آیاتِ بینات سے بخوبی واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں واسطہ اور وسیلہ بنانا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی سنت ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود ذات و صفات اور افعال میں سے کونسی چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب واسطہ بن سکتی ہے؟ ان شرعی وسائط کا تفصیلی تذکرہ آئندہ صفحات میں آرہا ہے لیکن یہاں ہم سب سے پہلے کائنات ہست و بود کی سب سے بڑی ہستی ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس حیثیت کا مطالعہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ بنایا۔ عالمِ امر و خلق ہو یا عالمِ ارواح، عالمِ دنیا ہو یا عالمِ برزخ یا عالمِ حشر، ازل سے ابد تک ہر جگہ سرورِکائنات، فخر موجودات، نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ِمقدّسہ ہی ہمیں نظر آتی ہے جو ہر ہر لمحے پر مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂِ عظمیٰ بن رہی ہے۔
ذیل میں ہم بالترتیب ان تمام مراحل اور ان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ جلیلہ کی مرکزی حیثیت کا بالاختصار تذکرہ کر رہے ہیں۔
قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات وتوضیحات کاتمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے … ہمارے آقائے نامدار حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس … تمام خلق میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کیسے ہوتا کہ خالق نے تواس عالم و ارض و سماء میں جن و انس اور موت وحیات کا نظام بنایا ہی انہی کے لیے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کا مضمون ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وعزتی و جلالی لولاک ما خلقت الجنّۃ ولولاک ما خلقت الدّنیا.
دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 5: 227، رقم: 8۰31
’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
ایک اور حدیث جسے کثیر ائمہ و محدثین نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأَفْـلَاکَ.
’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘
معروف مفسر امام آلوسیؒ (م 127۰ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں اس حدیث کو بیان کیا ہے پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی آیت إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْناً میں ’’لَکَ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے:
أن لام (لَکَ) للتعلیل و حاصلہ أظهرنا العالم لأجلک و هو فی معنی ما یرونه من قوله سبحانه (لولاک لولاک ما خلقت الأفلاک).
آلوسی، تفسیر روح المعانی، 26: 129
’’(لَکَ) میں لام تعلیل کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے عالم کو آپ کی خاطر ظاہر کیا، اس کا یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ (اے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔‘‘
معلوم ہوا کہ مفسرین اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ الفاظ میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن معناً یہ روایت بالکل درست ہے، نور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اوّلیتِ تخلیق کے حوالے سے ذخیرۂ کتب احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں۔ علامہ عجلونی (1162ھ) نے مذکورہ بالا روایت کے بارے میں لکھا ہے۔
و أقول لکن معناہ صحیح و إن لم یکن حدیثاً.
(1) عجلونی، کشف الخفاء، 2: 214، رقم: 3123
’’میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہو تو بھی یہ روایت معنًا صحیح ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ائمۂِ عقائد کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اوّلیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔
وہ ائمہ جو عقائد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں جن کی عمریں توحید اور شرک کا صحیح مفہوم سمجھانے میں صرف ہوئیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا گیا انہی ائمہ میں سے ایک امام ابو الحسن اشعری ہیں جو عقائد میں امام علی الاطلاق ہیں، حدیث نور کی شرح میں وہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نور، کالأنوار، والرّوح النّبویۃ القدسیّۃ لمعۃ من نورہ والملئکۃ شرر تلک الأنوار، وقال صلی الله علیه وآله وسلم أوّل ما خلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شئ.
فاسی، مطالع المسّرات: 265
’’اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ مقدّسہ اسی نور کی ایک چمک ہے اور فرشتے انہی انوار کا پرتو ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔‘‘
أئمۂ کاملین اور اجل محدثین و مفسرین کرام نے تخلیقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی ہے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر کر کے یہ ثابت کیا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات سے نہ صرف افضل و برتر ہیں بلکہ وجہ تخلیقِ کائنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی کائنات کو وجود میں لانے کا واسطہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے، بقول مولانا ظفر علی خان ؎
گر ارض و سما کی محفل میں لَولَاکَ لَمَا کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں
مولانا ظفر علی خان
تخلیقِ کائنات میں واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نعتیہ شعر میں اعلیٰ حضرت محدث بریلویؒ نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
احمد رضا خاں، حدائق بخشش، 1: 62
عالمِ اَرواح میں جب تمام اَنبیاء کرام علیہم السلام کو خلعتِ نبوت سے مشرف فرمایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے نہ صرف واسطۂ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت و افادیت بیان فرمائی بلکہ اس واسطۂ عظمیٰ کو ہی نبوت و رسالت کے مناصبِ جلیلہ کی تفویض کا ذریعہ قراردیا۔ اِرشادباری تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذَلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشَّاهِدِیْنَ o
القران، آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ جب تمام پیغمبروں سے مناصبِ نبوت و رسالت کا حلف لے رہا تھا تو اس مجلسِ جلالت و مرتبت اور علوِ شان کا عالم کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ انسانی عقل و شعور کی حدِ ادراک سے باہر ہے۔ لیکن ہماری عقلِ ناقص اس اُلوہی مجلس کی عظمت و شان کے ایک پہلو کا یوں اندازہ لگا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارواحِ انبیاء و رسل علیہم السلام کے اس مقدّس اجماع میں اپنی شان کے لائق اپنے رسولِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت کا اظہار فرمایا۔ اسی قدر و منزلت کے اظہار کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی شرط عائد فرما کر انبیاء و رسل علیہم السلام کو اس واسطہ کی اہمیت باور کروائی۔ اس مجلس میں بڑے اِہتمام سے اس حلف کے ساتھ ساتھ ان انبیاء کو بطورِ خاص بتایا گیا کہ تمہیں نبوت و رسالت کی عظیم نعمت اور جلیل القدر منصب دیا جارہا ہے اس شرط کے ساتھ کہ تم میں سے ہر ایک کی رسالت و نبوت بالواسطہ میرے محبوب خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغِ نبوت و رسالت سے مستنیر اور مستفیض ہو گی۔
چنانچہ کسی نبی علیہ السلام کو بھی عالمِ ارواح میں اس وقت تک نبوت عطا کی گئی، نہ کسی رسول علیہ السلام کو شعور رسالت سے بہرہ ور کیا گیا۔ جب تک کہ اسے نبوت و رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعور نہیں دے دیا گیا بلکہ ہر نبی کو نبوت و رسالت کے اقرار و اِدراک سے بھی پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرایا گیا۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر نبی کو پہلے نبوتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ضروری تھا، اور اس ایمان لانے کے توسُّل اور توسُّط کے طفیل حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو منصبِ نبوت پر فائز کیا گیا۔اسی لئے امام بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحرِ جود و سخا سے انبیاء علیہم السلام بھی دامنِ مراد بھرتے ہیں:
وَکُلُّهْمْ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِنَ الْبَحْرِ اَوْ رَشْفًا مِنَ الدِّیَمٖ
بوصیری، قصیدۃ بردۃ
(تمام انبیاء علیہم السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحرِ کرم و عطا اور ابر رحمت سے چلو بھر یا مانندِ قطرۂِ آب کے خواست گار ہیں۔)
اس واسطۂِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر کے ہی انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک اپنی اپنی نبوت سے سرفراز ہوئے۔ انہیںیہ نعمتِ رسالت عمومی حیثیت سے نہیں ملی تھی بلکہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان تمام ارواحِ انبیاء کرام علیہم السلام کی مجلس منعقد فرمائی اور سب سے وعدہ لے کر نہ صرف انہیں ایک دوسرے کا شاہد بنایا بلکہ خود کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے گواہوں میں شامل ہونے کا اعلان فرما دیا۔
عالمِ دنیا میں جب اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات یعنی انسان کی تخلیق کا آغاز فرمایا تو سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا، پھر انہیںمسجودِ ملائکہ بنایا اور انہیں حقائق ِاشیاء کا علم عطا فرما کر فرشتوں پر فضیلت عطا کی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اس برگزیدہ بشر اوّل کو نبوت کی نعمت سے سرفراز فرما کر آپ کو جنت میں ٹھہرایا۔ وہاں قدرت کی طرف سے آپ کو ایک امتحان میں ڈالا گیا جس کے نتیجے کے طور آپ کو جنت سے زمین پر اتار دیا گیا، یہ سارے واقعات قرآن حکیم میں بالتفصیل بیان ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی پھر اس کو معاف کیا گیا لیکن یہ معافی انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ جلیلہ کے طفیل نصیت ہوئی۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لما اقترف آدم الخطیئۃ قال: یا رب أسألک بحق محمد لما غفرت لی، فقال اللہ : یا آدم، و کیف عرفت محمداً ولم أخلقہ؟ قال: یا رب لأنک لما خلقتنی بیدک، و نفخت فيَّ من روحک، رفعت رأسي فرأیت علی قوائم العرش مکتوبًا: لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ، فعلمت أنک لم تضف إلی اسمک إلا أحبّ الخلق إلیک، فقال اللہ تعالیٰ: صدقت یا آدم، إنہ لأحب الخلق إلیّ، و إذ سألتنی بحقّہ فقد غفرت لک، و لولا محمد ما خلقتک.
اس روایت کو ہیثمی نے مجمع الزوائد (8: 253) میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (7: 437) میں، ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ، (1: 81) میں، سیوطی نے الخصائص الکبریٰ، (1: 12) اور الدر المنثور (1: 142) میں، حلبی نے انسان العیون (1: 355) میں اور قسطلانی نے المواھب اللدنیۃ (1: 82) میں روایت کیا ہے۔
’’جب حضرت آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انہوں نے بارگاهِ اُلوہیت میں عرض کیا کہ اے پروردگار! میں تجھ سے بواسطۂِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما دے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے ان کو (دنیا میں) پیدا بھی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے میرے رب ! میں نے انہیں اس طرح پہچانا کہ جب تو نے مجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور اپنی طرف سے میرے اندر روح پھونکی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا: لَا اِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ سو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے مقدس نام کے ساتھ ایسی ہستی کے نام کو ملایا ہے جو تیرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیاری ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے صحیح سمجھا، واقعی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور جب تم نے ان کے واسطہ سے مجھ سے درخواست کی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کی اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
ابتدائے کائنات سے اختتام تک ہر مرحلۂ حیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ ہونا صحیح اَحادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ عالمِ اَمر اور دنیا میں جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطہ ہیں اسی طرح عالمِ برزخ میں بھی واسطۂ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناگزیر ہے۔ یعنی قبر میں نجات بھی واسطۂ رسالت کے بغیر نہیں مل سکتی۔ عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قبر میں تین سوالات پوچھے جائیں گے (1) بتا تیرا رب کون ہے؟ (2) تیرا دین کیاہے اور آخر میں تیسرا سوال ہو گا (3) اس ہستی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ محققین علماء کے نزدیک اگر کوئی شخص پہلے دو سوالات کے جوابات درست دے بھی دے لیکن اگر تیسرا جو لازمی سوال ہے اس میں ناکام رہا تو پھر دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گا۔ احادیثِ مبارکہ سے اس بات کی قطعی تائید ملتی ہے۔ بخاری شریف اور دیگر کتبِ صحاح میں بشمول مسند احمد بن حنبل میں اجل صحابہ کرام ث سے مروی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ اس بات کے شاہد عادل ہیں کہ قبر میں فیصلہ کن سوال صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہو گا۔ ان کتب میں صرف ایک سوال کا ذکر ہے جو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کے بارے میں ہو گا اور یہی نجات کی شرط اور واسطہ ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّی عَنْہُ أَصْحَابُہُ وَ إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ فیُقْعِدَانِهِ، فَیَقُوْلاَنِ: مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ: أَشْھَدُ أَنَّہُ عَبْدُاللهِ وَرَسُوْلُہُ۔ فیُقَالُ لَہُ: أُنْظُرْ إِلَی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللهُ بِهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّۃِ، فَیَرَاھُمَا جَمِیْعاً۔قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَہُ: مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ! فَیُقَالُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ، ویُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً، فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِیْهِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ.
’’بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے لواحقین واپس چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں: تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: (اگر تو ایمان نہ لاتا تو تیرا ٹھکانا جہنم میں ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ! اللہ تعالیٰ نے تجھے (نیک اعمال کے سبب) اس کے بدلے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہوگا، اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا: تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے: مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا: تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف سے قبر میں) چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قُبِرَ الْمَیِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ، أَتَاہُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا: الْمُنْکَرُ، وَ الآخَرُ: النَّکِیْرُ، فَیَقُوْلَانِ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ: مَا کَانَ یَقُوْلُ: ھُوَ عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُہُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَیَقُوْلَانِ: قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ھَذَا، ثُمَّ یُفْسَحُ لَہُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِیْنَ، ثُمَّ یُنَوَّرُ لَہُ فِیْهِ، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: نَمْ، فَیَقُوْلُ: أَرْجِعُ إِلَی أَھْلِي فَأُخْبِرُھُمْ؟ فَیَقُوْلَانِ: نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا یُوْقِظُہُ إِلَّا أَحَبُّ أَھْلِهِ إِلَیْهِ، حَتَّی یَبْعَثَہُ اللّٰہُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَ إِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا أَدْرِي فَیَقُوْلَانِ: قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَیُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَیْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَیْهِ فَتَخْتَلِفُ فِیْھَا أَضْلَاعُہُ فَـلَا یَزَالُ فِیْھَا مُعَذَّبًا حَتَّی یَبْعَثَہُ اللهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ.
’’جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں۔ اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور رسول ہیں۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے: (آرام سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جاکر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں، (اب تو نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جائو، جسے گھر والوں میں سے اسے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (سوالات کے نتیجے میں) کہے گا: میںنے ایسا ہی کہا جیسا میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر تنگ ہو جا پس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس ٹھکانے سے اٹھائے گا۔‘‘
مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قبر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کا لازمی سوال ہو گا اور اس میں کامیابی ہی نجات کا باعث ہو گی۔ معلوم ہوا کہ عالمِ برزخ میں نجات کا واسطہ و وسیلہ بھی ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں پس جو شخص دنیا میں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنا تعلق مضبوط کرے گا اسے عالمِ برزخ میں بھی اسی واسطہ کے باعث نعمتوں بھرا جنت کا ٹھکانا نصیب ہو گا۔
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ روزِ قیامت بھی شدت تکلیف میں تمام لوگ جمع ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ میں آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضورِ الٰہ میں واسطۂ شفاعت بناتے ہوئے عرض کریں گے کہ ہمارے لیے اللہ کریم کے حضور سفارش کریں تاکہ حساب و کتاب کا مرحلہ جلدی شروع ہو اور ہم اس جان لیوا تکلیف سے نجات پائیں۔ اس روز ربِ ذوالجلال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ یہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ نبوت کے لیے مختص ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے جمیع امم کو فائدہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ عظمیٰ سے لوگوں کو نجات ملے گی۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا:
عَسٰٓی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداًo
بنی اسرائیل، 17: 79
’’یقیناآپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔‘‘
احادیثِ متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر حساب و کتاب شروع فرمائے گا۔ حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا :
إِنَّ النَّاسَ یَصِیْرُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ جُثاً، کُلُّ أُمَّۃٍ تَتْبَعُ نَبِیَّھَا یَقُوْلُوْنَ: یَا فُلاَنُ اشْفَعْ، یَا فُلاَنُ اشْفَعْ حَتَّی تَنْتَھِيَ الشَّفَاعَۃُ إِلَی النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَذَلِکَ یَوْمَ یَبْعَثُہُ اللهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ.
’’روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی: اے فلاں! شفاعت کیجئے، اے فلاں! شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَیْنَاھُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
’’قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، اور بالآخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس کائناتِ ہست و بود کے ہر مرحلے پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہی مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہے۔ یہ کائنات اپنے وجود اور ارتقاء میں اسی واسطۂ جلیلہ کی محتاج ہے۔ ایمان کا سفر بھی از اوّل تا آخر ہر ہر لمحہ واسطۂ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستنیر ہے۔ انسان اپنے آغاز سے انجام تک اور قبر سے حشر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ممتاز اور مشرف ہو گا۔ کفر اور ایمان کے درمیان جاری زندگی کے حسین انجام کا فیصلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بنیاد پر ہو گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved