حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں اور بعد اَز وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعینِ عظام کی سنت سے ثابت ہے جس پر پچھلے ابواب میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔ یہ سلسلۂ تبرک صرف آقا ں کی ذات تک محدود نہیں رہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور معیت سے فیض یاب ہونے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پھر ان سے نسبتِ غلامی رکھنے والے تابعین الغرض آج تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں جتنے اکابر اولیاء، صالحین، محدّثین، فقہاء، مفسرین گزرے ہیں اُن کے متعلقین اُن کے آثار سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہر ولی اور صالح شخص سے اُن کے متعلقین نے اُن کی حیات میں اور اُن کے وصال کے بعد اُن کی قبور سے برکت حاصل کی ہے۔ زیرِ نظر فصل میں احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اولیاء اور صالحین کے بابرکت ہونے کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق سے ایسے چند واقعات درج کئے جارہے ہیں جن سے یہ ثابت ہوگا کہ اکابرینِ اُمت اور عامۃ الناس کا کئی صدیوں سے یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ صالحین کے آثار و تبرکات سے فیوض و برکات حاصل کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے رہے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کثیر ارشاداتِ عالیہ میں اولیاء اور صلحاء کے وجود کو اپنی امت کے لئے بابرکت فرمایا ہے۔ ذیل میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کریں:
1۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَیُقَالُ: ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَھُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَیُقَالُ: ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَھُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَیُقَالُ: ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَھُمْ.
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے: ہاں(ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے)۔ تو انہیں (اس صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر انہیں (اس تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، تو انہیں (تبع تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔‘‘
2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے کہ آپ کے پاس اہلِ شام کا ذکر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا: امیر المؤمنین!آپ اہلِ شام پر لعنت بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، میں لعنت نہیں بھیجتا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
الأبْدَالُ یَکُوْنُوْنَ بِالشَّامِ وَ ھُمْ أرْبَعُوْنَ رَجُلاً، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ، أبْدَلَ اللهُ مَکَانَہُ رَجُـلًا یُسْقَی بِھِم الْغَیْثُ وَیُنْتَصَرُ بِھِمْ عَلَی الْأعْدَائِ، وَیُصْرَفُ عَنْ أَھْلِ الشَّامِ بِھِم الْعَذَابُ.
’’شام میں (ہمیشہ) چالیس ابدال موجود رہیں گے، ان میں سے جب بھی کوئی مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال بنادیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اہلِ شام بارش سے سیراب کیے جاتے ہیں، دشمنوں پر ان کو ابدال کے وسیلے سے فتح عطا کی جاتی ہے اور ان کی برکت سے اہلِ شام سے عذاب کو ٹال دیا جاتاہے۔‘‘
ملا علی قاری ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکٰوۃ المصابیح (1: 460)‘‘ میںمذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أی ببرکتهم أو بسبب وجودهم فیما بهم یدفع البلاء عَنْ هَذِہِ الْأُمَّۃِ.
’’ابدالوں کی برکت اور ان میں ان کے وجود کے سبب اُمتِ محمدیہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔‘‘
متعدد احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ امتِ مسلمہ کے اندر ہر زمانہ میں اللہ رب العزت کے کچھ اولیاء، صالحین اور مقرب یافتگان بندے موجود ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اِن صالح بندوں کی برکات کے سبب سے امتِ مسلمہ کو فتح و نصرت، بارش اور رزق سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اِن سے اپنے عذاب کو بھی رفع فرماتا ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات بے شمار ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ امتِ مسلمہ کے ہر دور میں اکابر اولیاء اور عامۃ الناس اپنے زمانہ کی متبرک اور مقدس شخصیات کے ہاتھ، پاؤں اور سَر چوم کر اُن کے فیوض وبرکات کو سمیٹتے رہے ہیں۔ ذیل میں اسی حوالے سے چند واقعات درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ حضرت عبد الرحمن بن رزین روایت کرتے ہیں کہ ہم ’ربذۃ‘ کے مقام سے گزرے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں، تو میں اُن کے پاس آیا اور ہم نے ان کو سلام کیا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ باہر نکال کر کہا:
بایعت بھاتین نبيّ الله صلی الله علیه وآله وسلم فأخرج کفًا لہ ضخمۃ کأنھا کف بعیر فقمنا إلیھا فقبّلناھا.
بخاری، الأدب المفرد، 1: 338، باب تقبیل الید، رقم: 973
’’میں نے ان دونوں ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے تو انہوں نے اپنی بھاری بھرکم ہتھیلی نکالی گویا کہ وہ اونٹنی کی ہتھیلی کی مانند تھی پس ہم اس کی طرف بڑھے او ر ان کی ہتھیلی کو بوسہ دیا۔‘‘
2۔ امام ابو نعیم اصبہانی نے بھی حضرت یونس بن مَیْسَرَہ سے مروی اسی طرح کا ایک واقعہ درج کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک روز یزید بن اسود عائدین کے پاس گئے۔ اُن کے پاس حضرت واثلہ بن اسقعص تشریف لائے:
فلما نظر إلیه مدّ یده فأخذ یده فمسح بها وجهه وصدرہ لأنه بایع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم.
أبو نعیم أصبھانی، حلیۃ الأولیاء، 9: 306
’’پس جب حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا ہاتھ آگے کیا، انہوں نے ہاتھ لے کر (حصولِ برکت کے لئے) اپنے چہرے اور سینے پر مَلا کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اسی ہاتھ سے) بیعت کی تھی۔‘‘
3۔ اکابر تابعین میں سے حضرت ثابتؒ نے ایک مرتبہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
أمَسَسْتَ النبي صلی الله علیه وآله وسلم بیدک؟ قال: نعم! فقبّلھا.
بخاری، الأدب المفرد، باب تقبیل الید، 1: 338، رقم: 974
’’کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! پس ثابت نے حضرت انسص کے ہاتھ کو چوما۔ ‘‘
4۔ یحییٰ بن ذماری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مل کر کہا:
بایعت بیدک هذہ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فقال: نعم، قلت: أعطني یدک أقبّلها فأعطانیها فقبّلتها.
’’آپ نے اس ہاتھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! پس میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ میری طرف کریں کہ میں اسے بوسہ دوں تو انہوں نے اس کو میری طرف کیا سو میں نے اسے بوسہ دیا۔ ‘‘
5۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
رأیت علیًا یقبّل ید العباس ورجلیہ.
بخاری، الأدب المفرد، باب تقبیل الید، 1: 339، رقم: 976
’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر افضلیت حاصل ہے مگر چچا اور صالح ہونے کی وجہ سے آپ نے اُن کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا۔
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حسن بن علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات کی اور اُن سے عرض کیا:
أرني الموضع الذي قبّلہ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ، فرفع الحسن ثوبہ، فقبّل سرّتہ.
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 9: 94، رقم: 4677
’’آپ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے بوسہ لیا ہے، امام حسنص نے اپنے جسم سے کپڑا سِرکا دیا تو انہوں نے آپ کی ناف کا بوسہ لیا۔‘‘
ذہن نشین رہے کہ جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں، اس قدر عظیم البرکت شخصیت ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اہلِ بیتِ اطہار سے فیض اور برکت حاصل کرنا ضروری سمجھا۔
7۔ صاحبِ ’’الصحیح‘‘ امام مسلم نے برکت حاصل کرنے کے لئے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر عرض کیا:
دعني حتی أقبّل رجلیک، یا أستاذ الأستاذین وسید المحدّثین وطبیب الحدیث في عللہ.
ابن نقطہ، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید، 1: 33
’’اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔‘‘
8۔ عظیم نقاد محدّث امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ جب ابو مسہر عبد الاعلیٰ دمشقی غسانی (م218ھ) مسجد میں تشریف لاتے تو
اصطفّ الناس یسلّمون علیہ ویقبّلون یدہ.
خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 11: 73
’’لوگ صف در صف اُن کو سلام کرتے اور اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے۔‘‘
9۔ علامہ ابنِ جوزی اور امام ذہبی، امام ابو قاسم سعد بن علی بن محمد زنجانی (م 471ھ) کے متعلق لکھتے ہیں:
کان إذا خرج إلی الحرم، یخلون المطاف ویقبّلون یدہ أکثر من تقبیل الحجر.
’’جب وہ حرم میں تشریف لاتے تو لوگ طواف کو چھوڑ دیتے اور حجرِ اسود کو چومنے سے بھی بڑھ کر اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے۔‘‘
10۔ حافظ ابنِ کثیر، فقیہ زاہد ابوجعفر شریف حنبلی کے بارے میں درج کرتے ہیں:
یدخل علیه الفقهاء وغیرهم، ویقبّلون یده ورأسه.
ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ، 12: 119
’’فقہاء اور دیگر حضرات اُن کے پاس آتے تو (برکت کی غرض سے) اُن کے ہاتھ اور سر کا بوسہ لیتے۔‘‘
11۔ علامہ ابن العماد حنبلی، زاہد ابوبکر بن عبدالکریم حنبلی (م 635ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
کان شیخاً صالحاً متدیناً ورعاً، منقطعاً عَن النَّاسِ في قریته یقصده الناس لزیارته والتبرک به.
ابن العماد، شذرات الذھب، 3: 171
’’آپ بزرگ، صالح، دین دار اور زاہد شخص تھے، اپنی بستی میں لوگوں سے تنہا رہتے تھے، لوگ اُن کی زیارت کے لئے اور اُن سے برکت حاصل کرنے کی غرض سے اُن کے پاس حاضر ہوتے۔‘‘
مندرجہ بالا تمام آثار اور واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ آج بھی اگر کوئی مرید، شاگرد یا سالک اپنے شیخ، مربی اور مرشد کے ہاتھ، پاؤں اور سَر کا بوسہ لے تو وہ شرک نہیں ہو گا بلکہ عین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنتِ فعلی اور سلف صالحین کی اتباع ہو گی۔ اگر شیخ یا کسی بزرگ و متبرک ہستی کے تبرکاً ہاتھ پاؤں چومنے کی کوئی ممانعت ہوتی یا اس میں کسی شرک کا شائبہ پایا جاتا تو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار صحابہ اور بعد میں آنے والے اُن کے متبعین ائمہ کرام کبھی بھی اس عمل کو بجا لانے کی جرأت نہ کرتے۔ چونکہ اس پر کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی لہٰذا اگر آج ہم میں سے بھی کوئی شخص حصولِ برکت کی نیت سے اپنے شیخ کے ہاتھ پاؤں چومے گا تو وہ اتباعِ صحابہ ہی پر عمل کر رہا ہوگا۔
مذاہبِ اربعہ کے فقہاء ائمہ نے اولیاء اور صالحین کے ہاتھوں اور پاؤں کو برکت حاصل کرنے کی غرض سے چومنے کو جائز، مستحب اور مسنون قرار دیاہے۔ اس پر درج ذیل اقوالِ فقہاء ملاحظہ فرمائیں:
علامہ علاء الدین حصکفی حنفی (م 1088ھ) رقم طراز ہیں:
لا بأس بتقبیل ید الرجل العالم والمتورع علی سبیل التبرک.
حصکفی، در المختار، 6: 383
’’حصولِ برکت کی غرض سے عالم اور زاہد شخص کا ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
علامہ ابنِ بطال بکری قرطبی نے تقبیلِ ید پر امام مالک کا فتویٰ بیان کیا ہے:
إنما کرهها مالک إذا کانت علی وجه التکبر والتعظم، وأما إذا کانت علی وجه القربۃ إلی الله لدینه أو لعلمه أو لشرفه فإن ذلک جائز.
عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 11: 57
’’اگر تکبر اور بڑائی کے پیشِ نظر کسی کا ہاتھ چوما جائے تو امام مالک نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے لیکن اگر یہ عمل کسی شخص کے دین، علم اور شرف کے باعث اللہ رب العزت کے ہاں قربت چاہنے کی وجہ سے ہو تو جائز ہے۔‘‘
شارحِ ’’صحیح مسلم‘‘ امام محیی الدین نووی شافعی (م 676ھ) فرماتے ہیں:
(الرابعۃ) یستحبّ تقبیل ید الرجل الصالح والزاهد والعالم ونحوھم من أھل الآخرۃ.
نووی، المجموع شرح المهذب، 4: 516
’’(چوتھا مسئلہ) صالح، زاہد، عالم اور ان جیسے دیگر آخرت کی فکر رکھنے والے اشخاص کا ہاتھ چومنا مستحب ہے۔‘‘
علامہ منصور بن یونس بن ادریس بہوتی حنبلی (م 1051ھ) صالحین کے ہاتھوں کو چومنے کے بارے لکھتے ہیں:
ولا بأس بتقبیل الرأس والید لأهل العلم والدین ونحوهم.
بهوتی، کشاف القناع عن متن الإقناع، 2: 156
’’اہلِ علم و دین اور اِن جیسی دیگر شخصیات کا سَر اور ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئی علامہ بہوتی آگے لکھتے ہیں:
یباح تقبیل الید والرأس تدیناً وإکراماً واحتراماً مع أمن الشهوۃ.
بهوتی، کشاف القناع عن متن الإقناع، 2: 157
’’کسی کی دینداری، اکرام اور احترام کے سبب سَر اور ہاتھ چومنا مباح ہے بشرطیکہ شہوتِ نفسانی سے محفوظ ہو۔‘‘
مذاہبِ اربعہ کے اَجل ائمہ کی درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ امتِ مسلمہ کے کسی صالح، متقی، پرہیزگار، زاہد، عالم اور دیندار شخص کے ہاتھ، پاؤں اور سر کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مسنون، مستحب اور مباح ہے۔ کسی بھی شخص کے ہاتھ پاؤں چومنے کو اُس صورت میں مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے جبکہ اس کے باعث غرور، تکبر، بڑائی اور نفسانی خواہشات کی رو میں بہکنے کا اندیشہ ہو لیکن اگر کوئی مرید یا شاگرد محض تبرک کی نیت سے اپنے شیخ اور استاذ کا ہاتھ پیر چومتا ہے تو وہ جائز ہے۔
1۔ (امام شافعی کے شاگرد) ربیع بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی مصر تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے کہا: میرا یہ خط سلامتی سے ابو عبد الله احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لا کر دو۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل سے میری ملاقات ہوئی۔ جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے خط اُن کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط آپ کے بھائی شافعی نے آپ کو مصر سے بھیجا ہے۔ امام احمد نے مجھ سے کہا: کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، میں نے پوچھا: ابو عبد الله کیا ہوا، اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے کہ ابوعبد الله کو خط لکھو، اسے سلام لکھ کر کہو کہ تمہیں عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن (کے باطل عقیدہ) کی دعوت دی جائے گی سو تم اسے قبول نہ کرنا، الله تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔ اس کے بعد ربیع بیان کرتے ہیں:
فقلت له: البشارۃ یا أبا عبد الله، فخلع أحد قمیصه الذي یلي جلده فأعطانیه، فأخذت الجواب، فخرجت إلی مصر وسلمته إلی الشافعي. فقال: أیش الذي أعطاک. فقلت: قمیصه. فقال الشافعي: لیس نفجعک به، ولکن بلّه وادفع إلي الماء لأ تبرک به.
تاج الدین سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبری، 2: 36
’’میں نے اُن سے کہا: ابو عبد الله! آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔ انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی، میں اُن سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: انہوں نے تمہیں کوئی چیز عطا کی ہے؟ میں نے کہا: اپنی قمیص، امام شافعی نے فرمایا: ہم تمہیں اس کے بارے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے، مگر اتنا کردو کہ اسے گیلا کرکے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اس سے برکت حاصل کریں۔‘‘
2۔ امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان ثوری (متوفی 161ھ) اپنے زمانہ کے اولیاء کے پاس تبرک کے لئے حاضر ہوئے، امام احمد بن عبد الله عجلی نے کوفہ کے ایک عبادت گزار محدّث عمرو بن قیس الملائی کوفی کے ترجمہ میں لکھا ہے:
کان سفیان یأتیہ یسلّم علیہ یتبرک بہ.
عجلی، معرفۃ الثقات، 2: 182
’’سفیان ثوری اُن کے پاس حاضر ہوتے، انہیں سلام کہتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘
3۔ سلطان محمود غزنوی کو سومنات کی جنگ میں حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی ؒ کے جبے کی برکت سے الله تعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت عطا فرمائی تھی۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ تذکرۃ الأولیاء کے صفحہ نمبر 344 پر بیان کرتے ہیں:
’’سلطان محمود غزنوی کے پاس حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانیؒ کا جبہّ مبارک تھا۔ سومنات کی جنگ میں ایک موقع پر خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی، سلطان محمود غزنوی اچانک گھوڑے سے اتر کر ایک گوشے میں چلے گئے اور وہ جبّہ ہاتھ میں لے کر سجدے میں گر گئے اور دعا مانگی:
اللّهم، انصرنا علی هؤلاء الکفّار ببرکۃ صاحب هذه الخرقۃ، وکل ما یحصل لي من أموال الغنیمۃ فهو صدقۃ علی الفقرائ.
فرید الدین عطار، تذکرۃ الأولیاء: 344
’’یا الله! اس جبّے والے کی برکت سے ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما اور جو کچھ مال غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب درویشوں پر صدقہ ہوگا۔‘‘
اس کے بعد شیخ فرید الدین عطارؒ بیان کرتے ہیں:
’’اچانک دشمن کی طرف سے شور اُٹھا اور تاریکی چھا گئی اور کافر آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اور مختلف حصوں میں بٹ گئے۔ لشکرِ اسلام کو فتح حاصل ہو گئی۔ اس رات محمود غزنوی نے حضرت ابو الحسن خرقانیؒ کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا:
یا محمود، لم تعرف مکانۃ خرقتنا فی حضرۃ الله تعالیٰ ، لو سألت الله تعالیٰ فی تلک السّاعۃ إسلام جمیع الکفار لأسلموا.
فرید الدین عطار، تذکرۃ الأولیاء: 345
’’اے محمود! تم نے دربار الٰہی میں ہمارے جبّے کی قدر نہ کی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے اُس لمحے تمام کافروں کے لیے قبولیتِ اسلام کی درخواست کرتے تو (اس کی برکت سے) وہ سب اِسلام قبول کر لیتے۔‘‘
جمہور امتِ مسلمہ میں حصولِ برکت کا ایک ذریعہ قبورِ اولیاء و صالحین پر حاضری بھی رہا ہے۔ تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی بابرکت ہستی گزری ہوگی جس کی قبر مبارک پر عامۃ الناس اور اکابرینِ امت نے حاضری نہ دی ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر اہلِ بیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام ث، صالحین، زاہدین، محدّثین اور اولیاء رحمۃ الله تعالٰی علیہم کی قبور پر حاضری امتِ مسلمہ کی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ اس پر تفصیلات کتاب ھذا کے باب ’’توحید اور زیارت‘‘ میں ملاحظہ کریں دلیل کے طور پر چند صالحین کی قبور پر عامۃ الناس اور ائمہ کی حاضری کے واقعات درج ذیل ہیں۔
خطیب بغدادی (م 463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعیؒ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطیب بغدادیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی 150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إنّي لأتبرّک بأبي حنیفۃ، وأجيء إلی قبرہ في کلّ یوم - یعني زائرًا - فإذا عُرضت لي حاجۃ صلّیت رکعتین، وجئتُ إلی قبرہ، و سألت الله تعالی الحاجۃ عندہ، فما تبعد عنّي حتی تقضی.
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘
مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قد زرته مرارًا کثیرۃ، وما حلّت بي شدّۃ في وقت مقامي بطوس، وزرت قبر علی بن موسی الرضا صلوات الله علی جده وعلیه، ودعوت الله تعالیٰ إزالتها عنّي إلا استجیب لي، وزالت عنّي تلک الشدّۃ وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک، أماتنا الله علی محبۃ المصطفی وأھل بیته صلی الله و سلم علیه و علیهم أجمعین.
ابن أبي حاتم رازی، کتاب الثقات، 8: 457، رقم: 14411
’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی الله وسلم علیہ وعلیہم أجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔‘‘
امام ذہبی (م 748ھ) نے امیر المؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری(م 256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے:
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا: میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا:
أری أن تخرج ویخرج الناس معک إلی قبر الإمام محمد بن إسماعیل البخاري، وقبره بخرتنک، ونستسقي عنده فعسی الله أن یسقینا۔ قال: فقال القاضي: نعم، ما رأیت۔ فخرج القاضي والناس معه، واستسقی القاضي بالناس، وبکی الناس عند القبر وتشفعوا بصاحبه. فأرسل الله تعالی السماء بماء عظیم غزیر، أقام الناس من أجله بخرتنک سبعۃ أیام أو نحوھا لا یستطیع أحد الوصول إلی سمرقند من کثرۃ المطر وغزارته، وبین خرتنک وسمرقند نحو ثلاثۃ أمیال.
ذهبی، سیر أعلام النبلاء، 12: 469
’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے۔ قاضی نے کہا: آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے، قاضی نے لوگوں کے ساتھ مل کر بارش کے لئے دعا کی، لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ تعالیٰ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ الله تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
قبورِ صالحین سے تبرک کو اطراف واکناف کے علماء کی طرف سے جواز کی سند حاصل ہے۔ اس پر چند ائمہ کرام کے درج ذیل اقوال ہیں۔
1۔ حجۃ الاسلام امام ابوحامد محمد غزالی (م 505ھ) إحیاء علوم الدین میں آداب السفر کے ضمن میں فرماتے ہیں:
ویدخل في جملتہ زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم السلام، وزیارۃ قبور الصحابۃ والتابعین وسائر العلماء والأولیاء، وکل من یتبرک بمشاھدتہ في حیاتہ یتبرک بزیارتہ بعد وفاتہ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 2: 247
’’سفر کی دوسری قسم میں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ، تابعین اور دیگر علماء و اولیاء کے مزارات کی زیارت بھی داخل ہے۔ ہر وہ شخص کہ جس کی زندگی میں زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
2۔ امام ابن الحاج فاسی (م 737ھ) نے اپنی کتاب المدخل میں مزاراتِ اولیاء سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے:
وما زال النّاس من العلماء والأکابر کابرًا عن کابر مشرقاً ومغرباً یتبرّکون بزیارۃ قبورهم ویجدون برکۃ ذلک حسًا ومعنًی.
ابن الحاج، المدخل، 1: 249
’’مشرق و مغرب کے علماء اور اکابر مزاراتِ اولیاء کی زیارت سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں اور حسی اور معنوی طور پر اس کی برکت پاتے رہے ہیں۔‘‘
3۔ علامہ ابنِ عابدین شامیؒ زیارتِ قبور کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے قبورِ اولیاء کے بارے میں لکھتے ہیں:
وأما الأولیاء فإنهم متفاوتون في القرب من الله تعالٰی، ونفع الزائرین بحسب معارفهم وأسرارهم.
ابن عابدین، حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار، 2: 242
’’اولیاء کو اللہ رب العزت کے ہاں قربت کے لحاظ سے مختلف مقام حاصل ہوتے ہیں، (اس وجہ سے) زائرین کو (اُن کی قبور کی زیارت کے وقت) اُن کے معارف اور اسرار کے حسبِ حال نفع حاصل ہوتا ہے۔‘‘
کیمیا پیدا کن اَز مشتِ گلے
بوسہ زن بر آستانِ کاملے
ہم نے گذشتہ فصول میں برکت اور تبرک کا صحیح تصور قرآن و حدیث اور ائمہ و محدثین کے اقوال و معمولات کی روشنی میں بیان کیا۔ جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ الله رب العزت کے فضل اور عطاء سے بعض ہستیاں، ان کے آثار اور مقامات فیض رساں اور بابرکت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ ایمان نہ صرف یہ کہ آثارِ انبیاء و اولیاء سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے ہیں بلکہ کسی صالح بزرگ ہستی، متبرک مقام اور آثار سے حصولِ فیض اور برکت کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ جسے وہ منافی توحید نہیں سمجھتے تھے او نہ کسی نے اس عملِ خیر کو شرک بدعت قرار دیا۔
معتبر کتب سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام ث، اولیاء عظام اور محدّثینِ کبار کی قبورِ مبارکہ پر حاضری دینا، زیارت کرنا اور اُن سے برکت حاصل کرنا عام مسلمانوں اور اکابرینِ امت کا طریقہ رہا ہے۔ جلیل القدر محدّثین، فقہاء اور صالحین اپنے زمانہ کے اور ما قبل زمانہ کے اکابر شیوخ و صوفیاء کی قبور پر حصولِ برکت کے لئے اور حلِ مشکلات کے لئے حاضر ہونے کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ عامۃ الناس اور اکابر اِن بابرکت قبور کو مستجاب الدعاء ٹھہراتے تھے اور وہاں پہنچ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اُن کی برکت کے سبب سے بارش، شفایابی اور دیگر مشکلات کا حل طلب کرتے تھے۔
سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ وہ ائمہ جو امت کے لئے اصولِ دین مرتب کرتے رہے ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ صالحین کی قبروں سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے تھے ۔صاف ظاہر ہے اگر اس عمل میں ذرا بھر بھی شرک و بدعت کا شائبہ ہوتا تو وہ ہرگز اس پر کاربند نہ ہوتے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved