صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوض و برکات حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی وہ اسے دنیا و ما فیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے عمل کے باعث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ شعور بیدار ہو گیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے، ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔ صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اَدوار کے بعد نسل در نسل ہر زمانے میں اکابر ائمہ و مشائخ اور علماء و محدّثین کے علاوہ خلفاء و سلاطین بھی تبرکات و آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصی اہتمام کے ساتھ بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھتے اور اُن سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ خاص ایام پر بہت اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان کی زیارت کرائی جاتی، ان سے تبرک حاصل کیا جاتا، اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ ذیل میں اسی حوالے سے صحابہ و تابعین اور ائمہ کے معمولات و مشاہدات کا ذکر کیا جائے گا۔
ہر صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوشش ہوتی کہ ہر اس چیز سے نسبت جوڑی جائے جس کا کسی نہ کسی طرح آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رہا ہو۔ ائمهِٔ حدیث نے اس حوالے سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا ہے کہ وہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں کو اپناتے تھے۔ انہیں تو بس اتنی سی بات معلوم ہونے کی دیر ہوتی کہ یہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک عمل ہے پھر وہ عمر بھر یہی عمل بار بار دہراتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ذو الحلیفہ میں بجریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھاتے اور نماز ادا کیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی تبرکاً یہی دو عمل اپنا معمول بنا لیے۔
1۔ حضرت نافع سے ’’صحیح مسلم‘‘ میں روایت ہے:
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنهما یُنِیْخُ بِالْبَطْحَآئِ الَّتِي بِذِي الْحُلَیْفَۃِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یُنِیْخُ بِھَا وَیُصَلِّي بِھَا.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب: استحباب نزول ببطحاء ذي الحلیفۃ والصلاۃ بھا …، 2: 981، رقم: 1347
’’حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ذوالحلیفہ کی اس کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھاتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اور اسی جگہ نماز پڑھتے تھے (جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تھی)۔‘‘
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
قال القاضی والنزول بالبطحاء بذی الحلیفۃ فی رجوع الحاج لیس من مناسک الحج وإنما فعلہ من فعلہ من أھل المدینۃ تبرّکاً بآثار النبي صلی الله علیه وآله وسلم ولأنھا بطحاء مبارکۃ.
نووی، شرح صحیح مسلم، 9: 115
’’قاضی نے کہا: حاجیوں کا ذو الحلیفہ پر ٹھہرنا مناسکِ حج میں سے نہیں یہ بعض اہلِ مدینہ کا عمل ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارک سے تبرک حاصل کرتے ہوئے کیا کیونکہ یہ مبارک وادی ہے۔‘‘
2۔ حضرت محمد بن عمران انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا:
عَدَلَ إِلَیَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمَرَ وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَۃٍ بِطَرِیْقِ مَکَّۃَ فَقَالَ: مَا أَنْزَلَکَ تَحْتَ ھَذِهِ الشَّجَرَۃِ فَقُلْتُ أَنْزَلَنِي ظِلُّھَا قَالَ عَبْدُاللهِ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم : إِذَا کُنْتَ بَیْنَ الْأَخْشَبَیْنِ مِنْ مِنًي وَنَفَخَ بِیَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِنَّ ھُنَاکَ وَادِیًا یُقَالُ لَہ السُّرَّبَۃُ وَفِی حَدِیْثِ الْحَارِثِ یُقَالُ لَہُ السُّرَرُ، بِهِ سَرْحَۃٌ سُرَّ تَحْتَھَا سَبْعُوْنَ نَبِیًّا.
’’میں مکۃ المکرمہ کے راستے میں ایک بڑے درخت کے نیچے ٹھہرا ہوا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا: آپ اس درخت کے نیچے کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اس کے سایہ کی وجہ سے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب آپ منیٰ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا، وہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جس کو سُرَّبَہ یا سُرَرْ کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء علیہم السلام کی ناف کاٹی گئی (یعنی وہاں ان کی ولادت باسعادت ہوئی)۔‘‘
(1) امام ابنِ عبدالبر نے ’’الموطا‘‘ کی شرح ’’التمہید (13: 67)‘‘ میں مذکورہ حدیث کے تحت لکھا ہے:
وفی ھذا الحدیث دلیل علی التّبرّک بمواضع الأنبیاء والصّالحین ومقاماتھم ومساکنھم.
’’اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
(2) امام محمد بن عبدالباقی بن یوسف زرقانی (م 1122ھ) نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
وفیہ التّبرّک بمواضع النبیّین.
زرقانی، شرح الزرقانی، 2: 530
’’پس اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام کے قیام گاہوں سے تبرک کا ثبوت بھی ہے۔‘‘
(3) امام سیوطی نے ’’سنن نسائی‘‘ کی شرح میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے:
یعنی أنھم ولدوا تحتھا فھو یصف برکتھا.
سیوطی، شرح السیوطی، 5: 249
’’اس سے مراد یہ ہے کہ اس درخت کے نیچے انبیاء علیہم السلام کی ولادتِ مبارکہ ہوئی پس انہوں نے اس درخت کی برکت کو بیان کیا۔‘‘
3۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں:
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللهِ یَتَحَرَّی أَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِیْقِ فَیُصَلِّي فِیْھَا وَیُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاہُ کَانَ یُصَلِّي فِیْھَا وَأنَّہٌ رَأَی النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یُصَلِّي فِی تِلْکَ الْأَمْکِنَۃِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب: المساجد التي علی طرق المدینۃ والمواضع التي صلی فیھا النبي صلی الله علیه وآله وسلم ، 1: 183، رقم: 469
’’میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ (حرمین کے) راستے میں کچھ جگہوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہاں نماز پڑھا کرتے تھے اور وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ان کے والدِ گرامی (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) ان مقامات میں نمازیں پڑھا کرتے تھے اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔‘‘
اس روایت میں اماکنِ مقدسہ سے تبرک کا ثبوت ہے۔ شارحِ ’’صحیح بخاری‘‘ حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں:
ومحصل ذلک أن ابن عمر کان یتبرّک بتلک الأماکن.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 1: 569
’’اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اِن اماکنِ مقدسہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔‘‘
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا۔ آپ رضی اللہ عنھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حسبِ خواہش اس کی زیارت کرایا کرتی تھیں۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَخْرَجَتْ إِلَیْنَا عَائِشَۃُ رضی اللہ عنھا کِسَائً مُلَبَّدًا وَقَالَتْ: فِيْ ھَذَا نُزِعَ رُوْحُ النَّبِیِ صلی الله علیه وآله وسلم.
بخاری، الصحیح، کتاب الخمس، باب: ما ذکر عن درع النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1131، رقم: 2941
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک اس مبارک کمبل میں ہوا تھا۔‘‘
امام بخاریؒ، صحیح بخاری میں ’’کتاب الخمس‘‘ کے جس باب کے تحت مذکورہ بالا حدیث لائے ہیں۔ اس کا عنوان قائم کر کے انہوں نے لفظِ تبرک استعمال کیا ہے:
بَابُ مَا ذُکِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَعَصَاہُ وَسَیْفِهِ وَقَدْحِهِ وَخَاتَمِهِ وَمَا اسْتَعْمَلَ الْخُلَفَائُ بَعْدَہُ مِنْ ذَلِکَ مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ قِسْمَتُہٗ وَمِنْ شَعَرِهِ وَنَعْلِهِ وَآنِیَتِهِ مِمَّا یَتَبَرَّکُ بِهِ أَصْحَابُہُ وَغَیْرُہُمْ بَعْدَ وَفَاتِہٖ صلی الله علیه وآله وسلم.
بخاری، الصحیح، کتاب فرض الخمس، باب: 5
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات مثلاً زرہ، عصا، تلوار، پیالہ اور انگوٹھی اور ان میں سے جن چیزوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفاء نے استعمال کیا جنہیں تقسیم نہیں کیا گیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک اور نعل مبارک اور برتن کا بیان جن سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر لوگ برکت حاصل کرتے تھے۔‘‘
امام بخاری کا اس عنوان سے باب باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استعمال کردہ مقدس اشیاء سے حصولِ برکت خلفائِ راشدین اور دیگر صحابہ کرامث کی سنت ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کو تبرکاً حاصل کیا بعد میں خصوصی اہتمام کے ساتھ انہیں محفوظ کیا اور نسلاً بعد نسلٍ اُمت میں موئے مبارک محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَرْسَلَنِي أَهْلِي إِلَی أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَائٍ، وَقَبَضَ إِسْرَائِیْلُ ثَـلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّۃٍ فِیْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَیْنٌ أَوْ شَیئٌ بَعَثَ إِلَیْهَا مِخْضَبَہُ فَاطَّلَعْتُ فِی الْجُلْجُلِ فَرَأَیْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
والمراد أنہ کان من اشتکی أرسل إناء إلی أم سلمۃ فتجعل فیہ تلک الشعرات وتغسلھا فیہ وتعیدہ فیشربہ صاحب الإناء أو یغتسل بهِ استشفاء بھا فتحصل لہ برکتھا.
عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 10: 353
’’اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں، پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا تو اسے اُن موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔‘‘
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں:
أنّ أم سلمۃ کان عندھا شعرات من شعر النبي صلی الله علیه وآله وسلم حمر فی شئ مثل الجلجل وکان الناس عند مرضهم یتبرکون بہا ویستشفون من برکتھا.
عینی، عمدۃ القاری، 22: 49
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے تبرک حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔‘‘
اکابر ائمہ کرام موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حد تک قدر و قیمت کرتے تھے کہ انہیں دنیا و مافیہا کے خزانوں سے بڑھ کر موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی۔
امام ابنِ سیرین بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِعَبِیْدَۃَ: عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم ، أَصَبْنَاہُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَھْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُوْنَ عِنْدِي شَعَرَۃٌ مِنْہُ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا.
’’میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے اہلِ خانہ سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَأَنْ یَکُوْنَ عِنْدِي مِنْہُ شَعَرَۃٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَیْضَائَ أَصْبَحَتْ عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے زمین کے تمام ظاہری اور پوشیدہ خزانوں، سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
حضرت ثابت بُنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هَذِهِ شَعَرَۃٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ: فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِیَ تَحْتَ لِسَانِهِ.
عسقلانی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 1: 127
’’یہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے ، پس تم اسے (تدفین کے وقت) میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے وہ بال مبارک آپص کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘
حضرت صفیہ بنتِ نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ دورانِ جہاد وہ ٹوپی گر پڑی وہ اس کو لینے کے لئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولیدص نے فرمایا:
لم أفعلْھا بسبب القَلَنْسُوۃ، بل لما تضَمَّنَتْہ من شَعرِہ صلی الله علیه وآله وسلم لئلا أُسْلَب برکتھا وتقع فی أیدی المشرکین.
’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ لگ جائے۔‘‘
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کے آزاد کردہ غلام حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشمی کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اللہ عنھا فرمانے لگیں:
ھَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَۃَ حَتَّی قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُھَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم یَلْبَسُھَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُھَا لِلْمَرْضَی یُسْتَشْفَی بِھَا.
’’یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تو اسے میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیبِ تن فرماتے تھے، سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی (تبرکًا) بیماروں کو شفاء یابی کے لئے پلاتے ہیں۔‘‘
امام نوویؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وفی هذا الحدیث دلیل علی استحباب التبرک بآثار الصالحین وثیابهم.
نووی، شرح صحیح مسلم، 14: 44
’’اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
لبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑا بابرکت ہو گیا۔ صحابہ کرامث ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پانی پلانے کے لئے ایسے برتنوں کا استعمال باعثِ برکت و سعادت گردانتے تھے۔
حضرت ابوہریرہص سے مروی ہے کہ میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور ا نہوں نے کہا:
اِنْطَلِقَ إلَی الْمَنْزِلِ فَأَسْقِیَکَ فِی قَدَحٍ شَرِبَ فِیْهِ رَسُوْلُ الله صلی الله علیه وآله وسلم.
’’میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔‘‘
حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھی حضور ں کا مبارک پیالہ محفوظ تھا بعد میں جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسا پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا۔ سوئے اتفاق سے جب وہ ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس کی مرمت کا خصوصی اہتمام کیا۔
عاصم، امام ابنِ سیرین سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّ قَدْحَ النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم انْکَسَرَ فَاتَّخَذَ مَکَانَ الشَّعْبِ سِلْسَلَۃً مِنْ فِضَّۃٍ. قَالَ عَاصِمٌ: رَأَیْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِیْهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے) جوڑ پر چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں: خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔‘‘
حجاج بن حسان بیان کرتے ہیں:
کُنَّا عِنْدَ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ، فَدَعَا بِإنَائٍ وَفِیْهِ ثَلاَثُ ضِبَابٍ حَدِیْدٍ وَحَلْقَۃٌ مِنْ حَدِیْدٍ، فَأُخْرِجَ مِنْ غِلَافٍ أَسْوَدَ وَھُوَ دُوْنَ الرُّبُعِ وَفَوْقَ نِصْفِ الرُّبُعِ، فَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فَجُعِلَ لَنَا فِیهِ مَائٌ فَأُتِیْنَا بِهِ فَشَرِبْنَا وَصَبَبْنَا عَلَی رُؤُوْسِنَا وَوُجُوْهِنَا وَصَلَّیْنَا عَلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم.
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ اس برتن کو سیاہ غلاف سے نکالا گیا جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘
اس صحیح حدیثِ مبارکہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بعد از وصال گہری تعظیم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے درج ذیل پہلو نمایاں معلوم ہوئے:
غور طلب پہلو یہ ہے کہ اتنے اہتمام کرنے کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعینِ عظام میں سے کبھی کسی نے ایک دوسرے پر شرک اور بدعت کا فتویٰ نہیں لگایا، کیونکہ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حقیقی تعلیم سے آشنا تھے کہ آثارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعد از وصال بھی برکت حاصل کرنا ہر گز بھی منافیٔ توحید اور شرک نہیں۔
جن پاپوش کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھولوں سے نرم و نازک تلووں نے مس کیا اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدمین شریفین سے نسبت ہوگئی وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان نعلینِ مبارک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ہمیشہ ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ عشاقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تاج شاہی سے بڑھ کرتعظیم کی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی ایک بندہ مؤمن کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء متقدمین و متاخرین نے نعلینِ پاک کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں مثلاً:
1۔ مولانا شہاب الدین احمد مقری نے ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ نامی کتاب لکھی۔
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’نیل الشفاء بنعال المصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ رسالہ لکھا جو کہ ان کی کتاب ’’زاد السعید‘‘ میں موجود ہے۔
نقشِ نعلینِ مبارک کے حوالے سے امام ابنِ فہد مکی اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا۔ جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا۔ جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
نقشِ نعلین پاک کی آزمائی ہوئی فوائد و برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو حصولِ برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے تو وہ شخص ظالم کے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیاطین کے شر اورہر حاسد کی نظرِ بد سے حفاظت میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدت دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔اس نقشِ مقدس کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نظرِ بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے۔ برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بہت سے واقعات کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر تبرک اور توسل کے لئے حاضر ہونا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات سے ثابت ہے۔ حضرات شیخین کریمین کا قبرِ انور کے قرب میں دفن ہونے کی خواہش، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی لوگوں کو قبرِ انور پر حاضری کی تلقین، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت بلال اور حضرت ابوایوب انصاری رضوان اللہ تعالٰی علیہم أجمعین کے حاضری کے معمولات صحتِ روایات کے ساتھ ثابت ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام واجباتِ ایمان میں سے ہے۔ ادب و احترام کا یہی تقاضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سننِ مقدسہ، احادیثِ مبارکہ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ مبارک کے باب میں بھی ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس طرح اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کی محبت و ادب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نسبت سے ضروری ہے۔ ایسے امور کے ملحوظ رکھنے سے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو بہت سی ظاہری و باطنی برکات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی بے ادبی کرنے سے بہت سی آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں جن کاعام لوگوں کو ادراک نہیں ہوتا۔
قاضی عیاضؒ ’’الشفا‘‘ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أن جَھْجَاھَا الغفَارِیَّ أخَذَ قضیبَ النبیِّ صلی الله علیه وآله وسلم من ید عثمانص، وتناولہ لِیکسِرہ علی رُکبتہ، فصاح بہ الناسُ، فأخذتہ الأکِلَۃ فی رُکبتہ فقطعھا، وَمَاتَ قَبْل الْحَولِ.
’’جَہجاہا غفاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش کی۔ لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ ایک سال سے کم عرصہ میں مر گیا۔‘‘
نوٹ: مزید تفصیلات کے لئے راقم کی کتاب ’’تبرک کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ کریں۔
مذکورہ تمام روایاتِ صحیحہ جو احادیثِ مبارکہ کی معتبر ترین کتب سے ماخوذ ہیں، اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ صحابہ کرام ث، تابعینِ عظام اور ائمہ کبار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد از وصال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہر شے کی اسی طرح بے حد تعظیم کی جس طرح وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں اِن کی تکریم کرتے تھے۔ صحابہ کرامث جو تبرکاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے اس سے ان کا مقصد انہیں برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ انہیں منبعِ فیوض و برکات اور دافعِ آفات و بلیات سمجھتے تھے۔ ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںدعا کرتے۔ ان رِوایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر اکابرینِ اُمت نے ان آثار و تبرکات سے نہ صرف یہ کہ فیوض و برکات حاصل کئے بلکہ مقاصدِ جلیلہ بھی پورے کئے۔
جمہور صحابہ اور کثیر تابعین سے مروی مذکورہ روایات اور اِن پر ابنِ عبدالبر، قاضی عیاض، نووی، ابنِ حجر عسقلانی، بدرالدین عینی، سیوطی، زرقانی اور دیگر اجل ائمہ کے تبصروں اور آراء سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اُن عظیم ہستیوں کے نزدیک انبیائِ عظام اور صالحینِ کبار کے آثار سے اُن کی حیات میں اور بعد از وصال فیوض و برکات حاصل کرنا ہر گز بھی شرک کے دائرہ میں نہیں آتا۔
جو شخص بھی صحابہ، تابعین اور اکابرینِ امت کے اس عقیدہ صحیحہ کا انکار کرتا ہے وہ درحقیقت راهِ ضلالت پر چل رہا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا:
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَائَتْ مَصِیْرًاo
النساء، 4: 115
’’اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر استقامت سے چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved