کتبِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرانے کے علاوہ بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تبرک حاصل کرتے تھے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کو تبرکاً مس کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے برکت حاصل کرتے۔ جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دستِ مبارک دھوتے اسے اپنے چہروں اور بدن کے حصوں پر مل کر برکت حاصل کرتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے برکت حاصل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک، لعابِ دہن، موئے مبارک، انگوٹھی مبارک، بستر مبارک، چارپائی مبارک اور چٹائی مبارک سے برکت حاصل کرتے تھے۔ الغرض وہ ہر اس چیز سے برکت حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے تھوڑی یا زیادہ نسبت ہوتی بلکہ جن مبارک مکانوں اور رہائش گاہوں میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن مقدس جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں، جن بخت رسا راہوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے، ان کے گرد و غبار تک سے بھی انہوں نے برکت حاصل کی۔ اس حوالے سے تفصیلی مطالعہ کے لئے ہماری کتاب ’’تبرک کی شرعی حیثیت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ چند احادیثِ مبارکہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر شمائل و خصائص کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے فضائل و برکات بھی بے شمار ہیں۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیثِ قدسی بیان کی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
وعزتي وجلالي! لا أعذب أحدًا تسمی باسمک في النار.
حلبی، اِنسان العیون (السیرة الحلبیة)، 1: 135
’’(اے حبیبِ مکرم!) مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم! میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔‘‘
علامہ حلبی لکھتے ہیں کہ اس حدیثِ مبارکہ میں نام سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور اسم گرامی ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ یا ’’اَحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے۔
2۔ ایک روایت میں ہے کہ محمد نام رکھنے سے انسان میں برکت آجاتی ہے اور جس گھر یا مجلس میں محمد نام کا شخص ہو وہ گھر اور مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
3۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما اجتمع قوم قط فی مشورة معھم رجل اسمه محمد، لم یدخلوه فی مشورتھم إلا لم یبارک لھم.
خطیب بغدادی، موضح أوھام الجمع والتفریق، 1: 446
2۔ حلبی نے ’’إنسان العیون (1: 135)‘‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔
’’کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو جن کے اندر محمد نام والا کوئی شخص موجود ہو اور وہ اُسے اپنے مشورہ میں شامل نہ کریں تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہوگی۔‘‘
4۔ امام مالکؒ کا قول ہے:
ما کان فی أهل بیت اسم محمد إلا کثرت برکته.
مناوی، فیض القدیر، 5: 453
’’جس گھر میں بھی محمد نام کا شخص ہو اُس میں برکت پھیل جاتی ہے۔‘‘
5۔ اِمام حلبی ’’اِنسان العیون (1: 136)‘‘ میں روایت کرتے ہیں:
من کان له ذو بطن فاجمع أن یسمیه محمدًا رزقه الله غلامًا، ومن کان لا یعیش له ولد فجعل ﷲ علیه أن یسمی الولد المرزوق محمدا عاش.
اِسماعیل حقی، تفسیر روح البیان، 7: 184
’’جس کی بیوی حاملہ ہو اور وہ بچہ کا نام محمد رکھنے کا اِرادہ کر ے تو اللہ تعالیٰ اُسے بیٹا عطا کرے گا اور جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اِرادہ کرلے کہ وہ ہونے والے بچہ کا نام محمد رکھے گا تو اُس کا بچہ زندہ رہے گا۔‘‘
’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عِتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور نماز پڑھانے کا واقعہ درج ہے، جسے اَئمۂ حدیث نے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ حضرت محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، وَھُوَ مِنْ أَصحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، مِمَّنْ شَھِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَّهُ أَتَی رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ أَنْکَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا کَانَتِ الْأَمْطَارُ، سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَیْنِي وَبَیْنَھُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِي مَسْجِدَھُمْ فَأُصَلِّي بِھِمْ، وَوَدِدْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَّکَ تَأْتِیْنِي فَتُصَلِّيَ فِی بَیْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّی، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: (سَأَفْعَلُ إِنْ شَائَ اللهُ). قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَبُوبَکْرٍ حِیْنَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ یَجْلِسْ حَتَّی دَخَلَ البَیْتَ، ثُمَّ قَالَ: (أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَیْتِکَ). قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَی نَاحِیَۃٍ مِنَ الْبَیْتِ، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَکَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب: المساجد فی البیوت، 1: 164، رقم: 415
’’حضرت عتبانبن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں؟ جب بارش ہوتی ہے تو وہ نالہ جو میرے اور ان کے درمیان ہے، بہنے لگتا ہے جس کے باعث میں ان کی مسجد تک نہیں جاسکتا کہ انہیں نماز پڑھاؤں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِن شائَ اللہ میں کسی دن آؤں گا، حضرت عتبان رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ دوسرے دن صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دن چڑھنے کے بعد میرے گھر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسبِ معمول اجازت طلب فرمائی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے نہیں، فرمایا: تم کس جگہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر میں نماز پڑھوں۔ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف بنائی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی پھر سلام پھیرا۔‘‘
شارحِ ’’صحیح بخاری‘‘ امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کو آثارِ صالحین سے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وسؤالہ النّبیّ صلی الله علیه وآله وسلم أن یصلّي فی بیتہ لیتّخذہ مصلّی وإجابۃ النبيّ صلی الله علیه وآله وسلم إلی ذلک فھو حجّۃ فی التّبرّک بآثار الصّالحین.
عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 1: 569
’’حضرت عتبان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا کہ ان کے گھر تشریف لاکر نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے جائے نماز بنا لیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کی التجا قبول کرنا آثارِ صالحین سے تبرک کے ثبوت کے لئے بیّن دلیل ہے۔‘‘
ابنِ عبد البر ’’الموطأ‘‘ کی شرح ’’التمہید (6: 228)‘‘ میں لکھتے ہیں:
وفیه التبرّک بالمواضع التي صلّی فیھا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ووطئھا وقام علیها.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں ان مقامات سے حصولِ برکت کا ثبوت ہے جہاں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک قدم رکھے اور جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔‘‘
1۔ حضرت ابوجُحَیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي قُبَّۃٍ حَمْرَائَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَیْتُ بِـلَالاً أَخَذَ وَضُوْئَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَرَأَیْتُ النَّاسَ یَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْئَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَیْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ یُصِبْ مِنْهُ شَیْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ یَدِ صَاحِبِهِ … الحدیث.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ فی الثیاب، باب: الصلاۃ فی الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1: 147، رقم: 369
اس حدیث کو امام بخاری نے ’’الصحیح‘‘ کی کتاب المناقب (رقم: 3373) میں بھی بیان کیا ہے۔
’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی۔‘‘
مذکورہ حدیث کے تحت شارحِ ’’صحیح بخاری‘‘ حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
وفی الحدیث من الفوائد التماس البرکة مما لامسه الصالحون.
عسقلانی، فتح الباری، 1: 574
’’اس حدیثِ مبارکہ میں کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک حصولِ برکت کے لئے صالحین کے مس شدہ چیز کو ملنا ہے۔‘‘
2۔ عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
وَ إِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم کَادُوا یَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وَضُوْئِهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے۔‘‘
3۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم بِمَکَّۃَ وَ ھُوَ بِالْأَبْطَحِ فِیْ قُبَّۃٍ لَهُ حَمْرَآئَ مِنْ آدَمٍ قَالَ فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوْئِهِ فَمِنْ نَّآئِلٍ وَ نَاضِحٍ.
’’میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔‘‘
صحیح مسلم کے شارح امام نوویؒ اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
ففیہ التبرک بآثار الصالحین واستعمال فضل طہورھم وطعامھم وشرابھم ولباسھم.
نووی، شرح صحیح مسلم، 4: 219
’’پس اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی، ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی قسمت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کردیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرتؒ:
ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا
موجِ بحرِ سخاوت پہ لاکھوں سلام
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست و بے نوا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے۔ اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے:
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِآنِیَتِهِمْ فِیْهَا الْمَائُ، فَمَا یُؤْتَی بِإنَائٍ إِلَّا غَمَسَ یَدَهُ فِیْهَا، فَرُبَّمَا جَائُوْهُ فِی الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَهُ فِیْهَا.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح بھی ایسا ہی ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ٹھنڈے پانی والے برتنوں میں بھی ڈبو دیتے۔‘‘
امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں وہ ایمان افروز ہے جس سے ان کے اہلِ سنت و جماعت کے عقیدۂ راسخہ کا پتہ چلتا ہے:
باب قُربِ النَّبِیّ صلی الله علیه وآله وسلم مِنَ النَّاسِ وَ تَبَرُّکِهِم بِهِ.
مسلم، الصحیح، 4: 1812، رقم: 2324
’’لوگوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب اور برکت حاصل کرنا۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام نوویؒ لکھتے ہیں:
وفیه التّبرّک بآثار الصّالحین وبیان ما کانت الصّحابۃ علیه من التّبرّک بآثاره صلی الله علیه وآله وسلم وتبرّکهم بإدخال یده الکریمۃ فی الآنیۃ.
نووی، شرح صحیح مسلم، 15: 82
’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین سے تبرک کا بیان ہے اور اس چیز کا بیان کہ صحابہث کس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے برکت حاصل کرتے تھے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو برتن میں ڈبو کر اس سے تبرک کا بیان ہے۔‘‘
جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام قدم مبارک رکھ کر کعبہ تعمیر کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے ۔ سیدنا ابراہیمں کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر نرم ہوگیا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموںکی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اُونٹ تیز رفتار ہو گیا تھا ۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَدَعَا لَهُ، فَسَارَ سَیْرًا لَمْ یَسْرِ مِثْلَهُ.
’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، سو وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا سے جو فائدہ ملتا اسے خاص الفاظ برکت کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے کبھی بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذہنوں میں یہ بات نہ آتی تھی کہ برکت عطا کرنا تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ معاذ اللہ کہیں خلافِ توحید نہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے اس چیز کا برملا اظہار ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے فلاں فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے اس صحابی سے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا:
بِخَیْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ.
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اللہ علیک وسلم کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک، وضو کے مبارک پانی، لعابِ دہن، پسینہ مبارک سے اور جن جن چیزوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مس کیا ہوتا ان سے برکت حاصل کرتے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم أَتَی مِنًی فَأَتَی الْجَمْرَۃَ فَرَمَاھَا ثُمَّ أَتَی مَنْزِلَهُ بِمِنًی وَ نَحَرَ ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ خُذْ. وَ أَشَارَ إِلَی جَانِبِهِ الْأَیْمَنِ ثُمَّ الْأَیْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ یُعْطِیْهِ النَّاسَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب: بیان أن السنۃ یوم النحر، 2: 947، رقم: 1305
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منی میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے وہاں قربانی کی اور حجام سے سر مونڈنے کو کہا اور اسی کو دائیں جانب کی طرف اشارہ کیا پھر بائیں جانب اشارہ کیا پھر اپنے مبارک بال لوگوں کو عطا فرمائے۔‘‘
علامہ شوکانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
قولہ ثم جعل یعطیہ للناس فیہ مشروعیۃ التّبرّک بشعر أھل الفضل ونحوہ.
’’اس روایت میں صاحبِ فضل شخصیات کے بال اور اس طرح ان کی دیگر اشیاء سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
لَمَّا رَمَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم الْجَمْرَۃَ وَنَحَرَ نُسُکَهُ وَحَلَقَ، نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَیْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَیْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ. فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَاطَلْحَۃَ، فَقَالَ: اقْسِمْهُ بَیْنَ النَّاسِ.
’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا سو اس نے بال مبارک مونڈدیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ موئے مبارک عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا: یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا: یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘
امام ابنِ حجر عسقلانی نے اسی حدیث کو فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بحوالہ مسلم ذکر کرکے لکھا ہے: وفیہ التبرک بشعرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سے تبرک کا ثبوت ہے)۔
عسقلانی، فتح الباری، 1: 274
مستند احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے وقت اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے:
بِسم اللهِ ! تُرْبَۃُ أَرضِنَا، بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا، یُشفَی سَقِیْمُنا بِإذْنِ رَبِّنَا.
’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒاس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وانّما هذا من باب التّبرّک بأسماء الله تعالی وآثار رسولہ صلی الله علیه وآله وسلم.
عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، 10: 208
’’بیشک اس حدیث کا تعلق ان احادیثِ مبارکہ سے ہے جس میں اسمائِ الٰہی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔‘‘
امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے:
ثم أن الرقي والعزائم لها آثار عجیبة تتقاعد العقول.
عسقلانی، فتح الباری، 10: 208
’’اور بیشک دم اور اسمائِ مبارکہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘
مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرامث اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاهِ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ أبِی طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِیِّ إلَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم حِیْنَ وُلِدَ، وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِی عَبَائَۃٍ یَهْنَأُ بَعِیْرًا لَهُ فَقَالَ: هَلْ مَعَکَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِي فِیْهِ فَـلَاکَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَفَا الصَّبِيّ فَمَجَّهُ فِي فِیْهِ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ یَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ. وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللهِ.
’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں ان کو لے کر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے منہ میں ڈال کر چبایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کا منہ کھول کر اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا تو بچہ اسے چوسنے لگا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘
مذکورہ احادیث کے لیے امام مسلم نے عنوان باندھا ہے: باب اسْتِحْبَابِ تحْنِیْک الْمَوْلُوْدِ عِنْدَ وِلَادَتِہٖ وَحَمْلِهِ إِلَی صَالِح یُحَنِّکُهُ یعنی ’’بچے کو پیدائش کے وقت گھٹی دینے اور کسی صالح شخص کے پاس لے جا کر گھٹی دلوانے کا بیان۔‘‘ باب کے اس عنوان سے امام مسلم کا صحیح عقیدہ اور نظریہ معلوم ہو گیا کہ وہ صالحین سے تبرک کے قائل ہیں کیونکہ اس عنوان کے تحت اصلاً تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لا رہے ہیں۔ مگر جب عنوان قائم کیا تو عمومی رکھا اور صحیح عقیدے کی وضاحت بھی کر دی شارحینِ حدیث نے بھی اس حدیث سے آثارِ صالحین سے تبرک کا جواز ثابت کیا ہے۔
شارح مسلم امام نوویؒ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
وفی هذا الحدیث فوائد، منها: تحنیک المولود عند ولادته وھو سنۃ بالاجماع کما سبق. ومنها: أن یحنّکه صالح من رجل أو امرأۃ، ومنها التبرّک بآثار الصالحین وریقهم وکل شیء منهم.
نووی، شرح صحیح مسلم، 14: 124
’’اس حدیث سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ نومولود بچے کو ولادت کے بعد گھٹی دی جائے اور یہ مسئلہ اجماع سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی صالح مرد یا خاتون سے اس نومولود کو گھٹی دلوانی چاہیے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آثارِ صالحین، ان کے لعاب اور ان سے منسوب ہر چیز سے تبرک حاصل کرنا ثابت اور جائز ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ وہ اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہیں آرام فرمایا۔ جب وہ باہر سے آئیں تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے جو چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر ایک بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَقَالَ: مَا تَصْنَعِیْنَ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ؟ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ ! نَرْجُو بَرَکَتَهُ لِصِبْیَانِنَا، قَالَ: أَصَبْتِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا: اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ہم اس سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘
امام مسلم نے ان روایات کو جمع کرکے باب کا عنوان ہی باب طِیْبِ عَرَقِ النَّبِیِّ صلی الله علیه وآله وسلم والتَّبَرُّکِ بِہٖ (حضور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے مبارک پسینہ کی خوشبو اور اس سے تبرک) قائم کیا ہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ تبرک کے باب میں ان کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعینِ عظام کا تھا۔
1۔ ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا وصال فرما گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:
اغْسِلْنَھَا ثَــلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ إِنْ رَأَیْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَآئٍ وَ سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِی الْاٰخِرَۃِ کَافُوْرًا اَوْ شَیْئًا مِنْ کَافُوْرٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا اٰذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: أَشْعِرْنَھَا إِیَّاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ.
’’اس کو تین یا پانچ دفعہ یا اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخر میں کچھ کافور رکھ دینا۔ جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔ (وہ فرماتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک چادر عنایت فرمائی اور فرمایا: اس کو کفن کے نیچے پہنانا۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ کو بھی ائمۂ حدیث نے تبرک بالصالحین کی بنیاد قرار دیا ہے۔
(1) امام ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کو تبرکِ صالحین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وھو أصل في التّبرّک بآثار الصّالحین.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3: 29، 130
’’یہ حدیث آثارِ صالحین سے تبرک کے ثبوت میں اصل ہے ۔‘‘
(2) شارحِ ’’صحیح مسلم‘‘ امام نووی نے بھی اس حدیث سے تبرک کا استنباط کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
ففیہ التّبرّک بآثار الصّالحین ولباسھم.
نووی، شرح صحیح مسلم، 7: 3
’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثار ِصالحین اور ان کے استعمال شدہ کپڑوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
علامہ شوکانی نے بھی ابنِ حجر عسقلانی کے اِستنباط پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کے الفاظ کہ - وهو أصل فی التّبرّک بآثار الصّالحین کو نقل کیا ہے۔
شوکانی، نیل الأوطار، 4: 64
2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کو ملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا:
إِنِّی وَ اللهِ مَاسَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَھَا، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَکُوْنَ کَفَنِي. قَالَ سَهْلٌ: فَکَانَتْ کَفَنَهُ.
اسی روایت کو امام بخاری نے ’’الصحیح‘‘ کی کتاب البیوع (رقم: 1987)، کتاب اللباس (رقم: 5473) اور کتاب الأدب (رقم: 5689) میں بھی بیان کیا ہے۔
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘
اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی لکھا ہے:
فیہ التّبرّک بآثار الصّالحین.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3: 144
’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
3۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ - جو جانثار صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے - نے عرض کیا:
أَعْطِنِي قَمِیْصَکَ أُکَفِّنُهُ فِیْهِ وَصَلِّ عَلَیْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم قَمِیْصَهُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الکفن فی القمیص، 1: 427، رقم: 1210
’’مجھے اپنی قمیص مبارک عطا فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اِس میں کفناؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی نمازِ جنازہ پڑھیں اور اُس کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی قمیص عطا فرما دی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اس سچے صحابی کی دلجوئی کے لئے ان کے منافق باپ کو اپنی قمیص عطا فرمانا، تبرک کے ثبوت کے لئے اصل ہے، علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے یہی استنباط کیا ہے اور امام ابنِ حجر عسقلانی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے شرح بخاری میں اسے نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
واستنبط منه الإسماعیلی جواز طلب آثار أھل الخیر منھم للتبرک بھا وإن کان السائل غنیًا.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3: 139
’’علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے صالحین سے ان کے آثارِ کو برائے تبرک طلب کرنے کا جواز اخذ کیا ہے خواہ مانگنے والا مالدار کیوں نہ ہو۔‘‘
کتبِ صحاح میں سے سنن أبو داؤد اور دیگر کتبِ احادیث میں مسواک دھونے کے حوالے سے روایت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ نَبِیُّ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَسْتَاکُ فَیُعْطِیْنِي السِّوَاکَ لِاَغْسِلَهُ فَأَبْدَأُ بِهِ فَأَسْتَاکُ ثُمَّ أَغْسِلُهُ وَأَدْفَعُهُ إِلَیْهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک کیا کرتے تھے سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے مسواک دھونے کے لئے عنایت فرماتے تو میں دھونے سے پہلے اسی سے (تبرکاً) مسواک کرتی پھر اسے دھوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتی۔‘‘
اس روایت میں بھی تبرک کا واضح ثبوت ہے۔ شارحینِ حدیث نے مذکورہ روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل حصولِ برکت کے لئے تھا۔
علامہ محمد شمس الحق عظیم آبادی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
فَأَبْدَأُ بِهِ: أی باستعمالہ فی فمي قبل الغسل لیصل برکۃ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم إليّ. والحدیث فیہ ثبوت التبرک بآثار الصالحین.
عظیم آبادی، عون المعبود، 1: 52
’’فأَبْدَأُ بهِ کا معنی یہ ہے کہ میں دھونے سے پہلے اسے استعمال کرتی تاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت مجھے حاصل ہو۔ اس حدیث میں آثارِ صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
اَسلاف نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مبارک کے نقشے کی بہت سی برکات بیان کی ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے رسالے ’’نیل الشفائ‘‘ میں نقشہ نعلِ مبارک کے برکات اور خواص تفصیل سے درج کیے ہیں وہ خود اپنی تصنیف ’نشر الطیب‘ میں لکھتے ہیں:
’’جب صرف ان الفاظ میں جو آپ کے معنٰی و مدح کی صورت و مثال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان الفاظ پر دال ہیں اور اس ملبوس میں جو آپ کی نعال ہیں اور پھر ان نقوش میں جو ان نعال کی تمثال ہیں(میں اس قدر برکت ہے) سو خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مجمع الکمالات و اسماء جامع البرکات سے توسل حاصل کرنا اور اس کے وسیلے سے دعا کرنے سے کیا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
نامِ احمد چوں چنیں یاری کند
تاکہ نورش چوں مددگاری کند
نام احمد چوں حصارے شد حصین
تاچہ باشد ذاتِ آں رُوح الامین
اشرف علی تھانوی، نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی الله علیه وآله وسلم: 300
معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور پہنچتا رہے گا۔
1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مبارک دہنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصولِ خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا جیسا کہ حضرت عبد الرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم دَخَلَ عَلَیْهَا، وَ عِنْدَهَا قِرْبَۃٌ مُعَلَّقَۃٌ فَشَربَ مِنْھَا وَھُوَ قَائِمٌ، فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَۃِ تَبْتَغِي بَرَکَۃَ مَوْضِعَ فِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم.
امام ابنِ ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے، جب کہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے ہاں تشریف لائے تووہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے کھڑے پانی نوش فرما لیا تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے مشکیزے کا منہ حصولِ برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
2۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کا معمول بیان فرماتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم دَخَلَ عَلَی أُمِّ سُلَیْمٍ، وَ فِی الْبَیْتِ قِرْبَۃٌ مَعَلَّقَۃٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِیْھَا وَ ھُوَ قَائِمٌ، قَالَ: فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ فَمَ الْقِرْبَۃِ فَھُوَ عِنْدَناَ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا نے (تبرکاً) اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
ان دونوں صحابیات نے مشکیزے کے ٹکڑوں کو اس لئے محفوظ کیا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھاجس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے یعنی محض دہنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث بن گئے۔
درجِ بالا بارہ موضوعات کے تحت کثیر احادیثِ مبارکہ سے درج ذیل اہم علمی اور اعتقادی نکات ثابت ہوئے:
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارِ مبارک سے برکت حاصل کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول رہا ہے۔
2۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدِ مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بلکہ برقرار رکھا لہٰذا تبرک کے مشروع ہونے پر یہ ساری احادیث دلائلِ قاطعہ ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے منع فرماتے اور اس سے روک دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا کوئی بھی قول یا فعل صادر نہیں ہوا جیسا کہ اخبارِ صحیحہ اور اجماعِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جواز ثابت ہوا ہے۔
3۔ یہ تمام رِوایات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قوتِ ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی شدید محبت، قربت، معیت، اطاعت اور متابعت پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی جس شخص کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایسا شدید حبّی اور قلبی تعلق ہوگا وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثارِ مبارکہ کی تعظیم بجا لائے گا اور ان سے فیض یاب ہوگا۔
4۔ ان تمام احادیث کی شرح اور توضیح کرتے ہوئے جلیل القدر ائمهِ حدیث امام مسلم، امام ابنِ عبدالبر، امام نووی، حافظ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ تعالٰی نے اولیاء اور صالحین سے تبرک و حصولِ برکت کرنے کا جواز ثابت کیا ہے جو سلف صالحین کے تبرک پر عقیدہ صحیحہ کی غماز ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved