نے اس عطا کو اپنا فضل قرار دیا۔ اس طرح مالِ غنیمت جب اکھٹا ہو کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آیا تو الله تعالیٰ نے اس کی نسبت بھی اپنی طرف کردی اور الله اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت کو ایک ہی قرار دیا فرمایا:
قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ.
الانفال، 8: 1
’’فرما دیجئے! اموالِ غنیمت کے مالک الله اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں۔ ‘‘
جب ملکیت ایک ہے تو عطا بھی ایک ہے۔ وحدتِ ملکیت و عطا کے حوالے سے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ذکر ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نسبت کے ذریعہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی انتہاء کردی۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کو اپنی عطا کا واسطہ قرار دیا کہ اُمت پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جو عطائیں ہوتی ہیں وہ حقیقت میں الله تعالیٰ کی عطائیں اور فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ اور نبیٔ مکرَّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان عطا اورملکیت کااشتراک بھی ایک تعلق اور واسطہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت کو مزید اجاگر فرمایا ہے۔
شفاعت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو یہ اعزاز اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے خطاکار و گنہگار بندوں کی شفاعت کریں گے۔ اللہ گ اپنے بے پایاں فضل و کرم سے اپنے گنہگار بندوں کے حق میں اپنے مقربین و صالحین بندوں کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ جس کے نتیجے میں گنہگار بندوں کی بخشش و مغفرت فرما کر ان کو اپنے انعام یافتہ بندوں کے طفیل اپنی رضا اور جنت عطا فرمائے گا۔
صحیح عقیدہ کے مطابق اذنِ الٰہی کے بغیر شفاعت کا کوئی تصور نہیں اور نہ الله تعالیٰ کی اِجازت کے بغیر شفاعت کسی کو فائدہ دے گی۔ قرآن و حدیث کی نصوصِ قطعیہ سے یہ بات ثابت ہے کہ روزِ قیامت جملہ انبیاء علیہم السلام اور صالحین اللہ تعالیٰ کے اِذن سے شفاعت فرمائیں گے جبکہ شفاعتِ کبریٰ کے منصبِ جلیلہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی فائز ہوں گے جسے قرآنِ حکیم نے مقامِ محمود سے تعبیر کیا ہے یہ منصب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہتم بالشان اعزازات و کرامات اور بلند مرتبہ فضائل و خصائص اور نمایاں امتیازات میں سے ایک ہے۔
شفاعت پر آیاتِ قرآنی کے سیاق و سباق پر غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مطلق شفاعت کی نفی کہیں بھی نہیں کی گئی۔ شفاعت سے صرف ان لوگوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، جو کافر، مشرک اور ظالم ہیں۔ لہٰذا شفاعت کی نفی کا مسلمانوں پر اطلاق کرنا ہی غلط، من گھڑت اور بے بنیاد بات ہے۔ بدقسمتی سے دین کا پرچار کرنے والے بعض لوگوں کے فہم دین کا یہ عالم ہے کہ ایک سادہ سی بات کو بھی الجھا دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو ان آیات تک محدود کر لیتے ہیں جن میں شفاعت کی نفی ہے۔ وہ یہ جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ یہ نفئ شفاعت دراصل اصنام، طواغیت اور معبودانِ باطلہ کے لئے ہے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے ان درجنوں آیات کو بھول جاتے ہیں جو شفاعت کی تصدیق کرتی ہیں اور جن میں شفاعت کا جواز و اثبات بھی ہے۔ لہٰذا مطلقاًشفاعت کا انکار کفر ہے
توحید و ایمان کے باب میں واسطۂِ ہدایت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی وجہ سے کسی شخص کو ایمان و ایقان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ انسان ہر حال میں ہدایتِ الٰہی کا محتاج ہے۔ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَاللهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo
البقرۃ، 2: 213
’’اور الله جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما دیتا ہے۔ ‘‘
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللهِ ھُوَ الْھُدٰی ط
الانعام، 6: 71
’’فرما دیں کہ الله کی ہدایت ہی (حقیقی) ہدایت ہے۔ ‘‘
حقیقتاً ہدایت کا مالک الله تعالیٰ ہے جب کہ انبیاء علیھم السلام ہدایت کا واسطہ ہیں، مالک نہیں۔ انبیاء علیھم السلام کا ہدایتِ ربانی کا باعث ہونا منافیٔ توحید نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصبِ ہدایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo
الشوریٰ، 42: 52
’’اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں واضح طور پربیان ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے سب سے بڑے ہادی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ فرمانِ الٰہی ہے کہ آپ ہادئبرحق ہیں اور راهِ حق کی ہدایت کر رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت جملہ انبیاء علیہم السلام عطائے الٰہی اور اذنِ الٰہی سے لوگوں کو راهِ حق کی ہدایت دیتے ہیں اور یہی درست عقیدہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو ہدایت پہچانے والے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ہادی کا عقیدہ رکھنا ہرگز شرک نہیں۔ ایک دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo
التوبۃ، 9: 33
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات شانِ کریمی کی مالک ہے وہ ایمان و تقویٰ کو محبوب رکھتا ہے اور کفر و شرک اورنافرمانی کو سخت ناپسند فرماتا ہے۔ الله رب العزت کی شان ارحم الراحمین بھی ہے اور ’’اِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٌ‘‘ بھی ہے۔ اور ’’فَعَّالٌ لِمَا یُرِیْدُ‘‘ بھی اُسی کی شان ہے۔ اِن سب شانوں کے باوجود نمرود و شداد، فرعون و ہامان اور ابوجہل و ابو لہب جیسے نافرمان بھی گزرے مگر اللہ تعالیٰ نے جبر و اکراہ کے ساتھ اِن کو اپنا مطیع فرمانبردار نہیں بنایا بلکہ صرف رشد و ہدایت واضح کرنے کے لئے انبیائے و رسل علیھم السلام کو منصبِ اِبلاغ پر فائز فرماکراِنسانوں کواپنے ارادہ و اختیار سے ایمان و کفر اور خیر و شرکے انتخاب کااختیار دیا۔ قرآنِ حکیم میں واضح طور پر ارشاد فرمایا:
فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ.
الکهف، 18: 29
’’پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔ ‘‘
حالانکہ جبرو اکراہ کی صورت میں وہ تمام باغی و سرکش اور نافرمان لوگوں کو اپنا مطیع بنا سکتا تھا۔ اِس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَo
السجدۃ، 32: 13
’’اور اگر ہم چاہتے تو ہم ہر نفس کو اس کی ہدایت (از خود ہی) عطا کر دیتے لیکن میری طرف سے (یہ) فرمان ثابت ہو چکا ہے کہ میں ضرور سب (مُنکِر) جنّات اور انسانوں سے دوزخ کو بھر دُوں گا۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ الله رب العزت نے قادرِ مطلق ہونے کے باوجود انسانوں کے دلوں میں اپنی ہدایت براهِ راست القا نہیں فرمائی بلکہ اس ہدایت کو ایمان کا واسطہ بنایا جسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے برگزیدہ رسولوں کو مامور فرمایا۔
اسی طرح حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی شانِ کریمی و رحیمی سے متصف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمیع انسانوں کے مومن ہونے کو پسند کرتے ہیں اور کفر و شرک کوحددرجہ ناپسند فرماتے ہیں۔ قرآن حکیم میں متعدد آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌo
التوبہ، 9: 128
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًاo
الکهف، 18: 6
’’ (اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس کلامِ (ربّانی) پر ایمان نہ لائے۔ ‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہدایت و رہنمائی اور دعوت و تبلیغ پراکتفا فرمایا اور اپنی نورانی و باطنی نبوی طاقت کے ذریعے ہر ایک کو مشرف بہ اسلام نہ فرمایا کیونکہ یہ انداز حکمتِ ربانی کے خلاف تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نائب و خلیفہ ہیں اور اس کے کارکنانِ قضاء و قدر کے سردار ہیں۔ اس لئے اس منصبِ عظیم اور حقِ خلافت و نیابت کا تقاضا بھی یہی تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاربند رہے۔
احکامِ الٰہی کی بجا آوری، اَوامر و نواہی کی پابندی اور دین پر اِستقامت کے لئے عمل بیعت ایک مؤثر واسطہ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور اس پر استقامت اور پختگی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں اپنے ہاتھ دے کر عزمِ مصمم کر لیا کہ آئندہ اوامر و نواہی کی پابندی کریں گے۔ اللهل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بجا لائیں گے اور اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اِیفائے عہد کا یہ عزمِ مصمم بیعت کہلاتا ہے۔ بعدازاں جو راهِ سلوک میں بیعت کا طریقہ مروج ہو گیا، اسی بنیاد پر قائم ہوا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی تو الله تعالیٰ نے اسے اپنی بیعت قرار دیا اور دستِ مصطفیٰ کو دستِ خدا قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واسطہ سے انہیں اپنا مقرب بنایا، اِرشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ ج وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًاo
الفتح، 48: 10
’’(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ الله ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) الله کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے الله سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت اوران کی رضا کو اپنی رضا قرار دیا۔ اس سے یہ امر مترشح ہوا کہ الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت ایک ہی ہے۔ اسی طرح دونوں کی رضا ایک ہی ہے گویا بیعت کی نسبت اور تعلق کو بھی الله تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان قرب و رضا کا ایک واسطہ بنایا۔
اہلِ ایمان نے رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر بیعت کی تو الله تعالیٰ نے انہیں اپنی رضا کا مژدہ سنایا۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ رَضِیَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْ بِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَ اَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاo
الفتح، 48: 18
’’بیشک الله مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے، سو جو (جذبۂ صدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا الله نے معلوم کرلیا تو الله نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا۔ ‘‘
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کرنا بھی قربِ خداوندی کے لئے واسطہ تھا۔ اسی طرح پیر و مرشد کے ہاتھ پر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ اوامر و نواہی پر پابندی کے لئے پختہ عہد کرنا بیعت ہے۔ بیعت قرآن و احادیث سے ثابت شدہ ایک واسطہ اور وسیلہ ہے، جس کا مقصود و مطلوب قربِ خداوندی ہے۔ اتباع شریعت میں ثابت قدمی کے لئے کسی عالم ربانی اور متبع شرع صاحبِ تقویٰ و طہارت، نیک سیرت برگزیدہ ہستی کی بیعت کرنا بھی منشائے شریعت ہے، منافیٔ توحید نہیں۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مظہرِ فعلِ الٰہی ہیں اس لئے فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فعلِ الٰہی ہے۔ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کو واشگاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1۔ وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَ لٰـکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی ج وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَـلَآءً حَسَنًا.
الانفال، 8: 17
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے۔ ‘‘
2۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلاوا الله تعالیٰ کا بلاوا ہے۔ ارشاد فرمایا:
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ.
انفال، 8: 24
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔ ‘‘
3۔ کلامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الله تعالیٰ نے اپنا کلام قرار دیا ارشاد فرمایا:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰo اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یَّوْحٰیo
النجم، 53: 3، 4
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ ‘‘
ان آیات میں یہی بنیادی نکتہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال کو اپنا فعل قرار دیا اور اس نسبت اور واسطۂِ اَفعال کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ قرب عطا فرمایا۔ وہ برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کا ہر ہر عمل مظہرِ فعل الٰہی ہو وہ کسی اور فردِ بشر کے مثل نہیں ہو سکتا بلکہ وہ الله تعالیٰ کے احکامات اور اَوامرو نواہی کے نفاذ میں باری تعالیٰ کے قائم مقام اور نائب ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو اپنی ولایت سے نوازتا ہے۔ خدا اور بندوں کے درمیان اس واسطہ سے جو ربط و تعلق قائم ہوتا ہے اس کو ولایتِ رحمانی کہتے ہیں۔ ولایتِ رحمانی کا سب سے بڑا مظہر انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔ واسطۂِ ولایت کا دوسرا نام ایمان اور تقویٰ ہے۔ جتنا ایمان اور تقویٰ پختہ ہوتا جائے گا اسی طرح واسطۂِ ولایت میں بھی پختگی آتی جائے گی۔ حقیقی ولایت اور دوستی اللہ تعالیٰ کو سزوار ہے مگر اس ذاتِ کریمانہ نے اس ربط اور تعلق کو اپنے بندوں کے لئے بھی عام کیا اور سب سے پہلے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ واسطہ عطا کیا پھر درجہ بدرجہ دیگر اہلِ ایمان کو بھی ولایت عطا ہوئی۔ ہر مومن مسلمان کو حسبِ تقویٰ ولایت کا درجہ حاصل ہوتا ہے جو کہ ولایتِ عامہ ہوتی ہے۔ ولایتِ خاصہ انبیاء کا حصہ ہے کیونکہ ان کی دوستی بھی اللہ تعالیٰ سے دوستی ہوتی ہے۔ کامیابی اور غلبہ کے لئے واسطۂ ولایت کو شرط قرار دیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَo وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللهَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللهِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَo
المائدہ، 5: 55۔ 56
بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔ اور جو شخص الله اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا (وہی الله کی جماعت ہے اور) الله کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ اِرشاد ربانی میں تین قسم کی ہستیوں کا ذکر کیا گیا ہے:
ولایت کا استحکام اہلِ ایمان میں محبت و اخوت اور یگانگت پیدا کرنے کا واسطہ ہے جس سے ان تینوںہستیوں کا آپس میں ربط اور تعلق مضبوط ہوتا ہے اور غلبہ نصیب ہوتا ہے۔ سورۂ حج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِاللهِ ط هُوَ مَوْلٰـکُمْ ج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُo
الحج، 22: 78
’’اور الله (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مدد گار (و کارساز) ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز (ہے) اور کتنا اچھا مدد گار ہے۔ ‘‘
پھر ایک اور مقام پر فرمایا:
فَاِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلٰهُ وَجِیْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌo
التحریم، 66: 4
’’سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔ ‘‘
مذکورہ بالا قرآنی آیات سے یہ امر مترشح ہوا کہ مؤمنین و صالحین اور متقی لوگوں کی ولایت کا وسیلہ اور واسطہ منافئ توحید نہیں۔ کیونکہ ولایت بھی خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کے لئے واسطہ ہے جس خوش نصیب کو یہ مل جائے وہ ایمان اور عملِ صالح کی بدولت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقام و مرتبہ اور بلند درجہ پاتا ہے اور رب تعالیٰ اسے دین و دنیا کی نعمتوںسے سرفراز فرماتا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام اور دیگر اہلِ عزیمت کو اِعلائے کلمۃ الله کے لئے شدائد و مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار و مشرکین اور معاندین نے اپنی تئیں اذیتیں پہنچائیں مگر الله رب العزت نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا دراصل الله تعالیٰ کو اذیت دینا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًاo
الاحزاب، 33: 57
’’بے شک جو لوگ الله اور اس کے رسول کو اِیذا پہنچاتے ہیں ان پر الله دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے (اس نے) ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اذیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیتِ خدا قرار دے کر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب و تعلق کی نوعیت واضح فرمادی کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ رسول کو تکلیف دینا اور ہے اور خدا کو تکلیف دینا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَذیت کو اپنی اَذیت قرار دیا یوں کفار و مشرکین کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچانا بھی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور بلندئ درجات کا واسطہ بن گیا۔ جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینے سے باز نہ آئے تو اللہ رب العزت نے ان کے لئے دردناک عذاب کی وعید سنائی ارشاد فرمایا:
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ ط قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّکُمْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ط وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
التوبۃ، 9: 61
’’اور ان (منافقوں) میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان (کے کچے) ہیں۔ فرما دیجئے: تمہارے لیے بھلائی کے کان ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان (کی باتوں) پر یقین کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے رحمت ہیں اور جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ‘‘
الله تعالیٰ کی ذاتِ مقدّسہ ہماری طرح جسمانی عوارض و آلائش سے پاک ہے۔ اسے نہ تو کوئی تکلیف پہنچا سکتا ہے اور نہ مخلوق کی ایذا رسانی کی محسوسات کا گمان اس سے ممکن ہے۔ پس جب اس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذا رسانی کو اپنی ایذا قرار دیا تو دراصل اس نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کا ایک اور واسطہ بیان کیا جس کے ذریعہ اپنی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور عظمتِ شان کو اجاگر کیا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اذیت کس طرح واسطہ بن گیا۔ گذشتہ صفحات میں ہم یہ بیان کر آتے ہیں کہ واسطہ درحقیقت دو ذاتوں کے درمیان رابطہ اور تعلق کا نام ہے جو دو بندوں کے درمیان بھی ہوسکتا ہے اور خالق و مخلوق کے درمیان بھی۔ اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کو اپنی اذیت قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنے قرب اور تعلق کا اظہار فرمایا۔ یوں یہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ربط و تعلق کا واسطہ بن گیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار و مشرکین اور دشمنانِ دین کی طرف سے قدم قدم پر مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ رب العزت نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کو اپنی مخالفت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کو بھی اپنی نافرمانی قرار دیا۔ جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت بھی ایک ہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یَّعْصِ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا ص وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌo
النساء، 4: 14
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے ذلت انگیز عذاب ہے‘‘
پھر فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ ج وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
الأنفال، 8: 13
’’یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ (اسے) سخت عذاب دینے والا ہے‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ ج وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللهَ فَاِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
الحشر، 59: 4
’’یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے شدید عداوت کی (ان کا سرغنہ کعب بن اشرف نامور گستاخِ رسول تھا)، اور جو شخص اللہ (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت کرتا ہے تو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‘‘
مندرجہ بالا دونوں آیات پر غور کریں۔ کفار و مشرکینِ مکہ نے مخالفت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی تھی مگر اُسے الله تعالی نے اپنی مخالفت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عداوت و مخالفت کرے گا تو اللہ اسے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اسی طرح دوسرے مقام پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت کو اپنی عداوت قرار دیا اور بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی کی مخالفت کرتا ہے تو بے شک اللہ اسے سخت عذاب دینے والا ہے یہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی انتہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عداوت قرار دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ قَدْ اَنْزَلْنَآ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ط وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌo
المجادلۃ، 58: 5
’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے عداوت رکھتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل کئے جائیں گے جس طرح اُن سے پہلے لوگ ذلیل کئے جاچکے ہیں اور بیشک ہم نے واضح آیتیں نازل فرما دی ہیں، اور کافروں کے لئے ذِلت انگیز عذاب ہے۔ ‘‘
پھر فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اُولٰٓئِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَo
المجادلۃ، 58: 20
’’بیشک جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے عداوت رکھتے ہیں وہی ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ بالا قرآنی آیات میں الله تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کو اپنی مخالفت، نافرمانی کو اپنی نافرمانی، اور تکذیب کو اپنی تکذیب قرار دے کر اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ واسطہ اور تعلق کو بیان فرمایا: اس سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کفار و مشرکین ذلیل ترین ہو کر ذلت آمیز عذاب کے مستحق قرار پائے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں یہ مخالفت مضبوط تعلق باللہ کا واسطہ بنی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ دشمنانِ دین کی طرف سے مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلندئ درجات کا واسطہ ہے۔
حقیقی نصیر اور مددگار اللہ تعالیٰ ہے مگر اس نے اپنے برگزیدہ انبیاء علیہم السلام اور دیگر اہلِ ایمان کی طرف بھی مدد و نصرت کی نسبت کی۔ قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ دین کی مدد و نصرت بھی قرب خداوندی کا ایک واسطہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت قرار دیا فرمایا:
لِلْفُقَرَآءِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَo
الحشر، 59: 8
’’(مذکورہ بالا مالِ فَے) نادار مہاجرین کے لئے (بھی) ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال (اور جائیدادوں) سے باہر نکال دیئے گئے ہیں، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضاء و خوشنودی چاہتے ہیں اور (اپنے مال و وطن کی قربانی سے) اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ ہی سچے مؤمن ہیںo‘‘
اصل میں تو لوگوں نے مال و وطن قربان کرکے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد قرار دیا۔ دین کی مدد و نصرت اللہ تعالیٰ کی مدد اورکامیابی کا وسیلہ اور واسطہ ہے۔ ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْo
الاعراف، 7: 157
’’اے ایمان والو! اگر تم الله (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا۔ ‘‘
3۔ اسی طرح اللہ کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کامیابی کا واسطہ قرار پایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الاعراف، 7: 157
’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
انبیاء علیہم السلام سے جب عہد لیا گیاتو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کا وعدہ بھی شامل تھا ، فرمایا:
ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمُ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط
آل عمران، 3: 81
’’پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔ ‘‘
مذکورہ بالا قرآنی آیات سے یہ امر مترشح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی مدد کو اپنی مدد قرار دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ترویج و اشاعت کے لئے تگ و دو کرنا بھی رضائے الٰہی اور فلاح و کامیابی کا واسطہ و وسیلہ ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہم نے ان 22 شرعی وسائط کو بیان کیا جو از روئے قرآن و حدیث ثابت اور جائز ہیں جیسا کہ ہم ابتداء میں بیان کر آئے ہیں کہ صرف عبادت کا واسطہ شرکیہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ہے۔ جملہ مخلوقات میں سے کوئی بھی ہستی عبادت میں اس کی شریک نہیں۔ عبادت ایک ایسا فعل ہے جو الله تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنی غایتِ تعظیم کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ بندے کی طرف سے انتہا درجے کی تعظیم جو الله تعالیٰ کے لئے ہو سکتی ہے وہ صرف عبادت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ الله تعالیٰ کی ہستی بلند ترین ہے جبکہ مخلوق عبادت گزاری کے اعتبار سے ادنیٰ ترین مقام پر ہے۔ عبد اور معبود کی ان دونوں انتہاؤں کے مابین رابطہ و تعلق پیدا کرنے والی چیز صرف عبادت ہے، یہ تعلق ہی اس امر کا متقاضی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ اسی کی ہی عبادت کی جائے۔
کسی عقیدہ اور مکتبِ فکر کے مسلمہ مفسرین و محدثین کرام، فقہاء و اصولین، اجل ائمہ لغت و ادب اور ائمہ عقائد کے درمیان عبادت کی تعریف کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔ مفسرینِ کرام نے سورہ فاتحہ کی آیت ’’إیّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ‘‘ کے ذیل میں عبادت کی تعریف بیان کرتے ہوئے ’غایت الخضوع والتذلل‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ تمام اجل مفسرین کے مطابق خضوع و تذلل کی بہت سی صورتیں اور درجات ہیں لیکن عبادت عاجزی و انکساری کا بلند ترین درجہ ہے جو صرف الله رب العزت کا ہی حق ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب ہم توحید فی العبادت کی بات کرتے ہیں تو اس کا معنی عبادت میں توحید ہے۔ اس کا اطلاق ہم تعظیم پر نہیں کرسکتے۔ قرآن حکیم میں جہاں کہیں توحید فی العبادت کا ذکر ہے وہیں اس امر کا ذکر بھی ہے۔
عبادت بلا شرکتِ غیرے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اسی سے دعا کرنی چاہیے اور اسی کو مستعانِ حقیقی سمجھنا چاہیے۔ اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے اور مصائب و آلام میں اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔ کسی ماسوا اللہ کو حقیقی مددگار سمجھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی از خود کسی کو نہ کسی گناہ سے روک سکتا ہے نہ نیکی کی توفیق دے سکتا ہے۔ اسلام نے توحید کا یہ عقیدہ بالتصریح بیان کردیا ہے کہ جو مخلوق ہو وہ خالق نہیں ہوسکتا۔ اس سے اسلام نے تمام جھوٹے خداؤں اور معبودانِ باطلہ کی نفی کر دی اور حتمی طور پر اس بات کا قطعی اعلان کر دیا کہ چاہے کوئی ہستی خواہ بعداز خدا بزرگی کے مقام پر فائز پیغمبرِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی کیوں نہ ہوں خدا نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ مخلوق ہیں خالق نہیں۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت کسی نبی یا ولی کو واسطہ عبادت نہیں بنایا جاسکتا۔
توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں ما سوائے اللہ رب العزت کے کسی کی عبادت جائز نہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شرک عبادت کا مدِمقابل ہے لیکن ادب و احترام اور تعظیم پر مبنی کسی عمل کا شرک سے کوئی مقابلہ اور تضاد نہیں بلکہ تعظیم کا متضاد عمل بے ادبی، گستاخی اور توہین ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی ہستی کو واسطہ بنانے یا کسی کے اَدب و اِحترام اور تعظیم کا اِنتہائی درجہ بھی شرک نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved